"قاضی شریح کا فتوا" کے نسخوں کے درمیان فرق
←اس فتوے کے منکرین
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) |
||
سطر 14: | سطر 14: | ||
== اس فتوے کے منکرین == | == اس فتوے کے منکرین == | ||
محمد صحتی سردرودی کے مطابق [[علامہ حلی]] کی [[الالفین (کتاب)|کتاب الالفین]] کے متن میں ایسا کوئی فتوی مذکور نہیں ہے اور اس کتاب کے ترجمے میں مترجم نے جو مطلب اس حوالے سے ذکر کیا ہے وہ اس سے پہلے کسی کتاب میں موجود نہیں ہے۔<ref>صحتی سردرودی، تحریفشناسی عاشورا و تاریخ امام حسین، ۱۳۹۴ش، ص۲۰۱۔</ref> صحتی اس سلسلے میں متقدم 31 مآخذ کا نام لیتے ہیں جن میں قاضی شریح کے | محمد صحتی سردرودی کے مطابق [[علامہ حلی]] کی [[الالفین (کتاب)|کتاب الالفین]] کے متن میں ایسا کوئی فتوی مذکور نہیں ہے اور اس کتاب کے ترجمے میں مترجم نے جو مطلب اس حوالے سے ذکر کیا ہے وہ اس سے پہلے کسی کتاب میں موجود نہیں ہے۔<ref>صحتی سردرودی، تحریفشناسی عاشورا و تاریخ امام حسین، ۱۳۹۴ش، ص۲۰۱۔</ref> صحتی اس سلسلے میں متقدم 31 مآخذ کا نام لیتے ہیں جن میں قاضی شریح کے ایسے کسی فتوی کا ذکر نہیں آیا ہے۔<ref> صحتی سردرودی، تحریفشناسی عاشورا و تاریخ امام حسین، ۱۳۹۴ش، ص۲۰۱۔</ref> [[سید محمد علی قاضی طباطبایی|قاضی طباطبائی]] بھی اپنی کتاب [[سید الشہداء کی پہلی اربعین سے متعلق تحقیق (کتاب)|سید الشہداء کی پہلی اربعین سے متعلق تحقیق]] میں اس فتوے کے مآخذ کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔<ref>قاضی طباطبائی، تحقیق در اول اربعین سید الشہداء، ۱۳۶۸ش، ص۶۴۔</ref> کتاب ''ثاراللہ'' کے مصنف نے بھی قاضی شریح کے فتوے کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق [[مقتل|مقاتل]] میں قاضی شریح کا نام دو جگہوں پر آیا ہے اور یہ دونوں مقام [[ہانی بن عروہ]] کی گرفتاری سے متعلق ہے۔<ref>عندلیب، ثاراللہ، ۱۳۷۶ش، ص۱۲۶۔</ref> اسی طرح [[تاریخ و حدیث میں بے بنیاد مشہورات (کتاب)|تاریخ و حدیث میں بے بنیاد مشہورات]](تألیف 2019ء) نامی کتاب میں [[مختار بن ابی عبید ثقفی|مختار ثقفی]] کا قاضی شریح کو قاضی کے عنوان سے منصوب کرنے کو اس فتوے کے بے بیناد ہونے کی دلیل قرار دی گئی ہے۔ کیونکہ مصنف کے بقول یہ فتوی مختار کے واقعہ کربلا کے مجرمین سے انتقام لینے کے رویے کے ساتھ سازگاری نہیں رکھتا۔<ref>سلیمانی، مشہورات بیاعتبار، ۱۳۹۸ش، ص۲۲۵۔</ref> | ||
[[لغتنامہ دہخدا]] میں بھی لفظ شریح کے ذیل میں اس داستان کے غیر معتبر ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔<ref>دہخدا، لغتنامہ، ۱۳۷۳ش، ج۲۶، ص۳۴۹</ref> کتاب [[تاریخ قیام و مقتل جامع سید الشہدا (کتاب)|تاریخ جامع سید الشہداء]] کے مصنفین نے بھی مذکورہ فتوی کو معتبر سند سے خالی قرار دیتے ہوئے | [[لغتنامہ دہخدا]] میں بھی لفظ شریح کے ذیل میں اس داستان کے غیر معتبر ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔<ref>دہخدا، لغتنامہ، ۱۳۷۳ش، ج۲۶، ص۳۴۹</ref> کتاب [[تاریخ قیام و مقتل جامع سید الشہدا (کتاب)|تاریخ جامع سید الشہداء]] کے مصنفین نے بھی مذکورہ فتوی کو معتبر سند سے خالی قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس واقعے کا ذکر فقط چودہویں صدی ہجری کے مآخذ میں ہوا ہے۔<ref>گروہی از تاریخپژوہان، تاریخ قیام و مقتل جامع سیدالشہداء، ۱۳۹۲ش، ج۱، ص۵۳۰، پانویس۔</ref> | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== |