مندرجات کا رخ کریں

"اسرائیل" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 59: سطر 59:


==شیعہ علما کے اسرائیل مخالف نظریات==
==شیعہ علما کے اسرائیل مخالف نظریات==
[[شیعہ]] علماء نے ہمیشہ اسرائیل کے قیام کی مخالفت اور اس کے مظالم و جرائم کی مذمت کی ہے۔ بعض مراجع تقلید؛ جیسے سید محمد ہادی میلانی،<ref>پاک‌ نیا تبریزی، «علمای شیعه و دفاع از قدس شریف»، ص160و161.</ref> [[امام خمینی]]<ref>خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج2، ص139.</ref> اور محمد فاضل لنکرانی<ref>محتشمی‌پور، «[http://www.imam-khomeini.ir/fa/n145706/مروری_بر_شکل_گیری_رژیم_اشغالگر_قدس مروری بر شکل‌گیری رژیم اشغالگر قدس]»، ص122.</ref> وغیرہ نے اسرائیل کے کسی قسم کے تعلقات قائم کرنےاور اسرائیلی سامان کے استعمال کو [[حرام]] قرار دیا ہے۔ [[سید محسن حکیم]]، [[سید ابوالقاسم خوئی]]، [[آیت اللہ بروجردی]]، سید عبد الحسین شرف الدین اور سید ابوالقاسم کاشانی<ref>ملاحظہ کیجیے: پاک‌ نیا تبریزی، «علمای شیعه و دفاع از قدس شریف»، ص156-163.</ref> اور امام خمینی<ref>خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی،  ج2، ص139 و ج6،‌ ص469.</ref> جیسے دوسرے بعض [[مجتہدین]] نے اسرائیل کے جرائم کی مذمت کرتے ہوئے اس حکومت کو فلسطین سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ چودہویں صدی ہجری کے [[شیعہ]] [[فقیہ]] عبد الکریم زنجانی نے سنہ 1948ء میں اسرائیل کی ریاست کے وجود اور عربوں کے ساتھ اسرائیل کی جنگ کا اعلان کرنے کے بعد اسرائیل کے خلاف [[جہاد]] کا [[فتویٰ]] جاری کیا ہے۔<ref>سرحدی، «[https://www.iichs.ir/fa/article/21543 علمایی که نسبت به مسئله فلسطین واکنش نشان دادند]»،‌ پژوهشکده تاریخ معاصر.</ref>
[[شیعہ]] علماء نے ہمیشہ اسرائیل کے قیام کی مخالفت اور اس کے مظالم و جرائم کی مذمت کی ہے۔ بعض مراجع تقلید؛ جیسے سید محمد ہادی میلانی،<ref>پاک‌ نیا تبریزی، «علمای شیعه و دفاع از قدس شریف»، ص160و161۔</ref> [[امام خمینی]]<ref>خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج2، ص139۔</ref> اور محمد فاضل لنکرانی<ref>محتشمی‌پور، «[http://www.imam-khomeini.ir/fa/n145706/مروری_بر_شکل_گیری_رژیم_اشغالگر_قدس مروری بر شکل‌گیری رژیم اشغالگر قدس]»، ص122۔</ref> وغیرہ نے اسرائیل کے کسی قسم کے تعلقات قائم کرنےاور اسرائیلی سامان کے استعمال کو [[حرام]] قرار دیا ہے۔ [[سید محسن حکیم]]، [[سید ابوالقاسم خوئی]]، [[آیت اللہ بروجردی]]، سید عبد الحسین شرف الدین اور سید ابوالقاسم کاشانی<ref>ملاحظہ کیجیے: پاک‌ نیا تبریزی، «علمای شیعه و دفاع از قدس شریف»، ص156-163۔</ref> اور امام خمینی<ref>خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی،  ج2، ص139 و ج6،‌ ص469۔</ref> جیسے دوسرے بعض [[مجتہدین]] نے اسرائیل کے جرائم کی مذمت کرتے ہوئے اس حکومت کو فلسطین سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ چودہویں صدی ہجری کے [[شیعہ]] [[فقیہ]] عبد الکریم زنجانی نے سنہ 1948ء میں اسرائیل کی ریاست کے وجود اور عربوں کے ساتھ اسرائیل کی جنگ کا اعلان کرنے کے بعد اسرائیل کے خلاف [[جہاد]] کا [[فتویٰ]] جاری کیا ہے۔<ref>سرحدی، «[https://www.iichs.ir/fa/article/21543 علمایی که نسبت به مسئله فلسطین واکنش نشان دادند]»،‌ پژوهشکده تاریخ معاصر۔</ref>


امام خمینی نے اسرائیل کو [[اسلام]]، [[قرآن]] اور [[پیغمبر اکرم(ص)]] کا سب سے بڑا اور ایسا دشمن قرار دیا ہے جو اسلامی ممالک کے خلاف کسی جرم کے ارتکاب میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔<ref> خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج19، ص28.</ref> [[مرتضی مطہری]] کے مطابق اسرائیل مسلمانوں کا سخت ترین اور خطرناک دشمن ہے۔<ref>مطهری، مجموعه ‌آثار،‌ 1390شمسی، ج26،‌ ص340.</ref>  
امام خمینی نے اسرائیل کو [[اسلام]]، [[قرآن]] اور [[پیغمبر اکرم(ص)]] کا سب سے بڑا اور ایسا دشمن قرار دیا ہے جو اسلامی ممالک کے خلاف کسی جرم کے ارتکاب میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔<ref> خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج19، ص28۔</ref> [[مرتضی مطہری]] کے مطابق اسرائیل مسلمانوں کا سخت ترین اور خطرناک دشمن ہے۔<ref>مطهری، مجموعه ‌آثار،‌ 1390شمسی، ج26،‌ ص340۔</ref>  
{{جعبه نقل قول
{{جعبه نقل قول
| عنوان = [[سید روح‌الله موسوی خمینی|امام خمینی]]
| عنوان = [[سید روح‌الله موسوی خمینی|امام خمینی]]
| نویسنده =  
| نویسنده =  
| نقل قول = میں اسرائیل کی آزادی کے منصوبے کی حمایت اور اسے تسلیم کرنے کو مسلمانوں کی تباہی و بربادی اور اسلامی حکومتوں کو معدوم کرنے کا پیش خیمہ اور اس کی مخالفت کو [[اسلام]] کا عظیم فریضہ سمجھتا ہوں۔<ref>خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج16، ص293.</ref>
| نقل قول = میں اسرائیل کی آزادی کے منصوبے کی حمایت اور اسے تسلیم کرنے کو مسلمانوں کی تباہی و بربادی اور اسلامی حکومتوں کو معدوم کرنے کا پیش خیمہ اور اس کی مخالفت کو [[اسلام]] کا عظیم فریضہ سمجھتا ہوں۔<ref>خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج16، ص293۔</ref>
| منبع =  
| منبع =  
| تراز = راست
| تراز = راست
سطر 73: سطر 73:
| اندازه قلم = 14px
| اندازه قلم = 14px
}}
}}
امام موسیٰ صدر اسرائیلی حکومت کو اجارہ داری، ظلم و بربریت، قبضے اور بے رحمی کا استعارہ سمجھتے ہیں<ref>«[http://www.imam-sadr.com/اندیشه/نمایش-اندیشه/tabid/108/smid/442/ArticleID/18013/Default.aspx اسرائیل باطل مطلق است]»، سایت موسسه تحقیقاتی فرهنگی امام موسی صدر.</ref> [[آیت اللہ خامنہ ای]] صیہونی حکومت کو غاصب اور مجرم،<ref>«[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=50116 سخنرانی تلویزیونی به مناسبت روز جهانی قدس]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای.</ref> جھوٹا،<ref>«[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=3061 بیانات در مراسم گشایش کنفرانس بین‌المللی حمایت از انتفاضه فلسطین]»، پایگاه اطلاع‌ رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای.</ref> بچوں کا جلاد و قاتل؛<ref>«[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=30354 بیانات در دیدار مسئولان نظام و سفرای کشورهای اسلامی]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای؛ «[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=51095 بیانات در دیدار دست‌ اندرکاران دومین کنگره ملی شهدای ورزشکار]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای.</ref> جعلی<ref>«[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=30354 بیانات در دیدار مسئولان نظام و سفرای کشورهای اسلامی]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای.</ref> سمجھتے ہوئے اسے اسلام اور انسانیت کے بدترین دشمن<ref>«[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=2372 بیانات در دیدار جمعی از خانواده‌های شهدا و آزادگان]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای.</ref> قرار دیتے ہیں۔
امام موسیٰ صدر اسرائیلی حکومت کو اجارہ داری، ظلم و بربریت، قبضے اور بے رحمی کا استعارہ سمجھتے ہیں<ref>«[http://www.imam-sadr.com/اندیشه/نمایش-اندیشه/tabid/108/smid/442/ArticleID/18013/Default.aspx اسرائیل باطل مطلق است]»، سایت موسسه تحقیقاتی فرهنگی امام موسی صدر۔</ref> [[آیت اللہ خامنہ ای]] صیہونی حکومت کو غاصب اور مجرم،<ref>«[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=50116 سخنرانی تلویزیونی به مناسبت روز جهانی قدس]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای۔</ref> جھوٹا،<ref>«[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=3061 بیانات در مراسم گشایش کنفرانس بین‌المللی حمایت از انتفاضه فلسطین]»، پایگاه اطلاع‌ رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای۔</ref> بچوں کا جلاد و قاتل؛<ref>«[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=30354 بیانات در دیدار مسئولان نظام و سفرای کشورهای اسلامی]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای؛ «[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=51095 بیانات در دیدار دست‌ اندرکاران دومین کنگره ملی شهدای ورزشکار]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای۔</ref> جعلی<ref>«[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=30354 بیانات در دیدار مسئولان نظام و سفرای کشورهای اسلامی]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای۔</ref> سمجھتے ہوئے اسے اسلام اور انسانیت کے بدترین دشمن<ref>«[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=2372 بیانات در دیدار جمعی از خانواده‌های شهدا و آزادگان]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای۔</ref> قرار دیتے ہیں۔


==اسلامی ممالک کا اسرائیل کےساتھ رابطہ ==
==اسلامی ممالک کا اسرائیل کےساتھ رابطہ ==
مسلم ممالک اور اسرائیل کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ بہت سے اسلامی ممالک جیسے انڈونیشیا، [[پاکستان]]، [[شام]]، عراق، افغانستان، الجزائر، بنگلہ دیش، کویت، لبنان، لیبیا، ملائیشیا، عمان، قطر، صومالیہ، سعودی عرب، تیونس، یمن اور ایران (اسلامی انقلاب کے بعد) اسرائیلی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔<ref>دهقان، «[https://www.atrakdaily.ir/fa/Main/Page/14505/8/%D9%88%DB%8C%DA%98%D9%87 آشنایی اجمالی با رژیم غاصب کودک‌کش اسرائیل]»، روزنامه اترک، تاریخ 9 اردیبهشت 1401شمسی؛ توفیقی، «[https://www.rouydad24.ir/fa/news/313568 کدام کشورها اسرائیل را به رسمیت نمی‌شناسند؟]»، خبرگزاری رویداد 24.</ref>
مسلم ممالک اور اسرائیل کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ بہت سے اسلامی ممالک جیسے انڈونیشیا، [[پاکستان]]، [[شام]]، عراق، افغانستان، الجزائر، بنگلہ دیش، کویت، لبنان، لیبیا، ملائیشیا، عمان، قطر، صومالیہ، سعودی عرب، تیونس، یمن اور ایران (اسلامی انقلاب کے بعد) اسرائیلی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔<ref>دهقان، «[https://www.atrakdaily.ir/fa/Main/Page/14505/8/%D9%88%DB%8C%DA%98%D9%87 آشنایی اجمالی با رژیم غاصب کودک‌کش اسرائیل]»، روزنامه اترک، تاریخ 9 اردیبهشت 1401شمسی؛ توفیقی، «[https://www.rouydad24.ir/fa/news/313568 کدام کشورها اسرائیل را به رسمیت نمی‌شناسند؟]»، خبرگزاری رویداد 24۔</ref>


تاہم، اسلامی ممالک کے بعض حکمرانوں نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لایا ہوا ہے۔ مصر، اردن، بحرین، متحدہ عرب امارات، سوڈان اور مراکش سمیت انہی ممالک میں شامل ہیں۔<ref>توفیقی، «[https://www.rouydad24.ir/fa/news/313568 کدام کشورها اسرائیل را به رسمیت نمی‌شناسند؟]»، خبرگزاری رویداد 24.</ref> ترکی کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور باہمی تعاون قائم کرنے والا پہلا مسلم ملک سمجھا جاتا ہے۔ ترکی نے مارچ 1949ء میں اسرائیل کو تسلیم کیا اور سنہ 1952ء میں اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے۔<ref>مؤسسه تحقیقات و پژوهش‌های سیاسی-علمی ندا، مروری بر روابط خارجی رژیم صهیونیستی، 1389ش، ص337.</ref>
تاہم، اسلامی ممالک کے بعض حکمرانوں نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لایا ہوا ہے۔ مصر، اردن، بحرین، متحدہ عرب امارات، سوڈان اور مراکش سمیت انہی ممالک میں شامل ہیں۔<ref>توفیقی، «[https://www.rouydad24.ir/fa/news/313568 کدام کشورها اسرائیل را به رسمیت نمی‌شناسند؟]»، خبرگزاری رویداد 24۔</ref> ترکی کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات اور باہمی تعاون قائم کرنے والا پہلا مسلم ملک سمجھا جاتا ہے۔ ترکی نے مارچ 1949ء میں اسرائیل کو تسلیم کیا اور سنہ 1952ء میں اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے۔<ref>مؤسسه تحقیقات و پژوهش‌های سیاسی-علمی ندا، مروری بر روابط خارجی رژیم صهیونیستی، 1389ش، ص337۔</ref>


مارچ 1950ء میں ایران نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور اس کے ساتھ سیاسی تعلقات قائم کر لیے۔<ref>سویدان، دایرةالمعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391شمسی، ص388.</ref> دو سال بعد جب محمد مصدق اقتدار میں آئے تو ان کی حکومت نے سرکاری طور پر اسرائیل سے تعلقات منقطع کر لیے۔<ref>سویدان، دایرةالمعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391ش، ص388.</ref> محمد رضا پہلوی کی حکومت میں، ایران اور اسرائیل کے درمیان تعلقات دوبارہ شروع ہوئے اور ستمبر1967ء میں اسرائیلی سفارت خانے نے باضابطہ طور پر ایران میں کام کرنا شروع کیا، جو ایرانی اسلامی انقلاب کی کامیابی تک فعال رہا۔<ref>سویدان، دایرةالمعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391شمسی، ص389.</ref> ایران میں 11 فروری 1979ء کو [[اسلامی انقلاب]] کی کامیابی کے ساتھ ہی اسرائیل کے ساتھ ایران کے تعلقات منقطع ہوگئے اور اسرائیلی سفارت خانے کو فلسطینی سفارت خانے میں تبدیل کر دیا گیا۔<ref>رجوع کیجیے: سویدان، دایرة المعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391 شمسی، ص399.</ref>
مارچ 1950ء میں ایران نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور اس کے ساتھ سیاسی تعلقات قائم کر لیے۔<ref>سویدان، دایرةالمعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391شمسی، ص388۔</ref> دو سال بعد جب محمد مصدق اقتدار میں آئے تو ان کی حکومت نے سرکاری طور پر اسرائیل سے تعلقات منقطع کر لیے۔<ref>سویدان، دایرةالمعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391ش، ص388۔</ref> محمد رضا پہلوی کی حکومت میں، ایران اور اسرائیل کے درمیان تعلقات دوبارہ شروع ہوئے اور ستمبر1967ء میں اسرائیلی سفارت خانے نے باضابطہ طور پر ایران میں کام کرنا شروع کیا، جو ایرانی اسلامی انقلاب کی کامیابی تک فعال رہا۔<ref>سویدان، دایرةالمعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391شمسی، ص389۔</ref> ایران میں 11 فروری 1979ء کو [[اسلامی انقلاب]] کی کامیابی کے ساتھ ہی اسرائیل کے ساتھ ایران کے تعلقات منقطع ہوگئے اور اسرائیلی سفارت خانے کو فلسطینی سفارت خانے میں تبدیل کر دیا گیا۔<ref>رجوع کیجیے: سویدان، دایرة المعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391 شمسی، ص399۔</ref>


==اسرائیل میں اسلام اور شیعہ شناسی پر تحقیق کا سلسلہ==
==اسرائیل میں اسلام اور شیعہ شناسی پر تحقیق کا سلسلہ==
شیعہ مذہب اور ایران دو ایسے موضوعات ہیں جن پر اسرائیلی یونیورسٹیوں میں تحقیقی مضامین لکھے جاتے ہیں۔<ref>رضوی، «[https://facultymembers.sbu.ac.ir/k_razavi/marjaiat-studies-in-israeil/ مرجعیت‌پژوهی در اسرائیل]»، وبگاه پرتوی از جامعه ایرانی.</ref> "اسرائیل میں اسلامی مطالعات" نامی کتاب میں آیا ہے کہ اسرائیل نے دنیا کے بہت سے تعلیمی مراکز اور ممتاز شخصیات کو متحرک کر کے اپنی تحقیقی سرگرمیوں کا ایک بڑا حصہ اسلام، اسلامی فرقوں، مسلمانوں اور اسلامی معاشروں کے ساتھ مختص کردیا ہے۔<ref>محمودی، اسلام‌پژوهی در اسرائیل، 1399شمسی، ص302.</ref>
شیعہ مذہب اور ایران دو ایسے موضوعات ہیں جن پر اسرائیلی یونیورسٹیوں میں تحقیقی مضامین لکھے جاتے ہیں۔<ref>رضوی، «[https://facultymembers.sbu.ac.ir/k_razavi/marjaiat-studies-in-israeil/ مرجعیت‌پژوهی در اسرائیل]»، وبگاه پرتوی از جامعه ایرانی۔</ref> "اسرائیل میں اسلامی مطالعات" نامی کتاب میں آیا ہے کہ اسرائیل نے دنیا کے بہت سے تعلیمی مراکز اور ممتاز شخصیات کو متحرک کر کے اپنی تحقیقی سرگرمیوں کا ایک بڑا حصہ اسلام، اسلامی فرقوں، مسلمانوں اور اسلامی معاشروں کے ساتھ مختص کردیا ہے۔<ref>محمودی، اسلام‌پژوهی در اسرائیل، 1399شمسی، ص302۔</ref>
[[ملف:اسلام پژوهی در اسرائیل.jpg|160px|تصغیر|دائیں|اسلام کے بارے میں تحقیق کی کتاب کی تصویر مولف: اکبر محمودی]]
[[ملف:اسلام پژوهی در اسرائیل.jpg|160px|تصغیر|دائیں|اسلام کے بارے میں تحقیق کی کتاب کی تصویر مولف: اکبر محمودی]]
"شیعہ مطالعات" اور "انگریزی زبان شیعہ تحقیق کرنے والے" نامی کتاب کے مطابق بیت المقدس میں واقع اسرائیل کی اہم یونیورسٹیوں میں سے یروشلم کی عبرانی زبان کی یونیورسٹی میں باقاعدہ طور پر شیعہ مذہب کے موضوع پر نظریہ پردازی کی نشستیں منعقد ہوتی ہیں۔<ref>حسینی، شیعه‌ پژوهی و شیعه‌ پژوهان انگلیسی‌زبان، 1387شمسی، ص49.</ref> اسرائیل کی سب سے بڑی یونیورسٹی تل ابیب یونیورسٹی کو اسلام اور شیعہ شناسی کا اہم مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔<ref>«[https://hawzah.net/fa/Magazine/View/4473/4486/34779/ مطالعات  اسلام‌ شناسی و شیعه‌ شناسی در دانشگاه تل آویو]»، پایگاه اطلاع‌ رسانی حوزه.</ref>
"شیعہ مطالعات" اور "انگریزی زبان شیعہ تحقیق کرنے والے" نامی کتاب کے مطابق بیت المقدس میں واقع اسرائیل کی اہم یونیورسٹیوں میں سے یروشلم کی عبرانی زبان کی یونیورسٹی میں باقاعدہ طور پر شیعہ مذہب کے موضوع پر نظریہ پردازی کی نشستیں منعقد ہوتی ہیں۔<ref>حسینی، شیعه‌ پژوهی و شیعه‌ پژوهان انگلیسی‌زبان، 1387شمسی، ص49۔</ref> اسرائیل کی سب سے بڑی یونیورسٹی تل ابیب یونیورسٹی کو اسلام اور شیعہ شناسی کا اہم مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔<ref>«[https://hawzah.net/fa/Magazine/View/4473/4486/34779/ مطالعات  اسلام‌ شناسی و شیعه‌ شناسی در دانشگاه تل آویو]»، پایگاه اطلاع‌ رسانی حوزه۔</ref>


ایتھن کاہلبرگ کی تصنیف "شیعہ امامیہ کا عقیدہ اور فقہ" نامی کتاب،<ref>حسینی، شیعه‌پژوهی و شیعه‌پژوهان انگلیسی‌زبان، 1387ش، ص49؛ محمودی، اسلام‌پژوهی در اسرائیل، 1399شمسی، ص118.</ref> جوزف الیاس کی "شیعہ امامیہ ان کی روایات کی رو سے" نامی کتاب<ref>محمودی، اسلام‌ پژوهی در اسرائیل، 1399شمسی، ص233و306.</ref> اور زابینه اِشْمیتْکِه کی کتاب "شیعہ امامیہ کا کلام، فلسفہ اور عرفان" وہ کتابیں ہیں جو اسرائیل میں شیعہ شناسی کے عنوان پر لکھی گئی ہیں۔ زابینه اِشْمیتْکِه نے سنہ 2002ء میں اسلامی جمہوری ایران کا سالانہ عالمی میڈل انعام دریافت کیا۔<ref>محمودی، اسلام‌ پژوهی در اسرائیل، 1399ش، ص217 و 218.</ref>
ایتھن کاہلبرگ کی تصنیف "شیعہ امامیہ کا عقیدہ اور فقہ" نامی کتاب،<ref>حسینی، شیعه‌پژوهی و شیعه‌پژوهان انگلیسی‌زبان، 1387ش، ص49؛ محمودی، اسلام‌پژوهی در اسرائیل، 1399شمسی، ص118۔</ref> جوزف الیاس کی "شیعہ امامیہ ان کی روایات کی رو سے" نامی کتاب<ref>محمودی، اسلام‌ پژوهی در اسرائیل، 1399شمسی، ص233و306۔</ref> اور زابینه اِشْمیتْکِه کی کتاب "شیعہ امامیہ کا کلام، فلسفہ اور عرفان" وہ کتابیں ہیں جو اسرائیل میں شیعہ شناسی کے عنوان پر لکھی گئی ہیں۔ زابینه اِشْمیتْکِه نے سنہ 2002ء میں اسلامی جمہوری ایران کا سالانہ عالمی میڈل انعام دریافت کیا۔<ref>محمودی، اسلام‌ پژوهی در اسرائیل، 1399ش، ص217 و 218۔</ref>


==مقبوضہ فلسطین میں شیعہ اور شیعہ مقامات کی حالت==
==مقبوضہ فلسطین میں شیعہ اور شیعہ مقامات کی حالت==
مقبوضہ فلسطین میں شیعہ آبادی کی تعداد کے سلسلے میں اسرائیل کی جانب سے کوئی درست اعداد و شمار بتائے نہیں گئے ہیں۔ مقبوضہ القدس کے شماریاتی مرکز نے اعلان کیا ہے کہ سنہ 2007ء میں شیعوں کی تعداد 600 تھی؛ لیکن اس اعداد و شمار کو درست نہیں سمجھا جاتا ہے؛ کیونکہ شیعوں کی ایک بڑی تعداد اسرائیلی سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے پہچانے جانے کے خوف سے اپنے شیعہ ہونے کو چھپاتی ہے۔ یمن ٹی وی کی چینل 7 کی ویب سائٹ نے اسی سال شیعوں کی تعداد 6000 بتائی۔ یہ تعداد 10,000 تک بھی بتائی گئی ہے۔<ref>معتز، «[http://ensani.ir/fa/article/64047/شعیه-در-اسرائیل شیعه در اسرائیل]»، دوهفته‌نامه پگاه حوزه.</ref>
مقبوضہ فلسطین میں شیعہ آبادی کی تعداد کے سلسلے میں اسرائیل کی جانب سے کوئی درست اعداد و شمار بتائے نہیں گئے ہیں۔ مقبوضہ القدس کے شماریاتی مرکز نے اعلان کیا ہے کہ سنہ 2007ء میں شیعوں کی تعداد 600 تھی؛ لیکن اس اعداد و شمار کو درست نہیں سمجھا جاتا ہے؛ کیونکہ شیعوں کی ایک بڑی تعداد اسرائیلی سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے پہچانے جانے کے خوف سے اپنے شیعہ ہونے کو چھپاتی ہے۔ یمن ٹی وی کی چینل 7 کی ویب سائٹ نے اسی سال شیعوں کی تعداد 6000 بتائی۔ یہ تعداد 10,000 تک بھی بتائی گئی ہے۔<ref>معتز، «[http://ensani.ir/fa/article/64047/شعیه-در-اسرائیل شیعه در اسرائیل]»، دوهفته‌نامه پگاه حوزه۔</ref>


کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کے وجود کے اعلان کے بعد سے شیعہ اسرائیل میں رہ رہے ہیں اور "اولاد عبد الرافع" اور "حقیقی شیعیان" جیسے شیعہ گروہ خفیہ طور پر سرگرم ہیں۔<ref>معتز، «[http://ensani.ir/fa/article/64047/شعیه-در-اسرائیل شیعه در اسرائیل]»، دوهفته‌نامه پگاه حوزه.</ref> سنہ 2022ء میں مقبوضہ علاقوں (اسرائیل) میں رہنے والے مسلمانوں کی تعداد ایک میلین سات لاکھ اٹھائیس ہزار بتائی گئی ہے۔<ref>jewish virtual library. ,«[https://www.jewishvirtuallibrary.org/latest-population-statistics-for-israel Vital Statistics: Latest Population Statistics for Israel]»</ref>
کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کے وجود کے اعلان کے بعد سے شیعہ اسرائیل میں رہ رہے ہیں اور "اولاد عبد الرافع" اور "حقیقی شیعیان" جیسے شیعہ گروہ خفیہ طور پر سرگرم ہیں۔<ref>معتز، «[http://ensani.ir/fa/article/64047/شعیه-در-اسرائیل شیعه در اسرائیل]»، دوهفته‌نامه پگاه حوزه۔</ref> سنہ 2022ء میں مقبوضہ علاقوں (اسرائیل) میں رہنے والے مسلمانوں کی تعداد ایک میلین سات لاکھ اٹھائیس ہزار بتائی گئی ہے۔<ref>jewish virtual library. ,«[https://www.jewishvirtuallibrary.org/latest-population-statistics-for-israel Vital Statistics: Latest Population Statistics for Israel]»</ref>


===مقبوضہ فسلطین میں اہل بیتؑ سےمنسوب مقامات===
===مقبوضہ فسلطین میں اہل بیتؑ سےمنسوب مقامات===
[[ملف:زیارتگاه رأس الحسین در عسقلان فلسطین.jpg|220px|تصغیر|دائیں|زیارت گاه [[مقام رأس الحسین (عسقلان)|مقام رأس‌الحسین (عسقلان)]] فلسطین۔]]
[[ملف:زیارتگاه رأس الحسین در عسقلان فلسطین.jpg|220px|تصغیر|دائیں|زیارت گاه [[مقام رأس الحسین (عسقلان)|مقام رأس‌الحسین (عسقلان)]] فلسطین۔]]
[[مقام رأس الحسین (عسقلان)|عسقلان میں مقام راس الحسین]] اسرائیل میں موجود شیعہ مراکز میں سے ایک ہے جسے بعض محققین مقبوضہ فلسطین میں [[اہل بیتؑ]] سے منسوب سب سے اہم اور مشہور زیارت گاہ سمجھتے ہیں۔<ref>خامه‌ یار، «مزارات اهل‌بیت پیامبر(ص) در اردن و فلسطین اشغالی»، ص183.</ref> اس مقام کی شہرت اور اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ ایک قول کے مطابق [[امام حسینؑ]] کا سر مبارک یہاں [[دفن|مدفون]] ہے۔<ref>خامه‌ یار، «مزارات اهل‌بیت پیامبر(ص) در اردن و فلسطین اشغالی»، ص183.</ref>  کہا جاتا ہے کہ امام حسینؑ کا سر مبارک چھٹی صدی ہجری کے وسط میں قاہرہ منتقل کیا گیا تھا؛ لیکن عسقلان میں [[مقام رأس الحسین (عسقلان)|مقام راس الحسینؑ]] کا احترام اسی طرح باقی رہا اور لوگ اس کی [[زیارت]] کرتے ہیں۔<ref>خامه‌ یار، «مزارات اهل‌بیت پیامبر(ص) در اردن و فلسطین اشغالی»، ص184.</ref>
[[مقام رأس الحسین (عسقلان)|عسقلان میں مقام راس الحسین]] اسرائیل میں موجود شیعہ مراکز میں سے ایک ہے جسے بعض محققین مقبوضہ فلسطین میں [[اہل بیتؑ]] سے منسوب سب سے اہم اور مشہور زیارت گاہ سمجھتے ہیں۔<ref>خامه‌ یار، «مزارات اهل‌بیت پیامبر(ص) در اردن و فلسطین اشغالی»، ص183۔</ref> اس مقام کی شہرت اور اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ ایک قول کے مطابق [[امام حسینؑ]] کا سر مبارک یہاں [[دفن|مدفون]] ہے۔<ref>خامه‌ یار، «مزارات اهل‌بیت پیامبر(ص) در اردن و فلسطین اشغالی»، ص183۔</ref>  کہا جاتا ہے کہ امام حسینؑ کا سر مبارک چھٹی صدی ہجری کے وسط میں قاہرہ منتقل کیا گیا تھا؛ لیکن عسقلان میں [[مقام رأس الحسین (عسقلان)|مقام راس الحسینؑ]] کا احترام اسی طرح باقی رہا اور لوگ اس کی [[زیارت]] کرتے ہیں۔<ref>خامه‌ یار، «مزارات اهل‌بیت پیامبر(ص) در اردن و فلسطین اشغالی»، ص184۔</ref>


یہاں بہت سے مقامات [[امام علیؑ]] سے بھی منسوب ہیں؛ منجملہ قدس سے یافا جاتے ہوئے راستے میں (تل ابیب) میں مقام و زیارت گاہ امام علیؑ، ابھی اسے منہدم کردیا گیا ہے، شہر نابلس، عَکّا اور لُد میں مقام امام علیؑ ان میں سے نابلس شہر، ایکر شہر اور لود شہر میں امام علی (ع) کا مقام ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے: خامه‌ یار، «مزارات اهل‌ بیت پیامبر(ص) در اردن و فلسطین اشغالی»، ص182 و 183؛ «[https://www.razavi.news/fa/interview/42184 از آثار اسلامی و زیارتی اهل‌بیت(ع) در فلسطین چه می‌دانیم؟]»، خبرگزاری رضوی.</ref> شہر الخلیل میں [[فاطمہ بنت الحسین|فاطمہ بنت الحسینؑ]] سے منسوب ایک قبر ہے، اسی طرح شہر طبریہ میں ایک اور مقبرہ ہے جو [[سکینہ بنت الحسین]] سے منسوب ہے۔<ref>خامه‌ یار، «مزارات اهل‌ بیت پیامبر(ص) در اردن و فلسطین اشغالی»، ص185و186.</ref>
یہاں بہت سے مقامات [[امام علیؑ]] سے بھی منسوب ہیں؛ منجملہ قدس سے یافا جاتے ہوئے راستے میں (تل ابیب) میں مقام و زیارت گاہ امام علیؑ، ابھی اسے منہدم کردیا گیا ہے، شہر نابلس، عَکّا اور لُد میں مقام امام علیؑ ان میں سے نابلس شہر، ایکر شہر اور لود شہر میں امام علی (ع) کا مقام ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے: خامه‌ یار، «مزارات اهل‌ بیت پیامبر(ص) در اردن و فلسطین اشغالی»، ص182 و 183؛ «[https://www.razavi.news/fa/interview/42184 از آثار اسلامی و زیارتی اهل‌بیت(ع) در فلسطین چه می‌دانیم؟]»، خبرگزاری رضوی۔</ref> شہر الخلیل میں [[فاطمہ بنت الحسین|فاطمہ بنت الحسینؑ]] سے منسوب ایک قبر ہے، اسی طرح شہر طبریہ میں ایک اور مقبرہ ہے جو [[سکینہ بنت الحسین]] سے منسوب ہے۔<ref>خامه‌ یار، «مزارات اهل‌ بیت پیامبر(ص) در اردن و فلسطین اشغالی»، ص185و186۔</ref>


==فلسطین پر قبضہ اور اسرائیلی ریاست کا باقاعدہ اعلان==
==فلسطین پر قبضہ اور اسرائیلی ریاست کا باقاعدہ اعلان==
14 مئی 1948ء کو فلسطین پر برطانوی تسلط کے خاتمے کے ساتھ،<ref>کفاش و دیگران، دایرة‌المعارف مصور تاریخ فلسطین، 1392ش، ص186؛‌ ,Sicherman and others «[https://www.britannica.com/place/Israel Israel]», The Encyclopaedia Britannica.</ref> اسرائیلی ریاست کے بانی اور اس کے باپ ڈیوڈ بین گوریون<ref>مهتدی، «بن گوریون،‌دیوید»، ص356.</ref> نے تل ابیب کے جلسہ گاہ میں اسرائیل کی آزادی اور قیام کا اعلان کیا۔<ref>سویدان، دایره المعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391ش، ص261؛ کفاش و دیگران، دایرة‌المعارف مصور تاریخ فلسطین، 1392ش، ص186.</ref> اس کے بعد فلسطین پر سرکاری قبضہ شروع ہوگیا۔<ref>«[https://www.farsnews.ir/news/14020224000354/ روز نکبت و جنایات صهیونیست‌ها از سال 1948 تا به الان]»،‌ خبرگزاری فارس.</ref>
14 مئی 1948ء کو فلسطین پر برطانوی تسلط کے خاتمے کے ساتھ،<ref>کفاش و دیگران، دایرة‌المعارف مصور تاریخ فلسطین، 1392ش، ص186؛‌ ,Sicherman and others «[https://www.britannica.com/place/Israel Israel]», The Encyclopaedia Britannica۔</ref> اسرائیلی ریاست کے بانی اور اس کے باپ ڈیوڈ بین گوریون<ref>مهتدی، «بن گوریون،‌دیوید»، ص356۔</ref> نے تل ابیب کے جلسہ گاہ میں اسرائیل کی آزادی اور قیام کا اعلان کیا۔<ref>سویدان، دایره المعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391ش، ص261؛ کفاش و دیگران، دایرة‌المعارف مصور تاریخ فلسطین، 1392ش، ص186۔</ref> اس کے بعد فلسطین پر سرکاری قبضہ شروع ہوگیا۔<ref>«[https://www.farsnews.ir/news/14020224000354/ روز نکبت و جنایات صهیونیست‌ها از سال 1948 تا به الان]»،‌ خبرگزاری فارس۔</ref>
[[ملف:روند اشغال فلسطین توسط اسرائیل.jpg|220px|تصغیر|بائیں|اسرائیل کے سنہ 1917ء سے 2020ء تک [[فلسطین]] پر قبضے کا عمل۔ سفید رنگ: مقبوضہ علاقے۔]]
[[ملف:روند اشغال فلسطین توسط اسرائیل.jpg|220px|تصغیر|بائیں|اسرائیل کے سنہ 1917ء سے 2020ء تک [[فلسطین]] پر قبضے کا عمل۔ سفید رنگ: مقبوضہ علاقے۔]]
اسرائیلی ریاست کے اعلان کے ایک دن بعد، پانچ عرب ممالک (مصر، لبنان، شام، اردن اور عراق)<ref>صفاتاج، ماجرای فلسطین و اسرائیل، 1381ش، ص199؛ کفاش و دیگران، دایرة‌المعارف مصور تاریخ فلسطین، 1392شمسی، ص187.</ref> کی فوجیں فلسطین کے تحفظ کے لیے اسرائیل کے ساتھ جنگ لڑی۔<ref>[https://www.aljazeera.com/news/2022/5/15/nakba-mapping-palestinian-villages-destroyed-by-israel-in-1948 Nakba Day: What happened in Palestine in 1948?]», Al Jazeera Media Network.</ref> اس جنگ کے بعد مقبوضہ علاقے %78 تک پہنچ گئے۔<ref>کفاش و دیگران، دایرة‌المعارف مصور تاریخ فلسطین، 1392ش، ص201؛  صفاتاج، ماجرای فلسطین و اسرائیل، 1381ش، ص202؛ Nakba Day: What happened in Palestine in 1948?», Al Jazeera Media Network.</ref>
اسرائیلی ریاست کے اعلان کے ایک دن بعد، پانچ عرب ممالک (مصر، لبنان، شام، اردن اور عراق)<ref>صفاتاج، ماجرای فلسطین و اسرائیل، 1381ش، ص199؛ کفاش و دیگران، دایرة‌المعارف مصور تاریخ فلسطین، 1392شمسی، ص187۔</ref> کی فوجیں فلسطین کے تحفظ کے لیے اسرائیل کے ساتھ جنگ لڑی۔<ref>[https://www.aljazeera.com/news/2022/5/15/nakba-mapping-palestinian-villages-destroyed-by-israel-in-1948 Nakba Day: What happened in Palestine in 1948?]», Al Jazeera Media Network۔</ref> اس جنگ کے بعد مقبوضہ علاقے %78 تک پہنچ گئے۔<ref>کفاش و دیگران، دایرة‌المعارف مصور تاریخ فلسطین، 1392ش، ص201؛  صفاتاج، ماجرای فلسطین و اسرائیل، 1381ش، ص202؛ Nakba Day: What happened in Palestine in 1948?», Al Jazeera Media Network۔</ref>


میڈیا رپورٹس کے مطابق سنہ 2023ء تک فلسطینیوں کی زمین کا 15 فیصد سے بھی کم حصہ (بشمول غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے علاقے) فلسطینیوں کے ہاتھ میں باقی رہا اور دیگر علاقوں پر صیہونیوں نے قبضہ کر لیا۔<ref>«[https://fa.alalam.ir/news/6723238 نقشه فلسطین و مساحت غزه]»، شبکه العالم؛ «[https://farsi.palinfo.com/news/2023/5/15/75-سال-از-فاجعه-ن-بت-اشغال-فلسط-%D9%86-%D8%B0%D8%B4%D8%AA 75 سال از فاجعه نکبت (اشغال فلسطین) گذشت]»، مرکز اطلاع‌رسانی فلسطین.</ref>
میڈیا رپورٹس کے مطابق سنہ 2023ء تک فلسطینیوں کی زمین کا 15 فیصد سے بھی کم حصہ (بشمول غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے علاقے) فلسطینیوں کے ہاتھ میں باقی رہا اور دیگر علاقوں پر صیہونیوں نے قبضہ کر لیا۔<ref>«[https://fa.alalam.ir/news/6723238 نقشه فلسطین و مساحت غزه]»، شبکه العالم؛ «[https://farsi.palinfo.com/news/2023/5/15/75-سال-از-فاجعه-ن-بت-اشغال-فلسط-%D9%86-%D8%B0%D8%B4%D8%AA 75 سال از فاجعه نکبت (اشغال فلسطین) گذشت]»، مرکز اطلاع‌رسانی فلسطین۔</ref>


اسرائیلی ریاست کے اعلان کے دن کو فلسطینیوں میں "یوم نکبت" یا "یوم فاجعہ" کے نام سے جانا جاتا ہے اور وہ ہر سال اس دن کی مذمت کرتے ہیں اور اس موقع پر مظاہرے بھی کرتے ہیں۔<ref>Ashly and Hefawi, «[https://www.aljazeera.com/features/2017/5/15/nakba-it-remains-bitter-and-continues-to-burn Nakba: ‘It remains bitter and continues to burn’]», Al Jazeera Media Network؛ «[https://www.aa.com.tr/fa/خاورمیانه/تظاهرات-مردم-فلسطین-به-مناسبت-روز-نکبت-/2588689 تظاهرات مردم فلسطین به مناسبت روز نکبت]»، خبرگزاری آناتولی.</ref> بیت المقدس اور فلسطین پر بے جا قبضہ کرنے کی وجہ سے اسرائیل غاصب حکومت کے طور پر جانا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے:‌ خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج15، ص151، 154، 160 و162، ج16، ص399؛ محتشمی‌پور، «مروری بر شکل‌گیری رژیم اشغالگر قدس»، ص100،‌ 116 و 122.</ref>[[ملف:کوج اجباری مردم فلسطین از خانه‌های خود در ۱۹۴۸م.jpg|200px|تصغیر|دائیں|سنہ 1948ء میں فلسطینی عوام کو اپنے گھروں سے جبری جلاوطن کردیا گیا،]] [[ملف:اشغال فلسطین.mp4|200px|تصغیر|فلسطین پر قبضہ سنہ 1880ء سے  2020ء تک۔]][[ملف:اعلام موجودیت اسرائیل در ۱۴ می ۱۹۴۸م توسط بن گوریون.jpg|200px|تصغیر|درمیان|[[14 مئی]] سنہ 1948ء کو بین گوریون نے تل ابیب کےاسمبلی ہال میں اسرائیل کے وجود کا اعلان کیا۔]]
اسرائیلی ریاست کے اعلان کے دن کو فلسطینیوں میں "یوم نکبت" یا "یوم فاجعہ" کے نام سے جانا جاتا ہے اور وہ ہر سال اس دن کی مذمت کرتے ہیں اور اس موقع پر مظاہرے بھی کرتے ہیں۔<ref>Ashly and Hefawi, «[https://www.aljazeera.com/features/2017/5/15/nakba-it-remains-bitter-and-continues-to-burn Nakba: ‘It remains bitter and continues to burn’]», Al Jazeera Media Network؛ «[https://www.aa.com.tr/fa/خاورمیانه/تظاهرات-مردم-فلسطین-به-مناسبت-روز-نکبت-/2588689 تظاهرات مردم فلسطین به مناسبت روز نکبت]»، خبرگزاری آناتولی۔</ref> بیت المقدس اور فلسطین پر بے جا قبضہ کرنے کی وجہ سے اسرائیل غاصب حکومت کے طور پر جانا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے:‌ خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج15، ص151، 154، 160 و162، ج16، ص399؛ محتشمی‌پور، «مروری بر شکل‌گیری رژیم اشغالگر قدس»، ص100،‌ 116 و 122۔</ref>[[ملف:کوج اجباری مردم فلسطین از خانه‌های خود در ۱۹۴۸م.jpg|200px|تصغیر|دائیں|سنہ 1948ء میں فلسطینی عوام کو اپنے گھروں سے جبری جلاوطن کردیا گیا،]] [[ملف:اشغال فلسطین.mp4|200px|تصغیر|فلسطین پر قبضہ سنہ 1880ء سے  2020ء تک۔]][[ملف:اعلام موجودیت اسرائیل در ۱۴ می ۱۹۴۸م توسط بن گوریون.jpg|200px|تصغیر|درمیان|[[14 مئی]] سنہ 1948ء کو بین گوریون نے تل ابیب کےاسمبلی ہال میں اسرائیل کے وجود کا اعلان کیا۔]]


===اسرائیلی ریاست کےاعلان کے بعد برآمد شدہ نتائج===
===اسرائیلی ریاست کےاعلان کے بعد برآمد شدہ نتائج===
باقاعدہ طور پر اسرائیلی ریاست کے اعلان اور فلسطین پر اس کے قبضے کے بعد [[فلسطین]] اور عالم اسلام پر مختلف قسم کے اثرات مرتب ہوئے جن میں سے کچھ یہ ہیں:
باقاعدہ طور پر اسرائیلی ریاست کے اعلان اور فلسطین پر اس کے قبضے کے بعد [[فلسطین]] اور عالم اسلام پر مختلف قسم کے اثرات مرتب ہوئے جن میں سے کچھ یہ ہیں:


'''فلسطینیوں کا قتل عام اور بے گھر ہونا''': مرکز اطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1948ء سے 2023ء تک اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔<ref>«[https://farsi.palinfo.com/news/2023/5/15/75-سال-از-فاجعه-ن-بت-اشغال-فلسط-ن-ذشت 75 سال از فاجعه نکبت (اشغال فلسطین) گذشت]»، مرکز اطلاع‌رسانی فلسطین.</ref> اس مرکز نے "آنروا" کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ سنہ 2020ء تک فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد 6.4 ملین تک پہنچی ہے۔<ref>«[https://farsi.palinfo.com/news/2023/5/15/75-سال-از-فاجعه-ن-بت-اشغال-فلسط-ن-ذشت 75 سال از فاجعه نکبت (اشغال فلسطین) گذشت]»، مرکز اطلاع‌رسانی فلسطین.</ref>
'''فلسطینیوں کا قتل عام اور بے گھر ہونا''': مرکز اطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1948ء سے 2023ء تک اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے نتیجے میں ایک لاکھ سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔<ref>«[https://farsi.palinfo.com/news/2023/5/15/75-سال-از-فاجعه-ن-بت-اشغال-فلسط-ن-ذشت 75 سال از فاجعه نکبت (اشغال فلسطین) گذشت]»، مرکز اطلاع‌رسانی فلسطین۔</ref> اس مرکز نے "آنروا" کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ سنہ 2020ء تک فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد 6.4 ملین تک پہنچی ہے۔<ref>«[https://farsi.palinfo.com/news/2023/5/15/75-سال-از-فاجعه-ن-بت-اشغال-فلسط-ن-ذشت 75 سال از فاجعه نکبت (اشغال فلسطین) گذشت]»، مرکز اطلاع‌رسانی فلسطین۔</ref>


'''مزاحمتی تحریک کی تشکیل اور عوامی قیام کا سلسلہ''': اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر قبضے کے بعد یہاں اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں مختلف تحریکیں اور مزاحمتی تنظیمیں وجود میں آئیں، سنہ 1959ء میں تحریک فتح تشکیل پائی،<ref>کفاش و دیگران، دایر‌ة المعارف مصور تاریخ فلسطین،‌ 1392شمسی، ص210.</ref> سنہ 1964ء میں تنظیم آزادی فلسطین کی بنیاد رکھی گئی،<ref>کفاش و دیگران، دایر‌ة المعارف مصور تاریخ فلسطین،‌ 1392شمسی، ص212.</ref> سنہ 1979ء میں [[تحریک جہاد اسلامی فلسطین]] بنی،<ref>مالکی و رشیدی، «جهاد اسلامی، جنبش»، ص437.</ref> اور سنہ  1987ء میں [[حماس]] بنا۔<ref>مالکی، «حماس، جنبش»، ص79 و 80.</ref> اسی طرح سنہ 1975ء کو لبنان میں تحریک امل<ref>خسروشاهی، «[https://www.rahe-hadi.ir/fa/article/5/جنبش-امل-و-امام-موسی-صدر-(قسمت-دوم) جنبش امل و امام موسی صدر (قسمت دوم)]»، دفتر حفظ و نشر آثار و اندیشه‌های استاد سیدهادی خسروشاهی.</ref> اور سنہ 1982ء میں [[حزب اللہ لبنان]] وجود میں آئی۔<ref>توفیقیان، «[http://pajoohe.ir/حزب-الله-نماد-عزت-و-اقتدار-لبنان__a-31547.aspx حزب الله نماد عزت و اقتدار لبنان]»، وبگاه پژوهه.</ref> یہ ساری تحریکیں اور تنظیمیں اسرائیل مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے وجود میں آئیں۔
'''مزاحمتی تحریک کی تشکیل اور عوامی قیام کا سلسلہ''': اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر قبضے کے بعد یہاں اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں مختلف تحریکیں اور مزاحمتی تنظیمیں وجود میں آئیں، سنہ 1959ء میں تحریک فتح تشکیل پائی،<ref>کفاش و دیگران، دایر‌ة المعارف مصور تاریخ فلسطین،‌ 1392شمسی، ص210۔</ref> سنہ 1964ء میں تنظیم آزادی فلسطین کی بنیاد رکھی گئی،<ref>کفاش و دیگران، دایر‌ة المعارف مصور تاریخ فلسطین،‌ 1392شمسی، ص212۔</ref> سنہ 1979ء میں [[تحریک جہاد اسلامی فلسطین]] بنی،<ref>مالکی و رشیدی، «جهاد اسلامی، جنبش»، ص437۔</ref> اور سنہ  1987ء میں [[حماس]] بنا۔<ref>مالکی، «حماس، جنبش»، ص79 و 80۔</ref> اسی طرح سنہ 1975ء کو لبنان میں تحریک امل<ref>خسروشاهی، «[https://www.rahe-hadi.ir/fa/article/5/جنبش-امل-و-امام-موسی-صدر-(قسمت-دوم) جنبش امل و امام موسی صدر (قسمت دوم)]»، دفتر حفظ و نشر آثار و اندیشه‌های استاد سیدهادی خسروشاهی۔</ref> اور سنہ 1982ء میں [[حزب اللہ لبنان]] وجود میں آئی۔<ref>توفیقیان، «[http://pajoohe.ir/حزب-الله-نماد-عزت-و-اقتدار-لبنان__a-31547.aspx حزب الله نماد عزت و اقتدار لبنان]»، وبگاه پژوهه۔</ref> یہ ساری تحریکیں اور تنظیمیں اسرائیل مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے وجود میں آئیں۔


فلسطینی عوام نے اپنی سرزمین پر قبضے کے دوران کئی بار اسرائیل کے خلاف قیام کیا۔<ref>«[https://irdc.ir/fa/news/8317/مروری-بر-تاریخ-مبارزات-مردمی-فلسطین-از-1967-تا-2022 مروری بر تاریخ مبارزات مردمی فلسطین از 1967 تا 2022]»، وبگاه مرکز اسناد انقلاب اسلامی.</ref> فلسطین میں بھی تین تین اسم کی انقلابی تحریکیں وجود میں آئیں: پہلا انتفاضہ (پتھر کا انتفاضہ) سنہ 1987ء  میں بنا، دوسرا انتفاضہ (الاقصی انتفاضہ) ستمبر 2000ء میں وجود میں آیا اور تیسرا انتفاضہ (قدس انتفاضہ) یکم اکتوبر2015ء کو بنا۔<ref>«[https://irdc.ir/fa/news/8317/مروری-بر-تاریخ-مبارزات-مردمی-فلسطین-از-1967-تا-2022 مروری بر تاریخ مبارزات مردمی فلسطین از 1967 تا 2022]»، وبگاه مرکز اسناد انقلاب اسلامی.</ref>
فلسطینی عوام نے اپنی سرزمین پر قبضے کے دوران کئی بار اسرائیل کے خلاف قیام کیا۔<ref>«[https://irdc.ir/fa/news/8317/مروری-بر-تاریخ-مبارزات-مردمی-فلسطین-از-1967-تا-2022 مروری بر تاریخ مبارزات مردمی فلسطین از 1967 تا 2022]»، وبگاه مرکز اسناد انقلاب اسلامی۔</ref> فلسطین میں بھی تین تین اسم کی انقلابی تحریکیں وجود میں آئیں: پہلا انتفاضہ (پتھر کا انتفاضہ) سنہ 1987ء  میں بنا، دوسرا انتفاضہ (الاقصی انتفاضہ) ستمبر 2000ء میں وجود میں آیا اور تیسرا انتفاضہ (قدس انتفاضہ) یکم اکتوبر2015ء کو بنا۔<ref>«[https://irdc.ir/fa/news/8317/مروری-بر-تاریخ-مبارزات-مردمی-فلسطین-از-1967-تا-2022 مروری بر تاریخ مبارزات مردمی فلسطین از 1967 تا 2022]»، وبگاه مرکز اسناد انقلاب اسلامی۔</ref>


==اسرائیل کی بنیاد رکھنے کے اغراض و مقاصد==
==اسرائیل کی بنیاد رکھنے کے اغراض و مقاصد==
[[ملف:حفاری در انتهای صحن براق، نمونه‌ای از حفاری‌های رژیم صهیونیستی در زیر قدس و مسجد الاقصی.jpg|250px|تصغیر|دائیں|صحن براق کے آخری کونے میں کھدائی، ہیکل سلیمانی کی دریافت اور تعمیر نو کے لیے قدس اور [[مسجد اقصی]] کے نیچے صیہونی حکومت کی کھدائی کی ایک مثال۔]]
[[ملف:حفاری در انتهای صحن براق، نمونه‌ای از حفاری‌های رژیم صهیونیستی در زیر قدس و مسجد الاقصی.jpg|250px|تصغیر|دائیں|صحن براق کے آخری کونے میں کھدائی، ہیکل سلیمانی کی دریافت اور تعمیر نو کے لیے قدس اور [[مسجد اقصی]] کے نیچے صیہونی حکومت کی کھدائی کی ایک مثال۔]]
اسرائیلی ریاست کی بنیاد رکھنے کا اہم ترین ہدف یہ تھا کہ یہاں یہودی شناخت اور مشرق وسطیٰ میں علاقائی سپر پاور کے حامل ایک ملک کا قیام عمل میں لایا جائے جسے گریٹر اسرائیل(Greater Israel) کا نام دیا گیا۔<ref>نگاه کنید به: صفاتاج، ماجرای فلسطین و اسرائیل، 1381شمسی، ص164؛ «[https://www.farsnews.ir/news/14010828000595/ رؤیای صهیونیست‌ها در تأسیس اسرائیل بزرگ چگونه بر باد رفت؟]»، خبرگزاری فارس: خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج21، ص398، پاورقی دوم.</ref> ایک فرانسیسی مصنف اور سیاست دان راجر گاراڈی(Roger Garaudy) کا خیال ہے کہ صہیونیوں کا بنیادی ہدف تمام یہودیوں کی "ارض موعود" کی طرف ہجرت کرنا<ref>گارودی، محاکمه صهیونیزم اسرائیل،‌ 1384شمسی، ص41.</ref> اور فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام ہے۔<ref>گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص75و76 و 82؛ گارودی، محاکمه صهیونیزم اسرائیل،‌ 1384شمسی، ص66.</ref> [[امام خمینی]] کے مطابق فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا واحد مقصد عالم اسلام پر غلبہ حاصل کرنا اور اسلامی سرزمینوں کو استعماری طاقت کا آماجگاہ بنانا تھا۔<ref>خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج3، ص2.</ref>
اسرائیلی ریاست کی بنیاد رکھنے کا اہم ترین ہدف یہ تھا کہ یہاں یہودی شناخت اور مشرق وسطیٰ میں علاقائی سپر پاور کے حامل ایک ملک کا قیام عمل میں لایا جائے جسے گریٹر اسرائیل(Greater Israel) کا نام دیا گیا۔<ref>نگاه کنید به: صفاتاج، ماجرای فلسطین و اسرائیل، 1381شمسی، ص164؛ «[https://www.farsnews.ir/news/14010828000595/ رؤیای صهیونیست‌ها در تأسیس اسرائیل بزرگ چگونه بر باد رفت؟]»، خبرگزاری فارس: خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج21، ص398، پاورقی دوم۔</ref> ایک فرانسیسی مصنف اور سیاست دان راجر گاراڈی(Roger Garaudy) کا خیال ہے کہ صہیونیوں کا بنیادی ہدف تمام یہودیوں کی "ارض موعود" کی طرف ہجرت کرنا<ref>گارودی، محاکمه صهیونیزم اسرائیل،‌ 1384شمسی، ص41۔</ref> اور فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام ہے۔<ref>گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص75و76 و 82؛ گارودی، محاکمه صهیونیزم اسرائیل،‌ 1384شمسی، ص66۔</ref> [[امام خمینی]] کے مطابق فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا واحد مقصد عالم اسلام پر غلبہ حاصل کرنا اور اسلامی سرزمینوں کو استعماری طاقت کا آماجگاہ بنانا تھا۔<ref>خمینی، صحیفه امام، 1389شمسی، ج3، ص2۔</ref>


==اسرائیل کے قیام کی صہیونی وجوہات==
==اسرائیل کے قیام کی صہیونی وجوہات==
{{جعبه نقل قول|عنوان=[[مرتضی مطہری]]|نویسنده=|نقل قول="وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تین ہزار سال پہلے، ہم میں سے دو افراد [داؤد اور سلیمان] نے وہاں ایک عارضی مدت کے لیے حکومت کی۔۔۔ ان تمام دو تین ہزار سالوں میں، فلسطین کی سرزمین یہودیوں سے متعلق کب ہوئی؟۔۔۔ نہ اسلام سے پہلے ان کا تھا اور نہ اسلام کے بعد۔ جس دن مسلمانوں نے فلسطین کو فتح کیا اس دوران فلسطین یہودیوں کے ہاتھ میں نہیں عیسائیوں کے ہاتھ میں تھا۔ اتفاق کی بات یہ کہ عیسائیوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کی، جو چیز انہوں نے امن معاہدے میں شامل کی تھی وہ یہ تھی کہ تم یہودیوں کو یہاں نہ آنے دو۔ ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اچانک سے اس جگہے کا نام یہودیوں کے وطن کا نام کیسے پڑ گیا؟"<ref>مطهری، مجموعه آثار، 1390شمسی، ج17،‌ ص288.</ref>|منبع=|تراز=چپ|پس‌زمینه=#fef1fb|عرض=250px|حاشیه=|اندازه قلم=14px}}
{{جعبه نقل قول|عنوان=[[مرتضی مطہری]]|نویسنده=|نقل قول="وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ تین ہزار سال پہلے، ہم میں سے دو افراد [داؤد اور سلیمان] نے وہاں ایک عارضی مدت کے لیے حکومت کی۔۔۔ ان تمام دو تین ہزار سالوں میں، فلسطین کی سرزمین یہودیوں سے متعلق کب ہوئی؟۔۔۔ نہ اسلام سے پہلے ان کا تھا اور نہ اسلام کے بعد۔ جس دن مسلمانوں نے فلسطین کو فتح کیا اس دوران فلسطین یہودیوں کے ہاتھ میں نہیں عیسائیوں کے ہاتھ میں تھا۔ اتفاق کی بات یہ کہ عیسائیوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کی، جو چیز انہوں نے امن معاہدے میں شامل کی تھی وہ یہ تھی کہ تم یہودیوں کو یہاں نہ آنے دو۔ ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اچانک سے اس جگہے کا نام یہودیوں کے وطن کا نام کیسے پڑ گیا؟"<ref>مطهری، مجموعه آثار، 1390شمسی، ج17،‌ ص288۔</ref>|منبع=|تراز=چپ|پس‌زمینه=#fef1fb|عرض=250px|حاشیه=|اندازه قلم=14px}}
صیہونیوں نے فلسطین پر قبضہ کرنے اور وہاں اسرائیل کی ریاست قائم کرنے کے چند قسم کے اسباب اور جواز پیش کیے ہیں، جنہیں اسرائیلی دیومالائی کہانی یا اسرائیل کا افسانہ بھی کہا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے: گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص 13-17، 33، 35 و 47-50؛ پاپه، ایده اسرائیل، 1398شمسی، ص152.</ref> ان اسباب و وجوہات میں سے کچھ مذہبی پہلو کے حامل ہیں جبکہ دیگر کچھ  غیر مذہبی پہلو رکھتے ہیں: ان کا ایک مذہبی پہلو یہ ہے کہ صیہونیوں کے مطابق فلسطین "ارض موعود" ہے<ref>فیروزآبادی، کشف الاسرار صهیونیسم، ‌1393شمسی، ص25؛ سجادی، پیدایش و تداوم صهیونیسم، 1386شمسی، ص45.</ref> جس کا سِفْر پیدائش{{نوٹ|«اس دن یَهُوَه نے اِبْرام کے ساتھ عہد باندھا اور کہا: میں نے یہ ملک مصر کے دریا سے لے کر دریائے فرات تک تیری اولاد کو بخش دیا ہے»۔(عهد عتیق، سفر پیدایش، باب 15، آیه 18.)}} میں اس زمین کو اولاد ابراہیمؑ کو بخشے جانے کے بارے میں ذکر آیا ہے۔<ref>گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص37و38 و 187.</ref> صیہونیوں کے مطابق، اس سرزمین سے دوسروں کو بے دخل کرنا جس کا صرف بعض لوگوں سے وعدہ کیا گیا تھا، نہ صرف ایک حق ہے بلکہ ایک فرض بھی ہے۔<ref>گارودی، محاکمه صهیونیزم اسرائیل،‌ 1384شمسی، ص41.</ref>
صیہونیوں نے فلسطین پر قبضہ کرنے اور وہاں اسرائیل کی ریاست قائم کرنے کے چند قسم کے اسباب اور جواز پیش کیے ہیں، جنہیں اسرائیلی دیومالائی کہانی یا اسرائیل کا افسانہ بھی کہا جاتا ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے: گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص 13-17، 33، 35 و 47-50؛ پاپه، ایده اسرائیل، 1398شمسی، ص152۔</ref> ان اسباب و وجوہات میں سے کچھ مذہبی پہلو کے حامل ہیں جبکہ دیگر کچھ  غیر مذہبی پہلو رکھتے ہیں: ان کا ایک مذہبی پہلو یہ ہے کہ صیہونیوں کے مطابق فلسطین "ارض موعود" ہے<ref>فیروزآبادی، کشف الاسرار صهیونیسم، ‌1393شمسی، ص25؛ سجادی، پیدایش و تداوم صهیونیسم، 1386شمسی، ص45۔</ref> جس کا سِفْر پیدائش{{نوٹ|«اس دن یَهُوَه نے اِبْرام کے ساتھ عہد باندھا اور کہا: میں نے یہ ملک مصر کے دریا سے لے کر دریائے فرات تک تیری اولاد کو بخش دیا ہے»۔(عهد عتیق، سفر پیدایش، باب 15، آیه 18.)}} میں اس زمین کو اولاد ابراہیمؑ کو بخشے جانے کے بارے میں ذکر آیا ہے۔<ref>گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص37و38 و 187۔</ref> صیہونیوں کے مطابق، اس سرزمین سے دوسروں کو بے دخل کرنا جس کا صرف بعض لوگوں سے وعدہ کیا گیا تھا، نہ صرف ایک حق ہے بلکہ ایک فرض بھی ہے۔<ref>گارودی، محاکمه صهیونیزم اسرائیل،‌ 1384شمسی، ص41۔</ref>


ہولوکاسٹ کا واقعہ صہیونیوں کی غیر مذہبی وجوہات میں سے ایک ہے اور وہ اسے اسرائیل کی ریاست کے قیام کا جواز بلکہ بنیادی وجہ سمجھتے ہیں؛<ref>گارودی، محاکمه صهیونیزم اسرائیل،‌ 1384ش، ص76.</ref> یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کی ریاست کا قیام اللہ کی جانب سے ایک عظیم قربانی کا بدلہ تھا۔<ref>گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص171.</ref> یہودیوں کا خیال ہے کہ اس واقعہ میں دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے ہاتھوں چھ لاکھ یہودی مارے گئے تھے۔<ref>سویدان، دایره المعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391شمسی، ص297.</ref> یہ واقعہ صیہونیوں کو اپنے ظلم و ستم کا رونا رونے اور عالمی برادری سے اس کی تلافی کے مطالبے کا سبب بنا۔ یورپی ممالک بھی اس نقصان کی تلافی کے بہانے ان کے لیے ایک آزاد حکومت قائم کرنے فکرمند ہوگئے۔<ref>فیروزآبادی، کشف الاسرار صهیونیسم،‌1393شمسی، ص28.</ref> تاہم، اس معاملے کے ناقدین یہودیوں کے اس دعوے اور ان کی موت سے متعلق اعداد و شمار کو مسترد کرتے ہیں۔<ref>سویدان، دایره المعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391شمسی، ص297و298.</ref>
ہولوکاسٹ کا واقعہ صہیونیوں کی غیر مذہبی وجوہات میں سے ایک ہے اور وہ اسے اسرائیل کی ریاست کے قیام کا جواز بلکہ بنیادی وجہ سمجھتے ہیں؛<ref>گارودی، محاکمه صهیونیزم اسرائیل،‌ 1384ش، ص76۔</ref> یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کی ریاست کا قیام اللہ کی جانب سے ایک عظیم قربانی کا بدلہ تھا۔<ref>گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص171۔</ref> یہودیوں کا خیال ہے کہ اس واقعہ میں دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر کے ہاتھوں چھ لاکھ یہودی مارے گئے تھے۔<ref>سویدان، دایره المعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391شمسی، ص297۔</ref> یہ واقعہ صیہونیوں کو اپنے ظلم و ستم کا رونا رونے اور عالمی برادری سے اس کی تلافی کے مطالبے کا سبب بنا۔ یورپی ممالک بھی اس نقصان کی تلافی کے بہانے ان کے لیے ایک آزاد حکومت قائم کرنے فکرمند ہوگئے۔<ref>فیروزآبادی، کشف الاسرار صهیونیسم،‌1393شمسی، ص28۔</ref> تاہم، اس معاملے کے ناقدین یہودیوں کے اس دعوے اور ان کی موت سے متعلق اعداد و شمار کو مسترد کرتے ہیں۔<ref>سویدان، دایره المعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391شمسی، ص297و298۔</ref>


==جنگیں اور قتل و غارت==
==جنگیں اور قتل و غارت==
اسرائیل نے فلسطین اور لبنان کے عوام اور خطے کے مسلم ممالک پر بارہا حملے کیے ہیں اور متعدد جنگیں شروع کی ہیں جن کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہری مارے گئے ہیں اور ان علاقوں میں بڑی تباہیاں ہوئی ہیں۔<ref>ملاحظہ کیجیے: [https://www.tasnimnews.com/fa/news/1396/01/16/1370799/ از عملیات سلامت الجلیل و شکل‌گیری حزب‌الله تا خوشه‌های خشم]»، خبرگزاری تسنیم؛ «[https://www.mehrnews.com/news/3047958 پرونده سنگین جنایت‌های ارتش اسرائیل]»، خبرگزاری مهر.</ref>
اسرائیل نے فلسطین اور لبنان کے عوام اور خطے کے مسلم ممالک پر بارہا حملے کیے ہیں اور متعدد جنگیں شروع کی ہیں جن کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہری مارے گئے ہیں اور ان علاقوں میں بڑی تباہیاں ہوئی ہیں۔<ref>ملاحظہ کیجیے: [https://www.tasnimnews.com/fa/news/1396/01/16/1370799/ از عملیات سلامت الجلیل و شکل‌گیری حزب‌الله تا خوشه‌های خشم]»، خبرگزاری تسنیم؛ «[https://www.mehrnews.com/news/3047958 پرونده سنگین جنایت‌های ارتش اسرائیل]»، خبرگزاری مهر۔</ref>
[[ملف:مناطق مسکونی ویران شده توسط اسرائیل در جنگ ۳۳روزه (ضاحیه، جنوب بیروت، سال ۲۰۰۶).jpg|220px|تصغیر|راست|اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ ۳۳ روزہ جنگ  میں تباہ شدہ علاقوں کا منظر(ضاحیه، جنوب بیروت، سنہ 2006ء)]]
[[ملف:مناطق مسکونی ویران شده توسط اسرائیل در جنگ ۳۳روزه (ضاحیه، جنوب بیروت، سال ۲۰۰۶).jpg|220px|تصغیر|راست|اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ ۳۳ روزہ جنگ  میں تباہ شدہ علاقوں کا منظر(ضاحیه، جنوب بیروت، سنہ 2006ء)]]


نیز، اسرائیل نے [[غزہ کی پٹی]] کے لوگوں پر بارہا حملہ کیا ہے۔ منجملہ سنہ 2008ء کی 22 روزہ جنگ، سنہ 2012ء کی 8 روزہ جنگ اور سنہ 2014ء کی 51 روزہ جنگ ان جنگوں کی مثالیں ہیں۔<ref>ملاحظہ کیجیے: «[https://www.mehrnews.com/news/3047958 پرونده سنگین جنایت‌های ارتش اسرائیل]»، خبرگزاری مهر؛ «[https://www.mashreghnews.ir/news/346076 ده‌ها جنایت از بزرگ‌ترین جانی جهان]»، خبرگزاری مشرق.</ref> اکتوبر 2023ء میں اسرائیل [[طوفان الاقصیٰ]] کے جواب میں غزہ کی پٹی پر حملہ کیا جس میں 20,000 سے زائد فلسطینی شہید اور 54 ہزار سے زائد زخمی بھی ہوئے ہیں۔<ref>«[https://www.aljazeera.net/news/2023/12/25/الاحتلال-يواصل-تصعيده-بالضفة-ويعتقل الاحتلال يواصل تصعيده بالضفة ويعتقل عددا من الفلسطينيين]»، خبرگزاری الجزیره.</ref>
نیز، اسرائیل نے [[غزہ کی پٹی]] کے لوگوں پر بارہا حملہ کیا ہے۔ منجملہ سنہ 2008ء کی 22 روزہ جنگ، سنہ 2012ء کی 8 روزہ جنگ اور سنہ 2014ء کی 51 روزہ جنگ ان جنگوں کی مثالیں ہیں۔<ref>ملاحظہ کیجیے: «[https://www.mehrnews.com/news/3047958 پرونده سنگین جنایت‌های ارتش اسرائیل]»، خبرگزاری مهر؛ «[https://www.mashreghnews.ir/news/346076 ده‌ها جنایت از بزرگ‌ترین جانی جهان]»، خبرگزاری مشرق۔</ref> اکتوبر 2023ء میں اسرائیل [[طوفان الاقصیٰ]] کے جواب میں غزہ کی پٹی پر حملہ کیا جس میں 20,000 سے زائد فلسطینی شہید اور 54 ہزار سے زائد زخمی بھی ہوئے ہیں۔<ref>«[https://www.aljazeera.net/news/2023/12/25/الاحتلال-يواصل-تصعيده-بالضفة-ويعتقل الاحتلال يواصل تصعيده بالضفة ويعتقل عددا من الفلسطينيين]»، خبرگزاری الجزیره۔</ref>


{{جعبه نقل قول| عنوان =| نقل‌قول = جمہوری اسلامی ایران کے سپریم لیڈر [[سید علی حسینی خامنہ ای|آیت‌ اللہ خامنه‌ ای]] کا عالمی [[یوم قدس]] کے اجتماع سے خطاب:{{-}}"موجودہ زمانے میں انسانی جرائم میں اس حجم اور اس شدت کے ساتھ کوئی جرم نہیں ہے۔ کسی ملک پر قبضہ کرنا اور لوگوں کو ان کے گھروں اور آبائی زمینوں سے ہمیشہ کے لیے بے دخل کرنا، انہیں قتل و غارت کرنا، انتہائی گھناؤنے انداز میں ان کی نسل کشی کرنا اور تاریخ میں کئی دہائیوں پر مشتمل ظلم و جبر درندگی اور شیطان صفتی کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔ "۔<ref>«[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=45665 سخنرانی تلویزیونی به مناسبت روز جهانی قدس]»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای.</ref>|تاریخ بایگانی| منبع =| تراز = چپ| عرض = 250px| اندازه خط = 14px|رنگ پس‌زمینه =#FFF9E7| گیومه نقل‌قول =| تراز منبع = چپ}}
{{جعبه نقل قول| عنوان =| نقل‌قول = جمہوری اسلامی ایران کے سپریم لیڈر [[سید علی حسینی خامنہ ای|آیت‌ اللہ خامنه‌ ای]] کا عالمی [[یوم قدس]] کے اجتماع سے خطاب:{{-}}"موجودہ زمانے میں انسانی جرائم میں اس حجم اور اس شدت کے ساتھ کوئی جرم نہیں ہے۔ کسی ملک پر قبضہ کرنا اور لوگوں کو ان کے گھروں اور آبائی زمینوں سے ہمیشہ کے لیے بے دخل کرنا، انہیں قتل و غارت کرنا، انتہائی گھناؤنے انداز میں ان کی نسل کشی کرنا اور تاریخ میں کئی دہائیوں پر مشتمل ظلم و جبر درندگی اور شیطان صفتی کا ایک نیا ریکارڈ ہے۔ "۔<ref>«[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=45665 سخنرانی تلویزیونی به مناسبت روز جهانی قدس]»، دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای۔</ref>|تاریخ بایگانی| منبع =| تراز = چپ| عرض = 250px| اندازه خط = 14px|رنگ پس‌زمینه =#FFF9E7| گیومه نقل‌قول =| تراز منبع = چپ}}
===اجتماعی قتل و غارت===
===اجتماعی قتل و غارت===
فلسطین پر قبضے کے دوران اسرائیل نے فلسطین اور اس کے اطراف کے علاقوں میں بے شمار قتل عام کیے ہیں۔ کچھ خبر رساں ایجنسیوں نے 120 مرتبہ اسرائیلی مظالم کا ذکر کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے: «[https://www.mashreghnews.ir/news/346076 ده‌ها جنایت از بزرگ‌ترین جانی جهان]»، خبرگزاری مشرق.</ref> مرکزاطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1948ء سے سنہ 2023ء تک صیہونیوں کے ہاتھوں 100 ہزار سے زائد فلسطینی [[شہید]] ہوئے ہیں۔<ref>«[https://farsi.palinfo.com/news/2023/5/15/75-سال-از-فاجعه-ن-بت-اشغال-فلسط-ن-ذشت 75 سال از فاجعه نکبت (اشغال فلسطین) گذشت]»، مرکز اطلاع‌رسانی فلسطین.</ref> فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے جرائم اور صیہونی حکومت کے ہاتھوں شہریوں اور بچوں کے قتل کو عالمی برادری نے فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دیا ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے: «[https://www.aa.com.tr/fa/جهان/نمایندگان-پارلمان-اروپا-حملات-اسرائيل-علیه-غزه-را-نسل-کشی-دانستند/3054343 نمایندگان پارلمان اروپا حملات اسرائیل علیه غزه را نسل‌کشی دانستند]»، خبرگزاری آناتولی؛ Ayyash, «[https://www.aljazeera.com/opinions/2023/11/2/a-genocide-is-under-way-in-palestine A genocide is under way in Palestine]», Al Jazeera Media Network.</ref>  
فلسطین پر قبضے کے دوران اسرائیل نے فلسطین اور اس کے اطراف کے علاقوں میں بے شمار قتل عام کیے ہیں۔ کچھ خبر رساں ایجنسیوں نے 120 مرتبہ اسرائیلی مظالم کا ذکر کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے: «[https://www.mashreghnews.ir/news/346076 ده‌ها جنایت از بزرگ‌ترین جانی جهان]»، خبرگزاری مشرق۔</ref> مرکزاطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1948ء سے سنہ 2023ء تک صیہونیوں کے ہاتھوں 100 ہزار سے زائد فلسطینی [[شہید]] ہوئے ہیں۔<ref>«[https://farsi.palinfo.com/news/2023/5/15/75-سال-از-فاجعه-ن-بت-اشغال-فلسط-ن-ذشت 75 سال از فاجعه نکبت (اشغال فلسطین) گذشت]»، مرکز اطلاع‌رسانی فلسطین۔</ref> فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کے جرائم اور صیہونی حکومت کے ہاتھوں شہریوں اور بچوں کے قتل کو عالمی برادری نے فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دیا ہے۔<ref>ملاحظہ کیجیے: «[https://www.aa.com.tr/fa/جهان/نمایندگان-پارلمان-اروپا-حملات-اسرائيل-علیه-غزه-را-نسل-کشی-دانستند/3054343 نمایندگان پارلمان اروپا حملات اسرائیل علیه غزه را نسل‌کشی دانستند]»، خبرگزاری آناتولی؛ Ayyash, «[https://www.aljazeera.com/opinions/2023/11/2/a-genocide-is-under-way-in-palestine A genocide is under way in Palestine]», Al Jazeera Media Network۔</ref>  


===دہشتگردانہ حملے===
===دہشتگردانہ حملے===
خبر رساں ایجنسیز کے اعداد و شمار کے مطابق، اسرائیلی صیہونیوں نے اسرائیلی ریاست کے قیام کے دوران سے اب تک 2,700 سے زیادہ دہشتگردانہ حملے کیے ہیں۔<ref>«[https://www.jamaran.news/fa/tiny/news-1484527 مهمترین ترورهای انجام  شده توسط اسرائیل در سراسر جهان]»، پایگاه خبری جماران؛ «[https://www.irna.ir/news/85290630 بیش از 2700 ترور هدفمند میراث شوم اسرائیل]»، خبرگزاری جمهوری اسلامی.</ref> انگریزی اخبار آئرش انڈیپنڈنٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی (موساد) کو"دنیا کا سب سے قتل و غارت کرنے والا قاتل" کا عنوان دے کر اسے  بے رحمانہ قاتل مشین کا لقب دیا ہے۔<ref>«[https://www.independent.ie/life/the-worlds-deadliest-assassins/26605405.html The world's deadliest assassins]», Irish independent.</ref> اسرائیل کی دہشتگردی صرف فلسطینی سرزمین اور مقاومتی مجاہدین تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے دنیا بھر میں کئی سیاسی رہنماؤں اور سائنسدانوں کو بھی قتل کیا ہے۔<ref>«[https://www.farsnews.ir/news/14020822000475 نگاهی بر جنایات رژیم صهیونیستی در 86 سال گذشته]»، خبرگزاری فارس.</ref> اسرائیلی دہشتگردانہ حملوں کا شکار ہونے والوں میں سے کچھ یہ ہیں: لبنان میں [[حزب اللہ لبنان|حزب اللہ]] کے دوسرے سیکرٹری جنرل سید عباس موسوی، حزب اللہ کا کمانڈرعماد مغنیہ، لبنانی مزاحمتی بلاک سردار شہداء لقب پانے شیعہ عالم دین راغب حرب، لبنانی مزاحمتی تنظیم کے رکن سَمیر قِنْطار، آزادی فلسطین تحریک کے بانی فتحی شقاقی، [[حماس]] کے رہبران شیخ احمد یاسین اور [[اسماعیل ہنیہ]]۔<ref>«[https://www.isna.ir/news/1403051006197 اسماعیل هنیه که بود؟]»، خبرگزاری ایسنا.</ref> <ref>ملاحظہ کیجیے: سویدان، دایرةالمعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391شمسی، ص346 و 347؛ «[https://www.irna.ir/news/85290630 بیش از 2700 ترور هدفمند میراث شوم اسرائیل]»، خبرگزاری جمهوری اسلامی.</ref> دستاویزات اور میڈیا رپورٹوں کے مطابق، اسرائیلی انٹیلیجنس (موساد) ایرانی جوہری سائنسدانوں جیسے علی محمدی، شہریاری، احمدی روشن، رضائی نژاد اور فخر زادہ کے قتل میں بھی ملوث تھی۔<ref>برای نمونه نگاه کنید به:  «[https://www.nbcnews.com/news/world/israel-teams-terror-group-kill-irans-nuclear-scientists-u-s-flna241673 Israel teams with terror group to kill Iran's nuclear scientists, U.S. officials tell NBC News]», NBC news؛ «[https://www.independent.ie/life/the-worlds-deadliest-assassins/26605405.html The world's deadliest assassins]», Irish independent؛ «[https://irdc.ir/fa/news/4842/نقش-امریکا-در-عملیات‌-تروریستی-در-ایران-بعد نقش آمریکا در عملیات تروریستی در ایران بعد از پیروزی انقلاب اسلامی]»، مرکز اسناد انقلاب اسلامی.</ref>
خبر رساں ایجنسیز کے اعداد و شمار کے مطابق، اسرائیلی صیہونیوں نے اسرائیلی ریاست کے قیام کے دوران سے اب تک 2,700 سے زیادہ دہشتگردانہ حملے کیے ہیں۔<ref>«[https://www.jamaran.news/fa/tiny/news-1484527 مهمترین ترورهای انجام  شده توسط اسرائیل در سراسر جهان]»، پایگاه خبری جماران؛ «[https://www.irna.ir/news/85290630 بیش از 2700 ترور هدفمند میراث شوم اسرائیل]»، خبرگزاری جمهوری اسلامی۔</ref> انگریزی اخبار آئرش انڈیپنڈنٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی (موساد) کو"دنیا کا سب سے قتل و غارت کرنے والا قاتل" کا عنوان دے کر اسے  بے رحمانہ قاتل مشین کا لقب دیا ہے۔<ref>«[https://www.independent.ie/life/the-worlds-deadliest-assassins/26605405.html The world's deadliest assassins]», Irish independent۔</ref> اسرائیل کی دہشتگردی صرف فلسطینی سرزمین اور مقاومتی مجاہدین تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے دنیا بھر میں کئی سیاسی رہنماؤں اور سائنسدانوں کو بھی قتل کیا ہے۔<ref>«[https://www.farsnews.ir/news/14020822000475 نگاهی بر جنایات رژیم صهیونیستی در 86 سال گذشته]»، خبرگزاری فارس۔</ref> اسرائیلی دہشتگردانہ حملوں کا شکار ہونے والوں میں سے کچھ یہ ہیں: لبنان میں [[حزب اللہ لبنان|حزب اللہ]] کے دوسرے سیکرٹری جنرل سید عباس موسوی، حزب اللہ کا کمانڈرعماد مغنیہ، لبنانی مزاحمتی بلاک سردار شہداء لقب پانے شیعہ عالم دین راغب حرب، لبنانی مزاحمتی تنظیم کے رکن سَمیر قِنْطار، آزادی فلسطین تحریک کے بانی فتحی شقاقی، [[حماس]] کے رہبران شیخ احمد یاسین اور [[اسماعیل ہنیہ]]۔<ref>«[https://www.isna.ir/news/1403051006197 اسماعیل هنیه که بود؟]»، خبرگزاری ایسنا۔</ref> <ref>ملاحظہ کیجیے: سویدان، دایرةالمعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، 1391شمسی، ص346 و 347؛ «[https://www.irna.ir/news/85290630 بیش از 2700 ترور هدفمند میراث شوم اسرائیل]»، خبرگزاری جمهوری اسلامی۔</ref> دستاویزات اور میڈیا رپورٹوں کے مطابق، اسرائیلی انٹیلیجنس (موساد) ایرانی جوہری سائنسدانوں جیسے علی محمدی، شہریاری، احمدی روشن، رضائی نژاد اور فخر زادہ کے قتل میں بھی ملوث تھی۔<ref>برای نمونه نگاه کنید به:  «[https://www.nbcnews.com/news/world/israel-teams-terror-group-kill-irans-nuclear-scientists-u-s-flna241673 Israel teams with terror group to kill Iran's nuclear scientists, U.S. officials tell NBC News]», NBC news؛ «[https://www.independent.ie/life/the-worlds-deadliest-assassins/26605405.html The world's deadliest assassins]», Irish independent؛ «[https://irdc.ir/fa/news/4842/نقش-امریکا-در-عملیات‌-تروریستی-در-ایران-بعد نقش آمریکا در عملیات تروریستی در ایران بعد از پیروزی انقلاب اسلامی]»، مرکز اسناد انقلاب اسلامی۔</ref>


==بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں کی خلاف ورزی==
==بین الاقوامی قوانین اور قراردادوں کی خلاف ورزی==
[[ملف:نقشه اسرائیل و مناطق اشغالی.png|180px|تصغیر|بائیں|اسرائیل اور فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کا نقشہ]]
[[ملف:نقشه اسرائیل و مناطق اشغالی.png|180px|تصغیر|بائیں|اسرائیل اور فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کا نقشہ]]
اسرائیل اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مخالفت کے سلسلے میں عالمی ریکارڈ ہولڈر جانا جاتا ہے۔<ref>چامسکی، مثلث سرنوشت‌ ساز، 1369شمسی، ص122.</ref> کہا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سنہ 1948ء سے سنہ 2016ء تک 102 سے زائد قراردادیں اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے سنہ 2066ء سے سنہ2023ء تک اسرائیل کی مذمت میں 104 قراردادیں پاس کیں ہیں۔<ref>نگاه کنید به:‌ «[https://www.farsnews.ir/news/14020822000475 نگاهی به جنایات رژیم صهیونیستی در 86 سال گذشته]»، خبرگزاری فارس.</ref> امریکہ نے سنہ 1972ء سے 1996ء تک اسرائیل کی حمایت میں تیس بار اقوام متحدہ کی اسرائیل کی مذمت میں پاس کی گئی قراردادوں کو ویٹو کیا ہے۔<ref>گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص14.</ref>
اسرائیل اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مخالفت کے سلسلے میں عالمی ریکارڈ ہولڈر جانا جاتا ہے۔<ref>چامسکی، مثلث سرنوشت‌ ساز، 1369شمسی، ص122۔</ref> کہا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے سنہ 1948ء سے سنہ 2016ء تک 102 سے زائد قراردادیں اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے سنہ 2066ء سے سنہ2023ء تک اسرائیل کی مذمت میں 104 قراردادیں پاس کیں ہیں۔<ref>نگاه کنید به:‌ «[https://www.farsnews.ir/news/14020822000475 نگاهی به جنایات رژیم صهیونیستی در 86 سال گذشته]»، خبرگزاری فارس۔</ref> امریکہ نے سنہ 1972ء سے 1996ء تک اسرائیل کی حمایت میں تیس بار اقوام متحدہ کی اسرائیل کی مذمت میں پاس کی گئی قراردادوں کو ویٹو کیا ہے۔<ref>گارودی، تاریخ یک ارتداد، 1377شمسی، ص14۔</ref>


اسرائیل کے اقدامات کی مذمت میں پاس ہونے والی قراردادوں میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
اسرائیل کے اقدامات کی مذمت میں پاس ہونے والی قراردادوں میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
*22 نومبر 1974ء کی قرارداد نمبر 3236: اس قرارداد میں فلسطینیوں کے لیے حق خود ارادیت اور خودمختاری اور پناہ گزینوں کو اپنی زمینوں پر واپس جانے کے حق کی منظوری دی گئی لیکن اسرائیل نے اس قرارداد کو پاؤں تلے روند ڈالی۔<ref>«[https://www.mehrnews.com/news/680873 اسرائیل و نقض قطعنامه‌های بین‌المللی درباره بازگشت آوارگان فلسطینی]»، خبرگزاری مهر.</ref>
*22 نومبر 1974ء کی قرارداد نمبر 3236: اس قرارداد میں فلسطینیوں کے لیے حق خود ارادیت اور خودمختاری اور پناہ گزینوں کو اپنی زمینوں پر واپس جانے کے حق کی منظوری دی گئی لیکن اسرائیل نے اس قرارداد کو پاؤں تلے روند ڈالی۔<ref>«[https://www.mehrnews.com/news/680873 اسرائیل و نقض قطعنامه‌های بین‌المللی درباره بازگشت آوارگان فلسطینی]»، خبرگزاری مهر۔</ref>
*23 دسمبر 2016ء کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2334: یہ قرارداد فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیرات کی مذمت اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی کے سلسلے میں جاری کی گئی تھی۔<ref>«[https://www.alef.ir/news/3970307015.html قطعنامه 2231 و دیگر قطعنامه‌های شورای امنیت که دولت ترامپ نقض کرد]»، وبگاه جامعه خبری تحلیل الف.</ref>
*23 دسمبر 2016ء کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2334: یہ قرارداد فلسطینی مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیرات کی مذمت اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی کے سلسلے میں جاری کی گئی تھی۔<ref>«[https://www.alef.ir/news/3970307015.html قطعنامه 2231 و دیگر قطعنامه‌های شورای امنیت که دولت ترامپ نقض کرد]»، وبگاه جامعه خبری تحلیل الف۔</ref>
*سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر242: اس قرارداد میں 22 نومبر1967ء کو سلامتی کونسل نے سنہ 1967ء میں مقبوضہ فلسطینی سرزمین سے صیہونی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کیا۔<ref>دهقانی، «قطعنامه تقسیم فلسطین مبنای راه حل دو دولت و ملاکی برای  راه حل همه پرسی»، ص1029.</ref>
*سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر242: اس قرارداد میں 22 نومبر1967ء کو سلامتی کونسل نے سنہ 1967ء میں مقبوضہ فلسطینی سرزمین سے صیہونی افواج کے انخلاء کا مطالبہ کیا۔<ref>دهقانی، «قطعنامه تقسیم فلسطین مبنای راه حل دو دولت و ملاکی برای  راه حل همه پرسی»، ص1029۔</ref>
{{جعبه نقل قول
{{جعبه نقل قول
| عنوان = [[سید علی حسینی خامنہ ای|آیت‌ الله سید علی حسینی خامنہ ای]]، اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر
| عنوان = [[سید علی حسینی خامنہ ای|آیت‌ الله سید علی حسینی خامنہ ای]]، اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر
| نویسنده =  
| نویسنده =  
| نقل قول = (ایران اور امریکہ کے مابین) جوہری مذاکرات کے مکمل ہونے کے بعد میں نے سنا کہ مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں کی طرف سے کہا گیا کہ فی الحال ہم ان مذاکرات کی وجہ سے 25 سال تک ایران کی طرف سے پیدا کی جانے والی پریشانیوں سے آزاد ہو جائیں گے۔۔۔ آپ [اسرائیل] اگلے 25 سال نہیں دیکھ پائیں گے۔ ان شاء اللہ اگلے 25 سالوں میں اللہ کے فضل و کرم سے خطے میں صیہونی حکومت جیسی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔<ref> خامنه‌ ای، فلسطین، 1397شمسی، ص603.</ref>
| نقل قول = (ایران اور امریکہ کے مابین) جوہری مذاکرات کے مکمل ہونے کے بعد میں نے سنا کہ مقبوضہ فلسطین میں صیہونیوں کی طرف سے کہا گیا کہ فی الحال ہم ان مذاکرات کی وجہ سے 25 سال تک ایران کی طرف سے پیدا کی جانے والی پریشانیوں سے آزاد ہو جائیں گے۔۔۔ آپ [اسرائیل] اگلے 25 سال نہیں دیکھ پائیں گے۔ ان شاء اللہ اگلے 25 سالوں میں اللہ کے فضل و کرم سے خطے میں صیہونی حکومت جیسی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔<ref> خامنه‌ ای، فلسطین، 1397شمسی، ص603۔</ref>
| منبع =  
| منبع =  
| تراز = وسط
| تراز = وسط
سطر 167: سطر 167:
*مجموعه چہارجلدی «تو زودتر بکش»، اس کتاب کا مصنف رونین برگمن ہیں جسے وحید خضاب نے فارسی زبان میں ترجمہ کیا ہے: یہ کتاب درحقیقت اسرائیلی آپریشنل اور انٹیلی جنس فورسز موساد کے ساٹھ سال پر محیط  قتل عام کی داستان ہے۔ اسے "شہید کاظمی" پبلیشرز نے 2020ء میں قم سے شائع کیا ہے۔<ref>https://ketab.ir/book/af9a7c36-32b1-4bac-936b-49f557e83993</ref>
*مجموعه چہارجلدی «تو زودتر بکش»، اس کتاب کا مصنف رونین برگمن ہیں جسے وحید خضاب نے فارسی زبان میں ترجمہ کیا ہے: یہ کتاب درحقیقت اسرائیلی آپریشنل اور انٹیلی جنس فورسز موساد کے ساٹھ سال پر محیط  قتل عام کی داستان ہے۔ اسے "شہید کاظمی" پبلیشرز نے 2020ء میں قم سے شائع کیا ہے۔<ref>https://ketab.ir/book/af9a7c36-32b1-4bac-936b-49f557e83993</ref>
*''ماجرای فلسطین و اسرائيل،'' تألیف: مجید صفا تاج، تہران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، چاپ اول، 1380شمسی؛
*''ماجرای فلسطین و اسرائيل،'' تألیف: مجید صفا تاج، تہران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، چاپ اول، 1380شمسی؛
*''ده غلط مشهور درباره اسرائیل'' (وہ چیزیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں لیکن عام لوگ اسے حقیقت سمجھتے ہیں): تصنیف: ایلان پاپه، اسرائیلی مورخ، اس کو وحید خضاب نے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب میں ایسے دس خرافات اور غلط افکار کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے جن کی بنیاد پر اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔<ref>پاپه، ده غلط مشهور درباره اسرائیل، 1399شمسی، ص14.</ref> ان غلط افکار میں سے ایک صیہونیت کی یہودیت کے ساتھ اور صیہونیت کی یہود دشمنی کو مساوی اور برابر جاننے کا خیال ہے جسے اس کتاب کے تیسرے باب میں رد کیا گیا ہے۔<ref>پاپه، ده غلط مشهور درباره اسرائیل، 1399شمسی، ص16 و 59-90.</ref> یہ کتاب پہلی بار کتابستان معرفت پبلیشرز نے سنہ 2019ء میں شائع کیا ہے؛
*''ده غلط مشهور درباره اسرائیل'' (وہ چیزیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں لیکن عام لوگ اسے حقیقت سمجھتے ہیں): تصنیف: ایلان پاپه، اسرائیلی مورخ، اس کو وحید خضاب نے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب میں ایسے دس خرافات اور غلط افکار کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے جن کی بنیاد پر اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔<ref>پاپه، ده غلط مشهور درباره اسرائیل، 1399شمسی، ص14۔</ref> ان غلط افکار میں سے ایک صیہونیت کی یہودیت کے ساتھ اور صیہونیت کی یہود دشمنی کو مساوی اور برابر جاننے کا خیال ہے جسے اس کتاب کے تیسرے باب میں رد کیا گیا ہے۔<ref>پاپه، ده غلط مشهور درباره اسرائیل، 1399شمسی، ص16 و 59-90۔</ref> یہ کتاب پہلی بار کتابستان معرفت پبلیشرز نے سنہ 2019ء میں شائع کیا ہے؛
*''اسلام‌ پژوهی در اسرائیل، قلمی اثر: اکبر محمودی'': اس کتاب میں اسرائیل میں اسلام کے بارے میں تحقیقات انجام دیے جانے کے اہم ترین مراکز، افراد اور کام اور تحقیق کا تعارف کرایا گیا ہے۔<ref>محمودی، اسلام‌پژوهی در اسرائیل، 1399شمسی، ص26.</ref>
*''اسلام‌ پژوهی در اسرائیل، قلمی اثر: اکبر محمودی'': اس کتاب میں اسرائیل میں اسلام کے بارے میں تحقیقات انجام دیے جانے کے اہم ترین مراکز، افراد اور کام اور تحقیق کا تعارف کرایا گیا ہے۔<ref>محمودی، اسلام‌پژوهی در اسرائیل، 1399شمسی، ص26۔</ref>
مذکورہ کتب کے علاوہ عربی، انگریزی اور اردو زبان میں اسرائیل سے متعلق متعدد کتابیں ضبط تحریر میں لائی گئی ہیں۔
مذکورہ کتب کے علاوہ عربی، انگریزی اور اردو زبان میں اسرائیل سے متعلق متعدد کتابیں ضبط تحریر میں لائی گئی ہیں۔


سطر 178: سطر 178:
==مآخذ==  
==مآخذ==  
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* «[https://www.aljazeera.net/news/2023/12/25/الاحتلال-يواصل-تصعيده-بالضفة-ويعتقل الاحتلال يواصل تصعيده بالضفة ويعتقل عددا من الفلسطينيين]»، خبرگزاری الجزیره، تاریخ درج مطلب: 25 دسامبر 2023م، تاریخ بازدید: 4 دی 1402ش.
* «[https://www.aljazeera.net/news/2023/12/25/الاحتلال-يواصل-تصعيده-بالضفة-ويعتقل الاحتلال يواصل تصعيده بالضفة ويعتقل عددا من الفلسطينيين]»، خبرگزاری الجزیره، تاریخ درج مطلب: 25 دسامبر 2023ء، تاریخ بازدید: 4 دی 1402ہجری شمسی۔
* «[https://www.razavi.news/fa/interview/42184 از آثار اسلامی و زیارتی اهل‌بیت(ع) در فلسطین چه می‌دانیم؟]»، خبرگزاری رضوی، تاریخ درج مطلب:‌19 خرداد 1398ش، تاریخ بازدید: 16 دی 1402ش.
* «[https://www.razavi.news/fa/interview/42184 از آثار اسلامی و زیارتی اهل‌بیت(ع) در فلسطین چه می‌دانیم؟]»، خبرگزاری رضوی، تاریخ درج مطلب:‌19 خرداد 1398شمسی، تاریخ بازدید: 16 دی 1402ہجری شمسی۔
* ‌«[https://www.tasnimnews.com/fa/news/1396/01/16/1370799/ از عملیات سلامت الجلیل و شکل‌گیری حزب‌الله تا خوشه‌های خشم]»، خبرگزاری تسنیم، تاریخ درج مطلب: 16 فروردین 1396ش، تاریخ بازدید: 25 آذر 1402ش.
* ‌«[https://www.tasnimnews.com/fa/news/1396/01/16/1370799/ از عملیات سلامت الجلیل و شکل‌گیری حزب‌الله تا خوشه‌های خشم]»، خبرگزاری تسنیم، تاریخ درج مطلب: 16 فروردین 1396شمسی، تاریخ بازدید: 25 آذر 1402ہجری شمسی۔
* «[https://www.mehrnews.com/news/680873 اسرائیل و نقض قطعنامه‌های بین‌المللی درباره بازگشت آوارگان فلسطینی]»، خبرگزاری مهر، تاریخ درج مطلب: 26 اردیبهشت 1387ش، تاریخ بازدید: 4 دی 1402ش.
* «[https://www.mehrnews.com/news/680873 اسرائیل و نقض قطعنامه‌های بین‌المللی درباره بازگشت آوارگان فلسطینی]»، خبرگزاری مهر، تاریخ درج مطلب: 26 اردیبهشت 1387شمسی، تاریخ بازدید: 4 دی 1402ہجری شمسی۔
* «[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=2372 بیانات در دیدار جمعی از خانواده‌های شهدا و آزادگان]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای، تاریخ درج مطلب: 2 آبان 1368ش، تاریخ بازدید: 8 آبان 1402ش.
* «[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=2372 بیانات در دیدار جمعی از خانواده‌های شهدا و آزادگان]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای، تاریخ درج مطلب: 2 آبان 1368شمسی، تاریخ بازدید: 8 آبان 1402ہجری شمسی۔
* «[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=30354 بیانات در دیدار مسئولان نظام و سفرای کشورهای اسلامی]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای، تاریخ درج مطلب: 20 شهریور 1401ش، تاریخ بازدید: 27 آبان 1402ش.
* «[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=30354 بیانات در دیدار مسئولان نظام و سفرای کشورهای اسلامی]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای، تاریخ درج مطلب: 20 شهریور 1401شمسی، تاریخ بازدید: 27 آبان 1402ہجری شمسی۔
* «[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=51095 بیانات در دیدار دست‌اندرکاران دومین کنگره ملی شهدای ورزشکار]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای، تاریخ درج مطلب: 27 تیر 1394ش، تاریخ بازدید: 27 آبان 1402ش.
* «[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=51095 بیانات در دیدار دست‌اندرکاران دومین کنگره ملی شهدای ورزشکار]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای، تاریخ درج مطلب: 27 تیر 1394شمسی، تاریخ بازدید: 27 آبان 1402ہجری شمسی۔
* «[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=3061 بیانات در مراسم گشایش کنفرانس بین‌المللی حمایت از انتفاضه فلسطین]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای، تاریخ درج مطلب: 4 اردیبهشت 1380ش، تاریخ بازدید: 27 آبان 1402ش.
* «[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=3061 بیانات در مراسم گشایش کنفرانس بین‌المللی حمایت از انتفاضه فلسطین]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای، تاریخ درج مطلب: 4 اردیبهشت 1380شمسی، تاریخ بازدید: 27 آبان 1402ہجری شمسی۔
*پاپه، ایلان، ایده اسرائیل: تاریخچه‌ای از دانش، دانایی و قدرت، ترجمه محسن کرباسفروشان، تهران، انتشارات اطلاعات، چاپ اول، 1398ش.
*پاپه، ایلان، ایده اسرائیل: تاریخچه‌ای از دانش، دانایی و قدرت، ترجمه محسن کرباسفروشان، تهران، انتشارات اطلاعات، چاپ اول، 1398ہجری شمسی۔
* پاپه، ایلان، ده غلط مشهور درباره اسرائیل، قم، کتابستان معرفت، چاپ اول، 1399ش.
* پاپه، ایلان، ده غلط مشهور درباره اسرائیل، قم، کتابستان معرفت، چاپ اول، 1399ہجری شمسی۔
* پاک‌نیا تبریزی، عبدالکریم، «[http://moballeghan.ismc.ir/files/site1/files/155.pdf علمای شیعه و دفاع از قدس شریف]»، مجله مبلغان، شماره 155، شهریور 1391ش.
* پاک‌نیا تبریزی، عبدالکریم، «[http://moballeghan.ismc.ir/files/site1/files/155.pdf علمای شیعه و دفاع از قدس شریف]»، مجله مبلغان، شماره 155، شهریور 1391ہجری شمسی۔
*«[https://www.mehrnews.com/news/3047958 پرونده سنگین جنایت‌های ارتش اسرائیل]»، خبرگزاری مهر، تاریخ درج مطلب: 21 بهمن 1394ش، تاریخ بازدید: 4 دی 1402ش.
*«[https://www.mehrnews.com/news/3047958 پرونده سنگین جنایت‌های ارتش اسرائیل]»، خبرگزاری مهر، تاریخ درج مطلب: 21 بهمن 1394شمسی، تاریخ بازدید: 4 دی 1402ہجری شمسی۔
*«[https://www.mashreghnews.ir/news/346076 ده‌ها جنایت از بزرگ‌ترین جانی جهان]»، خبرگزاری مشرق،‌ تاریخ درج مطلب: 27 شهریور 1393ش، تاریخ بازدید: 4 دی 1402ش.
*«[https://www.mashreghnews.ir/news/346076 ده‌ها جنایت از بزرگ‌ترین جانی جهان]»، خبرگزاری مشرق،‌ تاریخ درج مطلب: 27 شهریور 1393شمسی، تاریخ بازدید: 4 دی 1402ہجری شمسی۔
* توفیقی، مهدی، «[https://www.rouydad24.ir/fa/news/313568 کدام کشورها اسرائیل را به رسمیت نمی‌شناسند؟]»، خبرگزاری رویداد 24، تاریخ درج مطلب: 13 مرداد 1401ش،‌ تاریخ بازدید: 26 دی 1402ش.
* توفیقی، مهدی، «[https://www.rouydad24.ir/fa/news/313568 کدام کشورها اسرائیل را به رسمیت نمی‌شناسند؟]»، خبرگزاری رویداد 24، تاریخ درج مطلب: 13 مرداد 1401شمسی،‌ تاریخ بازدید: 26 دی 1402ہجری شمسی۔
* توفیقیان، سید ابوالحسن، «[http://pajoohe.ir/حزب-الله-نماد-عزت-و-اقتدار-لبنان__a-31547.aspx حزب الله نماد عزت و اقتدار لبنان]»، وبگاه پژوهه، تاریخ درج مطلب: 27 مرداد 1387ش، تاریخ بازدید: 30 دی 1402ش.
* توفیقیان، سید ابوالحسن، «[http://pajoohe.ir/حزب-الله-نماد-عزت-و-اقتدار-لبنان__a-31547.aspx حزب الله نماد عزت و اقتدار لبنان]»، وبگاه پژوهه، تاریخ درج مطلب: 27 مرداد 1387شمسی، تاریخ بازدید: 30 دی 1402ہجری شمسی۔
* چامسکی، نوآم، مثلث سرنوشت‌ساز: فلسطین، آمریکا و اسرائیل، ترجمه عزت‌الله شهیدا، تهران،‌ مرکز مطالعات سیاسی و بین‌المللی، چاپ اول، 1369ش.
* چامسکی، نوآم، مثلث سرنوشت‌ساز: فلسطین، آمریکا و اسرائیل، ترجمه عزت‌الله شهیدا، تهران،‌ مرکز مطالعات سیاسی و بین‌المللی، چاپ اول، 1369ہجری شمسی۔
* حسینی، غلام‌احیاء، شیعه‌پژوهی و شیعه‌پژوهان انگلیسی‌زبان، زیر نظر محسن الویری و عباس احمدوند، قم، انتشارات شیعه‌شناسی، چاپ اول، 1387ش.
* حسینی، غلام‌احیاء، شیعه‌پژوهی و شیعه‌پژوهان انگلیسی‌زبان، زیر نظر محسن الویری و عباس احمدوند، قم، انتشارات شیعه‌ شناسی، چاپ اول، 1387ہجری شمسی۔
* خامه‌یار، احمد، «[https://www.mvmj.ir/article%20170120.html مزارات اهل‌بیت پیامبر(ص) در اردن و فلسطین اشغالی]»، فصلنامه وقف میراث جاویدان، شماره 83، پاییز 1393ش.
* خامه‌یار، احمد، «[https://www.mvmj.ir/article%20170120.html مزارات اهل‌بیت پیامبر(ص) در اردن و فلسطین اشغالی]»، فصلنامه وقف میراث جاویدان، شماره 83، پاییز 1393ہجری شمسی۔
*‌خسروشاهی، سید هادی، «[https://www.rahe-hadi.ir/fa/article/5/جنبش-امل-و-امام-موسی-صدر-(قسمت-دوم) جنبش امل و امام موسی صدر (قسمت دوم)]»، دفتر حفظ و نظر آثار و اندیشه‌های استاد سیدهادی خسروشاهی، تاریخ بازدید: 30 دی 1402ش.
*‌خسروشاهی، سید هادی، «[https://www.rahe-hadi.ir/fa/article/5/جنبش-امل-و-امام-موسی-صدر-(قسمت-دوم) جنبش امل و امام موسی صدر (قسمت دوم)]»، دفتر حفظ و نظر آثار و اندیشه‌های استاد سیدهادی خسروشاهی، تاریخ بازدید: 30 دی 1402ہجری شمسی۔
*خمینی، سید روح‌الله، صحیفه امام، تهیه و تنظیم مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تهران، مؤسسه تنظیم ونشر آثار امام خمینی، چاپ پنجم، 1389ش.
*خمینی، سید روح‌ الله، صحیفه امام، تهیه و تنظیم مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تهران، مؤسسه تنظیم ونشر آثار امام خمینی، چاپ پنجم، 1389ہجری شمسی۔
*‌دهقان، محمدرضا، «[https://www.atrakdaily.ir/fa/Main/Page/14505/8/%D9%88%DB%8C%DA%98%D9%87 آشنایی اجمالی با رژیم غاصب کودک‌کش اسرائیل]»، روزنامه اترک،‌ 9 اردیبهشت 1401ش، تاریخ بازدید: 25 دی 1402ش.
*‌دهقان، محمدرضا، «[https://www.atrakdaily.ir/fa/Main/Page/14505/8/%D9%88%DB%8C%DA%98%D9%87 آشنایی اجمالی با رژیم غاصب کودک‌کش اسرائیل]»، روزنامه اترک،‌ 9 اردیبهشت 1401شمسی، تاریخ بازدید: 25 دی 1402ہجری شمسی۔
*رضوی، کمال، «[https://facultymembers.sbu.ac.ir/k_razavi/marjaiat-studies-in-israeil/ مرجعیت‌پژوهی در اسرائیل]»، وبگاه پرتوی از جامعه ایرانی، تاریخ درج مطلب: 19 مرداد 1390ش، تاریخ بازدید: 17 دی 1402ش.
*رضوی، کمال، «[https://facultymembers.sbu.ac.ir/k_razavi/marjaiat-studies-in-israeil/ مرجعیت‌پژوهی در اسرائیل]»، وبگاه پرتوی از جامعه ایرانی، تاریخ درج مطلب: 19 مرداد 1390شمسی، تاریخ بازدید: 17 دی 1402ہجری شمسی۔
* «[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=50116 سخنرانی تلویزیونی به مناسبت روز جهانی قدس]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای، تاریخ درج مطلب: 9 اردیبهشت 1401ش، تاریخ بازدید: 27 آبان 1402ش.
* «[https://farsi.khamenei.ir/speech-content?id=50116 سخنرانی تلویزیونی به مناسبت روز جهانی قدس]»، پایگاه اطلاع‌رسانی دفتر حفظ و نشر آثار آیت‌الله خامنه‌ای، تاریخ درج مطلب: 9 اردیبهشت 1401شمسی، تاریخ بازدید: 27 آبان 1402ہجری شمسی۔
* سویدان، طارق، دایره المعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، ترجمه و تحقیق جمعی از مترجمان و محققان، تهران، سایان، 1391ش.
* سویدان، طارق، دایره المعارف مصور تاریخ یهودیت و صهیونیسم، ترجمه و تحقیق جمعی از مترجمان و محققان، تهران، سایان، 1391ہجری شمسی۔
* صفاتاج، مجید، ماجرای فلسطین و اسرائیل، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، چاپ دوم، 1381ش.
* صفاتاج، مجید، ماجرای فلسطین و اسرائیل، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، چاپ دوم، 1381ہجری شمسی۔
*  فیروزآبادی، سید حسن، کشف الاسرار صهیونیسم، تهران، دانشگاه عالی دفاع ملی، چاپ دوم، ‌1393ش.
*  فیروزآبادی، سید حسن، کشف الاسرار صهیونیسم، تهران، دانشگاه عالی دفاع ملی، چاپ دوم، ‌1393ہجری شمسی۔
* «[https://www.alef.ir/news/3970307015.html قطعنامه 2231 و دیگر قطعنامه‌های شورای امنیت که دولت ترامپ نقض کرد]»، وبگاه جامعه خبری تحلیل الف، تاریخ درج مطلب: 7 خرداد 1397ش، تاریخ بازدید: 16 آبان 1402ش.
* «[https://www.alef.ir/news/3970307015.html قطعنامه 2231 و دیگر قطعنامه‌های شورای امنیت که دولت ترامپ نقض کرد]»، وبگاه جامعه خبری تحلیل الف، تاریخ درج مطلب: 7 خرداد 1397شمسی، تاریخ بازدید: 16 آبان 1402ہجری شمسی۔
* کفاش، حامد و دیگران، دایرة‌المعارف مصور تاریخ فلسطین، تهران، نشر سایان، چاپ اول، 1392ش.
* کفاش، حامد و دیگران، دایرة‌المعارف مصور تاریخ فلسطین، تهران، نشر سایان، چاپ اول، 1392ہجری شمسی۔
* گارودی، روژه، محاکمه صهیونیزم اسرائیل،‌ ترجمه سید محمدتقی علوی و جلیل محمدی، تبریز، مؤسسه تحقیقاتی علوم اسلامی - انسانی دانشگاه تبریز، چاپ اول، 1384ش.
* گارودی، روژه، محاکمه صهیونیزم اسرائیل،‌ ترجمه سید محمدتقی علوی و جلیل محمدی، تبریز، مؤسسه تحقیقاتی علوم اسلامی - انسانی دانشگاه تبریز، چاپ اول، 1384ہجری شمسی۔
* گارودی، روژه، تاریخ یک ارتداد؛ اسطوره‌های بنیانگذار سیاست اسرائیل، ترجمه مجید شریف، تهران، مؤسسه خدمات فرهنگی رسا، چاپ سوم، 1377ش،
* گارودی، روژه، تاریخ یک ارتداد؛ اسطوره‌های بنیانگذار سیاست اسرائیل، ترجمه مجید شریف، تهران، مؤسسه خدمات فرهنگی رسا، چاپ سوم، 1377ہجری شمسی۔
* مالکی، محمد «[https://rch.ac.ir/article/Details?id=7893 حماس، جنبش]»، در دانشنامه جهان اسلام (ج14)، تهران، بنیاد دایرةالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1389ش.
* مالکی، محمد «[https://rch.ac.ir/article/Details?id=7893 حماس، جنبش]»، در دانشنامه جهان اسلام (ج14)، تهران، بنیاد دایرةالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1389ہجری شمسی۔
* مؤسسه تحقیقات و پژوهش‌های سیاسی-علمی ندا، مروری بر روابط خارجی رژیم صهیونیستی، تهران، نداء زیتون، چاپ اول، 1389ش.
* مؤسسه تحقیقات و پژوهش‌های سیاسی-علمی ندا، مروری بر روابط خارجی رژیم صهیونیستی، تهران، نداء زیتون، چاپ اول، 1389ہجری شمسی۔
*‌محمودی، اکبر، اسلام‌پژوهی در اسرائیل، قم، دار الحدیث، چاپ اول، ‌1399ش.
*‌محمودی، اکبر، اسلام‌پژوهی در اسرائیل، قم، دار الحدیث، چاپ اول، ‌1399ہجری شمسی۔
* «[https://hawzah.net/fa/Magazine/View/4473/4486/34779/ مطالعات اسلام‌شناسی و شیعه‌شناسی در دانشگاه تل آویو]»، پایگاه اطلاع‌رسانی حوزه، تاریخ بازدید: 17 دی 1402ش.
* «[https://hawzah.net/fa/Magazine/View/4473/4486/34779/ مطالعات اسلام‌شناسی و شیعه‌شناسی در دانشگاه تل آویو]»، پایگاه اطلاع‌رسانی حوزه، تاریخ بازدید: 17 دی 1402ہجری شمسی۔
* مطهری، مرتضی، مجموعه ‌آثار استاد شهید مطهری، تهران، انتشارات صدرا، 1390ش.
* مطهری، مرتضی، مجموعه ‌آثار استاد شهید مطهری، تهران، انتشارات صدرا، 1390ہجری شمسی۔
* معتز، احمد، «[http://ensani.ir/fa/article/64047/%D8%B4%D8%B9%DB%8C%D9%87-%D8%AF%D8%B1-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84 شیعه در اسرائیل]»، دوهفته‌نامه پگاه حوزه، شماره 240، 1387ش.
* معتز، احمد، «[http://ensani.ir/fa/article/64047/%D8%B4%D8%B9%DB%8C%D9%87-%D8%AF%D8%B1-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84 شیعه در اسرائیل]»، دوهفته‌نامه پگاه حوزه، شماره 240، 1387ہجری شمسی۔
* مهتدی، محمدعلی، «[https://rch.ac.ir/article/Details/11694 بن‌گوریون،‌ دیوید]»، در دانشنامه جهان اسلام، ج4، تهران، بنیاد دایرةالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1377ش.
* مهتدی، محمدعلی، «[https://rch.ac.ir/article/Details/11694 بن‌گوریون،‌ دیوید]»، در دانشنامه جهان اسلام، ج4، تهران، بنیاد دایرةالمعارف اسلامی، چاپ اول، 1377ہجری شمسی۔
* «[https://irdc.ir/fa/news/4842/نقش-امریکا-در-عملیات‌-تروریستی-در-ایران-بعد نقش آمریکا در عملیات تروریستی در ایران بعد از پیروزی انقلاب اسلامی]»، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، تاریخ درج مطلب: 20 فروردین 1398ش، تاریخ بازدید: 22 آبان 1402ش.
* «[https://irdc.ir/fa/news/4842/نقش-امریکا-در-عملیات‌-تروریستی-در-ایران-بعد نقش آمریکا در عملیات تروریستی در ایران بعد از پیروزی انقلاب اسلامی]»، مرکز اسناد انقلاب اسلامی، تاریخ درج مطلب: 20 فروردین 1398شمسی، تاریخ بازدید: 22 آبان 1402ہجری شمسی۔
* «[https://www.aa.com.tr/fa/جهان/نمایندگان-پارلمان-اروپا-حملات-اسرائيل-علیه-غزه-را-نسل-کشی-دانستند/3054343 نمایندگان پارلمان اروپا حملات اسرائیل علیه غزه را نسل‌کشی دانستند]»، خبرگزاری آناتولی، تاریخ درج مطلب: 15 نوامبر 2023م، تاریخ بازدید: 25 آبان 1402ش.
* «[https://www.aa.com.tr/fa/جهان/نمایندگان-پارلمان-اروپا-حملات-اسرائيل-علیه-غزه-را-نسل-کشی-دانستند/3054343 نمایندگان پارلمان اروپا حملات اسرائیل علیه غزه را نسل‌کشی دانستند]»، خبرگزاری آناتولی، تاریخ درج مطلب: 15 نوامبر 2023ء، تاریخ بازدید: 25 آبان 1402ہجری شمسی۔
* ‌«[https://www.farsnews.ir/news/14020822000475 نگاهی به جنایات رژیم صهیونیستی در 86 سال گذشته]»، خبرگزاری فارس، تاریخ درج مطلب: 22 آبان 1402ش، تاریخ بازدید: 20 آذر 1402ش.
* ‌«[https://www.farsnews.ir/news/14020822000475 نگاهی به جنایات رژیم صهیونیستی در 86 سال گذشته]»، خبرگزاری فارس، تاریخ درج مطلب: 22 آبان 1402شمسی، تاریخ بازدید: 20 آذر 1402ہجری شمسی۔
{{چپ‌چین}}
{{چپ‌چین}}
* Ayyash, M Muhannad, «[https://www.aljazeera.com/opinions/2023/11/2/a-genocide-is-under-way-in-palestine A genocide is under way in Palestine]», Al Jazeera Media Network, Published: November 2, 2023, Accessed: November 18, 2023.
* Ayyash, M Muhannad, «[https://www.aljazeera.com/opinions/2023/11/2/a-genocide-is-under-way-in-palestine A genocide is under way in Palestine]», Al Jazeera Media Network, Published: November 2, 2023, Accessed: November 18, 2023.
confirmed، movedable
5,562

ترامیم