confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
9,099
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (اصلاح نقل قول) |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) (اصلاح سانچہ نقل قول) |
||
سطر 143: | سطر 143: | ||
| نقل قول = اس جوان کو [جنگ کے قصد سے] روکو کہیں یہ میری کمر نہ توڑ دیں۔ مجھے خوف ہے کہ کہیں موت ان دونوں (حسنؑ اور حسینؑ) کو اپنی آغوش میں نہ لے لیں جس سے رسول خداؐ کی نسل منطقع ہو جائے گی۔ | | نقل قول = اس جوان کو [جنگ کے قصد سے] روکو کہیں یہ میری کمر نہ توڑ دیں۔ مجھے خوف ہے کہ کہیں موت ان دونوں (حسنؑ اور حسینؑ) کو اپنی آغوش میں نہ لے لیں جس سے رسول خداؐ کی نسل منطقع ہو جائے گی۔ | ||
| منبع = [[نہج البلاغۃ]]، ، ص۲۴۰. | | منبع = [[نہج البلاغۃ]]، ، ص۲۴۰. | ||
| تراز = | | تراز = | ||
| پسزمینه = #F0FFFF | | پسزمینه = #F0FFFF | ||
| عرض = 250px | | عرض = 250px | ||
| حاشیه = | | حاشیه = | ||
| اندازه قلم = | | اندازه قلم = | ||
}} | }} | ||
[[نصر بن مزاحم]] (متوفی 212 ھ) کے بقول امام حسنؑ نے صفین کی طرف لشکر کے روانہ ہونے سے قبل ایک خطبہ دیا جس میں لوگوں کو [[جہاد]] کی ترغیب دی۔<ref> نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ۱۳۸۲ھ، ص۱۱۳-۱۱۴.</ref> بعض احادیث کے مطابق [[جنگ صفین]] میں آپ اپنے بھائی امام حسینؑ کے ساتھ لشکر کے دائیں بازو کی سپہ سالاری کر رہے تھے۔<ref> ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱، ج۳، ص۲۴؛ ابن شهر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۳، ص۱۶۸. </ref> [[محمد بن عبداللہ اسکافی|اسکافی]] (متوفی 240 ھ) نقل کرتے ہیں کہ جب حسنؑ بن علیؑ کا جنگ کے دوران لشکر شام کے کسی بزرگ سے آمنا سامنا ہوا تو اس نے امام حسنؑ کے ساتھ لڑنے سے انکار کرتے ہوئے کہا میں نے رسول خداؐ کو اونٹ پر سوار ہو کر میری طرف آتے دیکھا اور آپ ان کے آگے اسی اونٹ پر سوار تھے۔ میں نہیں چاہتا رسول خداؐ سے اس حالت میں ملاقات کروں کہ آپ کا خون میرے گردن پر ہو۔<ref> اسکافی، المعیار و الموازنۃ، ۱۴۰۲ق، ص ۱۵۰ - ۱۵۱.</ref> | [[نصر بن مزاحم]] (متوفی 212 ھ) کے بقول امام حسنؑ نے صفین کی طرف لشکر کے روانہ ہونے سے قبل ایک خطبہ دیا جس میں لوگوں کو [[جہاد]] کی ترغیب دی۔<ref> نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، ۱۳۸۲ھ، ص۱۱۳-۱۱۴.</ref> بعض احادیث کے مطابق [[جنگ صفین]] میں آپ اپنے بھائی امام حسینؑ کے ساتھ لشکر کے دائیں بازو کی سپہ سالاری کر رہے تھے۔<ref> ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱، ج۳، ص۲۴؛ ابن شهر آشوب، المناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۳، ص۱۶۸. </ref> [[محمد بن عبداللہ اسکافی|اسکافی]] (متوفی 240 ھ) نقل کرتے ہیں کہ جب حسنؑ بن علیؑ کا جنگ کے دوران لشکر شام کے کسی بزرگ سے آمنا سامنا ہوا تو اس نے امام حسنؑ کے ساتھ لڑنے سے انکار کرتے ہوئے کہا میں نے رسول خداؐ کو اونٹ پر سوار ہو کر میری طرف آتے دیکھا اور آپ ان کے آگے اسی اونٹ پر سوار تھے۔ میں نہیں چاہتا رسول خداؐ سے اس حالت میں ملاقات کروں کہ آپ کا خون میرے گردن پر ہو۔<ref> اسکافی، المعیار و الموازنۃ، ۱۴۰۲ق، ص ۱۵۰ - ۱۵۱.</ref> | ||
سطر 176: | سطر 176: | ||
[[رسول جعفریان]] معتقد ہیں کہ ان شرائط کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حسن بن علیؑ ابتداء سے ہی جنگ کرنا نہیں چاہتا تھا بلکہ ان شرائظ کو ذکر کرنے کا اصلی مقصد اسلامی معاشرے کے رہبر اور پیشوا کے حق حاکمیت کو زندہ کرنا تھا تاکہ آئندہ پیش آنے والے مسائل میں آزادی کے ساتھ تصمیم گیری کر سکیں۔ اسے کے علاوہ خلافت پر فائز ہونے کے بعد اٹھائے گئے اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ آپ معاویہ کے ساتھ جتگ کرنے پر زیادہ مصر تھے۔<ref> جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۳۲۔</ref> بعد احادیث میں آیا ہے کہ امام حسنؑ کے خلافت پر فائز ہونے کے بعد سب سے پہلا اقدام سپاہیوں کی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ تھا۔<ref> ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۶۴</ref> | [[رسول جعفریان]] معتقد ہیں کہ ان شرائط کا یہ مطلب نہیں ہے کہ حسن بن علیؑ ابتداء سے ہی جنگ کرنا نہیں چاہتا تھا بلکہ ان شرائظ کو ذکر کرنے کا اصلی مقصد اسلامی معاشرے کے رہبر اور پیشوا کے حق حاکمیت کو زندہ کرنا تھا تاکہ آئندہ پیش آنے والے مسائل میں آزادی کے ساتھ تصمیم گیری کر سکیں۔ اسے کے علاوہ خلافت پر فائز ہونے کے بعد اٹھائے گئے اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ آپ معاویہ کے ساتھ جتگ کرنے پر زیادہ مصر تھے۔<ref> جعفریان، حیات فکرى و سیاسى ائمہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۳۲۔</ref> بعد احادیث میں آیا ہے کہ امام حسنؑ کے خلافت پر فائز ہونے کے بعد سب سے پہلا اقدام سپاہیوں کی تنخواہوں میں سو فیصد اضافہ تھا۔<ref> ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ۱۴۰۸ق، ص۶۴</ref> | ||
{{نقل قول|عنوان =معاویہ کے نام امام حسنؑ کے خط | |||
| | {{جعبہ نقل قول | ||
{{نقل قول | عنوان =امام حسنؑ کے نام معاویہ کے خط کا ایک حصہ| | | عنوان = معاویہ کے نام امام حسنؑ کے خط سے | ||
| | | نویسنده = ابوالفرج اصفہانی | ||
| نقل قول = جب پیغمبر اکرمؐ رحلت فرما گئے تو عربوں نے ان کی جانشینی پر اختلاف کھڑا کیا، قریشیوں نے کہا: ہم پیغمبرؐ کے ہم قوم اور رشتہ دار ہیں لہذا ان کی جانشینی پر ہم سے اختلاف سزاوار نہیں۔ عربوں نے قریش والوں کی اس دلیل کو قبول کیا لیکن جب ہم نے قریش والوں سے وہی کہا جو انہوں نے دوسرے عربوں سے کہا تھا تو انہوں نے عربوں کے بر خلاف ہمارے ساتھ انصاف سے کام نہیں لیا۔ اے معاویہ آج اس منصب کی طرف تمہاری نظریں اٹھنے سے سب کو حیرت میں ڈھوبنا چاہئے کیونکہ تم اس کا اہل ہی نہیں ہو، تم اسلام مخالف ایک گروہ سے تعلق رکھتے ہو، قریش میں رسول خداؐ کے سب سے بدترین دشمن تم ہو۔ جب حضرت علیؑ شہید ہوئے تو مسلمانوں نے خلافت میرے حوالے کئے ہیں۔ پس باطل سے ہاتھ اٹھا کر میری بیعت کرو اور تم خود اس بات کو اچھی طرح جانتے ہو کہ اس منصب کیلئے خدا کے نزدیک میں سب سے زیادہ سزاوار ہوں۔ | |||
| منبع =مقاتل الطالبیین، دار المعرفہ، ص۶۴ | |||
| تراز = | |||
| پسزمینه = | |||
| عرض = 250px | |||
| حاشیه = | |||
| اندازه قلم = | |||
}} | |||
{{جعبہ نقل قول | |||
| عنوان = امام حسنؑ کے نام معاویہ کے خط کا ایک حصہ | |||
| نویسنده = ابوالفرج اصفہانی | |||
| نقل قول = اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ تہذیب، امت اسلام کی مصلحت اندیشی، سیاست، اور مال و دولت جمع کرنے نیز دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے میں مجھ سے بہتر اور طاقتور ہوتے تو میں آپ کی بیعت کرتا لیکن چونکہ میں ایک طولانی مدت تک بر سر اقتدار رہنے کی وجہ سے زیادہ باتجریہ اور سیاستمدار ہوں نیز عمر کے لحاظ سے بھی میں آپ سے بڑا ہوں پس سزاوار ہے کہ آپ میری حاکمیت کو قبول کریں۔ | |||
| منبع =مقاتل الطالبیین، دار المعرفہ، ص۶۷ | |||
| تراز = | |||
| پسزمینه = | |||
| عرض = 250px | |||
| حاشیه = | |||
| اندازه قلم = | |||
}} | |||
===معاویہ کے ساتھ جنگ اور صلح=== | ===معاویہ کے ساتھ جنگ اور صلح=== | ||
سطر 200: | سطر 219: | ||
==معاویہ سے صلح کا واقعہ== | ==معاویہ سے صلح کا واقعہ== | ||
{{اصلی| صلح امام حسن}} | {{اصلی| صلح امام حسن}} | ||
{{نقل قول| عنوان =امام حسنؑ نے معاویہ کی موجودگی میں ایک خطبے میں فرمایا | |||
| | {{جعبہ نقل قول | ||
| عنوان = امام حسنؑ نے معاویہ کی موجودگی میں ایک خطبے میں فرمایا | |||
| نویسنده = مجلسی | |||
| نقل قول = معاویہ بن صخر نے یہ گمان کیا ہوا ہے کہ میں انہیں خلافت کی نسبت اپنے سے سزوار سمجھتا ہوں۔ وہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ خدا کی قسم [[قرآن]] اور احادیث [[رسول خدا]] میں اس منصب کیلئے تمام لوگوں سے زیادہ ہم سزاوار ہیں، لیکن ہم [[اہل بیتؑ]]، پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد سے مظلوم واقع ہوئے ہیں۔ خدا ہم اور ہمارے اوپر ظلم کرنے والوں کے درمیان فیصلہ کرے۔ | |||
| منبع =بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۱۰، ص۱۴۲ | |||
| تراز = | |||
| پسزمینه = #ffeebb | |||
| عرض = 250px | |||
| حاشیه = | |||
| اندازه قلم = | |||
}} | |||
شام اور عراق کے سپاہیوں کے درمیان ہونے والی جنگ کے ابتدائی مرحلے میں ہی امام حسنؑ مورد حملہ قرار پاکر زخمی ہوئے جس کی وجہ سے آپ کو مداوا کے لئے مدائن لے جایا گیا۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۲؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۳۵.</ref> مدائن میں امام حسنؑ کے معالجے کے دوران کوفہ کے بعض سرکردگان نے مخفیانہ طور پر معاویہ کو خط کے ذریعے حمایت اور اطاعت کا وعدہ دیا۔ انہوں نے معاویہ کو کوفہ آنے کی دعوت دی اور انہیں وعدہ دیا کہ حسن بن علیؑ کو قتل کر دیں گے یا ان کے حوالے کر دیں گے۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۲.</ref> [[شیخ مفید]] (متوفی 413 ھ) کے مطابق جب امام حسنؑ کو کوفہ والوں کی غداری اور عبید الله بن عباس کے معاویہ کے ساتھ مل جانے کی خبر ملی اور دوسری طرف سے اپنے سپاہیوں کی سستی اور کاہلی کا مشاہدہ کیا تو آپ کو یہ اندازہ ہوا کہ اہل شام اور معاویہ کے عظیم لشکر کے مقابلہ صرف آپ کے حقیقی پیروکاروں کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا جن کی تعداد دشمن کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳.</ref> [[زید بن وہب جہنی]] نقل کرتے ہیں کہ امام حسنؑ نے مدائن میں قیام کے دوران ان سے فرمایا: "خدا کی قسم اگر میں معاویہ کے ساتھ جنگ کروں تو یہ عراق والے میری گردن پکڑ کر مجھے معاویہ کے حوالے کر دیں گے۔ خدا کی قسم اگر باعزت طریقے سے معاویہ کے ساتھ صلح کرنا معاویہ کے ہاتھوں اسیر ہو کر قتل ہونے یا میرے اوپر منت چڑھا کر میرے قتل سے صرف نظر کرکے ہمیشہ کیلئے [[بنی ہاشم]] کو رسوا کرنے سے بہتر ہے۔"<ref> طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۲۹۰.</ref> | شام اور عراق کے سپاہیوں کے درمیان ہونے والی جنگ کے ابتدائی مرحلے میں ہی امام حسنؑ مورد حملہ قرار پاکر زخمی ہوئے جس کی وجہ سے آپ کو مداوا کے لئے مدائن لے جایا گیا۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۲؛ بلاذری، انساب الاشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۳۵.</ref> مدائن میں امام حسنؑ کے معالجے کے دوران کوفہ کے بعض سرکردگان نے مخفیانہ طور پر معاویہ کو خط کے ذریعے حمایت اور اطاعت کا وعدہ دیا۔ انہوں نے معاویہ کو کوفہ آنے کی دعوت دی اور انہیں وعدہ دیا کہ حسن بن علیؑ کو قتل کر دیں گے یا ان کے حوالے کر دیں گے۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۲.</ref> [[شیخ مفید]] (متوفی 413 ھ) کے مطابق جب امام حسنؑ کو کوفہ والوں کی غداری اور عبید الله بن عباس کے معاویہ کے ساتھ مل جانے کی خبر ملی اور دوسری طرف سے اپنے سپاہیوں کی سستی اور کاہلی کا مشاہدہ کیا تو آپ کو یہ اندازہ ہوا کہ اہل شام اور معاویہ کے عظیم لشکر کے مقابلہ صرف آپ کے حقیقی پیروکاروں کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا جن کی تعداد دشمن کے مقابلے میں بہت تھوڑی تھی۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۳.</ref> [[زید بن وہب جہنی]] نقل کرتے ہیں کہ امام حسنؑ نے مدائن میں قیام کے دوران ان سے فرمایا: "خدا کی قسم اگر میں معاویہ کے ساتھ جنگ کروں تو یہ عراق والے میری گردن پکڑ کر مجھے معاویہ کے حوالے کر دیں گے۔ خدا کی قسم اگر باعزت طریقے سے معاویہ کے ساتھ صلح کرنا معاویہ کے ہاتھوں اسیر ہو کر قتل ہونے یا میرے اوپر منت چڑھا کر میرے قتل سے صرف نظر کرکے ہمیشہ کیلئے [[بنی ہاشم]] کو رسوا کرنے سے بہتر ہے۔"<ref> طبرسی، الاحتجاج، ۱۴۰۳ق، ج۲، ص۲۹۰.</ref> | ||
===معاویہ کی جانب سے صلح کی پیشکش=== | ===معاویہ کی جانب سے صلح کی پیشکش=== | ||
سطر 221: | سطر 251: | ||
[[خلافت]] سے ظاہری طور پر کنارہ کشی اختیار کرنے کے باوجود شیعیان حیدر کرار آپ کو [[امام]] مانتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض شیعہ حضرات کو اس صلح پر اعتراض بھی تھا لیکن پھر بھی آپ کی امامت کے منکر نہیں تھے۔<ref> جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۸۵.</ref> | [[خلافت]] سے ظاہری طور پر کنارہ کشی اختیار کرنے کے باوجود شیعیان حیدر کرار آپ کو [[امام]] مانتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض شیعہ حضرات کو اس صلح پر اعتراض بھی تھا لیکن پھر بھی آپ کی امامت کے منکر نہیں تھے۔<ref> جعفری، تشیع در مسیر تاریخ، ۱۳۸۰ش، ص۱۸۵.</ref> | ||
:'''رد عمل اور اثرات''' | :'''رد عمل اور اثرات''' | ||
{{جعبہ نقل قول | |||
| عنوان = امام حسنؑ | |||
| نویسنده = ابن شہرآشوب | |||
| نقل قول = اے لوگو! اگر مشرق سے مغرب تک ڈھونڈو گے تو میں اور میرے بھائی کے علاوہ کسی کو نہیں پاؤگے جس کا نانا رسول خداؐ ہو۔ بتحقیق معاویہ ایک ایسی چیز (خلافت) میں جو میرا مسلمہ حق ہے، میری مخالفت پر اتر آیا ایسے میں میں نے امت کی مصلحت کی خاطر اپنے حق سے چشم پوشی کی۔ | |||
| منبع =المناقب، ۱۳۷۹ق،ج۴، ص۳۴. | |||
| تراز = | |||
| پسزمینه = #F0FFFF | |||
| عرض = 250px | |||
| حاشیه = | |||
| اندازه قلم = | |||
}} | |||
منابع میں آیا ہے کہ امام حسنؑ کی طرف سے صلح قبول کرنے پر آپ کے بعض پیروکاروں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔<ref> مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۴۴، ص۲۹.</ref> یہاں تک کہ بعض لوگوں نے اس کام پر آپ کی سرزنش بھی کی اور بعض آپ کو "مذلّ المؤمنین" (مؤمنین کو ذلیل و خوار کرنے والا) کہہ کر پکارنے لگے۔<ref> بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۴۵ و ۴۸.</ref> امامؑ نے اس حوالے سے ہونے والے اعتراضات اور سوالات کا جواب دیتے ہوئے "امام" کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صلح کے علل و اسباب کو بعینہ [[صلح حدیبیہ]] کے علل و اسباب بیان کرتے ہوئے اس کام کو [[حضرت خضر]] اور [[حضرت موسی]] کی داستان میں حضرت خضر کے کاموں کی طرح قرار دیا جہاں حضرت موسی ان کاموں کے فلسفے سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کاموں پر اعتراض کرتے ہیں۔<ref> شیخ صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۲۱۱.</ref> | منابع میں آیا ہے کہ امام حسنؑ کی طرف سے صلح قبول کرنے پر آپ کے بعض پیروکاروں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔<ref> مجلسی، بحار الأنوار، ۱۳۶۳ش، ج۴۴، ص۲۹.</ref> یہاں تک کہ بعض لوگوں نے اس کام پر آپ کی سرزنش بھی کی اور بعض آپ کو "مذلّ المؤمنین" (مؤمنین کو ذلیل و خوار کرنے والا) کہہ کر پکارنے لگے۔<ref> بلاذری، أنساب الأشراف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۴۵ و ۴۸.</ref> امامؑ نے اس حوالے سے ہونے والے اعتراضات اور سوالات کا جواب دیتے ہوئے "امام" کی اطاعت کے ضروری ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صلح کے علل و اسباب کو بعینہ [[صلح حدیبیہ]] کے علل و اسباب بیان کرتے ہوئے اس کام کو [[حضرت خضر]] اور [[حضرت موسی]] کی داستان میں حضرت خضر کے کاموں کی طرح قرار دیا جہاں حضرت موسی ان کاموں کے فلسفے سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کاموں پر اعتراض کرتے ہیں۔<ref> شیخ صدوق، علل الشرایع، ۱۳۸۵ش، ج۱، ص۲۱۱.</ref> | ||
سطر 305: | سطر 344: | ||
===سماجی خصوصیات=== | ===سماجی خصوصیات=== | ||
{{نقل قول| عنوان = | |||
| | {{جعبہ نقل قول | ||
| عنوان = امام حسنؑ کی عبادت | |||
| نویسنده = ابن شہر آشوب | |||
| نقل قول = جب آپ وضو کرنے لگتے تو آپ کے ہاتھ پیر لرزنے لگتے اور آپ کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوجاتا تھا... جب مسجد کے دروازے پر پہنچتے تھے تو فرماتے تھے: اے احسان کرنے والی ذات! گناہگار تیری درگاہ میں آیا ہے پس میری خطاؤوں کو اپنی نیکیوں کے مقابلے میں نظر انداز فرما۔ | |||
| منبع =المناقب، ۱۳۷۹ق، ج۴، ص۱۴۔ | |||
| تراز = | |||
| پسزمینه = | |||
| عرض = 250px | |||
| حاشیه = | |||
| اندازه قلم = | |||
}} | |||
منابع میں آپ کی بعض سماجی خصوصیات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے: | منابع میں آپ کی بعض سماجی خصوصیات کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے: |