مندرجات کا رخ کریں

"مغیرة بن اخنس ثقفی" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{خانہ معلومات صحابہ
{{خانہ معلومات صحابہ
|عنوان =مُغیرة بن اخنَس
|عنوان =مُغیرۃ بن اخنَس
|سرشناسی =
|سرشناسی =
| تصویر =
| تصویر =
| توضیح تصویر =
| توضیح تصویر =
|سائز تصویر =
|سائز تصویر =
| مکمل نام =مغیرة بن اخنس بن شریق ثقفی
| مکمل نام =مغیرۃ بن اخنس بن شریق ثقفی
| کنیت =
| کنیت =
| لقب =
| لقب =
سطر 13: سطر 13:
| مہاجر/انصار =
| مہاجر/انصار =
| نسب/قبیلہ =بنی ثقیف
| نسب/قبیلہ =بنی ثقیف
| مشہور اقارب =[[عثمان بن عفان|عثمان]] (مامو زاد بھائی)، اخنس بن شریق (باپ)، ابوالحکم (بھائی)، عبد الله (بیٹا)
| مشہور اقارب =[[عثمان بن عفان|عثمان]] (مامو زاد بھائی)، اخنس بن شریق (باپ)، ابوالحکم (بھائی)، عبد اللہ (بیٹا)
| تاریخ و محل وفات =[[سنہ 35 ہجری|سنہ 35ھ]]، [[مدینہ]]
| تاریخ و محل وفات =[[سنہ 35 ہجری|سنہ 35ھ]]، [[مدینہ]]
| تاریخ و محل شہادت =
| تاریخ و محل شہادت =
سطر 29: سطر 29:
}}
}}


'''مُغَیرَة بن اَخْنس ثَقَفِی''' (متوفیٰ: [[سنہ 35 ہجری|35ھ]]) [[عثمان بن عفان]] کا چچازاد بھائی تھا۔ جب [[امام علیؑ]] نے عثمان کے طرز حکمرانی پر تنقید کی تو انہوں نے عثمان کا دفاع کیا اور امام علیؑ کی سرزنش کا نشانہ بنا۔ بعض تاریخی ذرائع کے مطابق وہ شاعر تھا اور بحرین میں عثمان کا حکومتی عامل رہ چکا ہے۔ مغیرہ واقعہ قتل عثمان میں عثمان کے ساتھ تھا اور اسی واقعے میں اسے بھی قتل کر دیا گیا۔ ان کے والد اخنَس بن شَریق [[مشرکین]] کا سرکردہ تھا اور [[فتح مکہ]] کے بعد مسلمان ہوا تھا۔ مغیرہ کا بھائی ابوالحکم [[جنگ احد]] میں امام علیؑ کے ہاتھوں مارا گیا۔ مغیرہ کے بیٹے اور بھتیجے نے [[جنگ جمل]] میں امام علیؑ کے خلاف جنگ لڑی اور دونوں اسی جنگ میں مارے گئے۔ مغیرہ کے دو پوتے یعقوب بن عتبہ اور عثمان بن محمد [[سنہ 2 ہجری|دوسری صدی ہجری]] میں [[مدینہ]] کے فقہاء میں سے تھے۔
'''مُغَیرَۃ بن اَخْنس ثَقَفِی''' (متوفیٰ: [[سنہ 35 ہجری|35ھ]]) [[عثمان بن عفان]] کا چچازاد بھائی تھا۔ جب [[امام علیؑ]] نے عثمان کے طرز حکمرانی پر تنقید کی تو انہوں نے عثمان کا دفاع کیا اور امام علیؑ کی سرزنش کا نشانہ بنا۔ بعض تاریخی ذرائع کے مطابق وہ شاعر تھا اور بحرین میں عثمان کا حکومتی عامل رہ چکا ہے۔ مغیرہ واقعہ قتل عثمان میں عثمان کے ساتھ تھا اور اسی واقعے میں اسے بھی قتل کر دیا گیا۔ ان کے والد اخنَس بن شَریق [[مشرکین]] کا سرکردہ تھا اور [[فتح مکہ]] کے بعد مسلمان ہوا تھا۔ مغیرہ کا بھائی ابوالحکم [[جنگ احد]] میں امام علیؑ کے ہاتھوں مارا گیا۔ مغیرہ کے بیٹے اور بھتیجے نے [[جنگ جمل]] میں امام علیؑ کے خلاف جنگ لڑی اور دونوں اسی جنگ میں مارے گئے۔ مغیرہ کے دو پوتے یعقوب بن عتبہ اور عثمان بن محمد [[سنہ 2 ہجری|دوسری صدی ہجری]] میں [[مدینہ]] کے فقہاء میں سے تھے۔


==تعارف==
==تعارف==
مُغیرة بن اَخنَس بن شریق ثقفی [[نہج البلاغہ]] کے خطبہ 135 میں امام علیؑ کے کلام کا مخاطب قرار پایا ہے۔<ref>نهج‌البلاغه، تصحیح صبحی صالح، خطبۀ ۱۳۵، ص۱۹۳.</ref> وہ [[عثمان بن عفان|عثمان بن عَفّان]] کا چچا زاد بھائی اور ان کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھا۔<ref> ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۴۴۴.</ref> بعض تاریخی منابع کے مطابق عثمان کے حکومتی عامل مروان بن حکم([[سنہ 2 ہجری|2ھ]]-[[سنہ 65 ہجری|65ھ]]) نے مغیرہ کو بحرین{{نوٹ| بحرین خلیج فارس کے جنوب مغرب میں ایک علاقہ ہے جو ملک بحرین سے بڑے علاقے کو شامل تھا۔(خسروی، «بحرین»، ص۱۳۲.)}} کا حکومتی عامل مقرر کیا۔<ref> بلاذری، جمل من انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۴۳۷.</ref> مصری سوانح حیات نویس خیرالدین زِرِکْلی نے انہیں اصحاب پیغمبرؐ اور عصر آنحضرتؐ کے شعرا میں سے شمار کیا ہے۔<ref>زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹ء، ج۷، ص۲۷۶.</ref>   
مُغیرۃ بن اَخنَس بن شریق ثقفی [[نہج البلاغہ]] کے خطبہ 135 میں امام علیؑ کے کلام کا مخاطب قرار پایا ہے۔<ref>نہج‌البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبۀ ۱۳۵، ص۱۹۳۔</ref> وہ [[عثمان بن عفان|عثمان بن عَفّان]] کا چچا زاد بھائی اور ان کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھا۔<ref> ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۴۴۴۔</ref> بعض تاریخی منابع کے مطابق عثمان کے حکومتی عامل مروان بن حکم([[سنہ 2 ہجری|2ھ]]-[[سنہ 65 ہجری|65ھ]]) نے مغیرہ کو بحرین{{نوٹ| بحرین خلیج فارس کے جنوب مغرب میں ایک علاقہ ہے جو ملک بحرین سے بڑے علاقے کو شامل تھا۔(خسروی، «بحرین»، ص۱۳۲۔)}} کا حکومتی عامل مقرر کیا۔<ref> بلاذری، جمل من انساب الاشراف، ۱۴۱۷ھ، ج۱۳، ص۴۳۷۔</ref> مصری سوانح حیات نویس خیرالدین زِرِکْلی نے انہیں اصحاب پیغمبرؐ اور عصر آنحضرتؐ کے شعرا میں سے شمار کیا ہے۔<ref>زرکلی، الاعلام، ۱۹۸۹ء، ج۷، ص۲۷۶۔</ref>   


===قریبی رشتہ دار===
===قریبی رشتہ دار===
مغیره کا تعلق قبیلہ ثقیف سے تھا۔<ref>شیخ صدوق، الخصال، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۲۲۷-۲۲۸.</ref> ان کا والد [[اخنس بن شریق|اخنَس بن شَریق]] (متوفیٰ: [[سنہ 13 ہجری|13ھ]]) تھا اور وہ [[مشرکین]] کا سرکردہ تھا۔ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد اعلان کیا گیا کہ اس نے [[اسلام]] قبول کیا ہے اور رسول خداؐ نے [[مال غنیمت]] میں سے کچھ اسے عطا کیا۔<ref>ابن‌ابی‌الحدید، شرح نهج البلاغه، ۱۴۰۴ق، ج۸، ص۳۰۱-۳۰۲.</ref> تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ اخنس قبیلہ بنی‌ زہره کا حلیف تھا اور انہیں [[غزوہ بدر|جنگ بدر]] میں [[مسلمانوں]] کے ساتھ بر سر پیکار ہونے سے روک لیا۔<ref>بلاذری، جمل من انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۴۳۷.</ref> بعض مفسرین کے مطابق [[سورہ بقرہ کی آیت نمبر 205]] اخنس کی مذمت میں نازل ہوئی ہے۔<ref>قمی مشهدی، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، ۱۳۶۷ش، ج۲، ص۳۰۳.</ref> کتاب [[الطبقات الکبری]] میں مغیرہ کے دونوں پوتے یعقوب بن عتبۃ بن مغیره (متوفی: [[سنہ 128 ہجری|128ھ]]) اور عثمان بن محمد بن مغیره (متوفی: [[سنہ 130ہجری|130ھ]]) مدینہ میں دوسری صدی ہجری کے فقیہ کے عنوان سے تذکرہ ملتا ہے۔<ref>ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۳۹۴-۳۹۵.</ref>
مغیرہ کا تعلق قبیلہ ثقیف سے تھا۔<ref>شیخ صدوق، الخصال، ۱۴۱۶ھ، ج۱، ص۲۲۷-۲۲۸۔</ref> ان کا والد [[اخنس بن شریق|اخنَس بن شَریق]] (متوفیٰ: [[سنہ 13 ہجری|13ھ]]) تھا اور وہ [[مشرکین]] کا سرکردہ تھا۔ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد اعلان کیا گیا کہ اس نے [[اسلام]] قبول کیا ہے اور رسول خداؐ نے [[مال غنیمت]] میں سے کچھ اسے عطا کیا۔<ref>ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ھ، ج۸، ص۳۰۱-۳۰۲۔</ref> تاریخ میں نقل ہوا ہے کہ اخنس قبیلہ بنی‌ زہرہ کا حلیف تھا اور انہیں [[غزوہ بدر|جنگ بدر]] میں [[مسلمانوں]] کے ساتھ بر سر پیکار ہونے سے روک لیا۔<ref>بلاذری، جمل من انساب الاشراف، ۱۴۱۷ھ، ج۱۳، ص۴۳۷۔</ref> بعض مفسرین کے مطابق [[سورہ بقرہ کی آیت نمبر 205]] اخنس کی مذمت میں نازل ہوئی ہے۔<ref>قمی مشہدی، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، ۱۳۶۷ہجری شمسی، ج۲، ص۳۰۳۔</ref> کتاب [[الطبقات الکبری]] میں مغیرہ کے دونوں پوتے یعقوب بن عتبۃ بن مغیرہ (متوفی: [[سنہ 128 ہجری|128ھ]]) اور عثمان بن محمد بن مغیرہ (متوفی: [[سنہ 130ہجری|130ھ]]) مدینہ میں دوسری صدی ہجری کے فقیہ کے عنوان سے تذکرہ ملتا ہے۔<ref>ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج۵، ص۳۹۴-۳۹۵۔</ref>


===امام علیؑ کے ساتھ جنگ میں مغیرہ کے رشتہ داروں کا قتل===
===امام علیؑ کے ساتھ جنگ میں مغیرہ کے رشتہ داروں کا قتل===
مغیرہ کا بیٹا عبد اللہ اور بھتیجا عبد اللہ بن ابی عثمان [[جنگ جمل]] میں امام علیؑ کے مقابلے میں آئے اور اسی جنگ میں مارے گئے۔<ref>شیخ مفید، الإرشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۲۵۵-۲۵۶.</ref> مورخین کے مطابق مغیرہ کا بھائی ابوالحکم بھی [[جنگ احد]] میں امام علیؑ کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔<ref>ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج ۲، ص ۳۳.</ref>
مغیرہ کا بیٹا عبد اللہ اور بھتیجا عبد اللہ بن ابی عثمان [[جنگ جمل]] میں امام علیؑ کے مقابلے میں آئے اور اسی جنگ میں مارے گئے۔<ref>شیخ مفید، الإرشاد، ۱۴۱۳ھ، ج۱، ص۲۵۵-۲۵۶۔</ref> مورخین کے مطابق مغیرہ کا بھائی ابوالحکم بھی [[جنگ احد]] میں امام علیؑ کے ہاتھوں مارا گیا ہے۔<ref>ابن‌سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ھ، ج ۲، ص ۳۳۔</ref>


==امام علیؑ کے ساتھ تلخ کلامی==
==امام علیؑ کے ساتھ تلخ کلامی==
کتاب "الفتوح" کی گزارش کے مطابق عثمان کے دور حکومت میں [[امام علیؑ]] اور مغیرۃ ابن اخنس کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ اس گزارش کے مطابق امام علیؑ کی عثمانی طرز حکومت پر تنقید کی وجہ سے عثمان ناراض تھا۔ مغیرہ اور زید بن ثابت دونوں امام علیؑ کے پاس آئے۔ زید نے امام علیؑ کی تعریف و تمجید اور [[رسول خداؐ]] کے پاس آپؑ کے مقام  و مرتبے کو بیان کرنے کے ضمن میں کہا کہ آپ عثمان کو تنقید کا نشانہ بنانے سے باز آجائیں۔ امام علیؑ نے فرمایا: "خدا کی قسم! میں نہ اس (عثمان) پر اعتراض کرنے کو پسند کرتا ہوں اور نہ ہی اس کی حالت کو رد کرتا ہوں، مگر یہ کہ جب وہ حق الہی کا ادا کرنے سے باز آجائے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ میں اس کے بارے میں حقیقت کے سوا کچھ اور بولوں۔ خدا کی قسم! اس کی تنقید کرنے سے حتی الامکان پرہیز کروں گا۔"
کتاب "الفتوح" کی گزارش کے مطابق عثمان کے دور حکومت میں [[امام علیؑ]] اور مغیرۃ ابن اخنس کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ اس گزارش کے مطابق امام علیؑ کی عثمانی طرز حکومت پر تنقید کی وجہ سے عثمان ناراض تھا۔ مغیرہ اور زید بن ثابت دونوں امام علیؑ کے پاس آئے۔ زید نے امام علیؑ کی تعریف و تمجید اور [[رسول خداؐ]] کے پاس آپؑ کے مقام  و مرتبے کو بیان کرنے کے ضمن میں کہا کہ آپ عثمان کو تنقید کا نشانہ بنانے سے باز آجائیں۔ امام علیؑ نے فرمایا: "خدا کی قسم! میں نہ اس (عثمان) پر اعتراض کرنے کو پسند کرتا ہوں اور نہ ہی اس کی حالت کو رد کرتا ہوں، مگر یہ کہ جب وہ حق الہی کا ادا کرنے سے باز آجائے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ میں اس کے بارے میں حقیقت کے سوا کچھ اور بولوں۔ خدا کی قسم! اس کی تنقید کرنے سے حتی الامکان پرہیز کروں گا۔"
مغیرۃ نے جواباً کہا: "اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپؑ عثمان کے بارے میں کچھ کہنے سے باز آجائیں، بصورت دیگر آپ کو باز آنے پر مجبور کیا جائے گا۔ کیونکہ اس (عثمان) کے پاس آپ سے زیادہ طاقت ہے، عثمان نے آپ کے احترام کا پاس رکھتے ہوئے یہ گروہ بھیجا تاکہ ان کو آپ پر گواہ رکھا جائے۔ امام علیؑ  مغیرۃ کی باتیں سن کر جلال میں آئے اور کہا: "اے ملعون کے بیٹے! اے بے اولاد اور ابتر آدمی! تم مجھے جواب دینا چاہتے ہو (یعنی مجھے عثمان کے بارے میں بات کرنے سے روکو گے؟) خدا کی قسم! خدا اس شخص کو عزت نہیں دے گا جس کے تم  جیسا شخص مددگار ہو اور جس کا تم ہاتھ پکڑو گے وہ کھڑا نہیں ہوپائے گا۔ یہاں سے باہر نکل جاو! خدا تم سے خیر کو دور رکھے۔ تو جو چاہو کوشش کرو۔ تم خدا کی گرفت سے نہیں بچ پاؤگے، اگر تم جو کچھ کر سکتے ہو اس سے دستبردار ہوجاؤ"۔
مغیرۃ نے جواباً کہا: "اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ آپؑ عثمان کے بارے میں کچھ کہنے سے باز آجائیں، بصورت دیگر آپ کو باز آنے پر مجبور کیا جائے گا۔ کیونکہ اس (عثمان) کے پاس آپ سے زیادہ طاقت ہے، عثمان نے آپ کے احترام کا پاس رکھتے ہوئے یہ گروہ بھیجا تاکہ ان کو آپ پر گواہ رکھا جائے۔ امام علیؑ  مغیرۃ کی باتیں سن کر جلال میں آئے اور کہا: "اے ملعون کے بیٹے! اے بے اولاد اور ابتر آدمی! تم مجھے جواب دینا چاہتے ہو (یعنی مجھے عثمان کے بارے میں بات کرنے سے روکو گے؟) خدا کی قسم! خدا اس شخص کو عزت نہیں دے گا جس کے تم  جیسا شخص مددگار ہو اور جس کا تم ہاتھ پکڑو گے وہ کھڑا نہیں ہوپائے گا۔ یہاں سے باہر نکل جاو! خدا تم سے خیر کو دور رکھے۔ تو جو چاہو کوشش کرو۔ تم خدا کی گرفت سے نہیں بچ پاؤگے، اگر تم جو کچھ کر سکتے ہو اس سے دستبردار ہوجاؤ"۔
مغیره یہ باتیں سن کر خاموش ہو گیا؛ لیکن زید بن ثابت نے کہا: خدا کی قسم! ہم آپ کے پاس آپ کے خلاف گواہی دینے کے لیے نہیں آئے ہیں اور نہ ہی آپ پر کٹ حجتی کے لیے؛ بلکہ اجر الہی کی نیت سے ہم آپ کے تعلقات کو بہتر بنانے اور اپنے مابین اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرنے آئے ہیں۔" امام علیؑ نے زید اور اس کی قوم کے حق میں [[دعا]] کی۔ بعد از آں؛ وہ لوگ اٹھے اور عثمان کے پاس جاکر اپنی ملاقات کی خبر اسے دی۔<ref>ابن‌اعثم کوفی، الفتوح، ج۲، ۱۴۱۱ق، ص۳۸۰.</ref>
مغیرہ یہ باتیں سن کر خاموش ہو گیا؛ لیکن زید بن ثابت نے کہا: خدا کی قسم! ہم آپ کے پاس آپ کے خلاف گواہی دینے کے لیے نہیں آئے ہیں اور نہ ہی آپ پر کٹ حجتی کے لیے؛ بلکہ اجر الہی کی نیت سے ہم آپ کے تعلقات کو بہتر بنانے اور اپنے مابین اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرنے آئے ہیں۔" امام علیؑ نے زید اور اس کی قوم کے حق میں [[دعا]] کی۔ بعد از آں؛ وہ لوگ اٹھے اور عثمان کے پاس جاکر اپنی ملاقات کی خبر اسے دی۔<ref>ابن‌اعثم کوفی، الفتوح، ج۲، ۱۴۱۱ھ، ص۳۸۰۔</ref>


===نہج‌ البلاغہ میں اس ماجرا کا بیان===
===نہج‌ البلاغہ میں اس ماجرا کا بیان===
[[نہج البلاغہ]] میں یہ ماجرا اس طرح نقل ہوا ہے کہ امام علیؑ اور عثمان کے مابین کسی بات پر بحث ہوئی۔ مغیرة نے عثمان سے کہا: میں علی کو جواب دیتا ہوں، اس طرح ان کے درمیان الفاظ کا تبادلہ ہوا۔<ref>نهج‌البلاغه، تصحیح صبحی صالح، خطبۀ ۱۳۵، ص۱۹۳.</ref> {{نوٹ|یہ ماجرا تصحیح صبحی صالح میں خطبہ نمبر۱۳۵، [[مصباح السالکین (کتاب)|شرح ابن‌ میثم]] میں خطبہ نمبر ۱۳۴، [[تنبیہ الغافلین و تذکرہ العارفین]] میں خطبہ نمبر ۱۵۹ اور [[فی ضلال نہج البلاغۃ]] میں خطبہ نمبر ۱۳۳ میں آیا ہے۔(ابن‌میثم، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ق، ج۳، ص۱۶۳؛ نهج البلاغه، تصحیح فتح‌الله کاشانی، خطبۀ ۴۳، ج۱، ص۶۳۶؛ مغنیه، فی ظلال نهج‌البلاغه، 1979ء، ج۲، ص۲۸۵.)}} اس کے باوجود [[ابن ابی الحدید |ابن‌ ابی‌ الحدید]] نے [[شرح نہج البلاغہ (ابن‌ابی‌الحدید)|شرح نہج البلاغہ]] میں اس خطبے کو "الفتوح" والی نقل کو صحیح تر جانا ہے۔ ابن‌ابی‌الحدید یہ وضاحت بھی بیان کرتے ہیں کہ امام علیؑ کے کلام میں یہ جملہ "ملعون کے بیٹے" اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مغیرۃ کا باپ [[منافق]] تھا اور لفظ "الابتر" اس کے بیٹوں کی گمراہی پر دلالت کرتا ہے؛ کیونکہ مغیرۃ بے اولاد نہیں تھا۔<ref>ابن‌ابی‌الحدید، شرح نهج البلاغه، ۱۴۰۴ق، ج۸، ص۳۰۲-۳۰۳.</ref> نیز جملہ "بے ریشہ و شاخہ درخت" [[سورہ ابراہیم]] آیت ۲۶ کی طرف اشارہ ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمومنین(ع)، ۱۳۸۶ش، ج۵، ص۴۹۶.</ref>
[[نہج البلاغہ]] میں یہ ماجرا اس طرح نقل ہوا ہے کہ امام علیؑ اور عثمان کے مابین کسی بات پر بحث ہوئی۔ مغیرۃ نے عثمان سے کہا: میں علی کو جواب دیتا ہوں، اس طرح ان کے درمیان الفاظ کا تبادلہ ہوا۔<ref>نہج‌البلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبۀ ۱۳۵، ص۱۹۳۔</ref> {{نوٹ|یہ ماجرا تصحیح صبحی صالح میں خطبہ نمبر۱۳۵، [[مصباح السالکین (کتاب)|شرح ابن‌ میثم]] میں خطبہ نمبر ۱۳۴، [[تنبیہ الغافلین و تذکرہ العارفین]] میں خطبہ نمبر ۱۵۹ اور [[فی ضلال نہج البلاغۃ]] میں خطبہ نمبر ۱۳۳ میں آیا ہے۔(ابن‌میثم، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ھ، ج۳، ص۱۶۳؛ نہج البلاغہ، تصحیح فتح‌اللہ کاشانی، خطبۀ ۴۳، ج۱، ص۶۳۶؛ مغنیہ، فی ظلال نہج‌البلاغہ، 1979ء، ج۲، ص۲۸۵۔)}} اس کے باوجود [[ابن ابی الحدید |ابن‌ ابی‌ الحدید]] نے [[شرح نہج البلاغہ (ابن‌ابی‌الحدید)|شرح نہج البلاغہ]] میں اس خطبے کو "الفتوح" والی نقل کو صحیح تر جانا ہے۔ ابن‌ابی‌الحدید یہ وضاحت بھی بیان کرتے ہیں کہ امام علیؑ کے کلام میں یہ جملہ "ملعون کے بیٹے" اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مغیرۃ کا باپ [[منافق]] تھا اور لفظ "الابتر" اس کے بیٹوں کی گمراہی پر دلالت کرتا ہے؛ کیونکہ مغیرۃ بے اولاد نہیں تھا۔<ref>ابن‌ابی‌الحدید، شرح نہج البلاغہ، ۱۴۰۴ھ، ج۸، ص۳۰۲-۳۰۳۔</ref> نیز جملہ "بے ریشہ و شاخہ درخت" [[سورہ ابراہیم]] آیت ۲۶ کی طرف اشارہ ہے۔<ref>مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمومنین(ع)، ۱۳۸۶ہجری شمسی، ج۵، ص۴۹۶۔</ref>


==واقعہ قتل عثمان میں مغیرہ کی موت==
==واقعہ قتل عثمان میں مغیرہ کی موت==
کہتے ہیں کہ مغیرة بن اخنس [[سنہ 35 ہجری|35ھ]] میں قتل عثمان کے واقعے میں مارے جانے والے افراد میں سے ہے۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۴، ص۳۸۲.</ref> اسی سال جن مسلمانوں نے عثمان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا؛ اس کے گھر کو محاصرے میں لیا۔<ref>ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، دار صادر، ج۳، ص۱۷۲-۱۷۹.</ref> مورخین کے مطابق جس وقت عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تھا مغیرۃ [[مکہ]] میں [[مناسک حج]] انجام دینے میں مشغول تھا۔ وہ حج کے بعد فورا [[مدینہ]] پہنچا تاکہ خلیفہ کا دفاع کیا جاسکے۔<ref>ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ‏، دار صادر، ج۳، ص ۱۷۵.</ref> مغیرۃ نے رجز پڑھتے ہوئے جنگ شروع کی۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج ۴، ص ۳۸۹؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ‏، دار صادر، ج۳، ص ۱۷۵.</ref> بعض تاریخی نقل کے مطابق مغیرۃ [[عبد الله بن بدیل|عبدالله بن بُدَیل]] کے ہاتھوں قتل ہوا۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۴، ص۳۸۲.</ref> نیز منقول ہے کہ مغیرۃ کا قاتل مدینہ کی گلی کوچوں میں اپنے کیے پر فخر کرتا ہوا پھرتا تھا۔<ref>بلاذری، جمل من انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱۳، ص۴۳۷.</ref>
کہتے ہیں کہ مغیرۃ بن اخنس [[سنہ 35 ہجری|35ھ]] میں قتل عثمان کے واقعے میں مارے جانے والے افراد میں سے ہے۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۴، ص۳۸۲۔</ref> اسی سال جن مسلمانوں نے عثمان کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا؛ اس کے گھر کو محاصرے میں لیا۔<ref>ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ، دار صادر، ج۳، ص۱۷۲-۱۷۹۔</ref> مورخین کے مطابق جس وقت عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا گیا تھا مغیرۃ [[مکہ]] میں [[مناسک حج]] انجام دینے میں مشغول تھا۔ وہ حج کے بعد فورا [[مدینہ]] پہنچا تاکہ خلیفہ کا دفاع کیا جاسکے۔<ref>ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ‏، دار صادر، ج۳، ص ۱۷۵۔</ref> مغیرۃ نے رجز پڑھتے ہوئے جنگ شروع کی۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج ۴، ص ۳۸۹؛ ابن‌اثیر، الکامل فی التاریخ‏، دار صادر، ج۳، ص ۱۷۵۔</ref> بعض تاریخی نقل کے مطابق مغیرۃ [[عبد اللہ بن بدیل|عبداللہ بن بُدَیل]] کے ہاتھوں قتل ہوا۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، بیروت، ج۴، ص۳۸۲۔</ref> نیز منقول ہے کہ مغیرۃ کا قاتل مدینہ کی گلی کوچوں میں اپنے کیے پر فخر کرتا ہوا پھرتا تھا۔<ref>بلاذری، جمل من انساب الاشراف، ۱۴۱۷ھ، ج۱۳، ص۴۳۷۔</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات}}
{{حوالہ جات}}
==نوٹ==
==نوٹ==
{{یادداشت‌ها}}
{{یادداشت‌ہا}}


==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* نهج البلاغة، تصحیح صبحی صالح، قم، مؤسسة دارالهجرة، ۱۴۱۴ق.
* نہج البلاغۃ، تصحیح صبحی صالح، قم، مؤسسۃ دارالہجرۃ، ۱۴۱۴ھ۔
* نهج البلاغه، تصحیح فتح‌الله کاشانی (تنبیه الغافیلن و تذکرة العارفین)، تهران، پیام حق، ۱۳۷۸ش.
* نہج البلاغہ، تصحیح فتح‌اللہ کاشانی (تنبیہ الغافیلن و تذکرۃ العارفین)، تہران، پیام حق، ۱۳۷۸ہجری شمسی۔
* ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی‌التاریخ، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۵-۱۳۸۶ق/۱۹۶۵-۱۹۶۶ش.
* ابن‌اثیر، علی بن محمد، الکامل فی‌التاریخ، بیروت، دار صادر، ۱۳۸۵-۱۳۸۶ھ/۱۹۶۵-۱۹۶۶ہجری شمسی۔
* ابن‌اعثم کوفی، محمد بن علی، الفتوح،بیروت، دار الأضواء، ۱۴۱۱ق.
* ابن‌اعثم کوفی، محمد بن علی، الفتوح،بیروت، دار الأضواء، ۱۴۱۱ھ۔
* ابن‌سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دارالکتب العلمیة، ۱۴۱۰ق.
* ابن‌سعد، محمد، الطبقات الکبری، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۱۰ھ۔
* ابن‌عبدالبر، یوسف بن عبدالله، الإستیعاب فی معرفة الأصحاب، بیروت، دار الجیل، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲م.
* ابن‌عبدالبر، یوسف بن عبداللہ، الإستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، بیروت، دار الجیل، ۱۴۱۲ھ/۱۹۹۲ء۔
* ابن‌میثم، میثم بن علی، شرح نهج البلاغة، تهران، دفتر نشر الکتاب، ۱۴۰۴ق.
* ابن‌میثم، میثم بن علی، شرح نہج البلاغۃ، تہران، دفتر نشر الکتاب، ۱۴۰۴ھ۔
* بَلَاذُری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۷ق/۱۹۹۶م.
* بَلَاذُری، احمد بن یحیی، انساب الأشراف بیروت، دار الفکر، ۱۴۱۷ھ/۱۹۹۶ء۔
* خسروی، خسرو، «بحرین»، در دانشنامه جهان اسلام، ج۲، تهران، بنیاد دایرةالمعارف اسلامی، ۱۳۹۳ش.
* خسروی، خسرو، «بحرین»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج۲، تہران، بنیاد دایرۃالمعارف اسلامی، ۱۳۹۳ہجری شمسی۔
* زرکلی، خیرالدین، الأعلام، دارالعلم للملایین، بیروت، ۱۹۸۹م.
* زرکلی، خیرالدین، الأعلام، دارالعلم للملایین، بیروت، ۱۹۸۹ء۔
* شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، قم، جماعه مدرسین حوزه علمیه قم، ۱۴۱۶ق.
* شیخ صدوق، محمد بن علی، الخصال، قم، جماعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۶ھ۔
* شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ق.
* شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ھ۔
* طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری (تاریخ الأمم و الملوک)، بیروت، بی‌نا، بی‌تا.
* طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری (تاریخ الأمم و الملوک)، بیروت، بی‌نا، بی‌تا۔
* قمی مشهدی، محمد بن محمدرضا، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، تهران، وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، ۱۳۶۷ش/۱۹۹۰م.
* قمی مشہدی، محمد بن محمدرضا، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۳۶۷ہجری شمسی/۱۹۹۰ء۔
* مغنیه، محمدجواد، فی ظلال نهج البلاغة، بیروت، دار العلم للملایین، ۱۹۷۹م.
* مغنیہ، محمدجواد، فی ظلال نہج البلاغۃ، بیروت، دار العلم للملایین، ۱۹۷۹ء۔
* مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، قم، مؤسسة آل البیت(ع)، ۱۴۱۳ق.
* مفید، محمد بن محمد، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، مؤسسۃ آل البیت(ع)، ۱۴۱۳ھ۔
* مکارم شیرازی، ناصر، پیام امیرالمومنین(ع)، تهران، دار الکتب الاسلامیه، ۱۳۸۶ش.
* مکارم شیرازی، ناصر، پیام امیرالمومنین(ع)، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۸۶ہجری شمسی۔
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
confirmed، movedable
5,154

ترامیم