مندرجات کا رخ کریں

"شام میں حضرت زینب کا خطبہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

عدد انگلیسی
(عدد انگلیسی)
سطر 1: سطر 1:
'''شام میں حضرت زینب کا خطبہ''' یا '''دربار یزید میں حضرت زینب کا خطبہ'''، اس خطبے کو کہا جاتا ہے جسے [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|حضرت زینب (س)]] نے [[واقعہ کربلا]] میں [[امام حسین (ع)]] اور آپ کے باوفا اصحاب کی [[شہادت]] کے بعد جب [[اسیران کربلا]] کو شام میں [[یزید بن معاویہ|یزید]] کے دربار میں میں لے جایا گیا تو اس وقت ارشاد فرمایا۔ دربار یزید میں دیئے گئے حضرت زینب اور [[امام سجاد (ع)]] کے خطبات نے یزید کے درباریوں پر اس قدر اثر چھوڑا کہ اس کے دربار میں ہی [[اہل بیت]] (ع) کی حمایت ہونے لگی۔
'''شام میں حضرت زینب کا خطبہ''' یا '''دربار یزید میں حضرت زینب کا خطبہ'''، اس خطبے کو کہا جاتا ہے جسے [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|حضرت زینب (س)]] نے [[واقعہ کربلا]] کے بعد [[یزید بن معاویہ|یزید کے دربار]] ارشاد فرمایا۔ یہ خطبہ اثر گزاری اور فصاحت و بلاغت کی وجہ سے ہمیشہ محققین کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ حضرت زینب(س) نے اس خطبہ میں صریح اور دوٹوک الفاظ میں [[خلافت بنی‌ امیہ|بنی‌ اُمَیّہ کی حکومت]] کے چہرے سے اسلام کا نقاب اتار دیا۔


اس خطبے میں جن موضوعات کی طرف اشارہ کیا گیا وہ یہ ہیں: پروردگار عالم کی حمد و ثنا اور [[پیغمبر اسلام(ص)]] پر درود و سلام، کفار کو مہلت دینے کی الہی سنت، [[یزید]] کا پست کردار، یزیدیوں پر لعنت، ظالموں اور ستمگاروں کی عاقبت، خداوند کی بارگاہ میں شکایت، اہل بیت کی جاودانی۔
حضرت زینب(س) نے اس خطبے میں [[یزید بن معاویہ|یزید]] اور اس کے کارندوں کو ستمکار اور [[عذاب الہی|عذاب]] کا مستحق قرار دیا اور ان کی ظاہری فتح کو خدا کی طرف سے مہلت دینے کی سنت قرار دی۔ زینب(س) نے اپنے کلام کو منطقی دلائل کے ساتھ بیان کیا اور سماجی ذہنیت کو یزید اور بنی امیہ کی حقیقت سے آگاہ ہونے کا زمینہ فراہم کیا۔ اسی طرح [[قرآن]] کی بعض آیات سے استناد کرنے کے ذریعے آپ بعض لوگوں کو حق کی طرف راہنمائی کرنے اور حکومت وقت کی طرف سے [[اسیران کربلا]] کے اوپر لگائے گئے خارجی اور مرتد ہونے کے الزام کو مسترد کرنے میں کامیاب ہوئی۔


اس خطبے کو [[قیام امام حسینؑ]] کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے کیونکہ حضرت زینب‌(س) نے اس خطبے کے ذریعے واقعہ کربلا کو تحریف سے بچایا۔ مختلف فارسی اشعار میں [[امام حسین علیہ‌السلام|امام حسینؑ]] کے قیام کی تکمیل میں حضرت زینب کے کردار کی طرف خاص توجہ دی گئی ہے۔ شام میں حضرت زینب کے خطبے کے بارے میں مختلف تحقیقی مقالات لکھے گئے ہیں من جملہ ان میں [[علی کریمی جہرمی]] کے قلم سے «شرح خطبہ حضرت زینب(س) در شام» کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔
==جایگاہ خطبہ در تاریخ اسلام==
{{سوگواری محرم}}<!---
خطبۀ حضرت زینب در شام از فصیح‌ترین و کوبندہ‌ترین خطبہ‌ہای تاریخ اسلام بہ شمار آمدہ است۔<ref>داوودی، و مہدی رستم‌نژاد، عاشورا، ریشہ‌ہا، انگیزہ‌ہا، رویدادہا، پیامدہا، 1386ش، ص592۔</ref> [[سید عبدالکریم ہاشمی‌نژاد]]، پدید‌آورندۀ [[درسی کہ حسین بہ انسانہا آموخت (کتاب)|درسی کہ حسین بہ انسان‌ہا آموخت]]، چنین خطابۀ تحقیرکنندہ از یک زنِ اسیر در مقابل بزرگترین مرجع قدرت آن دوران را بُہت‌انگیز دانستہ است۔<ref>ہاشمی‌نژاد، درسی کہ حسین بہ انسانہا آموخت، 1382ش، ص220-221۔</ref> محققان این خطبہ را کامل‌کنندۀ [[قیام امام حسینؑ]] در کربلا دانستہ‌اند۔<ref>روشنفکر، و دانش محمدی، «تحلیل گفتمان ادبی خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)»، ص134۔</ref> کورْت فریشْلِر، مؤلف [[امام حسینؑ و ایران (کتاب)|کتاب امام حسینؑ و ایران]]، با تاریخی خواندن این خطبہ، آن را بسیار بااہمیت دانستہ است۔<ref>فریشلر، امام حسین و ایران، 1366ش، ص517۔</ref> خطبہ حضرت زینب در شام بہ دلیل اثرگذاری، فصاحت و بلاغت، پیوستہ مورد توجہ پژوہش‌گران است۔<ref>برای نمونہ نگاہ کنید بہ مقالہ‌ہای: رنجبرحسینی، و مریم اسلامی‌پور، «تحلیل اقتباس‌ہای قرآنی خطبہ حضرت زینب(س) در شام»؛ رضایی، و محدثہ دلارام‌نژاد، «تحلیل فرانقش اندیشگانی خطبہ حضرت زینب(س) بر اساس دستور نقش گرای ہلیدی»؛ یاراحمدی، و زہرا خیراللہی، «معارف قرآنی در خطبہ حضرت زینب(س)»؛ خرسندی، و دیگران، «تحلیل بلاغی خطبہ حضرت زینب(س)»؛ نصراوی، «درآمدی بر گفتمان کاوی تاریخی، مطالعۀ موردی خطبہ حضرت زینب(س) در شام»؛ روشنفکر، و دانش محمدی، «تحلیل گفتمان ادبی خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)»۔</ref>
این خطبہ بہ جہت مقابلہ با تحریف واقعہ کربلا خواندہ شدہ است؛ زیرا [[یزید]] می‌خواست برای مردم، واقعہ کربلا را عذابی الہی بر [[امام حسین علیہ‌السلام|امام حسینؑ]] معرفی کند؛<ref>روشنفکر، و دانش محمدی، «تحلیل گفتمان ادبی خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)»، ص134۔</ref> اما [[حضرت زینب سلام اللہ علیہا|حضرت زینب(س)]] در این خطبہ، یزید را عامل اصلی [[واقعہ کربلا]] معرفی می‌کند۔<ref>سید ابن‌طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، 1348ش، ص184۔</ref> سخنان صریح و بی‌پردہ زینب(س) در مقابل یزید را نشانہ شجاعت بسیار او دانستہ‌اند؛ چرا کہ تا آن روز کسی جرأت نکردہ بود، ظلم و فساد یزید را در حضور او بہ مردم بازگو کند۔<ref>فریشلر، امام حسین و ایران، 1366ش، ص520۔</ref> [[سید علی حسینی خامنہ‌ای|آیت‌اللہ خامنہ‌ای]]، رہبر جمہوری اسلامی ایران، بر این باور است کہ خطبہ حضرت زینب در کوفہ و شام، چنان ہنرمندانہ بیان شدہ کہ حتی دشمنان ہم نمی‌توانند آن را نادیدہ بگیرند۔<ref>حسینی خامنہ‌ای، [https://farsi۔khamenei۔ir/speech-content?id=3309 ‌‌بیانات در دیدار جمعی از پیشکسوتان جہاد و شہادت و خاطرہ‌گویان دفتر ادبیات و ہنر مقاومت‌]۔</ref> بہ گفتہ کورْت فریشْلِر، با گذشت قرن‌ہا از ایراد آن خطبہ، باز ہم مورّخان از خطبہ شجاعانہ حضرت زینب حیرت می‌کنند۔<ref>فریشلر، امام حسین و ایران، 1366ش، ص520۔</ref>
حضرت زینب این خطبہ را ہنگامی خواند کہ یزید بہ [[مقام رأس الحسین|سر بریدہ امام حسین]] بی‌احترامی کرد<ref>ابن‌طیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص34۔</ref> و مردی شامی از یزید خواست، [[فاطمہ دختر امام حسینؑ]] را بہ [[کنیز|کنیزی]] بہ او بدہد۔<ref>ابن‌نما حلّی، مثیر الأحزان، 1406ق، ص100-101۔</ref> مطابق گزارش‌ہای تاریخی، ہنگامی کہ [[اسیران کربلا]] را بہ [[شام]] بردند، یزید مجلسی تشکیل داد۔<ref>سید ابن‌طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، 1348ش، ص178۔</ref> سر امام حسین را در طشتی قرار دادند و اسیران را وارد [[روضہ مجلس یزید|مجلس یزید]] کردند۔<ref>ابن‌طیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص34۔</ref> یزید با چوبی کہ در دست داشت، بر دہان امام حسینؑ ضربہ می‌زد۔<ref>ابومخنف، وقعۃ الطف، 1417ق، ص269۔</ref> او با خواندن شعری، [[وحی]] و [[نبوت خاصہ|نبوُّت پیامبر]] را انکار کردہ،<ref>فتّال نیشابوری، روضۃ الواعظین، 1375ش، ص191۔</ref> اعلام داشت واقعہ کربلا را بہ خونخواہی اجدادِ کافر خود کہ در [[غزوہ بدر|جنگ بدر]] بہ دست [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیامبرؐ]] و [[امام علی علیہ‌السلام|حضرت علیؑ]] کشتہ شدند، انجام دادہ است۔<ref>ابن‌طیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص34۔</ref>
{{شعر
| جداکنندہ = \\
| متن =
لَیتَ أَشْیاخی بِبَدْر شَہِدُوا\\جَزَعَ الْخَزْرَجِ مِنْ وَقْعِ الاَْسَلْ
فَأَہَلُّوا وَ اسْتَہَلُّوا فَرَحاً\\ثُمَّ قالُوا یایزیدُ لاتَشَلْ<ref>ابن‌طیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص34۔</ref>
لَعِبَتْ ہَاشِمُ بِالمُلْکِ فَلا\\خَبَرٌ جَاءَ وَ لَا وَحْیٌ نَزَل<ref>فتّال نیشابوری، روضۃ الواعظین، 1375ش، ص191۔</ref>‏}}
{{شعر
| جداکنندہ = \\
| متن =
کاش بزرگان من در جنگ بدر امروز می‌دیدند کہ\\قبیلہ خَزْرَج چگونہ از ضربات نیزہ بہ زاری آمدہ است۔
در آن حال، از شادی فریاد می‌زدند\\و می‌گفتند:‌ ای یزید! دستت درد نکند!
ہاشم با سلطنت بازی کرد\\پس نہ خبری آمدہ و نہ وحیی نازل شدہ است!}}
از منابع شیعہ، کتاب‌ہای [[الاحتجاج علی اہل اللجاج (کتاب)|الإحْتِجاجُ عَلی أہْلِ اللّجاج]]<ref>طبرسی، الاحتجاج، 1403ق، ج2، ص308-310۔</ref>، [[مثیر الاحزان و منیر سبل الاشجان (کتاب)|مُثیرُ الأحْزان]]،<ref>ابن‌نما حلّی، مثیر الأحزان، 1406ق، ص101-102۔</ref>[[اللہوف علی قتلی الطفوف (کتاب)|أللُّہوف عَلى قَتْلَى الطُّفوف]]<ref>سید ابن‌طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، 1348ش، ص181-186۔</ref> و از منابع اہل‌سنت، [[بلاغات النساء (کتاب)|بلاغاتُ النّساء]]<ref>ابن‌طیفور، بلاغات النساء، الشریف الرضی، ص35-36۔</ref> این خطبہ را نقل کردہ‌اند۔
==محتوا==
بہ گفتہ برخی محققان، حضرت زینب بر خلاف خطبہ عاطفی خود در کوفہ، در خطبہ شام بیشتر از مطالب برہانی و استدلالی بہرہ گرفت و کمتر بہ مطالب عاطفی پرداخت۔<ref>روشنفکر، و دانش محمدی، «تحلیل گفتمان ادبی خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)»، ص134۔</ref> محتوای خطبہ حضرت زینب(س) را مشتمل بر ہفت محور دانستہ‌اند:
{{جعبہ نقل قول| عنوان =| نقل‌قول = بخشی از خطبہ حضرت زینب(س) در شام:{{سخ}}{{حدیث|«فَكِدْ كَيْدَكَ وَ اسْعَ سَعْيَكَ وَ نَاصِبْ جُہْدَكَ فَوَ اللَّہِ لَا تَمْحُو ذِكْرَنَا وَ لَا تُمِيتُ وَحْيَنَا وَ لَا تُدْرِكُ أَمَدَنَا وَ لَا تَرْحَضُ عَنْكَ عَارَہَا‏»۔‏|ترجمہ=ای یزید، ہر حیلہ‌ای کہ می‌خواہی بہ کار گیر، و ہر چہ می‌توانی تلاش کن، سوگند بہ خدا کہ ہرگز نمی‌توانی، یاد و نام ما را محو کنی و وحی ما را بمیرانی، تو بہ غایت ما نخواہی رسید و این عار و ننگ از تو زدودہ نخواہد شد۔}} |تاریخ بایگانی| منبع = <small>سید ابن‌طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، 1348ش، ص185۔</small>| تراز = چپ| عرض = 230px| اندازہ خط = 12px|رنگ پس‌زمینہ =#ffeebb| گیومہ نقل‌قول =| تراز منبع = چپ}}
#درہم شکستن غرور یزید با استدلال بہ آیات قرآن؛
#مقایسۀ گذتش کریمانہ پیامبرؐ از نیاکان یزید در [[فتح مکہ]]، با عمل یزید در بہ اسارت گرفتن [[اہل‌بیتؑ|خاندان پیامبر]]؛
#یادآوری سخنان کفرآمیز یزید و تأکید بر ایمان نداشتن او؛
#تأکید بر مقام والای شہیدان، خصوصاً شہیدان خاندان پیامبرؐ؛
#اشارہ بہ حضور یزید در محکمہ عدل الہی در قیامت؛
#تحقیر یزید با نالایق دانستن یزید برای ہم‌سخن شدن؛
#شکرگزاری نعمت‌ہای بسیار خدا بہ سبب ارزانی‌داشتن رحمت، کرامت و شہادت بہ خاندان پیامبرؐ۔<ref>داوودی، و مہدی رستم‌نژاد، عاشورا، ریشہ‌ہا، انگیزہ‌ہا، رویدادہا، پیامدہا، 1386ش، ص592-593۔</ref>
حضرت زینب در این خطبہ بہ آیات متعددی استناد کردہ است؛ چرا کہ می‌خواست با استفادہ از گفتمان مشترک خود با مردم شام (یعنی [[قرآن]])، از طرفی آنہا را ہدایت کند و از طرفی ادعای حکومت وقت کہ اہل‌بیتؑ را [[مرتد|خارجی]] معرفی کردہ بودند، از اہل‌بیت بزداید۔<ref>خانی‌مقدم، «چرایی تجلی قرآن در خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)، اہداف و نتایج»، ص70-72۔</ref> حضرت زینب در این خطبہ با استناد بہ [[آیہ 10 سورہ روم]]، بی‌احترامی کردن یزید بہ آیات الہی را نتیجۀ گناہانِ بسیار او می‌داند۔<ref>روشنفکر، و دانش محمدی، «تحلیل گفتمان ادبی خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)»، ص142۔</ref> وی در ادامہ با تکیہ بر [[آیہ 178 سورہ آل‌عمران]]، پیروزی ظاہری یزید در جنگ را بہ جہت [[سنت املا|سُنَّت اِملای خدا]] برمی‌شمارد۔<ref>روشنفکر، و دانش محمدی، «تحلیل گفتمان ادبی خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)»، ص142۔</ref> زینب(س) در این خطبہ با استناد بہ آیات مختلفی از قرآن، یزید و حامیان او را بہ سبب انجام واقعہ کربلا، ستمکار، مستحق خواری در دنیا و [[عذاب الہی|عذاب]] در [[آخرت]] می‌داند۔<ref>رنجبرحسینی، و مریم اسلامی‌پور، «تحلیل اقتباس‌ہای قرآنی خطبہ حضرت زینب(س) در شام»، ص24۔</ref>
حضرت زینب با مخاطب قراردادن یزید با تعبیرِ «[[طلقاء|یا ابن‌َالطُلَقاء]]» (یعنی: ای فرزند رہاشدگان) بخشش کریمانہ پیامبرؐ از نیاکان یزید در [[فتح مکہ]] را، با عمل یزید در بہ اسارت‌گرفتن خاندان پیامبر مقایسہ می‌کند۔<ref>نگاہ کنید بہ: سید ابن‌طاووس، اللہوف علی قتلی الطفوف، 1348ش، ص182۔</ref> بہ گفتہ [[لطف‌اللہ صافی گلپایگانی]]، از مراجع تقلید شیعہ، حضرت زینب در بخش‌ہای پایانی این خطبہ، این [[علم غیب|خبر غیبی]] را بیان می‌کند، کہ یاد اہل‌بیتؑ ہیچگاہ فراموش نخواہد شد۔<ref>صافی گلپایگانی، حسینؑ شہید آگاہ، 1366ش، ص385-386۔</ref>
==دستاوردہای خطبہ==
بہ گفتہ پژوہشگران تاریخی، خطبہ حضرت زینب در شام، نتایج ذیل را بہ دنبال داشتہ است:
*متزلزل شدن [[خلافت بنی‌امیہ|خلافت اُمَوی]]۔ افرادی مانند [[فضل بن عباس بن ربیعہ|فَضْل بنِ عباس رَبیعہ]] با شنیدن این خطبہ در مجلس یزید، بہ [[خون‌خواہی امام حسینؑ]] قیام کردند؛<ref>فریشلر، امام حسین و ایران، 1366ش، ص523-524۔</ref>
*معرفی‌شدن حکومت بنی‌امیہ بہ عنوان شکست‌خوردگان واقعہ کربلا با اینکہ آنان خود را پیروز جنگ می‌دانستند؛<ref>صراوی، «درآمدی بر گفتمان کاوی تاریخی، مطالعۀ موردی خطبہ حضرت زینب(س) در شام»، ص87۔</ref>
*از بین رفتن گفتمان حکومت وقت کہ اسیران کربلا را [[مرتد|خارجی]] می‌خواند؛<ref>صراوی، «درآمدی بر گفتمان کاوی تاریخی، مطالعۀ موردی خطبہ حضرت زینب(س) در شام»، ص88۔</ref>
*فراہم‌آمدن زمینہ فکری جامعہ برای آگاہ شدن از باطل‌بودن حکومت یزید؛<ref>ہاشمی‌نژاد، درسی کہ حسینؑ بہ انسانہا آموخت، 1382ش، ص221۔</ref>
*آشکارشدن شخصیت منافقانہ یزید و اطرافیان او برای مردم شام۔<ref>خانی‌مقدم، «چرایی تجلی قرآن در خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)، اہداف و نتایج»، ص82۔</ref>
==تأثیر در ادبیات==
در [[ادبیات عاشورایی]] بہ نقش حضرت زینب بہ عنوان پیام‌آور واقعہ کربلا توجہ شدہ است۔<ref>حیدری، و دیگران، «بازخوانی جلوہ‌ہای مقاومت در خطبہ‌ہای حضرت زینب(س) و شعر عاشورایی»، ص20۔</ref> اگرچہ اشعار مربوط بہ حضرت زینب پیش‌تر بہ ترسیم چہرہ‌ای غمزدہ و پیوستہ‌گریان می‌پرداخت، اما در ادامہ با تأثیرپذیری از خطبہ‌ہای وی، از زینب(س) چہرہ‌ای سلحشور،‌ مقاوم و مبارزاتی ارائہ شد۔<ref>حیدری، و دیگران، «بازخوانی جلوہ‌ہای مقاومت در خطبہ‌ہای حضرت زینب(س) و شعر عاشورایی»، ص20۔</ref> نذرحسین جہاندیر، شاعر پاکستانی، این خطبہ را در قالب 120 بیت بہ نظم درآوردہ است۔<ref>امین، پرتویی از تاریخ تشیع، 1385ش، ص106۔</ref> [[سید جعفر شہیدی]]، تاریخ‌پژوہ شیعہ، معتقد است، اگر خطبۀ حضرت زینب در شام و کوفہ نبود، عظمت واقعہ عاشورا برای بسیاری از افراد معلوم نمی‌شد۔<ref>شہیدی، «اگر زینب نبود عظمت عاشورا جاودانہ نمی‌شد»، ص14۔</ref> این معنا در قالب شعری ذیل بازآفرینی شدہ است:
{{شعر
| عنوان = چشمۀ فریاد
| شاعر = قادر طہماسبی (فرید)
| قالب = غزل
|پلکانی = 1
| متن =
سِرّ نِیْ در نِیْنَوا می‌ماند اگر زینب نبود\\کربلا در کربلا می‌ماند اگر زینب نبود
چہرۀ سرخ حقیقت بعد از آن توفان رنگ\\پشت ابری از ریا می‌ماند اگر زینب نبود
چشمہ فریاد مظلومیت لب‌تشنگان\\در کویر تفتہ جا می‌ماند اگر زینب نبود
زخمہ زخمی‌ترین فریاد در چنگ سکوت\\از طراز نغمہ وا می‌ماند اگر زینب نبود
در طلوع داغ اصغر استخوان اشک سرخ\\در گلوی چشم‌ہا می‌ماند اگر زینب نبود
ذوالجناح دادخواہی بی سوار و بی لگام\\در بیابان‌ہا رہا می‌ماند اگر زینب نبود
در عبور بستر تاریخ، سیل انقلاب\\پشت کوہ فتنہ جا می‌ماند اگر زینب نبود<ref>مجاہدی، کاروان شعر عاشورا، 1386ش، ص623۔</ref>
}}
==تک‌نگاری==
[[پروندہ:شرح خطبہ حضرت زینب(س) در شام۔jpg|بندانگشتی|کتاب شرح خطبہ حضرت زینب(س) در شام، اثر [[علی کریمی جہرمی]]]]
دربارہ خطبہ حضرت زینب در شام، پژوہش‌ہای مختلفی با رویکرد‌ہای ادبی، اجتماعی، تاریخی و روش‌شناسانہ نوشتہ شدہ است۔<ref>رنجبرحسینی، و مریم اسلامی‌پور، «تحلیل اقتباس‌ہای قرآنی خطبہ حضرت زینب(س) در شام»، ص8۔</ref> برخی از کتاب‌ہایی کہ در شرح این خطبہ نوشتہ شدہ، عبارتند از:
*نگاہی بہ خطبہ‌ہای حضرت زینب(س) در کوفہ و شام، اثر عبدالکریم پاک‌نیا؛ مباحث این کتاب در چہار فصل تنظیم شدہ است کہ فصل سوم آن بہ بررسی سخنان حضرت زینب(س) در شام و پیامدہای آن اختصاص دارد۔<ref>پاک‌نیا، نگاہی بہ خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)، 1389ش، صفحہ فہرست کتاب۔</ref> این کتاب در سال 1389ش، بہ کوشش انتشارات فرہنگ اہل‌بیتؑ در 130 صفحہ منتشر شد۔<ref>پاک‌نیا، نگاہی بہ خطبہ‌ہای حضرت زینب(س)، 1389ش، صفحہ شناسنامہ کتاب۔</ref>
*شرح خطبہ حضرت زینب(س) در شام، تألیف [[علی کریمی جہرمی]]؛ انتشارات بوستان کتاب قم، این کتاب را برای بار دوم در سال 1394ش منتشر کردہ است۔<ref>کریمی جہرمی، شرح خطبہ حضرت زینب(س)، 1394ش، صفحہ شناسنامہ کتاب۔</ref>
*شرح خطبۃ السیدۃ زینب(س) فی مجلس یزید بن معاویہ، نوشتۀ رجب بن حسن؛ این کتاب را انتشارات میراث ماندگار در سال 1400ش منتشر کردہ است۔<ref>بن‌حسن، شرح خطبۃ السیدۃ زینب(س)، 1400ش، صفحہ شناسنامہ کتاب۔</ref>
{{خالی بماند}}
-->
==دربار یزید==
==دربار یزید==
[[روز عاشورا]] کو [[امام حسین(ع)]] کی شہادت کے بعد آپ کی [[اہل بیت]] کو دوسرے بازماندگان کے ساتھ اسیر کیا گیا۔ [[اسیران کربلا]] کے اس قافلے کو [[کوفہ]] میں دربار [[ابن زیاد]] اور کوفہ و [[شام]] کے بازاروں سے لے کر [[یزید]] کے دربار تک لے جایا گیا۔ جب شام کے سرکردگان جنہیں یزید نے جنگ میں اپنی کامیابی پر جشن منانے کیلئے دعوت دی تھی، یزید کے محل میں پہنچے تو اس نے اسیران کربلا کو [[شہدائے کربلا]] کے کٹے ہوئے سروں کے ساتھ اپنی محفل میں لانے کا حکم دیا۔<ref> جعفری، سیدحسین محمد، تشیع در مسیر تاریخ، مترجم سیدمحمدتقی آیت اللہی، چاپ۱۰، ص۸۰.</ref>
[[روز عاشورا]] کو [[امام حسینؑ]] کی شہادت کے بعد آپ کی [[اہل بیت]] کو دوسرے بازماندگان کے ساتھ اسیر کیا گیا۔ [[اسیران کربلا]] کے اس قافلے کو [[کوفہ]] میں دربار [[ابن زیاد]] اور کوفہ و [[شام]] کے بازاروں سے لے کر [[یزید]] کے دربار تک لے جایا گیا۔ جب شام کے سرکردگان جنہیں یزید نے جنگ میں اپنی کامیابی پر جشن منانے کیلئے دعوت دی تھی، یزید کے محل میں پہنچے تو اس نے اسیران کربلا کو [[شہدائے کربلا]] کے کٹے ہوئے سروں کے ساتھ اپنی محفل میں لانے کا حکم دیا۔<ref> جعفری، سیدحسین محمد، تشیع در مسیر تاریخ، مترجم سیدمحمدتقی آیت اللہی، چاپ10، ص80۔</ref>


جب یزید کے دربار میں [[زینب کبری]](س) کی نظر اپنے بھائی [[امام حسین(ع)]] کے کٹے ہوئے سر پر پڑی تو ایک نہایت ہی افسردہ آواز میں فریاد بلند کی:
جب یزید کے دربار میں [[زینب کبری]](س) کی نظر اپنے بھائی [[امام حسینؑ]] کے کٹے ہوئے سر پر پڑی تو ایک نہایت ہی افسردہ آواز میں فریاد بلند کی:
:::اے حسین‌ اے محبوب رسول خدا،‌اے فرزند [[مکہ]] و [[منا]]،‌ اے فرزند [[فاطمہ زہرا(س)]] سیدۃ نساء عالمین اور اے فرزند بنت مصطفی(ص)۔
:::اے حسین‌ اے محبوب رسول خدا،‌اے فرزند [[مکہ]] و [[منا]]،‌ اے فرزند [[فاطمہ زہرا(س)]] سیدۃ نساء عالمین اور اے فرزند بنت مصطفیؐ۔


اس واقعے کے راوی نقل کرتے ہیں: خدا کی قسم حضرت زینب(س) کی اس فریاد کے ساتھ یزید کے دربار میں موجود تمام لوگوں نے رونا شروع کیا اس موقع پر یزید بھی خاموش بیٹھا تھا!!
اس واقعے کے راوی نقل کرتے ہیں: خدا کی قسم حضرت زینب(س) کی اس فریاد کے ساتھ یزید کے دربار میں موجود تمام لوگوں نے رونا شروع کیا اس موقع پر یزید بھی خاموش بیٹھا تھا!!


یزید نے چھڑی لانے کا حکم دیا پھر اس کے ساتھ امام حسین(ع) کے مبارک ہونٹوں کے ساتھ کھیلنا شروع کیا۔ "ابو برزہ اسلمی" (جو کہ پیغمبر اکرم(ص) کے صحابہ میں سے تھا، وہ بھی یزید کے دربار میں حاضر تھا) نے یزید سے مخاطب ہو کر کہا:‌اے یزید! آیا اس چھڑی کے ساتھ فاطمہ کے نور نظر، حسین(ع) کے ہونٹوں سے کھیلتے ہو؟! میں نے اپنی آنکھوں سے پیغمبر اکرم(ص) کو دیکھا جو حسین(ع) اور اس کے بھائی حسن(ع) کے ہونٹوں کا بوسہ لیتے ہوئے فرما رہے تھے: "آپ دونوں جنت کے حوانوں کے سردار ہیں خدا تمہیں شہید کرنے والے کو ہلاک کرے اور اس پر لعنت بھیجے اور اس کا ٹھکانہ جہنم قرار دے جو بہت بری جگہ ہے۔
یزید نے چھڑی لانے کا حکم دیا پھر اس کے ساتھ امام حسینؑ کے مبارک ہونٹوں کے ساتھ کھیلنا شروع کیا۔ "ابو برزہ اسلمی" (جو کہ پیغمبر اکرمؐ کے صحابہ میں سے تھا، وہ بھی یزید کے دربار میں حاضر تھا) نے یزید سے مخاطب ہو کر کہا:‌اے یزید! آیا اس چھڑی کے ساتھ فاطمہ کے نور نظر، حسینؑ کے ہونٹوں سے کھیلتے ہو؟! میں نے اپنی آنکھوں سے پیغمبر اکرمؐ کو دیکھا جو حسینؑ اور اس کے بھائی حسنؑ کے ہونٹوں کا بوسہ لیتے ہوئے فرما رہے تھے: "آپ دونوں جنت کے حوانوں کے سردار ہیں خدا تمہیں شہید کرنے والے کو ہلاک کرے اور اس پر لعنت بھیجے اور اس کا ٹھکانہ جہنم قرار دے جو بہت بری جگہ ہے۔


اس موقع پر یزید کو بہت غصہ آیا اور اس نے اس شخص کو اپنی محفل سے نکال باہر کرنے کا حکم دیا پھر اس نے کچھ شعر گنگنانا شروع کیا جسے ابن زبعری نے [[غزوہ احد]] کے بعد گنگنایا تھا۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۵، ص۱۳۲-۱۳۳.</ref>:
اس موقع پر یزید کو بہت غصہ آیا اور اس نے اس شخص کو اپنی محفل سے نکال باہر کرنے کا حکم دیا پھر اس نے کچھ شعر گنگنانا شروع کیا جسے ابن زبعری نے [[غزوہ احد]] کے بعد گنگنایا تھا۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، 1403ق، ج45، ص132-133۔</ref>:


{{شعر2|
{{شعر2|
سطر 24: سطر 98:


== خطبے کا مضمون ==
== خطبے کا مضمون ==
حضرت زینب(س) نے اپنے خطبے کو خدا کی حمد و ثنا، [[پیغمبر اکرم(ص)]] پر درود و سلام اور بدکاروں کے بارے میں [[قرآن]] کی ایک آیت سے شروع کیا۔ اس کے بعد ظالموں کو مہلت دینے کی الہی سنت سے مربوط قرآنی آیت سے استناد کرتے ہوئے [[امام حسین]] کے اہل بیت پر روا رکھنے والے ظلم و ستم اور انہیں شہروں اور بازاروں میں پھرائے جانے پر یزید کی سرزنش کی اور اس برے فعل کی علت کو یزید کا وہ کینہ قرار دیا جو [[جنگ بدر]] سے یزید کے دل میں پیدا ہوا تھا۔ آگے چل کر آپ(س) نے یزید کے برے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے [[واقعہ کربلا]] میں ظلم و ستم روا رکھنے والوں سے نفرت کا اظہار کیا اور آخر میں [[وحی]] اور [[نبوت]] کو اہل بیت(ع) کے ساتھ مختص کرتے ہوئے اہل بیت کے تذکرے کو لوگوں کے دلوں سے نکالنے کی یزید کی کوشش کو بے ثمر قرار دے دیا۔
حضرت زینب(س) نے اپنے خطبے کو خدا کی حمد و ثنا، [[پیغمبر اکرمؐ]] پر درود و سلام اور بدکاروں کے بارے میں [[قرآن]] کی ایک آیت سے شروع کیا۔ اس کے بعد ظالموں کو مہلت دینے کی الہی سنت سے مربوط قرآنی آیت سے استناد کرتے ہوئے [[امام حسین]] کے اہل بیت پر روا رکھنے والے ظلم و ستم اور انہیں شہروں اور بازاروں میں پھرائے جانے پر یزید کی سرزنش کی اور اس برے فعل کی علت کو یزید کا وہ کینہ قرار دیا جو [[جنگ بدر]] سے یزید کے دل میں پیدا ہوا تھا۔ آگے چل کر آپ(س) نے یزید کے برے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے [[واقعہ کربلا]] میں ظلم و ستم روا رکھنے والوں سے نفرت کا اظہار کیا اور آخر میں [[وحی]] اور [[نبوت]] کو اہل بیتؑ کے ساتھ مختص کرتے ہوئے اہل بیت کے تذکرے کو لوگوں کے دلوں سے نکالنے کی یزید کی کوشش کو بے ثمر قرار دے دیا۔


==خطبے کا متن اور ترجمہ==
==خطبے کا متن اور ترجمہ==
{{نقل قول دوقلو طبقاتی تاشو
{{نقل قول دوقلو طبقاتی تاشو
|عنوان=
|عنوان=
|رنگ حاشیه=
|رنگ حاشیہ=
|تراز=
|تراز=
|عرض=
|عرض=
|<center> بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ</center>
|<center> بِسْمِ اللَّـہِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ</center>
فَقَامَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَقَالَتْ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ وَ صَلَّى اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ وَ آلِهِ أَجْمَعِينَ صَدَقَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ كَذَلِكَ يَقُولُ «ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّواى‏ أَنْ كَذَّبُوا بِآياتِ اللَّهِ وَ كانُوا بِها يَسْتَهْزِؤُنَ»<ref>سورہ روم، آیت ۱۰</ref> أَ ظَنَنْتَ يَا يَزِيدُ حَيْثُ أَخَذْتَ عَلَيْنَا أَقْطَارَ الْأَرْضِ وَ آفَاقَ السَّمَاءِ فَأَصْبَحْنَا نُسَاقُ كَمَا تُسَاقُ الْأُسَرَاءُ أَنَّ بِنَا هَوَاناً عَلَيْهِ وَ بِكَ عَلَيْهِ كَرَامَةً وَ أَنَّ ذَلِكَ‏ لِعِظَمِ خَطَرِكَ عِنْدَهُ فَشَمَخْتَ بِأَنْفِكَ وَ نَظَرْتَ فِي عِطْفِكَ جَذْلَانَ مَسْرُوراً حَيْثُ رَأَيْتَ الدُّنْيَا لَكَ مُسْتَوْثِقَةً وَ الْأُمُورَ مُتَّسِقَةً وَ حِينَ صَفَا لَكَ مُلْكُنَا وَ سُلْطَانُنَا فَمَهْلًا مَهْلًا أَ نَسِيتَ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى «وَ لا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً وَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ»<ref>سوره آل عمران، آیت ١٧٨</ref> أَ مِنَ الْعَدْلِ يَا ابْنَ الطُّلَقَاءِ تَخْدِيرُكَ حَرَائِرَكَ وَ إِمَاءَكَ وَ سَوْقُكَ بَنَاتِ رَسُولِ اللَّهِ ص سَبَايَا قَدْ هَتَكْتَ. سُتُورَهُنَّ وَ أَبْدَيْتَ وُجُوهَهُنَّ تَحْدُو بِهِنَّ الْأَعْدَاءُ مِنْ بَلَدٍ إِلَى بَلَدٍ وَ يَسْتَشْرِفُهُنَّ أَهْلُ الْمَنَاهِلِ وَ الْمَنَاقِلِ وَ يَتَصَفَّحُ وُجُوهَهُنَّ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ وَ الدَّنِيُّ وَ الشَّرِيفُ لَيْسَ مَعَهُنَّ مِنْ رِجَالِهِنَّ وَلِيٌّ وَ لَا مِنْ حُمَاتِهِنَّ حَمِيٌّ وَ كَيْفَ يُرْتَجَى مُرَاقَبَةُ مَنْ لَفَظَ فُوهُ أَكْبَادَ الْأَزْكِيَاءِ وَ نَبَتَ لَحْمُهُ مِنْ‏ دِمَاءِ الشُّهَدَاءِ وَ كَيْفَ يَسْتَبْطِئُ فِي بُغْضِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ مَنْ نَظَرَ إِلَيْنَا بِالشَّنَفِ وَ الشَّنَئَانِ وَ الْإِحَنِ وَ الْأَضْغَانِ ثُمَّ تَقُولُ غَيْرَ مُتَأَثِّمٍ وَ لَا مُسْتَعْظِمٍ لَأَهَلُّوا وَ اسْتَهَلُّوا فَرَحاً/ ثُمَّ قَالُوا يَا يَزِيدُ لَا تُشَلَ‏» مُنْتَحِياً عَلَى ثَنَايَا أَبِي عَبْدِ اللَّهِ سَيِّدِ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ تَنْكُتُهَا بِمِخْصَرَتِكَ وَ كَيْفَ لَا تَقُولُ ذَلِكَ وَ قَدْ نَكَأْتَ الْقَرْحَةَ وَ اسْتَأْصَلْتَ الشَّافَةَ بِإِرَاقَتِكَ دِمَاءَ ذُرِّيَّةِ مُحَمَّدٍ ص وَ نُجُومِ الْأَرْضِ مِنْ آلِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ تَهْتِفُ بِأَشْيَاخِكَ زَعَمْتَ أَنَّكَ تُنَادِيهِمْ فَلَتَرِدَنَّ وَشِيكاً مَوْرِدَهُمْ وَ لَتَوَدَّنَّ أَنَّكَ شَلَلْتَ وَ بَكِمْتَ وَ لَمْ تَكُنْ قُلْتَ مَا قُلْتَ وَ فَعَلْتَ مَا فَعَلْتَ اللَّهُمَّ خُذْ لَنَا بِحَقِّنَا وَ انْتَقِمْ مِنْ ظَالِمِنَا وَ أَحْلِلْ غَضَبَكَ بِمَنْ سَفَكَ دِمَاءَنَا وَ قَتَلَ حُمَاتَنَا فَوَ اللَّهِ مَا فَرَيْتَ إِلَّا جِلْدَكَ وَ لَا حَزَزْتَ إِلَّا لَحْمَكَ وَ لَتَرِدَنَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ص بِمَا تَحَمَّلْتَ مِنْ سَفْكِ دِمَاءِ ذُرِّيَّتِهِ وَ انْتَهَكْتَ مِنْ حُرْمَتِهِ فِي عِتْرَتِهِ وَ لُحْمَتِهِ حَيْثُ يَجْمَعُ اللَّهُ شَمْلَهُمْ وَ يَلُمُّ شَعَثَهُمْ وَ يَأْخُذُ بِحَقِّهِمْ «وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ»<ref>سوره آل عمران، آیت ۱۶۹ـ۱۷۰.</ref> وَ حَسْبُكَ بِاللَّهِ حَاكِماً وَ بِمُحَمَّدٍ ص خَصِيماً وَ بِجَبْرَئِيلَ ظَهِيراً وَ سَيَعْلَمُ مَنْ سَوَّلَ لَكَ وَ مَكَّنَكَ مِنْ رِقَابِ الْمُسْلِمِينَ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا وَ أَيُّكُمْ شَرٌّ مَكاناً وَ أَضْعَفُ جُنْداً وَ لَئِنْ جَرَّتْ عَلَيَّ الدَّوَاهِي مُخَاطَبَتَكَ إِنِّي لَأَسْتَصْغِرُ قَدْرَكَ وَ أَسْتَعْظِمُ تَقْرِيعَكَ وَ أَسْتَكْثِرُ تَوْبِيخَكَ لَكِنَّ الْعُيُونَ عبْرَى وَ الصُّدُورَ حَرَّى أَلَا فَالْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ لِقَتْلِ حِزْبِ اللَّهِ النُّجَبَاءِ بِحِزْبِ الشَّيْطَانِ الطُّلَقَاءِ فَهَذِهِ الْأَيْدِي تَنْطِفُ مِنْ دِمَائِنَا وَ الْأَفْوَاهُ تَتَحَلَّبُ مِنْ لُحُومِنَا وَ تِلْكَ الْجُثَثُ الطَّوَاهِرُ الزَّوَاكِي تَنْتَابُهَا الْعَوَاسِلُ وَ تُعَفِّرُهَا أُمَّهَاتُ الْفَرَاعِلِ وَ لَئِنِ اتَّخَذْتَنَا مَغْنَماً لَتَجِدَنَّا وَشِيكاً مَغْرَماً حِينَ لَا تَجِدُ إِلَّا مَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ وَ ما رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ فَإِلَى اللَّهِ الْمُشْتَكَى وَ عَلَيْهِ الْمُعَوَّلُ فَكِدْ كَيْدَكَ وَ اسْعَ سَعْيَكَ وَ نَاصِبْ جُهْدَكَ فَوَ اللَّهِ لَا تَمْحُو ذِكْرَنَا وَ لَا تُمِيتُ وَحْيَنَا وَ لَا تُدْرِكُ أَمَدَنَا وَ لَا تَرْحَضُ عَنْكَ عَارَهَا وَ هَلْ رَأْيُكَ إِلَّا فَنَدٌ وَ أَيَّامُكَ إِلَّا عَدَدٌ وَ جَمْعُكَ إِلَّا بَدَدٌ يَوْمَ يُنَادِي الْمُنَادِي أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ فَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ الَّذِي خَتَمَ لِأَوَّلِنَا بِالسَّعَادَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ وَ لِآخِرِنَا بِالشَّهَادَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ نَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يُكْمِلَ لَهُمُ الثَّوَابَ وَ يُوجِبَ لَهُمُ الْمَزِيدَ وَ يُحْسِنَ عَلَيْنَا الْخِلَافَةَ إِنَّهُ رَحِيمٌ وَدُودٌ وَ حَسْبُنَا اللَّهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ. <ref>سید بن طاوس،اللہوف علی قتلی الطفوف، ص۲۱۴-۲۲۰. اس خطبے کو طبرسی نے بھی اپنی کتاب الاحتجاج میں نقل کیا ہے جو لہوف میں مذکور متن سے کچھ اختلاف رکھتا ہے۔ طبرسی، الاحتجاج، ج۲، ص۳۰۸.</ref>۔
فَقَامَتْ زَيْنَبُ بِنْتُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ع فَقَالَتْ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعالَمِينَ وَ صَلَّى اللَّہُ عَلَى رَسُولِہِ وَ آلِہِ أَجْمَعِينَ صَدَقَ اللَّہُ سُبْحَانَہُ كَذَلِكَ يَقُولُ «ثُمَّ كانَ عاقِبَۃَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّواى‏ أَنْ كَذَّبُوا بِآياتِ اللَّہِ وَ كانُوا بِہا يَسْتَہْزِؤُنَ»<ref>سورہ روم، آیت 10</ref> أَ ظَنَنْتَ يَا يَزِيدُ حَيْثُ أَخَذْتَ عَلَيْنَا أَقْطَارَ الْأَرْضِ وَ آفَاقَ السَّمَاءِ فَأَصْبَحْنَا نُسَاقُ كَمَا تُسَاقُ الْأُسَرَاءُ أَنَّ بِنَا ہَوَاناً عَلَيْہِ وَ بِكَ عَلَيْہِ كَرَامَۃً وَ أَنَّ ذَلِكَ‏ لِعِظَمِ خَطَرِكَ عِنْدَہُ فَشَمَخْتَ بِأَنْفِكَ وَ نَظَرْتَ فِي عِطْفِكَ جَذْلَانَ مَسْرُوراً حَيْثُ رَأَيْتَ الدُّنْيَا لَكَ مُسْتَوْثِقَۃً وَ الْأُمُورَ مُتَّسِقَۃً وَ حِينَ صَفَا لَكَ مُلْكُنَا وَ سُلْطَانُنَا فَمَہْلًا مَہْلًا أَ نَسِيتَ قَوْلَ اللَّہِ تَعَالَى «وَ لا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّما نُمْلِي لَہُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِہِمْ إِنَّما نُمْلِي لَہُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً وَ لَہُمْ عَذابٌ مُہِينٌ»<ref>سورہ آل عمران، آیت 178</ref> أَ مِنَ الْعَدْلِ يَا ابْنَ الطُّلَقَاءِ تَخْدِيرُكَ حَرَائِرَكَ وَ إِمَاءَكَ وَ سَوْقُكَ بَنَاتِ رَسُولِ اللَّہِ ص سَبَايَا قَدْ ہَتَكْتَ۔ سُتُورَہُنَّ وَ أَبْدَيْتَ وُجُوہَہُنَّ تَحْدُو بِہِنَّ الْأَعْدَاءُ مِنْ بَلَدٍ إِلَى بَلَدٍ وَ يَسْتَشْرِفُہُنَّ أَہْلُ الْمَنَاہِلِ وَ الْمَنَاقِلِ وَ يَتَصَفَّحُ وُجُوہَہُنَّ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ وَ الدَّنِيُّ وَ الشَّرِيفُ لَيْسَ مَعَہُنَّ مِنْ رِجَالِہِنَّ وَلِيٌّ وَ لَا مِنْ حُمَاتِہِنَّ حَمِيٌّ وَ كَيْفَ يُرْتَجَى مُرَاقَبَۃُ مَنْ لَفَظَ فُوہُ أَكْبَادَ الْأَزْكِيَاءِ وَ نَبَتَ لَحْمُہُ مِنْ‏ دِمَاءِ الشُّہَدَاءِ وَ كَيْفَ يَسْتَبْطِئُ فِي بُغْضِنَا أَہْلَ الْبَيْتِ مَنْ نَظَرَ إِلَيْنَا بِالشَّنَفِ وَ الشَّنَئَانِ وَ الْإِحَنِ وَ الْأَضْغَانِ ثُمَّ تَقُولُ غَيْرَ مُتَأَثِّمٍ وَ لَا مُسْتَعْظِمٍ لَأَہَلُّوا وَ اسْتَہَلُّوا فَرَحاً/ ثُمَّ قَالُوا يَا يَزِيدُ لَا تُشَلَ‏» مُنْتَحِياً عَلَى ثَنَايَا أَبِي عَبْدِ اللَّہِ سَيِّدِ شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ تَنْكُتُہَا بِمِخْصَرَتِكَ وَ كَيْفَ لَا تَقُولُ ذَلِكَ وَ قَدْ نَكَأْتَ الْقَرْحَۃَ وَ اسْتَأْصَلْتَ الشَّافَۃَ بِإِرَاقَتِكَ دِمَاءَ ذُرِّيَّۃِ مُحَمَّدٍ ص وَ نُجُومِ الْأَرْضِ مِنْ آلِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ تَہْتِفُ بِأَشْيَاخِكَ زَعَمْتَ أَنَّكَ تُنَادِيہِمْ فَلَتَرِدَنَّ وَشِيكاً مَوْرِدَہُمْ وَ لَتَوَدَّنَّ أَنَّكَ شَلَلْتَ وَ بَكِمْتَ وَ لَمْ تَكُنْ قُلْتَ مَا قُلْتَ وَ فَعَلْتَ مَا فَعَلْتَ اللَّہُمَّ خُذْ لَنَا بِحَقِّنَا وَ انْتَقِمْ مِنْ ظَالِمِنَا وَ أَحْلِلْ غَضَبَكَ بِمَنْ سَفَكَ دِمَاءَنَا وَ قَتَلَ حُمَاتَنَا فَوَ اللَّہِ مَا فَرَيْتَ إِلَّا جِلْدَكَ وَ لَا حَزَزْتَ إِلَّا لَحْمَكَ وَ لَتَرِدَنَّ عَلَى رَسُولِ اللَّہِ ص بِمَا تَحَمَّلْتَ مِنْ سَفْكِ دِمَاءِ ذُرِّيَّتِہِ وَ انْتَہَكْتَ مِنْ حُرْمَتِہِ فِي عِتْرَتِہِ وَ لُحْمَتِہِ حَيْثُ يَجْمَعُ اللَّہُ شَمْلَہُمْ وَ يَلُمُّ شَعَثَہُمْ وَ يَأْخُذُ بِحَقِّہِمْ «وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّہِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ يُرْزَقُونَ»<ref>سورہ آل عمران، آیت 169ـ170۔</ref> وَ حَسْبُكَ بِاللَّہِ حَاكِماً وَ بِمُحَمَّدٍ ص خَصِيماً وَ بِجَبْرَئِيلَ ظَہِيراً وَ سَيَعْلَمُ مَنْ سَوَّلَ لَكَ وَ مَكَّنَكَ مِنْ رِقَابِ الْمُسْلِمِينَ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا وَ أَيُّكُمْ شَرٌّ مَكاناً وَ أَضْعَفُ جُنْداً وَ لَئِنْ جَرَّتْ عَلَيَّ الدَّوَاہِي مُخَاطَبَتَكَ إِنِّي لَأَسْتَصْغِرُ قَدْرَكَ وَ أَسْتَعْظِمُ تَقْرِيعَكَ وَ أَسْتَكْثِرُ تَوْبِيخَكَ لَكِنَّ الْعُيُونَ عبْرَى وَ الصُّدُورَ حَرَّى أَلَا فَالْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ لِقَتْلِ حِزْبِ اللَّہِ النُّجَبَاءِ بِحِزْبِ الشَّيْطَانِ الطُّلَقَاءِ فَہَذِہِ الْأَيْدِي تَنْطِفُ مِنْ دِمَائِنَا وَ الْأَفْوَاہُ تَتَحَلَّبُ مِنْ لُحُومِنَا وَ تِلْكَ الْجُثَثُ الطَّوَاہِرُ الزَّوَاكِي تَنْتَابُہَا الْعَوَاسِلُ وَ تُعَفِّرُہَا أُمَّہَاتُ الْفَرَاعِلِ وَ لَئِنِ اتَّخَذْتَنَا مَغْنَماً لَتَجِدَنَّا وَشِيكاً مَغْرَماً حِينَ لَا تَجِدُ إِلَّا مَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ وَ ما رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ فَإِلَى اللَّہِ الْمُشْتَكَى وَ عَلَيْہِ الْمُعَوَّلُ فَكِدْ كَيْدَكَ وَ اسْعَ سَعْيَكَ وَ نَاصِبْ جُہْدَكَ فَوَ اللَّہِ لَا تَمْحُو ذِكْرَنَا وَ لَا تُمِيتُ وَحْيَنَا وَ لَا تُدْرِكُ أَمَدَنَا وَ لَا تَرْحَضُ عَنْكَ عَارَہَا وَ ہَلْ رَأْيُكَ إِلَّا فَنَدٌ وَ أَيَّامُكَ إِلَّا عَدَدٌ وَ جَمْعُكَ إِلَّا بَدَدٌ يَوْمَ يُنَادِي الْمُنَادِي أَلا لَعْنَۃُ اللَّہِ عَلَى الظَّالِمِينَ فَ الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعالَمِينَ الَّذِي خَتَمَ لِأَوَّلِنَا بِالسَّعَادَۃِ وَ الْمَغْفِرَۃِ وَ لِآخِرِنَا بِالشَّہَادَۃِ وَ الرَّحْمَۃِ وَ نَسْأَلُ اللَّہَ أَنْ يُكْمِلَ لَہُمُ الثَّوَابَ وَ يُوجِبَ لَہُمُ الْمَزِيدَ وَ يُحْسِنَ عَلَيْنَا الْخِلَافَۃَ إِنَّہُ رَحِيمٌ وَدُودٌ وَ حَسْبُنَا اللَّہُ وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ۔ <ref>سید بن طاوس،اللہوف علی قتلی الطفوف، ص214-220۔ اس خطبے کو طبرسی نے بھی اپنی کتاب الاحتجاج میں نقل کیا ہے جو لہوف میں مذکور متن سے کچھ اختلاف رکھتا ہے۔ طبرسی، الاحتجاج، ج2، ص308۔</ref>۔
|<center>اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے</center>
|<center>اللہ کے نام سے جو بہت رحم والا نہایت مہربان ہے</center>
سب تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے ۔ اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت(علیهم السلام) پر۔ اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا ۔ اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے[مختلف طرح سے] تنگ کر دئیے ہیں اور آلِ رسول کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز هوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں؟۔ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور هوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے انہیں جو مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے ۔ بلکہ ہم نے انہیں اس لئے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں ۔ اور ان کے لئے خوفناک عذاب معین کیا جا چکا ہے ۔
سب تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے ۔ اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہل بیت(علیہم السلام) پر۔ اما بعد ! بالاخر ان لوگوں کا انجام برا ہے جنہوں نے اپنے دامن حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اڑایا ۔ اے یزید! کیا تو سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے[مختلف طرح سے] تنگ کر دئیے ہیں اور آلِ رسول کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر دربدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز ہوا اور ہم رسوا ہوئے ہیں؟۔ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟۔ آج تو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے ، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اترا رہا ہے ۔ اور زمامداری[خلافت] کے ہمارے مسلمہ حقوق کو غصب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے ۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور ہوش کی سانس لے ۔ کیا تو نے خدا کا یہ فرمان بھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے انہیں جو مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے ۔ بلکہ ہم نے انہیں اس لئے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں ۔ اور ان کے لئے خوفناک عذاب معین کیا جا چکا ہے ۔
اس کے بعد فرمایا :اے طلقاءکے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹها رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے ۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا ۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسولکی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے ۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں ۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں ۔آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں ۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے ۔
اس کے بعد فرمایا :اے طلقاءکے بیٹے (آزاد کردہ غلاموں کی اولاد) کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ تو نے اپنی مستورات اور لونڈیوں کو چادر اور چار دیواری کا تحفظ فراہم کر کے پردے میں بٹہا رکھا ہوا ہے جبکہ رسول زادیوں کو سر برہنہ در بدر پھرا رہا ہے ۔ تو نے مخدرات عصمت کی چادریں لوٹ لیں اور ان کی بے حرمتی کا مرتکب ہوا ۔ تیرے حکم پر اشقیاءنے رسول زادیوں کو بے نقاب کر کے شہر بہ شہر پھرایا ۔ تیرے حکم پر دشمنان خدا، اہل بیت رسولکی پاکدامن مستورات کو ننگے سر لوگوں کے ہجوم میں لے آئے ۔ اورلوگ رسول زادیوں کے کھلے سر دیکھ کر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور دور و نزدیک کے رہنے والے سب لوگ ان کی طرف نظریں اٹھا اٹھا کر دیکھ رہے ہیں ۔ ہر شریف و کمینے کی نگاہیں ان پاک بی بیوں کے ننگے سروں پر جمی ہیں ۔آج رسول زادیوں کے ساتھ ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ آج ان قیدی مستورات کے ساتھ ان کے مرد موجود نہیں ہیں جو اِن کی سرپرستی کریں ۔ آج آلِ محمد کا معین و مددگار کوئی نہیں ہے ۔
اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں کے جگر کو چبایا هو ۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکها ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت(علیهم اسلام) پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے ۔
اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہو سکتی ہے جس کی ماں (یزید کی دادی) نے پاکیزہ لوگوں کے جگر کو چبایا ہو ۔ اور اس شخص سے انصاف کی کیا امید ہو سکتی ہے جس نے شہیدوں کا خون پی رکہا ہو۔ وہ شخص کس طرح ہم اہل بیت(علیہم اسلام) پر مظالم ڈھانے میں کمی کر سکتا ہے جو بغض و عداوت اور کینے سے بھرے ہوئے دل کے ساتھ ہمیں دیکھتا ہے ۔
اے یزید ! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں ۔
اے یزید ! کیا تجھے شرم نہیں آتی کہ تو اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرنے اور اتنے بڑے گناہ کو انجام دینے کے باوجود فخر و مباہات کرتا ہوا یہ کہہ رہا ہے کہ آج اگر میرے اجداد موجود ہوتے تو ان کے دل باغ باغ ہو جاتے اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں ۔
اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی (علیه السلم) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کر رہا ہے ۔
اے یزید ! کیا تجھے حیا نہیں آتی کہ تو جوانانِ جنت کے سردار حسین ابن علی (علیہ السلم) کے دندان مبارک پر چھڑی مار کر ان کی بے ادبی کر رہا ہے ۔
اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہو اور فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھے کیونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندانی ستاروں کا خون بها کر ہمارے دلوں کے زخموں کو گہرا کر دیا ہے اور شجرہ طیبہ کی جڑیں کاٹنے کے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے ۔تو نے اولاد رسول کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کئے ہیں ۔
اے یزید، تو کیوں خوش نہ ہو اور فخر و مباہات کے قصیدے نہ پڑھے کیونکہ تو نے اپنے ظلم و استبداد کے ذریعے فرزند رسول خدا اور عبدالمطلب کے خاندانی ستاروں کا خون بہا کر ہمارے دلوں کے زخموں کو گہرا کر دیا ہے اور شجرہ طیبہ کی جڑیں کاٹنے کے گھناونے جرم کا مرتکب ہوا ہے ۔تو نے اولاد رسول کے خون میں اپنے ہاتھ رنگین کئے ہیں ۔
تو نے عبدالمطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں ۔
تو نے عبدالمطلب کے خاندان کے ان نوجوانوں کو تہہ تیغ کیا ہے جن کی عظمت و کردار کے درخشندہ ستارے زمین کے گوشے گوشے کو منور کیے ہوئے ہیں ۔
آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد[برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے ۔ تو سمجهتا هے که وه تیری آواز سن رهے هیں؟ ! (جلدی نه کر) عنقریب تو بهی اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا ۔
آج تو آلِ رسول کو قتل کر کے اپنے بد نہاد[برے] اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے ۔ تو سمجہتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نہ کر) عنقریب تو بہی اپنے ان کافر بزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار و کردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی اور میں نے جو کچھ کیا اور کہا اس سے باز رہتا ۔
اس کے بعد حضرت زینب نے آسمان کی طرف منہ کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا ! اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا دے اور تو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے ۔ اے پردگار تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے ۔ اور اے خدا تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کر دیا ۔ اے یزید ! (خدا کی قسم ) تو نے جو ظلم کیا ہے یه اپنے ساتھ ظلم کیا ہے ۔ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کی ہے ۔ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹا ہے ۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا ۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا ۔
اس کے بعد حضرت زینب نے آسمان کی طرف منہ کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا ! اے ہمارے پروردگار، تو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا دے اور تو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے ۔ اے پردگار تو ہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے ۔ اور اے خدا تو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کر دیا ۔ اے یزید ! (خدا کی قسم ) تو نے جو ظلم کیا ہے یہ اپنے ساتھ ظلم کیا ہے ۔ تو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کی ہے ۔ اور تو نے کسی کا نہیں بلکہ اپنا ہی گوشت کاٹا ہے ۔ تو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناونے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا ۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم کیوں روا رکھا ۔
اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا ۔ اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا ۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر چکے ہیں ۔ بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں ۔
اے یزید ! یاد رکھ کہ خدا، آلِ رسول کا تجھ سے انتقام لے کر ان مظلوموں کا حق انہیں دلائے گا ۔ اور انہیں امن و سکون کی نعمت سے مالامال کر دے گا ۔ خدا کا فرمان ہے کہ تم گمان نہ کرو کہ جو لوگ راہِ خدا میں مارے گئے وہ مر چکے ہیں ۔ بلکہ وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے اور بارگاہِ الٰہی سے روزی پا رہے ہیں ۔
اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا ، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے ۔ اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے ۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعه تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا ۔ اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے ۔
اے یزید ! یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آلِ محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا ، عدالتِ الٰہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے ۔ اور جبرائیلِ امین آلِ رسول کی گواہی دیں گے ۔ پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعہ تجھے سخت عذاب میں مبتلا کر دے گا ۔ اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے ۔
عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا ۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں ۔
عنقریب وہ لوگ بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے جنہوں نے تیرے لئے ظلم و استبداد کی بنیادیں مضبوط کیں اور تیری آمرانہ سلطنت کی بساط بچھا کر تجھے اہل اسلام پر مسلط کر دیا ۔ ان لوگوں کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ ستمگروں کا انجام برا ہوتا ہے اور کس کے ساتھی ناتوانی کا شکار ہیں ۔
اس کے بعد فرمایا : اے یزید ! یہ گردش ایام اور حوادث روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بدنہاد [برے انسان] سے ہمکلام ہونا پڑا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں ۔ لیکن یاد رکھ میری نظر میں تو ایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس سے کلام کرنا بھی شریفوں کی توہین ہے ۔ میری اس جرائت سخن پر تو مجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمائش سمجھتے ہوئے صبر و استقامت اختیار کروں گی اور تیری بد کلامی و بدسلوکی میرے عزم و استقامت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔اے یزید ! آج ہماری آنکھیں اشکبار ہیں اور سینوں میں آتش غم کے شعلے بھڑک رہے ہیں ۔  
اس کے بعد فرمایا : اے یزید ! یہ گردش ایام اور حوادث روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تجھ جیسے بدنہاد [برے انسان] سے ہمکلام ہونا پڑا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں ۔ لیکن یاد رکھ میری نظر میں تو ایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس سے کلام کرنا بھی شریفوں کی توہین ہے ۔ میری اس جرائت سخن پر تو مجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمائش سمجھتے ہوئے صبر و استقامت اختیار کروں گی اور تیری بد کلامی و بدسلوکی میرے عزم و استقامت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔اے یزید ! آج ہماری آنکھیں اشکبار ہیں اور سینوں میں آتش غم کے شعلے بھڑک رہے ہیں ۔  
افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنوا اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کرڈالا ہے ۔ اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں ۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں اور صحرا کے بھیڑیئے ان پاکباز شہیدوں کی مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں ۔
افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنوا اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کرڈالا ہے ۔ اور ابھی تک اس شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں ۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں اور صحرا کے بھیڑیئے ان پاکباز شہیدوں کی مظلوم لاشوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں ۔
اے یزید ! اگر آج تو ہماری مظلومیت پر خوش ہو رہا ہے اور اسے اپنے دل کی تسکین کا باعث سمجھ رہا ہے تو یاد رکھ کہ جب قیامت کے دن اپنی بد کرداری کی سزا پائے گا تو اس کا برداشت کرنا تیرے بس سے باہر ہو گا ۔ خدا عادل ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔ ہم اپنی مظلومیت اپنے خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ اور ہر حال میں اسی کی عنایات اور عدل و انصاف پر ہمارا بھروسہ ہے ۔
اے یزید ! اگر آج تو ہماری مظلومیت پر خوش ہو رہا ہے اور اسے اپنے دل کی تسکین کا باعث سمجھ رہا ہے تو یاد رکھ کہ جب قیامت کے دن اپنی بد کرداری کی سزا پائے گا تو اس کا برداشت کرنا تیرے بس سے باہر ہو گا ۔ خدا عادل ہے اور وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا ۔ ہم اپنی مظلومیت اپنے خدا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ اور ہر حال میں اسی کی عنایات اور عدل و انصاف پر ہمارا بھروسہ ہے ۔
اے یزید ! تو جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تجهے معلوم ہونا چاہیئے کہ تو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے ۔تو یہ خیال خام اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا ۔تو نے جس گھناونے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بد نما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو پائے گا ۔ تیرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے ۔تری حکومت میں گنتی کے چند دن باقی ہیں ۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے ۔ تیرے پاس اس دن کی حسرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں بچے گا ۔ جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کے لئے خدا کی لعنت ہے ۔
اے یزید ! تو جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھر پور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تجہے معلوم ہونا چاہیئے کہ تو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے ۔تو یہ خیال خام اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا ۔تو نے جس گھناونے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بد نما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو پائے گا ۔ تیرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے ۔تری حکومت میں گنتی کے چند دن باقی ہیں ۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے ۔ تیرے پاس اس دن کی حسرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں بچے گا ۔ جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کے لئے خدا کی لعنت ہے ۔
ہم خدائے قدوس کی بارگاہ میں سپاس گزار ہیں کہ ہمارے خاندان کے پہلے فرد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سعادت و مغفرت سے بہرہ مند فرمایا اور امام حسین علیہ السلام کو شہادت و رحمت کی نعمتوں سے نوازا ۔ ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شہیدوں کے ثواب و اجر میں اضافہ و تکمیل فرمائے اور ہم باقی سب افراد کو اپنی عنایتوں سے نوازے، بے شک خدا ہی رحم و رحمت کرنے والا اور حقیقی معنوں میں مہربان ہے ۔ خدا کی عنایتوں کے سوا ہمیں کچھ مطلوب نہیں اور ہمیں صرف اور صرف اسی کی ذات پر بھروسہ ہے اس لئے کہ اس سے بہتر کوئی سہارا نہیں ہے”  
ہم خدائے قدوس کی بارگاہ میں سپاس گزار ہیں کہ ہمارے خاندان کے پہلے فرد حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سعادت و مغفرت سے بہرہ مند فرمایا اور امام حسین علیہ السلام کو شہادت و رحمت کی نعمتوں سے نوازا ۔ ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شہیدوں کے ثواب و اجر میں اضافہ و تکمیل فرمائے اور ہم باقی سب افراد کو اپنی عنایتوں سے نوازے، بے شک خدا ہی رحم و رحمت کرنے والا اور حقیقی معنوں میں مہربان ہے ۔ خدا کی عنایتوں کے سوا ہمیں کچھ مطلوب نہیں اور ہمیں صرف اور صرف اسی کی ذات پر بھروسہ ہے اس لئے کہ اس سے بہتر کوئی سہارا نہیں ہے”  
}}
}}
سطر 65: سطر 139:


== منابع ==
== منابع ==
* جعفری، سیدحسین محمد، ''تشیع در مسیر تاریخ''، مترجم سیدمحمدتقی آیت اللہی، چاپ۱۰.
* جعفری، سیدحسین محمد، ''تشیع در مسیر تاریخ''، مترجم سیدمحمدتقی آیت اللہی، چاپ10۔
* داودی، سعید و مہدی رستم‌نژاد، عاشورا ریشہ‌ہا، انگیزہ‌ہا، رویدادہا، پیامدہا، قم، امام علی بن ابی طالب علیہ‌السلام، زیر نظر آیت اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی، ۱۳۸۸ ہ. ش، ص۵۹۶.
* داودی، سعید و مہدی رستم‌نژاد، عاشورا ریشہ‌ہا، انگیزہ‌ہا، رویدادہا، پیامدہا، قم، امام علی بن ابی طالب علیہ‌السلام، زیر نظر آیت اللہ العظمی ناصر مکارم شیرازی، 1388 ہ۔ ش، ص596۔
* سید بن طاوس، ''اللہوف،'' ترجمہ عقیقی بخشایشی، قم، دفتر نشر نوید اسلام،پنجم، ۱۳۷۸ش.
* سید بن طاوس، ''اللہوف،'' ترجمہ عقیقی بخشایشی، قم، دفتر نشر نوید اسلام،پنجم، 1378ش۔
* طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، بہ تحقیق و تصحیح محمدباقر خرسان، مشہد، نشر مرتضی، چاپ اول، ۱۴۰۳ق.
* طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، بہ تحقیق و تصحیح محمدباقر خرسان، مشہد، نشر مرتضی، چاپ اول، 1403ق۔
* مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
* مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ق۔
{{اسیران کربلا}}
{{اسیران کربلا}}
{{شام}}
{{شام}}
confirmed، templateeditor
8,631

ترامیم