مندرجات کا رخ کریں

"بت شکنی کا واقعہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{امام علی}}
{{امام علی}}
'''بت شکنی کا واقعہ''' یا '''کَسْرِ اَصْنام کا واقعہ'''، اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں [[پیغمبر اسلامؐ]] نے [[حضرت علیؑ]] کو [[کعبہ]] کے بتوں کو توڑنے کے لئے اپنے کاندھوں پر اٹھایا۔ یہ واقعہ، [[شیعہ]] و [[اہل‌سنت]] دونوں کی کتابوں میں نقل ہوا ہے۔ اور یہ [[شب ہجرت]] یا [[فتح مکہ]] کے موقع پر پیش آیا۔
'''بت شکنی کا واقعہ''' یا '''کَسْرِ اَصْنام کا واقعہ'''، اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جس میں [[پیغمبر اسلامؐ]] نے [[حضرت علیؑ]] کو [[کعبہ]] کے بتوں کو توڑنے کے لئے اپنے کاندھوں پر اٹھایا۔ یہ واقعہ، [[شیعہ]] و [[اہل ‌سنت]] دونوں کی کتابوں میں نقل ہوا ہے۔ اور یہ [[شب ہجرت]] یا [[فتح مکہ]] کے موقع پر پیش آیا۔


بت شکنی، [[فضائل علی]] میں شمار ہوتی ہے۔ [[دوسرے خلیفہ]] کے بعد [[خلیفہ]] معین کرنے والی [[چھ رکنی شورا]] میں حضرت علیؑ نے اپنی بت شکنی سے استدلال کیا۔ اسی طرح اہل سنت کے بعض منابع میں [[گناہ]] کے وسائل کو نابود کرنے کے لزوم پر اسی واقعہ سے استدلال ہوا ہے۔
بت شکنی، [[فضائل علی]] میں شمار ہوتی ہے۔ [[دوسرے خلیفہ]] کے بعد [[خلیفہ]] معین کرنے والی [[چھ رکنی شورا]] میں حضرت علیؑ نے اپنی بت شکنی سے استدلال کیا۔ اسی طرح اہل سنت کے بعض منابع میں [[گناہ]] کے وسائل کو نابود کرنے کے لزوم پر اسی واقعہ سے استدلال ہوا ہے۔
سطر 12: سطر 12:
کچھ روایات میں ہے کہ حضور اکرمؐ اس موقع پر آیہ {{قرآن کا متن|«وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کاَنَ زَهوقًا»}}<ref>سورہ اسراء، آيہ۸۱۔</ref>  کی تلاوت فرما رہے تھے۔<ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸؛ ج۳، ص۶۔</ref> اس لحاظ سے کسر اصنام کے واقعہ کو اس آیت کا [[سبب نزول]] بھی بیان کیا گیا ہے۔<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۴۵۳–۴۵۴؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۶۔</ref> اسی طرح [[ابن شہر آشوب]] کی نقل کردہ روایت کی بنیاد پر آیہ {{قرآن کا متن|«وَ رَفَعْناہ مَكاناً عَلِيًّا»}}<ref>سورہ مریم، آیہ ۵۷۔</ref> اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵۔</ref>
کچھ روایات میں ہے کہ حضور اکرمؐ اس موقع پر آیہ {{قرآن کا متن|«وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کاَنَ زَهوقًا»}}<ref>سورہ اسراء، آيہ۸۱۔</ref>  کی تلاوت فرما رہے تھے۔<ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸؛ ج۳، ص۶۔</ref> اس لحاظ سے کسر اصنام کے واقعہ کو اس آیت کا [[سبب نزول]] بھی بیان کیا گیا ہے۔<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۴۵۳–۴۵۴؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۶۔</ref> اسی طرح [[ابن شہر آشوب]] کی نقل کردہ روایت کی بنیاد پر آیہ {{قرآن کا متن|«وَ رَفَعْناہ مَكاناً عَلِيًّا»}}<ref>سورہ مریم، آیہ ۵۷۔</ref> اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵۔</ref>


بت شکنی کا واقعہ [[شیعہ]]<ref>برای نمونہ: ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵–۱۴۲؛ شوشتری، إحقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۱۸، ص۱۶۲-۱۶۸۔</ref> و [[سنی]]<ref> ابن ابی‌شیبہ، المصنف، ۱۴۲۹ھ، ج۱۳، ص۱۴۶–۱۴۷؛ ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابی‌یعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲؛ طبری، تہذیب الآثار، مسند علی بن ابی‌طالب(ع)، بی‌تا، ص۲۳۶-۲۴۰؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸، ج۳، ص۶۔</ref> دونوں کتب میں نقل ہوا ہے۔ [[عبداللہ بن عباس]]،<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶، ۱۴۱۔</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]]<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۴۵۳؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵۔</ref> اور ابو مریم<ref>برای نمونہ: ابن ابی‌شیبہ، المصنف، ۱۴۲۹ھ، ج۱۳، ص۱۴۶–۱۴۷؛ ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابی‌یعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲۔</ref> نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ [[علامہ امینی]] نے [[الغدیر (کتاب)|الغدیر]] میں ان علمائے اہل سنت کی فہرست ذکر کی ہے جنھوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔<ref> امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۷، ص۱۸–۲۴۔</ref>
بت شکنی کا واقعہ [[شیعہ]]<ref> برای نمونہ: ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵–۱۴۲؛ شوشتری، إحقاق الحق، ۱۴۰۹ھ، ج۱۸، ص۱۶۲-۱۶۸۔</ref> و [[سنی]]<ref> ابن ابی‌ شیبہ، المصنف، ۱۴۲۹ھ، ج۱۳، ص۱۴۶–۱۴۷؛ ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابی‌یعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲؛ طبری، تہذیب الآثار، مسند علی بن ابی‌طالب(ع)، بی‌تا، ص۲۳۶-۲۴۰؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸، ج۳، ص۶۔</ref> دونوں کتب میں نقل ہوا ہے۔ [[عبداللہ بن عباس]]،<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶، ۱۴۱۔</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]]<ref> حسکانی، شواہد التنزیل، ۱۴۱۱ھ، ج۱، ص۴۵۳؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵۔</ref> اور ابو مریم<ref> برای نمونہ: ابن ابی‌شیبہ، المصنف، ۱۴۲۹ھ، ج۱۳، ص۱۴۶–۱۴۷؛ ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ نسائی، سنن نسائی، ۱۴۱۱ھ، ج۵، ص۱۴۲–۱۴۳؛ ابی‌یعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱-۲۵۲۔</ref> نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ [[علامہ امینی]] نے [[الغدیر (کتاب)|الغدیر]] میں ان علمائے اہل سنت کی فہرست ذکر کی ہے جنھوں نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔<ref> امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ھ، ج۷، ص۱۸–۲۴۔</ref>


==فضیلت شمار ہونا==
==فضیلت شمار ہونا==
سطر 23: سطر 23:
'''چھ رکنی شورا میں بت شکنی کا تذکرہ'''
'''چھ رکنی شورا میں بت شکنی کا تذکرہ'''


حضرت علیؑ بت شکنی واقعہ پر فخر کرتے تھے<ref> ابن شہرآشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶؛ ابن شاذان، الفضائل، ۱۳۶۳ش، ص۸۵۔</ref> اور کہتے تھے: میں تھا جس نے مہر نبوت پر قدم رکھا۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶۔</ref> خلیفہ دوم کے بعد خلیفہ معین کرنے کے لئے بنائی جانے والی [[چھ رکنی شورا]] میں آپ نے سب سے اقرار لیا کہ آپ کے سوا کوئی اس فضیلت کا حامل نہیں ہے۔<ref> طبرسی، الإحتجاج، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۱۳۸؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۱، ص۳۳۴، ۳۷۹؛ بحرانی، حلیۃ الأبرار، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۳۲۹۔</ref> اسی طرح کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب آرزو کرتے تھے کہ کاش یہ فضیلت مجھے مل گئی ہوتی۔<ref> ابن شہرآشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶۔</ref>
حضرت علیؑ بت شکنی واقعہ پر فخر کرتے تھے<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶؛ ابن شاذان، الفضائل، ۱۳۶۳ش، ص۸۵۔</ref> اور کہتے تھے: میں تھا جس نے مہر نبوت پر قدم رکھا۔<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶۔</ref> خلیفہ دوم کے بعد خلیفہ معین کرنے کے لئے بنائی جانے والی [[چھ رکنی شورا]] میں آپ نے سب سے اقرار لیا کہ آپ کے سوا کوئی اس فضیلت کا حامل نہیں ہے۔<ref> طبرسی، الإحتجاج، ۱۴۰۳ھ، ج۱، ص۱۳۸؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۱، ص۳۳۴، ۳۷۹؛ بحرانی، حلیۃ الأبرار، ۱۴۱۱ھ، ج۲، ص۳۲۹۔</ref> اسی طرح کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب آرزو کرتے تھے کہ کاش یہ فضیلت مجھے مل گئی ہوتی۔<ref> ابن شہرآشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۶۔</ref>


==واقعہ کا وقت اور تاریخ==
==واقعہ کا وقت اور تاریخ==
اکثر کتب میں اس واقعہ کی تاریخ کا تذکرہ نہیں ہے اور صرف اس کے رات میں ہونے <ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۴۱؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۴-۸۵۔</ref> اور خفیہ ہونے<ref> ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ ابی‌یعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱۔</ref> پر اکتفاء کی گئی ہے۔ اس کے باوجود کچھ کتب میں اس کے [[شب ہجرت]] <ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۳، ص۶۔</ref> یا [[فتح مکہ]]<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵، ۱۴۰؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۶۔</ref> کے موقعہ پر ہونے کا تذکرہ ہے۔
اکثر کتب میں اس واقعہ کی تاریخ کا تذکرہ نہیں ہے اور صرف اس کے رات میں ہونے <ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۲، ص۳۹۸؛ ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۴۱؛ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۴-۸۵۔</ref> اور خفیہ ہونے<ref> ابن حنبل، مسند، ۱۴۱۶ھ، ج۲، ص۷۳–۷۴؛ بزار، مسند بزار، ۱۴۰۹ھ، ج۴، ص۲۱–۲۲؛ ابی‌یعلی، مسند، ۱۴۱۰ھ، ج۱، ص۲۵۱۔</ref> پر اکتفاء کی گئی ہے۔ اس کے باوجود کچھ کتب میں اس کے [[شب ہجرت]] <ref> حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، ۱۴۲۲ھ، ج۳، ص۶۔</ref> یا [[فتح مکہ]]<ref> ابن شہر آشوب، مناقب، ۱۳۷۹ھ، ج۲، ص۱۳۵، ۱۴۰؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۶۔</ref> کے موقعہ پر ہونے کا تذکرہ ہے۔


[[علامہ مجلسی]] نے [[بحارالانوار]] میں [[امام صادقؑ]] سے نقل کیا ہے کہ یہ واقعہ، [[نوروز]] کے دن پیش آیا۔<ref> مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۶۔</ref> البتہ بحار الانوار میں دوسرے مقام پر کوشش کی ہے کہ اس میں متعدد روایات کو ایک ساتھ جمع کریں۔<ref> مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۵۶، ص۱۳۸۔</ref>
[[علامہ مجلسی]] نے [[بحارالانوار]] میں [[امام صادقؑ]] سے نقل کیا ہے کہ یہ واقعہ، [[نوروز]] کے دن پیش آیا۔<ref> مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۶۔</ref> البتہ بحار الانوار میں دوسرے مقام پر کوشش کی ہے کہ اس میں متعدد روایات کو ایک ساتھ جمع کریں۔<ref> مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۵۶، ص۱۳۸۔</ref>


==نتائج==
==نتائج==
روایات کی بنیاد پر امام علیؑ کے ہاتھوں بت شکنی سبب بنی کہ اس کے بعد [[مشرکین]]، بتوں کو کعبہ میں نہ رکھیں۔<ref> ابن شاذان، الفضائل، ۱۳۶۳ش، ص۹۷؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۵۔</ref> [[اہل‌سنت]] کے بعض مآخذ میں اس واقعہ کو گناہوں کے وسائل نابود کرنے کے لازم ہونے پر دلیل بناکر پیش کیا گیا ہے۔<ref> طبری، تہذیب الآثار، مسند علی بن ابی‌طالب(ع)، بی‌تا، ص۲۳۸-۲۴۰۔</ref>
روایات کی بنیاد پر امام علیؑ کے ہاتھوں بت شکنی سبب بنی کہ اس کے بعد [[مشرکین]]، بتوں کو کعبہ میں نہ رکھیں۔<ref> ابن شاذان، الفضائل، ۱۳۶۳ش، ص۹۷؛ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳ھ، ج۳۸، ص۸۵۔</ref> [[اہل‌ سنت]] کے بعض مآخذ میں اس واقعہ کو گناہوں کے وسائل نابود کرنے کے لازم ہونے پر دلیل بناکر پیش کیا گیا ہے۔<ref> طبری، تہذیب الآثار، مسند علی بن ابی ‌طالب (ع)، بی‌تا، ص۲۳۸-۲۴۰۔</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 38: سطر 38:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{مآخذ}}
{{مآخذ}}
* ابن ابی‌شیبہ، عبداللہ بن محمد، المصنف لابن ابی‌شیبہ، تحقیق اسامۃ بن ابراہیم بن محمد، قاہرہ، فاروق الحدیثۃ للطباعۃ و النشر، ۱۴۲۹ھ۔
* ابن ابی‌ شیبہ، عبداللہ بن محمد، المصنف لابن ابی‌ شیبہ، تحقیق اسامۃ بن ابراہیم بن محمد، قاہرہ، فاروق الحدیثۃ للطباعۃ و النشر، ۱۴۲۹ھ۔
* ابن جوزی، یوسف بن حسام، تذکرۃ الخواص، قم، منشورات الشریف الرضی، ۱۴۱۸ھ۔
* ابن جوزی، یوسف بن حسام، تذکرۃ الخواص، قم، منشورات الشریف الرضی، ۱۴۱۸ھ۔
* ابن حنبل، احمد بن محمد، مسند الامام احمد بن حنبل، تحقیق شعیب الارنووط و عادل مرشد، بیروت، موسسۃ الرسالہ، ۱۴۱۶ھ۔
* ابن حنبل، احمد بن محمد، مسند الامام احمد بن حنبل، تحقیق شعیب الارنووط و عادل مرشد، بیروت، موسسۃ الرسالہ، ۱۴۱۶ھ۔
سطر 44: سطر 44:
* ابن شاذان، شاذان بن جبرئیل قمی، الفضائل، قم، رضی، چاپ دوم، ۱۳۶۳ش۔
* ابن شاذان، شاذان بن جبرئیل قمی، الفضائل، قم، رضی، چاپ دوم، ۱۳۶۳ش۔
* ابن شہرآشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل أبی طالب(ع)، قم، علامہ، ۱۳۷۹ھ۔
* ابن شہرآشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل أبی طالب(ع)، قم، علامہ، ۱۳۷۹ھ۔
* ابی‌یعلی، احمد بن علی، مسند ابی‌یعلی الموصلی، تحقیق حسین سلیم اسد، دمشق، دارالمأمون للتراث، چاپ دوم، ۱۴۱۰ھ۔
* ابی ‌یعلی، احمد بن علی، مسند ابی ‌یعلی الموصلی، تحقیق حسین سلیم اسد، دمشق، دارالمأمون للتراث، چاپ دوم، ۱۴۱۰ھ۔
* امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الأدب، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ، ۱۴۱۶ھ۔
* امینی، عبدالحسین، الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الأدب، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ، ۱۴۱۶ھ۔
* بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر القرآن، تحقیق واحد تحقیقات اسلامی بنیاد بعثت، قم، موسسہ بعثت، ۱۴۱۵ھ۔
* بحرانی، ہاشم بن سلیمان، البرہان فی تفسیر القرآن، تحقیق واحد تحقیقات اسلامی بنیاد بعثت، قم، موسسہ بعثت، ۱۴۱۵ھ۔
سطر 52: سطر 52:
* بکری، احمد بن عبداللہ، الأنوار و مفتاح السرور و الأفکار فی مولد النبی المختار، قم، رضی، ۱۴۱۱ھ۔
* بکری، احمد بن عبداللہ، الأنوار و مفتاح السرور و الأفکار فی مولد النبی المختار، قم، رضی، ۱۴۱۱ھ۔
* حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ دوم، ۱۴۲۲ھ۔
* حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ دوم، ۱۴۲۲ھ۔
* حرعاملی، محمد بن حسن، إثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، بیروت، اعلمی، ۱۴۲۵ھ۔
* حر عاملی، محمد بن حسن، إثبات الہداۃ بالنصوص و المعجزات، بیروت، اعلمی، ۱۴۲۵ھ۔
* حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمدباقر محمودی، تہران، وزرات فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۱ھ۔
* حسکانی، عبیداللہ بن عبداللہ، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمد باقر محمودی، تہران، وزرات فرہنگ و ارشاد اسلامی، ۱۴۱۱ھ۔
* راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات ألفاظ القرآن، تحقیق صفوان عدنان داوودی، بیروت،‌دار القلم، ۱۴۱۲ھ۔
* راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات ألفاظ القرآن، تحقیق صفوان عدنان داوودی، بیروت،‌دار القلم، ۱۴۱۲ھ۔
* شوشتری، نوراللہ، إحقاق الحق و إزہاق الباطل، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۹ھ۔
* شوشتری، نوراللہ، إحقاق الحق و إزہاق الباطل، قم، کتابخانہ آیت‌اللہ مرعشی نجفی، ۱۴۰۹ھ۔
* شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الأخبار، تحقیق علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۰۳ھ۔
* شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الأخبار، تحقیق علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۰۳ھ۔
* طبرسی، احمد بن علی، الإحتجاج علی أہل اللجاج، تحقیق محمدباقر خرسان، مشہد، نشر مرتضی، ۱۴۰۳ھ۔
* طبرسی، احمد بن علی، الإحتجاج علی أہل اللجاج، تحقیق محمد باقر خرسان، مشہد، نشر مرتضی، ۱۴۰۳ھ۔
* طبری، محمد بن جریر، تہذیب الآثار و تفصیل الثابت عن رسول اللہ(ص) من الاخبار، مسند علی بن ابی‌طالب، تحقیق محمود محمد شاکر، قاہرہ، مطبعۃ المدنی، بی‌تا۔
* طبری، محمد بن جریر، تہذیب الآثار و تفصیل الثابت عن رسول اللہ(ص) من الاخبار، مسند علی بن ابی‌ طالب، تحقیق محمود محمد شاکر، قاہرہ، مطبعۃ المدنی، بی‌تا۔
* عاملی بیاضی، ابراہیم سلیمان،‌ الأوزان و المقادیر، بیروت، بی‌نا، ۱۳۸۱ھ۔‌
* عاملی بیاضی، ابراہیم سلیمان،‌ الأوزان و المقادیر، بیروت، بی‌نا، ۱۳۸۱ھ۔‌
* علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق و کشف الصدق، تعلیق عین‌اللہ حسنی ارموی، بیروت، دارالکتاب اللبنانی، ۱۹۸۲ء۔
* علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق و کشف الصدق، تعلیق عین‌اللہ حسنی ارموی، بیروت، دارالکتاب اللبنانی، ۱۹۸۲ء۔
* مجلسی، محمدباقر، بحارالأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
* مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ھ۔
* نسائی، احمد بن شعیب، سنن الکبری (سنن نسائی)، تحقیق عبدالغفار سلیمان البنداری و حسن سید کسروی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ھ۔
* نسائی، احمد بن شعیب، سنن الکبری (سنن نسائی)، تحقیق عبدالغفار سلیمان البنداری و حسن سید کسروی، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۱ھ۔
{{خاتمہ}}
{{خاتمہ}}
گمنام صارف