مندرجات کا رخ کریں

"کتاب سلیم بن قیس" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 47: سطر 47:
تاریخی اور کلامی بعض اشکالات کے باوجود اس کتاب میں موجود بعض روایات سے مختلف عصر کے شیعہ فقہا نے استناد کیا ہے۔<ref>عمادی حائری، «سلیم بن قیس ہلالی»، ص466.</ref> ان میں [[شیخ مفید]]، [[محقق حلی]]، [[علامہ حلی]]، [[ملا احمد نراقی]]، [[محمدکاظم خراسانی|آخوند خراسانی]] اور [[شیخ مرتضی انصاری]] قابل ذکر ہیں۔<ref>عمادی حائری، «سلیم بن قیس ہلالی»، ص466.</ref>
تاریخی اور کلامی بعض اشکالات کے باوجود اس کتاب میں موجود بعض روایات سے مختلف عصر کے شیعہ فقہا نے استناد کیا ہے۔<ref>عمادی حائری، «سلیم بن قیس ہلالی»، ص466.</ref> ان میں [[شیخ مفید]]، [[محقق حلی]]، [[علامہ حلی]]، [[ملا احمد نراقی]]، [[محمدکاظم خراسانی|آخوند خراسانی]] اور [[شیخ مرتضی انصاری]] قابل ذکر ہیں۔<ref>عمادی حائری، «سلیم بن قیس ہلالی»، ص466.</ref>


خیرالدین زرکلی (1310-1396ھ) اپنی کتاب اَعلام میں سُلیم کی کتاب کو «کتابُ السَّقیفة» سے معرفی کیا ہے۔<ref>زرکلی، الاعلام، ج3، ص119.</ref> اس کتاب کو «اسرار آل محمدؐ»، «کتاب فِتَن»، «کتاب وفاة النبی(ص)» اور «کتاب امامت» کا نام بھی دیا گیا ہے۔<ref>ہلالی، اسرار آل محمد، 1416ق، ص47.</ref> [[آقابزرگ تہرانی]] اپنی کتاب [[الذریعة الی تصانیف الشیعة (کتاب)|الذریعہ]] میں ایک مرتبہ اسے «اصلُ سُلَیمِ بنِ قیسِ ہلالی» کے نام سے ذکر کیا ہے<ref>آقابزرگ تہرانی، الذریعة، 1403ق، ج2، ص152.</ref> اور دوسری مرتبہ اسے «کتابُ سُلَیمِ بنِ قیسِ ہلالی» کا نام دیا ہے۔<ref>آقابزرگ تہرانی، الذریعة، 1403ق، ج17، ص276.</ref>
خیرالدین زرکلی (1310-1396ھ) اپنی کتاب اَعلام میں سُلیم کی کتاب کو «کتابُ السَّقیفة» سے معرفی کیا ہے۔<ref>زرکلی، الاعلام، ج3، ص119.</ref> اس کتاب کو «اسرار آل محمدؐ»، «کتاب فِتَن»، «کتاب وفاة النبی(ص)» اور «کتاب امامت» کا نام بھی دیا گیا ہے۔<ref>ہلالی، اسرار آل محمد، 1416ھ، ص47.</ref> [[آقابزرگ تہرانی]] اپنی کتاب [[الذریعة الی تصانیف الشیعۃ (کتاب)|الذریعہ]] میں ایک مرتبہ اسے «اصلُ سُلَیمِ بنِ قیسِ ہلالی» کے نام سے ذکر کیا ہے<ref>آقابزرگ تہرانی، الذریعة، 1403ھ، ج2، ص152.</ref> اور دوسری مرتبہ اسے «کتابُ سُلَیمِ بنِ قیسِ ہلالی» کا نام دیا ہے۔<ref>آقابزرگ تہرانی، الذریعة، 1403ھ، ج17، ص276.</ref>


== مؤلف ==
== مؤلف ==
سطر 53: سطر 53:
سُلَیم بن قیس ہلالی، ان سے منسوب کتاب کے مقدمہ کے مطابق [[ہجرت مدینہ|ہجرت]] سے دو سال پہلے پیدا ہوا یوں پیغمبر اکرمؑ کی رحلت کے وقت ان کی عمر 12 سال تھی۔ 16 سال کی عمر میں مدینہ چلا گیا اور [[سنہ 76 ہجری]] کو ایران کے شہر "نوبندجان" میں 78 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اور اسی شہر میں مدفون ہیں.<ref> اسرار آل محمد، ص 17 بہ بعد.</ref>
سُلَیم بن قیس ہلالی، ان سے منسوب کتاب کے مقدمہ کے مطابق [[ہجرت مدینہ|ہجرت]] سے دو سال پہلے پیدا ہوا یوں پیغمبر اکرمؑ کی رحلت کے وقت ان کی عمر 12 سال تھی۔ 16 سال کی عمر میں مدینہ چلا گیا اور [[سنہ 76 ہجری]] کو ایران کے شہر "نوبندجان" میں 78 سال کی عمر میں وفات پائی۔ اور اسی شہر میں مدفون ہیں.<ref> اسرار آل محمد، ص 17 بہ بعد.</ref>


تیسری صدی ہجری کی علم رجال کی مشہور شیعہ کتاب [[رجال البرقی (کتاب)|رجال برقی]] میں سلیم بن قیس ہلالی کو شیعوں کے پہلے پانچ اماموں کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔<ref>برقی، رجال البرقی، 1433ق، ص64.</ref> اسی طرح رجال برقی میں سلیم کا نام امام علی کے 90 اصحاب کی فہرست میں بھی شامل ہے۔<ref>برقی، رجال البرقی، 1433ق، ص39.</ref> برقی نے امام حسنؑ کے جو گیارہ اصحاب ذکر کیا ہے ان میں سے ایک سلیم بن قیس ہلالی ہیں۔<ref>برقی، رجال البرقی، 1433ق، ص58.</ref>سلیم کا نام امام حسینؑ کے چودہ اصحاب میں<ref>برقی، رجال البرقی، 1433ق، ص61.</ref> امام سجادؑ کے 33 اصحاب میں شامل ہے اسی طرح ابوصادق نامی ایک شخص کا ذکر کیا ہے جسے اس کتاب میں تحقیق کرنے والے حیدر محمد علی بغدادی وہی سلیم بن قیس ہلالی قرار دیتے ہیں جن کی کنیت ابو صادق تھی۔<ref>برقی، رجال البرقی، 1433ق، ص64.</ref>
تیسری صدی ہجری کی علم رجال کی مشہور شیعہ کتاب [[رجال البرقی (کتاب)|رجال برقی]] میں سلیم بن قیس ہلالی کو شیعوں کے پہلے پانچ اماموں کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔<ref>برقی، رجال البرقی، 1433ھ، ص64.</ref> اسی طرح رجال برقی میں سلیم کا نام امام علی کے 90 اصحاب کی فہرست میں بھی شامل ہے۔<ref>برقی، رجال البرقی، 1433ھ، ص39.</ref> برقی نے امام حسنؑ کے جو گیارہ اصحاب ذکر کیا ہے ان میں سے ایک سلیم بن قیس ہلالی ہیں۔<ref>برقی، رجال البرقی، 1433ھ، ص58.</ref>سلیم کا نام امام حسینؑ کے چودہ اصحاب میں<ref>برقی، رجال البرقی، 1433ھ، ص61.</ref> امام سجادؑ کے 33 اصحاب میں شامل ہے اسی طرح ابوصادق نامی ایک شخص کا ذکر کیا ہے جسے اس کتاب میں تحقیق کرنے والے حیدر محمد علی بغدادی وہی سلیم بن قیس ہلالی قرار دیتے ہیں جن کی کنیت ابو صادق تھی۔<ref>برقی، رجال البرقی، 1433ھ، ص64.</ref>


== مندرجات ==
== مندرجات ==
سطر 75: سطر 75:


==مختلف نظریات؛ جعلی سے کامل تائید تک==
==مختلف نظریات؛ جعلی سے کامل تائید تک==
سلیم بن قیس کی کتاب کے بارے میں مختلف اور متضاد نظریات بیان ہوئے ہیں: [[محمد بن ابراہیم نعمانی]] اس کی پوری طرح  سے تائید کرتا ہے اور اسے شیعہ احادیث کی معتبر کتاب قرار دیتے ہیں<ref>نعمانی، الغیبہ، 1432ق، ص103-104.</ref> [[شیخ مفید]] نے اگرچہ اس کے معتبر  ہونے کو نفی نہیں کیا ہے لیکن اس میں تحریف ہونے کا اذعان کیا ہے۔<ref>شیخ مفید، تصحیح اعتقادات الامامیہ، ‌ص149.</ref> [[احمد بن حسین غضائری|ابن‌غضائری]] اور [[شہید ثانی]] کتاب سلیم میں [[أبان بن ابی‌ عیاش|اَبان بن ابی‌عیاش]] کی ہاتھوں جعل سازی کے قائل ہیں۔<ref>ابن‌غضائری، الرجال لابن الغضائری، 1422ق، ص36؛ شہید ثانی، رسائل الشہید الثانی، 1380ش، ج2، ص992-993.</ref>
سلیم بن قیس کی کتاب کے بارے میں مختلف اور متضاد نظریات بیان ہوئے ہیں: [[محمد بن ابراہیم نعمانی]] اس کی پوری طرح  سے تائید کرتا ہے اور اسے شیعہ احادیث کی معتبر کتاب قرار دیتے ہیں<ref>نعمانی، الغیبہ، 1432ھ، ص103-104.</ref> [[شیخ مفید]] نے اگرچہ اس کے معتبر  ہونے کو نفی نہیں کیا ہے لیکن اس میں تحریف ہونے کا اذعان کیا ہے۔<ref>شیخ مفید، تصحیح اعتقادات الامامیہ، ‌ص149.</ref> [[احمد بن حسین غضائری|ابن‌غضائری]] اور [[شہید ثانی]] کتاب سلیم میں [[أبان بن ابی‌ عیاش|اَبان بن ابی‌عیاش]] کی ہاتھوں جعل سازی کے قائل ہیں۔<ref>ابن‌غضائری، الرجال لابن الغضائری، 1422ھ، ص36؛ شہید ثانی، رسائل الشہید الثانی، 1380شمسی، ج2، ص992-993.</ref>
   
   
===کتاب معتبر ہونے کی تائید===
===کتاب معتبر ہونے کی تائید===
چوتھی صدی ہجری کے شیعہ مفسر و محدث محمد بن ابراہیم نعمانی اپنی کتاب [[کتاب الغیبۃ (نعمانی)|کتاب الغیبہ]] میں سلیم بن قیس کی کتاب کو شیعہ علما اور راویوں کے ہاں سب سے معتبر کتاب اور بہت اہم کتاب قرار دیا ہے۔<ref>نعمانی، الغیبہ، 1432ق، ص103-104.</ref>  
چوتھی صدی ہجری کے شیعہ مفسر و محدث محمد بن ابراہیم نعمانی اپنی کتاب [[کتاب الغیبۃ (نعمانی)|کتاب الغیبہ]] میں سلیم بن قیس کی کتاب کو شیعہ علما اور راویوں کے ہاں سب سے معتبر کتاب اور بہت اہم کتاب قرار دیا ہے۔<ref>نعمانی، الغیبہ، 1432ھ، ص103-104.</ref>  


چوتھی صدی ہجری کے فہرست نگار اور ماہر کتابیات [[ابن‌ ندیم]]، سلیم بن قیس کی کتاب کو شیعوں میں پہلی تدوین شدہ کتاب سمجھتے ہیں۔<ref>ابن‌ندیم، الفہرست، 1417ق، ص271.</ref> کتاب [[عبقات الانوار فی امامة الائمة الاطہار (کتاب)|عَبَقات‌ الانوار]]  کے مؤلف [[میر حامد حسین ہندی|میر حامد حسین]] سلیم بن قیس کی کتاب کو شیعہ کتابوں میں سب سے قدیمی اور افضل سمجھتے ہیں۔ <ref>کنتوری، عبقات الانوار، 1404ق، ج2، ص309.</ref>
چوتھی صدی ہجری کے فہرست نگار اور ماہر کتابیات [[ابن‌ ندیم]]، سلیم بن قیس کی کتاب کو شیعوں میں پہلی تدوین شدہ کتاب سمجھتے ہیں۔<ref>ابن‌ندیم، الفہرست، 1417ھ، ص271.</ref> کتاب [[عبقات الانوار فی امامة الائمة الاطہار (کتاب)|عَبَقات‌ الانوار]]  کے مؤلف [[میر حامد حسین ہندی|میر حامد حسین]] سلیم بن قیس کی کتاب کو شیعہ کتابوں میں سب سے قدیمی اور افضل سمجھتے ہیں۔ <ref>کنتوری، عبقات الانوار، 1404ھ، ج2، ص309.</ref>


[[سید محمد باقر خوانساری|محمد باقر خوانساری]] اپنی کتاب [[روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات (کتاب)|روضات‌ الجنات]] میں سلیم کی کتاب کو مسلمان میں حدیث کی سب سے پہلی مدون کتاب قرار دیتے ہیں۔<ref>خوانساری، روضات الجنات، 1390ق، ج4، ص67.</ref> اسی طرح [[شیخ عباس قمی|محدث قمی]] اسے شیعوں کی پہلی اور محدثین کے مابین مشہور کتاب سمجھتے ہیں۔<ref>قمی، الکنی و الالقاب، 1397ق، ج3، ص293.</ref>
[[سید محمد باقر خوانساری|محمد باقر خوانساری]] اپنی کتاب [[روضات الجنات فی احوال العلماء و السادات (کتاب)|روضات‌ الجنات]] میں سلیم کی کتاب کو مسلمان میں حدیث کی سب سے پہلی مدون کتاب قرار دیتے ہیں۔<ref>خوانساری، روضات الجنات، 1390ھ، ج4، ص67.</ref> اسی طرح [[شیخ عباس قمی|محدث قمی]] اسے شیعوں کی پہلی اور محدثین کے مابین مشہور کتاب سمجھتے ہیں۔<ref>قمی، الکنی و الالقاب، 1397ھ، ج3، ص293.</ref>


=== کتاب کا جعلی ہونا ===
=== کتاب کا جعلی ہونا ===
پانچویں صدی ہجری کے ماہرِ علم رجال [[احمد بن حسین غضائری|ابن‌ غضائری]] اپنی [[رجال ابن غضائری (کتاب)|رجال کی کتاب]] میں سلیم سے منسوب کتاب کو جعلی سمجھتے ہیں، اور اس انتساب کو درست نہیں سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب اَبان بن ابی عیاش نے جعل کیا ہے اور سلیم کی طرف نسبت دی ہے۔<ref>ابن‌غضائری، الرجال لابن الغضائری، 1422ق، ص36.</ref> [[حسن بن داوود حلی|ابن‌ داوود حلی]] نے بھی اپنی [[رجال ابن داوود (کتاب)|رجال]] کی کتاب میں سلیم کی کتاب کو  [[حدیث موضوع|جعلی]] قرار دیا ہے۔<ref>ابن‌داود، کتاب الرجال،‌ 1392ق، ص460.</ref>  
پانچویں صدی ہجری کے ماہرِ علم رجال [[احمد بن حسین غضائری|ابن‌ غضائری]] اپنی [[رجال ابن غضائری (کتاب)|رجال کی کتاب]] میں سلیم سے منسوب کتاب کو جعلی سمجھتے ہیں، اور اس انتساب کو درست نہیں سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب اَبان بن ابی عیاش نے جعل کیا ہے اور سلیم کی طرف نسبت دی ہے۔<ref>ابن‌غضائری، الرجال لابن الغضائری، 1422ھ، ص36.</ref> [[حسن بن داوود حلی|ابن‌ داوود حلی]] نے بھی اپنی [[رجال ابن داوود (کتاب)|رجال]] کی کتاب میں سلیم کی کتاب کو  [[حدیث موضوع|جعلی]] قرار دیا ہے۔<ref>ابن‌داود، کتاب الرجال،‌ 1392ھ، ص460.</ref>  


دسویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ [[شہید ثانی]]  علامہ حلی کی کتاب [[خلاصة الاقوال فی معرفة الرجال (کتاب)|خلاصة‌ الاقوال]]  کے حاشیے میں سلیم کی کتاب میں مذکور ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس حدیث کی وجہ سے کتاب کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ [[محمد بن ابی‌ بکر|محمد بن ابوبکر]] نے اپنے باپ کی وفات کے دوران اسے نصیحت کی۔ اس روایت کو کتاب جعلی ہونے کی ایک دلیل قرار دیتے ہیں کیونکہ محمد بن ابوبکر حجۃ الوداع کے دوران 10 ہجری کو پیدا ہوئے ہیں اور ابوبکر 13 ہجری کو وفات ہوئے ہیں اس لئے تین سالہ بچے کا نصیحت کرنا ممکن نہیں ہے۔<ref>شہید ثانی، رسائل الشہید الثانی، 1380ش، ج2، ص992-993.</ref> شہید ثانی آخر میں کتاب کی سند میں [[ابراہیم بن عمر صنعانی]] اور [[أبان بن ابی‌ عیاش|اَبان بن ابی‌ عیاش]] ہونے کی وجہ سے ضعیف ہونے کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حق یہ ہے کہ کتاب میں موجود غیر صحیح مطالب کو جدا کیا جائے اور باقی مطالب کو نہ رد کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کی تائید کی جاسکتی ہے۔<ref>شہید ثانی، رسائل الشہید الثانی، 1380ش، ج2، ص992-993.</ref>
دسویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ [[شہید ثانی]]  علامہ حلی کی کتاب [[خلاصة الاقوال فی معرفة الرجال (کتاب)|خلاصة‌ الاقوال]]  کے حاشیے میں سلیم کی کتاب میں مذکور ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس حدیث کی وجہ سے کتاب کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ [[محمد بن ابی‌ بکر|محمد بن ابوبکر]] نے اپنے باپ کی وفات کے دوران اسے نصیحت کی۔ اس روایت کو کتاب جعلی ہونے کی ایک دلیل قرار دیتے ہیں کیونکہ محمد بن ابوبکر حجۃ الوداع کے دوران 10 ہجری کو پیدا ہوئے ہیں اور ابوبکر 13 ہجری کو وفات ہوئے ہیں اس لئے تین سالہ بچے کا نصیحت کرنا ممکن نہیں ہے۔<ref>شہید ثانی، رسائل الشہید الثانی، 1380شمسی، ج2، ص992-993.</ref> شہید ثانی آخر میں کتاب کی سند میں [[ابراہیم بن عمر صنعانی]] اور [[أبان بن ابی‌ عیاش|اَبان بن ابی‌ عیاش]] ہونے کی وجہ سے ضعیف ہونے کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حق یہ ہے کہ کتاب میں موجود غیر صحیح مطالب کو جدا کیا جائے اور باقی مطالب کو نہ رد کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ان کی تائید کی جاسکتی ہے۔<ref>شہید ثانی، رسائل الشہید الثانی، 1380شمسی، ج2، ص992-993.</ref>


محقق قرآن و حدیث [[ابو الحسن شعرانی]] شرح اصول کافی کے حاشیے میں سلیم بن قیس کی کتاب کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں بعض ناصحیح مندرجات پائے جاتے ہیں جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے مگر یہ کہ کوئی عقلی یا نقلی شاہد اس کی تائید کے لئے موجود ہو۔<ref>ملاصالح مازندرانی، شرح اصول کافی، تعلیقہ ابوالحسن شعرانی، ج2، ص373 و 163.</ref>
محقق قرآن و حدیث [[ابو الحسن شعرانی]] شرح اصول کافی کے حاشیے میں سلیم بن قیس کی کتاب کو جعلی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں بعض ناصحیح مندرجات پائے جاتے ہیں جن پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے مگر یہ کہ کوئی عقلی یا نقلی شاہد اس کی تائید کے لئے موجود ہو۔<ref>ملاصالح مازندرانی، شرح اصول کافی، تعلیقہ ابوالحسن شعرانی، ج2، ص373 و 163.</ref>


===نہ پوری جعلی اور نہ پوری اصلی===
===نہ پوری جعلی اور نہ پوری اصلی===
پانچویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور متکلم [[شیخ مفید]] اپنی کتاب [[تصحیح الاعتقادات (کتاب)|تصحیح اعتقادات الامامیہ]] میں سلیم بن قیس کی کتاب میں موجود اکثر احادیث میں دخل و تصرف کی وجہ سے جائز نہیں سمجھتے ہیں اور دینداروں کو اس پر عمل کرنے سے اجتناب کی تلقین کرتے ہیں<ref>شیخ مفید، تصحیح اعتقادات الامامیہ، ‌ص149.</ref> آٹھویں صدی ہجری کے فقیہ و متکلم [[علامہ حلی]] اپنی کتاب [[خلاصة الاقوال فی معرفة الرجال (کتاب)|خلاصة الاقوال]] میں اگرچہ سلیم بن قیس کو عادل سمجھتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان سے منسوب کتاب میں موجود نادرست مطالب پر عمل کرنے سے اجتناب کیا جائے۔<ref>علامہ حلی، خلاصة الاقوال، 1417ق، ص163.</ref>  
پانچویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ اور متکلم [[شیخ مفید]] اپنی کتاب [[تصحیح الاعتقادات (کتاب)|تصحیح اعتقادات الامامیہ]] میں سلیم بن قیس کی کتاب میں موجود اکثر احادیث میں دخل و تصرف کی وجہ سے جائز نہیں سمجھتے ہیں اور دینداروں کو اس پر عمل کرنے سے اجتناب کی تلقین کرتے ہیں<ref>شیخ مفید، تصحیح اعتقادات الامامیہ، ‌ص149.</ref> آٹھویں صدی ہجری کے فقیہ و متکلم [[علامہ حلی]] اپنی کتاب [[خلاصة الاقوال فی معرفة الرجال (کتاب)|خلاصة الاقوال]] میں اگرچہ سلیم بن قیس کو عادل سمجھتے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ان سے منسوب کتاب میں موجود نادرست مطالب پر عمل کرنے سے اجتناب کیا جائے۔<ref>علامہ حلی، خلاصة الاقوال، 1417ھ، ص163.</ref>  


[[محمد تقی شوشتری]] نے بھی اپنی کتاب [[قاموس الرجال (کتاب)|قاموس‌ الرجال]] میں سلیم کی کتاب جعلی ہونے کے بارے میں ابن غضائری کی بات کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں اصل کتاب جعلی نہیں ہے؛ بلکہ دشمنوں نے اس کتاب میں کچھ چیزیں خود سے اس میں شامل کیا ہے۔<ref>شوشتری،‌ قاموس الرجال، 1414ق، ج5، ص239.</ref>
[[محمد تقی شوشتری]] نے بھی اپنی کتاب [[قاموس الرجال (کتاب)|قاموس‌ الرجال]] میں سلیم کی کتاب جعلی ہونے کے بارے میں ابن غضائری کی بات کو رد کرتے ہوئے کہتے ہیں اصل کتاب جعلی نہیں ہے؛ بلکہ دشمنوں نے اس کتاب میں کچھ چیزیں خود سے اس میں شامل کیا ہے۔<ref>شوشتری،‌ قاموس الرجال، 1414ھ، ج5، ص239.</ref>
[[ملف:تاریخ سیاسی صدر اسلام.jpg|تصغیر| صدر اسلام کی سیاسی تاریخ]]
[[ملف:تاریخ سیاسی صدر اسلام.jpg|تصغیر| صدر اسلام کی سیاسی تاریخ]]


سطر 111: سطر 111:
* فارسی ترجمہ پہلی بار سنہ 1400ھ میں نجف میں چھپ گیا؛
* فارسی ترجمہ پہلی بار سنہ 1400ھ میں نجف میں چھپ گیا؛
* فارسی ترجمہ اور عربی متن کے ساتھ سنہ 1412ھ میں شیخ [[محمد باقر کمرہای]] نے انجام دیا؛
* فارسی ترجمہ اور عربی متن کے ساتھ سنہ 1412ھ میں شیخ [[محمد باقر کمرہای]] نے انجام دیا؛
* اسماعیل انصاری زنجانی نے «اسرار آل محمدؑ» کے نام سے فارسی میں ترجمہ کیا؛<ref>ہلالی، اسرار آل محمد، 1416ق، ص154-155.</ref>
* اسماعیل انصاری زنجانی نے «اسرار آل محمدؑ» کے نام سے فارسی میں ترجمہ کیا؛<ref>ہلالی، اسرار آل محمد، 1416ھ، ص154-155.</ref>
*«تاریخ سیاسی صدر اسلام» کے نام سے محمود رضا افتخار زادہ نے ترجمہ کیا۔
*«تاریخ سیاسی صدر اسلام» کے نام سے محمود رضا افتخار زادہ نے ترجمہ کیا۔


سطر 125: سطر 125:
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة إلی تصانیف الشیعہ، مقدمہ محمدحسن آل‌کاشف‌الغطاء، بیروت، دارالأضواء، 1403ق/1983م.
* آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة إلی تصانیف الشیعہ، مقدمہ محمدحسن آل‌کاشف‌الغطاء، بیروت، دارالأضواء، 1403ق/1983م.
* ابن‌غضائری، احمد بن حسین، الرجال لابن الغضائری، تحقیق سید محمدرضا حسینی جلالی، قم، دارالحدیث، 1422ق/1380ش.
* ابن‌غضائری، احمد بن حسین، الرجال لابن الغضائری، تحقیق سید محمدرضا حسینی جلالی، قم، دارالحدیث، 1422ق/1380ہجری شمسی۔
* ابن‌ندیم، الفہرست، تحقیق ابراہیم رمضان، بیروت، دار المعرفہ، 1417ق/1997م.
* ابن‌ندیم، الفہرست، تحقیق ابراہیم رمضان، بیروت، دار المعرفہ، 1417ق/1997م.
* برقی، احمد بن عبداللہ، رجال البرقی، تحقیق و تعلیق حیدر محمدعلی البغدادی، با اشراف جعفر سبحانی، قم، مؤسسة الإمام الصادق، 1433ق/1391ش.
* برقی، احمد بن عبداللہ، رجال البرقی، تحقیق و تعلیق حیدر محمدعلی البغدادی، با اشراف جعفر سبحانی، قم، مؤسسة الإمام الصادق، 1433ق/1391ہجری شمسی۔
* جلالی، عبدالمہدی، «پژوہشی دربارہ سلیم بن قیس ہلالی»، فصلنامہ مطالعات اسلامی، شمارہ 60، تابستان 1382ش.
* جلالی، عبدالمہدی، «پژوہشی دربارہ سلیم بن قیس ہلالی»، فصلنامہ مطالعات اسلامی، شمارہ 60، تابستان 1382ہجری شمسی۔
* جوادی، قاسم، «کتاب سلیم بن قیس ہلالی»، در فصلنامہ علوم حدیث، بہار و تابستان 1384ش، شمارہ 35 و 36.
* جوادی، قاسم، «کتاب سلیم بن قیس ہلالی»، در فصلنامہ علوم حدیث، بہار و تابستان 1384شمسی، شمارہ 35 و 36.
* ابن‌داوود حلی، حسن، کتاب الرجال، تحقیق سید محمدصادق بحرالعلوم، نجف، مطبعة الحیدریة، 1392ق.
* ابن‌داوود حلی، حسن، کتاب الرجال، تحقیق سید محمدصادق بحرالعلوم، نجف، مطبعة الحیدریة، 1392ھ۔
* علامہ حلی، حسن بن یوسف، خلاصة الاقوال، مؤسسة نشر الفقاہة، 1417ق.
* علامہ حلی، حسن بن یوسف، خلاصة الاقوال، مؤسسة نشر الفقاہة، 1417ھ۔
* خوانساری، محمدباقر، روضات الجنات، قم، اسماعیلیان، 1390ق.
* خوانساری، محمدباقر، روضات الجنات، قم، اسماعیلیان، 1390ھ۔
* زرکلی، خیرالدین، الاعلام، بیروت، دارالعلم.
* زرکلی، خیرالدین، الاعلام، بیروت، دارالعلم.
* شوشتری،‌ محمدتقی،‌ قاموس الرجال، قم،‌ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1414ق.
* شوشتری،‌ محمدتقی،‌ قاموس الرجال، قم،‌ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، 1414ھ۔
* شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، رسائل الشہید الثانی، تحقیق رضا مختاری، ج2، قم، بوستان کتاب قم، 1422ق/1380ش.
* شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، رسائل الشہید الثانی، تحقیق رضا مختاری، ج2، قم، بوستان کتاب قم، 1422ق/1380ہجری شمسی۔
* شیخ مفید، تصحیح اعتقادات الإمامیہ، تصحیح حسین درگاہی.
* شیخ مفید، تصحیح اعتقادات الإمامیہ، تصحیح حسین درگاہی.
* عمادی حائری، سید محمد، «سلیم بن قیس ہلالی»، در دانشنامہ جہان اسلام، زیرنظر غلامعلی حدادعادل، ج24، تہران، بنیاد دائرةالمعارف اسلامی، 1375ش.
* عمادی حائری، سید محمد، «سلیم بن قیس ہلالی»، در دانشنامہ جہان اسلام، زیرنظر غلامعلی حدادعادل، ج24، تہران، بنیاد دائرةالمعارف اسلامی، 1375ہجری شمسی۔
* کنتوری، میر حامد حسین، عبقات الانوار، تحقیق غلامرضا مولانا بروجردی، قم، غلامرضا مولانا بروجردی، 1404ق.
* کنتوری، میر حامد حسین، عبقات الانوار، تحقیق غلامرضا مولانا بروجردی، قم، غلامرضا مولانا بروجردی، 1404ھ۔
* ملکی معاف، اسلام، «مؤلف کتاب اسرار آل محمد(ص) بر ترازوی نقد»، در مجلہ مطالعات قرآن و حدیث، سال اول، شمارہ دوم، بہار و تابستان 1387ش.
* ملکی معاف، اسلام، «مؤلف کتاب اسرار آل محمد(ص) بر ترازوی نقد»، در مجلہ مطالعات قرآن و حدیث، سال اول، شمارہ دوم، بہار و تابستان 1387ہجری شمسی۔
* نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، تحقیق فارس حسون کریم، بیروت، دارالجوادین، 1432ق/2011م.
* نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ، تحقیق فارس حسون کریم، بیروت، دارالجوادین، 1432ق/2011م.
* ہلالی، سلیم بن قیس، کتاب سلیم، قم، ہادی، 1405ق.
* ہلالی، سلیم بن قیس، کتاب سلیم، قم، ہادی، 1405ھ۔
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}


سطر 147: سطر 147:
{{شیعہ کتابیات تاریخ}}
{{شیعہ کتابیات تاریخ}}
{{شیعہ کتب کلام}}
{{شیعہ کتب کلام}}
{{پہلی صدی ہجری کی شیعہ کتابیات}}
{{شیعہ کتابیں (پہلی صدی ہجری)}}
{{شیعہ کتابیں (پہلی صدی ہجری)}}


confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم