"شہادت فاطمہ زہرا" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
{{دربارہ ۲|شہادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|اطلاع از وقایع مرتبط، مدخل|واقعہ ہجوم بہ خانہ حضرت فاطمہ(س)|و|تشییع و تدفین حضرت فاطمہ(س)}} | {{دربارہ ۲|شہادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|اطلاع از وقایع مرتبط، مدخل|واقعہ ہجوم بہ خانہ حضرت فاطمہ(س)|و|تشییع و تدفین حضرت فاطمہ(س)}} | ||
خانہ معلومات واقعہ | {{خانہ معلومات واقعہ | ||
|عنوان = شادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا | |عنوان = شادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا | ||
|تصویر = ایتہا الصدیقة الشہیدہ۔jpg | |تصویر = ایتہا الصدیقة الشہیدہ۔jpg | ||
سطر 29: | سطر 29: | ||
شہادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات بھی پیش کئے گئے ہیں اور ان کے جوابات بھی دیئے گئے ہیں؛ مثلا ایک شبہہ یہ ہے کہ اس زمانے میں شہر [[مدینہ]] میں گھروں میں دروازے نہیں ہوتے تھے تو پھر بی بی کے گھر کا دروازہ جلانے کی بات کیسے صحیح ہو سکتی ہے۔ اس کے جواب میں شیعہ محقق [[سید جعفر مرتضی عاملی]] (وفات: ۱۴۴۱ھ) کچھ روایات سے استناد کرکے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مدینہ کے گھروں میں دروازے کا ہونا ایک عام سی بات تھی۔ | شہادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بارے میں کچھ شکوک و شبہات بھی پیش کئے گئے ہیں اور ان کے جوابات بھی دیئے گئے ہیں؛ مثلا ایک شبہہ یہ ہے کہ اس زمانے میں شہر [[مدینہ]] میں گھروں میں دروازے نہیں ہوتے تھے تو پھر بی بی کے گھر کا دروازہ جلانے کی بات کیسے صحیح ہو سکتی ہے۔ اس کے جواب میں شیعہ محقق [[سید جعفر مرتضی عاملی]] (وفات: ۱۴۴۱ھ) کچھ روایات سے استناد کرکے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مدینہ کے گھروں میں دروازے کا ہونا ایک عام سی بات تھی۔ | ||
اسی طرح ایک شبہہ یہ پیش ہوتا ہے کہ اگر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر حملہ ہوا تھا تو [[حضرت علی علیہ السلام]] اور دیگر صحابہ کیسے خاموش رہے اور ان کا دفاع کیوں نہیں کیا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ایک تو [[پیغمبر اسلام]] صلی اللہ علیہ وآلہ کی جانب سے آپ کو | اسی طرح ایک شبہہ یہ پیش ہوتا ہے کہ اگر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر حملہ ہوا تھا تو [[حضرت علی علیہ السلام]] اور دیگر صحابہ کیسے خاموش رہے اور ان کا دفاع کیوں نہیں کیا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ایک تو [[پیغمبر اسلام]] صلی اللہ علیہ وآلہ کی جانب سے آپ کو | ||
مصلحت اسلام کے لئے [[صبر]] و سکوت کا حکم کیا گیا تھا، دوسری طرف کہا گیا ہے کہ کتاب سلیم کی ایک روایت کی بنیاد پر حضرت علی علیہ السلام نے عمر کے حملے کے وقت اس پر حملہ کیا اور اسی زمین چٹا دی لیکن عمر نے دوسرے لوگوں کو آواز دی اور انھوں نے مل کر حضرت علیہ السّلام کو رسی سے باندھ دیا۔ | |||
اہل سنت کے کچھ مورخین نے [[تین خلفاء|تینوں خلیفہ]] کے ساتھ حضرت علی اور فاطمہ زہرا علیہما السلام کے تعلقات کی کچھ مثالوں کو دلیل بنا کر آپ کی شہادت کو مسترد کیا ہے۔ لیکن شیعوں کے مورخین کی نظر میں حضرت علی علیہ السلام سے خلفاء کا مشورہ لینا آپ کے تعاون اور ہمدلی کی دلیل نہیں ہو سکتی کیونکہ دینی احکام کی رہنمائی ہر عالم کے اوپر واجب ہوتی ہے۔ اسی طرح خلفاء نے حضرت علیہ السّلام کو نظر انداز کرکے گوشہ نشین کردیا تھا اور بعض امور میں مجبورا آپ سے مشورہ کرتے تھے نہ یہ کہ آپ ان کے مشیر رہے ہوں۔ | |||
اسی طرح بعض شیعوں نے امام علی علیہ السلام کی بیٹی [[ام کلثوم کا عمر سے نکاح|ام کلثوم سے عمر کے نکاح]] کو سرے سے مسترد کیا ہے اور بعض دیگر نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ یہ نکاح، زور زبردستی کی بنیاد پر ہوا اور یہ حضرت علی علیہ السلام اور خلفاء کے درمیان اچھے تعلقات کی دلیل نہیں ہو سکتا۔ | اسی طرح بعض شیعوں نے امام علی علیہ السلام کی بیٹی [[ام کلثوم کا عمر سے نکاح|ام کلثوم سے عمر کے نکاح]] کو سرے سے مسترد کیا ہے اور بعض دیگر نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ یہ نکاح، زور زبردستی کی بنیاد پر ہوا اور یہ حضرت علی علیہ السلام اور خلفاء کے درمیان اچھے تعلقات کی دلیل نہیں ہو سکتا۔ | ||
سطر 60: | سطر 60: | ||
{{-}} | {{-}} | ||
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کا رحلت کے بارے میں اختلاف کا مسئلہ ایک طولانی اختلاف کا مسئلہ ہے؛ دوسری صدی ہجری کے ضرار بن عمرو کی کتاب «التحریش» میں بعض محققین سے منقول ہے شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ فاطمہ زہرا س، عمر ابن خطاب کے حملے کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔<ref>[https://www۔valiasr-aj۔com/persian/shownews۔php?idnews=12364 «آیا اعتقاد بہ شہادت و مظلومیت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا دارای سابقہ تاریخی میباشد؟»]، تحقیقاتی سائٹ ولی عصر (عج)۔</ref> اسی طرح دوسری صدی ہجری کے متکلم، عبداللہ بن یزید فزاری اپنی کتاب «کتاب الردود» میں شیعوں کے اس عقیدہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ فاطمہ کو بعض صحابہ کی طرف سے صدمہ ہوا اور آپ کے شکم میں محسن ساقط ہوئے۔<ref>سلیمی, Early Ibadi Theology: New Material on Rational Thought in Islam from the Pen of al-Fazārī, ص۳۳۔</ref> [[محمدحسین کاشف الغطاء]] (وفات ۱۳۷۳ھ) نے لکھا ہے کہ دوسری اور تیسری صدی ہجری کے شعراء جیسے | جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کا رحلت کے بارے میں اختلاف کا مسئلہ ایک طولانی اختلاف کا مسئلہ ہے؛ دوسری صدی ہجری کے ضرار بن عمرو کی کتاب «التحریش» میں بعض محققین سے منقول ہے شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ فاطمہ زہرا س، عمر ابن خطاب کے حملے کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔<ref>[https://www۔valiasr-aj۔com/persian/shownews۔php?idnews=12364 «آیا اعتقاد بہ شہادت و مظلومیت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا دارای سابقہ تاریخی میباشد؟»]، تحقیقاتی سائٹ ولی عصر (عج)۔</ref> اسی طرح دوسری صدی ہجری کے متکلم، عبداللہ بن یزید فزاری اپنی کتاب «کتاب الردود» میں شیعوں کے اس عقیدہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ فاطمہ کو بعض صحابہ کی طرف سے صدمہ ہوا اور آپ کے شکم میں محسن ساقط ہوئے۔<ref>سلیمی, Early Ibadi Theology: New Material on Rational Thought in Islam from the Pen of al-Fazārī, ص۳۳۔</ref> [[محمدحسین کاشف الغطاء]] (وفات ۱۳۷۳ھ) نے لکھا ہے کہ دوسری اور تیسری صدی ہجری کے شعراء جیسے [[کمیت بن زید اسدی|کُمیت اسدی]]، [[سید اسماعیل حمیری|سید حِمیَری]] اور [[دعبل بن علی خزاعی|دِعبِل خُزاعی]] نے فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سپرد ہونے والوں مظالم کو نظم کیا ہے۔<ref> کاشفالغطاء، جنۃ المأوی، ۱۴۲۹ھ، ص۶۲۔</ref> | ||
عبد الکریم شہرستانی (وفات: ۵۴۸ھ) کے بقول اہل سنت کے مشہور فرقہ شناس ابراہیم بن سیار عرف نَظّام معتزلی (وفات: ۲۲۱ھ) کا نظریہ تھا کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے شکم میں موجود بچہ عمر کے حملے کی وجہ سے ساقط ہوا۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۶۴ش، ج۱، ص۷۱۔</ref> شہرستانی کے بقول یہ عقیدہ اور معتزلہ نظام کے کچھ دیگر نظریات باعث بنے کہ وہ اپنے ہمراہیوں سے فاصلہ بنائیں۔<ref> شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۶۴ش، ج۱، ص۷۱۔</ref> | عبد الکریم شہرستانی (وفات: ۵۴۸ھ) کے بقول اہل سنت کے مشہور فرقہ شناس ابراہیم بن سیار عرف نَظّام معتزلی (وفات: ۲۲۱ھ) کا نظریہ تھا کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کے شکم میں موجود بچہ عمر کے حملے کی وجہ سے ساقط ہوا۔<ref>شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۶۴ش، ج۱، ص۷۱۔</ref> شہرستانی کے بقول یہ عقیدہ اور معتزلہ نظام کے کچھ دیگر نظریات باعث بنے کہ وہ اپنے ہمراہیوں سے فاصلہ بنائیں۔<ref> شہرستانی، الملل و النحل، ۱۳۶۴ش، ج۱، ص۷۱۔</ref> | ||
سطر 69: | سطر 68: | ||
=== اختلاف کا سبب === | === اختلاف کا سبب === | ||
فاطمہ کی شہادت کے سلسلہ میں اختلافات کا سبب یہ ہے کہ آپ کی شہادت، [[رحلت پیغمبر]] صلی اللہ علیہ وآلہ کے بعد بہت کم فاصلے پر اور ایسے حالات میں ہوئی جب [[حضرت محمد]] صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کا مسئلہ گرم تھا۔ رخ دادہ است۔ جب کچھ [[مہاجرین]] و [[انصار]] نے [[واقعہ سقیفہ بنیساعدہ|سقیفہ بنی ساعدہ]] میں [[ابو بکر]] کی بیعت کرلی تو کچھ دیگر [[صحابہ]] نے علی ابی طالب کی خلافت و جانشینی کے سلسلہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی سفارشات کی وجہ سے ابو بکر کی [[بیعت]] کرنے سے انکار کیا۔ اسی وجہ سے ابو بکر کے حکم پر [[عمر بن خطاب]] کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر | فاطمہ کی شہادت کے سلسلہ میں اختلافات کا سبب یہ ہے کہ آپ کی شہادت، [[رحلت پیغمبر]] صلی اللہ علیہ وآلہ کے بعد بہت کم فاصلے پر اور ایسے حالات میں ہوئی جب [[حضرت محمد]] صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کا مسئلہ گرم تھا۔ رخ دادہ است۔ جب کچھ [[مہاجرین]] و [[انصار]] نے [[واقعہ سقیفہ بنیساعدہ|سقیفہ بنی ساعدہ]] میں [[ابو بکر]] کی بیعت کرلی تو کچھ دیگر [[صحابہ]] نے علی ابی طالب کی خلافت و جانشینی کے سلسلہ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کی سفارشات کی وجہ سے ابو بکر کی [[بیعت]] کرنے سے انکار کیا۔ اسی وجہ سے ابو بکر کے حکم پر [[عمر بن خطاب]] کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر | ||
[[حضرت علی علیہ السلام]] کے گھر گئے اور عمر نے دھمکی دی کہ اگر چہرے نہیں کی تو گھر کو اور اس میں موجود لوگوں میں آگ لگا دے گا۔<ref>طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ھ، ج۳، ص۲۰۲؛ ابن عبد ربہ، العقد الفرید، ۱۴۰۷ھ، ج۵، ص۱۳۔</ref> سے دوران فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ابو بکر کے عمال کے ذریعے [[واقعہ فدک| فدک پر قبضہ]] کے خلاف اعتراض کے لئے دربار میں گئیں اور ابو بکر سے [[فدک]] کا مطالبہ کیا تھا<ref>بلاذری، فتوح البلدان، ۱۹۵۶ء، ص۴۰ و ۴۱۔</ref> اور جب خلافت کے دربار سے فدک کی واپسی کے لئے انکار سنا تو مدینہ کی مساجد میں جاکر ایک [[خطبہ فدکیہ|احتجاجی خطبہ]] دیا | |||
تھا۔<ref> شہیدی، زندگانی فاطمہ زہرا علیہا السلام، ۱۳۶۲ش، ص۱۲۶-۱۳۵۔</ref> | تھا۔<ref> شہیدی، زندگانی فاطمہ زہرا علیہا السلام، ۱۳۶۲ش، ص۱۲۶-۱۳۵۔</ref> | ||