confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869
ترامیم
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
{{ خانہ معلومات دعا و زیارت | {{ خانہ معلومات دعا و زیارت | ||
| عنوان = | | عنوان = دعائے یا من ارجوه | ||
| تصویر = | | تصویر = | ||
| اندازہ تصویر = | | اندازہ تصویر = | ||
سطر 7: | سطر 7: | ||
| موضوع = | | موضوع = | ||
| مأثور/غیرمأثور = مأثور | | مأثور/غیرمأثور = مأثور | ||
| صادرہ از = [[امام صادق علیہالسلام|امام | | صادرہ از = [[امام صادق علیہالسلام|امام صادقؑ]] | ||
| راوی = | | راوی = | ||
| شیعہ منابع = [[اصول کافی]]، [[مصباح المتہجد (کتاب)]]، [[اقبال الاعمال (کتاب)|اقبال الاعمال]] | | شیعہ منابع = [[اصول کافی]]، [[مصباح المتہجد (کتاب)]]، [[اقبال الاعمال (کتاب)|اقبال الاعمال]] | ||
| اہل سنت منابع = | | اہل سنت منابع = | ||
| مونوگرافی = | | مونوگرافی = تحفہ رجبیہ | ||
| مخصوص وقت = ماه [[رجب]] | | مخصوص وقت = ماه [[رجب]] | ||
| مکان = | | مکان = | ||
}} | }} | ||
{{زیر تعمیر}} | {{زیر تعمیر}} | ||
'''دعای یا مَنْ اَرْجوه''' [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام | '''دعای یا مَنْ اَرْجوه''' [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادقؑ]] سے منقول دعا ہے کہ جس کو ماہ [[رجب]] میں پڑھنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ اس دعا کا مفہوم یہ ہے کہ اس میں انسان اپنے پروردگار سے دنیا و آخرت کی تمام نیکیوں کو طلب کر رہا ہے اور دنیا و آخرت کی تمام بدیوں سے نجات کی دعا کر رہا ہے۔ علمائے شیعہ، [[محمد بن یعقوب کلینی|کلینی]]، [[محمد بن عمر کشی|کَشّی]]، [[شیخ طوسی]] و [[سید ابن طاووس]] نے اس دعا کو نقل کیا ہے۔ | ||
ابن طاووس کے نقل کی بناء پر، جب امام صادقؑ اس دعا کو پڑھا کرتے تھے تو اپنے بائیں ہاتھ کو ریش مبارک پر رکھتے اور دائیں ہاتھ کی اشارے کی انگلی کو عجز و انکساری کے ساتھ جنبش دیتے تھے۔ البتہ یہ عمل ابتدائے دعا سے انجام دیا جانا چاہئے یا دعا کے آخری حصہ میں، اس بات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ صاحب [[تفسیر قرآن]] [[عبد اللہ جوادی آملی]] اس بات کہ معتقد ہیں کہ امام صادقؑ ابتدائے دعا سے ہی اس عمل کو انجام دیتے تھے۔ | ابن طاووس کے نقل کی بناء پر، جب امام صادقؑ اس دعا کو پڑھا کرتے تھے تو اپنے بائیں ہاتھ کو ریش مبارک پر رکھتے اور دائیں ہاتھ کی اشارے کی انگلی کو عجز و انکساری کے ساتھ جنبش دیتے تھے۔ البتہ یہ عمل ابتدائے دعا سے انجام دیا جانا چاہئے یا دعا کے آخری حصہ میں، اس بات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ صاحب [[تفسیر قرآن]] [[عبد اللہ جوادی آملی]] اس بات کہ معتقد ہیں کہ امام صادقؑ ابتدائے دعا سے ہی اس عمل کو انجام دیتے تھے۔ | ||
== متن و | == متن و ترجمہ == | ||
{{نقل قول|{{عربی |یَا مَنْ أَرْجُوهُ لِکُلِّ خَیْرٍ، وَ آمَنُ سَخَطَهُ عِنْدَ [من] کُلِّ شَرٍّ، یَا مَنْ یُعْطِی الْکَثِیرَ بِالْقَلِیلِ، یَا مَنْ یُعْطِی مَنْ سَأَلَهُ، یَا مَنْ یُعْطِی مَنْ لَمْ یَسْأَلْهُ وَ مَنْ لَمْ یَعْرِفْهُ تَحَنُّناً مِنْهُ وَ رَحْمَة، أَعْطِنِی بِمَسْأَلَتِی إِیَّاکَ جَمِیعَ [الخیرات] خَیْرِ الدُّنْیَا وَ جَمِیعَ خَیْرِ الْآخِرَة، وَ اصْرِفْ عَنِّی بِمَسْأَلَتِی إِیَّاکَ جَمِیعَ شَرِّ الدُّنْیَا وَ [جمیع] شَرِّ الْآخِرَة، فَإِنَّهُ غَیْرُ مَنْقُوصٍ مَا أَعْطَیْتَ، وَ زِدْنِی مِنْ فَضْلِکَ یَا کَرِیمُ، یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ یَا ذَا النَّعْمَاءِ وَ الْجُودِ، یَا ذَا الْمَنِّ وَ الطَّوْلِ، حَرِّمْ شَیْبَتِی عَلَی النَّارِ}}۔<ref>ابن طاووس، إقبال الأعمال، ۱۴۰۹ ھ، ج۲، ص۶۴۴۔</ref> | {{نقل قول|{{عربی |یَا مَنْ أَرْجُوهُ لِکُلِّ خَیْرٍ، وَ آمَنُ سَخَطَهُ عِنْدَ [من] کُلِّ شَرٍّ، یَا مَنْ یُعْطِی الْکَثِیرَ بِالْقَلِیلِ، یَا مَنْ یُعْطِی مَنْ سَأَلَهُ، یَا مَنْ یُعْطِی مَنْ لَمْ یَسْأَلْهُ وَ مَنْ لَمْ یَعْرِفْهُ تَحَنُّناً مِنْهُ وَ رَحْمَة، أَعْطِنِی بِمَسْأَلَتِی إِیَّاکَ جَمِیعَ [الخیرات] خَیْرِ الدُّنْیَا وَ جَمِیعَ خَیْرِ الْآخِرَة، وَ اصْرِفْ عَنِّی بِمَسْأَلَتِی إِیَّاکَ جَمِیعَ شَرِّ الدُّنْیَا وَ [جمیع] شَرِّ الْآخِرَة، فَإِنَّهُ غَیْرُ مَنْقُوصٍ مَا أَعْطَیْتَ، وَ زِدْنِی مِنْ فَضْلِکَ یَا کَرِیمُ، یَا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ یَا ذَا النَّعْمَاءِ وَ الْجُودِ، یَا ذَا الْمَنِّ وَ الطَّوْلِ، حَرِّمْ شَیْبَتِی عَلَی النَّارِ}}۔<ref>ابن طاووس، إقبال الأعمال، ۱۴۰۹ ھ، ج۲، ص۶۴۴۔</ref> | ||
|اے وہ جس سے ہر بھلائی کی امیدرکھتا ہوں اور ہربرائی کے وقت اس کے غضب سے امان میں ہوتا ہوں، وہ جو تھوڑے عمل پرزیادہ اجر دیتا ہے، اے وہ جو ہرسوال کرنے والے کو دیتا ہے اے وہ جو اسے بھی دیتا ہے جو سوال نہیں کرتا اور اسے بھی دیتا ہے جو اسے نہیں پہچانتا اس پر بھی رحم و کرم کرتا ہے، تو مجھے بھی میرے سوال پر عطا فرما دے، دنیا و آخرت کی تمام خوبیاں اور نیکیاں اور میری طلب گاری پر مجھے محفوظ فرما دے، دنیا اور آخرت کی تمام تکلیفوں اور مشکلوں سے، کیونکہ تو جتنا عطا کرے تیرے یہاں کمی نہیں پڑتی اے کریم! مجھ پر اپنے فضل میں اضافہ فرما، اے صاحب جلالت و بزرگی، اے نعمتوں اور بخشش کے مالک، اے صاحب احسان و عطا، میرے سفید بالوں کو جہنم کی آگ پر حرام فرما دے۔}} | |اے وہ جس سے ہر بھلائی کی امیدرکھتا ہوں اور ہربرائی کے وقت اس کے غضب سے امان میں ہوتا ہوں، وہ جو تھوڑے عمل پرزیادہ اجر دیتا ہے، اے وہ جو ہرسوال کرنے والے کو دیتا ہے اے وہ جو اسے بھی دیتا ہے جو سوال نہیں کرتا اور اسے بھی دیتا ہے جو اسے نہیں پہچانتا اس پر بھی رحم و کرم کرتا ہے، تو مجھے بھی میرے سوال پر عطا فرما دے، دنیا و آخرت کی تمام خوبیاں اور نیکیاں اور میری طلب گاری پر مجھے محفوظ فرما دے، دنیا اور آخرت کی تمام تکلیفوں اور مشکلوں سے، کیونکہ تو جتنا عطا کرے تیرے یہاں کمی نہیں پڑتی اے کریم! مجھ پر اپنے فضل میں اضافہ فرما، اے صاحب جلالت و بزرگی، اے نعمتوں اور بخشش کے مالک، اے صاحب احسان و عطا، میرے سفید بالوں کو جہنم کی آگ پر حرام فرما دے۔}} | ||
== دعا کی سند == | == دعا کی سند == | ||
شیعہ عالم دین | شیعہ عالم دین سید ابن طاووس نے [[ساتویں ہجری قمری]] میں کتاب [[الاقبال بالاعمال الحسنۃ فیما یعمل مرۃ فی السنۃ (کتاب)|اقبال الاعمال]]، میں دعائے ’یا من ارجوه‘ کو ذکر کیا ہے <ref>ابن طاووس، إقبال الأعمال، ۱۴۰۹ ھ، ج۲، ص۶۴۴۔</ref> [[علامہ مجلسی]] کے مطابق اس دعا کی سند [[معتبر]] ہے ۔<ref> مجلسی، زاد المعاد، ۱۴۲۳ ھ، ص۱۶</ref>۔ اور [[محمد بن عمر کشی|محمد بن عمر کَشّی]] نے بھی جو [[چوتھی ہجری قمری]] کے [[رجال شناس]] تھے، اس دعا کو نقل کیا ہے<ref>کشی، اختیار معرفۃ الرجال، ۱۴۰۴ ھ، ج۲، ص۶۶۷۔</ref> [[سید ابوالقاسم خویی]] نے اس کی سند کو [[حدیث ضعیف|ضعیف]] بتایا ہے<ref>خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۳۷۲ش، ص۲۳۰۔</ref> البتہ بعض علما نے آیتالله خویی کی بات کو ردّ کرتے ہوئے اس دعا کی سندِ روایت کو [[حدیث صحیح|صحیح]] قرار دیا ہے۔<ref>پیشگر، «گونهها، اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوه»، ص۷۰۔</ref> | ||
یہ دعا بغیر اس فقرے }}عربی |یا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ{{ کہ جو آخر دعا میں ہے، کتاب [[کافی]] میں وارد ہوئی ہے<ref>کلینی، الکافی،۱۴۲۹ ھ، ج۴، ص۵۵۹۔</ref> کہ جس کی سند کو علامہ مجلسی نے ضعیف جانا ہے۔<ref>مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ ھ، ج۱۲، ص۴۵۸۔</ref> حسین بن عمارہ و ابی جعفر جیسے نا معتبر افراد کا اس سلسلہ سند میں پایا جانا، سند کے ضعیف ہونے کی دلیل ہے۔<ref>پیشگر، «گونهها اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوه»، ص۶۹۔</ref> | یہ دعا بغیر اس فقرے }}عربی |یا ذَا الْجَلَالِ وَ الْإِکْرَامِ{{ کہ جو آخر دعا میں ہے، کتاب [[کافی]] میں وارد ہوئی ہے<ref>کلینی، الکافی،۱۴۲۹ ھ، ج۴، ص۵۵۹۔</ref> کہ جس کی سند کو علامہ مجلسی نے ضعیف جانا ہے۔<ref>مجلسی، مرآۃ العقول، ۱۴۰۴ ھ، ج۱۲، ص۴۵۸۔</ref> حسین بن عمارہ و ابی جعفر جیسے نا معتبر افراد کا اس سلسلہ سند میں پایا جانا، سند کے ضعیف ہونے کی دلیل ہے۔<ref>پیشگر، «گونهها اعتبار و ساختار دعای یا من ارجوه»، ص۶۹۔</ref> |