"تقیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←مآخذ) |
Mohsin (تبادلۂ خیال | شراکتیں) کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
{{شیعہ عقائد}} | {{شیعہ عقائد}} | ||
'''تَقیہ''' ایک دینی اصطلاح ہے جس کے معنی | '''تَقیہ''' ایک دینی اصطلاح ہے جس کے معنی ہیں اپنے مد مقابل شخص کے نقصان(دنیوی یا دینی) سے بچنے کی خاطر اپنا عقیدہ چھپا کر اپنے [[عقیدہ|قلبی عقیدے]] کے برخلاف کسی عقیدے کا اظہار کرنا یا اپنے عقیدے کے خلاف کسی کام کو انجام دینا۔ تقیہ پر عمل کرنے کے حوالے سے [[اہل تشیع]] حضرات دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے زیادہ مشہور ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ [[شیعہ]] مذہب کے ماننے والے مختلف ادوار میں اپنے مخالفین کی جانب سے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور اقتصادی دباؤ کا شکار رہے ہیں۔ | ||
تقیہ کی مختلف قسمیں ہیں۔ شیعہ [[فقہاء]] نے [[قرآن]] کی [[آیات]] اور [[روایات]] [[معصومین علیہم السلام]] کے مطابق تقیہ کے تکلیفی اور وضعی احکام بیان کیے ہیں۔ فقہاء کے نزدیک جہاں مخالفین کے سامنے اپنے عقیدے کے خلاف رائے کا اظہار کرنے سے کسی شخص یا اس سے متعلقہ افراد کی جان و مال اور آبرو کو نقصان پہنچنے سے بچاؤ کی حد تک تقیہ کرنا [[واجب]] ہے۔ تقیہ بعض صورتوں اور حالات کے مطابق [[مستحب]]، [[مکروہ]]، [[مباح]] اور [[حرام]] بھی ہوسکتا ہے۔ | |||
کہا جاتا ہے کہ اکثر [[سنی]] فقہاء بھی جانی اور مالی نقصان کا اندیشہ ہونے کی صورت میں نقصان سے بچاؤ کی حد تک تقیہ کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ اسلامی مذاہب میں سے صرف [[زیدیہ|زیدی]] اور [[وہابیت|وہابی]] فرقہ تقیہ کے خلاف ہیں۔ | |||
تقیہ | ==تقیہ کے معنی و مفہوم== | ||
دینی یا دنیوی نقصان سے بچنے کی خاطر حق اور اپنے عقیدے کو اپنے مد مقابل مخالف سے چھپانے کو تقیہ کہتے ہیں۔ <ref>شیخ مفید، تصحیح الاعتقادات الامامیة، 1414ھ، ص137.</ref> دوسری عبارت میں کسی مخالف شخص کے نقصان سے بچنے کے لیے اس کے ساتھ گفتار اور کردار کے لحاظ سے اس جیسے عمل کرنا تقیہ کہلاتا ہے۔ <ref>شیخ انصاری، مسائل فقهیة، 1414ھ، ص71.</ref> | |||
لغوی اعتبار سے تقیہ لفظ "وقی" سے مأخوذ ہے۔ جس کے معنی کسی کی تکلیف اور آزار سے بچنے کی خاطر اس سے محفوظ رہنے، رکنے اور کسی چیز کو اس سے چھپانے کے ہیں۔<ref>ابن منظور، لسان العرب، ذیل واژہ "وقی".</ref> | |||
تقیہ | ==مقام و مرتبہ== | ||
تقیہ کے بارے میں [[فقہی|فقہ]] کتابوں میں اس کےمختلف پہلؤوں پر تحقیق اور جائزہ لیاجاتا ہے۔ مختلف فقہی ابواب جیسے باب [[طہارت]]، [[صلاۃ]]، [[صوم]]، [[حج]] اور [[امر بہ معروف]] اور [[نہی از منکر]] میں تقیہ سے متعلق احکام بیان ہوتے ہیں۔<ref>دایرة المعارف فقه فارسی، فرهنگ فقه فارسی، 1387ہجری شمسی، ج2، ص585.</ref> فقہی قواعد پر مشتمل کتابوں میں اسے ایک قاعدہ کے طور پر جانا جاتا ہے اور بعض [[فقہاء]] نے اس کے بارے میں با قاعدہ سے مستقل کتابیں اور رسالے لکھے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: بجنوردی، القواعد الفقهیة، 1377ہجری شمسی، ج5، ص49؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص386؛ صدر، ماوراء الفقه، 1406ھ، ج1، ص108.</ref> | |||
اگرچہ تقیہ کا لفظ [[قرآن]] میں نہیں آیا ہے لیکن [[مسلمان|مسلم]] فقہاء کا عقیدہ ہے کہ بعض قرآنی [[آیات]] <ref>ملاحظہ کریں: سوره نحل، آیه 106؛ سوره غافر، آیه 28.</ref> کا تعلق تقیہ سے ہے، لہذا [[فقہاء]] تقیہ کی [[شرعی]] حیثیت کو ثابت کرنے کے لیے انہی آیات سے استناد کرتے ہیں۔ <ref>ملاحظہ کریں: طبرسی، مجمع البیان، 2425ھ، ج6، ص203؛ طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج3، ص153.</ref> | |||
شیعہ [[روائی|روایت]] کتب میں [[ائمہؑ]] سے تقیہ کے بارے میں کثرت سے [[احادیث]] منقول ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1430ھ، ج3، 548-560؛ حر عاملی، وسائل الشیعه، 1423ھ، ج16، ص203-254.</ref> شیعہ [[محدث]] [[یعقوب کلینی]] نے اپنی کتاب [[الکافی]] کے پورے ایک حصے کو "باب التقیہ" کا عنوان دے کر تقیہ سے متعلق 23 روایات کو یہاں ذکر کیا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، 1430ھ، ج3، 548-560.</ref> [[حر عاملی]] نے کتاب [[وسائل الشیعہ]] میں تقیہ کے احکام سے متعلق 146 احادیث کو 22 ابواب میں ذکر کیا ہے۔ <ref>ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسائل الشیعه، 1423ھ، ج16، ص203-254.</ref> اسی طرح اہل سنت کی کتب روائی میں تقیہ سے متعلق احادیث پراکندہ طور مذکور ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج9، ص19؛ هیثمی، کشف الاستار، 1399ھ، ج4، ص113؛ طبرانی، المعجم الکبیر، 1415ھ، ج20، ص94؛ حبیب العمیدی، تقیه از دیدگاه مذاهب و فرقههای اسلامی غیر شیعی، ترجمه محمدصادق عارف، 1377ہجری شمسی، ص72-77.</ref> | |||
[[ | ==شیعہ مذہب میں تقیہ کی حثیت== | ||
تقیہ [[شیعہ]] مذہب کے عقیدتی اور فقہی اہم امور میں سے ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں تقیہ ہی کے ذریعے خود مکتب [[تشیع]] کی حفاظت کے علاوہ اس کی عقیدتی بنیادوں کو تحفظ فراہم ہوتا رہا ہے۔<ref>سلطانی رنانی، «امام صادق(ع) و مسأله تقیه»، ص29.</ref> تاریخی منابع کی گواہی کے مطابق مذہب شیعہ مختلف ادوار میں سماجی اور ثقافتی دباؤ کا شکا رہا ہے اور ان پر سختی اور گھٹن کا ماحول حاکم رہا ہے۔ شیعہ اپنے مخالفین کے درمیان اپنے عقیدے کا کھل کر اعلان نہی کرپاتے، عقیدے کا برملا اعلان جانی اور مالی نقصان پر منتج ہوتا۔ اسی لیے [[ائمہؑ]] اپنے اور اپنے ماننے والوں کی جان کے تحفظ اور شیعہ مکتب کو کمزور اور منتشر ہونے سے بچانے کے لیے تقیہ کو ڈھال کے طور استعمال کرنے کو ضروری سمجھتے تھے۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، مکتبة آیتالله العظمی مرعشی نجفی، ج11، ص43-47؛ سبحانی، التقیة؛ مفهومها، حدها، دلیلها، 2430ھ، ص24-44؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص407-408.</ref> | |||
بعض شیعہ منابع میں «لا دینَ لِمَن لا تَقِیَّةَ لَه؛ تقیہ نہ کرنے والے کا کوئی دین نہیں» جیسی تعابیر استعمال ہوئی ہیں۔ <ref>ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسائل الشیعه، 1413ھ، ج16، ص204-206.</ref> | |||
تقیہ کا | اس طرح کی تعابیر [[ائمہ معصومینؑ]] کے نزدیک تقیہ کی بے حد اہمیت کو بیان کرتی ہیں۔<ref>سبحانی، التقیة؛ مفهومها، حدها و دلیلها، ص76.</ref> [[شیعہ]] [[مرجع تقلید]] آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق تقیہ صرف مذہب شیعہ تک محدود نہیں <ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ق، ج1، ص388.</ref>مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ دنیا میں کہیں پر کوئی بھی شخص یا اقلیتی گروہ جب اپنے متعصب دشمن اور مخالفین کا سامنا کرتا ہے اور اپنے عقیدے کے اظہار پر جانی یا مالی نقصان کا اندیشہ ظاہر ہو تو اس کی فطرت اور عقل حکم کرتی ہے کہ تقیہ کرتے ہوئے اپنے عقیدے کو چھپالیا جائے<ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص388.</ref> | ||
ائمہؑ کی بعض [[روایات]] میں [[پیغمبر اسلامؐ]] سے ماسبق انبیاء جیسے حضرت شیث،<ref>علامه مجلسی، بحارالانوار، ج75، ص419.</ref> [[حضرت ابراہیم]]،<ref>حر عاملی، وسائل الشیعه، 1413ق، ج16، ص208.</ref> [[حضرت یوسف]] <ref>طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج22، ص238.</ref> اور اصحاب کہف | |||
<ref>علامه مجلسی، بحارالانوار، ج75، ص429 و ج14، ص425-426.</ref> سے متعلق تقیہ کی داستانیں ملتی ہیں۔ | |||
آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ [[شہید اول]] کا کہنا ہے کہ [[ائمہ معصومینؑ]] سے منقول احادیث، تقیہ کے بارے میں گفتگو سے لبریز ہیں اور ائمہؑ کی احادیث میں موجود اختلافات کا ایک اہم سبب تقیہ ہے۔<ref>شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص157.</ref> یہی وجہ ہے کہ تقیہ پر مبنی روایات سے [[احکام شرعی]] استنباط کرنے کے لیے ان روایات کا فہم و ادراک بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔<ref>طاهری اصفهانی، المحاضرات (تقریرات اصول آیتالله سیدمحمد محقق داماد)، 1382ہجری شمسی، ج2، ص119</ref> | |||
== | ==تقیہ کی قسمیں== | ||
تقیہ کرنے کے اہداف اور اس کے محرکات کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں ہیں:<ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیه، 1416ھ، ج1، ص410.</ref> | |||
تقیہ خوفی: جب مخالف کی طرف سے مالی، جانی یا آبرو خطرے میں پڑنے اور اسے نقصان پہنچائے جانے کا خطرہ ہو۔ اسے تقیہ خوفی کہتے ہیں۔ <ref>امام خمینی، المکاسب المحرمه، 1415ھ، ج2، ص236؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص377.</ref> [نوٹ|مالی نقصان یا عزت و آبرو پر آنچ جیسے نقصان کا خوف، خود انسان کو یا اس سے متعلقہ افراد حتیٰ کہ اسلامی معاشرہ اور مسلمانوں کے لیے اس جیسے نقصان کا اندیشہ ہو تو یہ بھی تقیہ کے لیے ایک وجہ ہو سکتا ہے۔ (امام خمینی، الراشد الاشراح، 1420ھ، ص7۔)] تقیهٔ خوفی میں [[اکراہ]] یا اجبار درکار ہوتا ہے جس کے مطابق انسان کو اپنے عقیدے کے برخلاف ایک عمل یا عقیدے کے اظہار پر مجبور کیا جاتا ہے؛ مثلا اس سے کفریہ عقیدے کا اظہار کرایا جائے۔<ref>روحانی، فقه الصادق، 1413ھ، ج11، ص394.</ref> تقیہ خوفی کی دوسری قسم یہ ہے کہ انسان اپنی یا اپنے متعلقہ شخص کی جان بچانے کے لیے اپنے عقیدے کو چھپاتا ہے۔ اسے تقیہ کتمانی کہتے ہیں۔<ref>امام خمینی، المکاسب المحرمه، 1415ھ، ج2، ص236؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص492.</ref> [[عمار یاسر]] نے [[مشرکین]] [[قریش]] کے سامنے اپنی جان بچانے کے لیے جو تقیہ کیا وہ اکراہی یا اجباری تقیہ ہے، <ref>روحانی، فقه الصادق، 1413ھ، ج11، 395.</ref> اسی طرح [[مومن آل فرعون]] اور [[اصحاب کہف]] نے اپنی جان بچانے کے لیے بطور تقیہ اپنے عقیدے کو چھپا لیا وہ تقیہ کتمانی کا ایک نمونہ ہے۔<ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیه، 1416ھ، ج1، ص410.</ref> | |||
تقیه مداراتی: (خاطر داری اور مہربانی کا اظہار کرنا) تقیہ کی اس قسم کو تقیہ تحبیبی بھی کہتے ہیں، <ref>مکارم شیرازی، داستان یاران (مجموعه بحثهای تفسیری آیتالله مکارم شیرازی)، 1390ہجری شمسی، ص61-65.</ref> اس قسم کے تقیہ میں مختلف مصلحتوں کو مد نظر رکھ کر اپنے عقیدےکو چھپایا جاتا ہے جیسے اتحاد و یگانگت پیدا کرنا، محبت اور دوستی کا اظہار کرنا یا آپس کی دشمنیوں کے خاتمے کے لیے خاطر داری کرنا وغیرہ۔ اس قسم کے تقیہ میں بطور کلی ان امور کو مد نظر رکھا جاتا ہے جن کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور عقیدے کا اظہار اتنی اہمیت نہیں رکھتا۔<ref>امام خمینی، المکاسب المحرمه، 1415ھ، ج2، ص236؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیه، 1416ھ، ج2، ص410.</ref> بعض [[شیعہ]] [[فقہا]]، ائمہ معصومین علیہم السلام کی روایات <ref>کلینی، الکافی، 1387ہجری شمسی، ج3، ص555؛ حر عاملی، وسائل الشیعه، 1413ھ، ج8، ص430.</ref> سے استناد کرتے ہوئے [[اہل سنت]] کے اجتماعات میں شرکت کرنے (جان بچانے کے لیے نہیں) جیسے کہ ان کے ساتھ [[نماز باجماعت]] ادا کرنا (خاص طور پر حج کے موسم میں)، ان کے مریضوں کی [[عیادت]] کرنا، ان کی [[تشییع جنازہ]] میں شرکت کرنا اور دیگر سماجی معاملات جیسے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے ان کے ساتھ آمد و رفت رکھنا، [[مسلمانوں]] کی عزت و وقار کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا،آپس کی بدگمانیوں اور شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لیے ان کے ساتھ اجتماعی امور میں مشارکت کو تقیہ مداراتی یا تحبیبی کی بیناد پر ضروری سمجھتے ہیں۔<ref>امام خمینی، الرسائل العشرة، 1420ھ، ص56-57؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص453؛ مکارم شیرازی، داستان یاران (مجموعه بحثهای تفسیری آیتالله مکارم شیرازی)، 1390ہجری شمسی، ص56-57.</ref> | |||
تقیہ کی کچھ اور اقسام بھی ہیں، <ref>ملاحظہ کریں: امام خمینی، الرسائل العشرة، 1420ھ، ص7-10؛ فاضل هرندی، «تقیه سیاسی»، ص98.</ref> [[امام خمینی]] نے کئی اور اعتبار سے تقیہ کی قسمیں بیان کی ہیں مثلا تقیہ کرنے والا شخص، جس شخص کے سامنے تقیہ کیا جارہا ہے اور موضوع تقیہ کو ملحوظ خاطر رکھ کر اس کی مختلف قسمیں بیان کی ہیں۔<ref>امام خمینی، الرسائل العشرة، 1410ھ، ص7-10.</ref> | |||
بعض [[فقہاء]] نے تقیہ کے شرائط اور اس کی مختلف صورتحال کو مد نظر رکھ اس کی تین قسمیں بیان کی ہیں؛ سیاسی تقیہ، یعنی سیاسی طاقتوں کے سامنے تقیہ کرنا، شرعی احکام بیان کرنے میں تقیہ کرنا جسے فقہی تقیہ کہتے ہیں اور سماجی و اجتماعی امور؛ جیسے لوگوں کے ساتھ اجتماعی امور میں مصلحتوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر تقیہ کرنا۔<ref>سلطانی رنانی، «امام صادق(ع) و مسأله تقیه»، ص35.</ref> | |||
==احکام== | |||
[[فقہاء]] نے تقیہ کے [[قرآن|قرآنی]] اور [[روایت|روائی]] دلائل سے استناد کرتے ہوئے اس کے مختلف [[شرعی احکام]] بیان کیے ہیں: | |||
===حکم تکلیفی=== | |||
حکم تکلیفی کے لحاظ سے تقیہ کی پانچ قسمیں ہیں:<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص118؛ شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص157؛ شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص73-74؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص389.</ref> | |||
تقیہ واجب: [[شیعہ]] فقہاء کی نظر میں اگر انسان کو اپنے مخالف کے پاس عقیدہ کے اظہار سے اس کی یا اپنے متعلقہ شخص کی جان و مال یا آبرو کے خطرے میں پڑنے کا یقین یا گمان ہو تو اس صورت میں اس خطرے کے ٹلنے کی حد تک تقیہ کرنا [[واجب]] ہے۔<ref>شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، ج2، ص435؛ شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص257؛ شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص73-74؛ سبحانی، التقیة؛ مفهومها، حدها، دلیلها، 1430ھ، ص67.</ref> اس مورد میں تقیہ کے واجب ہونے کا معیار یہ ہے کہ جس چیز کی تقیہ کے ذریعے حفاظت کی جارہی ہے اس کی حفاظت کرنا واجب ہو اور اسے نقصان پہنچانا [[حرام]] ہو۔<ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص411؛ مکارم شیرازی، تقیه و حفظ نیروها، ترجمه سید محمدجواد بنی سعید لنگرودی، 1394ہجری شمسی، ص94.</ref> | |||
تقیہ مستحب: تقیہ نہ کرنے کی وجہ سے فورا نقصان سے روبرو نہ ہو لیکن اس بات کا خوف ہو کہ بتدریج نقصان کو تحمل کرنا پڑے گا؛ اس صورت میں تقیہ کرنا [[مستحب]] ہے۔<ref>شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص157؛ شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص73-74.</ref> بعض فقہاء کی نظر میں مداراتی تقیہ یعنی خاطر داری اور مہربانی کے اظہار کے لیے تقیہ کرنا اس مورد کے مصادیق میں سے ہے۔<ref>شیخ انصاری، رسائل فقهیة، 1414ھ، ص75؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص452-451.</ref> [[شیخ انصاری]] (متوفیٰ: 1281ھ) کے نزدیک تقیہ مستحب ان موارد میں ہے جہاں روایات میں اس کی صراحت ہوئی ہو؛ جیسے [[اہل سنت]] کے ساتھ آمد و رفت برقرار کرنا، ان کے مریضوں کی عیادت کرنا، ان کی [[مساجد]] میں جاکر [[نماز]] پڑھنا، ان کی تشییع جنازہ میں شریک ہونا وغیرہ۔ [[شیخ انصاری]] کے فتوی کے مطابق روایات میں مذکور موارد سے ہٹ کر دوسری چیزوں کی نسبت تقیہ کرنا جائز نہیں۔ مثلا اتحاد بین المسلمین کے لیے شیعہ بزرگ شخصیات کی مذمت کرنا اور اس طرح کے دیگر موارد۔<ref>شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص75.</ref> | |||
تقیہ مکروه: تقیہ مکروہ اس صورت میں ہے جب تقیہ کو ترک کر کے نقصان کو برداشت کرنا بہتر کام شمار ہوتا ہو۔<ref>شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص75.</ref> [[شہید اول]] کے بقول تقیہ [[مکروہ]] اس صورت میں متحقق ہوتا ہے جب کسی مستحب کام کو انجام دینے سے نہ فورا نقصان کا سبب بنتا ہے اور نہ ہی آیندہ اس سے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔<ref> شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص157.</ref> | |||
تقیہ مباح: تقیہ کو انجام دینا اور اسے ترک کرنا کوئی فرق نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں تقیہ [[مباح]] ہوگا۔<ref>مکارم شیرازی، تقیه و حفظ نیروها، ترجمه سید محمدجواد بنی سعید لنگرودی، 1394ہجری شمسی، ص37.</ref> شیخ انصاری کے بقول تقیہ مباح ایسا تقیہ ہے جس کے انجام دینے سے ایک ایسا نقصان دور ہوتا ہے جس کا موجود ہونا یا موجود نہ ہونا [[شرعی]] لحاظ سے برابر ہو۔<ref>شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص75.</ref> | |||
تقیہ حرام: تقیہ کے ترک کرنے سے کسی قسم کا نقصان اور ضرر(فورا یا آیندہ) نہ پہنچتا ہو تو اس صورت میں تقیہ کرنا [[حرام]] ہے۔<ref>شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص157.</ref> شیعہ [[فقہاء]] نے تقیہ حرام کے دو مصادیق بیان کیے ہیں:<ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص415.</ref> | |||
1: تقیہ کرنا [[دین اسلام|دین]] کی نابودی کا سبب بنے یا اس میں [[بدعت]] پیدا ہونے کا سبب بنتا ہو؛ <ref>روحانی، فقه الصادق، 2423ھ، ج22، ص407-409؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 2426ھ، ج2، ص425؛ سبحانی، التقیة؛ مفهومها، حدها، دلیلها، 2430ھ، ص67؛ حر عاملی، وسائل الشیعه، 2423ھ، ج26، ص226.</ref> | |||
2: مشہور شیعہ [[فقہاء]] کے مطابق، <ref>روحانی، فقه الصادق، 1413ھ، ج11، ص405.</ref> تقیہ کرنا کسی دوسرے کے خون بہانے کا سبب بنے تو اس وقت تقیہ کرنا حرام ہے۔ مثلا کسی شخص سے کہا جائے کہ فلاں [[مومن]] کو [[قتل]] کرے ورنہ وہ خود قتل کیا جائے گا؛ اس مورد میں یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی جان بچانے کے بہانے سے اس مومن کو قتل کرے۔<ref>خمینی، الرسائل العشرة، 1420ھ، ص20-21؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص429؛ کلینی، الکافی، 1387ہجری شمسی، ج3، ص557.</ref> | |||
== | ===حکم وضعی=== | ||
تقیہ کی | فقہاء نے تقیہ کے حکم وضعی کا جائزہ اس طرح لیا ہے کہ، تقیہ کے مطابق انجام دیے گئے عمل کو تقیہ کی صورت حال سے نکلنے کے بعد کیا دوبارہ انجام دیا جانا چاہیے؟<ref>شیخ انصاری، رسائل فقهیة، 1414ھ، ص؛ روحانی، فقه الصادق، 1413ھ، ج11، ص426.</ref>مثلا [[نماز]] کی حالت میں (تَکَتُّف) ہاتھ باندھنا <ref>موسسه دائرة المعارف الفقه الاسلامي، فرهنگ فقه فارسي، ج2، ص598.</ref> اہل سنت کے ہاں مستحب اور شیعہ مذہب میں جائز نہیں <ref>نجفی، جواهر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج11، ص15.</ref> اگر مکلف تقیہ کرتے ہوئے ہاتھ باندھ کر نماز پڑھ لے تو تقیہ کی حالت ختم ہونے بعد کیا اس نماز کو دوبارہ ادا یا قضا کی نیت سے پڑھنی ہوگی؟ملاحظہ کریں: <ref>شیخ انصاری، رسائل فقهیة، 1414ھ، ص77</ref> | ||
شیعہ فقہاء کے مطابق تقیہ کے ساتھ انجام پایا ہوا عمل چونکہ شارع کے حکم سے ہے لہذا اسے دوبارہ انجام دینے کی ضرورت نہیں۔ <ref>شیخ انصاری، رسائل فقهیة، 1414ھ، ص77؛ روحانی، فقه الصادق، 1413ھ، ج11، ص429؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص444.</ref> البتہ دسویں صدی ہجری کے شیعہ [[مجتہد]] محقق کَرکَی کا نظریہ یہ ہے کہ جن اعمال کا نام [[روایات]] میں صراحت کے ساتھ لیا گیا ہے انہیں دوبارہ انجام دینے کی ضرورت نہیں جیسے تکتف یا پاؤں پر مسح کرنے کے بجائے اسے دھو لیا جائے۔<ref>محقق کرکی، رسائل المحقق الکرکی، مکتبة آیتالله العظمی مرعشی نجفی، ج2، ص52.</ref> | |||
تقیہ کا | |||
==جواز تقیہ کے دلائل== | |||
شیعہ فقہاء نے تقیہ کے جواز پر چار معروف دلائل؛ [[قرآن]]، [[احادیث]]، [[اجماع]] اور [[عقل]] پیش کیے ہیں: | |||
===قرآن=== | |||
فقہاء نے تقیہ کے جواز پر قرآن کی جس [[آیت]] سے استناد کیا ہے وہ [[سورہ نحل]] کی آیت 106ہے جو کہ مہمترین دلیل شمار ہوتی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، القوائد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص392؛ روحانی، فقه الصادق، 1413ھ، ج11، ص396.</ref> | |||
جو شخص اپنے [[ایمان]] کے بعد [[اللہ]] کا انکار کرے (اس کے لیے سخت عذاب ہے) بجز اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں). | |||
[[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] مفسرین کی اکثریت کا اس آیت کے [[شان نزول]] کی بابت کہنا ہے کہ یہ آیت [[عمار بن یاسر|عمار یاسر]] کے بارے میں [[نزول قرآن|نازل]] ہوئی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج6، ص428؛ طبرسی، مجمعالبیان، 1415ھ، ج6، ص203؛ طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج12، ص358؛ قرطبی، تفسیرالقرطبی، 1384ھ، ج10، ص280؛ ابنکثیر، تفسیر القرآن العظیم (ابنکثیر)، 1419ھ، ج4، ص520؛ بیضاوی، تفسیر البیضاوی (انوار التنزیل و اسرار التأویل)، 1418ھ، ج3، ص422.</ref> | |||
[[مشرکین]] کے ظلم و ستم کے تحت عمار بن یاسر کو [[اسلام]] اور [[پیغمبر اکرمؐ]] سے متعلق ظاہری طور پر برائت کے کلمات کہنے پڑے۔ بعض لوگوں نے خیال کیا کہ عمار [[کافر]] ہو گئے ہیں۔ جب عمار کا یہ واقعہ [[رسول اللہ]] تک پہنچا تو آپؐ نے فرمایا: عمار کا دل ایمان سے سرشار ہے اور [[توحید]] پر ان کو مکمل یقین ہے۔ اس واقعے کے بعد عمار گریہ کرتے ہوئے [[رسول خداؐ]] کے پاس آئے تو آپؐ نے انہیں تسلی دی اور نصیحت کی کہ اگر وہ دوبارہ اس طرح کی مصیبت میں مبتلا ہوجائے تو دوبارہ یہی طریقہ کار اپنا سکتا ہے۔<ref>شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج6، ص428؛ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص203؛ طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج12، ص358؛ قرطبی، تفسیر القرطبی، 1384ھ، ج10، ص180؛ ابنکثیر، تفسیر القرآن العظیم (ابنکثیر)، 1419ھ، ج4، ص520؛ بیضاوی، تفسیرالبیضاوی (انوار التنزیل و اسرار التأویل)، 1418ھ، ج3، ص422.</ref> | |||
فقہاء نے اس آیت کے علاوہ [[سورہ غافر]] آیت28 اور [[سورہ آل عمران]] کی آیت 28 سے بھی تقیہ کے جواز کے لیے استناد کیا ہے.<ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص394؛ روحانی، فقهالصادق، 1413ھ، ج11، ص397.</ref> | |||
=== | ===احادیث=== | ||
سید محمد صادق روحانی اور ناصر مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ تقیہ کے جواز پر احادیث [[تواتر]] کی حد تک ہیں۔ | |||
<ref>روحانی، فقه الصادق، 1413ھ، ج11، ص399؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص396.</ref> ان احادیث کو چند گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: | |||
وہ [[احادیث]] جن کا مضمون یہ ہے کہ تقیہ مومن کا سپر اور اس کا محافظ ہے؛<ref>حر عاملی، وسائل الشیعه، 1413ھ، ج27، ص88؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص396.</ref> | |||
کچھ احادیث میں اس طرح کی تعبیر آئی ہے: «لا دینَ لِمَن لا تَقِیَّةَ لَه؛ (ضرورت کے موقع پر) جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں»؛<ref>حر عاملی، وسائل الشیعه، 1413ھ، ج16، ص210؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص398.</ref> | |||
کچھ دیگر احادیث کا مضمون یہ ہے کہ تقیہ [[اللہ]] اور اس کے [[اولیا]] کے نزدیک عظیم فرائض اور محبوب ترین چیزوں میں سے ہے؛<ref>حر عاملی، وسائل الشیعه، 2423ھ، ج26، ص206-208؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 2426ھ، ج2، ص399.</ref> | |||
احادیث کا ایک اور مجموعہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ [[انبیا|انبیائے الہی]] بھی تقیہ کرتے تھے.<ref>ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسائل الشیعه، 1413ھ، ج16، ص208-220؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص401.</ref> | |||
فقہاء نے ان احادیث کے علاوہ "لاضرر" سے متعلق احادیث، "برائت" و "سبّ" (دشمنوں سے جان بچانے کے لیے پیغمبران اور ائمہؑ کی نسبت برائت اور انہیں سبّ کرنے کےجواز پر دلالت کرنے والی روایات) سے متعلق احادیث اور حدیث "رفع" وغیرہ سے تقیہ کا جواز اور اس کی مشروعیت ثابت کی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: روحانی، فقه الصادق، ج11، 1413ھ، ص399-405.</ref> | |||
===اجماع=== | |||
محقق کرکی کا ادعا ہے کہ تقیہ کے جواز پر تمام شیعہ فقہاء کا [[اجماع]] ہے۔<ref>محقق کرکی، رسائل المحقق الکرکی، مکتبة آیتالله العظمی مرعشی نجفی، ج2، ص51.</ref> | |||
===عقل=== | |||
فقہاء نے تقیہ کے جواز پر [[عقل|عقلی دلیل]] اس طرح سے پیش کی ہے کہ تقیہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی روز مرہ زندگی میں زیادہ اہمیت کے حامل ایک کام کو کم اہمیت کام پر ترجیح دیتا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص388.</ref> پس اہم کو مہم پر ترجیح دینا اور اسے مقدم سمجھنا ایک عقلی معاملہ ہے۔ اس کی وضاحت یہ کہ جب انسان دو کاموں کو سرانجام دینے پر مامور ہو لیکن ایک ہی وقت میں دونوں کام کو انجام دینا ممکن نہیں تو اس صورت میں وہی کام انجام دے گا جس کی اہمیت اور مصلحت زیادہ ہو۔ یہ عقل کا ایک اصولی فیصلہ ہے۔<ref>صدر، دروس فی علم الاصول، 1429ھ، ج2، ص234.</ref> ضرر اور نقصان سے بچنا؛ اس سے اہم یہ کہ انسان کا اپنی جان بچانا عقلی طور پر ان [[واجب]] اعمال میں سے ہے جو [[عقیدے]] کے اظہار پر ترجیح رکھتا ہے۔ پس نقصان سے بچ کر رہنا اور جان کی حفاظت کرنا عقلی اعتبار سے بھی ایک [[واجب|واجب عمل]] ہے۔<ref>فاضل مقداد، اللوامع اللهیه، 1422ھ، ص377.</ref> | |||
== | ==تقیہ اور توریہ کا باہمی رابطہ== | ||
توریہ کا مطلب یہ ہے کہ بات کرنے والا اپنے الفاظ سے ایسا معنی ارادہ کرے جو اگرچہ حقیقت پر مبنی ہو لیکن سننے والا اس کے برخلاف مطلب حاصل کرے۔ <ref>شیخ انصاری، کتاب المکاسب، 1415ھ، ج2، ص17.</ref> کبھی توریہ کی شکل میں تقیہ کیا جاتا ہے؛ کہا جاتا ہے کہ یہ تقیہ کی بہترین قسم ہے اور جتنا ممکن ہوسکے اور بہتر یہ ہے کہ اسی طرح تقیہ کیا جانا چاہیے۔ <ref>گلستانه اصفهانی، منهج الیقین، 1388ہجری شمسی، ص83.</ref> | |||
اس سلسلے میں نمونے کے طور پر برادران [[حضرت یوسف]] کا واقعہ بیان کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح حضرت یوسف کے بھائی گندم لینے آپؑ کے پاس آئے۔ [[آیات|قرآنی آیات]] کے مطابق جب برادران یوسف کا سامان باندھا گیا تو حضرت یوسف نے اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس رکھنے کی تدبیر کے طور پر سرکاری پیالی کو چھپا کر ان کے سامان میں رکھوا لیا۔ سرکاری ترجمان نے پکار کر کہا: اے قافلہ والو! تم چور ہو۔ اس سلسلے میں واردہ شدہ [[احادیث]] اور مفسرین کے مطابق حضرت یوسفؑ نے اپی ایک خاص مصلحت کے حصول کی خاطر تقیہ کرتے ہوئے توریہ اور حیلہ سےکام لیا؛ یعنی یہاں حضرت یوسف کا مقصود یہ نہیں تھا کاروان والوں نے در واقع چوری کی ہے، بلکہ آپکا مقصود یہ تھا کہ تم لوگوں نے حضرت یوسف کو ان کے باپ سے چرا کر ان کو کنواں میں پھینک دیا ہے۔ <ref>طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص355؛ کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص217؛طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1363ہجری شمسی، ج11، ص223؛ مکارم شیرازی، تقیه و حفظ نیروها، ترجمه سید محمدجواد بنی سعید لنگرودی، 1394ہجری شمسی، ص68.</ref> | |||
== | ==اہل سنت کا نظریہ=== | ||
کتاب "الموسوعة الفقهیة الکویتیة" (فقہ اہل سنت کے موضوع پر 45 جلدوں پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا) کے مطابق علمائے [[اہل سنت]] کی اکثریت ضرورت کے موقعوں پر تقیہ کرنے کو جائز سمجھتی ہے؛ یعنی جہاں انسان کو کوئی جانی یا مالی خطرہ لاحق ہو تو اس خطرے کو ٹالنے کی حد تک تقیہ کرنا [[جائز]] ہے۔<ref>جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، 1404ھ، ج13، ص186-187.</ref> | |||
علمائے [[اہل سنت]] تقیہ کے جواز اور اس کی مشروعیت کے اثبات کے لیے [[سورہ آل عمران]] آیہ28، [[سورہ نحل]] آیہ106<ref>جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، 1404ھ، ج13، ص186-187.</ref> کے علاوہ احادیث سے بھی استناد کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج9، ص19؛ هیثمی، کشف الاستار، 1399ھ، ج4، ص113؛ طبرانی، المعجم الکبیر، 1415ھ، ج20، ص94؛ حبیب العمیدی، تقیه از دیدگاه مذاهب و فرقههای اسلامی غیر شیعی، ترجمه محمدصادق عارف، 1377ہجری شمسی، ص72-77.</ref> | |||
=== | ==تقیہ کے مخالف اسلامی فرقے== | ||
اہل سنت کے بعض فرقے جیسے [[وہابیت|وہابی فرقہ]] تقیہ کو جائز نہیں سمجھتا اور اسے تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور تقیہ پر عمل کرنے کی وجہ سے [[شیعوں]] کی ملامت کرتا ہے۔ <ref>نوری، «نقد دیدگاه ابنتیمیه در باب تقیه»، ص149.</ref> کہا جاتا ہے کہ شیعہ فرقوں میں سے صرف [[زیدیہ]] تقیہ کا مخالف ہے۔<ref>مشکور، مدیر شانهچی، فرهنگ فرق اسلامی، آستان قدس رضوی، ص218.</ref> | |||
[[ابن تیمیہ]] اور ان کے پیروکار [[وہابیوں]] کا اعتراض یہ ہے کہ تقیہ ایک قسم کا جھوٹ اور [[نفاق|منافقت]] ہے۔ | |||
[[ | <ref>ملاحظہ کریں: ابنتیمیه، منهاج السنة النبویة، 1406ھ، ج1، ص68 و ج2، ص46؛ القفاری، اصول المذهب الشیعه الاثنی العشریة (عرض و نقد)، 1414ھ، ج2، ص819؛ الهی ظهیر الباکستانی، الشیعة و التشیع، 1415ھ، ص88.</ref> مگر اس کا جواب یہ ہے کہ تقیہ کا منافقت سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ تقیہ اور نفاق ایسے دو الفاظ ہیں جن کے معانی آپس میں مکمل طور تضاد رکھتے ہیں؛ کیونکہ منافقت یہ ہے کہ انسان اپنا [[کفر]] اور باطل نظریہ پوشیدہ رکھے اور ایمان کا اظہار کرے؛ حالانکہ تقیہ میں ایمان کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے اور کفر کا اظہار کیا جاتا ہے۔<ref>سبحانی، التقیة؛ مفهومها، حدها و دلیلها، ص74.</ref> | ||
==== | ==مونوگرافی== | ||
مستل طور پر تقیہ کے بارے میں عربی اور فارسی زبان میں لکھی جانے والی کتابیں اور رسالے یہ ہیں: | |||
رسالةٌ فی التَّقیّة: یہ محقق کرکی کی کتاب "رسائل المحقق الکرکی" کا ایک مختصر حصہ ہے جس میں تقیہ کے [[فقہی احکام]] کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ کتاب 3 جلدوں پر مشتمل ہے اور تیسری جلد میں تقیہ سے متعلق بحثیں شامل ہیں جس کی طباعت بھی ہوچکی ہے۔<ref>محقق کرکی، رسائل المحقق الکرکی، مکتبة آیتالله العظمی مرعشی نجفی، ج2، ص49.</ref> | |||
[[ | رسالةٌ فی التَّقیه: یہ [[شیخ انصاری]] کا تدوین کردہ رسالہ ہے جس میں تقیہ کے فقہی احکام بیان کیے گئے ہیں۔ تقیہ سے متعلق یہ رسالہ، دیگر کچھ رسائل کے ساتھ "رَسائلُ فقهیہ" کےنام سے چھپ چکا ہے۔<ref>شیخ انصاری، رسائل فقهیة، 1414ھ، ص71.</ref> | ||
التقیة: یہ رسالہ [[امام خمینیؒ]] نے تحریر کیا ہے جس میں تقیہ کے فقہی احکام بیان کیے گئے ہیں۔ امام خمینی نے اسے تدریس کے بعد سنہ1373ہجری میں شائع کیا ہے۔<ref>امام خمینی، الرسائل العشرة، 1420ھ، ص1.</ref> یہ رسالہ دیگر چند رسالوں کے ساتھ "الرَّسائلُ العَشرة" کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔<ref>امام خمینی، الرسائل العشرة، 1420ھ، ص7.</ref> | |||
تقیه از دیدگاه مذاهب و فرقههای اسلامی غیرشیعی: اس کتاب کو ثامر ہاشم العمیدی نے عربی میں تحریر کی ہے اور محمدصادق عارف نے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب میں [[اہل سنت]] کے چاروں مذاہب کے فقہاء کے تقیہ سے متعلق نظریات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کے مصنف کا کہنا ہے کہ اہل سنت مذاہب کے چاروں فقہاء تقیہ کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں [[قرآن]] و سنت سے دلائل پیش کرتے ہیں۔<ref>حبیب العمیدی، تقیه از دیدگاه مذاهب و فرقههای اسلامی غیر شیعی، ترجمه محمدصادق عارف، 1377ہجری شمسی، ص12-13.</ref> | |||
تقیه سپری برای مبارزه عمیقتر: اس کتاب کو ناصر مکارم شیرازی نے تدوین کی ہے۔ اس قلمی اثر کے کلی موضوعات یہ ہیں: تقیہ کے [[فقہی]] اور [[اخلاق|اخلاقی]] پہلؤوں کا جائزہ اور اس پر کیے گئے اعتراضات کے جوابات، تقیہ کے لغوی اور اصطلاحی معنی، انسانی مکاتب میں تقیہ کا تاریخی پس منظر اور انبیائے الہی کی سیرت، تقیہ کا مقصد اور اس کے قرآنی، حدیثی، کلامی، اخلاقی اور فقہی پہلؤوں پر نظر اور اس سلسلے میں رائج سوالات کے جوابات۔ | |||
== حوالہ جات == | == حوالہ جات == | ||
سطر 97: | سطر 115: | ||
== مآخذ == | == مآخذ == | ||
*ابنکثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم (ابنکثیر)، بیروت، دار الکتب العلمیه، 1429ھ. | |||
*ابنمنظور، محمد بن مکرم، لسانالعرب، بیروت، دارالصادر، چاپ سوم، 1424ھ. | |||
* | *ابنتیمیه، تقیالدین ابوالعباس، منهاج السنة النبویة فی نقض كلام الشیعة القدریة، عربستان سعودی، جامعة الامام محمد بن سعود الاسلامیة، چاپ اول، 1406ھ. | ||
* | *القفاری، ناصر بن عبدالله، اصول المذهب الشیعة الاثنی العشریة (عرض و نقد)، عربستان سعودی، دارالنشر، چاپ اول، 1424ھ. | ||
*الهی ظهیر الباکستانی، احسان، الشیعة و التشیع، لاهور، ادارة ترجمان السنة، 1415ھ. | |||
*امام خمینی، سید روحالله، المکاسب المحرمه، قم، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1415ھ. | |||
* | *بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیحالبخاری، دمشق، دار طوق النجاة، 1422ھ. | ||
*بیضاوی، عبدالله بن عمر، تفسیرالبیضاوی (انوار التنزیل و اسرار التأویل)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1418ھ. | |||
*حبیب العمیدی، ثامرهاشم، تقیه از دیدگاه مذاهب و فرقههای اسلامی غیر شیعی، ترجمه محمدصادق عارف، مشهد، بنیاد پژوهشهای اسلامی، 1377ہجری شمسی. | |||
* | *حر عاملی، محمد بن حسن، وسائلالشیعه، قم، مؤسسه آلالبیت، 1413ھ. | ||
* | *دایرةالمعارف فقه اسلامی، فرهنگ فقه فارسی، قم، دایرةالمعارف فقه اسلامی، 1387ہجری شمسی. | ||
* | *روحانی، سید محمدصادق، فقهالصادق، قم، انتشارات دارالفکر، 1423ھ. | ||
*سبحانی، جعفر، التقیة؛ مفهومها، حدها، دلیلها، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، 1430ھ. | |||
*سلطانی رنانی، مهدی، [https://ebookshia.com/books/view/925/امام+صادق+(ع)+و+مساله+تقیه «امام صادق(ع) و مسأله تقیه»]، در فرهنگ کوثر، شماره 58، سال 1383ہجری شمسی. | |||
*شهید اول، محمد بن مکی، القواعد و الفوائد، قم، مکتبة المفید، بیتا. | |||
* | *شیخ انصاری، مرتضی، رسائل فقهیة، قم، انتشارات باقری، چاپ اول، 1414ھ. | ||
*شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا. | |||
* | *شیخ مفید، محمد بن محمد، اوائلالمقالات، قم، المؤتمر العالمی لألفیة الشیخ المفید، 1413ھ. | ||
* | *شیخ مفید، محمد بن نعمان، تصحیح الاعتقادات الامامیة، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ دوم، 1414ھ. | ||
*صدر، سید محمدباقر، دروس فی علم الاصول، قم، انتشارات دارالصدر، 1429ھ. | |||
* | *صدر، سید محمد، ماوراءالفقه، بیجا، المحبین للطباعة و النشر، 1406ھ. | ||
* | *طاهری اصفهانی، سید جلالالدین، المحاضرات (تقریرات اصول آیتالله سید محمد محقق داماد)، اصفهان، انتشارات مبارک، 1382ہجری شمسی. | ||
* | *طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، بنیاد علمی و فکری علامه طباطبایی، 1363ہجری شمسی. | ||
*طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، قاهره، مکتبة ابنتیمیة، چاپ اول، 1415ھ. | |||
*سبحانی، جعفر، | *طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بیروت، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، چاپ اول، 1415ھ. | ||
* | *فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله، اللوامع اللهیة، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، 1422ھ. | ||
*قرطبی، شمسالدین، تفسیر القرطبی، قاهره، دار الکتب المصریة، 1384ھ. | |||
*کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، قم، دارالحدیث، چاپ اول، 1387ہجری شمسی. | |||
*مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسةالوفاء، 1403ھ. | |||
*محقق کرکی، نورالدین علی بن حسین، جامع المقاصد فی شرح القواعد، قم، کتابخانه آیتالله العظمی مرعشی نجفی، بیتا. | |||
* | *مشکور، محمدجواد و کاظم مدیر شانهچی، فرهنگ فرق اسلامی، مشهد، انتشارات آستان قدس رضوی، بیتا. | ||
*مکارم شیرازی، تقیه و حفظ نیروها، ترجمه سید محمدجواد بنیسعید لنگرودی، قم، مدرسه امام علی بن ابی طالب(ع)، 1394ہجری شمسی. | |||
* | *مکارم شیرازی، ناصر، القواعد الفقهیة، قم، مدرسة الامام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ سوم، 1370ہجری شمسی. | ||
*مکارم شیرازی، ناصر، داستان یاران (مجموعه بحثهای تفسیری حضرت آیتالله العظمی مکارم شیرازی)، قم، مدرسه امام علی بن ابی طالب(ع)، 1390ہجری شمسی. | |||
*نجفی، محمدحسن، جواهرالکلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ هفتم، 1362ہجری شمسی. | |||
*طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، | *نوری، سیدحسین، [https://www.sid.ir/paper/525377/fa#downloadbottom «نقد دیدگاه ابنتیمیه در باب تقیه»]، در پژوهشنامه کلام، شماره 10، بهار و تابستان 1398ہجری شمسی. | ||
* | *هیثمی، نورالدین علی بن ابیبکر، کشفالاستار، بیروت، مؤسسةالرسالة، چاپ اول، 1399ھ. | ||
* | |||
* | |||
* | |||
* | |||
* | |||
*قرطبی، | |||
*کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، چاپ | |||
*مجلسی، | |||
*محقق کرکی، علی بن حسین، | |||
* | |||
* | |||
* | |||
* | |||
* | |||
* | |||
{{عقائد}} | {{عقائد}} |