مندرجات کا رخ کریں

"تقیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

10,734 بائٹ کا اضافہ ،  1 جولائی 2023ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{شیعہ عقائد}}
{{شیعہ عقائد}}
'''تَقیہ''' ایک دینی اصطلاح ہے جس کے معنی کسی خاص مواقع پر اپنے قلبی عقیدے کے برخلاف کسی عقیدے کا اظہار کرنا یا کسی کام کو انجام دینے کے ہیں۔ تقیہ لغت میں منع کرنا، پرہیز کرنا اور چھپانے کے معنی میں آتا ہے۔ دینی اصطلاح میں تقیہ سے مراد حق اور حقیقت کے برخلاف دوسروں کے عقیدے کے مطابق عمل کر کے اپنے آپ کو ان کے گزند سے محفوظ رکھنا ہے۔ [[شیخ مفید]] کی تعبیر کے مطابق مخالفوں کے سامنے کسی دنیوی یا دینی نقصان سے بچنے کی خاطر [[حق]] اور حق پر اعتقاد رکھنے کو چھپانے کا نام تقیہ کہلاتا ہے۔
'''تَقیہ''' ایک دینی اصطلاح ہے جس کے معنی ہیں اپنے مد مقابل شخص کے نقصان(دنیوی یا دینی) سے بچنے کی خاطر اپنا عقیدہ  چھپا کر اپنے [[عقیدہ|قلبی عقیدے]] کے برخلاف کسی عقیدے کا اظہار کرنا یا اپنے عقیدے کے خلاف کسی کام کو انجام دینا۔ تقیہ پر عمل کرنے کے حوالے سے [[اہل تشیع]] حضرات دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے زیادہ مشہور ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ [[شیعہ]] مذہب کے ماننے والے مختلف ادوار میں اپنے مخالفین کی جانب سے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور اقتصادی دباؤ کا شکار رہے ہیں۔
تقیہ کی مختلف قسمیں ہیں۔ شیعہ [[فقہاء]] نے [[قرآن]] کی [[آیات]] اور [[روایات]] [[معصومین علیہم السلام]] کے مطابق تقیہ کے تکلیفی اور وضعی احکام بیان کیے ہیں۔ فقہاء کے نزدیک جہاں مخالفین کے سامنے اپنے عقیدے کے خلاف رائے کا اظہار کرنے سے کسی شخص یا اس سے متعلقہ افراد کی جان و مال اور آبرو کو نقصان پہنچنے سے بچاؤ کی حد تک تقیہ کرنا [[واجب]] ہے۔ تقیہ بعض صورتوں اور حالات کے مطابق [[مستحب]]، [[مکروہ]]، [[مباح]] اور [[حرام]] بھی ہوسکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اکثر [[سنی]] فقہاء بھی جانی اور مالی نقصان کا اندیشہ ہونے کی صورت میں نقصان سے بچاؤ کی حد تک تقیہ کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ اسلامی مذاہب میں سے صرف [[زیدیہ|زیدی]] اور [[وہابیت|وہابی]] فرقہ تقیہ کے خلاف ہیں۔


تقیہ میں [[نفاق]] کے برخلاف کہ جس کا موضوع [[شرک]] اور [[باطل]] کو چھپا کر حق اور حقیقت کا اظہار کرنا ہے، [[مومن]] کسی جانی یا مالی ضرر سے بچنے کی خاطر حق اور حقیقت کے اظہار سے خوداری کرتا ہے۔ اس کے جواز پر [[قرآنی]]، روائی اور عقلی دلائل موجود ہیں۔ منجملہ ان میں سے ایک عقلی توجیہ جو تقیہ کو جائز قرار دیتی ہے وہ انسان کا خود یا اپنی کمیونٹی کو مخالفین کی ظلم اور ستم سے بچانا ہے۔
==تقیہ کے معنی و مفہوم==
دینی یا دنیوی نقصان سے بچنے کی خاطر حق اور اپنے عقیدے کو اپنے مد مقابل مخالف سے چھپانے کو تقیہ کہتے ہیں۔ <ref>شیخ مفید، تصحیح الاعتقادات الامامیة، 1414ھ، ص137.</ref> دوسری عبارت میں کسی مخالف شخص کے نقصان سے بچنے کے لیے اس کے ساتھ گفتار اور کردار کے لحاظ سے اس جیسے عمل کرنا تقیہ کہلاتا ہے۔ <ref>شیخ انصاری، مسائل فقهیة، 1414ھ، ص71.</ref>
لغوی اعتبار سے تقیہ لفظ "وقی" سے مأخوذ ہے۔ جس کے معنی کسی کی تکلیف اور آزار سے بچنے کی خاطر اس سے محفوظ رہنے، رکنے اور کسی چیز کو اس سے چھپانے کے ہیں۔<ref>ابن منظور، لسان العرب، ذیل واژہ  "وقی".</ref>


تقیہ کی بحث پہلی صدی ہجری سے ہی کلامی اور فقہی طور پر مورد بحث واقع ہوتی چلی آرہی ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ ایک طرف سے شیعہ علماء کی اکثریت اپنی علمی آثار میں تقیہ کے موضوع پر کوئی نہ کوئی کتاب یا مقالات کی شکل میں اثر چھوڑ گئے ہیں تو دوسری طرف سے بعض فرق جیسے خوارج بھی تقیہ کے جواز کے قائل تھے اور ہیں۔ بعض مورخین کے مطابق [[مأمون]] عباسی کے دور میں خلیفہ کی دھمکی اور جبر کی وجہ سے بعض دانشمندوں کا ظاہری طور پر قرآن کے مخلوق ہونے کی بات کو قبول کرنا تقیہ کی مصادیق میں سے ہیں۔
==مقام و مرتبہ==
تقیہ کے بارے میں [[فقہی|فقہ]] کتابوں میں اس کےمختلف پہلؤوں پر تحقیق اور جائزہ لیاجاتا ہے۔ مختلف فقہی ابواب جیسے باب [[طہارت]]، [[صلاۃ]]، [[صوم]]، [[حج]] اور [[امر بہ معروف]] اور [[نہی از منکر]] میں تقیہ سے متعلق احکام بیان ہوتے ہیں۔<ref>دایرة المعارف فقه فارسی، فرهنگ فقه فارسی، 1387ہجری شمسی، ج2، ص585.</ref> فقہی قواعد پر مشتمل کتابوں میں اسے ایک قاعدہ کے طور پر جانا جاتا ہے اور بعض [[فقہاء]] نے اس کے بارے میں با قاعدہ سے مستقل کتابیں اور رسالے لکھے ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: بجنوردی، القواعد الفقهیة، 1377ہجری شمسی، ج5، ص49؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص386؛ صدر، ماوراء الفقه، 1406ھ، ج1، ص108.</ref>
اگرچہ تقیہ کا لفظ [[قرآن]] میں نہیں آیا ہے لیکن [[مسلمان|مسلم]] فقہاء کا عقیدہ ہے کہ بعض قرآنی [[آیات]] <ref>ملاحظہ کریں: سوره نحل، آیه 106؛ سوره غافر، آیه 28.</ref> کا تعلق تقیہ سے ہے، لہذا [[فقہاء]] تقیہ کی [[شرعی]] حیثیت کو ثابت کرنے کے لیے انہی آیات سے استناد کرتے ہیں۔ <ref>ملاحظہ کریں: طبرسی، مجمع البیان، 2425ھ، ج6، ص203؛ طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج3، ص153.</ref>
شیعہ [[روائی|روایت]] کتب میں [[ائمہؑ]] سے تقیہ کے بارے میں کثرت سے [[احادیث]] منقول ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: کلینی، الکافی، 1430ھ، ج3، 548-560؛ حر عاملی، وسائل الشیعه، 1423ھ، ج16، ص203-254.</ref> شیعہ [[محدث]] [[یعقوب کلینی]] نے اپنی کتاب [[الکافی]] کے پورے ایک حصے کو "باب التقیہ" کا عنوان دے کر تقیہ سے متعلق 23 روایات کو یہاں ذکر کیا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، 1430ھ، ج3، 548-560.</ref> [[حر عاملی]] نے کتاب [[وسائل الشیعہ]] میں تقیہ کے احکام سے متعلق 146 احادیث کو 22 ابواب میں ذکر کیا ہے۔ <ref>ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسائل الشیعه، 1423ھ، ج16، ص203-254.</ref> اسی طرح اہل سنت کی کتب روائی میں تقیہ سے متعلق احادیث پراکندہ طور مذکور ہیں۔<ref>ملاحظہ کریں: بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج9، ص19؛ هیثمی، کشف الاستار، 1399ھ، ج4، ص113؛ طبرانی، المعجم الکبیر، 1415ھ، ج20، ص94؛ حبیب العمیدی، تقیه از دیدگاه مذاهب و فرقه‌های اسلامی غیر شیعی، ترجمه محمدصادق عارف، 1377ہجری شمسی، ص72-77.</ref>


[[اہل تشیع]] حضرات دوسرے مذاہب سے زیادہ تقیہ پر عمل کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ اس کی وجہ بعض شیعہ فرقوں میں باطن گرائی کی طرف میلان اور مختلف ادوار میں سماجی، ثقافتی اور اقتصادی طور پر مختلف حوالے سے ان کے خلاف ہونے والے اقدامات ہیں۔ اہل سنت کے بعض علماء تقیہ کو شیعوں کی کمزوری خیال کرتے ہیں جبکہ شیعہ علماء اس کا جواب دیتے آئے ہیں اور اس بات سے موافقت نہیں کرتے ہیں.
==شیعہ مذہب میں تقیہ کی حثیت==
تقیہ [[شیعہ]] مذہب کے عقیدتی اور فقہی اہم امور میں سے ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں تقیہ ہی کے ذریعے خود مکتب [[تشیع]] کی حفاظت کے علاوہ اس کی عقیدتی بنیادوں کو تحفظ فراہم ہوتا رہا ہے۔<ref>سلطانی رنانی، «امام صادق(ع) و مسأله تقیه»، ص29.</ref> تاریخی منابع کی گواہی کے مطابق مذہب شیعہ مختلف ادوار میں سماجی اور ثقافتی دباؤ کا شکا رہا ہے اور ان پر سختی اور گھٹن کا ماحول حاکم رہا ہے۔ شیعہ اپنے مخالفین کے درمیان اپنے عقیدے کا کھل کر اعلان نہی کرپاتے، عقیدے کا برملا اعلان جانی اور مالی نقصان پر منتج ہوتا۔ اسی لیے [[ائمہؑ]] اپنے اور اپنے ماننے والوں کی جان کے تحفظ اور شیعہ مکتب کو کمزور اور منتشر ہونے سے بچانے کے لیے تقیہ کو ڈھال کے طور استعمال کرنے کو ضروری سمجھتے تھے۔<ref>ملاحظہ کریں: ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، مکتبة آیت‌الله العظمی مرعشی نجفی، ج11، ص43-47؛ سبحانی، التقیة؛ مفهومها، حدها، دلیلها، 2430ھ، ص24-44؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص407-408.</ref>


==تقیہ کے لغوی معنی==
بعض شیعہ منابع میں «لا دینَ لِمَن لا تَقِیَّةَ لَه؛ تقیہ نہ کرنے والے کا کوئی دین نہیں» جیسی تعابیر استعمال ہوئی ہیں۔ <ref>ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسائل الشیعه، 1413ھ، ج16، ص204-206.</ref>
تقیہ کا لفظ مادہ "و ـ ق ـ ی‌" سے  مصدر یا اسم مصدر کا صیغہ اور <ref>فیومی، مصباح المنیر، ج۲، ص۶۶۹؛ حمیری، شمس العلوم، ج۲، ص ۷۵۸؛ اطفیش، تیسیر التفسیر، ج۲، ص۴۳.</ref> پرہیز کرنا، خوداری کرنا اور مخفی کرنے کے معنی میں آتا ہے۔<ref>ابن منظور، لسان العرب، ج۱۵، ص۴۰۲ و ۴۰۱.</ref>مفسرین، متکلمین اور فقہاء نے تقیہ کی جو تعریف کی ہے وہ کم و بیش لغوی معنی کے نزدیک ہے۔ <ref>دیکھیے: طبری، جامع البیان، ج۳، ص۱۵۳ -۱۵۲؛ سرخسی، المبسوط ج۲۴، ص۴۵؛ خوئی، التنقیح، ج۴، ص۲۵۳؛ رشید رضا، المنار، ج۳، ص۲۸۰؛ مکارم، القواعد الفقہیہ، ج۱، ص۳۹۳.</ref> ان تمام تعاریف میں کسی دنیوی یا اخروی نقصان سے بچنے کی خاطر حق کو چھپانا یا حق کے برخلاف اظہار کرنے کا عنصر پایا جاتا ہے۔
اس طرح کی تعابیر [[ائمہ معصومینؑ]] کے نزدیک تقیہ کی بے حد اہمیت کو بیان کرتی ہیں۔<ref>سبحانی، التقیة؛ مفهومها، حدها و دلیلها، ص76.</ref> [[شیعہ]] [[مرجع تقلید]] آیت اللہ مکارم شیرازی کے مطابق تقیہ صرف مذہب شیعہ تک محدود نہیں <ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ق، ج1، ص388.</ref>مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ دنیا میں کہیں پر کوئی بھی شخص یا اقلیتی گروہ جب اپنے متعصب دشمن اور مخالفین کا سامنا کرتا ہے اور اپنے عقیدے کے اظہار پر جانی یا مالی نقصان کا اندیشہ ظاہر ہو تو اس کی فطرت اور عقل حکم کرتی ہے کہ تقیہ کرتے ہوئے اپنے عقیدے کو چھپالیا جائے<ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص388.</ref>
ائمہؑ کی بعض [[روایات]] میں [[پیغمبر اسلامؐ]] سے ماسبق انبیاء جیسے حضرت شیث،<ref>علامه مجلسی، بحارالانوار، ج75، ص419.</ref> [[حضرت ابراہیم]]،<ref>حر عاملی، وسائل الشیعه، 1413ق، ج16، ص208.</ref> [[حضرت یوسف]] <ref>طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج22، ص238.</ref> اور اصحاب کہف
<ref>علامه مجلسی، بحارالانوار، ج75، ص429 و ج14، ص425-426.</ref> سے متعلق تقیہ کی داستانیں ملتی ہیں۔
آٹھویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ [[شہید اول]] کا کہنا ہے کہ [[ائمہ معصومینؑ]] سے منقول احادیث، تقیہ کے بارے میں گفتگو سے لبریز ہیں اور ائمہؑ کی احادیث میں موجود اختلافات کا ایک اہم سبب تقیہ ہے۔<ref>شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص157.</ref> یہی وجہ ہے کہ تقیہ پر مبنی روایات سے [[احکام شرعی]] استنباط کرنے کے لیے ان روایات کا فہم و ادراک بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔<ref>طاهری اصفهانی، المحاضرات (تقریرات اصول آیت‌الله سیدمحمد محقق داماد)، 1382ہجری شمسی، ج2، ص119</ref>


==اصطلاح میں تقیہ کی تعریف==
==تقیہ کی قسمیں==
شیعہ علماء تقیہ کی ماہیت اور حقیقت میں متفق القول ہیں لیکن اس کے بیان میں مختلف تعابیر پیش کئے ہیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
تقیہ کرنے کے اہداف اور اس کے محرکات کے لحاظ سے اس کی دو قسمیں ہیں:<ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیه، 1416ھ، ج1، ص410.</ref>
    تقیہ خوفی: جب مخالف کی طرف سے مالی، جانی یا آبرو خطرے میں پڑنے اور اسے نقصان پہنچائے جانے کا خطرہ ہو۔ اسے تقیہ خوفی کہتے ہیں۔ <ref>امام خمینی، المکاسب المحرمه، 1415ھ، ج2، ص236؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص377.</ref> [نوٹ|مالی نقصان یا عزت و آبرو پر آنچ جیسے نقصان کا خوف، خود انسان کو یا اس سے متعلقہ افراد حتیٰ کہ اسلامی معاشرہ اور مسلمانوں کے لیے اس جیسے نقصان کا اندیشہ ہو تو یہ بھی تقیہ کے لیے ایک وجہ ہو سکتا ہے۔ (امام خمینی، الراشد الاشراح، 1420ھ، ص7۔)] تقیهٔ خوفی میں [[اکراہ]] یا اجبار درکار ہوتا ہے جس کے مطابق انسان کو اپنے عقیدے کے برخلاف ایک عمل یا عقیدے کے اظہار پر مجبور کیا جاتا ہے؛ مثلا اس سے کفریہ عقیدے کا اظہار کرایا جائے۔<ref>روحانی، فقه الصادق، 1413ھ، ج11، ص394.</ref> تقیہ خوفی کی دوسری قسم یہ ہے کہ انسان اپنی یا اپنے متعلقہ شخص کی جان بچانے کے لیے اپنے عقیدے کو چھپاتا ہے۔ اسے تقیہ کتمانی کہتے ہیں۔<ref>امام خمینی، المکاسب المحرمه، 1415ھ، ج2، ص236؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص492.</ref> [[عمار یاسر]] نے [[مشرکین]] [[قریش]] کے سامنے اپنی جان بچانے کے لیے جو تقیہ کیا وہ اکراہی یا اجباری تقیہ ہے، <ref>روحانی، فقه الصادق، 1413ھ، ج11، 395.</ref> اسی طرح [[مومن آل فرعون]] اور [[اصحاب کہف]] نے اپنی جان بچانے کے لیے بطور تقیہ اپنے عقیدے کو چھپا لیا وہ تقیہ کتمانی کا ایک نمونہ ہے۔<ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیه، 1416ھ، ج1، ص410.</ref>  
    تقیه مداراتی: (خاطر داری اور مہربانی کا اظہار کرنا) تقیہ کی اس قسم کو تقیہ تحبیبی بھی کہتے ہیں، <ref>مکارم شیرازی، داستان یاران (مجموعه بحث‌های تفسیری آیت‌الله مکارم شیرازی)، 1390ہجری شمسی، ص61-65.</ref> اس قسم کے تقیہ میں مختلف مصلحتوں کو مد نظر رکھ کر اپنے عقیدےکو چھپایا جاتا ہے جیسے اتحاد و یگانگت پیدا کرنا، محبت اور دوستی کا اظہار کرنا یا آپس کی دشمنیوں کے خاتمے کے لیے خاطر داری کرنا وغیرہ۔ اس قسم کے تقیہ میں بطور کلی ان امور کو مد نظر رکھا جاتا ہے جن کی زیادہ اہمیت ہوتی ہے اور عقیدے کا اظہار اتنی اہمیت نہیں رکھتا۔<ref>امام خمینی، المکاسب المحرمه، 1415ھ، ج2، ص236؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیه، 1416ھ، ج2، ص410.</ref> بعض [[شیعہ]] [[فقہا]]، ائمہ معصومین علیہم السلام کی روایات <ref>کلینی، الکافی، 1387ہجری شمسی، ج3، ص555؛ حر عاملی، وسائل الشیعه، 1413ھ، ج8، ص430.</ref> سے استناد کرتے ہوئے [[اہل سنت]] کے اجتماعات میں شرکت کرنے (جان بچانے کے لیے نہیں) جیسے کہ ان کے ساتھ [[نماز باجماعت]] ادا کرنا (خاص طور پر حج کے موسم میں)، ان کے مریضوں کی [[عیادت]] کرنا، ان کی [[تشییع جنازہ]] میں شرکت کرنا اور دیگر سماجی معاملات جیسے اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے ان کے ساتھ آمد و رفت رکھنا، [[مسلمانوں]] کی عزت و وقار کو محفوظ رکھنے کے لیے ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرنا،آپس کی بدگمانیوں اور شکوک و شبہات کو دور کرنے کے لیے ان کے ساتھ اجتماعی امور میں مشارکت کو تقیہ مداراتی یا تحبیبی کی بیناد پر ضروری سمجھتے ہیں۔<ref>امام خمینی، الرسائل العشرة، 1420ھ، ص56-57؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص453؛ مکارم شیرازی، داستان یاران (مجموعه بحث‌های تفسیری آیت‌الله مکارم شیرازی)، 1390ہجری شمسی، ص56-57.</ref>


'''[[شیخ مفید]]''' : تقیہ سے مراد کسی دنیوی یا دینی نقصان سے بچنے کیلئے مخالفین کے سامنے حق یا حق پر اعتقاد رکھنے کو چھپانا ہے۔<ref>مفید، تصحیح اعتقادات الامامیہ، ص۱۳۷</ref>
تقیہ کی کچھ اور اقسام بھی ہیں، <ref>ملاحظہ کریں: امام خمینی، الرسائل العشرة، 1420ھ، ص7-10؛ فاضل هرندی، «تقیه سیاسی»، ص98.</ref> [[امام خمینی]] نے کئی اور اعتبار سے تقیہ کی قسمیں بیان کی ہیں مثلا تقیہ کرنے والا شخص، جس شخص کے سامنے تقیہ کیا جارہا ہے اور موضوع تقیہ کو ملحوظ خاطر رکھ کر اس کی مختلف قسمیں بیان کی ہیں۔<ref>امام خمینی، الرسائل العشرة، 1410ھ، ص7-10.</ref>


'''[[فضل بن حسن طبرسی|امین الاسلام طبرسی]]''': تقیہ یہ ہے کہ جان کی حفاظت کی خاطر ایسی چیز زبان پر لانا جس کو انسان کا دل قبول نہ کرتا ہو<ref>طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج۲، ص۷۲۹</ref>
بعض [[فقہاء]] نے تقیہ کے شرائط اور اس کی مختلف صورتحال کو مد نظر رکھ اس کی تین قسمیں بیان کی ہیں؛ سیاسی تقیہ، یعنی سیاسی طاقتوں کے سامنے تقیہ کرنا، شرعی احکام بیان کرنے میں تقیہ کرنا جسے فقہی تقیہ کہتے ہیں اور سماجی و اجتماعی امور؛ جیسے لوگوں کے ساتھ اجتماعی امور میں مصلحتوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر تقیہ کرنا۔<ref>سلطانی رنانی، «امام صادق(ع) و مسأله تقیه»، ص35.</ref>


'''[[شیخ انصاری]]''' : تقیہ سے مراد دوسروں کے ساتھ رفتار یا گفتار میں ان کی پیروی کرتے ہوئے خود کو دوسروں کے گزند سے محفوظ رکھنا ہے ۔ <ref>انصاری، التقیہ، ص۳۷</ref>
==احکام==
[[فقہاء]] نے تقیہ کے [[قرآن|قرآنی]] اور [[روایت|روائی]] دلائل سے استناد کرتے ہوئے اس کے مختلف [[شرعی احکام]] بیان کیے ہیں:
===حکم تکلیفی===
حکم تکلیفی کے لحاظ سے تقیہ کی پانچ قسمیں ہیں:<ref>شیخ مفید، اوائل المقالات، 1413ھ، ص118؛ شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص157؛ شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص73-74؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص389.</ref>
    تقیہ واجب: [[شیعہ]] فقہاء کی نظر میں اگر انسان کو اپنے مخالف کے پاس عقیدہ کے اظہار سے اس کی یا اپنے متعلقہ شخص کی جان و مال یا آبرو کے خطرے میں پڑنے کا یقین یا گمان ہو تو اس صورت میں اس خطرے کے ٹلنے کی حد تک تقیہ کرنا [[واجب]] ہے۔<ref>شیخ طوسی، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، ج2، ص435؛ شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص257؛ شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص73-74؛ سبحانی، التقیة؛ مفهومها، حدها، دلیلها، 1430ھ، ص67.</ref> اس مورد میں تقیہ کے واجب ہونے کا معیار یہ ہے کہ جس چیز کی تقیہ کے ذریعے حفاظت کی جارہی ہے اس کی حفاظت کرنا واجب ہو اور اسے نقصان پہنچانا [[حرام]] ہو۔<ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص411؛ مکارم شیرازی، تقیه و حفظ نیروها، ترجمه سید محمدجواد بنی سعید لنگرودی، 1394ہجری شمسی، ص94.</ref>
    تقیہ مستحب: تقیہ نہ کرنے کی وجہ سے فورا نقصان سے روبرو نہ ہو لیکن اس بات کا خوف ہو کہ بتدریج نقصان کو تحمل کرنا پڑے گا؛ اس صورت میں تقیہ کرنا [[مستحب]] ہے۔<ref>شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص157؛ شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص73-74.</ref> بعض فقہاء کی نظر میں مداراتی تقیہ یعنی خاطر داری اور مہربانی کے اظہار کے لیے تقیہ کرنا اس مورد کے مصادیق میں سے ہے۔<ref>شیخ انصاری، رسائل فقهیة، 1414ھ، ص75؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص452-451.</ref> [[شیخ انصاری]] (متوفیٰ: 1281ھ) کے نزدیک تقیہ مستحب ان موارد میں ہے جہاں روایات میں اس کی صراحت ہوئی ہو؛ جیسے [[اہل سنت]] کے ساتھ آمد و رفت برقرار کرنا، ان کے مریضوں کی عیادت کرنا، ان کی [[مساجد]] میں جاکر [[نماز]] پڑھنا، ان کی تشییع جنازہ میں شریک ہونا وغیرہ۔ [[شیخ انصاری]] کے فتوی کے مطابق روایات میں مذکور موارد سے ہٹ کر دوسری چیزوں کی نسبت تقیہ کرنا جائز نہیں۔ مثلا اتحاد بین المسلمین کے لیے شیعہ بزرگ شخصیات کی مذمت کرنا اور اس طرح کے دیگر موارد۔<ref>شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص75.</ref>
    تقیہ مکروه: تقیہ مکروہ اس صورت میں ہے جب تقیہ کو ترک کر کے نقصان کو برداشت کرنا بہتر کام شمار ہوتا ہو۔<ref>شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص75.</ref> [[شہید اول]] کے بقول تقیہ [[مکروہ]] اس صورت میں متحقق ہوتا ہے جب کسی مستحب کام کو انجام دینے سے نہ فورا نقصان کا سبب بنتا ہے اور نہ ہی آیندہ اس سے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔<ref> شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص157.</ref>
    تقیہ مباح: تقیہ کو انجام دینا اور اسے ترک کرنا کوئی فرق نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں تقیہ [[مباح]] ہوگا۔<ref>مکارم شیرازی، تقیه و حفظ نیروها، ترجمه سید محمدجواد بنی سعید لنگرودی، 1394ہجری شمسی، ص37.</ref> شیخ انصاری کے بقول تقیہ مباح ایسا تقیہ ہے جس کے انجام دینے سے ایک ایسا نقصان دور ہوتا ہے جس کا موجود ہونا یا موجود نہ ہونا [[شرعی]] لحاظ سے برابر ہو۔<ref>شیخ انصاری، رسائل الفقهیة، 1414ھ، ص75.</ref>
    تقیہ حرام: تقیہ کے ترک کرنے سے کسی قسم کا نقصان اور ضرر(فورا یا آیندہ) نہ پہنچتا ہو تو اس صورت میں تقیہ کرنا [[حرام]] ہے۔<ref>شهید اول، القواعد و الفوائد، مکتبة المفید، ج2، ص157.</ref> شیعہ [[فقہاء]] نے تقیہ حرام کے دو مصادیق بیان کیے ہیں:<ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص415.</ref>


==تقیہ اور نفاق کے اشتراکات اور افتراقات==
    1: تقیہ کرنا [[دین اسلام|دین]] کی نابودی کا سبب بنے یا اس میں [[بدعت]] پیدا ہونے کا سبب بنتا ہو؛ <ref>روحانی، فقه الصادق، 2423ھ، ج22، ص407-409؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 2426ھ، ج2، ص425؛ سبحانی، التقیة؛ مفهومها، حدها، دلیلها، 2430ھ، ص67؛ حر عاملی، وسائل الشیعه، 2423ھ، ج26، ص226.</ref>
ایک چیز میں یہ دونوں مشتکر ہیں اور وہ یہ ہے کہ دونوں میں جس چیز پر عقیدہ رکھتے ہیں اسے چھپایا جاتا ہے۔ لیکن [[نفاق]] میں [[کفر]] اور [[باطل]] کو چھپا کر [[ایمان]] کا اظہار کیا جاتا ہے جبکہ تقیہ میں کسی جانی یا مالی نقصان سے بچنے کی خاطر [[حق]] کو چھپا کر باطل اور کفر کا اظہار کیا جاتا ہے۔<ref>نک. فاضل مقداد، اللوامع الالہ یہ  فی المباحث الکلامیہ ، ص۳۷۷ و امین، نقض الوشیعہ ، ص۱۸۵</ref>
    2: مشہور شیعہ [[فقہاء]] کے مطابق، <ref>روحانی، فقه الصادق، 1413ھ، ج11، ص405.</ref> تقیہ کرنا کسی دوسرے کے خون بہانے کا سبب بنے تو اس وقت تقیہ کرنا حرام ہے۔ مثلا کسی شخص سے کہا جائے کہ فلاں [[مومن]] کو [[قتل]] کرے ورنہ وہ خود قتل کیا جائے گا؛ اس مورد میں یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی جان بچانے کے بہانے سے اس مومن کو قتل کرے۔<ref>خمینی، الرسائل العشرة، 1420ھ، ص20-21؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص429؛ کلینی، الکافی، 1387ہجری شمسی، ج3، ص557.</ref>


==تقیہ کی جواز پر دلیل==
===حکم وضعی===
تقیہ کی جواز پر بہت ساری [[قرآن|قرآنی]]، روایی اور عقلی دلائل کے علاوہ [[اجماع]] بھی اس کی جواز پر دلالت کرتی ہے۔
فقہاء نے تقیہ کے حکم وضعی کا جائزہ اس طرح لیا ہے کہ، تقیہ کے مطابق انجام دیے گئے عمل کو تقیہ کی صورت حال سے نکلنے کے بعد کیا دوبارہ انجام دیا جانا چاہیے؟<ref>شیخ انصاری، رسائل فقهیة، 1414ھ، ص؛ روحانی، فقه الصادق، 1413ھ، ج11، ص426.</ref>مثلا [[نماز]] کی حالت میں (تَکَتُّف) ہاتھ باندھنا <ref>موسسه دائرة المعارف الفقه الاسلامي، فرهنگ فقه فارسي، ج2، ص598.</ref> اہل سنت کے ہاں مستحب اور شیعہ مذہب میں جائز نہیں <ref>نجفی، جواهر الکلام، 1362ہجری شمسی، ج11، ص15.</ref> اگر مکلف تقیہ کرتے ہوئے ہاتھ باندھ کر نماز پڑھ لے تو تقیہ کی حالت ختم ہونے بعد کیا اس نماز کو دوبارہ ادا یا قضا کی نیت سے پڑھنی ہوگی؟ملاحظہ کریں: <ref>شیخ انصاری، رسائل فقهیة، 1414ھ، ص77</ref>


===قرآنی دلائل===
شیعہ فقہاء کے مطابق تقیہ کے ساتھ انجام پایا ہوا عمل چونکہ شارع کے حکم سے ہے لہذا اسے دوبارہ انجام دینے کی ضرورت نہیں۔ <ref>شیخ انصاری، رسائل فقهیة، 1414ھ، ص77؛ روحانی، فقه الصادق، 1413ھ، ج11، ص429؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص444.</ref> البتہ دسویں صدی ہجری کے شیعہ [[مجتہد]] محقق کَرکَی کا نظریہ یہ ہے کہ جن اعمال کا نام [[روایات]] میں صراحت کے ساتھ لیا گیا ہے انہیں دوبارہ انجام دینے کی ضرورت نہیں جیسے تکتف یا پاؤں پر مسح کرنے کے بجائے اسے دھو لیا جائے۔<ref>محقق کرکی، رسائل المحقق الکرکی، مکتبة آیت‌الله العظمی مرعشی نجفی، ج2، ص52.</ref>
تقیہ کا لفظ براہ راست قرآن میں نہیں آیا ہے لیکن اس کے مشتقات بعض آیات میں ذکر ہوئے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں متعدد مقامات پر خاص شرائط جیسے اضطراری حالتوں میں تقیہ کی جواز بلکہ وجوب پر مختلف آیات سے استدلال کیا جاتا ہے۔<ref> فاضل مقداد، ص۳۷۷ـ ۳۷۸</ref>


<font color=green>{{قرآن کا متن|«لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّـهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً ۗ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّـهُ نَفْسَهُ ۗ وَإِلَى اللَّـهِ الْمَصِيرُ»|ترجمہ =خبردار صاحبانِ ایمان .مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا و لی اور سرپرست نہ بنائیں کہ جو بھی ایسا کرے گا اس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہوگا مگر یہ کہ تمہیں کفار سے خوف ہو تو کوئی حرج بھی نہیں ہے اور خدا تمہیں اپنی ہستی سے ڈراتا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔|سورت=فجر|آیت=28}}'''</font><br/>
==جواز تقیہ کے دلائل==
اس [[آیت]] کا مخاطب تمام مسلمان ہیں۔ اس آیت کے مطابق صدر اسلام کے مسلمان جو مشرکین کے آذار و اذیت کا سامنا کرنا پڑتا تھا ان کی پیروی کرنے سے مسلمانوں کو منع کی گئی لیکن ضرورت پڑنے کی صورت میں اور کسی جانی یا مالی نقصان کی صورت میں تقیہ کرنے کا مجاز تھے۔<ref>طوسی؛ فخررازی؛ نَسَفی؛ سُیوطی؛ طباطبائی، ذیل آیہ </ref> شیعہ مفسرین اور علماء <ref> طوسی، التبیان؛ طباطبائی، اسی طرح </ref>[[اہل سنّت]]<ref> زمخشری؛ آلوسی؛ مراغی؛ قاسمی، </ref> بھی اس آیت سے تقیہ کے جواز پر استدلال کرتے ہیں۔
شیعہ فقہاء نے تقیہ کے جواز پر چار معروف دلائل؛ [[قرآن]]، [[احادیث]]، [[اجماع]] اور [[عقل]] پیش کیے ہیں:


<font color=green>{{قرآن کا متن|«لَّمَن كَفَرَ بِاللَّـهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَـٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّـهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ»|ترجمہ =جو شخص بھی ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرلے .... علاوہ اس کے کہ جو کفر پر مجبور کردیا جائے اور اس کا دل ایمان کی طرف سے مطمئن ہو ....اور کفر کے لئے سینہ کشادہ رکھتا ہو اس کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔|سورت=نحل|آیت=106}}'''</font><br/>
===قرآن===
فقہاء نے تقیہ کے جواز پر قرآن کی جس [[آیت]] سے استناد کیا ہے وہ [[سورہ نحل]] کی آیت 106ہے جو کہ مہمترین دلیل شمار ہوتی ہے۔<ref>مکارم شیرازی، القوائد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص392؛ روحانی، فقه الصادق، 1413ھ، ج11، ص396.</ref>


یہ [[آیت]] [[عمار یاسر]] اور اسکے مشرکین کے ظلم و بربریت سے بچنے کی خاطر تقیہ اختیار کرتے ہوئے کفر کے اظہار کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ [[پیغمبر اکرمؐ]] نے عمار یاسر کے اس کام کی تائید کرتے ہوئے آئندہ بھی ایسی حالات کے پیش آنے پر اس عمل کو تکرار کرنے کا حکم دیا۔ <ref>واحدی نیشابوری، ص۱۹۰؛ زَمَخْشَری؛ طَبْرِسی؛ قُرطُبی، اسی آیت کے ذیل میں</ref>
    جو شخص اپنے [[ایمان]] کے بعد [[اللہ]] کا انکار کرے (اس کے لیے سخت عذاب ہے) بجز اس شخص کے جسے مجبور کیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان سے مطمئن ہو (تو کوئی حرج نہیں).


<font color=green>{{قرآن کا متن|«و قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَهُ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَن يَقُولَ رَبِّيَ اللَّـهُ وَقَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَاتِ مِن رَّبِّكُمْ ۖ وَإِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ ۖ وَإِن يَكُ صَادِقًا يُصِبْكُم بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ ۖ إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ»|ترجمہ =اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مومن نے جو اپنے ایمان کو حُھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ کسی شخص کو صرف اس بات پر قتل کررہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور وہ تمہارے رب کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا اور اگر سچا نکل آیا تو جن باتوں سے ڈرا رہا ہے وہ مصیبتیں تم پر نازل بھی ہوسکتی ہیں - بیشک اللہ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی رہنمائی نہیں کرتا ہے۔|سورت=غافر|آیت=28}}'''</font><br/>
[[شیعہ]] اور [[اہل سنت]] مفسرین کی اکثریت کا اس آیت کے [[شان نزول]] کی بابت کہنا ہے کہ یہ آیت [[عمار بن یاسر|عمار یاسر]] کے بارے میں [[نزول قرآن|نازل]] ہوئی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج6، ص428؛ طبرسی، مجمع‌البیان، 1415ھ، ج6، ص203؛ طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج12، ص358؛ قرطبی، تفسیرالقرطبی، 1384ھ، ج10، ص280؛ ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم (ابن‌کثیر)، 1419ھ، ج4، ص520؛ بیضاوی، تفسیر البیضاوی (انوار التنزیل و اسرار التأویل)، 1418ھ، ج3، ص422.</ref>
[[مشرکین]] کے ظلم و ستم کے تحت عمار بن یاسر کو [[اسلام]] اور [[پیغمبر اکرمؐ]] سے متعلق ظاہری طور پر برائت کے کلمات کہنے پڑے۔ بعض لوگوں نے خیال کیا کہ عمار [[کافر]] ہو گئے ہیں۔ جب عمار کا یہ واقعہ [[رسول اللہ]] تک پہنچا تو آپؐ نے فرمایا: عمار کا دل ایمان سے سرشار ہے اور [[توحید]] پر ان کو مکمل یقین ہے۔ اس واقعے کے بعد عمار گریہ کرتے ہوئے [[رسول خداؐ]] کے پاس آئے تو آپؐ نے انہیں تسلی دی اور نصیحت کی کہ اگر وہ دوبارہ اس طرح کی مصیبت میں مبتلا ہوجائے تو دوبارہ یہی طریقہ کار اپنا سکتا ہے۔<ref>شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج6، ص428؛ طبرسی، مجمع البیان، 1415ھ، ج6، ص203؛ طباطبایی، المیزان، 1363ہجری شمسی، ج12، ص358؛ قرطبی، تفسیر القرطبی، 1384ھ، ج10، ص180؛ ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم (ابن‌کثیر)، 1419ھ، ج4، ص520؛ بیضاوی، تفسیرالبیضاوی (انوار التنزیل و اسرار التأویل)، 1418ھ، ج3، ص422.</ref>


یہ [[آیت]] مؤمن آل فرعون کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ جب فروعون کے کارندے حضرت موسی کو قتل کرنا چاہا تو فرعون کے اپنے خاندان میں سے ایک شخص جو در اصل مومن تھا اور اپنا ایمان مخفی رکھا ہوا تھا انہیں اس کام سے باز رکھا۔<ref>رجوع کنید بہ  طوسی؛ طبرسی؛ قرطبی؛ سیوطی، اس آیت کے ذیل میں</ref>
فقہاء نے اس آیت کے علاوہ [[سورہ غافر]] آیت28 اور [[سورہ آل عمران]] کی آیت 28 سے بھی تقیہ کے جواز کے لیے استناد کیا ہے.<ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص394؛ روحانی، فقه‌الصادق، 1413ھ، ج11، ص397.</ref>


====دیگر آیات====
===احادیث===
اضطراری اور خاص حالات میں تقیہ کے وجوب اور جواز کو اضطرار اور حرج سے مربوط آیات سے بھی استنباط کر سکتے ہیں جیسے سورہ بقرہ کی آیت نمبر  ۱۷۳ ، ۱۸۵ اور ۱۹۵ اسی طرح سورہ انعام کی آیت نمبر ۱۴۵ اور سورہ نحل کی آیت نمبر ۱۱۵ اور سورہ حج کی آیت نمبر ۷۸  سے بھی تقیہ کا جواز یا وجوب استنباط کر سکتے ہیں۔<ref>رجوع کنید بہ  طوسی؛ طبرسی؛ سیوطی، ذیل آیات</ref> احادیث میں بھی مذکورہ آیات اور بعض دیگر آیات سے تقیہ کے جواز یا وجوب پر استدلال کیا گیا ہی۔<ref> حرّ عاملی، السیرہ الحلبیہ، ج۱۶، ص۲۰۳ـ ۲۰۴، ۲۰۶، ۲۱۲ـ۲۱۴؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۷۲، ص۳۹۳ـ ۳۹۴، ۳۹۶، ۴۰۸، ۴۱۸، ۴۲۱، ۴۳۰، ۴۳۲</ref>


===تقیہ احادیث کی روشنی میں===
سید محمد صادق روحانی اور ناصر مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ تقیہ کے جواز پر احادیث [[تواتر]] کی حد تک ہیں۔
بہت ساری احادیث تقیہ کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔<ref>موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۵۳؛ ان احادیث سے زیادہ سے زیادہ آگاہی کیلئے کتاب وسایل الشیعہ، ج۱، باب ۲۵ و ج۱۶، باب۲۹</ref> احادیث کے مطابق تقیہ مومن کے افضل ترین کاموں میں سے ہے اور امت کی اصلاح کا موجب ہے اور دین اس کے بغیر کامل نہیں ہے۔<ref> کلینی، الکافی، ج۲، ص۲۱۷ـ ۲۲۱؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۷۲، ص۳۹۴، ۳۹۷ـ ۳۹۸، ۴۲۳</ref> اضطراری اور خاص حالات میں تقیہ کے جواز یا وجوب پر موجود احادیث <ref> ابن حنبل، مسندالامام احمدبن حنبل، ج۵، ص۱۶۸؛ کلینی، الکافی، ج۲، ص۲۱۸، حدیث ۷؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۷۲، ص۴۲۱، ۴۲۸</ref> کے علاوہ بعض احادیث عام حالات میں بھی اس کے جواز پر موجود ہیں۔<ref> حرّ عاملی، وسایل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۱۴ـ ۲۱۸</ref> اسی طرح وہ احادیث جو دلالت کرتی ہیں کہ احکام شرعی اولیہ، اضطرار اور احتاج کی صورت میں اٹھا لئے جاتے ہیں جیسے [[حدیث رفع]] اور [[حدیث لاضرر]] <ref> ابن حنبل، مسندالامام احمدبن حنبل، ج۱، ص۳۱۳، ج۵، ص۳۲۷؛ کلینی، الکافی، ج۵، ص۲۸۰، ۲۹۲ـ۲۹۴؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۵، ص۳۰۳</ref> وغیرہ تقیہ کے جواز پر اہم ترین دلائل میں شمار ہوتی ہیں۔<ref>قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ذیل نحل: ۱۰۶؛ انصاری، التقیہ، ص۴۰؛ امین، نقض الوشیعہ، ص۱۸۹؛ موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۵۴ ـ ۵۵</ref> اسی طرح وہ احادیث جو جھوٹ اور [[توریہ]] کو خاص موارد میں تجویز کرتے ہیں، جیسے "کتمان" سے مربوط احادیث وغیرہ بھی تقیہ کی مشروعیت پر بہترین دلیل ہے۔<ref> کلینی، الکافی، ج۲، ص۲۲۱ـ۲۲۶؛ غزالی، احیاء علوم الدین، ج۳، ص۱۳۷؛ امین، نقض الوشیعہ، ص۱۸۸ـ ۱۸۹</ref> اسی طرح اکراہ سے متعلق احادیث بھی تقیہ پر دلیل بنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔<ref> خمینی، المکاسب المحرمہ، ج۲، ص۲۲۶ـ۲۲۷</ref>
<ref>روحانی، فقه الصادق، 1413ھ، ج11، ص399؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص396.</ref> ان احادیث کو چند گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:


====تقیہ اور سیرت نبویؐ====
    وہ [[احادیث]] جن کا مضمون یہ ہے کہ تقیہ مومن کا سپر اور اس کا محافظ ہے؛<ref>حر عاملی، وسائل الشیعه، 1413ھ، ج27، ص88؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص396.</ref>
نقل ہوئی ہے کہ حضرت [[محمدؐ]] کی [[مدینہ]] کی طرف ہجرت کے بعد [[مہاجرین]] میں سے بعض افراد مکہ مکرمہ سے اپنا مال و اموال لانے کیلئے آنحضرت سے مکہ جانے کی رخصت لیتے ہوئے مشرکین کو خوش کرنے کیلئے اپنی قلبنی اعتقاد کے برخلاف بعض کلمات ادا کرنے کی اجازت دریافت کی تو آنحضرت نے انہیں ایسے کلمات کے ادا کرنے کی اجازت دے دی۔<ref> السیرہ الحلبیہ، ج۳، ص۵۱ ـ۵۲</ref> آپؐ کے [[صحابہ]] اور [[تابعین]] سے بھی مختلف موارد میں ایسے رفتار یا گفتار صادر ہوئے ہیں جو تقیہ پر دلالت کرتی ہے جیسے [[ابن عباس]]، <ref>ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ج۱۲، ص۲۷۹</ref> [[ابن مسعود]]، <ref>ابن حزم، المحلّی، ج۸، ص۳۳۶</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]]، <ref>شمس الائمہ سرخسی، کتاب المبسوط، ج۲۴، ص۴۷</ref> [[حذیفہ بن یمان]]، <ref>صنعانی، ج 6، ص 474، ح 33050</ref> [[ابوالدَرداء]]<ref>بخاری جُعْفی، صحیح البخاری، ج۷، ص۱۰۲</ref> اور [[سعید بن مُسَیب]] وغیرہ <ref> امینی، الغدیر فی الکتاب والسنہ والادب، ج۱، ص۳۸۰</ref>
    کچھ احادیث میں اس طرح کی تعبیر آئی ہے: «لا دینَ لِمَن لا تَقِیَّةَ لَه؛ (ضرورت کے موقع پر) جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں»؛<ref>حر عاملی، وسائل الشیعه، 1413ھ، ج16، ص210؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص398.</ref>
    کچھ دیگر احادیث کا مضمون یہ ہے کہ تقیہ [[اللہ]] اور اس کے [[اولیا]] کے نزدیک عظیم فرائض اور محبوب ترین چیزوں میں سے ہے؛<ref>حر عاملی، وسائل الشیعه، 2423ھ، ج26، ص206-208؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 2426ھ، ج2، ص399.</ref>
    احادیث کا ایک اور مجموعہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ [[انبیا|انبیائے الہی]] بھی تقیہ کرتے تھے.<ref>ملاحظہ کریں: حر عاملی، وسائل الشیعه، 1413ھ، ج16، ص208-220؛ مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص401.</ref>


====صحابہ کی زندگی میں تقیہ کے نمونے====
فقہاء نے ان احادیث کے علاوہ "لاضرر" سے متعلق احادیث، "برائت" و "سبّ" (دشمنوں سے جان بچانے کے لیے پیغمبران اور ائمہؑ کی نسبت برائت اور انہیں سبّ کرنے کےجواز پر دلالت کرنے والی روایات) سے متعلق احادیث اور حدیث "رفع" وغیرہ سے تقیہ کا جواز اور اس کی مشروعیت ثابت کی ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: روحانی، فقه الصادق، ج11، 1413ھ، ص399-405.</ref>
[[ابن مسعود]] اور حذیفہ بن یمانی [[عثمان بن عفان]] کے ہاں پہنچتے ہیں: عثمان خطاب حذیفہ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: یہ تمہارے میں مجھ تک پہنچنے والی خبریں کیا ہیں؟ حذیفہ نے جواب دیا میں نے انہیں نہیں کہا ہے۔


عثمان نے کہا: تم ان کے درمیان نیکو کار ترین اور بہترین فرد ہو۔
===اجماع===


ابن مسعود کہتے ہیں جب عثمان باہر چلا گیا تو میں نے حذیفہ سے کہا: کیا تم نے یہ باتیں نہیں کہی تھی؟
محقق کرکی کا ادعا ہے کہ تقیہ کے جواز پر تمام شیعہ فقہاء کا [[اجماع]] ہے۔<ref>محقق کرکی، رسائل المحقق الکرکی، مکتبة آیت‌الله العظمی مرعشی نجفی، ج2، ص51.</ref>


حذیفہ نے جواب دیا: کیوں نہیں میں نے کہا تھا لیکن میں نے دین کے کچھ حصے پر عمل کرنے کے ذریعے(ترس کی وجہ سے زبان پر لانے والے کلمات) اپنے دین کے بقیہ حصوں کو محفوظ کر لیا ہوں۔<ref>صنعانی، ج 6، ص 474، ح 33050</ref>
===عقل===


===اجماع===
فقہاء نے تقیہ کے جواز پر [[عقل|عقلی دلیل]] اس طرح سے پیش کی ہے کہ تقیہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی روز مرہ زندگی میں زیادہ اہمیت کے حامل ایک کام کو کم اہمیت کام پر ترجیح دیتا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، القواعد الفقهیة، 1416ھ، ج1، ص388.</ref> پس اہم کو مہم پر ترجیح دینا اور اسے مقدم سمجھنا ایک عقلی معاملہ ہے۔ اس کی وضاحت یہ کہ جب انسان دو کاموں کو سرانجام دینے پر مامور ہو لیکن ایک ہی وقت میں دونوں کام کو انجام دینا ممکن نہیں تو اس صورت میں وہی کام انجام دے گا جس کی اہمیت اور مصلحت زیادہ ہو۔ یہ عقل کا ایک اصولی فیصلہ ہے۔<ref>صدر، دروس فی علم الاصول، 1429ھ، ج2، ص234.</ref> ضرر اور نقصان سے بچنا؛ اس سے اہم یہ کہ انسان کا اپنی جان بچانا عقلی طور پر ان [[واجب]] اعمال میں سے ہے جو [[عقیدے]] کے اظہار پر ترجیح رکھتا ہے۔ پس نقصان سے بچ کر رہنا اور جان کی حفاظت کرنا عقلی اعتبار سے بھی ایک [[واجب|واجب عمل]] ہے۔<ref>فاضل مقداد، اللوامع اللهیه، 1422ھ، ص377.</ref>
شیعہ منابع میں تقیہ پر دلالت کرنے والی دلائل میں سے ایک [[اجماع]] ہے۔<ref> محقق کَرکی، رسائل المحقق الکرکی، ج۲، ص۵۱؛ موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۵۰</ref> اہل سنت منابع میں بھی تعض موارد میں تقیہ کی جواز پر اجماع کا دعوی کیا گیا ہے۔<ref> قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، آل عمران کی آیت نمبر۲۸ کے ذیل میں۔</ref>


===دلیل عقلی===
==تقیہ اور توریہ کا باہمی رابطہ==
تقیہ کے جواز پر عقلی دلائل دلیل سیرہ عقلا ہے جو ہر صورت میں دفع ضرر کو ضروری سمجھتی ہے۔<ref>فاضل مقداد، اللوامع الالہیہ فی المباحث الکلامیہ، ص۳۷۷؛ امین، نقض الوشیعہ، ص۱۸۲</ref> اس دلیل کو قبول کرنے کی صورت میں تقیہ فقط شیعوں یا مسلمانوں کے ساتھ مختص نہیں ہوگا بلکہ تمام بنی نوع انسان کو شامل کرے گا۔ گذشتہ انبیاء اور خدا کے نیک بندوں کی زندگی میں تقیہ کے بہت سارے نمونے گذرے ہیں جیسے [[حضرت ابراہیمؑ]]کا کافرون کے ساتھ رفتار، [[حضرت یوسف]] کا اپنے بھائیوں کے ساتھ [[مصر]] میں ہونے والی گفتگو، [[آسیہ]] بنت مزاحم اور  ہمسر [[فرعون]] کا مخفیانہ طور پر عبادت انجام دینا، [[حضرت موسی]] اور [[ہارون]] کا [[فرعون]] کے روبرو ہونا اور [[اصحاب کہف]] کا تقیہ کرنا۔<ref> ثعلبی، قصص الانبیاء، ص۶۹، ۱۶۶؛ حرّ عاملی، وسایل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۱۵، ۲۱۹، ۲۳۰ـ۲۳۱؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۷۲، ص۳۹۶، ۴۰۷، ۴۲۵، ۴۲۹</ref> مذکورہ موارد میں تقیہ کا مودر تائید قرار پانا اضطراری موارد میں تقیہ کے فطری اور عقلی ہونے پر دلیل ہے۔


==مسلمان کا مسلمان سے تقیہ==
توریہ کا مطلب یہ ہے کہ بات کرنے والا اپنے الفاظ سے ایسا معنی ارادہ کرے جو اگرچہ حقیقت پر مبنی ہو لیکن سننے والا اس کے برخلاف مطلب حاصل کرے۔ <ref>شیخ انصاری، کتاب المکاسب، 1415ھ، ج2، ص17.</ref> کبھی توریہ کی شکل میں تقیہ کیا جاتا ہے؛ کہا جاتا ہے کہ یہ تقیہ کی بہترین قسم ہے اور جتنا ممکن ہوسکے اور بہتر یہ ہے کہ اسی طرح تقیہ کیا جانا چاہیے۔ <ref>گلستانه اصفهانی، منهج الیقین، 1388ہجری شمسی، ص83.</ref>
اگرچہ بعض آیات اور احادیث میں تقیہ کو [[مسلمان]] کا [[کافر]] کے مقابلے میں اپنے عقیدے کو چھپانے کے ساتھ مختص کیا گیا ہے۔ لیکن فقہاء اور مفسرین تصریح کرتے ہیں کہ تقیہ صرف اس مورد کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ حتی مسلمان کا مسلمان کے مقابلے میں بھی تقیہ صدق آ سکتی ہے۔<ref> فخر رازی، التفسیرالکبیر، ذیل آل عمران: ۲۸ و موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۷۵</ref> اہل سنّت کے بہت سارے علماء منجملہ [[شافعی]] حفظ جان کی خاطر مسلمان کا مسلمان کے مقابلے میں بھی تقیہ کی مشروعیت پر تصریح کرتے ہیں۔<ref>سبحانی، الانصاف فی مسائل دام فیہا الخلاف، ج۲، ص۳۳۰ـ۳۳۱</ref>
اس سلسلے میں نمونے کے طور پر برادران [[حضرت یوسف]] کا واقعہ بیان کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح حضرت یوسف کے بھائی گندم لینے آپؑ کے پاس آئے۔ [[آیات|قرآنی آیات]] کے مطابق جب برادران یوسف کا سامان باندھا گیا تو حضرت یوسف نے اپنے بھائی بنیامین کو اپنے پاس رکھنے کی تدبیر کے طور پر سرکاری پیالی کو چھپا کر ان کے سامان میں رکھوا لیا۔ سرکاری ترجمان نے پکار کر کہا: اے قافلہ والو! تم چور ہو۔ اس سلسلے میں واردہ شدہ [[احادیث]] اور مفسرین کے مطابق حضرت یوسفؑ نے اپی ایک خاص مصلحت کے حصول کی خاطر تقیہ کرتے ہوئے توریہ اور حیلہ سےکام لیا؛ یعنی یہاں حضرت یوسف کا مقصود یہ نہیں تھا کاروان والوں نے در واقع چوری کی ہے، بلکہ آپکا مقصود یہ تھا کہ تم لوگوں نے حضرت یوسف کو ان کے باپ سے چرا کر ان کو کنواں میں پھینک دیا ہے۔ <ref>طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص355؛ کلینی، کافی، 1407ھ، ج2، ص217؛طباطبایی، المیزان فی تفسیر القرآن، 1363ہجری شمسی، ج11، ص223؛ مکارم شیرازی، تقیه و حفظ نیروها، ترجمه سید محمدجواد بنی سعید لنگرودی، 1394ہجری شمسی، ص68.</ref>


==شیعوں کا تقیہ کی طرف زیادہ رجحان کے عوامل و اسباب==
==اہل سنت کا نظریہ===


شیعوں کے ہاں تقیہ کیسے رائج ہوا اس بارے میں درج ذیل موارد علتوں کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں:
کتاب "الموسوعة الفقهیة الکویتیة" (فقہ اہل سنت کے موضوع پر 45 جلدوں پر مشتمل انسائیکلوپیڈیا) کے مطابق علمائے [[اہل سنت]] کی اکثریت ضرورت کے موقعوں پر تقیہ کرنے کو جائز سمجھتی ہے؛ یعنی جہاں انسان کو کوئی جانی یا مالی خطرہ لاحق ہو تو اس خطرے کو ٹالنے کی حد تک تقیہ کرنا [[جائز]] ہے۔<ref>جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، 1404ھ، ج13، ص186-187.</ref>
# بعض لوگ شیعوں میں موجود باطن گرائی کوان میں تقیہ جیسے عمل کی پیدائش کا سبب سمجھتے ہیں۔
# بعض لوگ معاشرے کے سخت حالات کو شیعوں میں تقیہ کی پیدائش کا سبب سمجھتے ہیں۔ تاریخی شواہد کی بنا پر شیعہ مذہب پوری تاریخ میں مختلف سماجی، ثقافتی اور سیاسی حوالے سے بہت زیادہ دباؤ میں چلے آرہے ہیں؛ صلح [[امام حسنؑ]] کے واقعے کے بعد [[معاویہ]] نے اپنے گورنروں شیعوں کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا حکم دیا اور حضرت [[علیؑ]] کو ممبروں سے دشنام دینے لگے۔ یہ حالات کم و بیش [[بنی امیہ]] کے دور میں  [[عمر بن عبدالعزیز]] کے زمانے تک جاری رہی۔ <ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۱، ص۴۳ـ۴۶</ref> [[بنی عباس]] کے دور میں حالات نے ایک اور انداز اپنایا مثلا، [[متوکل عباسی]] شیعوں کو قتل کرنے اور جیلوں میں بند کرنے کے علاوہ انہیں [[امام حسینؑ]] کی زیارت سے بھی منع کردیا یہاں تک کہ امام حسینؑ کے ضریح مطہر کو بھی خراب کر دیا اور ابن سِکیت کو امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے ساتھ محبت کا اظہار کرنے پر نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج۹، ص۱۸۵؛ ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، ج۱۱، ص۲۳۷</ref> اس بنا پر ائمہ طاہرینؑ اپنی اور اپنے شیعوں کی جان کی حفاظت اور انہیں پراکندگی سے بچانے کی خاطر تقیہ کرنے کو ان پر ضروری قرار دیتے تھے۔ [[علی بن یقطین]] جو کہ [[ہارون الرشید]] کا وزیر اور شیعہ مذہب سے تعلق رکھتا تھا کا [[امام کاظمؑ]] کے حکم سے تقیہ کرنا اس بات کی واضح دلیل ہے۔<ref> آل کاشف الغطاء، اصل الشیعہ و اصولہا، ص۳۱۵ـ۳۱۶؛ امین، نقض الوشیعہ، ص۱۹۸ـ۲۰۰</ref>


==حکم شرعی کے حوالے سے تقیہ کی تقسیم==
علمائے [[اہل سنت]] تقیہ کے جواز اور اس کی مشروعیت کے اثبات کے لیے [[سورہ آل عمران]] آیہ28، [[سورہ نحل]] آیہ106<ref>جمعی از نویسندگان، الموسوعة الفقهیة الکویتیة، 1404ھ، ج13، ص186-187.</ref> کے علاوہ احادیث سے بھی استناد کیا ہے۔<ref>ملاحظہ کریں: بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج9، ص19؛ هیثمی، کشف الاستار، 1399ھ، ج4، ص113؛ طبرانی، المعجم الکبیر، 1415ھ، ج20، ص94؛ حبیب العمیدی، تقیه از دیدگاه مذاهب و فرقه‌های اسلامی غیر شیعی، ترجمه محمدصادق عارف، 1377ہجری شمسی، ص72-77.</ref>


===حکم تکلیفی===
==تقیہ کے مخالف اسلامی فرقے==
تقیہ کی مختلف حوالے سے تقسیم بندی کی جاتی ہے۔<ref> شہید اول، القواعد و الفوائد، قسم ۲، ص۱۵۷ـ ۱۵۸؛ خمینی، الرسائل، ج۲، ص۱۷۴ـ ۱۷۵؛ ہمو، المکاسب المحرمہ، ج۲، ص۲۳۶</ref> [[شیخ مفید]] تقیہ کو اس کے [[حکم تکلیفی|احکام]] کے حوالے سے وجوب، حرمت اور استحباب میں تقسیم کرتے ہیں۔ بنابراین جہاں جان پر خطرہ ہو وہاں تقیہ کرنا [[واجب]] لیکن جہاں صرف مالی نقصان کا خطرہ ہو وہاں تقیہ کرنا [[مباح]] سمجھتے ہیں۔<ref>مفید، اوائل المقالات فی المذاہب والمختارات، ص۱۳۵ـ۱۳۶</ref>


====واجب ====
اہل سنت کے بعض فرقے جیسے [[وہابیت|وہابی فرقہ]] تقیہ کو جائز نہیں سمجھتا اور اسے تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور تقیہ پر عمل کرنے کی وجہ سے [[شیعوں]] کی ملامت کرتا ہے۔ <ref>نوری، «نقد دیدگاه ابن‌تیمیه در باب تقیه»، ص149.</ref> کہا جاتا ہے کہ شیعہ فرقوں میں سے صرف [[زیدیہ]] تقیہ کا مخالف ہے۔<ref>مشکور، مدیر شانه‌چی، فرهنگ فرق اسلامی، آستان قدس رضوی، ص218.</ref>
احادیث اور فقہاء کے فتوا کے مطابق جہاں بھی اضطرار صدق آئے وہاں تقیہ کرنا [[واجب]] ہے۔<ref> مفید، ہمان و حرّ عاملی، وسایل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۱۴ و شُبَّر، الاصول الاصلیہ و القواعد الشرعیہ، ص۳۲۱ـ۳۲۲ و خمینی، الرسائل، ج۲، ص۱۷۶</ref> فقہاء کے مطابق وجوب تقیہ کیلئے اہم ترین شرط <ref> مفید، اوائل المقالات فی المذاہب والمختارات، ص۹۶؛ خمینی، المکاسب المحرمہ، ج۲، ص۲۴۲ـ ۲۴۴</ref> جسے احادیث سے استخراج کرتے ہیں <ref> حرّعاملی، وسایل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۰۳</ref> اپنی یا اپنے متعلقین میں سے کسی کی جان یا عزت کو خطرہ لاحق ہونا ہے۔


====مستحب====
[[ابن تیمیہ]] اور ان کے پیروکار [[وہابیوں]] کا اعتراض یہ ہے کہ تقیہ ایک قسم کا جھوٹ اور [[نفاق|منافقت]] ہے۔
[[شیخ انصاری]] اہل سنت کے ساتھ مدارا کرنا اور ان کے ساتھ معاشرت کرنا جیسے بیماروں کی عیادت، تشییع جنازہ اور ان کے [[مسجد|مساجد]] میں حاضر ہو کر ان کے ساتھ [[نماز]] پڑھنا وغیرہ کو [[مستحب]] تقیہ کا مصداق  سمجھتے ہیں۔<ref>انصاری، التقیہ، ص۳۹ـ۴۰</ref> متاخرین اس طرح کے تقیہ کو احادیث کی تعابیر کو مدنظر رکھتے ہوئے <ref> مجلسی، بحارالانوار، ج۷۲، ص۳۹۶، ۴۰۱، ۴۱۷ـ ۴۱۸، ۴۳۸ـ۴۴۱</ref> "تقیہ مداراتی‌" کا نام دیتے ہیں اس معنی میں کہ مسلمانوں کے دیگر مذاہب حتی مشرکین کے ساتھ حسن سلوک اور تسامح سے پیش آتے ہوئے ان کی حمایت حاصل کرنا اور مستقبل میں ان کے گزند سے محفوظ رہ سکیں۔
<ref>ملاحظہ کریں: ابن‌تیمیه، منهاج السنة النبویة، 1406ھ، ج1، ص68 و ج2، ص46؛ القفاری، اصول المذهب الشیعه الاثنی العشریة (عرض و نقد)، 1414ھ، ج2، ص819؛ الهی ظهیر الباکستانی، الشیعة و التشیع، 1415ھ، ص88.</ref> مگر اس کا جواب یہ ہے کہ تقیہ کا منافقت سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ تقیہ اور نفاق ایسے دو الفاظ ہیں جن کے معانی آپس میں مکمل طور تضاد رکھتے ہیں؛ کیونکہ منافقت یہ ہے کہ انسان اپنا [[کفر]] اور باطل نظریہ پوشیدہ رکھے اور ایمان کا اظہار کرے؛ حالانکہ تقیہ میں ایمان کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے اور کفر کا اظہار کیا جاتا ہے۔<ref>سبحانی، التقیة؛ مفهومها، حدها و دلیلها، ص74.</ref>


====تقیہ مباح====
==مونوگرافی==
[[شیخ مفید]] نے تقیہ کو مالی نقصان کی صورت میں [[مباح]] دانستہ  قرار دیتے ہیں۔<ref>مفید، اوائل المقالات فی المذاہب والمختارات، ص۱۳۵ـ۱۳۶</ref> [[فخر رازی]] نیز مالی نقصان کی خاطر تقیہ کرنے کو [[جائز]] سمجھتے ہیں۔<ref>فخر رازی، التفسیرالکبیر، سورہ آل عمران کی آیت نمبر:۲۸ کے ذیل میں۔</ref>


====تقیہ حرام====
مستل طور پر تقیہ کے بارے میں عربی اور فارسی زبان میں لکھی جانے والی کتابیں اور رسالے یہ ہیں:
فقہا احادیث کی روشنی میں چند موارد میں تقیہ کرنے کو [[حرام]] سمجھتے ہیں؛ منجملہ یہ کہ دین کے واجبات اور محرمات جن کی رعایت کرنا ضروری اور لازمی ہے جن کی رعایت نہ کرنے سے دین ختم ہونے اور نابود ہونے کا خطرہ ہے جیسے [[قرآن]] کو محو کرنا، [[کعبہ]] کو ویران کرنا دین کے کسی ضروری حکم [[اصول دین]] یا [[فروع دین]] یا [[اصول مذہب]] کا انکار کرنا اس طرح تقیہ کرنا خون ریزی اور قتل و غارت تک متج ہوتی ہیں وہ موارد ہیں جہاں تقیہ کرنا حرام ہے۔<ref>بہ دلیل {{عربی|فَاِذا بَلَغَا لدم فَلا تَقیة}}</ref>، شراب پینا، وضو میں جوتے پر میح کرنا، [[ائمہ|اماموں]] سے بیزاری کا اظہار کرنا بھی تقیہ حرام کے مصادیق میں سے ہیں۔ <ref> حرّ عاملی، وسایل الشیعہ ج۱۶، ص۲۱۵ـ۲۱۷، ۲۳۴؛ خمینی، المکاسب المحرمہ ، ج۲، ص۲۲۵ـ۲۲۷؛ ہمو، الرسائل، ج۲، ص۱۷۷ـ۱۸۴</ref> بعض فقہاء سوائے اضطراری حالت کے تقیہ کرنے کو حرام سمجھتے ہیں۔<ref>حرّ عاملی، ,وسایل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۱۴؛ شبّر، الاصول الاصلیہ و القواعد الشرعیہ، ص۳۲۱</ref>


===حکم وضعی===
    رسالةٌ فی التَّقیّة: یہ محقق کرکی کی کتاب "رسائل المحقق الکرکی" کا ایک مختصر حصہ ہے جس میں تقیہ کے [[فقہی احکام]] کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ کتاب 3 جلدوں پر مشتمل ہے اور تیسری جلد میں تقیہ سے متعلق بحثیں شامل ہیں جس کی طباعت بھی ہوچکی ہے۔<ref>محقق کرکی، رسائل المحقق الکرکی، مکتبة آیت‌الله العظمی مرعشی نجفی، ج2، ص49.</ref>
[[فقہاء]] تقیہ کے طور پر انجام پانے والے کسی عمل کے [[حکم وضعی]] کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر تقیہ کے طور پر انجام دیا جانے والا عمل عبادات میں سے ہو تو اس عمل کو اضطراری حالات کے برطرف ہونے کی بعد ادا یا قضا کے طور پر اعادہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں فقہاء تقیہ کی صورت میں انجام دی جانے والے عمل کو [[مُجْزی]] سمجھتے ہیں۔<ref>نک. انصاری، التقیہ، ص۴۳ و موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۵۵ ـ۵۷ و خمینی، الرسائل، ج۲، ص۱۸۸ـ۱۹۱</ref>
    رسالةٌ فی التَّقیه: یہ [[شیخ انصاری]] کا تدوین کردہ رسالہ ہے جس میں تقیہ کے فقہی احکام بیان کیے گئے ہیں۔ تقیہ سے متعلق یہ رسالہ، دیگر کچھ رسائل کے ساتھ "رَسائلُ فقهیہ" کےنام سے چھپ چکا ہے۔<ref>شیخ انصاری، رسائل فقهیة، 1414ھ، ص71.</ref>
    التقیة: یہ رسالہ [[امام خمینیؒ]] نے تحریر کیا ہے جس میں تقیہ کے فقہی احکام بیان کیے گئے ہیں۔ امام خمینی نے اسے تدریس کے بعد سنہ1373ہجری میں شائع کیا ہے۔<ref>امام خمینی، الرسائل العشرة، 1420ھ، ص1.</ref> یہ رسالہ دیگر چند رسالوں کے ساتھ "الرَّسائلُ العَشرة" کے عنوان سے شائع کیا گیا ہے۔<ref>امام خمینی، الرسائل العشرة، 1420ھ، ص7.</ref>
    تقیه از دیدگاه مذاهب و فرقه‌های اسلامی غیرشیعی: اس کتاب کو ثامر ہاشم العمیدی نے عربی میں تحریر کی ہے اور محمدصادق عارف نے فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔ اس کتاب میں [[اہل سنت]] کے چاروں مذاہب کے فقہاء کے تقیہ سے متعلق نظریات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کے مصنف کا کہنا ہے کہ اہل سنت مذاہب کے چاروں فقہاء تقیہ کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اور اس سلسلے میں [[قرآن]] و سنت سے دلائل پیش کرتے ہیں۔<ref>حبیب العمیدی، تقیه از دیدگاه مذاهب و فرقه‌های اسلامی غیر شیعی، ترجمه محمدصادق عارف، 1377ہجری شمسی، ص12-13.</ref>
    تقیه سپری برای مبارزه عمیق‌تر: اس کتاب کو ناصر مکارم شیرازی نے تدوین کی ہے۔ اس قلمی اثر کے کلی موضوعات یہ ہیں: تقیہ کے [[فقہی]] اور [[اخلاق|اخلاقی]] پہلؤوں کا جائزہ اور اس پر کیے گئے اعتراضات کے جوابات، تقیہ کے لغوی اور اصطلاحی معنی، انسانی مکاتب میں تقیہ کا تاریخی پس منظر اور انبیائے الہی کی سیرت، تقیہ کا مقصد اور اس کے قرآنی، حدیثی، کلامی، اخلاقی اور فقہی پہلؤوں پر نظر اور اس سلسلے میں رائج سوالات کے جوابات۔


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
سطر 97: سطر 115:


== مآخذ ==
== مآخذ ==
<div class="reflist4" style="height: 220px; overflow: auto; padding: 3px" >
*ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم (ابن‌کثیر)، بیروت، دار الکتب العلمیه، 1429ھ.
{{ستون آ|2}}
*ابن‌منظور، محمد بن مکرم، لسان‌العرب، بیروت، دارالصادر، چاپ سوم، 1424ھ.
*قرآن کریم.
*ابن‌تیمیه، تقی‌الدین ابوالعباس، منهاج السنة النبویة فی نقض كلام الشیعة القدریة، عربستان سعودی، جامعة الامام محمد بن سعود الاسلامیة، چاپ اول، 1406ھ.
*آل کاشف الغطاء، محمد حسین، اصل الشیعہ و اصولہا، چاپ علاء آل جعفر، قم ۱۴۱۵.
*القفاری، ناصر بن عبدالله، اصول المذهب الشیعة الاثنی العشریة (عرض و نقد)، عربستان سعودی، دارالنشر، چاپ اول، 1424ھ.
*آلوسی، محمود بن عبداللّہ، روح المعانی، بیروت: دار احیاءالتراث العربی، بی‌تا.
*الهی ظهیر الباکستانی، احسان، الشیعة و التشیع، لاهور، ادارة ترجمان السنة، 1415ھ.
*ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، چاپ محمد ابو الفضل ابراہیم، قم ۱۴۰۴.
*امام خمینی، سید روح‌الله، المکاسب المحرمه، قم، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، 1415ھ.
*ابن جوزی، المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، چاپ محمد عبدالقادر عطا و مصطفی عبد القادر عطا، بیروت ۱۴۱۲/۱۹۹۲.
*بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح‌البخاری، دمشق، دار طوق النجاة، 1422ھ.
*عسقلانی، ابن حجر، فتح الباری: شرح صحیح البخاری، بیروت: دارالمعرفہ، بی‌تا.
*بیضاوی، عبدالله بن عمر، تفسیرالبیضاوی (انوار التنزیل و اسرار التأویل)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1418ھ.
*ابن حزم، المحلّی '، چاپ احمد محمد شاکر، بیروت: دار الجلیل، بی‌تا.
*حبیب العمیدی، ثامرهاشم، تقیه از دیدگاه مذاهب و فرقه‌های اسلامی غیر شیعی، ترجمه محمدصادق عارف، مشهد، بنیاد پژوهش‌های اسلامی، 1377ہجری شمسی.
*ابن حنبل، مسندالامام احمد بن حنبل، قاہرہ، ۱۳۱۳، چاپ افست، بیروت، بی‌تا.
*حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل‌الشیعه، قم، مؤسسه آل‌البیت، 1413ھ.
*ابن خلّکان؛ ابن منظور؛ محمد ابو زہرہ، الامام الصادق: حیاتہ و عصرہ، آراؤہ و فقہہ، قاہرہ ۱۹۹۳.
*دایرةالمعارف فقه اسلامی، فرهنگ فقه فارسی، قم، دایرةالمعارف فقه اسلامی، 1387ہجری شمسی.
*ابن منظور، محمد بن مکرم، بی‌تا، لسان العرب، ج ۱۵ ، دار الفکر-دار صادر، بیروت.
*روحانی، سید محمدصادق، فقه‌الصادق، قم، انتشارات دارالفکر، 1423ھ.
*امین، محسن، نقض الوشیعہ، او، الشیعہ بین الحقائق و الاوہام، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳.
*سبحانی، جعفر، التقیة؛ مفهومها، حدها، دلیلها، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، 1430ھ.
*امینی، عبد الحسین، الغدیرفی الکتاب والسنہ والادب، ج۱، بیروت ۱۳۸۷/۱۹۶۷.
*سلطانی رنانی، مهدی، [https://ebookshia.com/books/view/925/امام+صادق+(ع)+و+مساله+تقیه «امام صادق(ع) و مسأله تقیه»]، در فرهنگ کوثر، شماره 58، سال 1383ہجری شمسی.
*انصاری، مرتضی بن محمد امین، التقیہ، چاپ فارس حسون، قم ۱۴۱۲.
*شهید اول، محمد بن مکی، القواعد و الفوائد، قم، مکتبة المفید، بی‌تا.
*بحرانی، یوسف بن احمد، الحدائق الناصرہ فی احکام العترہ الطاہرہ، قم ۱۳۶۳ـ ۱۳۶۷ ش.
*شیخ انصاری، مرتضی، رسائل فقهیة، قم، انتشارات باقری، چاپ اول، 1414ھ.
*بخاری جعفی، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، استانبول ۱۴۰۱/۱۹۸۱.
*شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا.
*ثعلبی، احمد بن محمد، قصص الانبیاء، المسَمّی ' عرائس المجالس، بیروت: المکتبہ الثقافیہ، بی‌تا.
*شیخ مفید، محمد بن محمد، اوائل‌المقالات، قم، المؤتمر العالمی لألفیة الشیخ المفید، 1413ھ.
*جصّاص، احمد بن علی، کتاب احکام القرآن، استانبول ۱۳۳۵ـ ۱۳۳۸، چاپ افست بیروت ۱۴۰۶/ ۱۹۸۶.
*شیخ مفید، محمد بن نعمان، تصحیح الاعتقادات الامامیة، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ دوم، 1414ھ.
*جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح: تاج اللغۃ و صحاح العربیۃ، ج۶، بی‌تا، محقق:عطار، احمد عبد الغفور، دار العلم للملایین، بیروت.
*صدر، سید محمدباقر، دروس فی علم الاصول، قم، انتشارات دارالصدر، 1429ھ.
*حرّ عاملی، محمد بن حسن، تفصيل وسائل‌ الشيعۃ الى تحصيل مسائل‌ الشريعۃ، قم ۱۴۰۹ـ۱۴۱۲.
*صدر، سید محمد، ماوراءالفقه، بی‌جا، المحبین للطباعة و النشر، 1406ھ.
*حلبی، علی بن ابراہیم، السیرہ الحلبیہ، بیروت، ۱۳۲۰، چاپ افست، بی‌تا.
*طاهری اصفهانی، سید جلال‌الدین، المحاضرات (تقریرات اصول آیت‌الله سید محمد محقق داماد)، اصفهان، انتشارات مبارک، 1382ہجری شمسی.
*خمینی، روح اللّہ، الرسائل، قم ۱۳۸۵.
*طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، بنیاد علمی و فکری علامه طباطبایی، 1363ہجری شمسی.
*خمینی، روح اللّہ، المکاسب المحرمہ، قم ۱۳۷۴ش.
*طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، قاهره، مکتبة ابن‌تیمیة، چاپ اول، 1415ھ.
*سبحانی، جعفر، الانصاف فی مسائل دام فیہا الخلاف، قم ۱۳۸۱ ش.
*طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، بیروت، مؤسسة الاعلمی للمطبوعات، چاپ اول، 1415ھ.
*شبّر، عبداللّہ، الاصول الاصلیہ و القواعد الشرعیہ، قم ۱۴۰۴.
*فاضل مقداد، مقداد بن عبدالله، اللوامع اللهیة، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، 1422ھ.
*شرف الدین، عبد الحسین، أجوبہ مسائل جاراللّہ، چاپ عبد الزہراء یاسری، قم ۱۴۱۶/ ۱۹۹۵.
*قرطبی، شمس‌الدین، تفسیر القرطبی، قاهره، دار الکتب المصریة، 1384ھ.
*شمس الائمہ سرخسی، محمد بن احمد، کتاب المبسوط، بیروت ۱۴۰۶/ ۱۹۸۶.
*کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، قم، دارالحدیث، چاپ اول، 1387ہجری شمسی.
*شہرستانی، محمد بن عبد الکریم، الملل و النحل، چاپ محمد سید کیلانی، بیروت ۱۴۰۶/۱۹۸۶.
*مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت، مؤسسةالوفاء، 1403ھ.
*الصنعانی، أبو بكر عبد الرزاق بن ہمام(211 قالمصنف، تحقيق حبيب الرحمن الأعظمی، المكتب الإسلامی - بيروت، چاپ دوم، 1403 ق.
*محقق کرکی، نورالدین علی بن حسین، جامع المقاصد فی شرح القواعد، قم، کتابخانه آیت‌الله العظمی مرعشی نجفی، بی‌تا.
*محمد بن مکی شہید اول، البیان، چاپ محمد حسون، قم ۱۴۱۲.
*مشکور، محمدجواد و کاظم مدیر شانه‌چی، فرهنگ فرق اسلامی، مشهد، انتشارات آستان قدس رضوی، بی‌تا.
*محمد بن مکی شہید اول، القواعد و الفوائد: فی الفقہ و الاصول و العربیہ، چاپ عبد الہادی حکیم، نجف ? ۱۳۹۹/۱۹۷۹، چاپ افست قم، بی‌تا.
*مکارم شیرازی، تقیه و حفظ نیروها، ترجمه سید محمدجواد بنی‌سعید لنگرودی، قم، مدرسه امام علی بن ابی طالب(ع)، 1394ہجری شمسی.
*طباطبائی، محمد حسين، الميزان فى تفسير القرآن، بيروت ۱۳۹۰ـ۱۳۹۴/ ۱۹۷۱ـ۱۹۷۴
*مکارم شیرازی، ناصر، القواعد الفقهیة، قم، مدرسة الامام علی بن ابی طالب(ع)، چاپ سوم، 1370ہجری شمسی.
*طبری، محمد بن جریر، تاریخ الطبری: تاریخ الامم و الملوک، چاپ محمد ابو الفضل ابراہیم، بیروت ۱۳۸۲ – ۱۳۸۷ / ۱۹۶۲ – ۱۹۶۷.
*مکارم شیرازی، ناصر، داستان یاران (مجموعه بحث‌های تفسیری حضرت آیت‌الله العظمی مکارم شیرازی)، قم، مدرسه امام علی بن ابی طالب(ع)، 1390ہجری شمسی.
*طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، محقق و معلق: ہاشم رسولی و فضل اللہ یزدی طباطبایی، ناصر خسرو، تہران، ۱۳۷۲.
*نجفی، محمدحسن، جواهرالکلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ هفتم، 1362ہجری شمسی.
*طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، چاپ احمد حبیب قصیر عاملی، بیروت، بی‌تا.
*نوری، سیدحسین، [https://www.sid.ir/paper/525377/fa#downloadbottom «نقد دیدگاه ابن‌تیمیه در باب تقیه»]، در پژوهشنامه کلام، شماره 10، بهار و تابستان 1398ہجری شمسی.
*طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، چاپ جواد قیومی، قم ۱۴۱۷.
*هیثمی، نورالدین علی بن ابی‌بکر، کشف‌الاستار، بیروت، مؤسسةالرسالة، چاپ اول، 1399ھ.
*غزالی، محمد بن محمد، احیاء علوم الدین، بیروت: دار الندوہ الجدید، بی‌تا.
*فاضل مقداد، مقداد بن عبداللّہ، اللوامع الالہیہ فی المباحث الکلامیہ، چاپ محمد علی قاضی طباطبائی، قم ۱۳۸۰ ش.
*فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، او، مفاتیح الغیب، بیروت ۱۴۲۱/۲۰۰۰.
*فیروز آبادی، محمد بن یعقوب، القاموس المحیط، بیروت ۱۴۰۷/ ۱۹۸۷.
*قاسمی، محمد جمال الدین، تفسیرالقاسمی، المسمی محاسن التاویل، چاپ محمد فؤاد عبد الباقی، بیروت ۱۳۹۸/ ۱۹۷۸.
*قرطبی، محمد بن احمد، الجامع لاحکام القرآن، بیروت ۱۴۰۵/ ۱۹۸۵.
*کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، چاپ علی اکبر غفاری، بیروت ۱۴۰۱.
*مجلسی، محمد باقر بن محمد تقى، بحار الانوار، بيروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳.
*محقق کرکی، علی بن حسین، رسائل المحقق الکرکی، چاپ محمد حسون، ج۲، رسالہ ۸: رسالہ فی التقیہ، قم ۱۴۰۹.
*مراغی، احمد مصطفی، تفسیر المراغی، بیروت، ۱۳۶۵.
*مظفر، محمد رضا، عقائد الامامیہ، قم، بی‌تا.
*مفید، محمد بن محمد، اوائل المقالات فی المذاہب والمختارات، چاپ عباس قلی ص.وجدی (واعظ چرندابیتبریز ۱۳۷۱، چاپ افست قم، بی‌تا.
*ہمو، تصحیح اعتقادات الامامیہ، چاپ حسین درگاہی، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۳.
*موسوی بجنوردی، حسن، القواعد الفقہیہ، چاپ مہدی مہریزی و محمد حسین درایتی، قم ۱۳۷۷ ش.
*نجاشی، احمد بن علی، فہرست اسماء مصنفی الشیعہ المشتہر ب رجال النجاشی، چاپ موسی شبیری زنجانی، قم ۱۴۰۷.
*نسفی، عبداللّہ بن احمد، تفسیر القرآن الجلیل، المسمی بمدارک التنزیل و حقائق التأویل، بیروت: دار الکتاب العربی، بی‌تا.
*نیشابوری، علی بن احمد واحدی، اسباب النزول الآیات، قاہرہ ۱۳۸۸/۱۹۶۸.
{{ستون خ}}
</div>


{{عقائد}}
{{عقائد}}
confirmed، movedable
5,154

ترامیم