مندرجات کا رخ کریں

"امام علی علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

عدد انگلیسی
م (Text replacement - "{{حوالہ جات2}}" to "{{حوالہ جات}}")
(عدد انگلیسی)
سطر 43: سطر 43:


==نسب، القاب و اوصاف ظاہری==
==نسب، القاب و اوصاف ظاہری==
*نسب: علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن [[ہاشم بن عبد مناف|ہاشم]] بن [[عبد مناف بن قصی|عبد مناف]] بن [[قصی بن کلاب|قُصَی]] بن کلاب، [[بنو ہاشم|ہاشمی]] [[قریش|قرشی]] ہیں۔<ref> مفید، الارشاد، ۱:‎ ۱۵۔</ref>
*نسب: علی بن ابی طالب بن عبد المطلب بن [[ہاشم بن عبد مناف|ہاشم]] بن [[عبد مناف بن قصی|عبد مناف]] بن [[قصی بن کلاب|قُصَی]] بن کلاب، [[بنو ہاشم|ہاشمی]] [[قریش|قرشی]] ہیں۔<ref> مفید، الارشاد، 1:‎ 15۔</ref>
*والد: آپ کے والد حضرت [[ابو طالب]] ایک سخی اور عدل پرور انسان اور عرب کے درمیان انتہائی قابل احترام تھے۔ وہ [[رسول اللہؐ]] کے چچا و حامی اور [[قریش]] کی بزرگ شخصیات میں سے تھے۔<ref>ابن اثیر، اسد الغابہ، ج 1، ص 15۔</ref>
*والد: آپ کے والد حضرت [[ابو طالب]] ایک سخی اور عدل پرور انسان اور عرب کے درمیان انتہائی قابل احترام تھے۔ وہ [[رسول اللہؐ]] کے چچا و حامی اور [[قریش]] کی بزرگ شخصیات میں سے تھے۔<ref>ابن اثیر، اسد الغابہ، ج 1، ص 15۔</ref>
*والدہ: آپ کی والدہ [[فاطمہ بنت اسد]] بن ہاشم بن عبد مناف ہیں۔<ref>مفید، ارشاد، ج 1، ص2۔</ref>
*والدہ: آپ کی والدہ [[فاطمہ بنت اسد]] بن ہاشم بن عبد مناف ہیں۔<ref>مفید، ارشاد، ج 1، ص2۔</ref>
*بھائی: طالب، [[عقیل بن ابی طالب|عقیل]] اور [[جعفر بن ابی طالب|جعفر]] ہیں۔
*بھائی: طالب، [[عقیل بن ابی طالب|عقیل]] اور [[جعفر بن ابی طالب|جعفر]] ہیں۔
*بہنیں: ہند یا [[ام ہانی]]، جمانہ، ریطہ یا ام طالب اور اسماء ہیں۔<ref>مجلسی، ج 19، ص 57۔</ref>
*بہنیں: ہند یا [[ام ہانی]]، جمانہ، ریطہ یا ام طالب اور اسماء ہیں۔<ref>مجلسی، ج 19، ص 57۔</ref>
مورخین کے مطابق، [[حضرت ابو طالب]] و [[فاطمہ بنت اسد]] کی شادی پہلی شادی ہے جس میں زوج و زوجہ دونوں ہاشمی ہیں<ref>قنوات، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۶۸۔</ref> اور اس لحاظ سے امام علی ؑ  پہلے فرد ہیں جن کے والد و والدہ دونوں [[بنی ہاشم|ہاشمی]] ہیں۔<ref>مصاحب، دایرة المعارف فارسی، ۲:‎ ۱۷۶۰۔</ref>  
مورخین کے مطابق، [[حضرت ابو طالب]] و [[فاطمہ بنت اسد]] کی شادی پہلی شادی ہے جس میں زوج و زوجہ دونوں ہاشمی ہیں<ref>قنوات، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 68۔</ref> اور اس لحاظ سے امام علی ؑ  پہلے فرد ہیں جن کے والد و والدہ دونوں [[بنی ہاشم|ہاشمی]] ہیں۔<ref>مصاحب، دایرة المعارف فارسی، 2:‎ 1760۔</ref>  


'''کنیت، القاب و صفات'''
'''کنیت، القاب و صفات'''
*کنیت: ابو الحسن،<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۵۔</ref> ابو الحسین، [[ابو السبطین]]، ابو الریحانتین، [[ابو تراب]] و ابو الآئمہ۔<ref> مرعشی نجفی، موسوعة الإمامة، ۱۴۳۰ق، ج۶، ص۱۹۷و ۱۹۸؛ محمدی ری‌ شہری، دانشنامہ أمیرالمؤمنین ع، ۱۳۸۹ش، ج۱۴، ص۳۰۸۔</ref>
*کنیت: ابو الحسن،<ref> شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج1، ص5۔</ref> ابو الحسین، [[ابو السبطین]]، ابو الریحانتین، [[ابو تراب]] و ابو الآئمہ۔<ref> مرعشی نجفی، موسوعة الإمامة، 1430ق، ج6، ص197و 198؛ محمدی ری‌ شہری، دانشنامہ أمیرالمؤمنین ع، 1389ش، ج14، ص308۔</ref>
*القاب: {{عربی|[[امیرالمؤمنین (لقب)|امیرالمؤمنین]]، [[یعسوب الدین|یعسوب الدین والمسلمین]]، مبیر الشرک والمشرکین، قاتل الناکثین والقاسطین والمارقین، مولٰی المؤمنین، شبیہ ہارون، حیدر، مرتضی، نفس الرسول، أخو الرسول، [[زوج البتول]]، سیف اللّہ‏ المسلول، امیر البررة، قاتل الفجرة، قسیم الجنّة والنار، صاحب اللواء، سیّد العرب، کشّاف الکرب، [[صدیق|الصدّیق الأکبر]]، ذوالقرنین، الہادی، [[فاروق|الفاروق]]، الداعی، الشاہد، باب المدینة، والی، وصیّ، قاضی دین رسول اللّہ‏ؐ، منجز وعدہ، النبأ العظیم، الصراط المستقیم والأنزع البطین}}<ref>ابن شہر آشوب، ج 3، ص 321-334۔</ref>
*القاب: {{عربی|[[امیرالمؤمنین (لقب)|امیرالمؤمنین]]، [[یعسوب الدین|یعسوب الدین والمسلمین]]، مبیر الشرک والمشرکین، قاتل الناکثین والقاسطین والمارقین، مولٰی المؤمنین، شبیہ ہارون، حیدر، مرتضی، نفس الرسول، أخو الرسول، [[زوج البتول]]، سیف اللّہ‏ المسلول، امیر البررة، قاتل الفجرة، قسیم الجنّة والنار، صاحب اللواء، سیّد العرب، کشّاف الکرب، [[صدیق|الصدّیق الأکبر]]، ذوالقرنین، الہادی، [[فاروق|الفاروق]]، الداعی، الشاہد، باب المدینة، والی، وصیّ، قاضی دین رسول اللّہ‏ؐ، منجز وعدہ، النبأ العظیم، الصراط المستقیم والأنزع البطین}}<ref>ابن شہر آشوب، ج 3، ص 321-334۔</ref>


'''لقب امیر المؤمنین'''
'''لقب امیر المؤمنین'''
{{اصلی|امیرالمؤمنین (لقب)}}
{{اصلی|امیرالمؤمنین (لقب)}}
امیرالمومنین کے معنی مؤمنین کے امیر، حاکم اور رہبر کے ہیں۔ [[اہل تشیع]] کے مطابق یہ لقب [[حضرت علیؑ]] کے ساتھ مختص ہے۔ ان کے مطابق یہ لقب پہلی بار [[حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|پیغمبر اسلامؐ]] کے زمانے میں حضرت علیؑ کے لئے استعمال کیا گیا اور صرف آپؑ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اسی لئے شیعہ حضرات اس کا استعمال دوسرے [[خلیفہ|خلفاء]] حتی امام علیؑ کے علاوہ دوسرے ائمہ کے لئے بھی صحیح نہیں سمجھتے ہیں۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ج۳۷، ص۳۳۴؛ حر عاملی، وسائل‌ الشیعہ، ج۱۴، ص۶۰۰۔</ref>
امیرالمومنین کے معنی مؤمنین کے امیر، حاکم اور رہبر کے ہیں۔ [[اہل تشیع]] کے مطابق یہ لقب [[حضرت علیؑ]] کے ساتھ مختص ہے۔ ان کے مطابق یہ لقب پہلی بار [[حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم|پیغمبر اسلامؐ]] کے زمانے میں حضرت علیؑ کے لئے استعمال کیا گیا اور صرف آپؑ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اسی لئے شیعہ حضرات اس کا استعمال دوسرے [[خلیفہ|خلفاء]] حتی امام علیؑ کے علاوہ دوسرے ائمہ کے لئے بھی صحیح نہیں سمجھتے ہیں۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ج37، ص334؛ حر عاملی، وسائل‌ الشیعہ، ج14، ص600۔</ref>


'''جسمانی اوصاف'''
'''جسمانی اوصاف'''


مختلف مصادر کے مطابق آپ کا قد درمیانہ، آنکھیں سیاہ و کھلی، ابرو کمان کی مانند کھنچے و ملے ہوئے، چہرہ انتہائی خوبصورت و دلکش، چہرے کی رنگت گندمی، داڑھی گھنی اور شانے کشادہ تھے۔<ref> امین، سیره معصومان، ج۲، ص۱۳۔</ref> بعض منابع کے مطابق [[رسول اللہ]] نے انہیں بطین کے لقب سے نوازا اسی وجہ سے بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ امام علی جسمانی لحاظ سے موٹاپے کی طرف مائل تھے لیکن بعض نے اس بطین سے {{حدیث|البطین من العلم}} (علم سے بھرا ہوا) مراد لیا ہے۔<ref> طوسی، الأمالی، ص۲۹۳۔</ref> دیگر اور قرائن بھی اسی کی تائید کرتے ہیں ان میں سے بعض زیارتوں میں حضرت علی کو بطین کی صفت سے یاد کیا گیا ہے۔<ref>ر ک: مستدرك‏ الوسائل ج : 18 ص : 152۔</ref>  
مختلف مصادر کے مطابق آپ کا قد درمیانہ، آنکھیں سیاہ و کھلی، ابرو کمان کی مانند کھنچے و ملے ہوئے، چہرہ انتہائی خوبصورت و دلکش، چہرے کی رنگت گندمی، داڑھی گھنی اور شانے کشادہ تھے۔<ref> امین، سیره معصومان، ج2، ص13۔</ref> بعض منابع کے مطابق [[رسول اللہ]] نے انہیں بطین کے لقب سے نوازا اسی وجہ سے بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ امام علی جسمانی لحاظ سے موٹاپے کی طرف مائل تھے لیکن بعض نے اس بطین سے {{حدیث|البطین من العلم}} (علم سے بھرا ہوا) مراد لیا ہے۔<ref> طوسی، الأمالی، ص293۔</ref> دیگر اور قرائن بھی اسی کی تائید کرتے ہیں ان میں سے بعض زیارتوں میں حضرت علی کو بطین کی صفت سے یاد کیا گیا ہے۔<ref>ر ک: مستدرك‏ الوسائل ج : 18 ص : 152۔</ref>  


آپ کی قدرت بدنی کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ جس کسی کے ساتھ بھی لڑے اس کو زمین پر دے مارا۔<ref>ابن قتیبہ، المعارف، بیروت: دار الکتب العلمیہ، 1407ق/1987ء، ص 121۔</ref> [[ابن ابی الحدید]] شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں: امامؑ کی جسمانی قوت ضرب المثل میں بدل گئی ہے۔ آپ ہی تھے جنہوں نے در [[غزوہ خیبر|خیبر]] اکھاڑا اورجبکہ ایک جماعت نے وہ دروازہ دوبارہ لگانے کی کوشش کی لیکن ایسا ممکن نہ ہوا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے [[ہبَل]] نامی بت کو جو حقیقتاً بڑا بت تھا، [[کعبہ]] کے اوپر سے زمین پر دے مارا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک بڑے پتھر کو اکھاڑ دیا اور اس کے نیچے سے پانی ابل پڑا، جبکہ آپ کے لشکر میں شامل تمام افراد اس میں ناکام ہو چکے تھے۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 21۔</ref>
آپ کی قدرت بدنی کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ جس کسی کے ساتھ بھی لڑے اس کو زمین پر دے مارا۔<ref>ابن قتیبہ، المعارف، بیروت: دار الکتب العلمیہ، 1407ق/1987ء، ص 121۔</ref> [[ابن ابی الحدید]] شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں: امامؑ کی جسمانی قوت ضرب المثل میں بدل گئی ہے۔ آپ ہی تھے جنہوں نے در [[غزوہ خیبر|خیبر]] اکھاڑا اورجبکہ ایک جماعت نے وہ دروازہ دوبارہ لگانے کی کوشش کی لیکن ایسا ممکن نہ ہوا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے [[ہبَل]] نامی بت کو جو حقیقتاً بڑا بت تھا، [[کعبہ]] کے اوپر سے زمین پر دے مارا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے اپنی خلافت کے زمانے میں ایک بڑے پتھر کو اکھاڑ دیا اور اس کے نیچے سے پانی ابل پڑا، جبکہ آپ کے لشکر میں شامل تمام افراد اس میں ناکام ہو چکے تھے۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، ص 21۔</ref>
سطر 66: سطر 66:
==سوانح حیات==
==سوانح حیات==
[[ملف:مولود کعبه.jpg|تصغیر|مولود کعبہ کے بارے میں ایرانی آرٹسٹ فرشچیان کی فنکاری]]
[[ملف:مولود کعبه.jpg|تصغیر|مولود کعبہ کے بارے میں ایرانی آرٹسٹ فرشچیان کی فنکاری]]
حضرت علیؑ مردوں میں سب سے پہلے [[حضرت محمدؐ]] پر [[ایمان]] لائے۔<ref> نسائی، السنن الکبری، ۵:‎ ۱۰۷؛ ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۱۵؛ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۶۵؛ ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۳۰۔</ref> آپ [[شیعوں]] کے پہلے [[امام]]<ref> مفید، الارشاد، ۱:‎ ۲۔</ref> اور [[اہل سنت]] کے چوتھے [[خلیفہ]] ہیں۔
حضرت علیؑ مردوں میں سب سے پہلے [[حضرت محمدؐ]] پر [[ایمان]] لائے۔<ref> نسائی، السنن الکبری، 5:‎ 107؛ ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 15؛ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، 65؛ ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 30۔</ref> آپ [[شیعوں]] کے پہلے [[امام]]<ref> مفید، الارشاد، 1:‎ </ref> اور [[اہل سنت]] کے چوتھے [[خلیفہ]] ہیں۔
===ولادت سے ہجرت تک===
===ولادت سے ہجرت تک===
امام علیؑ [[13 رجب]] 30 [[عام الفیل]] بروز جمعہ (23 سال قبل از ہجرت) [[خانہ کعبہ]] کے اندر متولد ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ج 1، ص 5 (کتب خانہ اہل بیتؑ میں موجود سی ڈی، نسخۂ دوئم)۔</ref> کعبہ میں آپ کی ولادت کی [[روایت]] کو [[شیخ صدوق]]، [[شیخ مفید]] [[سید رضی]]، [[قطب راوندی]] و [[ابن شہرآشوب]] سمیت تمام شیعہ علماء اور حاکم نیشابوری، حافظ گنجی شافعی، ابن جوزی حنفی، ابن صباغ مالکی، حلبی اور مسعودی سمیت بیشتر سنی علماء [[حدیث متواتر|متواتر]] (مسَلَّمہ) سمجھتے ہیں۔<ref>امینی، ج 6، ص 21-23۔</ref>
امام علیؑ [[13 رجب]] 30 [[عام الفیل]] بروز جمعہ (23 سال قبل از ہجرت) [[خانہ کعبہ]] کے اندر متولد ہوئے۔<ref>مفید، الارشاد، ج 1، ص 5 (کتب خانہ اہل بیتؑ میں موجود سی ڈی، نسخۂ دوئم)۔</ref> کعبہ میں آپ کی ولادت کی [[روایت]] کو [[شیخ صدوق]]، [[شیخ مفید]] [[سید رضی]]، [[قطب راوندی]] و [[ابن شہرآشوب]] سمیت تمام شیعہ علماء اور حاکم نیشابوری، حافظ گنجی شافعی، ابن جوزی حنفی، ابن صباغ مالکی، حلبی اور مسعودی سمیت بیشتر سنی علماء [[حدیث متواتر|متواتر]] (مسَلَّمہ) سمجھتے ہیں۔<ref>امینی، ج 6، ص 21-23۔</ref>


6 برس کی عمر میں (ہجرت سے 17 سال پہلے) جب [[مکہ]] میں قحط پڑا تو آپ کو [[آنحضرت]] کے گھر جبکہ آپ کے بھائی [[جعفر بن ابی طالب |جعفر]] کو [[عباس بن عبد المطلب]] کے گھر جانا پڑا چونکہ آپ کے والد [[ابو طالب]] اس وقت اپنے کثیر العیال خانوادے کا خرچ اٹھانے سے قاصر تھے۔<ref> ابن هشام، السیرة النبویہ، ۱:‎ ۱۶۲۔</ref> امام علی نے اپنے ایک [[خطبہ]] میں اس دور میں آنحضرت کے نیک سلوک کی طرف اشارہ کیا ہے۔<ref> شہیدی، ترجمہ نهج‌ البلاغہ، ۲۲۲۔</ref>
6 برس کی عمر میں (ہجرت سے 17 سال پہلے) جب [[مکہ]] میں قحط پڑا تو آپ کو [[آنحضرت]] کے گھر جبکہ آپ کے بھائی [[جعفر بن ابی طالب |جعفر]] کو [[عباس بن عبد المطلب]] کے گھر جانا پڑا چونکہ آپ کے والد [[ابو طالب]] اس وقت اپنے کثیر العیال خانوادے کا خرچ اٹھانے سے قاصر تھے۔<ref> ابن هشام، السیرة النبویہ، 1:‎ 162۔</ref> امام علی نے اپنے ایک [[خطبہ]] میں اس دور میں آنحضرت کے نیک سلوک کی طرف اشارہ کیا ہے۔<ref> شہیدی، ترجمہ نهج‌ البلاغہ، 222۔</ref>


[[بعثت]] [[پیغمبر]] کے بعد (ہجرت سے 13 سال قبل) مردوں میں آپ و عورتوں میں [[حضرت خدیجہ]] سب سے پہلے آنحضرت پر [[ایمان]] لائیں۔<ref> مصاحب، دایرة المعارف فارسی، ۲:‎ ۱۷۶۰۔، شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۱۳۔</ref> آپ اس وقت دس برس کے تھے اور پیغمبر کے ہمراہ مخفیانہ طور پر [[مکہ]] کے اطراف کے پہاڑوں میں [[نماز]] پڑھا کرتے تھے۔<ref> معادی خواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، ۶۴۔، مصاحب، دایرة المعارف فارسی، ۲:‎ ۱۷۶۰۔</ref> جب آنحضرت نے علنی طور پر دعوت [[اسلام]] شروع کی اور حکم ہوا کہ اپنے اعزا کو اسلام کی دعوت دیں جسے [[حدیث یوم الدار|دعوت ذو العشیرہ]] یا [[حدیث یوم الدار|واقعہ یوم الدار]] کہتے ہیں، میں آپ نے آنحضرتؐ کی حمایت کی اور انہوں نے آپ کو اپنا بھائی، وصی و جانشین قرار دیا۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، ۸۰۔</ref> [[ہجرت]] سے 6 سال قبل جب [[مسلمانوں]] کو [[شرک|مشرکین]] مکہ نے [[شعب ابی طالب]] میں محصور کر دیا اور ان کی خرید و فروش، آمد و رفت پر پابندی عائد کر دی گئی، اس عرصہ میں [[حضرت ابو طالب]] نے بارہا آنحضرت کی جگہ پر آپؑ کو سلایا۔<ref> شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۱۴۔</ref> محاصرہ ختم ہونے کے کچھ عرصہ کے بعد ہجرت سے تین سال پہلے جب آپ 19 سال کے تھے تو والد کے سایہ سے محروم ہو گئے۔<ref> قنوات، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۹۹۔</ref> حضرت ابو طالب کے بعد حالات مسلمانوں کے لئے بدتر ہو گئے اور آنحضرت نے [[مدینہ]] ہجرت کا ارادہ کیا۔ [[شب ہجرت]] میں جب آپ کی عمر 23 تھی، آپ مشرکین کی پیغمبر اکرم کے قتل کی سازش سے آگاہ ہونے کے باوجود ان کی جگہ پر سوئے۔ یہ شب [[لیلۃ المبیت]] کے نام سے مشہور ہے۔<ref> شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۱۴؛۔</ref> آپ چند روز کے بعد آنحضرتؐ کے پاس جمع امانتوں کو واپس کرکے ایک گروہ کے ساتھ [[حضرت فاطمہ]] و [[فاطمہ بنت اسد]] کے ہمراہ مدینہ گئے۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، ۱۵۵-۱۵۸؛ مصاحب، دایرة المعارف فارسی، ۲:‎ ۱۷۶۰۔</ref>
[[بعثت]] [[پیغمبر]] کے بعد (ہجرت سے 13 سال قبل) مردوں میں آپ و عورتوں میں [[حضرت خدیجہ]] سب سے پہلے آنحضرت پر [[ایمان]] لائیں۔<ref> مصاحب، دایرة المعارف فارسی، 2:‎ 1760۔، شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 13۔</ref> آپ اس وقت دس برس کے تھے اور پیغمبر کے ہمراہ مخفیانہ طور پر [[مکہ]] کے اطراف کے پہاڑوں میں [[نماز]] پڑھا کرتے تھے۔<ref> معادی خواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، 64۔، مصاحب، دایرة المعارف فارسی، 2:‎ 1760۔</ref> جب آنحضرت نے علنی طور پر دعوت [[اسلام]] شروع کی اور حکم ہوا کہ اپنے اعزا کو اسلام کی دعوت دیں جسے [[حدیث یوم الدار|دعوت ذو العشیرہ]] یا [[حدیث یوم الدار|واقعہ یوم الدار]] کہتے ہیں، میں آپ نے آنحضرتؐ کی حمایت کی اور انہوں نے آپ کو اپنا بھائی، وصی و جانشین قرار دیا۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، 80۔</ref> [[ہجرت]] سے 6 سال قبل جب [[مسلمانوں]] کو [[شرک|مشرکین]] مکہ نے [[شعب ابی طالب]] میں محصور کر دیا اور ان کی خرید و فروش، آمد و رفت پر پابندی عائد کر دی گئی، اس عرصہ میں [[حضرت ابو طالب]] نے بارہا آنحضرت کی جگہ پر آپؑ کو سلایا۔<ref> شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 14۔</ref> محاصرہ ختم ہونے کے کچھ عرصہ کے بعد ہجرت سے تین سال پہلے جب آپ 19 سال کے تھے تو والد کے سایہ سے محروم ہو گئے۔<ref> قنوات، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 99۔</ref> حضرت ابو طالب کے بعد حالات مسلمانوں کے لئے بدتر ہو گئے اور آنحضرت نے [[مدینہ]] ہجرت کا ارادہ کیا۔ [[شب ہجرت]] میں جب آپ کی عمر 23 تھی، آپ مشرکین کی پیغمبر اکرم کے قتل کی سازش سے آگاہ ہونے کے باوجود ان کی جگہ پر سوئے۔ یہ شب [[لیلۃ المبیت]] کے نام سے مشہور ہے۔<ref> شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 14؛۔</ref> آپ چند روز کے بعد آنحضرتؐ کے پاس جمع امانتوں کو واپس کرکے ایک گروہ کے ساتھ [[حضرت فاطمہ]] و [[فاطمہ بنت اسد]] کے ہمراہ مدینہ گئے۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، 155-158؛ مصاحب، دایرة المعارف فارسی، 2:‎ 1760۔</ref>


===ہجرت کے بعد===
===ہجرت کے بعد===
[[مدینہ]] [[ہجرت]] کرتے وقت آنحضرت نے مقام [[قبا]] میں تقریبا 15 دن تک رک کر حضرت علی اور ان کے ہمراہ آنے والے افراد کا انتظار کیا۔<ref> رجبی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۱۶۱۔</ref> مدینہ میں [[مسجد النبی]] کی تعمیر کے بعد آنحضرتؐ نے اپنے پہلے خطبے میں [[مہاجرین]] و [[انصار]] کو ایک دوسرے کا [[مواخات|بھائی بنایا]] اور حضرت علی کو اپنا بھائی بنایا۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، ۱۸۸۔</ref> [[سنہ 2 ہجری]] میں مسلمانوں و مشرکین کے درمیان [[جنگ بدر]] پیش آئی۔ دشمن کی فوج کے بہت سے افراد جن میں سردار بھی شامل تھے، حضرت علی کے ہاتھوں قتل ہوئے۔<ref> عاملی، الصحیح، ۵:‎ ۶۰؛ قنوات، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۱۶۶؛ شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۱۶۔</ref> جنگ بدر کے بعد<ref> ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، ۵۹۔</ref> آپ نے 25 برس کی عمر میں [[حضرت فاطمہ]] سے شادی کی<ref> طبری، تاریخ طبری، ۲:‎ ۴۱۰۔</ref> جبکہ ان کے اور بھی طلبگار تھے۔<ref> ابن سعد، طبقات الکبری، ۸:‎ ۱۶؛ قزوینی، فاطمة الزهراء، ۱۹۲۔</ref> آنحضرت نے بذات خود صیغہ عقد جاری کیا۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، ۳:‎ ۳۵۰۔</ref>  
[[مدینہ]] [[ہجرت]] کرتے وقت آنحضرت نے مقام [[قبا]] میں تقریبا 15 دن تک رک کر حضرت علی اور ان کے ہمراہ آنے والے افراد کا انتظار کیا۔<ref> رجبی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 161۔</ref> مدینہ میں [[مسجد النبی]] کی تعمیر کے بعد آنحضرتؐ نے اپنے پہلے خطبے میں [[مہاجرین]] و [[انصار]] کو ایک دوسرے کا [[مواخات|بھائی بنایا]] اور حضرت علی کو اپنا بھائی بنایا۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، 188۔</ref> [[سنہ 2 ہجری]] میں مسلمانوں و مشرکین کے درمیان [[جنگ بدر]] پیش آئی۔ دشمن کی فوج کے بہت سے افراد جن میں سردار بھی شامل تھے، حضرت علی کے ہاتھوں قتل ہوئے۔<ref> عاملی، الصحیح، 5:‎ 60؛ قنوات، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 166؛ شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 16۔</ref> جنگ بدر کے بعد<ref> ابو الفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، 59۔</ref> آپ نے 25 برس کی عمر میں [[حضرت فاطمہ]] سے شادی کی<ref> طبری، تاریخ طبری، 2:‎ 410۔</ref> جبکہ ان کے اور بھی طلبگار تھے۔<ref> ابن سعد، طبقات الکبری، 8:‎ 16؛ قزوینی، فاطمة الزهراء، 192۔</ref> آنحضرت نے بذات خود صیغہ عقد جاری کیا۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، 3:‎ 350۔</ref>  


[[سنہ 3 ہجری]] مین مشرکین نے جنگ بدر کا بدلہ لینے کے لئے [[جنگ احد]] مسلمانوں پر تحمیل کی۔<ref> شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۱۶۔</ref> آپ ان افراد میں سے تھے جنہوں کے جنگ کو ترک نہیں کیا اور آنحضرت کا دفاع کرتے رہے۔<ref> شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۱۴۔</ref> نقل ہوا ہے کہ اس جنگ میں آپ کو 16 زخم لگے۔<ref> مصاحب، دایرة المعارف فارسی، ۲:‎ ۱۷۶۰۔</ref> [[شیخ کلینی]] و [[طبری]] کے مطابق، یہ مشہور جملہ: سَیفَ اِلّا ذوالفَقار، لا فَتی اِلّا عَلیّ اس جنگ میں حضرت [[جبرئیل]] نے آپ کی مدح میں کہا ہے۔<ref> طبری، تاریخ طبری، ۳:‎ ۱۰۲۷؛ کلینی، کافی، ۱۱۰؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۲:‎ ۱۰۷۔</ref> اسی سال آپ کے بڑے بیٹے [[امام حسن]] کی ولادت ہوئی۔<ref> کلینی، کافی، ۱:‎ ۴۶۱؛ طبری، تاریخ طبری، ۲:‎ ۵۳۷؛ مفید، الارشاد، ۲:‎ ۵۔</ref> [[سنہ 4 ہجری]] میں جب آپ کی عمر 27 سال تھی، آپ کی والدہ [[فاطمہ بنت اسد]] کی وفات ہوئی۔<ref> این جوزی، تذکرة الخواص، ۶۔</ref> آپ کے دوسرے فرزند [[امام حسین]] کی ولادت اسی سال میں ہوئی۔<ref> یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ۲:‎ ۲۴۶؛ دولابی، الذریة الطاهرة، ۱۰۲؛ طبری، تاریخ طبری، ۲:‎ ۵۵۵؛ مفید، الارشاد، ۲:‎ ۲۷۔</ref>
[[سنہ 3 ہجری]] مین مشرکین نے جنگ بدر کا بدلہ لینے کے لئے [[جنگ احد]] مسلمانوں پر تحمیل کی۔<ref> شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 16۔</ref> آپ ان افراد میں سے تھے جنہوں کے جنگ کو ترک نہیں کیا اور آنحضرت کا دفاع کرتے رہے۔<ref> شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 14۔</ref> نقل ہوا ہے کہ اس جنگ میں آپ کو 16 زخم لگے۔<ref> مصاحب، دایرة المعارف فارسی، 2:‎ 1760۔</ref> [[شیخ کلینی]] و [[طبری]] کے مطابق، یہ مشہور جملہ: سَیفَ اِلّا ذوالفَقار، لا فَتی اِلّا عَلیّ اس جنگ میں حضرت [[جبرئیل]] نے آپ کی مدح میں کہا ہے۔<ref> طبری، تاریخ طبری، 3:‎ 1027؛ کلینی، کافی، 110؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 2:‎ 107۔</ref> اسی سال آپ کے بڑے بیٹے [[امام حسن]] کی ولادت ہوئی۔<ref> کلینی، کافی، 1:‎ 461؛ طبری، تاریخ طبری، 2:‎ 537؛ مفید، الارشاد، 2:‎ </ref> [[سنہ 4 ہجری]] میں جب آپ کی عمر 27 سال تھی، آپ کی والدہ [[فاطمہ بنت اسد]] کی وفات ہوئی۔<ref> این جوزی، تذکرة الخواص، </ref> آپ کے دوسرے فرزند [[امام حسین]] کی ولادت اسی سال میں ہوئی۔<ref> یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، 2:‎ 246؛ دولابی، الذریة الطاهرة، 102؛ طبری، تاریخ طبری، 2:‎ 555؛ مفید، الارشاد، 2:‎ 27۔</ref>


[[سنہ 5 ہجری]] میں [[جنگ خندق]] پیش آئی<ref> ابن هشام، السیرة النبویہ، ۳:‎ ۲۲۴؛ طبری، تاریخ طبری، ۲:‎ ۵۶۴۔</ref> اور حضرت علی کی شجاعت کی وجہ سے [[عمرو بن عبدود]] کے قتل پر اس کا خاتمہ ہوا۔<ref> واقدی، المغازی، ۲:‎ ۴۷۱-۷۷۰؛ ابن هشام، السیرة النبویہ، ۳:‎ ۲۳۷-۲۳۴؛ طبری، تاریخ طبری، ۲:‎ ۵۷۴-۶۷۳؛ مفید، الارشاد، ۱۰۹-۹۸؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱:‎ ۳۸۲-۳۷۹۔</ref> اسی سال آپ کی بیٹی [[حضرت زینب]] کی ولادت ہوئی۔<ref> ابن اثیر، اسد الغابہ، ۶:‎ ۱۳۲؛ کحالہ، اعلام النساء، ۲:‎ ۹۱۔</ref> [[سنہ 6 ہجری]] میں آنحضرت و [[کفار]] کے درمیان [[صلح حدیبیہ]] ہوئی، جس کی کتابت آپ نے کی۔<ref> ابن هشام، السیرة النبویہ، ۲:‎ ۷۷۶۔</ref> اسی سال آپ کی دوسری بیٹی حضرت [[ام کلثوم]] کی ولادت ہوئی۔<ref> ذهبی، اعلام النبلاء، ۳:‎ ۵۰۰؛ دخیل، اعلام النساء، ۲۳۸۔</ref> اس سال کے ماہ [[شعبان]] میں آنحضرت نے [[سریہ]] [[فدک]] و [[یہودیوں]] کے سرکوبی کے لئے آپ کو منتخب کیا۔<ref> طبری، تاریخ طبری، ۲:‎ ۶۴۲۔</ref> [[سنہ 7 ہجری]] میں [[جنگ خیبر]] پیش آئی۔<ref> ابن هشام، السیرة النبویہ، ۳:‎ ۳۵۵-۳۴۲؛ ابن حبیب، کتاب المحبر، ۱۱۵۔</ref> اس جنگ میں آپ پرچم داروں میں سے تھے<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، ۶۷۴۔</ref> اور آپ ہی کے پرچم تلے [[مسلمانوں]] کو فتح نصیب ہوئی۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، ۶۷۸۔</ref> [[سنہ 8 ہجری]] 31 برس کی عمر میں [[فتح مکہ]] کے موقع پر آپ فوج کے سرداروں میں سے تھے<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، ۷۸۹۔</ref> اور آپ نے [[کعبہ]] میں موجود بتوں کو توڑنے آنحضرت کی نصرت کی۔<ref> ابن طاووس، الطرائف، ۱:‎ ۸۰۔</ref>
[[سنہ 5 ہجری]] میں [[جنگ خندق]] پیش آئی<ref> ابن هشام، السیرة النبویہ، 3:‎ 224؛ طبری، تاریخ طبری، 2:‎ 564۔</ref> اور حضرت علی کی شجاعت کی وجہ سے [[عمرو بن عبدود]] کے قتل پر اس کا خاتمہ ہوا۔<ref> واقدی، المغازی، 2:‎ 471-770؛ ابن هشام، السیرة النبویہ، 3:‎ 237-234؛ طبری، تاریخ طبری، 2:‎ 574-673؛ مفید، الارشاد، 109-98؛ طبرسی، اعلام الوری، 1:‎ 382-379۔</ref> اسی سال آپ کی بیٹی [[حضرت زینب]] کی ولادت ہوئی۔<ref> ابن اثیر، اسد الغابہ، 6:‎ 132؛ کحالہ، اعلام النساء، 2:‎ 91۔</ref> [[سنہ 6 ہجری]] میں آنحضرت و [[کفار]] کے درمیان [[صلح حدیبیہ]] ہوئی، جس کی کتابت آپ نے کی۔<ref> ابن هشام، السیرة النبویہ، 2:‎ 776۔</ref> اسی سال آپ کی دوسری بیٹی حضرت [[ام کلثوم]] کی ولادت ہوئی۔<ref> ذهبی، اعلام النبلاء، 3:‎ 500؛ دخیل، اعلام النساء، 238۔</ref> اس سال کے ماہ [[شعبان]] میں آنحضرت نے [[سریہ]] [[فدک]] و [[یہودیوں]] کے سرکوبی کے لئے آپ کو منتخب کیا۔<ref> طبری، تاریخ طبری، 2:‎ 642۔</ref> [[سنہ 7 ہجری]] میں [[جنگ خیبر]] پیش آئی۔<ref> ابن هشام، السیرة النبویہ، 3:‎ 355-342؛ ابن حبیب، کتاب المحبر، 115۔</ref> اس جنگ میں آپ پرچم داروں میں سے تھے<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، 674۔</ref> اور آپ ہی کے پرچم تلے [[مسلمانوں]] کو فتح نصیب ہوئی۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، 678۔</ref> [[سنہ 8 ہجری]] 31 برس کی عمر میں [[فتح مکہ]] کے موقع پر آپ فوج کے سرداروں میں سے تھے<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، 789۔</ref> اور آپ نے [[کعبہ]] میں موجود بتوں کو توڑنے آنحضرت کی نصرت کی۔<ref> ابن طاووس، الطرائف، 1:‎ 80۔</ref>


[[سنہ 9 ہجری]] میں [[جنگ تبوک]] پیش آئی۔ آنحضرت نے پہلی بار حضرت علی کو [[مدینہ]] میں اپنے جانشین و اپنے خانوادے کی محافظت پر مامور کیا۔ یہ واحد جنگ ہے جس میں [[امیر المومنین]] نے شرکت نہیں کی۔<ref> مفید، الارشاد، ۱:‎ ۱۵۶؛ ابن هشام، السیرة النبویہ، ۴:‎ ۱۶۳۔</ref> مشرکین کی طرف سے پھیلائی گئی افواہ کے بعد آپ نے خود کو آنحضرت تک پہچایا اور انہیں اس ماجرا سے آگاہ کیا۔ آنحضرت نے فرمایا: کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو [[ہارون]] کو [[حضرت موسی]] سے تھی۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، ۹۲۶۔</ref> یہ قول [[حدیث منزلت]] کے نام سے مشہور ہے۔<ref> ابن حنبل، مسند، ۱:‎ ۲۷۷؛ ابن حنبل، مسند، ۳:‎ ۴۱۷؛ ابن حنبل، مسند، ۷:‎ ۵۱۳؛ بخاری، صحیح بخاری، ۵:‎ ۱۲۹؛ مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، ۲:‎ ۱۸۷۰-۱۸۷۱؛ تزمذی، سنن ترمذی، ۵:‎ ۶۳۸، ۶۴۰-۶۴۱؛ نسائی، سنن نسائی، ۶۱-۵۰؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، ۳:‎ ۱۳۴-۱۳۳؛ طبری، الریاض النضرة، ۳:‎ ۱۱۹-۱۱۷؛ ابن کثیر، البدایة و النهایة، ۵:‎ ۸-۷؛ هیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، ۹:‎ ۱۱۰؛ عینی، عمدة القاری، ۱۶:‎ ۳۰۱؛ سیوطی، تاریخ الخلفاء، ۱۶۸؛ سیوطی، الدر المنثور، ۳:‎ ۲۳۶، ۲۹۱؛ متقی، کنز العمال، ۱۳:‎ ۱۶۳، ۱۷۲-۱۷۱؛ میر حامد حسین، عبقات الانوار، ۲:‎ ۵۹-۲۹؛ شرف‌ الدین، المراجعات، ۱۳۰؛ حسینی میلانی، نفحات الازهار، ۱۸:‎ ۴۱۱-۳۶۳۔</ref> اسی سال آپ کو آنحضرت نے مکہ کے مشرکین کے اجتماع میں [[آیات برائت]] کے ابلاغ کے لئے مقرر کیا<ref> رجبی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۲۰۹۔</ref> اور آپ نے روز [[عید الاضحی]] بعد از ظہر ان آیات کو ابلاغ کیا۔<ref> شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۲۱۱۔</ref> [[24 ذی الحجہ]] [[سنہ 9 ہجری]]<ref> ابن شهر آشوب، مناقب، ۳:‎ ۱۴۴۔</ref> میں آنحضرت نے علی، [[فاطمہ]] [[حسن]] و [[حسین]] کے ساتھ [[نجران]] کے [[عیسائیوں]] سے مباہلہ کا اعلان کیا۔<ref> مکارم شیرازی، نفسیر نمونہ، ۲:‎ ۵۸۲؛ رجبی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۲۱۳۔</ref> [[سنہ 10 ہجری]] میں آنحضرت نے حضرت علی کو اہل [[یمن]] کو دعوت [[اسلام]] دینے کے لئے وہاں بھیجا۔<ref> عاملی، سیره النبی، ۴:‎ ۳۱۹۔</ref> اسی سال آنحضرت [[حج]] کے لئے تشریف لے گئے۔<ref> طبری، تاریخ طبری، ۳:‎ ۱۴۸؛ ابن سعد، طبقات الکبری، ۲:‎ ۱۳۱؛ واقدی، المغازی، ۳:‎ ۱۰۸۹۔</ref> حضرت علی یمن سے روانہ ہوئے اور مکہ میں آپ ؐ سے ملحق ہو گئے۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۷۔</ref> آنحضرت نے حج سے واپسی پر [[غدیر خم]] کے مقام پر آپ کو اپنا وصی و جانشین قرار دیا۔<ref> عیاشی، کتاب التفسیر، ۱:‎ ۴۔</ref> یہ [[واقعہ غدیر خم]] کے نام سے مشہور ہے، اس وقت آپ کی عمر 33 سال تھی۔
[[سنہ 9 ہجری]] میں [[جنگ تبوک]] پیش آئی۔ آنحضرت نے پہلی بار حضرت علی کو [[مدینہ]] میں اپنے جانشین و اپنے خانوادے کی محافظت پر مامور کیا۔ یہ واحد جنگ ہے جس میں [[امیر المومنین]] نے شرکت نہیں کی۔<ref> مفید، الارشاد، 1:‎ 156؛ ابن هشام، السیرة النبویہ، 4:‎ 163۔</ref> مشرکین کی طرف سے پھیلائی گئی افواہ کے بعد آپ نے خود کو آنحضرت تک پہچایا اور انہیں اس ماجرا سے آگاہ کیا۔ آنحضرت نے فرمایا: کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تمہیں مجھ سے وہی نسبت ہے جو [[ہارون]] کو [[حضرت موسی]] سے تھی۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر بعثت)، 926۔</ref> یہ قول [[حدیث منزلت]] کے نام سے مشہور ہے۔<ref> ابن حنبل، مسند، 1:‎ 277؛ ابن حنبل، مسند، 3:‎ 417؛ ابن حنبل، مسند، 7:‎ 513؛ بخاری، صحیح بخاری، 5:‎ 129؛ مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، 2:‎ 1870-1871؛ تزمذی، سنن ترمذی، 5:‎ 638، 640-641؛ نسائی، سنن نسائی، 61-50؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، 3:‎ 134-133؛ طبری، الریاض النضرة، 3:‎ 119-117؛ ابن کثیر، البدایة و النهایة، 5:‎ 8-هیثمی، مجمع الزوائد و منبع الفوائد، 9:‎ 110؛ عینی، عمدة القاری، 16:‎ 301؛ سیوطی، تاریخ الخلفاء، 168؛ سیوطی، الدر المنثور، 3:‎ 236، 291؛ متقی، کنز العمال، 13:‎ 163، 172-171؛ میر حامد حسین، عبقات الانوار، 2:‎ 59-29؛ شرف‌ الدین، المراجعات، 130؛ حسینی میلانی، نفحات الازهار، 18:‎ 411-363۔</ref> اسی سال آپ کو آنحضرت نے مکہ کے مشرکین کے اجتماع میں [[آیات برائت]] کے ابلاغ کے لئے مقرر کیا<ref> رجبی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 209۔</ref> اور آپ نے روز [[عید الاضحی]] بعد از ظہر ان آیات کو ابلاغ کیا۔<ref> شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 211۔</ref> [[24 ذی الحجہ]] [[سنہ 9 ہجری]]<ref> ابن شهر آشوب، مناقب، 3:‎ 144۔</ref> میں آنحضرت نے علی، [[فاطمہ]] [[حسن]] و [[حسین]] کے ساتھ [[نجران]] کے [[عیسائیوں]] سے مباہلہ کا اعلان کیا۔<ref> مکارم شیرازی، نفسیر نمونہ، 2:‎ 582؛ رجبی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 213۔</ref> [[سنہ 10 ہجری]] میں آنحضرت نے حضرت علی کو اہل [[یمن]] کو دعوت [[اسلام]] دینے کے لئے وہاں بھیجا۔<ref> عاملی، سیره النبی، 4:‎ 319۔</ref> اسی سال آنحضرت [[حج]] کے لئے تشریف لے گئے۔<ref> طبری، تاریخ طبری، 3:‎ 148؛ ابن سعد، طبقات الکبری، 2:‎ 131؛ واقدی، المغازی، 3:‎ 1089۔</ref> حضرت علی یمن سے روانہ ہوئے اور مکہ میں آپ ؐ سے ملحق ہو گئے۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، </ref> آنحضرت نے حج سے واپسی پر [[غدیر خم]] کے مقام پر آپ کو اپنا وصی و جانشین قرار دیا۔<ref> عیاشی، کتاب التفسیر، 1:‎ </ref> یہ [[واقعہ غدیر خم]] کے نام سے مشہور ہے، اس وقت آپ کی عمر 33 سال تھی۔


===رحلت پیغمبر اکرمؐ کے بعد===
===رحلت پیغمبر اکرمؐ کے بعد===
[[سنہ 11 ہجری]] میں [[آنحضرت ؐ]] نے وفات پائی۔<ref> شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۲۱۔</ref> [[شیعوں]] کے مطابق، حضرت علی رحلت پیغمبر کے بعد 24 سال کی عمر میں [[امامت]] کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ امام علی آنحضرت کی تکفین و تجہیز میں مشغول تھے کہ ایک گروہ نے [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں [[حضرت ابوبکر]] کو [[خلیفہ]] بنا دیا۔ حضرت ابو بکر کی خلافت کے بعد ابتداء میں حضرت علی نے ان کی [[بیعت]] نہیں کی<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۸۵۔</ref> لیکن بعد میں آخرکار بیعت کر لی۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ج۲۸، ص۲۹۹؛ مجلسی، مرآة العقول، ج۵، ص۳۲۰۔</ref> شیعوں کا ماننا ہے کہ یہ بیعت اجباری تھی<ref> دینوری، الامامة والسیاسة، ۱:‎ ۳۰-۲۹؛ مسعودی، مروج الذهب، ۱:‎ ۶۴۶. طبری، تاریخ طبری، ج۴، ص ۱۳۳۰؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج ۱، ص ۵۸۶ ـ ۵۸۷۔</ref> اور [[شیخ مفید]] کا ماننا ہے کہ امام علی نے ہرگز بیعت نہیں کی۔<ref> شيخ مفيد، الفصول المختاره، ص ۴۰ و ۵۶ به بعد۔</ref> <ref> فاطمی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۴۰۷۔</ref> شیعوں کے مطابق، خلیفہ کے ساتھیوں نے امام علی سے بیعت لینے کے لئے ان کے گھر پر حملہ کیا<ref> جوهری بصری، السقیفة و فدک، ۱۴۱۳ق، ص۷۲ و ۷۳۔</ref> جس میں [[حضرت فاطمہ]] زخمی ہوئیں اور ان حمل ساقط ہو گیا۔<ref> طبرسی، الاحتجاج، ۱۳۸۶ق، ج۱، ص۱۰۹۔</ref> اسی زمانہ میں حضرت ابوبکر نے [[باغ فدک]] کو غصب کر لیا<ref> استادی، دانشنامہ امام علیؑ، ۸:‎ ۳۶۶۔</ref> اور حضرت ان کا حق لینے کے لئے اٹھے۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، دار الرضا، ج۲۹، ص۱۲۴۔</ref> حضرت فاطمہ گھر پر ہونے والے حملے کے بعد مریض ہو گئیں اور کچھ عرصہ کے بعد [[سنہ 11 ہجری]] میں [[شہید]] ہو گئیں۔<ref> طبری امامی، دلائل الامامة، ۱۴۱۳ق، ص۱۳۴۔</ref>
[[سنہ 11 ہجری]] میں [[آنحضرت ؐ]] نے وفات پائی۔<ref> شهیدی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 21۔</ref> [[شیعوں]] کے مطابق، حضرت علی رحلت پیغمبر کے بعد 24 سال کی عمر میں [[امامت]] کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ امام علی آنحضرت کی تکفین و تجہیز میں مشغول تھے کہ ایک گروہ نے [[سقیفہ بنی ساعدہ]] میں [[حضرت ابوبکر]] کو [[خلیفہ]] بنا دیا۔ حضرت ابو بکر کی خلافت کے بعد ابتداء میں حضرت علی نے ان کی [[بیعت]] نہیں کی<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 85۔</ref> لیکن بعد میں آخرکار بیعت کر لی۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، ج28، ص299؛ مجلسی، مرآة العقول، ج5، ص320۔</ref> شیعوں کا ماننا ہے کہ یہ بیعت اجباری تھی<ref> دینوری، الامامة والسیاسة، 1:‎ 30-29؛ مسعودی، مروج الذهب، 1:‎ 646. طبری، تاریخ طبری، ج4، ص 1330؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج ص 586 ـ 587۔</ref> اور [[شیخ مفید]] کا ماننا ہے کہ امام علی نے ہرگز بیعت نہیں کی۔<ref> شيخ مفيد، الفصول المختاره، ص 40 و 56 به بعد۔</ref> <ref> فاطمی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 407۔</ref> شیعوں کے مطابق، خلیفہ کے ساتھیوں نے امام علی سے بیعت لینے کے لئے ان کے گھر پر حملہ کیا<ref> جوهری بصری، السقیفة و فدک، 1413ق، ص72 و 73۔</ref> جس میں [[حضرت فاطمہ]] زخمی ہوئیں اور ان حمل ساقط ہو گیا۔<ref> طبرسی، الاحتجاج، 1386ق، ج1، ص109۔</ref> اسی زمانہ میں حضرت ابوبکر نے [[باغ فدک]] کو غصب کر لیا<ref> استادی، دانشنامہ امام علیؑ، 8:‎ 366۔</ref> اور حضرت ان کا حق لینے کے لئے اٹھے۔<ref> مجلسی، بحار الانوار، دار الرضا، ج29، ص124۔</ref> حضرت فاطمہ گھر پر ہونے والے حملے کے بعد مریض ہو گئیں اور کچھ عرصہ کے بعد [[سنہ 11 ہجری]] میں [[شہید]] ہو گئیں۔<ref> طبری امامی، دلائل الامامة، 1413ق، ص134۔</ref>


[[سنہ 13 ہجری]] میں [[حضرت ابوبکر]] کی وفات ہوئی۔<ref> یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۱۳۶-۱۳۸؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۴۱۹-۴۲۰؛ ابن حبان، کتاب الثقات، ۱۳۹۳ق، ج۲، ص۱۹۱، ۱۹۴۔</ref> ان کی وصیت کے مطابق [[عمر بن خطاب]] [[خلیفہ]] بنے۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۳۲۲و۳۳۱۔</ref> [[سنہ 14 ہجری]] [[محرم]] میں حضرت عمر ساسانیوں سے جنگ کے لئے [[مدینہ]] سے خارج ہوئے اور صرار نامی مقام پر پڑاو ڈالا۔ انہوں نے امام علی کو مدینہ میں اپنی جگہ قرار دیا تا کہ وہ خود اس جنگ کی فرماندہی اپنے ذمے لیں۔ لیکن بعض [[صحابہ]] و امام علی سے مشورہ کے بعد انہوں نے اپنا ارادہ بدل لیا اور [[سعد بن ابی وقاص]] کو جنگ کے لئے بھیجا۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۳۷۹۔</ref> معادی خواہ نے ابن اثیر سے منقول قول سے استناد کرتے ہوئے نقل کیا ہے کہ دوسری [[خلافت]] کے زمانہ میں اس کے ابتدائی سالوں کے بعد سے منصب قضاوت کے مالک تھے۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۴۴۱۔</ref> <ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۳۴۸۔</ref> [[سنہ 16 ہجری]] یا سنہ 17 ہجری میں<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۴۵۳۔</ref> امام علی کے مشورے کو حضرت عمر نے قبول کرکے پیغمبر کی مدینہ ہجرت کو اسلامی تاریخ کا مبداء قرار دیا۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۲، ص۱۴۵۔</ref> <ref> مسعودی، مروج الذهب، ۴:‎ ۳۰۰؛۔</ref> [[سنہ 17 ہجری]]<ref> بلاذری، ص۱۳۹۔</ref> میں عمر فتح [[بیت المقدس]] کے لئے شام روانہ ہو گئے اور امام علی کو مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا۔<ref> طبری،ج۵، ص۲۵۱۹-۲۵۲۰۔</ref> <ref> معادی خواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۴۷۵-۴۷۶۔</ref> اسی سال<ref> نویری، نهایہ الارب، ۱۴۲۳ق، ج۱۹، ص۳۴۷۔</ref> عمر نے اصرار اور دھمکی سے علی و فاطمہ کی بیٹی [[ام کلثوم]] سے شادی کی۔<ref> کلینی، الکافی، ۱۳۶۳ش، ج۵، ص۳۴۶؛ طوسی، تهذیب الاحکام، ۱۳۶۴ش، ج۸، ص۱۶۱؛ طبرسی، اعلام الوری، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۳۹۷؛ مفید، المسائل العکبریہ، ۱۴۱۴ق، ص۶۰؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۲۰ق، ص۱۸۹۔</ref> <ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۴۹۶۔</ref> [[سنہ 18 ہجری]] میں ایک بار پھر عمر نے [[شام]] کے سفر میں امام علی کو مدینہ میں اپنا جانشین معین کیا۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۵۱۳۔</ref> عمر نے حملے کے بعد اور مرنے سے پہلے [[سنہ 23 ہجری]]<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، ۵۴۰۔</ref> میں اپنے بعد خلافت کے لئے ۶ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۳۴۴۔</ref> جس میں حضرت بھی شامل تھے۔<ref> سیوطی، تاریخ الخلفا، ۱۴۱۳ق، ص۱۲۹۔</ref> اس میں انہوں نے [[عبد الرحمن بن عوف]] کو تعیین کنندہ شخص کا درجہ دیا۔ عبد الرحمن نے پہلے امام علی سے چاہا کہ [[کتاب خدا]] و [[سنت پیغمبر]] و سیرت شیخین پر عمل کی شرط پر خلافت کو قبول کر لیں لیکن آپ نے سیرت شیخین کو قبول نہیں کیا اور جواب دیا کہ میں اپنے علم و استعداد و [[اجتہاد]] سے کتاب خدا و سنت پیغمبر پر عمل کروں گا۔<ref> ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۶ق، ج۳، ص۷۱۔</ref> اس کے بعد عبد الرحمن نے عثمان کو ان شرطوں کے ساتھ خلافت کی دعوت دی انہوں نے قبول کر لیا تو انہیں خلافت مل گئی۔<ref> دینوری، الامامة والسیاسة، ۱:‎ ۴۶-۴۴۔</ref> <ref> زرکلی، الاعلام، ۴، ۲۱۰۔</ref> <ref> ابن عبد البر، الاستیعاب، ۳، ۱۰۴۴۔</ref>
[[سنہ 13 ہجری]] میں [[حضرت ابوبکر]] کی وفات ہوئی۔<ref> یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، 1379ق، ج2، ص136-138؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ق، ج3، ص419-420؛ ابن حبان، کتاب الثقات، 1393ق، ج2، ص191، 194۔</ref> ان کی وصیت کے مطابق [[عمر بن خطاب]] [[خلیفہ]] بنے۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 322و331۔</ref> [[سنہ 14 ہجری]] [[محرم]] میں حضرت عمر ساسانیوں سے جنگ کے لئے [[مدینہ]] سے خارج ہوئے اور صرار نامی مقام پر پڑاو ڈالا۔ انہوں نے امام علی کو مدینہ میں اپنی جگہ قرار دیا تا کہ وہ خود اس جنگ کی فرماندہی اپنے ذمے لیں۔ لیکن بعض [[صحابہ]] و امام علی سے مشورہ کے بعد انہوں نے اپنا ارادہ بدل لیا اور [[سعد بن ابی وقاص]] کو جنگ کے لئے بھیجا۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 379۔</ref> معادی خواہ نے ابن اثیر سے منقول قول سے استناد کرتے ہوئے نقل کیا ہے کہ دوسری [[خلافت]] کے زمانہ میں اس کے ابتدائی سالوں کے بعد سے منصب قضاوت کے مالک تھے۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 441۔</ref> <ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 348۔</ref> [[سنہ 16 ہجری]] یا سنہ 17 ہجری میں<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 453۔</ref> امام علی کے مشورے کو حضرت عمر نے قبول کرکے پیغمبر کی مدینہ ہجرت کو اسلامی تاریخ کا مبداء قرار دیا۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج2، ص145۔</ref> <ref> مسعودی، مروج الذهب، 4:‎ 300؛۔</ref> [[سنہ 17 ہجری]]<ref> بلاذری، ص139۔</ref> میں عمر فتح [[بیت المقدس]] کے لئے شام روانہ ہو گئے اور امام علی کو مدینہ میں اپنا جانشین قرار دیا۔<ref> طبری،ج5، ص2519-2520۔</ref> <ref> معادی خواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 475-476۔</ref> اسی سال<ref> نویری، نهایہ الارب، 1423ق، ج19، ص347۔</ref> عمر نے اصرار اور دھمکی سے علی و فاطمہ کی بیٹی [[ام کلثوم]] سے شادی کی۔<ref> کلینی، الکافی، 1363ش، ج5، ص346؛ طوسی، تهذیب الاحکام، 1364ش، ج8، ص161؛ طبرسی، اعلام الوری، 1417ق، ج1، ص397؛ مفید، المسائل العکبریہ، 1414ق، ص60؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1420ق، ص189۔</ref> <ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 496۔</ref> [[سنہ 18 ہجری]] میں ایک بار پھر عمر نے [[شام]] کے سفر میں امام علی کو مدینہ میں اپنا جانشین معین کیا۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 513۔</ref> عمر نے حملے کے بعد اور مرنے سے پہلے [[سنہ 23 ہجری]]<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (گسترش قلمرو خلافت اسلامی)، 540۔</ref> میں اپنے بعد خلافت کے لئے 6 افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج3، ص344۔</ref> جس میں حضرت بھی شامل تھے۔<ref> سیوطی، تاریخ الخلفا، 1413ق، ص129۔</ref> اس میں انہوں نے [[عبد الرحمن بن عوف]] کو تعیین کنندہ شخص کا درجہ دیا۔ عبد الرحمن نے پہلے امام علی سے چاہا کہ [[کتاب خدا]] و [[سنت پیغمبر]] و سیرت شیخین پر عمل کی شرط پر خلافت کو قبول کر لیں لیکن آپ نے سیرت شیخین کو قبول نہیں کیا اور جواب دیا کہ میں اپنے علم و استعداد و [[اجتہاد]] سے کتاب خدا و سنت پیغمبر پر عمل کروں گا۔<ref> ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 1386ق، ج3، ص71۔</ref> اس کے بعد عبد الرحمن نے عثمان کو ان شرطوں کے ساتھ خلافت کی دعوت دی انہوں نے قبول کر لیا تو انہیں خلافت مل گئی۔<ref> دینوری، الامامة والسیاسة، 1:‎ 46-44۔</ref> <ref> زرکلی، الاعلام، 4، 210۔</ref> <ref> ابن عبد البر، الاستیعاب، 3، 1044۔</ref>


معادی خواہ [[ابن جوزی]] کی کتاب المنتظم سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں: حضرت علی [[سنہ 24 ہجری]] میں بھی قضاوت کے منصب پر فائز تھے۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (روزگار عثمان)، ۱۴۶۔</ref> [[سنہ 25 ہجری]] میں<ref> معرفت، التمهید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۳-۳۴۶۔</ref> [[حضرت عثمان]] نے [[قرآن]] کی جمع آوری و تدوین کا حکم دیا۔<ref> معرفت، التمهید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۳۸و۳۳۹۔</ref> [[سیوطی]] نے امام علی سے نقل کیا ہے کہ تدوین و جمع آوری قرآن کا کام ان کے مشورہ پر انجام دیا گیا ہے۔<ref> معرفت، التمهید، ۱۴۱۲ق، ج۱، ص۳۴۱۔</ref> <ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (روزگار عثمان)، ۵۱۵۔</ref> [[سنہ 26 ہجری]] میں آپ کے پانچویں فرزند [[عباس بن علی]] کی ولادت ہوئی۔<ref> زجاجی کاشانی، سقای کربلا، ۱۳۷۹ش، ص۸۹-۹۰؛ امین، اعیان الشیعه، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۴۲۹۔</ref> [[سنہ 35 ہجری]] میں مدینہ میں لوگوں نے ناراض ہو کر عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔<ref> دینوری، امامت و سیاست، ۶۱۔</ref> امام علی محاصرہ کے وقت [[مدینہ]] میں نہیں تھے۔<ref> دینوری، امامت و سیاست، ۵۸-۵۷۔</ref> معادی خواہ نے اس سفر کو ینبع کی طرف ذکر کیا ہے جو حضرت عثمان کی خواہش پر ہوا تھا۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (روزگار عثمان)، ۷۷۳۔</ref> [[اہل سنت]] مصادر کے مطابق امام علی نے [[حسنین]] کو [[خلیفہ]] کی حفاظت پر مامور کیا تھا<ref> دینوری، امامت و سیاست، ۵۸-۵۷، ۶۴۔</ref> لیکن آخرکار شورشیوں نے انہیں قتل کر ڈالا<ref> ابن عبد البر، الاستیعاب،۔</ref> اور ان کے قتل کے بعد لوگوں نے حضرت علی کا رخ کیا تا کہ وہ [[خلافت]] کو قبول کر لیں۔<ref> نک: ابن مزاحم، وقعة صفین/ترجمہ، ص:۲۷۱۔</ref>
معادی خواہ [[ابن جوزی]] کی کتاب المنتظم سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں: حضرت علی [[سنہ 24 ہجری]] میں بھی قضاوت کے منصب پر فائز تھے۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (روزگار عثمان)، 146۔</ref> [[سنہ 25 ہجری]] میں<ref> معرفت، التمهید، 1412ق، ج1، ص343-346۔</ref> [[حضرت عثمان]] نے [[قرآن]] کی جمع آوری و تدوین کا حکم دیا۔<ref> معرفت، التمهید، 1412ق، ج1، ص338و339۔</ref> [[سیوطی]] نے امام علی سے نقل کیا ہے کہ تدوین و جمع آوری قرآن کا کام ان کے مشورہ پر انجام دیا گیا ہے۔<ref> معرفت، التمهید، 1412ق، ج1، ص341۔</ref> <ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (روزگار عثمان)، 515۔</ref> [[سنہ 26 ہجری]] میں آپ کے پانچویں فرزند [[عباس بن علی]] کی ولادت ہوئی۔<ref> زجاجی کاشانی، سقای کربلا، 1379ش، ص89-90؛ امین، اعیان الشیعه، 1406ق، ج7، ص429۔</ref> [[سنہ 35 ہجری]] میں مدینہ میں لوگوں نے ناراض ہو کر عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔<ref> دینوری، امامت و سیاست، 61۔</ref> امام علی محاصرہ کے وقت [[مدینہ]] میں نہیں تھے۔<ref> دینوری، امامت و سیاست، 58-57۔</ref> معادی خواہ نے اس سفر کو ینبع کی طرف ذکر کیا ہے جو حضرت عثمان کی خواہش پر ہوا تھا۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (روزگار عثمان)، 773۔</ref> [[اہل سنت]] مصادر کے مطابق امام علی نے [[حسنین]] کو [[خلیفہ]] کی حفاظت پر مامور کیا تھا<ref> دینوری، امامت و سیاست، 58-57، 64۔</ref> لیکن آخرکار شورشیوں نے انہیں قتل کر ڈالا<ref> ابن عبد البر، الاستیعاب،۔</ref> اور ان کے قتل کے بعد لوگوں نے حضرت علی کا رخ کیا تا کہ وہ [[خلافت]] کو قبول کر لیں۔<ref> نک: ابن مزاحم، وقعة صفین/ترجمہ، ص:271۔</ref>


===دوران حکومت===
===دوران حکومت===
حضرت علی ماہ [[ذی الحجہ]] [[سنہ 35 ہجری]] میں قتل عثمان کے بعد [[خلیفہ]] بنے۔<ref> ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، ۹:‎ ۴۹۔</ref> <ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر علوی)، ۱:‎ ۵۸۔</ref> [[عثمان]] کے بعض قریبیوں اور بعض [[اصحاب پیغمبر]] جنہیں قاعدین کہا جاتا ہے،<ref> جودکی، دانشنامہ امام علیؑ، ۹:‎ ص۱۵-۱۶۔</ref> کے علاوہ [[مدینہ]] میں موجود تمام [[صحابہ]] نے آپ کی بیعت کی۔<ref> ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، ۹:‎ ۴۹۔</ref> آپ نے اپنی خلافت کے دو دن بعد اپنے اولین خطبے میں عثمان کے زمانہ مین ناحق قبضہ کئے گئے اموال<ref> ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، ۹:‎ ۵۳۔</ref> کو واپس کرنے اور بیت المال کی عادلانہ تقسیم کا حکم دیا۔<ref> ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، ۹:‎ ۵۴۔</ref> [[سنہ 36 ہجری]] میں [[طلحہ]] و [[زبیر]] نے آپ کی بیعت کو توڑ دیا اور [[مکہ]] میں [[عائشہ]] کے ساتھ ملحق ہو گئے<ref> ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، ۹:‎ ۶۴۔</ref> جو خون عثمان کا انتقام لینے کے لئے اٹھی تھیں، اس کے بعد انہوں نے بصرہ کی سمت حرکت کی۔<ref> ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، ۹:‎ ۶۶۔</ref> اس طرح [[جنگ جمل]]، آپ سے ہونے والی<ref> طباطبایی، شیعہ در اسلام، ۱۳۸۸ش، ص۴۲۔</ref> اور [[مسلمانوں]] کی پہلی داخلی جنگ ہوئی<ref> دلشاد تهرانی، سودای پیمان‌شکنان، ۱۳۹۴ش، ص۱۴۔</ref> جو امام علی و [[ناکیثن]] (بیعت توڑنے والے) کے درمیان بصرہ میں ہوئی۔<ref> بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ش، ج۳، ص۴۱؛ حموی‌، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ذیل کلمه «خُرَیبَة»؛ سمعانی، الأنساب، ۱۴۰۰ق، ج۱۲، ص۱۸۰۔</ref> طلحہ<ref> دینوری، اخبار الطوال، ۱۵۰۔</ref> و زبیر<ref> طبری، تاریخ الامم و الملوک، ۱۹۷۰م، ج۴، ص۵۱۱۔</ref> اس جنگ میں مارے گئے اور عائشہ کو مدینہ واپس بھیج دیا گیا۔<ref> مسعودی، مروج الذهب، ۲:‎ ۳۷۰۔</ref> آپ پہلے [[بصرہ]] گئے اور آپ نے وہاں عمومی معافی کا اعلان کیا<ref> ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، ۹:‎ صص۱۳-۱۴۔</ref> اور [[رجب ]] سنہ 36 ہجری میں کوفہ گئے اور اسے مرکز خلافت قرار دیا۔<ref> دینوری، اخبار الطوال، ۱۵۴۔</ref> اسی سال امام نے معاویہ کو [[بیعت]] حکم دیا اس کے انکار کے بعد آپ نے اسے شام کی حکومت سے معزول کر دیا۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر علوی)، ۱:‎ ۲۳۳-۲۳۶۔</ref> ماہ شوال سنہ 36 ہجری میں آپ نے شام پر لشکر کشی کی۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر علوی)، ۲:‎ ۹۱۔</ref> صفین کے علاقہ میں [[جنگ صفین]] سنہ 36 ھ کے اواخر اور [[سنہ 37 ہجری]] کے اوائل میں واقع ہوئی۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر علوی)، ۱:‎ ۱۹۴۔</ref> معادی خواہ کا ماننا ہے کہ ماہ صفر سنہ 37 ھ کے برخلاف جسے [[طبری]] و [[ابن اثیر]] نے ذکر کیا ہے، اوج جنگ [[سنہ 38 ہجری]] میں ہوئی ہے۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر علوی)، ۱:‎ ۱۹۴-۱۹۷۔</ref> <ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر علوی)، ۱:‎ ۲۱۱-۲۱۲۔</ref> جب امام علی کی فوج جنگ جیت رہی تھی<ref> جعفری، دانشنامہ امام علیؑ، ۹:‎ ۲۱۳-۲۱۴۔</ref> تو معاویہ کی فوج نے [[عمرو عاص]] کی چال سے قرآن کو نیزوں پر بلند کر دیا تا کہ وہ ان کے درمیان حکم کرے۔<ref> جعفری، دانشنامہ امام علیؑ، ۹:‎ ۲۱۰-۲۱۱۔</ref> امام نے مجبوری میں اپنی فوج کے باغیوں کے فشار کے تحت حکمیت کو قبول کر لیا اور ان کے اجبار کی وجہ سے [[ابو موسی اشعری]] کو حکم قرار دیا۔<ref> جعفری، دانشنامہ امام علیؑ، ۹:‎ ۲۱۱-۲۱۶۔</ref> لیکن حکمیت کو قبول کرنے کے کچھ ہی دیر بعد امام پر نئے اعتراضات ہونے لگے۔<ref> جعفری، دانشنامہ امام علیؑ، ۹:‎ ۲۱۶-۲۱۷۔</ref> بعض لوگوں نے [[سورہ مائدہ]] کی آیت 44 و [[سورہ حجرات ]]کی آیت 9 سے استدلال کرتے ہوئے جنگ جاری رکھنے کا مطالبہ کیا اور حکمیت قبول کرنے کو کفر مانتے ہوئے اس سے توبہ کیا۔<ref> بلاذری، انساب الأشراف، ج۲، ص۳۴۹۔</ref> تعجب کی بات یہ تھی کہ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے کچھ دیر پہلے امام کو [[حکمیت]] کے لئے مجبور کیا تھا۔<ref> جعفری، دانشنامہ امام علیؑ، ۹:‎ ۲۱۶-۲۱۷۔</ref> انہوں نے امام سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کفر سے توبہ کریں اور [[معاویہ]] کے ساتھ ہوئے وعدہ کو نقض کریں۔ لیکن امام نے نقض حکمیت کو قبول نہیں کیا<ref> بلاذری، انساب الأشراف، ج۲، ص۳۵۹۔</ref> اور کہا حکمین کے [[قرآن]] کے مطابق حکم نہ کرنے صورت میں جنگ جاری رکھی جا سکتی ہے۔<ref> بلاذری، انساب الأشراف، ج۲، ص۳۴۹۔</ref>
حضرت علی ماہ [[ذی الحجہ]] [[سنہ 35 ہجری]] میں قتل عثمان کے بعد [[خلیفہ]] بنے۔<ref> ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 49۔</ref> <ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر علوی)، 1:‎ 58۔</ref> [[عثمان]] کے بعض قریبیوں اور بعض [[اصحاب پیغمبر]] جنہیں قاعدین کہا جاتا ہے،<ref> جودکی، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ ص15-16۔</ref> کے علاوہ [[مدینہ]] میں موجود تمام [[صحابہ]] نے آپ کی بیعت کی۔<ref> ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 49۔</ref> آپ نے اپنی خلافت کے دو دن بعد اپنے اولین خطبے میں عثمان کے زمانہ مین ناحق قبضہ کئے گئے اموال<ref> ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 53۔</ref> کو واپس کرنے اور بیت المال کی عادلانہ تقسیم کا حکم دیا۔<ref> ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 54۔</ref> [[سنہ 36 ہجری]] میں [[طلحہ]] و [[زبیر]] نے آپ کی بیعت کو توڑ دیا اور [[مکہ]] میں [[عائشہ]] کے ساتھ ملحق ہو گئے<ref> ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 64۔</ref> جو خون عثمان کا انتقام لینے کے لئے اٹھی تھیں، اس کے بعد انہوں نے بصرہ کی سمت حرکت کی۔<ref> ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 66۔</ref> اس طرح [[جنگ جمل]]، آپ سے ہونے والی<ref> طباطبایی، شیعہ در اسلام، 1388ش، ص42۔</ref> اور [[مسلمانوں]] کی پہلی داخلی جنگ ہوئی<ref> دلشاد تهرانی، سودای پیمان‌شکنان، 1394ش، ص14۔</ref> جو امام علی و [[ناکیثن]] (بیعت توڑنے والے) کے درمیان بصرہ میں ہوئی۔<ref> بلاذری، جمل من أنساب الأشراف، 1417ش، ج3، ص41؛ حموی‌، معجم البلدان، 1995م، ذیل کلمه «خُرَیبَة»؛ سمعانی، الأنساب، 1400ق، ج12، ص180۔</ref> طلحہ<ref> دینوری، اخبار الطوال، 150۔</ref> و زبیر<ref> طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1970م، ج4، ص511۔</ref> اس جنگ میں مارے گئے اور عائشہ کو مدینہ واپس بھیج دیا گیا۔<ref> مسعودی، مروج الذهب، 2:‎ 370۔</ref> آپ پہلے [[بصرہ]] گئے اور آپ نے وہاں عمومی معافی کا اعلان کیا<ref> ملکی میانجی، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ صص13-14۔</ref> اور [[رجب ]] سنہ 36 ہجری میں کوفہ گئے اور اسے مرکز خلافت قرار دیا۔<ref> دینوری، اخبار الطوال، 154۔</ref> اسی سال امام نے معاویہ کو [[بیعت]] حکم دیا اس کے انکار کے بعد آپ نے اسے شام کی حکومت سے معزول کر دیا۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر علوی)، 1:‎ 233-236۔</ref> ماہ شوال سنہ 36 ہجری میں آپ نے شام پر لشکر کشی کی۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر علوی)، 2:‎ 91۔</ref> صفین کے علاقہ میں [[جنگ صفین]] سنہ 36 ھ کے اواخر اور [[سنہ 37 ہجری]] کے اوائل میں واقع ہوئی۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر علوی)، 1:‎ 194۔</ref> معادی خواہ کا ماننا ہے کہ ماہ صفر سنہ 37 ھ کے برخلاف جسے [[طبری]] و [[ابن اثیر]] نے ذکر کیا ہے، اوج جنگ [[سنہ 38 ہجری]] میں ہوئی ہے۔<ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر علوی)، 1:‎ 194-197۔</ref> <ref> معادیخواه، تاریخ اسلام (عصر علوی)، 1:‎ 211-212۔</ref> جب امام علی کی فوج جنگ جیت رہی تھی<ref> جعفری، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 213-214۔</ref> تو معاویہ کی فوج نے [[عمرو عاص]] کی چال سے قرآن کو نیزوں پر بلند کر دیا تا کہ وہ ان کے درمیان حکم کرے۔<ref> جعفری، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 210-211۔</ref> امام نے مجبوری میں اپنی فوج کے باغیوں کے فشار کے تحت حکمیت کو قبول کر لیا اور ان کے اجبار کی وجہ سے [[ابو موسی اشعری]] کو حکم قرار دیا۔<ref> جعفری، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 211-216۔</ref> لیکن حکمیت کو قبول کرنے کے کچھ ہی دیر بعد امام پر نئے اعتراضات ہونے لگے۔<ref> جعفری، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 216-217۔</ref> بعض لوگوں نے [[سورہ مائدہ]] کی آیت 44 و [[سورہ حجرات ]]کی آیت 9 سے استدلال کرتے ہوئے جنگ جاری رکھنے کا مطالبہ کیا اور حکمیت قبول کرنے کو کفر مانتے ہوئے اس سے توبہ کیا۔<ref> بلاذری، انساب الأشراف، ج2، ص349۔</ref> تعجب کی بات یہ تھی کہ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے کچھ دیر پہلے امام کو [[حکمیت]] کے لئے مجبور کیا تھا۔<ref> جعفری، دانشنامہ امام علیؑ، 9:‎ 216-217۔</ref> انہوں نے امام سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کفر سے توبہ کریں اور [[معاویہ]] کے ساتھ ہوئے وعدہ کو نقض کریں۔ لیکن امام نے نقض حکمیت کو قبول نہیں کیا<ref> بلاذری، انساب الأشراف، ج2، ص359۔</ref> اور کہا حکمین کے [[قرآن]] کے مطابق حکم نہ کرنے صورت میں جنگ جاری رکھی جا سکتی ہے۔<ref> بلاذری، انساب الأشراف، ج2، ص349۔</ref>


[[حکمیت]] کے وقت [[ابو موسی اشعری]] نے امام علی و [[معاویہ]] دونوں کو [[خلافت]] سے معزول کر دیا۔<ref> امین، اعبان‌الشیعہ، ۱:‎ ۵۱۱۔</ref>  نگاه کریں: ابن ابی ‏الحدید، شرح نهج البلاغة، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۲۵۵. اس کے بعد [[عمرو عاص]] نے معاویہ کو خلافت پر باقی رکھا۔<ref> نگاه کریں: ابن ابی ‏الحدید، شرح نهج البلاغة، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۲۵۶۔</ref> حکمیت کے بعد<ref> نگاه کنید به: ابن ابی ‏الحدید، شرح نهج البلاغة، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۲۵۶۔</ref> <ref> نصر بن مزاحم، وقعة صفین، ۱۴۰۴ق، ص۴۸۴؛ ابن قتیبة الدینوري، الامامة و السیاسة، ج۱، ص۱۰۴؛ بلاذري، انساب الأشراف، ج۳، ص۱۱۰۔</ref> امام کے ماننے والوں میں سے ایک گروہ نے اس بات کی مخالفت کی اور اسے دین سے برگشت سے تعبیر کرتے ہوئے ایمان میں شک کیا۔<ref> سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، ج۵، ص۷۵۔</ref> اس دوران ایک گروہ جو [[خوارج]] کی بنیادی افراد میں سے تھے انہوں نے قبول حکمیت کو کفر کہا اور وہ سپاہ امام سے جدا ہو گئے اور [[کوفہ]] کے بجائے [[حرورا]] چلے گئے۔<ref> نصر بن مزاحم، وقعة صفین، ۱۴۰۴ق، ص۴۸۴؛ بلاذری، انساب الأشراف، ج۳، ص۱۱۱-۱۱۲۔</ref>
[[حکمیت]] کے وقت [[ابو موسی اشعری]] نے امام علی و [[معاویہ]] دونوں کو [[خلافت]] سے معزول کر دیا۔<ref> امین، اعبان‌الشیعہ، 1:‎ 511۔</ref>  نگاه کریں: ابن ابی ‏الحدید، شرح نهج البلاغة، 1385ق، ج2، ص255. اس کے بعد [[عمرو عاص]] نے معاویہ کو خلافت پر باقی رکھا۔<ref> نگاه کریں: ابن ابی ‏الحدید، شرح نهج البلاغة، 1385ق، ج2، ص256۔</ref> حکمیت کے بعد<ref> نگاه کنید به: ابن ابی ‏الحدید، شرح نهج البلاغة، 1385ق، ج2، ص256۔</ref> <ref> نصر بن مزاحم، وقعة صفین، 1404ق، ص484؛ ابن قتیبة الدینوري، الامامة و السیاسة، ج1، ص104؛ بلاذري، انساب الأشراف، ج3، ص110۔</ref> امام کے ماننے والوں میں سے ایک گروہ نے اس بات کی مخالفت کی اور اسے دین سے برگشت سے تعبیر کرتے ہوئے ایمان میں شک کیا۔<ref> سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، ج5، ص75۔</ref> اس دوران ایک گروہ جو [[خوارج]] کی بنیادی افراد میں سے تھے انہوں نے قبول حکمیت کو کفر کہا اور وہ سپاہ امام سے جدا ہو گئے اور [[کوفہ]] کے بجائے [[حرورا]] چلے گئے۔<ref> نصر بن مزاحم، وقعة صفین، 1404ق، ص484؛ بلاذری، انساب الأشراف، ج3، ص111-112۔</ref>


[[خوارج]] کے اعتراضات [[صفین]] کے 6 ماہ بعد تک جاری رہے۔ اسی وجہ سے امام نے [[عبد اللہ بن عباس]] اور [[صعصعہ بن صوحان]] کو ان کے پاس گفتگو کے لئے بھیجا لیکن ان لوگوں نے ان دونوں کی بات نہیں سنی اور لشکر میں واپس آنے کے لئے آمادہ نہیں ہوئے۔ اس کے بعد امام نے ان سے کہا کہ وہ بارہ افراد کا انتخاب کر لیں اور امام بھی بارہ افراد کے ہمراہ ان سے گفتگو کے لئے بیٹھے۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۳۵۲۔</ref> امام نے ان کے سرداروں کے خطوط بھی لکھے اور انہیں دعوت دی کہ وہ مومنین کی طرف لوٹ آئیں لیکن [[عبد اللہ بن وہب]] نے صفین کا تذکرہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ علی دین سے خارج ہو چکے ہیں انہیں توبہ کرنا چاہئے۔ اس کے بعد بھی امام نے بارہا [[قیس بن سعد]] و [[ابو ایوب انصاری]] جیسے افراد کو ان کے پاس بھیجتے رہے، انہیں اپنی طرف بلاتے رہے اور انہیں امان بھی دی<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۳۷۰۔</ref> اور جب ان کے تسلیم ہونے سے مایوس ہو گئے تو  ٓآپ نے چودہ ہزار کے لشکر کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ آپ نے تاکید کہ کوئی بھی جنگ شروع نہیں کرے گا اور آخر میں [[نہروان]] والوں نے جنگ شروع کی۔<ref> دینوری، اخبار الطوال، ۲۱۰۔</ref> آغاز جنگ کے ساتھ ہی نہایت سرعت سے تمام خوارج قتل یا زخمی ہوگئے، زخمیوں میں سے چار سو افراد کو ان کے گھر والوں کے حوالے کیا گیا۔ امام کے لشکر میں سے دس سے بھی کم افراد [[شہید]] ہوئے۔ نہروان میں خوارج میں سے دس سے کم افراد فرار ہونے میں کامیاب رہے ان میں سے ایک [[عبد الرحمن بن ملجم مرادی]]،<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ج۲، ص۳۷۳-۳۷۵۔</ref> قاتل امام بھی تھا۔ ابن ملجم مرادی نے آپ کو [[19 رمضان]] [[سنہ 40 ہجری]] فجر کے وقت [[کوفہ]] میں اپنی شمشیر سے زخمی کیا اور آپ اس کے دو روز بعد [[21 رمضان]] میں 63 برس کی عمر میں شہید ہوئے اور مخفیانہ طور پر دفن ہوئے۔<ref> المفید، الارشاد، ج۱، ص۹ (نسخہ موجود در لوح فشرده کتابخانہ اهل بیت، نسخہ دوم)۔</ref>
[[خوارج]] کے اعتراضات [[صفین]] کے 6 ماہ بعد تک جاری رہے۔ اسی وجہ سے امام نے [[عبد اللہ بن عباس]] اور [[صعصعہ بن صوحان]] کو ان کے پاس گفتگو کے لئے بھیجا لیکن ان لوگوں نے ان دونوں کی بات نہیں سنی اور لشکر میں واپس آنے کے لئے آمادہ نہیں ہوئے۔ اس کے بعد امام نے ان سے کہا کہ وہ بارہ افراد کا انتخاب کر لیں اور امام بھی بارہ افراد کے ہمراہ ان سے گفتگو کے لئے بیٹھے۔<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص352۔</ref> امام نے ان کے سرداروں کے خطوط بھی لکھے اور انہیں دعوت دی کہ وہ مومنین کی طرف لوٹ آئیں لیکن [[عبد اللہ بن وہب]] نے صفین کا تذکرہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ علی دین سے خارج ہو چکے ہیں انہیں توبہ کرنا چاہئے۔ اس کے بعد بھی امام نے بارہا [[قیس بن سعد]] و [[ابو ایوب انصاری]] جیسے افراد کو ان کے پاس بھیجتے رہے، انہیں اپنی طرف بلاتے رہے اور انہیں امان بھی دی<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص370۔</ref> اور جب ان کے تسلیم ہونے سے مایوس ہو گئے تو  ٓآپ نے چودہ ہزار کے لشکر کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ آپ نے تاکید کہ کوئی بھی جنگ شروع نہیں کرے گا اور آخر میں [[نہروان]] والوں نے جنگ شروع کی۔<ref> دینوری، اخبار الطوال، 210۔</ref> آغاز جنگ کے ساتھ ہی نہایت سرعت سے تمام خوارج قتل یا زخمی ہوگئے، زخمیوں میں سے چار سو افراد کو ان کے گھر والوں کے حوالے کیا گیا۔ امام کے لشکر میں سے دس سے بھی کم افراد [[شہید]] ہوئے۔ نہروان میں خوارج میں سے دس سے کم افراد فرار ہونے میں کامیاب رہے ان میں سے ایک [[عبد الرحمن بن ملجم مرادی]]،<ref> بلاذری، انساب الاشراف، ج2، ص373-375۔</ref> قاتل امام بھی تھا۔ ابن ملجم مرادی نے آپ کو [[19 رمضان]] [[سنہ 40 ہجری]] فجر کے وقت [[کوفہ]] میں اپنی شمشیر سے زخمی کیا اور آپ اس کے دو روز بعد [[21 رمضان]] میں 63 برس کی عمر میں شہید ہوئے اور مخفیانہ طور پر دفن ہوئے۔<ref> المفید، الارشاد، ج1، ص9 (نسخہ موجود در لوح فشرده کتابخانہ اهل بیت، نسخہ دوم)۔</ref>


===ازواج و اولاد===
===ازواج و اولاد===
سطر 101: سطر 101:


{{اصلی|ازدواج حضرت علی و فاطمہ}}
{{اصلی|ازدواج حضرت علی و فاطمہ}}
امام علیؑ کی پہلی زوجہ [[رسول اللہؐ]] کی بیٹی [[حضرت فاطمہ زہراءؑ]] تھیں۔<ref>المفید، الارشاد، ص 5 (کتب خانہ اہل بیتؑ میں موجود سی ڈی، نسخۂ دوم)۔</ref> علیؑ سے پہلے [[ابوبکر]]، [[عمر بن خطاب]] اور [[عبد الرحمن بن عوف]] نے بنت رسولؐ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تاہم رسول اللہؐ اس بارے میں وحی الہی کے منتظر تھے۔<ref>مجلسی، بحار الانوار43/124۔دلائل الإمامہ، محمد بن جرير بن رستم طبرى‏، ناشر: بعثت‏، مكان نشر: قم‏، سال چاپ: 1413 ق‏، نوبت چاپ: اوّل‏۔ فضائل فاطمہ بنت رسول اللہ صلى اللہ عليہ و سلم ج1 ص47 مؤلف: أبو حفص عمر بن أحمد بن عثمان بن أحمد بن محمد بن أيوب بن أزداذ البغدادي المعروف بـابن شاہ ين (المتوفى: 385 ھ)، تحقيق: بدر البدر، الناشر: دار ابن الأثير، الكويت (ضمن مجموع فيہ من مصنفات ابن شاہين)، الطبعہ: الأولى 1415 ھ، 1994 ء، عدد الأجزاء: 1. نسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن، المجتبى من السنن، ج 6، ص 62، تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلاميہ، حلب، الطبعہ: الثانيہ، 1406 - 1986. مستدرك على الصحيحين ج2 ص181 مؤلف: أبو عبد اللہ الحاكم محمد بن عبد اللہ بن محمد بن حمدويہ بن نُعيم بن الحكم الضبي الطہماني نيشاپوري معروف بابن البيع (المتوفى: 405 ھ)، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، الناشر: دار الكتب العلميہ بيروت، الطبعہ: الأولى، 1411 - 1990، عدد الأجزاء: 4 .المعجم الكبير ج4 ص34، مؤلف: سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي، أبو القاسم الطبراني (المتوفى: 360 ھ)، المحقق: حمدي بن عبد المجيد السلفي، دار النشر: مكتبہ ابن تيميہ القاہرة، الطبعہ: الثانيہ، عدد الأجزاء:25.بحوالۂ </ref> [[حضرت فاطمہ]] کے ساتھ حضرت امیرالمؤمنین علیؑ کی شادی کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے: بعض کا کہنا ہے کہ یہ شادی اول [[ذی الحجہ]] [[سنہ 2 ہجری]] کو ہوئی<ref>مفید، مسار الشیعۃ، ص 17۔</ref>، بعض کے مطابق [[شوال]] میں ہوئی اور بعض دیگر نے [[21 محرم]] میں قرار دی ہے۔<ref>سید بن طاوس، ص 584۔</ref> حضرت علی و فاطمہ کے پانچ بچے ہیں: [[حسن]]، [[حسین]]، [[زینب]]، [[ام کلثوم]]<ref> مسعودی، اثبات الوصیہ، ص۱۵۳۔</ref> و [[محسن بن علی|محسن]] جو ولادت سے پہلے سقط ہوئے۔<ref> مسعودی، مروج الذهب، ۳:‎ ۶۳۔</ref> <ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص۲۱۳؛ شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۳۵۴-۳۵۵؛ طبرسی، اعلام الوری، ج۱، ص۳۹۵؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، ج۳، ص۱۳۳؛ اربلی، کشف الغمہ، ج۲، ص۶۷۔</ref>
امام علیؑ کی پہلی زوجہ [[رسول اللہؐ]] کی بیٹی [[حضرت فاطمہ زہراءؑ]] تھیں۔<ref>المفید، الارشاد، ص 5 (کتب خانہ اہل بیتؑ میں موجود سی ڈی، نسخۂ دوم)۔</ref> علیؑ سے پہلے [[ابوبکر]]، [[عمر بن خطاب]] اور [[عبد الرحمن بن عوف]] نے بنت رسولؐ کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تاہم رسول اللہؐ اس بارے میں وحی الہی کے منتظر تھے۔<ref>مجلسی، بحار الانوار43/124۔دلائل الإمامہ، محمد بن جرير بن رستم طبرى‏، ناشر: بعثت‏، مكان نشر: قم‏، سال چاپ: 1413 ق‏، نوبت چاپ: اوّل‏۔ فضائل فاطمہ بنت رسول اللہ صلى اللہ عليہ و سلم ج1 ص47 مؤلف: أبو حفص عمر بن أحمد بن عثمان بن أحمد بن محمد بن أيوب بن أزداذ البغدادي المعروف بـابن شاہ ين (المتوفى: 385 ھ)، تحقيق: بدر البدر، الناشر: دار ابن الأثير، الكويت (ضمن مجموع فيہ من مصنفات ابن شاہين)، الطبعہ: الأولى 1415 ھ، 1994 ء، عدد الأجزاء: 1. نسائي، أحمد بن شعيب أبو عبد الرحمن، المجتبى من السنن، ج 6، ص 62، تحقيق: عبد الفتاح أبو غدة، ناشر: مكتب المطبوعات الإسلاميہ، حلب، الطبعہ: الثانيہ، 1406 - 1986. مستدرك على الصحيحين ج2 ص181 مؤلف: أبو عبد اللہ الحاكم محمد بن عبد اللہ بن محمد بن حمدويہ بن نُعيم بن الحكم الضبي الطہماني نيشاپوري معروف بابن البيع (المتوفى: 405 ھ)، تحقيق: مصطفى عبد القادر عطا، الناشر: دار الكتب العلميہ بيروت، الطبعہ: الأولى، 1411 - 1990، عدد الأجزاء: 4 .المعجم الكبير ج4 ص34، مؤلف: سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي، أبو القاسم الطبراني (المتوفى: 360 ھ)، المحقق: حمدي بن عبد المجيد السلفي، دار النشر: مكتبہ ابن تيميہ القاہرة، الطبعہ: الثانيہ، عدد الأجزاء:25.بحوالۂ </ref> [[حضرت فاطمہ]] کے ساتھ حضرت امیرالمؤمنین علیؑ کی شادی کی تاریخ میں اختلاف پایا جاتا ہے: بعض کا کہنا ہے کہ یہ شادی اول [[ذی الحجہ]] [[سنہ 2 ہجری]] کو ہوئی<ref>مفید، مسار الشیعۃ، ص 17۔</ref>، بعض کے مطابق [[شوال]] میں ہوئی اور بعض دیگر نے [[21 محرم]] میں قرار دی ہے۔<ref>سید بن طاوس، ص 584۔</ref> حضرت علی و فاطمہ کے پانچ بچے ہیں: [[حسن]]، [[حسین]]، [[زینب]]، [[ام کلثوم]]<ref> مسعودی، اثبات الوصیہ، ص153۔</ref> و [[محسن بن علی|محسن]] جو ولادت سے پہلے سقط ہوئے۔<ref> مسعودی، مروج الذهب، 3:‎ 63۔</ref> <ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج 2، ص213؛ شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج1، ص354-355؛ طبرسی، اعلام الوری، ج1، ص395؛ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، ج3، ص133؛ اربلی، کشف الغمہ، ج2، ص67۔</ref>


'''دیگر ازواج'''
'''دیگر ازواج'''
سطر 116: سطر 116:
'''اولاد'''
'''اولاد'''


[[شیخ مفید]] نے [[الارشاد]] میں آپ کی اولاد کی تعداد 27 ذکر کی ہے۔ ان کی تعداد محسن جو شکم می شہید ہوئے، ان کے ہمراہ 28 ہوتی ہے۔<ref> المفید، الارشاد، ۱۴۲۸ق، ص۳۵۴۔</ref> یہاں آپ کی اولاد کا تذکرہ ان کی والدہ کے نام کے ساتھ کیا جا رہا ہے:
[[شیخ مفید]] نے [[الارشاد]] میں آپ کی اولاد کی تعداد 27 ذکر کی ہے۔ ان کی تعداد محسن جو شکم می شہید ہوئے، ان کے ہمراہ 28 ہوتی ہے۔<ref> المفید، الارشاد، 1428ق، ص354۔</ref> یہاں آپ کی اولاد کا تذکرہ ان کی والدہ کے نام کے ساتھ کیا جا رہا ہے:


{| class="wikitable"
{| class="wikitable"
سطر 135: سطر 135:
|-
|-
| 5. [[محسن بن علیؑ|محسن]] || || || || || || || 26. أم الکرام<br />
| 5. [[محسن بن علیؑ|محسن]] || || || || || || || 26. أم الکرام<br />
27. میمونہ<br /> ۲۸. فاطمہ<ref>مفید، الارشاد، قم: سعید بن جبیر، 1428ھ، ص 270-271۔</ref>
27. میمونہ<br /> 28. فاطمہ<ref>مفید، الارشاد، قم: سعید بن جبیر، 1428ھ، ص 270-271۔</ref>
|}
|}


==غزوات میں شرکت==
==غزوات میں شرکت==
{{اصلی|غزوات پیغمبر}}
{{اصلی|غزوات پیغمبر}}
امام علیؑ نے [[اسلام]] کے [[غزوات]] اور [[سرایا]] میں مؤثر کردار ادا کیا۔ [[غزوہ تبوک]] کے سوا تمام غزوات میں [[رسول اللہؐ]] کے ساتھ دشمنان اسلام کے خلاف لڑے۔<ref>ابن سعد، ج 3، ص 24۔</ref> آپ بہت سی جنگوں میں سپاہ اسلام کے اصلی سپہ سالار رہے<ref> احمدی، «تحلیل روایی - تاریخی پرچم‌داری امیرمومنان علیؑ در غزوات پیامبر اکرم»، ص۳۷۔</ref> اور جیسے جنگ میں بہت مسلمان فرار اختیار کرتے تھے وہ کبھی فرار نہیں ہوئے اور ہمیشہ آنحضرت ؐ کے ساتھ رہے اور جنگ کرتے رہے۔<ref> ابن عبد البر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۰۹۰۔</ref>  
امام علیؑ نے [[اسلام]] کے [[غزوات]] اور [[سرایا]] میں مؤثر کردار ادا کیا۔ [[غزوہ تبوک]] کے سوا تمام غزوات میں [[رسول اللہؐ]] کے ساتھ دشمنان اسلام کے خلاف لڑے۔<ref>ابن سعد، ج 3، ص 24۔</ref> آپ بہت سی جنگوں میں سپاہ اسلام کے اصلی سپہ سالار رہے<ref> احمدی، «تحلیل روایی - تاریخی پرچم‌داری امیرمومنان علیؑ در غزوات پیامبر اکرم»، ص37۔</ref> اور جیسے جنگ میں بہت مسلمان فرار اختیار کرتے تھے وہ کبھی فرار نہیں ہوئے اور ہمیشہ آنحضرت ؐ کے ساتھ رہے اور جنگ کرتے رہے۔<ref> ابن عبد البر، الاستیعاب، 1412ق، ج3، ص1090۔</ref>  


'''جنگ بدر'''
'''جنگ بدر'''


{{اصلی|جنگ بدر}}
{{اصلی|جنگ بدر}}
[[جنگ بدر]] یا غزوہ بدر مسلمانوں اور کفار کے درمیان پہلی جنگ تھی جو بروز جمعہ [[17 رمضان]] المبارک [[سنہ 2 ہجری]] کو بدر کے کنوؤں کے کنارے واقع ہوئی۔<ref>بلاذری، ج1، ص2883 ۔</ref> اس جنگ میں [[ابو جہل]]،<ref> ابن‌حجر، الإصابة، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۱۹۰۔</ref> [[عتبہ بن ربیعہ]]<ref> بلاذری،‌ أنساب ‏الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۱، ص۱۵۲۔</ref> جیسے قریش کے بزرگ قتل ہوئے۔
[[جنگ بدر]] یا غزوہ بدر مسلمانوں اور کفار کے درمیان پہلی جنگ تھی جو بروز جمعہ [[17 رمضان]] المبارک [[سنہ 2 ہجری]] کو بدر کے کنوؤں کے کنارے واقع ہوئی۔<ref>بلاذری، ج1، ص2883 ۔</ref> اس جنگ میں [[ابو جہل]]،<ref> ابن‌حجر، الإصابة، 1415ق، ج8، ص190۔</ref> [[عتبہ بن ربیعہ]]<ref> بلاذری،‌ أنساب ‏الأشراف، 1417ق، ج1، ص152۔</ref> جیسے قریش کے بزرگ قتل ہوئے۔


علیؑ نے ولید بن عتبہ بن ربیعہ کو قتل کیا۔<ref>طبری، ج 2، ص 148۔</ref> اس جنگ میں [[نوفل بن خویلد]] جس پر آنحضرت نے نفرین کی تھی، حضرت کے ہاتھوں مارا گیا۔<ref> واقدی، محمد بن عمر، المغازی، ج‌۱، ص‌۹۱۔</ref> ان کے علاوہ دیگر بیس افراد آپ کے ہاتھوں قتل ہوئے جن میں [[حنظلہ بن ابو سفیان]] و [[عاص بن سعید]] شامل ہیں۔<ref>ابن ہشام، ج 1، ص 708-713۔</ref> بعد امام علی نے [[معاویہ]] کو ایک خط میں لکھا: ابھی بھی وہ شمشیر جس سے تمہارے جد (عتبہ ہندہ کا باپ)، ماموں (ولید عتبہ کا بیٹا) اور بھائی (حنظلہ بن ابی سفیان) کو قتل کیا تھا، میرے پاس ہے۔<ref> سید رضی، نهج البلاغة، ۱۴۱۴ق، ص۴۵۴، نامہ ۶۴۔</ref>
علیؑ نے ولید بن عتبہ بن ربیعہ کو قتل کیا۔<ref>طبری، ج 2، ص 148۔</ref> اس جنگ میں [[نوفل بن خویلد]] جس پر آنحضرت نے نفرین کی تھی، حضرت کے ہاتھوں مارا گیا۔<ref> واقدی، محمد بن عمر، المغازی، ج‌1، ص‌91۔</ref> ان کے علاوہ دیگر بیس افراد آپ کے ہاتھوں قتل ہوئے جن میں [[حنظلہ بن ابو سفیان]] و [[عاص بن سعید]] شامل ہیں۔<ref>ابن ہشام، ج 1، ص 708-713۔</ref> بعد امام علی نے [[معاویہ]] کو ایک خط میں لکھا: ابھی بھی وہ شمشیر جس سے تمہارے جد (عتبہ ہندہ کا باپ)، ماموں (ولید عتبہ کا بیٹا) اور بھائی (حنظلہ بن ابی سفیان) کو قتل کیا تھا، میرے پاس ہے۔<ref> سید رضی، نهج البلاغة، 1414ق، ص454، نامہ 64۔</ref>


'''جنگ احد'''
'''جنگ احد'''


{{اصلی|جنگ احد}}
{{اصلی|جنگ احد}}
[[جنگ احد]] میں مشرکین کے غلبہ کے بعد بہت سے [[مسلمانوں]] نے میدان جنگ سے فرار اختیار کی اور پیغمبر ؐ کو تنہا چھوڑ دیا۔  حضرت علی و بعض دیگر افراد موجود رہے اور انہوں نے آنحضرت کا دفاع کیا۔<ref> واقدی، المغازى، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۴۰۔</ref> خود علیؑ نے اس واقعہ کو اس طرح نقل کیا ہے مہاجرین و انصار نے اپنے گھروں کی طرف راہ فرار اختیار کی۔ لیکن میں نے جبکہ میرے جسم پر ستر زخم تھے، رسول خدا ؐ کا دفاع کیا۔<ref> دیلمی، إرشاد القلوب إلى الصواب، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۳۴۶۔</ref>  
[[جنگ احد]] میں مشرکین کے غلبہ کے بعد بہت سے [[مسلمانوں]] نے میدان جنگ سے فرار اختیار کی اور پیغمبر ؐ کو تنہا چھوڑ دیا۔  حضرت علی و بعض دیگر افراد موجود رہے اور انہوں نے آنحضرت کا دفاع کیا۔<ref> واقدی، المغازى، 1409ق، ج1، ص240۔</ref> خود علیؑ نے اس واقعہ کو اس طرح نقل کیا ہے مہاجرین و انصار نے اپنے گھروں کی طرف راہ فرار اختیار کی۔ لیکن میں نے جبکہ میرے جسم پر ستر زخم تھے، رسول خدا ؐ کا دفاع کیا۔<ref> دیلمی، إرشاد القلوب إلى الصواب، 1412ق، ج2، ص346۔</ref>  


[[شیعہ]]<ref> کلینی، الكافی، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۱۱۰۔</ref> و [[اہل سنت]]<ref> ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج۲، ص۱۵۴۔</ref> مصادر کے مطابق، امام علیؑ اس جان نثاری کے صلے میں [[جبرائیل]] نازل ہوئے اور رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر علیؑ کے ایثار کی تعریف و تمجید کی اور عرض کیا: یہ ایثار اور قربانی کی انتہا ہے جو وہ دکھا رہے ہیں۔ رسول خداؐ نے تصدیق کرتے ہوئے فرمایا: {{حدیث|إِنَّہ ُ مِنِّي وَأَنَا مِنْہ}}(وہ مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں) اس کے بعد ایک ندا آسمان سے سنائی دی: {{حدیث|لا سیف الا ذوالفقار و لا فتٰی الا علی}}۔ (ترجمہ: ذوالفقار کے سوا کوئی تلوار نہیں اور علی کے سوا کوئی جوان نہیں ہے)۔
[[شیعہ]]<ref> کلینی، الكافی، 1407ق، ج8، ص110۔</ref> و [[اہل سنت]]<ref> ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج2، ص154۔</ref> مصادر کے مطابق، امام علیؑ اس جان نثاری کے صلے میں [[جبرائیل]] نازل ہوئے اور رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوکر علیؑ کے ایثار کی تعریف و تمجید کی اور عرض کیا: یہ ایثار اور قربانی کی انتہا ہے جو وہ دکھا رہے ہیں۔ رسول خداؐ نے تصدیق کرتے ہوئے فرمایا: {{حدیث|إِنَّہ ُ مِنِّي وَأَنَا مِنْہ}}(وہ مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں) اس کے بعد ایک ندا آسمان سے سنائی دی: {{حدیث|لا سیف الا ذوالفقار و لا فتٰی الا علی}}۔ (ترجمہ: ذوالفقار کے سوا کوئی تلوار نہیں اور علی کے سوا کوئی جوان نہیں ہے)۔


'''جنگ خندق (احزاب)'''
'''جنگ خندق (احزاب)'''


{{اصلی|جنگ خندق}}
{{اصلی|جنگ خندق}}
[[جنگ خندق]] میں رسول اللہؐ نے اصحاب کے ساتھ مشورہ کیا تو [[سلمان فارسی]] نے رائے دی کہ [[مدینہ]] کے اطراف میں ایک خندق کھودی جائے جو حملہ آوروں اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہو۔<ref>ابن‌ ہشام، ج3، ص235۔</ref> کئی دن تک لشکر اسلام اور لشکر کفر خندق کے دو کناروں پر آمنے سامنے رہے اور کبھی کبھی ایک دوسرے کی طرف تیر یا پتھر پھینکتے تھے؛ بالآخر لشکر کفار سے [[عمرو بن عبدود]] اور اس کے چند ساتھی خندق کے سب سے تنگ حصے سے گذر کر دوسری طرف مسلمانوں کے سامنے آنے میں کامیاب ہوئے۔ علیؑ نے رسول خداؐ سے درخواست کی کہ انہیں عمرو کا مقابلہ کرنے کا اذن دیں اور آپؐ نے اذن دے دیا۔ علیؑ نے عمرو کو زمین پر گرا کر ہلاک کردیا۔<ref> ابن کثیر، البدایه و النهایہ، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۱۲۱۔</ref> جب علیؑ عمرو کا سر لے کر رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے فرمایا: {{حدیث|ضَربَةُ عَليٍ يَومَ الخَندَقِ اَفضَلُ مِن عِبادَةِ الثَّقَلَینِ}}۔ (ترجمہ: روز خندق علیؑ کا ایک وار جن و انس کی عبادت سے افضل ہے)۔<ref>مجلسی، ج‏20، ص‏ 216۔ بغدادی، تاریخ بغداد13/18/6978</ref>
[[جنگ خندق]] میں رسول اللہؐ نے اصحاب کے ساتھ مشورہ کیا تو [[سلمان فارسی]] نے رائے دی کہ [[مدینہ]] کے اطراف میں ایک خندق کھودی جائے جو حملہ آوروں اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہو۔<ref>ابن‌ ہشام، ج3، ص235۔</ref> کئی دن تک لشکر اسلام اور لشکر کفر خندق کے دو کناروں پر آمنے سامنے رہے اور کبھی کبھی ایک دوسرے کی طرف تیر یا پتھر پھینکتے تھے؛ بالآخر لشکر کفار سے [[عمرو بن عبدود]] اور اس کے چند ساتھی خندق کے سب سے تنگ حصے سے گذر کر دوسری طرف مسلمانوں کے سامنے آنے میں کامیاب ہوئے۔ علیؑ نے رسول خداؐ سے درخواست کی کہ انہیں عمرو کا مقابلہ کرنے کا اذن دیں اور آپؐ نے اذن دے دیا۔ علیؑ نے عمرو کو زمین پر گرا کر ہلاک کردیا۔<ref> ابن کثیر، البدایه و النهایہ، 1413ق، ج4، ص121۔</ref> جب علیؑ عمرو کا سر لے کر رسول خداؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے فرمایا: {{حدیث|ضَربَةُ عَليٍ يَومَ الخَندَقِ اَفضَلُ مِن عِبادَةِ الثَّقَلَینِ}}۔ (ترجمہ: روز خندق علیؑ کا ایک وار جن و انس کی عبادت سے افضل ہے)۔<ref>مجلسی، ج‏20، ص‏ 216۔ بغدادی، تاریخ بغداد13/18/6978</ref>


'''جنگ خیبر'''
'''جنگ خیبر'''
سطر 174: سطر 174:


{{اصلی|جنگ حنین}}
{{اصلی|جنگ حنین}}
[[جنگ حنین]] [[سنہ 8 ہجری]] میں واقع ہوئی۔ اس میں مہاجرین کا پرچم امام علی کے ہاتھوں میں تھا۔<ref> آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص۴۵۹۔</ref> اس جنگ میں مشرکین کے اچانک حملے کے بعد مسلمانوں نے فرار اختیار کی۔ صرف و جند دیگر افراد ثابت قدم رہے اور انہوں نے آنحضرت کا دفاع کیا۔ [[غزوہ]] کا سبب یہ تھا کہ قبیلہ ہواز اور قبیلہ ثقیف کے اشراف نے فتح مکہ کے بعد رسول اللہؐ کی طرف اپنے خلاف جنگ کے آغاز کے خوف سے حفظ ما تقدم کے تحت مسلمانوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۶۲۔</ref>
[[جنگ حنین]] [[سنہ 8 ہجری]] میں واقع ہوئی۔ اس میں مہاجرین کا پرچم امام علی کے ہاتھوں میں تھا۔<ref> آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص459۔</ref> اس جنگ میں مشرکین کے اچانک حملے کے بعد مسلمانوں نے فرار اختیار کی۔ صرف و جند دیگر افراد ثابت قدم رہے اور انہوں نے آنحضرت کا دفاع کیا۔ [[غزوہ]] کا سبب یہ تھا کہ قبیلہ ہواز اور قبیلہ ثقیف کے اشراف نے فتح مکہ کے بعد رسول اللہؐ کی طرف اپنے خلاف جنگ کے آغاز کے خوف سے حفظ ما تقدم کے تحت مسلمانوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج2، ص62۔</ref>


'''جنگ تبوک'''
'''جنگ تبوک'''
سطر 183: سطر 183:
'''سرایا'''
'''سرایا'''


* سریہ علی بن ابی‌ طالبؑ [[فدک]]، بنی سعد سے مقابلہ [[شعبان]] [[سنہ 6 ہجری]]<ref> واقدی، المغازى، ۱۴۰۹، ج۲ ص۵۶۲؛ ابن سعد، الطبقات الکبرى، ۱۴۱۰، ج۲، ص۶۹؛ یاقوت حموى، معجم البلدان، ۱۹۹۵، ج۴، ص۲۳۸؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷، ج۲، ص ۶۴۲؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۸۵ق، ج۲، ص۲۰۹۔</ref>
* سریہ علی بن ابی‌ طالبؑ [[فدک]]، بنی سعد سے مقابلہ [[شعبان]] [[سنہ 6 ہجری]]<ref> واقدی، المغازى، 1409، ج2 ص562؛ ابن سعد، الطبقات الکبرى، 1410، ج2، ص69؛ یاقوت حموى، معجم البلدان، 1995، ج4، ص238؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387، ج2، ص 642؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 1385ق، ج2، ص209۔</ref>
* سریہ علی بن أبی طالبؑ قبیلہ بنی طی میں بت خانہ فلس کی تخریب کے لئے۔ [[ربیع الثانی]] [[سنہ 9 ہجری]]<ref> آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۶۱، ص ۵۷۶۔</ref>
* سریہ علی بن أبی طالبؑ قبیلہ بنی طی میں بت خانہ فلس کی تخریب کے لئے۔ [[ربیع الثانی]] [[سنہ 9 ہجری]]<ref> آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، 1361، ص 576۔</ref>
* سریہ علی بن أبی طالبؑ [[یمن]] [[رمضان]] [[سنہ 10 ہجری]]<ref> ابن هشام، السیرة النبویة، ج ۴، ص ۳۱۹؛ واقدی، کتاب المغازى، ۱۴۰۹، ج۳، ص۸۲۶ و رسولی محلاتی، تاریخ اسلام، ۱۳۷۴، ج ۱، ص۱۴۱ و ۱۵۳۔</ref>
* سریہ علی بن أبی طالبؑ [[یمن]] [[رمضان]] [[سنہ 10 ہجری]]<ref> ابن هشام، السیرة النبویة، ج ص 319؛ واقدی، کتاب المغازى، 1409، ج3، ص826 و رسولی محلاتی، تاریخ اسلام، 1374، ج 1، ص141 و 153۔</ref>


===یمن کی ذمہ داری===
===یمن کی ذمہ داری===
[[آنحضرت]] نے [[فتح مکہ]] اور [[جنگ حنین]] میں کامیابی کے بعد [[سنہ 8 ہجری]] میں اپنی دعوت میں وسعت دی۔ اسی سلسلہ میں [[معاذ بن جبل]] کو [[یمن]] بھیجا۔ وہ بعض مسائل کے حل میں ناکام رہے اور واپس آ گئے۔ اس کے بعد آپ نے [[خالد بن ولید]] کو بھیجا۔ ان سے مسئلہ حل نہیں ہوا اور ۶ کے بعد وہ بھی واپس آ گئے۔ تب آنحضرت نے امام علی کو بلایا اور انہیں اپنے خط کے ہمراہ یمن روانہ کیا۔ امام نے اہل یمن کو آنحضرت کا خط پڑھ کر سنایا اور انہیں [[توحید]] کی دعوت دی۔ امام کی کوششوں سے [[قبیلہ ہمدان]] [[مسلمان]] ہو گیا۔ امام نے ان کے [[اسلام]] لانے کی خبر آنحضرت ؐ کو بھیجی۔ آپ خوش ہوئے اور ہمدانیوں کو دعائیں دی۔<ref> طبری، تاریخ الامم و الملوک (تاریخ طبری)، ج ۳، ص ۱۳۱-۱۳۲، ۱۳۸۷ق؛ ذهبی، تاریخ الاسلام، ج ۲، ص ۶۹۰-۶۹۱، ۱۴۰۹ق؛ مفید، الارشاد، ج ‏۱، ص ۶۲، ۱۴۱۳ق۔</ref> ایک دوسری گزارش میں [[قبیلہ مذحج]] کے ساتھ امام علی کی  جنگ کا ذکر ہوا ہے۔ اس گزارش کے مطابق، امام ان کی سر زمین کی طرف گئے اور انہیں اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے قبول نہیں کیا اور جنگ کے لئے آمادہ ہو گئے تو آپ نے ان سے جنگ کی اور ان کے فرار اختیار کرنے کے بعد انہیں دوبارہ اسلام کی دعوت دی، غنائم جنگ کو جمع کیا اور [[نجران]] کے [[صدقات]] کے ساتھ [[حج]] کے موسم میں سب آنحضرت کے حوالے کیا۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری‏، ج ۲، ص ۱۲۸-۱۲۹، ۱۴۱۰ق؛ واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، ج ‏۳، ص ۱۸۰۲-۱۸۰۳، ۱۴۰۹ق۔</ref> آنحضرت نے یمن کی قضاوت بھی امام کے حوالے کی اور اس میں استواری کے لئے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ تاریخی مصادر میں وہاں قضاوت کے بعض نمونے ذکر ہوئے ہیں۔<ref> ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج ۲، ص ۲۲۵، ۱۴۲۱ق؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج ۳، ص ۱۴۵، ۱۴۱۱ق۔</ref>
[[آنحضرت]] نے [[فتح مکہ]] اور [[جنگ حنین]] میں کامیابی کے بعد [[سنہ 8 ہجری]] میں اپنی دعوت میں وسعت دی۔ اسی سلسلہ میں [[معاذ بن جبل]] کو [[یمن]] بھیجا۔ وہ بعض مسائل کے حل میں ناکام رہے اور واپس آ گئے۔ اس کے بعد آپ نے [[خالد بن ولید]] کو بھیجا۔ ان سے مسئلہ حل نہیں ہوا اور 6 کے بعد وہ بھی واپس آ گئے۔ تب آنحضرت نے امام علی کو بلایا اور انہیں اپنے خط کے ہمراہ یمن روانہ کیا۔ امام نے اہل یمن کو آنحضرت کا خط پڑھ کر سنایا اور انہیں [[توحید]] کی دعوت دی۔ امام کی کوششوں سے [[قبیلہ ہمدان]] [[مسلمان]] ہو گیا۔ امام نے ان کے [[اسلام]] لانے کی خبر آنحضرت ؐ کو بھیجی۔ آپ خوش ہوئے اور ہمدانیوں کو دعائیں دی۔<ref> طبری، تاریخ الامم و الملوک (تاریخ طبری)، ج ص 131-132، 1387ق؛ ذهبی، تاریخ الاسلام، ج ص 690-691، 1409ق؛ مفید، الارشاد، ج ‏1، ص 62، 1413ق۔</ref> ایک دوسری گزارش میں [[قبیلہ مذحج]] کے ساتھ امام علی کی  جنگ کا ذکر ہوا ہے۔ اس گزارش کے مطابق، امام ان کی سر زمین کی طرف گئے اور انہیں اسلام کی دعوت دی۔ انہوں نے قبول نہیں کیا اور جنگ کے لئے آمادہ ہو گئے تو آپ نے ان سے جنگ کی اور ان کے فرار اختیار کرنے کے بعد انہیں دوبارہ اسلام کی دعوت دی، غنائم جنگ کو جمع کیا اور [[نجران]] کے [[صدقات]] کے ساتھ [[حج]] کے موسم میں سب آنحضرت کے حوالے کیا۔<ref> ابن سعد، الطبقات الکبری‏، ج ص 128-129، 1410ق؛ واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، ج ‏3، ص 1802-1803، 1409ق۔</ref> آنحضرت نے یمن کی قضاوت بھی امام کے حوالے کی اور اس میں استواری کے لئے ان کے حق میں دعا فرمائی۔ تاریخی مصادر میں وہاں قضاوت کے بعض نمونے ذکر ہوئے ہیں۔<ref> ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ج ص 225، 1421ق؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج ص 145، 1411ق۔</ref>


==واقعۂ غدیر==
==واقعۂ غدیر==
[[ملف:غدیر خم فرشچیان.jpeg|تصغیر|230px|غدیر کے بارے میں ایرانی فنکار محمود فرشچیان کی نقاشی]]
[[ملف:غدیر خم فرشچیان.jpeg|تصغیر|230px|غدیر کے بارے میں ایرانی فنکار محمود فرشچیان کی نقاشی]]
{{اصلی|واقعۂ غدیر}}
{{اصلی|واقعۂ غدیر}}
پیغمبرؐ نے [[سنہ 10 ہجری]] میں [[ہجرت]] کے بعد پہلی بار [[حج]] کا فریضہ انجام دینے کا ارادہ کیا۔ جب مسلمانوں کو اس بات کی خبر ملی تو انہوں نے آپ کی ہمراہی کی غرض سے [[مکہ]] کی طرف عزیمت کی۔<ref> کلینی، الكافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۲۴۵۔</ref> آنحضرت نے امام علی کو خط لکھا جو [[یمن]] میں [[جہاد]] میں<ref> رشید رضا، المنار، ۱۹۹۰م، ج۶، ص۳۸۴۔</ref> مصروف تھے اور انہیں حج میں شامل ہونے کی دعوت دی۔<ref> شیخ مفید، الإرشاد فی معرفة حجج الله على العباد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۷۱۔</ref>  
پیغمبرؐ نے [[سنہ 10 ہجری]] میں [[ہجرت]] کے بعد پہلی بار [[حج]] کا فریضہ انجام دینے کا ارادہ کیا۔ جب مسلمانوں کو اس بات کی خبر ملی تو انہوں نے آپ کی ہمراہی کی غرض سے [[مکہ]] کی طرف عزیمت کی۔<ref> کلینی، الكافی، 1407ق، ج4، ص245۔</ref> آنحضرت نے امام علی کو خط لکھا جو [[یمن]] میں [[جہاد]] میں<ref> رشید رضا، المنار، 1990م، ج6، ص384۔</ref> مصروف تھے اور انہیں حج میں شامل ہونے کی دعوت دی۔<ref> شیخ مفید، الإرشاد فی معرفة حجج الله على العباد، 1413ق، ج1، ص171۔</ref>  


حج کے بعد [[غدیر خم]] میں جہاں سے مسلمان ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے اور اپنے شہر کا رخ کا کرتے تھے۔ خداوند عالم نے [[رسول اللہؐ]] کو توقف اور پیغام ابلاغ کرنے کا حکم دیا۔<ref> اربلی، كشف الغمة فی معرفة الأئمة، ۱۳۸۱ق، ج۱، ص۲۳۷۔</ref>   
حج کے بعد [[غدیر خم]] میں جہاں سے مسلمان ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے اور اپنے شہر کا رخ کا کرتے تھے۔ خداوند عالم نے [[رسول اللہؐ]] کو توقف اور پیغام ابلاغ کرنے کا حکم دیا۔<ref> اربلی، كشف الغمة فی معرفة الأئمة، 1381ق، ج1، ص237۔</ref>   


آنحضرت نے [[نماز ظہر]] پڑھانے کے بعد خطبہ پڑھا اور مسلمانوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّی أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟؛ کیا میں مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ اولویت نہیں رکھتا ہوں؟ سب نے کہا: ہاں بے شک، اس کے بعد آپ نے حضرت علی کے ہاتھوں کو بلند کیا اور فرمایا: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ؛ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں، اللہ اسے دوست رکھے جو انہیں دوست رکھے اور انہیں دشمن رکھے جو انہیں دشمن رکھے۔<ref> ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، ۱۴۲۱ق، ج۳۰، ص۴۳۰؛ با کمی تفاوت: قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۱۷۴۔</ref>  
آنحضرت نے [[نماز ظہر]] پڑھانے کے بعد خطبہ پڑھا اور مسلمانوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: «أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّی أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِینَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟؛ کیا میں مومنین پر ان کے نفسوں سے زیادہ اولویت نہیں رکھتا ہوں؟ سب نے کہا: ہاں بے شک، اس کے بعد آپ نے حضرت علی کے ہاتھوں کو بلند کیا اور فرمایا: «مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ؛ جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں، اللہ اسے دوست رکھے جو انہیں دوست رکھے اور انہیں دشمن رکھے جو انہیں دشمن رکھے۔<ref> ابن حنبل، مسند احمد بن حنبل، 1421ق، ج30، ص430؛ با کمی تفاوت: قمی، تفسیر القمی، 1404ق، ج1، ص174۔</ref>  


اس کے بعد رسول اللہؐ نے [[آیت تبلیغ]] کے ضمن میں آنے والے پروردگار کے حکمِ کا ابلاغ فرمایا <ref>رجوع کریں: ابن‌ مغازلی، ص 16؛ کلینی، ج1، ص290؛ طبرسی، احتجاج، ج1، ص73؛ علی بن ابراہیم، ج1، ص 173؛ رشیدرضا، ج6، ص464ـ465۔</ref>جو کچھ یوں تھا:
اس کے بعد رسول اللہؐ نے [[آیت تبلیغ]] کے ضمن میں آنے والے پروردگار کے حکمِ کا ابلاغ فرمایا <ref>رجوع کریں: ابن‌ مغازلی، ص 16؛ کلینی، ج1، ص290؛ طبرسی، احتجاج، ج1، ص73؛ علی بن ابراہیم، ج1، ص 173؛ رشیدرضا، ج6، ص464ـ465۔</ref>جو کچھ یوں تھا:
سطر 209: سطر 209:
==سقیفہ==
==سقیفہ==
{{اصلی|سقیفۂ بنی ساعدہ}}
{{اصلی|سقیفۂ بنی ساعدہ}}
[[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ]] کے وصال کے بعد آپ کی وصیت کے مطابق<ref>مفید، الارشاد، ج ۱ ص ۱۸۶</ref> علىؑ اور [[بنی ہاشم]] آپؐ کی تجہیز و [[کفن|تکفین]] اور [[دفن|تدفین]] میں مصروف تھے کہ انصار نے بعض دلائل، جیسے اس بات کا خوف کہ قریش ان سے غزوات میں ان کے قتل ہونے والوں کا انتقام نہ لیں اور اس بات کے پیش نظر کہ قریش امام علی کی جانشینی کے سلسلہ میں آنحضرت کے بات پر عمل نہیں کریں گے، کی وجہ سے سقیفہ بنی ساعدہ میں جلسہ تشکیل دیا۔ تا کہ وہ انصار میں سے کسی کا آنحضرت کا جانشین معین کریں۔<ref>مظفر، السقیفہ ۱۴۱۵، ص۹۵۔۹۷</ref> [[ابوبکر]]و [[عمر]] کو جب اس بات کی خبر ملی تو انہوں نے [[ابو عبیدہ جراح]]، [[عبدالرحمن بن عوف]] اور [[عثمان بن عفان]] کے ساتھ [[سقیفۂ بنی ساعدہ]] پہچ گئے۔ جہاں ان کے درمیان تنازعات و اختلافات اور بحث و جدل کے بعد [[ابوبکر]] کو رسول خداؐ کے بعد خلیفہ کے عنوان سے متعارف کرایا گیا اور  کچھ ہی عرصہ قبل مقام [[غدیر ]] پر ہونے والے اعلان خلافت اور علیؑ کے ہاتھ پر ان سب کی بیعت کےاعلان کو بھلا دیا گیا۔<ref>ابن ابی الحدید، ج 6، ص 8۔</ref>
[[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ]] کے وصال کے بعد آپ کی وصیت کے مطابق<ref>مفید، الارشاد، ج 1 ص 186</ref> علىؑ اور [[بنی ہاشم]] آپؐ کی تجہیز و [[کفن|تکفین]] اور [[دفن|تدفین]] میں مصروف تھے کہ انصار نے بعض دلائل، جیسے اس بات کا خوف کہ قریش ان سے غزوات میں ان کے قتل ہونے والوں کا انتقام نہ لیں اور اس بات کے پیش نظر کہ قریش امام علی کی جانشینی کے سلسلہ میں آنحضرت کے بات پر عمل نہیں کریں گے، کی وجہ سے سقیفہ بنی ساعدہ میں جلسہ تشکیل دیا۔ تا کہ وہ انصار میں سے کسی کا آنحضرت کا جانشین معین کریں۔<ref>مظفر، السقیفہ 1415، ص95۔97</ref> [[ابوبکر]]و [[عمر]] کو جب اس بات کی خبر ملی تو انہوں نے [[ابو عبیدہ جراح]]، [[عبدالرحمن بن عوف]] اور [[عثمان بن عفان]] کے ساتھ [[سقیفۂ بنی ساعدہ]] پہچ گئے۔ جہاں ان کے درمیان تنازعات و اختلافات اور بحث و جدل کے بعد [[ابوبکر]] کو رسول خداؐ کے بعد خلیفہ کے عنوان سے متعارف کرایا گیا اور  کچھ ہی عرصہ قبل مقام [[غدیر ]] پر ہونے والے اعلان خلافت اور علیؑ کے ہاتھ پر ان سب کی بیعت کےاعلان کو بھلا دیا گیا۔<ref>ابن ابی الحدید، ج 6، ص 8۔</ref>


===امام علی سے مخالفت کا سابقہ===
===امام علی سے مخالفت کا سابقہ===
سطر 231: سطر 231:
[[ابو بکر]] کا دور شروع ہوتے ہی خاندان رسولؐ کو نہایت ہولناک حوادث و واقعات کا سامنا کرنا پڑا؛ جن میں یہ تین واقعات خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
[[ابو بکر]] کا دور شروع ہوتے ہی خاندان رسولؐ کو نہایت ہولناک حوادث و واقعات کا سامنا کرنا پڑا؛ جن میں یہ تین واقعات خاص طور پر قابل ذکر ہیں:
# خانہ امام علیؑ پر حملہ و [[ابوبکر]] کے لئے جبری [[بیعت]]<ref> طوسی، تلخیص الشافی، ج‏3، ص‏76؛ شہرستانی، ج‏2، ص 95؛ ابن قتیبہ ، ج‏2، ص 12۔</ref>
# خانہ امام علیؑ پر حملہ و [[ابوبکر]] کے لئے جبری [[بیعت]]<ref> طوسی، تلخیص الشافی، ج‏3، ص‏76؛ شہرستانی، ج‏2، ص 95؛ ابن قتیبہ ، ج‏2، ص 12۔</ref>
# غصب [[فدک]] <ref> حلبى، ج‏3، ص 400؛ ابن ابى الحدید، ج‏16، ص‏316۔بلاذری، ص۴۰ و ۴۱.کلینی، ج۱، ص۵۴۳</ref>
# غصب [[فدک]] <ref> حلبى، ج‏3، ص 400؛ ابن ابى الحدید، ج‏16، ص‏316۔بلاذری، ص40 و 41.کلینی، ج1، ص543</ref>
# [[شہادت]] [[حضرت فاطمہ|حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا]]
# [[شہادت]] [[حضرت فاطمہ|حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا]]


'''اجباری بیعت'''
'''اجباری بیعت'''


[[بیعت]] سے امام علیؑ کا اجتناب اور بعض [[صحابہ]] کی خلافت [[ابوبکر]] کے خلاف اقدامات، ابوبکر اور حتی [[عمر]] کے لئے سنجیدہ خطرے میں تبدیل ہوگئے۔ چنانچہ ابوبکر و عمر نے اس خطرے کے خاتمے اور اپنے منصوبے کے تحت علی بن ابیطالبؑ کو بیعت پر مجبور کرنے کا فیصلہ کیا۔<ref>پیشوائی، ج 2، ص 191۔</ref> [[ابوبکر]] نے کئی مرتبہ امامؑ سے بیعت لینے کیلئے [[قنفذ|قُنفُذ]] نامی شخص کو امام علیؑ کے گھر کے دروازے پر بھجوایا لیکن امامؑ نے قبول نہ کیا چنانچہ عمر نے ابوبکر سے کہا: خود ہی اٹھو، ہم مل کر علی بن ابیطالب کے پاس جاتے ہیں اور یوں ابو بکر، عمر، [[عثمان]]، [[خالد بن ولید]]، [[مغیرہ بن شعبہ]]، [[ابو عبیدہ جراح]] اور قنفذ علیؑ کے گھر کے دروازے پر پہنچے۔ یہ گروہ جب گھر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے بنت رسولؐ [[حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا]] کی توہین کی اور دروازے کو دھکا دیا اور سیدہؑ دروازے اور دیوار کے درمیان دب گئیں اور ان افراد میں سے بعض نے سیدہؑ کو تازیانے مارے۔<ref>ابن قتیبہ، ج 1، ص 29-30؛ مجلسی، ج 43، ص 70؛ مجلسی، مرآة العقول، ج 5، ص 320 ؛ شہرستانی، ج1، ص 57۔</ref> اور اس کے بعد امام علیؑ پر حملہ کیا اور آپ کا لباس ان کی گردن میں لپیٹا اور انہیں گھسیٹ کر سقیفہ لے گئے اور ان کے بیعت کا مطالبہ کیا۔ امام نے جواب دیا: میں خلافت کے لئے تم سے زیادہ اس کا اہل ہوں، اس لئے میں تمہاری بیعت نہیں کروں گا۔ بہتر ہوگا کہ تم میری بیعت کرو، اس لئے کہ تم نے انصار کو رسول خدا کا رشتہ دار بتا کر ان سے خلافت لے لی اور اب ہم سے خلافت کو غصب کرنا چاہتے ہو۔<ref>ابن قتیبہ، ج۱، ص۲۸۔</ref>
[[بیعت]] سے امام علیؑ کا اجتناب اور بعض [[صحابہ]] کی خلافت [[ابوبکر]] کے خلاف اقدامات، ابوبکر اور حتی [[عمر]] کے لئے سنجیدہ خطرے میں تبدیل ہوگئے۔ چنانچہ ابوبکر و عمر نے اس خطرے کے خاتمے اور اپنے منصوبے کے تحت علی بن ابیطالبؑ کو بیعت پر مجبور کرنے کا فیصلہ کیا۔<ref>پیشوائی، ج 2، ص 191۔</ref> [[ابوبکر]] نے کئی مرتبہ امامؑ سے بیعت لینے کیلئے [[قنفذ|قُنفُذ]] نامی شخص کو امام علیؑ کے گھر کے دروازے پر بھجوایا لیکن امامؑ نے قبول نہ کیا چنانچہ عمر نے ابوبکر سے کہا: خود ہی اٹھو، ہم مل کر علی بن ابیطالب کے پاس جاتے ہیں اور یوں ابو بکر، عمر، [[عثمان]]، [[خالد بن ولید]]، [[مغیرہ بن شعبہ]]، [[ابو عبیدہ جراح]] اور قنفذ علیؑ کے گھر کے دروازے پر پہنچے۔ یہ گروہ جب گھر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے بنت رسولؐ [[حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا]] کی توہین کی اور دروازے کو دھکا دیا اور سیدہؑ دروازے اور دیوار کے درمیان دب گئیں اور ان افراد میں سے بعض نے سیدہؑ کو تازیانے مارے۔<ref>ابن قتیبہ، ج 1، ص 29-30؛ مجلسی، ج 43، ص 70؛ مجلسی، مرآة العقول، ج 5، ص 320 ؛ شہرستانی، ج1، ص 57۔</ref> اور اس کے بعد امام علیؑ پر حملہ کیا اور آپ کا لباس ان کی گردن میں لپیٹا اور انہیں گھسیٹ کر سقیفہ لے گئے اور ان کے بیعت کا مطالبہ کیا۔ امام نے جواب دیا: میں خلافت کے لئے تم سے زیادہ اس کا اہل ہوں، اس لئے میں تمہاری بیعت نہیں کروں گا۔ بہتر ہوگا کہ تم میری بیعت کرو، اس لئے کہ تم نے انصار کو رسول خدا کا رشتہ دار بتا کر ان سے خلافت لے لی اور اب ہم سے خلافت کو غصب کرنا چاہتے ہو۔<ref>ابن قتیبہ، ج1، ص28۔</ref>


بیعت کے وقت کے سلسلہ میں مورخین کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض اس بیعت کو [[حضرت فاطمہ زہرا]] کی وفات کے بعد اور بعض دیگر 40 روز کے بعد مانتے ہیں اور ایک دوسرے گروہ کے مطابق 6 ماہ بعد ذکر ہوئی ہے۔<ref>يعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۱، ص ۵۲۷.</ref> البتہ [[شیخ مفید]] کا ماننا ہے کہ امام نے ہرگز ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔<ref>مفيد، الفصول المختارہ، ص ۵۶-۵۷۔</ref>
بیعت کے وقت کے سلسلہ میں مورخین کے درمیان اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ بعض اس بیعت کو [[حضرت فاطمہ زہرا]] کی وفات کے بعد اور بعض دیگر 40 روز کے بعد مانتے ہیں اور ایک دوسرے گروہ کے مطابق 6 ماہ بعد ذکر ہوئی ہے۔<ref>يعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ص 527.</ref> البتہ [[شیخ مفید]] کا ماننا ہے کہ امام نے ہرگز ابوبکر کی بیعت نہیں کی۔<ref>مفيد، الفصول المختارہ، ص 56-57۔</ref>


'''خلافت ابوبکر میں آپ کا رویہ'''
'''خلافت ابوبکر میں آپ کا رویہ'''


[[خلافت]] [[ابوبکر]] کے زمانہ میں جس کی مدت 2 سال تھی، امام علی تمام محظورات کے باوجود دستگاہ خلافت کو جہاں تک ان کے لئے قبول کرنا ممکن ہوتا تھا، انہیں مشورہ دیا کرتے تھے۔ علمائے [[اہل سنت]] کے عقیدہ کے مطابق، ابوبکر مہم امور میں امام علی سے مشورہ کیا کرتے تھے۔<ref>جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ج ۱، ص ۳۰۶۔</ref> اور ان کے مشورہ کے مطابق عمل کیا کرتے تھے اور اس لئے کہ وہ امام کے مشوروں سے فائدہ اٹھا سکیں انہیں دیگر [[مسلمانوں]] کی طرح [[مدینہ]] سے خارج ہونے کی اجازت نہین دیتے تھے۔<ref>رسولی محلاتی، زندگانی امیرالمؤمنین علیه‌السلام، ص۲۵۳۔</ref> آپ نے کوئی بھی منصب قبول نہ کرنے سے پرہیز کے باجود جب بھی انہیں مشورہ کی کوئی ضرورت پیش آتی تھی اور [[اسلام]] و [[مسلمین]] کی مصلحت کا تقاضا ہوتا تھا تو [[خلیفہ]] کے ساتھ تعاون سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ [[یعقوبی]] اس بارے میں تحریر کرتے ہیں: خلافت ابوبکر کے زمانے میں جن افراد سے [[فقہ]] حاصل کی جاتی تھی ان میں سے ایک علی بن ابی طالب تھے۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص۱۳۸.</ref> ان کے دور حکومت میں جنگوں و فتوحات کے سلسلہ میں امام کا موقف غیر جانب دارانہ یا زیادہ سے زیادہ مشاورانہ ہوتا تھا لیکن آپ نے بذات خود ان میں سے کسی میں شرکت نہیں کی۔ بعض تاریخی گزارشات کے مطابق، ابوبکر نے فتح [[شام]] کے سلسلہ میں اصحاب سے نظر خواہی کی اور فقط امام علی کے نظریہ کو قبول کیا۔<ref>ازدی‌، تاریخ فتوح الشام‌، ص‌۴-۵۴؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی‌، ج‌۲، ص ۱۳۳۔</ref>
[[خلافت]] [[ابوبکر]] کے زمانہ میں جس کی مدت 2 سال تھی، امام علی تمام محظورات کے باوجود دستگاہ خلافت کو جہاں تک ان کے لئے قبول کرنا ممکن ہوتا تھا، انہیں مشورہ دیا کرتے تھے۔ علمائے [[اہل سنت]] کے عقیدہ کے مطابق، ابوبکر مہم امور میں امام علی سے مشورہ کیا کرتے تھے۔<ref>جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ج ص 306۔</ref> اور ان کے مشورہ کے مطابق عمل کیا کرتے تھے اور اس لئے کہ وہ امام کے مشوروں سے فائدہ اٹھا سکیں انہیں دیگر [[مسلمانوں]] کی طرح [[مدینہ]] سے خارج ہونے کی اجازت نہین دیتے تھے۔<ref>رسولی محلاتی، زندگانی امیرالمؤمنین علیه‌السلام، ص253۔</ref> آپ نے کوئی بھی منصب قبول نہ کرنے سے پرہیز کے باجود جب بھی انہیں مشورہ کی کوئی ضرورت پیش آتی تھی اور [[اسلام]] و [[مسلمین]] کی مصلحت کا تقاضا ہوتا تھا تو [[خلیفہ]] کے ساتھ تعاون سے دریغ نہیں کرتے تھے۔ [[یعقوبی]] اس بارے میں تحریر کرتے ہیں: خلافت ابوبکر کے زمانے میں جن افراد سے [[فقہ]] حاصل کی جاتی تھی ان میں سے ایک علی بن ابی طالب تھے۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج 2، ص138.</ref> ان کے دور حکومت میں جنگوں و فتوحات کے سلسلہ میں امام کا موقف غیر جانب دارانہ یا زیادہ سے زیادہ مشاورانہ ہوتا تھا لیکن آپ نے بذات خود ان میں سے کسی میں شرکت نہیں کی۔ بعض تاریخی گزارشات کے مطابق، ابوبکر نے فتح [[شام]] کے سلسلہ میں اصحاب سے نظر خواہی کی اور فقط امام علی کے نظریہ کو قبول کیا۔<ref>ازدی‌، تاریخ فتوح الشام‌، ص‌4-54؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی‌، ج‌2، ص 133۔</ref>


===عمر ===
===عمر ===
[[حضرت ابوبکر]] نے اپنی وصیت میں جسے [[عثمان]] نے تحریر کیا، لوگوں کو عمر کی پیروی کی دعوی دی اور اعلان کیا: میں [[عمر بن خطاب]] اپنے بعد تمہارا حاکم معین کرتا ہوں۔ ان کے بات سنیں اور ان کے اطاعت کریں۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص ۳۷۔</ref> امام علی نے ان کے اس اقدام پر سکوت اختیار کیا۔ لیکن بعد میں آپ نے اس اقدام کو مذموم و ناحق بتایا اور اس کی توصیف ان الفاظ میں کی: تعجب خیز ہے، حیرت انگیز ہے کہ ابوبکر اپنی حیات میں لوگوں سے اپنی [[بیعت]] فسخ کرنے کا مطالبہ کرتے تھے (جیسا کہ وہ کہتے تھے مجھے چھوڑ دو میں تم بہترین نہیں ہوں) لیکن [[خلافت]] کو دوسرے کے لئے مضبوط کرتے رہے۔ ان دو لوگوں (ابوبکر و عمر) نے شتر خلافت کے پستانوں کو سختی کے ساتھ دوہا۔ جبکہ میری برجستگی ان کے دونوں کے مقابلے میں اس قدر ہے کہ میں اس دریا کی مانند ہوں جس پر سے سیلاب کا پانی آ کر گذر جاتا ہے اور کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا جو میرے علم کی بلندی تک پہچ سکے ... میں نے شجاعت کے ساتھ اس طولانی مدت میں نہایت اندوہ کے ساتھ اس پر صبر کیا۔<ref>نہج البلاغہ خطبہ شقشقیہ۔</ref>
[[حضرت ابوبکر]] نے اپنی وصیت میں جسے [[عثمان]] نے تحریر کیا، لوگوں کو عمر کی پیروی کی دعوی دی اور اعلان کیا: میں [[عمر بن خطاب]] اپنے بعد تمہارا حاکم معین کرتا ہوں۔ ان کے بات سنیں اور ان کے اطاعت کریں۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ص 37۔</ref> امام علی نے ان کے اس اقدام پر سکوت اختیار کیا۔ لیکن بعد میں آپ نے اس اقدام کو مذموم و ناحق بتایا اور اس کی توصیف ان الفاظ میں کی: تعجب خیز ہے، حیرت انگیز ہے کہ ابوبکر اپنی حیات میں لوگوں سے اپنی [[بیعت]] فسخ کرنے کا مطالبہ کرتے تھے (جیسا کہ وہ کہتے تھے مجھے چھوڑ دو میں تم بہترین نہیں ہوں) لیکن [[خلافت]] کو دوسرے کے لئے مضبوط کرتے رہے۔ ان دو لوگوں (ابوبکر و عمر) نے شتر خلافت کے پستانوں کو سختی کے ساتھ دوہا۔ جبکہ میری برجستگی ان کے دونوں کے مقابلے میں اس قدر ہے کہ میں اس دریا کی مانند ہوں جس پر سے سیلاب کا پانی آ کر گذر جاتا ہے اور کوئی بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا جو میرے علم کی بلندی تک پہچ سکے ... میں نے شجاعت کے ساتھ اس طولانی مدت میں نہایت اندوہ کے ساتھ اس پر صبر کیا۔<ref>نہج البلاغہ خطبہ شقشقیہ۔</ref>


'''خلافت عمر میں آپ کا رویہ'''
'''خلافت عمر میں آپ کا رویہ'''


[[حضرت عمر]] کی خلافت دس سال تک رہی اور امام علی نے ابوبکر کے دور [[خلافت]] کی عمر کے دور میں بھی کسی طرح کا کوئی بھی منصب قبول کرنے سے پرہیز کیا۔ لیکن ایک مشاور کے عنوان سے عمر کے ساتھ رہے اور ان کے اپنے مشوروں کے ذریعہ سے مدد کی۔<ref>ابن حجر عسقلانى، الاصابه فى تمییز الصحابه، ۱۳۲۸ق، ج ۲، ص ۵۰۹؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۳۲۸ق، ج ۳، ص ۳۹۔</ref> جیسا کہ [[اہل سنت]] مورخین نے ذکر کیا ہے کہ عمر کوئی بھی کام امام علی کے مشورہ کے بغیر نہیں کرتے تھے۔ اس لئے عمر امام کی خردمندی، دقت نظر اور تدین کے قائل تھے۔<ref>جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ج ۱، ص ۳۰۶۔</ref> امام نے ان زمانے کی فتوحات کے مقابلہ میں وہی موقف اختیار کیا جو ابوبکر کے دور میں اختیار کیا تھا، لیکن چونکہ اس زمانہ میں فتوحات کا دائرہ بیحد وسیع ہو چکا تھا۔ لہذا امام کا کردار بھی ابوبکر کے دور سے زیادہ ملموس و چشمگیر تھا۔ کسی بھی تاریخی یا حدیثی ماخذ میں ان فتوحات میں امام کی شرکت کا کوئی ذکر نہیں ہوا ہے۔ اس دور کی کسی بھی کتاب میں یہ بات دیکھنے میں نہیں آئی ہے کہ عمر نے امام علی سے کوئی مشورہ طلب کیا ہو اور امام نے اس سے منع کیا ہو۔ بلکہ [[امام باقرؑ]] سے منقول [[روایت]] کے مطابق، عمر امور حکومت کو، جن میں مہم ترین مسئلہ فتوحات کا تھا، امام علی کے مشورہ سے انجام دیا کرتے تھے۔<ref>صدوق‌، الخصال‌، ج‌۲، ص‌۴۲۴؛ مفید، الاختصاص‌، تصحيح و تعليق على‌اكبر غفارى‌، ص‌۱۷۳۔</ref> دوسری طرف [[اصحاب]] و پیروان علی نے ان فتوحات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔<ref>برای نمونه ر.ک: واقدى‌، المغازی، ج‌۲، ص‌۲۵۱؛ طبرى‌، تاریخ طبری، ج‌۳، ص‌۱۲۱-۱۲۴؛ دينورى‌، اخبار الطوال، ص‌۱۲۶؛ رافعى قزوينى‌، التدوين فى اخبار قزوين‌، ج‌۱، ص‌۷۸؛ ذهبى‌، العبر فى خَبَر من عَبَرَ، ج‌۱، ص‌۲۶؛ مَقْدِسى‌، البدء و التاريخ‌، ج‌۵، ص‌۱۸۲. .</ref
[[حضرت عمر]] کی خلافت دس سال تک رہی اور امام علی نے ابوبکر کے دور [[خلافت]] کی عمر کے دور میں بھی کسی طرح کا کوئی بھی منصب قبول کرنے سے پرہیز کیا۔ لیکن ایک مشاور کے عنوان سے عمر کے ساتھ رہے اور ان کے اپنے مشوروں کے ذریعہ سے مدد کی۔<ref>ابن حجر عسقلانى، الاصابه فى تمییز الصحابه، 1328ق، ج ص 509؛ ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1328ق، ج ص 39۔</ref> جیسا کہ [[اہل سنت]] مورخین نے ذکر کیا ہے کہ عمر کوئی بھی کام امام علی کے مشورہ کے بغیر نہیں کرتے تھے۔ اس لئے عمر امام کی خردمندی، دقت نظر اور تدین کے قائل تھے۔<ref>جعفریان، تاریخ سیاسی اسلام، ج ص 306۔</ref> امام نے ان زمانے کی فتوحات کے مقابلہ میں وہی موقف اختیار کیا جو ابوبکر کے دور میں اختیار کیا تھا، لیکن چونکہ اس زمانہ میں فتوحات کا دائرہ بیحد وسیع ہو چکا تھا۔ لہذا امام کا کردار بھی ابوبکر کے دور سے زیادہ ملموس و چشمگیر تھا۔ کسی بھی تاریخی یا حدیثی ماخذ میں ان فتوحات میں امام کی شرکت کا کوئی ذکر نہیں ہوا ہے۔ اس دور کی کسی بھی کتاب میں یہ بات دیکھنے میں نہیں آئی ہے کہ عمر نے امام علی سے کوئی مشورہ طلب کیا ہو اور امام نے اس سے منع کیا ہو۔ بلکہ [[امام باقرؑ]] سے منقول [[روایت]] کے مطابق، عمر امور حکومت کو، جن میں مہم ترین مسئلہ فتوحات کا تھا، امام علی کے مشورہ سے انجام دیا کرتے تھے۔<ref>صدوق‌، الخصال‌، ج‌2، ص‌424؛ مفید، الاختصاص‌، تصحيح و تعليق على‌اكبر غفارى‌، ص‌173۔</ref> دوسری طرف [[اصحاب]] و پیروان علی نے ان فتوحات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔<ref>برای نمونه ر.ک: واقدى‌، المغازی، ج‌2، ص‌251؛ طبرى‌، تاریخ طبری، ج‌3، ص‌121-124؛ دينورى‌، اخبار الطوال، ص‌126؛ رافعى قزوينى‌، التدوين فى اخبار قزوين‌، ج‌1، ص‌78؛ ذهبى‌، العبر فى خَبَر من عَبَرَ، ج‌1، ص‌26؛ مَقْدِسى‌، البدء و التاريخ‌، ج‌5، ص‌182. .</ref


===عثمان===
===عثمان===
سطر 303: سطر 303:
امام علی [[19 رمضان]] [[سنہ 40 ہجری]] فجر کے وقت [[مسجد کوفہ]] میں [[سجدہ]] کی حالت میں ابن ملجم مرادی کی تلوار سے زخمی ہوئے اور دو دن کے بعد [[21 رمضان]] میں [[شہید]] ہوئے اور مخفی طور پر دفن کئے گئے۔ آپ کا ضربت کھانا ان حالات میں پیش آیا جب [[جنگ نہروان]] کے بعد امامؑ نے عراق میں ایک بار پھر شام کے خلاف جنگ کے لئے لشکر تشکیل دینے کی کوشش کی لیکن تھوڑے سے لوگوں نے ساتھ دیا۔ دوسری طرف سے [[معاویہ]] نے عراق کے حالات اور عراقیوں کی سستیوں کے پیش نظر جزیرة العرب اور حتی کہ عراق میں امامؑ کی عملداری کے اندر بعض علاقوں کو جارحیت اور افراد کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنانا شروع کیا تاکہ ان کی قوت کو ضعف میں بدل دے اور عراق کو فتح کرنے کا راستہ ہموار کر دے۔<ref>جعفریان، رسول، گزیدہ حیات سیاسی و فکری امامان شیعہ، قم: دفتر نشر معارف، 1391، ص 54-53۔</ref> تاریخی منابع کے مطابق، خوارج میں سے تین لوگوں نے تین افراد حضرت علی، معاویہ و عمرو عاص کو قتل کرنے کا عہد کیا۔ ابن ملجم نے امام علی کو قتل کرنے کی ذمہ داری لی۔
امام علی [[19 رمضان]] [[سنہ 40 ہجری]] فجر کے وقت [[مسجد کوفہ]] میں [[سجدہ]] کی حالت میں ابن ملجم مرادی کی تلوار سے زخمی ہوئے اور دو دن کے بعد [[21 رمضان]] میں [[شہید]] ہوئے اور مخفی طور پر دفن کئے گئے۔ آپ کا ضربت کھانا ان حالات میں پیش آیا جب [[جنگ نہروان]] کے بعد امامؑ نے عراق میں ایک بار پھر شام کے خلاف جنگ کے لئے لشکر تشکیل دینے کی کوشش کی لیکن تھوڑے سے لوگوں نے ساتھ دیا۔ دوسری طرف سے [[معاویہ]] نے عراق کے حالات اور عراقیوں کی سستیوں کے پیش نظر جزیرة العرب اور حتی کہ عراق میں امامؑ کی عملداری کے اندر بعض علاقوں کو جارحیت اور افراد کو دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنانا شروع کیا تاکہ ان کی قوت کو ضعف میں بدل دے اور عراق کو فتح کرنے کا راستہ ہموار کر دے۔<ref>جعفریان، رسول، گزیدہ حیات سیاسی و فکری امامان شیعہ، قم: دفتر نشر معارف، 1391، ص 54-53۔</ref> تاریخی منابع کے مطابق، خوارج میں سے تین لوگوں نے تین افراد حضرت علی، معاویہ و عمرو عاص کو قتل کرنے کا عہد کیا۔ ابن ملجم نے امام علی کو قتل کرنے کی ذمہ داری لی۔


امیرالمؤمنین کے بیٹوں [[امام حسن]]، [[امام حسین]] اور [[محمد بن حنفیہ]] نے اپنے چچا زاد بھائی [[عبداللہ بن جعفر]] کے تعاون سے رات کے وقت آپؑ کو [[نجف|غریین]] (موجودہ [[نجف]]) کے مقام پر سپرد خاک کیا<ref>مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد، قم، سعید بن جبیر، 1428ہجری۔، صص 27-28۔</ref> کیونکہ [[بنی امیہ]] اور [[خوارج]] اگر آپ کی قبر کو ڈھونڈ لیتے تو قبرکشائی کرکے آپ کی بے حرمتی کرتے۔<ref>عبد الکریم بن احمد بن طاووس، فرحة الغریٰ، ص 93؛ مجلسی، بحار، ج 42، ص 222؛بحوالۂ مقدسی، یداللہ، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان ؑ، قم: پژوہشگاہ  علوم و فرہنگ اسلامی، 1391، ص 239-240۔</ref> امام جعفر صادقؑ نے [[سنہ 135 ہجری]] میں منصور عباسی کی حکومت کے زمانہ میں نجف میں آپ کے محل دفن کو آشکار کیا۔<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۲۸ ھ، ص۱۳</ref>  
امیرالمؤمنین کے بیٹوں [[امام حسن]]، [[امام حسین]] اور [[محمد بن حنفیہ]] نے اپنے چچا زاد بھائی [[عبداللہ بن جعفر]] کے تعاون سے رات کے وقت آپؑ کو [[نجف|غریین]] (موجودہ [[نجف]]) کے مقام پر سپرد خاک کیا<ref>مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الارشاد، قم، سعید بن جبیر، 1428ہجری۔، صص 27-28۔</ref> کیونکہ [[بنی امیہ]] اور [[خوارج]] اگر آپ کی قبر کو ڈھونڈ لیتے تو قبرکشائی کرکے آپ کی بے حرمتی کرتے۔<ref>عبد الکریم بن احمد بن طاووس، فرحة الغریٰ، ص 93؛ مجلسی، بحار، ج 42، ص 222؛بحوالۂ مقدسی، یداللہ، بازپژوہی تاریخ ولادت و شہادت معصومان ؑ، قم: پژوہشگاہ  علوم و فرہنگ اسلامی، 1391، ص 239-240۔</ref> امام جعفر صادقؑ نے [[سنہ 135 ہجری]] میں منصور عباسی کی حکومت کے زمانہ میں نجف میں آپ کے محل دفن کو آشکار کیا۔<ref>مفید، الارشاد، 1428 ھ، ص13</ref>  


امیرالمؤمنینؑ سے ایسی روایات نقل ہوئی ہیں جن میں آپ نے اپنے بیٹوں کو اپنے [[غسل]]، [[کفن]]، [[نماز]] اور [[تدفین]] کی کیفیت کے بارے میں ہدایات دی ہیں۔<ref>مجلسی، ج 36، ص 5۔</ref> جب محراب مسجد میں [[ابن ملجم]] کے ہاتھوں زخمی ہوئے تو آپ نے اپنے بیٹوں [[حسن]] اور [[حسین]] ؑ سے فرمایا: اگر اس ضربت کی وجہ سے میری وفات ہو جاتی ہے تو تم ابن ملجم کو ایک ہی ضرب لگانا۔<ref>نہج البلاغہ، نامہ ۴۷، ص ۳۲۰،۳۲۱</ref> امام نے اسی طرح سے [[قرآن]]، [[نماز]]، [[امر بالمعروف]] و [[نہی عن المنکر]]، [[جہاد]] و خانہ خدا کو خالی چھوڑنے، اولاد کو خوف خدا کی تعلیم، امور میں نظم و ایک دوسرے کے ساتھ صلح کی وصیت فرمائی اور ان سے یتمیوں اور پڑوسیوں کا حق ادا کرنے کی سفارش کی۔<ref>نہج البلاغہ، نامہ ۴۷، ص ۳۲۰،۳۲۱</ref>
امیرالمؤمنینؑ سے ایسی روایات نقل ہوئی ہیں جن میں آپ نے اپنے بیٹوں کو اپنے [[غسل]]، [[کفن]]، [[نماز]] اور [[تدفین]] کی کیفیت کے بارے میں ہدایات دی ہیں۔<ref>مجلسی، ج 36، ص 5۔</ref> جب محراب مسجد میں [[ابن ملجم]] کے ہاتھوں زخمی ہوئے تو آپ نے اپنے بیٹوں [[حسن]] اور [[حسین]] ؑ سے فرمایا: اگر اس ضربت کی وجہ سے میری وفات ہو جاتی ہے تو تم ابن ملجم کو ایک ہی ضرب لگانا۔<ref>نہج البلاغہ، نامہ 47، ص 320،321</ref> امام نے اسی طرح سے [[قرآن]]، [[نماز]]، [[امر بالمعروف]] و [[نہی عن المنکر]]، [[جہاد]] و خانہ خدا کو خالی چھوڑنے، اولاد کو خوف خدا کی تعلیم، امور میں نظم و ایک دوسرے کے ساتھ صلح کی وصیت فرمائی اور ان سے یتمیوں اور پڑوسیوں کا حق ادا کرنے کی سفارش کی۔<ref>نہج البلاغہ، نامہ 47، ص 320،321</ref>


===روضہ ===
===روضہ ===
{{اصلی|روضہ امام علیؑ}}
{{اصلی|روضہ امام علیؑ}}
آپ کی شہادت [[سنہ 40 ہجری]] میں ہوئی اور وصیت کے مطابق آپ کو مخفی طور پر دفن کیا گیا۔<ref> ثقی کوفی، الغارات، تعلیقہ علامہ حلی، ۱۳۵۳،‌ ج۲، ص۸۳۵-۸۳۷۔</ref> تقریبا ایک صدی تک آپ کی قبر مخفی رہی۔ بنی امیہ کے زوال کے بعد آپ کی قبر کے مخفی رہنے کا سبب ختم ہوگیا اور آپ کی قبر کے آشکار ہونے کا زمینہ فراہم ہوگیا۔<ref> حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، ۱۴۲۷ش، ج۲، ص۲۹</ref> اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے آپ کی قبر کو آشکار کردیا۔<ref>حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، ۱۴۲۷ش، ج۲، ص۳۱؛ فرطوسی، تاریخچہ آستان مطهر امام علیؑ، ۱۳۹۳ش، ص۱۵۹-۱۷۹</ref>
آپ کی شہادت [[سنہ 40 ہجری]] میں ہوئی اور وصیت کے مطابق آپ کو مخفی طور پر دفن کیا گیا۔<ref> ثقی کوفی، الغارات، تعلیقہ علامہ حلی، 1353،‌ ج2، ص835-837۔</ref> تقریبا ایک صدی تک آپ کی قبر مخفی رہی۔ بنی امیہ کے زوال کے بعد آپ کی قبر کے مخفی رہنے کا سبب ختم ہوگیا اور آپ کی قبر کے آشکار ہونے کا زمینہ فراہم ہوگیا۔<ref> حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427ش، ج2، ص29</ref> اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے آپ کی قبر کو آشکار کردیا۔<ref>حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427ش، ج2، ص31؛ فرطوسی، تاریخچہ آستان مطهر امام علیؑ، 1393ش، ص159-179</ref>
اس کے باوجود قبر کب آشکار ہوئی اس بارے میں کوئی معین تاریخ نہیں ہے۔<ref>نک؛ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، ۱۴۲۷ش، ج۲، ص۲۹.</ref>
اس کے باوجود قبر کب آشکار ہوئی اس بارے میں کوئی معین تاریخ نہیں ہے۔<ref>نک؛ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427ش، ج2، ص29.</ref>
بعض کا ماننا ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے اولین خلیفہ عباسی سفاح (خلافت: 131 سے 136 ھ) کے دور میں<ref>فرطوسی، تاریخچه آستان مطهر امام علی(ع)، ۱۳۹۳ش، ص۱۵۹-۱۷۹؛ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، ۱۴۲۷ش، ج۲، ص۲۹.</ref> اور بعض نے عباسی سلسلے کا دوسرا خلیفہ منصور کے دور میں قرار دیا ہے۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۰؛ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، ۱۴۲۷ش، ج۲، ص۳۰.</ref>
بعض کا ماننا ہے کہ امام جعفر صادقؑ نے اولین خلیفہ عباسی سفاح (خلافت: 131 سے 136 ھ) کے دور میں<ref>فرطوسی، تاریخچه آستان مطهر امام علی(ع)، 1393ش، ص159-179؛ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427ش، ج2، ص29.</ref> اور بعض نے عباسی سلسلے کا دوسرا خلیفہ منصور کے دور میں قرار دیا ہے۔<ref>شیخ مفید، الارشاد، 1413ق، ج1، ص10؛ حکیم، المفصل فی تاریخ النجف الأشرف، 1427ش، ج2، ص30.</ref>


== فضائل و مناقب ==
== فضائل و مناقب ==
سطر 317: سطر 317:
'''مولود کعبہ'''
'''مولود کعبہ'''
{{اصلی|مولود کعبہ}}
{{اصلی|مولود کعبہ}}
[[علامہ امینی]] کے نقل کے مطابق، 16 منابع [[اہل سنت]]، 50 منابع [[شیعہ]] اور 41 شعراء نے دوسرے صدی ہجری کے بعد [[خانہ کعبہ]] میں امام علی کی ولادت کی طرف اشارہ کیا ہے۔<ref> امینی، الغدیر، ۱۳۹۷ق، ج۶، ص۲۱-۲۳۔</ref> اسی طرح سے [[علامہ مجلسی]] نے 18 شیعہ منابع میں خانہ کعبہ میں آپ کی ولادت ہونے کا ذکر کیا ہے۔<ref> مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ ج۳۵، ص۲۳۔</ref> ان روایات کی بناء پر امام کی والدہ فاطمہ بنت اسد کنار کعبہ دعا کی اور اللہ سے چاہا کہ ان کے فرزند کی ولادت ان پر آسان ہو۔<ref> کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۳، ص۳۰۱۔</ref> دعا کے دیوار کعبہ شگافتہ ہوئی، آپ اس کے اندر وارد ہوئیں، تین دن کعبہ میں رہنے بعد چوتھے دن کعبہ سے باہر آئیں جبکہ ان کے فرزند علی ان کی آغوش میں تھے۔<ref> امینی، الغدیر، ۱۳۹۷ق، ج ۶، ص۲۲۔</ref>
[[علامہ امینی]] کے نقل کے مطابق، 16 منابع [[اہل سنت]]، 50 منابع [[شیعہ]] اور 41 شعراء نے دوسرے صدی ہجری کے بعد [[خانہ کعبہ]] میں امام علی کی ولادت کی طرف اشارہ کیا ہے۔<ref> امینی، الغدیر، 1397ق، ج6، ص21-23۔</ref> اسی طرح سے [[علامہ مجلسی]] نے 18 شیعہ منابع میں خانہ کعبہ میں آپ کی ولادت ہونے کا ذکر کیا ہے۔<ref> مجلسی، بحار الأنوار، 1403 ج35، ص23۔</ref> ان روایات کی بناء پر امام کی والدہ فاطمہ بنت اسد کنار کعبہ دعا کی اور اللہ سے چاہا کہ ان کے فرزند کی ولادت ان پر آسان ہو۔<ref> کلینی، کافی، 1407ق، ج3، ص301۔</ref> دعا کے دیوار کعبہ شگافتہ ہوئی، آپ اس کے اندر وارد ہوئیں، تین دن کعبہ میں رہنے بعد چوتھے دن کعبہ سے باہر آئیں جبکہ ان کے فرزند علی ان کی آغوش میں تھے۔<ref> امینی، الغدیر، 1397ق، ج 6، ص22۔</ref>


'''مسلمِ اول'''
'''مسلمِ اول'''


{{اصلی|مسلم اول}}
{{اصلی|مسلم اول}}
[[شیعہ]] عقائد اور بعض علمائے [[اہل سنت]] کے مطابق حضرت علی [[آنحضرت]] پر [[ایمان]] لانے والے پہلے مرد ہیں۔<ref> النسائی، السنن الکبری، ج۵، ص۱۰۷؛ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ج۱، ص۱۵؛ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ۱۳۷۸ش، ص۶۵، پاورقی شماره ۲؛ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ج۱، ص۳۰۔</ref> بعض شیعہ [[روایات]] کے مطابق، [[پیغمبر اکرم ؐ]] نے امام علی کا تعارف پہلے مسلمان، پہلے مومن<ref> ابن شهر آشوب، مناقب آل أبی‌ طالب، ۱۳۷۹ق، ج۲، ص۶۔</ref> اور آپ کی تصدیق کرکے والے انسان کے عنوان سے کرایا ہے۔<ref> صفار، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۸۴۔</ref> [[شیخ طوسی]] نے [[امام رضا]] سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جس میں آپ نے امام علی کا تعارف آنحضرت پر سب سے ایمان لانے والے کے طور پر کیا ہے۔<ref> طوسی، الأمالی، ۱۴۱۴ق، ص۳۴۳۔</ref> [[علامہ مجلسی]] ایمان لانے والے افراد کا ذکر اس ترتیب سے کرتے ہیں: سب سے پہلے حضرت علی، اس کے بعد [[حضرت خدیجہ]]، اس کے بعد [[جعفر بن ابی طالب]] ایمان لائے۔<ref> مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۶۶، ص۱۰۲</ref>
[[شیعہ]] عقائد اور بعض علمائے [[اہل سنت]] کے مطابق حضرت علی [[آنحضرت]] پر [[ایمان]] لانے والے پہلے مرد ہیں۔<ref> النسائی، السنن الکبری، ج5، ص107؛ ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ج1، ص15؛ آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، 1378ش، ص65، پاورقی شماره ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغہ، ج1، ص30۔</ref> بعض شیعہ [[روایات]] کے مطابق، [[پیغمبر اکرم ؐ]] نے امام علی کا تعارف پہلے مسلمان، پہلے مومن<ref> ابن شهر آشوب، مناقب آل أبی‌ طالب، 1379ق، ج2، ص6۔</ref> اور آپ کی تصدیق کرکے والے انسان کے عنوان سے کرایا ہے۔<ref> صفار، بصائر الدرجات، 1404ق، ج1، ص84۔</ref> [[شیخ طوسی]] نے [[امام رضا]] سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جس میں آپ نے امام علی کا تعارف آنحضرت پر سب سے ایمان لانے والے کے طور پر کیا ہے۔<ref> طوسی، الأمالی، 1414ق، ص343۔</ref> [[علامہ مجلسی]] ایمان لانے والے افراد کا ذکر اس ترتیب سے کرتے ہیں: سب سے پہلے حضرت علی، اس کے بعد [[حضرت خدیجہ]]، اس کے بعد [[جعفر بن ابی طالب]] ایمان لائے۔<ref> مجلسی، بحار الأنوار، 1403ق، ج66، ص102</ref>


بعض محققین کے مطابق اس بات پر شیعوں میں [[اجماع]] ہے کہ امام علی پہلے [[مسلمان]] مرد ہیں۔<ref> حسینی، «نخستین مومن و آگاهانه‌ترین ایمان»، ص۴۸۔</ref> جبکہ [[طبری]]<ref> طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۲، ص۳۱۰۔</ref>، [[ذہبی]]<ref> ذهبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۱۲۸۔</ref> وغیرہ<ref> ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۳، ص۱۰۹۰۔</ref> جیسے بعض اہل سنت مورخین نے بھی بعض روایات کی ہیں جن کی بنیاد پر حضرت علی پہلے مسلمان ہیں۔ مشہور کی بناء پر اس وقت حضرت علی کی عمر دس سال تھی۔ حالانکہ بعض منابع میں ایمان لانے کے وقت ان کی عمر بارہ سال ذکر ہوئی ہے، اس لئے کہ [[شہادت]] کے وقت آپ کی عمر ۶۵ سال ذکر ہوئی ہے۔<ref> رسولی محلاتی، زندگانی امیرالمؤمنین، ۱۳۸۶، ص۴۴۔</ref>
بعض محققین کے مطابق اس بات پر شیعوں میں [[اجماع]] ہے کہ امام علی پہلے [[مسلمان]] مرد ہیں۔<ref> حسینی، «نخستین مومن و آگاهانه‌ترین ایمان»، ص48۔</ref> جبکہ [[طبری]]<ref> طبری، تاریخ طبری، 1387ق، ج2، ص310۔</ref>، [[ذہبی]]<ref> ذهبی، تاریخ الإسلام، 1409ق، ج1، ص128۔</ref> وغیرہ<ref> ابن عبدالبر، الاستیعاب، 1412ق، ج3، ص1090۔</ref> جیسے بعض اہل سنت مورخین نے بھی بعض روایات کی ہیں جن کی بنیاد پر حضرت علی پہلے مسلمان ہیں۔ مشہور کی بناء پر اس وقت حضرت علی کی عمر دس سال تھی۔ حالانکہ بعض منابع میں ایمان لانے کے وقت ان کی عمر بارہ سال ذکر ہوئی ہے، اس لئے کہ [[شہادت]] کے وقت آپ کی عمر 65 سال ذکر ہوئی ہے۔<ref> رسولی محلاتی، زندگانی امیرالمؤمنین، 1386، ص44۔</ref>


'''حدیث یوم الدار'''
'''حدیث یوم الدار'''


{{اصلی|حدیث یوم الدار}}
{{اصلی|حدیث یوم الدار}}
[[رسول خدا ؐ]] نے [[مکہ]] میں تین سال تک مخفیانہ طور پر [[اسلام]] کی دعوت دی۔ اس کے بعد خداوند عالم کی طرف سے حکم ہوا کہ وہ علنی طور رپر دعوت دیں۔ تاریخ اسلام و تفاسیر [[قرآن]] کے مصادر کے مطابق جب [[سنہ 3 بعثت]] میں [[آیہ انذار]] نازل ہوئی تو آنحضرت نے امام کو حکم دیا کہ وہ غذا کا انتظام کریں اور فرزندان [[عبد المطلب]] کو بلائیں تا کہ وہ انہیں اسلام کی دعوت دیں۔ تقریبا چالیس افراد جن میں [[ابو طالب]]، [[حمزہ]] و [[ابو لہب]] شامل تھے، دعوت میں آئے۔ آنحضرت نے کھانے کے بعد فرمایا: اے اولاد عبد المطلب، خدا کی قسم، عربوں کے درمیان میں کسی ایسے جوان کو نہیں جانتا جو تمہارے لئے اس چیز سے بہتر لایا ہو جو میں تمہارے لئے لایا ہوں۔ میں تمہارے لئے خیر دنیا و آخرت لایا ہوں۔ پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اس کی دعوت دوں، تم میں سے کون اس کام میں میری مدد کرے گا تا کہ وہ میرا بھائی اور وصی و جانشین بنے۔ کسی نے جواب نہیں دیا۔ امام علی جو سب سے چھوٹے تھے اور ان کی عمر تیرہ یا چودہ سال تھی، نے کہا: اے رسول خدا میں آپ کی نصرت کروں گا۔ آپ نے فرمایا: یہ تمہارے درمیان میر بھائی، وصی و جانشین ہے، اس کے بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔<ref> طبری، تاریخ الامم والملوک، دار قاموس الحدیث، ج۲، ص۲۷۹؛ سید بن طاووس، الطرائف، ۱۴۰۰ق، ج۱، ص۲۱؛ حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۵۴۳؛ رجوع کریں: ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۳۹۹ق، ج۲، ص۶۳-۶۰؛ ابن کثیر، البدایہ و النهایہ، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۵۴-۵۰؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۶، ص۱۵۳-۱۵۱؛ طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۶ق، ج۷، ص۲۰۶؛ بحرانی، البرهان فی تفسیر القرآن، ۱۴۱۶ق، ج۴، ص۱۸۹-۱۸۶؛ فرات کوفی، تفسیر فرات کوفی، ۱۴۱۰ق، ص۳۰۰؛ سیوطی، الدر المنثور، ۱۴۰۴ق، ج۵، ص۹۷؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۵۴۳-۵۴۲؛ ابن هشام، السیرة النبویہ، المکتبہ العلمیہ، ج۱، ص۲۶۲۔</ref>  
[[رسول خدا ؐ]] نے [[مکہ]] میں تین سال تک مخفیانہ طور پر [[اسلام]] کی دعوت دی۔ اس کے بعد خداوند عالم کی طرف سے حکم ہوا کہ وہ علنی طور رپر دعوت دیں۔ تاریخ اسلام و تفاسیر [[قرآن]] کے مصادر کے مطابق جب [[سنہ 3 بعثت]] میں [[آیہ انذار]] نازل ہوئی تو آنحضرت نے امام کو حکم دیا کہ وہ غذا کا انتظام کریں اور فرزندان [[عبد المطلب]] کو بلائیں تا کہ وہ انہیں اسلام کی دعوت دیں۔ تقریبا چالیس افراد جن میں [[ابو طالب]]، [[حمزہ]] و [[ابو لہب]] شامل تھے، دعوت میں آئے۔ آنحضرت نے کھانے کے بعد فرمایا: اے اولاد عبد المطلب، خدا کی قسم، عربوں کے درمیان میں کسی ایسے جوان کو نہیں جانتا جو تمہارے لئے اس چیز سے بہتر لایا ہو جو میں تمہارے لئے لایا ہوں۔ میں تمہارے لئے خیر دنیا و آخرت لایا ہوں۔ پروردگار نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اس کی دعوت دوں، تم میں سے کون اس کام میں میری مدد کرے گا تا کہ وہ میرا بھائی اور وصی و جانشین بنے۔ کسی نے جواب نہیں دیا۔ امام علی جو سب سے چھوٹے تھے اور ان کی عمر تیرہ یا چودہ سال تھی، نے کہا: اے رسول خدا میں آپ کی نصرت کروں گا۔ آپ نے فرمایا: یہ تمہارے درمیان میر بھائی، وصی و جانشین ہے، اس کے بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔<ref> طبری، تاریخ الامم والملوک، دار قاموس الحدیث، ج2، ص279؛ سید بن طاووس، الطرائف، 1400ق، ج1، ص21؛ حسکانی، شواهد التنزیل، 1411ق، ج1، ص543؛ رجوع کریں: ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، 1399ق، ج2، ص63-60؛ ابن کثیر، البدایہ و النهایہ، 1413ق، ج3، ص54-50؛ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1419ق، ج6، ص153-151؛ طبرسی، مجمع البیان، 1406ق، ج7، ص206؛ بحرانی، البرهان فی تفسیر القرآن، 1416ق، ج4، ص189-186؛ فرات کوفی، تفسیر فرات کوفی، 1410ق، ص300؛ سیوطی، الدر المنثور، 1404ق، ج5، ص97؛ حاکم حسکانی، شواهد التنزیل، 1411ق، ج1، ص543-542؛ ابن هشام، السیرة النبویہ، المکتبہ العلمیہ، ج1، ص262۔</ref>  


'''شب ہجرت ''' (لیلۃ المبیت)
'''شب ہجرت ''' (لیلۃ المبیت)
سطر 365: سطر 365:


{{اصلی|مصحف امام علی}}
{{اصلی|مصحف امام علی}}
علمائے [[شیعہ]] و [[اہل سنت]] کا ماننا ہے کہ [[آنحضرت ؐ]] کی رحلت کے بعد حضرت علی نے آپ کے حکم کے مطابق [[قرآن کریم]] کی جمع آوری و تدوین کا کام شروع کیا۔ یہی سبب ہے کہ ایک [[روایت]] میں ذکر ہوا ہے کہ آپ نے قسم کھائی کہ جب تک قرآن کی جمع آوری نہیں کر لیتا، عبا دوش پر نہیں ڈالوں گا۔ اسی طرح سے نقل ہوا ہے کہ امام علی نے رحلت پیغمبر ؐ کے بعد ۶ ماہ کی مدت میں قرآن مجید کو جمع کیا۔ سب سے پہلے قرآن کی تدوین کرنے والے حضرت علیؑ ہیں۔
علمائے [[شیعہ]] و [[اہل سنت]] کا ماننا ہے کہ [[آنحضرت ؐ]] کی رحلت کے بعد حضرت علی نے آپ کے حکم کے مطابق [[قرآن کریم]] کی جمع آوری و تدوین کا کام شروع کیا۔ یہی سبب ہے کہ ایک [[روایت]] میں ذکر ہوا ہے کہ آپ نے قسم کھائی کہ جب تک قرآن کی جمع آوری نہیں کر لیتا، عبا دوش پر نہیں ڈالوں گا۔ اسی طرح سے نقل ہوا ہے کہ امام علی نے رحلت پیغمبر ؐ کے بعد 6 ماہ کی مدت میں قرآن مجید کو جمع کیا۔ سب سے پہلے قرآن کی تدوین کرنے والے حضرت علیؑ ہیں۔


'''مبداء تاریخ اسلام'''
'''مبداء تاریخ اسلام'''
سطر 373: سطر 373:
===قرآن میں امام علی کے فضائل===
===قرآن میں امام علی کے فضائل===


حضرت علیؑ کے فضائل و مناقب میں نازل ہونے والی آیات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ [[ابن عباس]] سے نقل ہوا ہے کہ 300 سے زیادہ آیات حضرت علی کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔<ref> تاریخ بغداد، ج۶، ص۲۲۱؛بحوالۂ خرمشاہی، بہاء الدین، علی بن ابی طالبؑ و قرآن،  دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۲، ص۱۴۸۶۔</ref> یہاں پر ان میں سے بعض کا ذکر کیا جا رہا ہے:
حضرت علیؑ کے فضائل و مناقب میں نازل ہونے والی آیات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ یہاں تک کہ [[ابن عباس]] سے نقل ہوا ہے کہ 300 سے زیادہ آیات حضرت علی کے متعلق نازل ہوئی ہیں۔<ref> تاریخ بغداد، ج6، ص221؛بحوالۂ خرمشاہی، بہاء الدین، علی بن ابی طالبؑ و قرآن،  دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج2، ص1486۔</ref> یہاں پر ان میں سے بعض کا ذکر کیا جا رہا ہے:


'''آیت مباہلہ'''
'''آیت مباہلہ'''
سطر 394: سطر 394:
'''سرچشمہ علوم'''
'''سرچشمہ علوم'''


[[مسلمان]] علماء کے مطابق، امام علیؑ بہت سے علوم مبتکر اور سرچشمہ ہیں۔ ساتویں صدی ہجری کے [[اہل سنت]] عالم [[ابن ابی الحدید]] کا ماننا ہے کہ امام تمام فضائل کی بنیاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فرقہ، ہر گروہ خود کو ان سے منتسب کرتا ہے۔<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۱۷۔</ref> اور ان کے و ان کے چاہنے والوں کے خلاف نہایت بد گوئی و دشمنی کے باوجود ان کے نام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۱۶-۱۷۔</ref> اسی طرح سے ابن ابی الحدید کا ماننا ہے کہ [[علم کلام]]، [[فقہ]]، [[تفسیر]]<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۱۹۔</ref> و [[قرائت]]، ادبیات عرب و فصاحت و بلاغت<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۲۴۔</ref> جیسے علوم کا سرچشمہ آپ کی ذات ہے۔<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۲۷-۱۸۔</ref> ابن ابی الحدید کے بقول: الہیات کے تفصیلی بیان کا منشاء بھی حضرت امیرؑ ہیں اور [[محمد بن حنفیہ]] کے واسطہ سے تمام [[معتزلہ]] ان کے شاگرد ہیں اور [[اشاعرہ]]، [[امامیہ]] و [[زیدیہ]] کا معاملہ بھی ہے۔<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۱۷۔</ref> فقہ میں بھی احمد بن حنبل، مالک بن انس، شافعی و ابو حنیفہ بھی با واسطہ ان کے شاگرد ہیں۔<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۱۸۔</ref> قرائت میں بھی ان کے شاگرد [[ابو عبد الرحمن سلمی]] کے واسطہ سے قاریوں کی قرائت کی سند امام تک منتہی ہوتی ہے۔<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۲۸-۲۷۔</ref> اور انہیں [[علم نحو]] کا واضع بھی مانتے ہے کیونکہ اس علم کے قواعد ان کے شاگرد [[ابو الاسود دوئلی]] نے دوسروں تک منتقل کئے ہیں۔<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۲۰۔</ref>
[[مسلمان]] علماء کے مطابق، امام علیؑ بہت سے علوم مبتکر اور سرچشمہ ہیں۔ ساتویں صدی ہجری کے [[اہل سنت]] عالم [[ابن ابی الحدید]] کا ماننا ہے کہ امام تمام فضائل کی بنیاد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فرقہ، ہر گروہ خود کو ان سے منتسب کرتا ہے۔<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 17۔</ref> اور ان کے و ان کے چاہنے والوں کے خلاف نہایت بد گوئی و دشمنی کے باوجود ان کے نام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 16-17۔</ref> اسی طرح سے ابن ابی الحدید کا ماننا ہے کہ [[علم کلام]]، [[فقہ]]، [[تفسیر]]<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 19۔</ref> و [[قرائت]]، ادبیات عرب و فصاحت و بلاغت<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 24۔</ref> جیسے علوم کا سرچشمہ آپ کی ذات ہے۔<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 27-18۔</ref> ابن ابی الحدید کے بقول: الہیات کے تفصیلی بیان کا منشاء بھی حضرت امیرؑ ہیں اور [[محمد بن حنفیہ]] کے واسطہ سے تمام [[معتزلہ]] ان کے شاگرد ہیں اور [[اشاعرہ]]، [[امامیہ]] و [[زیدیہ]] کا معاملہ بھی ہے۔<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 17۔</ref> فقہ میں بھی احمد بن حنبل، مالک بن انس، شافعی و ابو حنیفہ بھی با واسطہ ان کے شاگرد ہیں۔<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 18۔</ref> قرائت میں بھی ان کے شاگرد [[ابو عبد الرحمن سلمی]] کے واسطہ سے قاریوں کی قرائت کی سند امام تک منتہی ہوتی ہے۔<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 28-27۔</ref> اور انہیں [[علم نحو]] کا واضع بھی مانتے ہے کیونکہ اس علم کے قواعد ان کے شاگرد [[ابو الاسود دوئلی]] نے دوسروں تک منتقل کئے ہیں۔<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 20۔</ref>


'''سلسلہ صوفیان'''
'''سلسلہ صوفیان'''


تقریبا اکثر سلسلہ تصوف اسلامی اپنا سلسلہ حضرت امیر المومنینؑ سے منسوب کرتے ہیں۔ نصر اللہ پور جوادی دانش نامہ جہان اسلام میں تحریر کرتے ہیں کہ [[شیخ احمد غزالی]] (متوفی 520 ھ) تصوف کے سلسلوں کے وجود میں آنے میں موثر تھے اور بہت سے سلسلوں نے اہنی نسبت ان کی طرف دی ہے۔ ان سلسلہ سازوں (چونکہ اس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے) کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ایک شجرہ نسب تلاش کریں اور اپنے سلسلہ کو [[صحابہ]] و [[آنحضرت ؐ]] تک پہچا دیں۔<ref> پور جوادی، دانشنامہ جهان اسلام، ۷:‎ ۳۸۱-۳۸۷۔</ref> دانش نامہ جہان اسلام میں شہرام پازوکی کے بقول، تمام صوفی سلسلہ اپنے مشایخ کے تمام اجازت ناموں (بشمول اجازہ ارشاد و تربیت) کے سلسلہ کو پیغمبر اکرم ؐ سے متصل کرتے ہیں اور اس سلسلہ کو زیادہ تر حضرت علی کے ذریعہ سے آنحضرت تک پہچاتے ہیں۔<ref> پازوکی، دانشنامہ جهان اسلام، ۷:‎ ۳۸۷-۳۹۸۔</ref> ابن ابی الحدید کے مطابق، خرقہ جو صوفیہ شعار ہے، وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے۔<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، ۱:‎ ۱۹۔</ref>
تقریبا اکثر سلسلہ تصوف اسلامی اپنا سلسلہ حضرت امیر المومنینؑ سے منسوب کرتے ہیں۔ نصر اللہ پور جوادی دانش نامہ جہان اسلام میں تحریر کرتے ہیں کہ [[شیخ احمد غزالی]] (متوفی 520 ھ) تصوف کے سلسلوں کے وجود میں آنے میں موثر تھے اور بہت سے سلسلوں نے اہنی نسبت ان کی طرف دی ہے۔ ان سلسلہ سازوں (چونکہ اس کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے) کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے ایک شجرہ نسب تلاش کریں اور اپنے سلسلہ کو [[صحابہ]] و [[آنحضرت ؐ]] تک پہچا دیں۔<ref> پور جوادی، دانشنامہ جهان اسلام، 7:‎ 381-387۔</ref> دانش نامہ جہان اسلام میں شہرام پازوکی کے بقول، تمام صوفی سلسلہ اپنے مشایخ کے تمام اجازت ناموں (بشمول اجازہ ارشاد و تربیت) کے سلسلہ کو پیغمبر اکرم ؐ سے متصل کرتے ہیں اور اس سلسلہ کو زیادہ تر حضرت علی کے ذریعہ سے آنحضرت تک پہچاتے ہیں۔<ref> پازوکی، دانشنامہ جهان اسلام، 7:‎ 387-398۔</ref> ابن ابی الحدید کے مطابق، خرقہ جو صوفیہ شعار ہے، وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے۔<ref> ابن ابی‌ الحدید، شرح نهج‌ البلاغہ، 1:‎ 19۔</ref>


==امامت و ولایت ==
==امامت و ولایت ==
{{اصلی|امامت|امامت ائمہ اثنا عشر}}
{{اصلی|امامت|امامت ائمہ اثنا عشر}}
دانش نامہ امام علی میں سید کاظم نژاد طباطبائی کے بقول، امام علی کی ولایت پر تصریح اور نص اس قدر زیادہ اور روشن ہے کہ اس میں کسی تردید کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے اور اس سلسلہ میں اقوال پیغمبر کی تحقیق اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ آنحضرت ؐ کی سب سے بڑی فکر اپنے بعد [[امامت]] و رہبری کا مسئلہ تھا۔<ref>طباطبایی‌ نژاد، دانشنامہ امام علیؑ، ۳:‎ ۱۹۳-۱۹۴۔</ref> اس سلسلہ میں آپ کے اقدامات کی ابتداء [[دعوت ذوالعشیرہ]] سے ہوتی ہے جس میں آنحضرت نے امام کو اپنے بعد<ref>طبری، تاریخ الامم والملوک، دار قاموس الحدیث، ج۲، ص۲۷۹۔</ref> اپنے جانشین و خلیفہ کے طور پر متعارف کیا۔ یہاں تک کہ آپ نے اپنے آخری سفر [[حج]] سے واپسی میں [[18 ذی الحجہ]] میں [[غدیر خم]] کے مقام پر<ref>خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۲۸۴؛ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۱، ص۱۷۷۔</ref> اور اسی طرح سے اپنی عمر کے آخری لمحات میں جب آپ نے قلم و کاغذ طلب کیا تا کہ وہ وصیت لکھ دیں اور ان کے بعد [[مسلمان]] گمراہ نہ ہوں،<ref>بخاری، صحیح البخاری، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۳۷، ج۴، ص۶۶، ج۵، ص۱۳۷-۱۳۸، ج۷، ص۹؛ شیخ مفید، الإرشاد، ۱۳۷۲ش، ج۱، ص۱۸۴۔</ref> تک یہ سلسلہ جاری رکھا۔
دانش نامہ امام علی میں سید کاظم نژاد طباطبائی کے بقول، امام علی کی ولایت پر تصریح اور نص اس قدر زیادہ اور روشن ہے کہ اس میں کسی تردید کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ہے اور اس سلسلہ میں اقوال پیغمبر کی تحقیق اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ آنحضرت ؐ کی سب سے بڑی فکر اپنے بعد [[امامت]] و رہبری کا مسئلہ تھا۔<ref>طباطبایی‌ نژاد، دانشنامہ امام علیؑ، 3:‎ 193-194۔</ref> اس سلسلہ میں آپ کے اقدامات کی ابتداء [[دعوت ذوالعشیرہ]] سے ہوتی ہے جس میں آنحضرت نے امام کو اپنے بعد<ref>طبری، تاریخ الامم والملوک، دار قاموس الحدیث، ج2، ص279۔</ref> اپنے جانشین و خلیفہ کے طور پر متعارف کیا۔ یہاں تک کہ آپ نے اپنے آخری سفر [[حج]] سے واپسی میں [[18 ذی الحجہ]] میں [[غدیر خم]] کے مقام پر<ref>خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ق، ج8، ص284؛ مفید، الارشاد، 1413ق، ج1، ص177۔</ref> اور اسی طرح سے اپنی عمر کے آخری لمحات میں جب آپ نے قلم و کاغذ طلب کیا تا کہ وہ وصیت لکھ دیں اور ان کے بعد [[مسلمان]] گمراہ نہ ہوں،<ref>بخاری، صحیح البخاری، 1401ق، ج1، ص37، ج4، ص66، ج5، ص137-138، ج7، ص9؛ شیخ مفید، الإرشاد، 1372ش، ج1، ص184۔</ref> تک یہ سلسلہ جاری رکھا۔


دلائل امامت حضرت علیؑ کبھی صراحت کے ساتھ آنحضرت کے بعد آپ کی امامت و ولایت کی حکایت کرتے ہیں اور کبھی امامت و ولایت کی طرف اشارہ کے بغیر آپ کے فضائل کو آشکار کرتے ہیں۔ نوع اول کے بعض دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
دلائل امامت حضرت علیؑ کبھی صراحت کے ساتھ آنحضرت کے بعد آپ کی امامت و ولایت کی حکایت کرتے ہیں اور کبھی امامت و ولایت کی طرف اشارہ کے بغیر آپ کے فضائل کو آشکار کرتے ہیں۔ نوع اول کے بعض دلائل مندرجہ ذیل ہیں:


[[آیہ ولایت]]: مفسرین اس کے شان نزول کے سلسلہ میں امام علی کے انگوٹھی دینے کے واقعہ کو ذکر کرتے ہیں۔ جس میں آپ نے [[رکوع]] کی حالت میں اہنی انگوٹھی ایک سائل کو بخش دی۔<ref>قرطبی، ج۶، ص۲۰۸؛ طباطبایی، المیزان، ج۶، ص۲۵؛ فخر رازی، ج۱۲، ص۳۰؛ سیوطی، الدر المنثور، ج۳، ص۹۸۔</ref> [[آیہ تبلیغ]] و [[آیہ اکمال]] جو واقعہ غدیر کے بارے میں نازل ہوئی۔ جس کے بعد آنحضرت نے لوگوں کے لئے [[حدیث غدیر]] بیان کی۔ حدیث غدیر؛ امامت امیر المومنین کے مہم ترین دلائل میں سے ہے۔ واقعہ غدیر پیغمبر اکرم کی عمر کے آخری سال میں پیش آیا اور لوگوں نے امام علی کو ان کے [[خلیفہ]] بنائے جانے پر مبارک باد پیش کی۔
[[آیہ ولایت]]: مفسرین اس کے شان نزول کے سلسلہ میں امام علی کے انگوٹھی دینے کے واقعہ کو ذکر کرتے ہیں۔ جس میں آپ نے [[رکوع]] کی حالت میں اہنی انگوٹھی ایک سائل کو بخش دی۔<ref>قرطبی، ج6، ص208؛ طباطبایی، المیزان، ج6، ص25؛ فخر رازی، ج12، ص30؛ سیوطی، الدر المنثور، ج3، ص98۔</ref> [[آیہ تبلیغ]] و [[آیہ اکمال]] جو واقعہ غدیر کے بارے میں نازل ہوئی۔ جس کے بعد آنحضرت نے لوگوں کے لئے [[حدیث غدیر]] بیان کی۔ حدیث غدیر؛ امامت امیر المومنین کے مہم ترین دلائل میں سے ہے۔ واقعہ غدیر پیغمبر اکرم کی عمر کے آخری سال میں پیش آیا اور لوگوں نے امام علی کو ان کے [[خلیفہ]] بنائے جانے پر مبارک باد پیش کی۔


بعض آیات و روایات جنہیں امام علی کی امامت و ولایت کے لئے دلیل سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ان میں صراحت کے ساتھ آپ کی امامت کی طرف نہیں کیا گیا ہے اور آپ کے فضائل میں شمار کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں: [[آیہ تطہیر]]، [[آیہ مباہلہ]]، [[آیہ صادقین]]، [[آیہ خیر البریہ]]، [[آیہ اہل ذکر]]، [[آیہ شراء]]، [[آیہ نجوا]]، [[آیہ صالح المؤمنین]]، [[حدیث ثقلین]]، [[حدیث مدینۃ العلم]]، [[حدیث رایت]]، [[حدیث کسا]]، [[حدیث وصایت]]، [[حدیث یوم الدار]]، [[حدیث طیر]]، [[حدیث مؤاخاة]]۔<ref>پیامبر ؐ نے جب تمام اصحاب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا تو امام علی سے فرمایا: أنت أخی فی الدنیا و الآخرة (تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو) (سنن ترمذی، ج۵، ص۳۰۰؛ طبرانی، المعجم الکبیر ج۵، ص۲۲۱)۔</ref> [[حدیث منزلت]]، [[حدیث ولایت]]، [[حدیث سفینہ]]، [[حدیث سد الابواب]]۔
بعض آیات و روایات جنہیں امام علی کی امامت و ولایت کے لئے دلیل سمجھا جاتا ہے، حالانکہ ان میں صراحت کے ساتھ آپ کی امامت کی طرف نہیں کیا گیا ہے اور آپ کے فضائل میں شمار کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض یہ ہیں: [[آیہ تطہیر]]، [[آیہ مباہلہ]]، [[آیہ صادقین]]، [[آیہ خیر البریہ]]، [[آیہ اہل ذکر]]، [[آیہ شراء]]، [[آیہ نجوا]]، [[آیہ صالح المؤمنین]]، [[حدیث ثقلین]]، [[حدیث مدینۃ العلم]]، [[حدیث رایت]]، [[حدیث کسا]]، [[حدیث وصایت]]، [[حدیث یوم الدار]]، [[حدیث طیر]]، [[حدیث مؤاخاة]]۔<ref>پیامبر ؐ نے جب تمام اصحاب کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا تو امام علی سے فرمایا: أنت أخی فی الدنیا و الآخرة (تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو) (سنن ترمذی، ج5، ص300؛ طبرانی، المعجم الکبیر ج5، ص221)۔</ref> [[حدیث منزلت]]، [[حدیث ولایت]]، [[حدیث سفینہ]]، [[حدیث سد الابواب]]۔


==اقوال اور آثار==
==اقوال اور آثار==
سطر 452: سطر 452:
'''جَفْر و جامعہ'''
'''جَفْر و جامعہ'''


جفر و جامعہ، دو کتابوں کے نام ہیں جنہیں [[رسول اکرم ؐ]] نے املا فرمایا اور امامؑ نے تحریر کیا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۲۳۹؛ صفار قمی‌، بصائر الدرجات، ص۱۴۲-۱۴۶۔</ref> یہ دونوں کتابیں ودایع [[امامت]] و علم امام کے منابع میں ہوتی ہیں۔ <ref>عاملی‌، حقیقة الجفرعند الشیعة، ص‌۱۲۵-۱۳۳۔</ref> کتاب جفر میں مستقبل میں [[قیامت]] تک پیش آنے والے مطالب ذکر ہوئے ہیں۔<ref> مجلسی‌، بحار الانوار، ج‌۵۱، ص‌۲۲۰۔</ref> [[امام موسی کاظمؑ]] کی [[روایت]] کے مطابق، [[نبی]] و [[وصی]] کے سوا کوئی اس کتاب کو پڑھ نہیں سکتا ہے۔ اس کا مطالعہ اوصیاء کے امتیازات میں شمار ہوتا ہے۔<ref>صفار قمی‌، ص‌۱۵۸-۱۵۹۔</ref> کتاب جامعہ میں بھی ماضی سے مستقبل میں قیامت تک پیش آنے والے واقعات ذکر ہوئے ہیں۔ اسی طرح سے اس میں تمام آیات کی تاویل، تمام [[انبیاء]] کے اوصیاء کے اسماء، ان کے ساتھ پیش آنے والے حالات موجود ہیں۔ کتاب جامعہ کا بعض افراد نے مشاہدہ کیا ہے۔<ref>کلینی‌، الکافی، ج‌۱، ص‌۲۳۹۔</ref>
جفر و جامعہ، دو کتابوں کے نام ہیں جنہیں [[رسول اکرم ؐ]] نے املا فرمایا اور امامؑ نے تحریر کیا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، 1407ق، ج1، ص239؛ صفار قمی‌، بصائر الدرجات، ص142-146۔</ref> یہ دونوں کتابیں ودایع [[امامت]] و علم امام کے منابع میں ہوتی ہیں۔ <ref>عاملی‌، حقیقة الجفرعند الشیعة، ص‌125-133۔</ref> کتاب جفر میں مستقبل میں [[قیامت]] تک پیش آنے والے مطالب ذکر ہوئے ہیں۔<ref> مجلسی‌، بحار الانوار، ج‌51، ص‌220۔</ref> [[امام موسی کاظمؑ]] کی [[روایت]] کے مطابق، [[نبی]] و [[وصی]] کے سوا کوئی اس کتاب کو پڑھ نہیں سکتا ہے۔ اس کا مطالعہ اوصیاء کے امتیازات میں شمار ہوتا ہے۔<ref>صفار قمی‌، ص‌158-159۔</ref> کتاب جامعہ میں بھی ماضی سے مستقبل میں قیامت تک پیش آنے والے واقعات ذکر ہوئے ہیں۔ اسی طرح سے اس میں تمام آیات کی تاویل، تمام [[انبیاء]] کے اوصیاء کے اسماء، ان کے ساتھ پیش آنے والے حالات موجود ہیں۔ کتاب جامعہ کا بعض افراد نے مشاہدہ کیا ہے۔<ref>کلینی‌، الکافی، ج‌1، ص‌239۔</ref>


'''مصحف امام علیؑ'''
'''مصحف امام علیؑ'''


مصحف علی یا مصحف امامؑ، قرآن کا پہلا جمع شدہ نسخہ ہے جسے رسول خدا ؐ کی رحلت کے بعد امام نے جمع کیا گیا۔<ref>طباطبایی، قرآن در اسلام، ۱۳۷۶ش، ص۱۱۳؛ السجستانی، کتاب المصاحف، ۱۴۰۵ق، ص۱۶؛ سیوطی، الاتقان، ۱۴۱۶ق، ج۱، ص۱۶۱۔</ref> یہ مصحف اس وقت دسترسی میں نہیں ہے اور روایات کے مطابق، یہ امام علی کے ہاتھ سے لکھا ہوا نسخہ ہے جو سوروں کی ترتیب نزول کے اعتبار سے مرتب ہوا ہے۔ بعض روایات کے مطابق، اس کے حاشیے میں آیات کے شان نزول و ناسخ و منسوخ کو ذکر کیا گیا ہے۔<ref>ایازی، مصحف امام علیؑ، ص۱۷۷-۱۷۸۔</ref> شیعہ عقاید کے مطابق یہ مصحف ائمہ معصومینؑ کے پاس موجود تھا اور اب امام زمانہ (عج) کے پاس ہے۔<ref>عاملی، حقائق هامّة، ص۱۶۰، بہ نقل از: خرمشاهی، قرآن ‎پژوهی، ۱۳۸۹ش، ج۲، ص۴۶۹۔</ref>  
مصحف علی یا مصحف امامؑ، قرآن کا پہلا جمع شدہ نسخہ ہے جسے رسول خدا ؐ کی رحلت کے بعد امام نے جمع کیا گیا۔<ref>طباطبایی، قرآن در اسلام، 1376ش، ص113؛ السجستانی، کتاب المصاحف، 1405ق، ص16؛ سیوطی، الاتقان، 1416ق، ج1، ص161۔</ref> یہ مصحف اس وقت دسترسی میں نہیں ہے اور روایات کے مطابق، یہ امام علی کے ہاتھ سے لکھا ہوا نسخہ ہے جو سوروں کی ترتیب نزول کے اعتبار سے مرتب ہوا ہے۔ بعض روایات کے مطابق، اس کے حاشیے میں آیات کے شان نزول و ناسخ و منسوخ کو ذکر کیا گیا ہے۔<ref>ایازی، مصحف امام علیؑ، ص177-178۔</ref> شیعہ عقاید کے مطابق یہ مصحف ائمہ معصومینؑ کے پاس موجود تھا اور اب امام زمانہ (عج) کے پاس ہے۔<ref>عاملی، حقائق هامّة، ص160، بہ نقل از: خرمشاهی، قرآن ‎پژوهی، 1389ش، ج2، ص469۔</ref>  


'''مصحف فاطمہؑ'''
'''مصحف فاطمہؑ'''


مصحف فاطمہ اس کتاب کا نام ہے جس کے مطالب فرشتہ الہی نے [[حضرت فاطمہ زہرا]] (س) کے لئے بیان کئے اور حضرت علیؑ نے اسے تحریر کیا ہے۔<ref>صفار قمی، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۱۵۲۔</ref> یہ کتاب [[جنت]] میں [[پیغمبر اکرم ؐ]] کے مقام اور مستقبل کے واقعات جیسے مطالب پر مشتمل ہے۔<ref>صفار قمی، بصائر الدرجات، ۱۴۰۴ق، ص۱۵۶- ۱۵۷۔</ref> یہ کتاب بھی [[شیعہ]] [[ائمہ معصومین]]ؑ کے ہاتھوں میں تھیں اور ایک امام سے دوسرے امام تک منتقل ہوتی رہی ہے اور ان کے علاوہ کسی کی دسترسی نہ اس کتاب تک تھی نہ ہے۔ یہ کتاب اس وقت [[امام زمانہ (عج)]] کے پاس موجود ہے۔<ref>آقا بزرگ تهرانی، الذریعة، ج۲۱، ص۱۲۶؛ مهدوی راد، مصحف فاطمه، ص۸۳-۸۴۔</ref>
مصحف فاطمہ اس کتاب کا نام ہے جس کے مطالب فرشتہ الہی نے [[حضرت فاطمہ زہرا]] (س) کے لئے بیان کئے اور حضرت علیؑ نے اسے تحریر کیا ہے۔<ref>صفار قمی، بصائر الدرجات، 1404ق، ص152۔</ref> یہ کتاب [[جنت]] میں [[پیغمبر اکرم ؐ]] کے مقام اور مستقبل کے واقعات جیسے مطالب پر مشتمل ہے۔<ref>صفار قمی، بصائر الدرجات، 1404ق، ص156- 157۔</ref> یہ کتاب بھی [[شیعہ]] [[ائمہ معصومین]]ؑ کے ہاتھوں میں تھیں اور ایک امام سے دوسرے امام تک منتقل ہوتی رہی ہے اور ان کے علاوہ کسی کی دسترسی نہ اس کتاب تک تھی نہ ہے۔ یہ کتاب اس وقت [[امام زمانہ (عج)]] کے پاس موجود ہے۔<ref>آقا بزرگ تهرانی، الذریعة، ج21، ص126؛ مهدوی راد، مصحف فاطمه، ص83-84۔</ref>


== اصحاب ==
== اصحاب ==
سطر 476: سطر 476:
*[[ابن عباس]]: [[عبد اللہ بن عباس ]] [[پیغمبرؐ]] اور امام علیؑ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ انہوں نے [[رسول اللہؐ]] سے بہت زيادہ حدیثیں نقل کی ہیں۔<ref>مفید، امالی، ص 140۔</ref> ابن عباس خلفاء کے دور میں ہمیشہ علیؑ کو لائق خلافت سمجھتے تھے اور امام علیؑ کی خلافت کے دوران [[جنگ جمل]]، [[جنگ صفین]] و [[جنگ نہروان]] میں امامؑ کی مدد کو آئے اور امامؑ کی طرف سے بصرہ کے والی تھے۔ <ref>مفید، جمل، ص265؛ ابن مزاحم، ص 410؛ ابن ابی الحدید، ج 2، ص 273 و ج 6، ص 293۔</ref>
*[[ابن عباس]]: [[عبد اللہ بن عباس ]] [[پیغمبرؐ]] اور امام علیؑ کے چچا زاد بھائی ہیں۔ انہوں نے [[رسول اللہؐ]] سے بہت زيادہ حدیثیں نقل کی ہیں۔<ref>مفید، امالی، ص 140۔</ref> ابن عباس خلفاء کے دور میں ہمیشہ علیؑ کو لائق خلافت سمجھتے تھے اور امام علیؑ کی خلافت کے دوران [[جنگ جمل]]، [[جنگ صفین]] و [[جنگ نہروان]] میں امامؑ کی مدد کو آئے اور امامؑ کی طرف سے بصرہ کے والی تھے۔ <ref>مفید، جمل، ص265؛ ابن مزاحم، ص 410؛ ابن ابی الحدید، ج 2، ص 273 و ج 6، ص 293۔</ref>


*[[ابو الہیثم بن تیہان]]: [[انصار]] کے ان افراد میں سے ہیں جو [[رسول خدا ؐ]] پر سب سے پہلے [[ایمان]] لائے۔<ref>ذهبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۰۵ق، ج۱، ص۱۹۰۔</ref> ابو الہیثم ان بارہ افراد میں سے تھے جنہوں نے [[ابوبکر]] کے زمانہ میں امام علیؑ کی [[خلافت]] کے بر حق ہونے اور اس بات کی کہ [[آنحضرت]] نے انہیں اپنا جانشین منتخب کیا تھا، شہادت دی۔<ref> شیخ صدوق، خصال، ۱۳۶۲ش، ج۲، ص۴۶۲۔</ref> وہ [[جنگ صفین]] میں [[عمار یاسر]] کی [[شہادت]] کے بعد [[شہید]] ہوئے۔<ref>انساب الاشراف، ۱۳۹۴ق، ج۲، ص۳۱۹۔</ref> ان کا شمار ان افراد میں سے ہے جن کی شہادت پر آپ نے افسوس کا اظہار کیا اور فرمایا: این عمار؟ این ابو الہیثم؟ ۔۔۔۔<ref> نهج البلاغہ، صبحی صالح، ۱۴۱۴ق، خطبه ۱۸۲، ص۲۶۴۔</ref>  
*[[ابو الہیثم بن تیہان]]: [[انصار]] کے ان افراد میں سے ہیں جو [[رسول خدا ؐ]] پر سب سے پہلے [[ایمان]] لائے۔<ref>ذهبی، سیر اعلام النبلاء، 1405ق، ج1، ص190۔</ref> ابو الہیثم ان بارہ افراد میں سے تھے جنہوں نے [[ابوبکر]] کے زمانہ میں امام علیؑ کی [[خلافت]] کے بر حق ہونے اور اس بات کی کہ [[آنحضرت]] نے انہیں اپنا جانشین منتخب کیا تھا، شہادت دی۔<ref> شیخ صدوق، خصال، 1362ش، ج2، ص462۔</ref> وہ [[جنگ صفین]] میں [[عمار یاسر]] کی [[شہادت]] کے بعد [[شہید]] ہوئے۔<ref>انساب الاشراف، 1394ق، ج2، ص319۔</ref> ان کا شمار ان افراد میں سے ہے جن کی شہادت پر آپ نے افسوس کا اظہار کیا اور فرمایا: این عمار؟ این ابو الہیثم؟ ۔۔۔۔<ref> نهج البلاغہ، صبحی صالح، 1414ق، خطبه 182، ص264۔</ref>  


*[[صعصعہ بن صوحان]]: صعصعہ بن صوحان عبدی امام علیؑ کے اصحاب میں شامل ہیں۔ انہوں نے امام علیؑ کی تمام جنگوں میں شرکت کی۔  <ref>ابن اثیر، اسد الغابہ ، ج 3، ص 20۔</ref> <br /> وہ ان اولین افراد میں شامل ہیں جنہوں نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ساتھ بیعت کی۔<ref>یعقوبی، ج 2، ص 179۔</ref>
*[[صعصعہ بن صوحان]]: صعصعہ بن صوحان عبدی امام علیؑ کے اصحاب میں شامل ہیں۔ انہوں نے امام علیؑ کی تمام جنگوں میں شرکت کی۔  <ref>ابن اثیر، اسد الغابہ ، ج 3، ص 20۔</ref> <br /> وہ ان اولین افراد میں شامل ہیں جنہوں نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کے ساتھ بیعت کی۔<ref>یعقوبی، ج 2، ص 179۔</ref>
سطر 482: سطر 482:
*[[کمیل بن زیاد]]: [[کمیل بن زیاد نخعی]] اصحاب رسولؐ کے [[تابعین]] میں شامل ہیں اور ان کا شمار امام علیؑ اور [[امام حسنؑ]] کے اصحاب خاص میں ہوتا ہے۔<ref>قطب راوندی، منہ اج البراعہ ، ج 21، ص 219؛ مفید، اختصاص، ص 7۔</ref> وہ ان شیعیان آل رسولؐ میں سے ہیں جنہوں نے حضرت علیؑ کی خلافت کے ابتدائی ایام میں آپ کی بیعت کی اور امام علیؑ کی جنگوں میں آپ کے دشمنوں کے خلاف لڑے۔<ref>مفید، اختصاص، ص 108۔</ref>
*[[کمیل بن زیاد]]: [[کمیل بن زیاد نخعی]] اصحاب رسولؐ کے [[تابعین]] میں شامل ہیں اور ان کا شمار امام علیؑ اور [[امام حسنؑ]] کے اصحاب خاص میں ہوتا ہے۔<ref>قطب راوندی، منہ اج البراعہ ، ج 21، ص 219؛ مفید، اختصاص، ص 7۔</ref> وہ ان شیعیان آل رسولؐ میں سے ہیں جنہوں نے حضرت علیؑ کی خلافت کے ابتدائی ایام میں آپ کی بیعت کی اور امام علیؑ کی جنگوں میں آپ کے دشمنوں کے خلاف لڑے۔<ref>مفید، اختصاص، ص 108۔</ref>


*[[محمد بن ابی بکر]]: [[ابو بکر بن ابی قحافہ|خلیفۂ اول]] کے فرزند تھے۔ سنہ 10 ہجری میں [[مدینہ]] منورہ میں پیدا ہوئے۔ وہ امامؑ کے اصحاب خاص میں شمار ہوتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ سابقہ خلفاء نے امام علیؑ کا حق پامال کیا ہے اور کہتے تھے کہ کوئی بھی [[خلافت]] کا منصب سنبھالنے کے سلسلے میں امام علیؑ سے زیادہ اہل نہیں ہے۔<ref>شوشتری، قاموس الرجال، ج۷، ص۴۹۵۔</ref> محمد نے [[جنگ جمل]] اور [[جنگ صفین]] میں امام علیؑ کا ساتھ دیا۔ وہ [[رمضان]] سنہ 36 ہجری کو [[مصر]] کے حاکم مقرر ہوئے اور [[صفر]] سنہ 38 ہجری کو [[معاویہ]] کی سپاہ کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ <ref>ابراہیم بن محمد، ج 1، ص224 و 285؛ زرکلی، ج 6، ص 220۔</ref>
*[[محمد بن ابی بکر]]: [[ابو بکر بن ابی قحافہ|خلیفۂ اول]] کے فرزند تھے۔ سنہ 10 ہجری میں [[مدینہ]] منورہ میں پیدا ہوئے۔ وہ امامؑ کے اصحاب خاص میں شمار ہوتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ سابقہ خلفاء نے امام علیؑ کا حق پامال کیا ہے اور کہتے تھے کہ کوئی بھی [[خلافت]] کا منصب سنبھالنے کے سلسلے میں امام علیؑ سے زیادہ اہل نہیں ہے۔<ref>شوشتری، قاموس الرجال، ج7، ص495۔</ref> محمد نے [[جنگ جمل]] اور [[جنگ صفین]] میں امام علیؑ کا ساتھ دیا۔ وہ [[رمضان]] سنہ 36 ہجری کو [[مصر]] کے حاکم مقرر ہوئے اور [[صفر]] سنہ 38 ہجری کو [[معاویہ]] کی سپاہ کے ہاتھوں قتل ہوگئے۔ <ref>ابراہیم بن محمد، ج 1، ص224 و 285؛ زرکلی، ج 6، ص 220۔</ref>


*[[میثم تمار]]: میثَم تمّار اَسَدی کوفی امام علیؑ اور [[حسنینؑ]] کے اصحاب خاص میں شامل ہیں۔ وہ [[شرطۃ الخمیس]] کے رکن تھے۔ یہ وہ جماعت تھی جس کے اراکین نے امام علیؑ کے ساتھ عہد کیا تھا کہ زندگی کے آخری لمحے تک آپ کا ساتھ دیں گے اور آپ کی مدد کریں گے۔<ref>برقی، ص 3۔</ref>
*[[میثم تمار]]: میثَم تمّار اَسَدی کوفی امام علیؑ اور [[حسنینؑ]] کے اصحاب خاص میں شامل ہیں۔ وہ [[شرطۃ الخمیس]] کے رکن تھے۔ یہ وہ جماعت تھی جس کے اراکین نے امام علیؑ کے ساتھ عہد کیا تھا کہ زندگی کے آخری لمحے تک آپ کا ساتھ دیں گے اور آپ کی مدد کریں گے۔<ref>برقی، ص 3۔</ref>
confirmed، templateeditor
9,404

ترامیم