مندرجات کا رخ کریں

"بت شکنی کا واقعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 11: سطر 11:
کچھ روایتوں کے مطابق پہلے حضرت علیؑ نے چاہا کہ حضورؐ کو اپنے کاندھوں پر اٹھائیں لیکن آپ اٹھا نہیں سکے، اس لئے حضرت علیؑ خود دوش پیغمبر پر سوار ہوئے<ref> نسائی، سنن نسائی، 1411ھ، ج5، ص142–143؛ ابی یعلی، مسند، 1410ھ، ج1، ص251-252۔</ref> اور بتوں کو کعبہ کے اوپر سے زمین پر گرادیا۔ دوسری کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت علیؑ نے شروع میں حضور اکرمؐ سے اپنے کاندھوں پر سوار ہونے کی گزارش کی تو آپ نے فرمایا کہ یہ کام کوئی نہیں کرسکتا۔<ref> بحرانی، البرہان، 1415ھ، ج3، ص579-580۔</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]] کے بقول یہ بار رسالت کی سنگینی کی وجہ سے تھا۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص135۔</ref> اسی طرح اس بارے میں دوسری وجوہات بھی ذکر ہوئی ہیں <ref> صدوق، معانی الأخبار، 1403ھ، ص350–352؛ بحرانی، البرہان، 1415ھ، ج3، ص576–578؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج38، ص82-84۔</ref> ایک اور نقل کے مطابق حضور اکرمؐ نے شروع میں ہی حضرت علیؑ سے اپنے کاندھوں پر سوار ہونے کا حکم دیا۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص136، 141۔</ref>
کچھ روایتوں کے مطابق پہلے حضرت علیؑ نے چاہا کہ حضورؐ کو اپنے کاندھوں پر اٹھائیں لیکن آپ اٹھا نہیں سکے، اس لئے حضرت علیؑ خود دوش پیغمبر پر سوار ہوئے<ref> نسائی، سنن نسائی، 1411ھ، ج5، ص142–143؛ ابی یعلی، مسند، 1410ھ، ج1، ص251-252۔</ref> اور بتوں کو کعبہ کے اوپر سے زمین پر گرادیا۔ دوسری کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت علیؑ نے شروع میں حضور اکرمؐ سے اپنے کاندھوں پر سوار ہونے کی گزارش کی تو آپ نے فرمایا کہ یہ کام کوئی نہیں کرسکتا۔<ref> بحرانی، البرہان، 1415ھ، ج3، ص579-580۔</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]] کے بقول یہ بار رسالت کی سنگینی کی وجہ سے تھا۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص135۔</ref> اسی طرح اس بارے میں دوسری وجوہات بھی ذکر ہوئی ہیں <ref> صدوق، معانی الأخبار، 1403ھ، ص350–352؛ بحرانی، البرہان، 1415ھ، ج3، ص576–578؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج38، ص82-84۔</ref> ایک اور نقل کے مطابق حضور اکرمؐ نے شروع میں ہی حضرت علیؑ سے اپنے کاندھوں پر سوار ہونے کا حکم دیا۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص136، 141۔</ref>


کعبہ کی چھت سے حضرت علی کے نیچے آنے کی کیفیت کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ کچھ احادیث کے مطابق حضرت علیؑ کعبہ کی چھت سے کودے اور اس وقت کعبہ کی چھت چالیس زراع{{نوٹ| ہر زراع کو 45 سے 75 سینٹی میٹر تک بیان کیا گیا ہے۔(عاملی بیاضی، الأوزان و المقادیر، 1381ھ، ص56۔)}} کی ہوتی تھی<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص141۔</ref> لیکن آپ کو کوئی چوٹ نہیں لگی۔<ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1422ھ، ج2، ص398۔</ref> دوسرے نقل کے مطابق، رسول خداؐ نے علیؑ سے فرمایا کہ [[جبرئیل]] نے تمہیں کعبہ کی چھت سے نیچے اتارا۔<ref> بحرانی، البرہان، 1415ھ، ج3، ص580۔</ref> [[عمر بن خطاب]] سے ایک نقل کے مطابق جب [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] نے بتوں کو توڑا تو [[حضرت محمد صلی الله علیه و آله|پیغمبر اکرمؐ]] نے ان سے کہا، اے علی نیچے اترو، علی ایک پرندے کی مانند نیچے آئے اور عمر ہمیشہ اس طرح کی آرزو کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جس اللہ کو علی مانتے تھے اس نے علی کو گرنے نہیں دیا۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج38، ص77 به نقل از منابع اهل سنت</ref>
کعبہ کی چھت سے حضرت علی کے نیچے آنے کی کیفیت کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ کچھ احادیث کے مطابق حضرت علیؑ کعبہ کی چھت سے کودے اور اس وقت کعبہ کی چھت چالیس زراع{{نوٹ| ہر زراع کو 45 سے 75 سینٹی میٹر تک بیان کیا گیا ہے۔(عاملی بیاضی، الأوزان و المقادیر، 1381ھ، ص56۔)}} کی ہوتی تھی<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص141۔</ref> لیکن آپ کو کوئی چوٹ نہیں لگی۔<ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1422ھ، ج2، ص398۔</ref> دوسرے نقل کے مطابق، رسول خداؐ نے علیؑ سے فرمایا کہ [[جبرئیل]] نے تمہیں کعبہ کی چھت سے نیچے اتارا۔<ref> بحرانی، البرہان، 1415ھ، ج3، ص580۔</ref> [[عمر بن خطاب]] سے ایک نقل کے مطابق جب [[امام علی علیہ السلام|امام علیؑ]] نے بتوں کو توڑا تو [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اکرمؐ]] نے ان سے کہا، اے علی نیچے اترو، علی ایک پرندے کی مانند نیچے آئے اور عمر ہمیشہ اس طرح کی آرزو کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ جس اللہ کو علی مانتے تھے اس نے علی کو گرنے نہیں دیا۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج38، ص77 منقول از منابع اہل سنت</ref>


کچھ روایات میں ہے کہ حضور اکرمؐ اس موقع پر آیہ {{عربی|«وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کاَنَ زَهوقًا»}}<ref>سورہ اسراء، آيہ81۔</ref> کی تلاوت فرما رہے تھے۔<ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1422ھ، ج2، ص398؛ ج3، ص6۔</ref> اس لحاظ سے کسر اصنام کے واقعہ کو اس آیت کا [[سبب نزول]] بھی بیان کیا گیا ہے۔<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص453–454؛ ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص135؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج38، ص86۔</ref> اسی طرح [[ابن شہر آشوب]] کی نقل کردہ روایت کی بنیاد پر آیہ {{عربی|«وَ رَفَعْناہ مَكاناً عَلِيًّا»}}<ref>سورہ مریم، آیہ 57۔</ref> اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص135۔</ref>
کچھ روایات میں ہے کہ حضور اکرمؐ اس موقع پر آیہ {{عربی|«وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کاَنَ زَهوقًا»}}<ref>سورہ اسراء، آيہ81۔</ref> کی تلاوت فرما رہے تھے۔<ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1422ھ، ج2، ص398؛ ج3، ص6۔</ref> اس لحاظ سے کسر اصنام کے واقعہ کو اس آیت کا [[سبب نزول]] بھی بیان کیا گیا ہے۔<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص453–454؛ ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص135؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج38، ص86۔</ref> اسی طرح [[ابن شہر آشوب]] کی نقل کردہ روایت کی بنیاد پر آیہ {{عربی|«وَ رَفَعْناہ مَكاناً عَلِيًّا»}}<ref>سورہ مریم، آیہ 57۔</ref> اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص135۔</ref>


بت شکنی کا واقعہ [[شیعہ]]<ref> برای نمونہ: ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص135–142؛ شوشتری، إحقاق الحق، 1409ھ، ج18، ص162-168۔</ref> و [[سنی]]<ref> ابن ابی  شیبہ، المصنف، 1429ھ، ج13، ص146–147؛ ابن حنبل، مسند، 1416ھ، ج2، ص73–74؛ بزار، مسند بزار، 1409ھ، ج4، ص21–22؛ نسائی، سنن نسائی، 1411ھ، ج5، ص142–143؛ ابی یعلی، مسند، 1410ھ، ج1، ص251-252؛ طبری، تہذیب الآثار، مسند علی بن ابی طالب(ع)، بی تا، ص236-240؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1422ھ، ج2، ص398، ج3، ص6۔</ref> دونوں کتب میں نقل ہوا ہے۔ [[عبداللہ بن عباس]]،<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص136، 141۔</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]]<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص453؛ ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص135۔</ref> اور ابو مریم<ref> برای نمونہ: ابن ابی شیبہ، المصنف، 1429ھ، ج13، ص146–147؛ ابن حنبل، مسند، 1416ھ، ج2، ص73–74؛ بزار، مسند بزار، 1409ھ، ج4، ص21–22؛ نسائی، سنن نسائی، 1411ھ، ج5، ص142–143؛ ابی یعلی، مسند، 1410ھ، ج1، ص251-252۔</ref> نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ [[علامہ امینی]] نے [[الغدیر (کتاب)|الغدیر]] میں ان علمائے اہل سنت کی فہرست ذکر کی ہے جنھوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔<ref> امینی، الغدیر، 1416ھ، ج7، ص18–24۔</ref>
بت شکنی کا واقعہ [[شیعہ]]<ref> برای نمونہ: ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص135–142؛ شوشتری، إحقاق الحق، 1409ھ، ج18، ص162-168۔</ref> و [[سنی]]<ref> ابن ابی  شیبہ، المصنف، 1429ھ، ج13، ص146–147؛ ابن حنبل، مسند، 1416ھ، ج2، ص73–74؛ بزار، مسند بزار، 1409ھ، ج4، ص21–22؛ نسائی، سنن نسائی، 1411ھ، ج5، ص142–143؛ ابی یعلی، مسند، 1410ھ، ج1، ص251-252؛ طبری، تہذیب الآثار، مسند علی بن ابی طالب(ع)، بی تا، ص236-240؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1422ھ، ج2، ص398، ج3، ص6۔</ref> دونوں کتب میں نقل ہوا ہے۔ [[عبداللہ بن عباس]]،<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص136، 141۔</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]]<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، ص453؛ ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص135۔</ref> اور ابو مریم<ref> برای نمونہ: ابن ابی شیبہ، المصنف، 1429ھ، ج13، ص146–147؛ ابن حنبل، مسند، 1416ھ، ج2، ص73–74؛ بزار، مسند بزار، 1409ھ، ج4، ص21–22؛ نسائی، سنن نسائی، 1411ھ، ج5، ص142–143؛ ابی یعلی، مسند، 1410ھ، ج1، ص251-252۔</ref> نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ [[علامہ امینی]] نے [[الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب (کتاب)|الغدیر]] میں ان علمائے اہل سنت کی فہرست ذکر کی ہے جنھوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔<ref> امینی، الغدیر، 1416ھ، ج7، ص18–24۔</ref>


==فضیلت شمار ہونا==
==فضیلت شمار ہونا==
سطر 22: سطر 22:
پیغمبر اکرمؐ کے ذریعہ حضرت علیؑ کو اپنے کاندھوں پر سوار کرنا امیر المومنینؑ کی مخصوص فضیلتوں میں شمار کیا گیا ہے۔<ref> نسائی، سنن نسائی، 1411ھ، ج5، ص142؛ بستی، کتاب المراتب، 1421ھ، ص124۔</ref> یہ واقعہ، فضائل کی کتابوں میں<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص135–142؛ شوشتری، إحقاق الحق، 1409ھ، ج18، ص162-168۔</ref> اور شعراء کے اشعار و قصائد میں بھی آیا ہے۔<ref> بکری، الأنوار، 1411ھ، ص148؛ حر عاملی، إثبات الہداۃ، 1425ھ، ج3، ص424۔</ref>
پیغمبر اکرمؐ کے ذریعہ حضرت علیؑ کو اپنے کاندھوں پر سوار کرنا امیر المومنینؑ کی مخصوص فضیلتوں میں شمار کیا گیا ہے۔<ref> نسائی، سنن نسائی، 1411ھ، ج5، ص142؛ بستی، کتاب المراتب، 1421ھ، ص124۔</ref> یہ واقعہ، فضائل کی کتابوں میں<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص135–142؛ شوشتری، إحقاق الحق، 1409ھ، ج18، ص162-168۔</ref> اور شعراء کے اشعار و قصائد میں بھی آیا ہے۔<ref> بکری، الأنوار، 1411ھ، ص148؛ حر عاملی، إثبات الہداۃ، 1425ھ، ج3، ص424۔</ref>


اس واقعہ کے بعد رسول اللہؐ نے [[حضرت ابراہیمؑ]] کو پہلا بت شکن اور حضرت علیؑ کو آخری بت شکن قرار دیا۔<ref> ابن شاذان، الفضائل، 1363ش، ص97؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج38، ص85۔</ref> کچھ روایتوں میں حضرت علیؑ کو {{عربی|«کاسِر الاصنام»}} (بتوں کو توڑنے والا) کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔<ref> ابن شاذان، الروضۃ، 1423ھ، ص31۔</ref> اہل سنت عالم دین سبط ابن جوزی (متوفی 654ھ) اپنی کتاب [[تذکرة الخواص من الامة فی ذکر خصائص الائمة (کتاب)|تذکرة الخواص]] میں امام علی کا نام علی رکھنے کے بارے میں ایک قول نقل کرتے ہیں جس کے تحت امامؑ کی ماں نے ان کا جو نام رکھا تھا وہ حیدر تھا اور بت شکنی کے لئے دوش رسالت پر چڑھے تھے اس وجہ سے آپ کو «علی» (بلند مرتبہ) نام دیا گیا ہے اور ابن جوزی کا کہنا ہے امام علیؑ کی ماں نے پیدائش کے وقت آپ کا نام علی رکھا۔<ref> ابن جوزی، تذکرة الخواص، 1418ھ، ص15.</ref>
اس واقعہ کے بعد رسول اللہؐ نے [[حضرت ابراہیمؑ]] کو پہلا بت شکن اور حضرت علیؑ کو آخری بت شکن قرار دیا۔<ref> ابن شاذان، الفضائل، 1363ش، ص97؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج38، ص85۔</ref> کچھ روایتوں میں حضرت علیؑ کو {{عربی|«کاسِر الاصنام»}} (بتوں کو توڑنے والا) کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔<ref> ابن شاذان، الروضۃ، 1423ھ، ص31۔</ref> اہل سنت عالم دین سبط ابن جوزی (متوفی 654ھ) اپنی کتاب [[تذکرۃ الخواص من الامۃ فی ذکر خصائص الائمۃ (کتاب)|تذکرۃ الخواص]] میں امام علی کا نام علی رکھنے کے بارے میں ایک قول نقل کرتے ہیں جس کے تحت امامؑ کی ماں نے ان کا جو نام رکھا تھا وہ حیدر تھا اور بت شکنی کے لئے دوش رسالت پر چڑھے تھے اس وجہ سے آپ کو «علی» (بلند مرتبہ) نام دیا گیا ہے اور ابن جوزی کا کہنا ہے امام علیؑ کی ماں نے پیدائش کے وقت آپ کا نام علی رکھا۔<ref> ابن جوزی، تذکرۃ الخواص، 1418ھ، ص15.</ref>


=== چھ رکنی شورا میں بت شکنی کا تذکرہ===
=== چھ رکنی شورا میں بت شکنی کا تذکرہ===
سطر 28: سطر 28:


==واقعہ کا وقت اور تاریخ==
==واقعہ کا وقت اور تاریخ==
اکثر کتب میں اس واقعہ کی تاریخ کا تذکرہ نہیں ہے اور صرف اس کے رات میں ہونے <ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1422ھ، ج2، ص398؛ ابن شهرآشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص141.</ref> اور خفیہ ہونے<ref> ابن حنبل، مسند، 1416ھ، ج2، ص73–74؛ بزار، مسند بزار، 1409ھ، ج4، ص21–22؛ ابی یعلی، مسند، 1410ھ، ج1، ص251۔</ref> پر اکتفاء کی گئی ہے۔ اس کے باوجود کچھ کتب میں اس کے [[شب ہجرت]] <ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1422ھ، ج3، ص6۔</ref> (جس رات علیؑ پیغمبر اکرمؐ کے بستر پر سوئے اور آنحضرتؑ مکہ سے نکل گئے) یا [[فتح مکہ]]<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص135، 140؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج38، ص86۔</ref> کے موقعہ پر ہونے کا تذکرہ ہے۔ [[علامہ مجلسی]] نے [[بحارالانوار]] میں [[امام صادقؑ]] سے نقل کیا ہے کہ یہ واقعہ، [[نوروز]] کے دن پیش آیا۔<ref> مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج38، ص86۔</ref> البتہ بحار الانوار میں دوسرے مقام پر کوشش کی ہے کہ اس میں متعدد روایات کو ایک ساتھ جمع کریں۔<ref> مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج56، ص138۔</ref>
اکثر کتب میں اس واقعہ کی تاریخ کا تذکرہ نہیں ہے اور صرف اس کے رات میں ہونے <ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1422ھ، ج2، ص398؛ ابن شہرآشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص141.</ref> اور خفیہ ہونے<ref> ابن حنبل، مسند، 1416ھ، ج2، ص73–74؛ بزار، مسند بزار، 1409ھ، ج4، ص21–22؛ ابی یعلی، مسند، 1410ھ، ج1، ص251۔</ref> پر اکتفاء کی گئی ہے۔ اس کے باوجود کچھ کتب میں اس کے [[شب ہجرت]] <ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1422ھ، ج3، ص6۔</ref> (جس رات علیؑ پیغمبر اکرمؐ کے بستر پر سوئے اور آنحضرتؑ مکہ سے نکل گئے) یا [[فتح مکہ]]<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، 1379ھ، ج2، ص135، 140؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج38، ص86۔</ref> کے موقعہ پر ہونے کا تذکرہ ہے۔ [[علامہ مجلسی]] نے [[بحارالانوار]] میں [[امام صادقؑ]] سے نقل کیا ہے کہ یہ واقعہ، [[نوروز]] کے دن پیش آیا۔<ref> مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج38، ص86۔</ref> البتہ بحار الانوار میں دوسرے مقام پر کوشش کی ہے کہ اس میں متعدد روایات کو ایک ساتھ جمع کریں۔<ref> مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج56، ص138۔</ref>


[[دانش نامه امیرالمؤمنین (کتاب)|دانشنامه امیرالمؤمنین]] میں روایات کی تحقیق کے بعد یہ احتمال دیا ہے کہ یہ واقعہ شب ہجرت میں رونما ہونا زیادہ قوی ہے۔<ref>محمدی ری شهری، دانشنامه امیرالمومنین، 1389ش، ج1، ص223.</ref> اسی طرح علامه مجلسی نے یہ احتمال دیا ہے بت شکنی چند مرتبہ انجام پایا ہے۔<ref> مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج56، ص138.</ref>
[[دانش نامہ امیرالمؤمنین (کتاب)|دانشنامہ امیرالمؤمنین]] میں روایات کی تحقیق کے بعد یہ احتمال دیا ہے کہ یہ واقعہ شب ہجرت میں رونما ہونا زیادہ قوی ہے۔<ref>محمدی ری شہری، دانشنامہ امیرالمومنین، 1389ش، ج1، ص223.</ref> اسی طرح علامہ مجلسی نے یہ احتمال دیا ہے بت شکنی چند مرتبہ انجام پایا ہے۔<ref> مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج56، ص138.</ref>
==نتائج==
==نتائج==
روایات کی بنیاد پر امام علیؑ کے ہاتھوں بت شکنی سبب بنی کہ اس کے بعد [[مشرکین]]، بتوں کو کعبہ میں نہ رکھیں۔<ref> ابن شاذان، الفضائل، 1363ش، ص97؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج38، ص85۔</ref> [[اہل  سنت]] کے بعض مآخذ میں اس واقعہ کو گناہوں کے وسائل نابود کرنے کے لازم ہونے پر دلیل بناکر پیش کیا گیا ہے۔<ref> طبری، تہذیب الآثار، مسند علی بن ابی  طالب (ع)، بی تا، ص238-240۔</ref>
روایات کی بنیاد پر امام علیؑ کے ہاتھوں بت شکنی سبب بنی کہ اس کے بعد [[مشرکین]]، بتوں کو کعبہ میں نہ رکھیں۔<ref> ابن شاذان، الفضائل، 1363ش، ص97؛ مجلسی، بحارالأنوار، 1403ھ، ج38، ص85۔</ref> [[اہل  سنت]] کے بعض مآخذ میں اس واقعہ کو گناہوں کے وسائل نابود کرنے کے لازم ہونے پر دلیل بناکر پیش کیا گیا ہے۔<ref> طبری، تہذیب الآثار، مسند علی بن ابی  طالب (ع)، بی تا، ص238-240۔</ref>


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم