مندرجات کا رخ کریں

"مہر السنۃ" کے نسخوں کے درمیان فرق

10,851 بائٹ کا اضافہ ،  10 دسمبر 2020ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
(«{{زیر تعمیر}} '''{{عربی|مَہر السُنَّۃ}}'''، اس حق مہر کو کہا جاتا ہے جسے حضرت مح...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا)
 
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 3: سطر 3:


بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ چونکہ موجودہ دور میں 1500 مثقال چاندی کی قیمت بہت کم ہے جبکہ پیغمبر اکرمؐ اور [[ائمہ معصومینؑ]] کے دور میں 500 درہم کی کافی قدر تھی، اس بنا پر مہر السنہ کی کوئی ثابت مقدار معین نہیں کی جا سکتی بلکہ اسے ہر دور میں اسی زمانے کے مطابق معین ہونا چاہئے۔ ان تمام باتوں کے باوجود کہتے ہیں کہ مہر السنۃ کوئی بھاری حق مہر نہیں ہے۔
بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ چونکہ موجودہ دور میں 1500 مثقال چاندی کی قیمت بہت کم ہے جبکہ پیغمبر اکرمؐ اور [[ائمہ معصومینؑ]] کے دور میں 500 درہم کی کافی قدر تھی، اس بنا پر مہر السنہ کی کوئی ثابت مقدار معین نہیں کی جا سکتی بلکہ اسے ہر دور میں اسی زمانے کے مطابق معین ہونا چاہئے۔ ان تمام باتوں کے باوجود کہتے ہیں کہ مہر السنۃ کوئی بھاری حق مہر نہیں ہے۔
==تعریف==
{{اصلی|حق مہر}}
مہرالسنہ اس حق مہر کو کہا جاتا ہے جسے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|پیغمبر اسلامؐ]] اپنی [[ازواج رسول خدا|ازواج]] اور اسی طرح [[شیخ صدوق]] کی نقل کے مطابق اپنی بیٹیوں کے لئے حق مہر<ref>شیخ صدوق، المقنع، ۱۴۱۵ق، ص۳۰۲۔</ref> قرار دیا کرتے تھے۔<ref>ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، المقنع، ۱۴۱۵ق، ص۳۰۲؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۳۴۴۔</ref>
== مقدار==
[[حدیث|احادیث]] کے مطابق مہر السنہ کی مقدار 500 [[شرعی درہم|درہم]] تھی۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۰۰، ص۳۴۷-۳۴۸؛ شیخ صدوق، المقنع، ۱۴۱۵ق، ص۳۰۲؛ شہید ثانی، ۱۴۱۰، ج۵، ص۳۴۴۔</ref> ان احادیث کو [[تواتر|متواتر]] جانا گیا ہے۔<ref>مسعودی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، ص۱۱۳۔</ref>
بعض احادیث میں آیا ہے کہ پیغمر اکرمؐ نے اپنی ازواج اور بیٹیوں میں سے کسی کا حق مہر ساڑے 12 اوقیہ (500 درہم کے برابر) سے زیادہ مقرر نہیں فرمایا ہے۔<ref>حمیری، قرب‌الاسناد، ۱۴۱۳ق، ص۱۶-۱۷۔</ref>
===چند مختلف احادیث===<!--
در منابع [[حدیث|روایی]]، چند روایتِ متفاوت با روایات مہرالسنہ دیدہ می‌شود۔ از جملۂ آن‌ہا روایتی است کہ شیخ صدوق از [[امام محمد باقر علیہ‌السلام|امام باقر(ع)]] آوردہ و در آن مہریہ [[ام‌حبیبہ]] (ہمسر پیامبر) چہارہزار درہم نقل شدہ است۔<ref>شیخ صدوق، من لایحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۴۷۳۔</ref> گفتہ‌اند در این روایت، [[امام باقر(ع)]] این مہریہ را یک استثنا دانستہ کہ آن را نجاشی، حاکم [[حبشہ]] کہ وکالت پیامبر در [[خواستگاری]] از ام‌حبیبہ را برعہدہ داشتہ، انجام دادہ و خود او مہریہ را پرداخت کردہ و پیامبر(ص) با آن مخالفت نکردہ است۔<ref>مسعودی، «پژوہشى دربارہ مَہرُالسُّنّہ (مہر محمّدى)»، ص۱۱۳۔</ref>
ہمچنین در خصوص مہریہ [[حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا|حضرت زہرا(س)]] گزارش‌ہای متفاوتی ہست۔ از آن جملہ است ۴۸۰ درہم، ۴۰۰ مثقال نقرہ و ۵۰۰ درہم۔<ref>ابن‌شہرآشوب، مناقب آل‌ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۳، ص۳۵۱۔</ref> [[ابن‌شہرآشوب]] (۴۸۸-۵۸۸ق)، از محدثان شیعہ، در کتابش [[مناقب آل ابی‌طالب (کتاب)|مَناقِب]]، علت این اختلافات را آن دانستہ کہ مہریہ حضرت زہرا(س) چیز دیگری بودہ و این‌ اختلافات، دربارہ قیمت آن است۔ سپس روایاتی آوردہ است کہ بر پایہ برخی، از آن‌ہا مہریہ حضرت فاطمہ، کتان بافت یمن و پوست دباغی‌نشدہ و گیاہی خوشبو و طبق برخی دیگر،  زرہ و پوست دباغی‌نشدہ گوسفند یا شتر بودہ است۔<ref>ابن‌شہرآشوب، مناقب آل‌ابی‌طالب، ۱۳۷۹ق، ج۳، ص۳۵۱۔</ref>
برخی از نویسندگان با بررسی مجموع این روایات و با توجہ بہ سیرہ پیامبر(ص) و ہمچنین حدیثی کہ در آن، [[امام جواد علیہ‌السلام|امام جواد(ع)]] مہریہ ہمسرش، [[ام‌فضل دختر مأمون]] را پانصد درہم معادل مہریہ حضرت زہرا(س) معین کردہ،<ref>مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۸۴۔</ref> گفتہ‌اند مہریہ حضرت زہرا بیش از ۵۰۰ درہم نبودہ است۔<ref>مروج طبسی، فاطمہ الگوی حیات زیبا، ۱۳۸۰ش، ص۳۵-۳۶۔</ref>
== وجوب مہرالسنہ یا استحباب آن ==
بہ‌گفتہ [[محمدحسن نجفی|صاحب‌جواہر]]، از فقیہان قرن سیزدہم قمری، دیدگاہ مشہور میان [[فقیہ|فقیہان]]، این است کہ [[مہریہ]] زن سقف ندارد و تعیین مہریہ بیش از مہرالسنہ جایز است۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۱۳۔</ref> [[فتوا|بہ‌فتوای]] آن‌ہا، تعیین مہریہ بیش از مہرالسنہ تنہا [[مکروہ]] است۔<ref>نگاہ کنید بہ حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۶۹؛ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق ج۳۱، ص۴۷۔</ref>
بہ‌گفتہ او، شمار اندکی، از جملہ [[سید مرتضی|سیدِ مرتَضی]]،<ref>نگاہ کنید بہ سید مرتضی، الانتصار، ۱۴۱۵، ص۲۹۲۔</ref> از فقیہان قرن‌ہای چہارم و پنجم قمری، مہریہ بیش از مہرالسنہ را باطل می‌دانند و می‌گویند اگر مہریہ‌ای بیش از آن باشد، تنہا مقدار معادلِ مہرالسنہ برعہدہ مرد است۔<ref>نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۱۵۔</ref>
==معادل امروزی مہرالسنہ==
مقدار مہرالسنہ، یعنی پانصد درہم، معادل حدود ۱۵۰۰ گرم نقرہ خالص است کہ امروزہ ارزشی بسیار پایین‌تر از آن زمان دارد۔ از آنجا کہ ارزش پانصد درہم در زمان پیامبر(ص) و [[امامان شیعہ|ائمہ(ع)]]، بسیار بیشتر از دورہ‌ہای بعدی بودہ است، برخی معتقدند مہرالسنہ معادل پولی ثابتی ندارد و آن را باید براساس ارزش روز محاسبہ کرد۔ ازاین‌رو تلاش کردہ‌اند معادل روز آن را بہ دست بیاورند۔<ref> مسعودی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، ص۱۱۴۔</ref>
برای  مثال در گذشتہ، برخی از [[فقیہ|فقیہان]] پانصد [[درہم شرعی|درہم]] را با [[دینار شرعی|دینار]] می‌سنجیدند و چون در روزگارشان ہر دہ درہم یک دینار ارزش داشت، مہرالسنہ را پنجاہ دینار یعنی پنجاہ مثقال طلای خالص می‌دانستند۔ ہمچنین برخی پیشنہاد دادہ‌اند ارزش امروزی مہر‌السنہ براساس قدرت خرید آن در زمان پیامبر(ص) بہ دست آید چراکہ برپایہ برخی روایات، پیامبر(ص) با پول مہریہ حضرت زہرا، وسایلی برای زندگی مشترک او با [[امام علی(ع)]] خرید کہ از این راہ می‌توان ارزش امروزی مہرالسنہ را بہ دست آورد۔<ref> مسعودی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، ص۱۱۴-۱۱۵۔</ref>
باتوجہ بہ ارزش پنجاہ مثقال طلا و اینکہ وسایلی کہ با مہریہ حضرت زہرا(س) خریداری شد، وسایلی بسیار سادہ و حداقلی بودہ است، نتیجہ گرفتہ‌اند کہ مہرالسنہ، مہریہ‌ای سنگین نیست۔<ref>مسعودی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، ص۱۱۵-۱۱۶۔</ref>{{ہمچنین ببینید|جہیزیہ حضرت زہرا(س)}}
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات2}}
==مآخذ==
{{مآخذ}}
* ابن‌شہرآشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل‌ابی‌طالب علیہم‌السلام، قم، ‏علامہ، ‏چاپ اول، ۱۳۷۹ق۔
* حمیری، عبد اللہ بن جعفر، قرب‌الاسناد، تحقیق و تصحیح مؤسسہ آل‌البیت، قم، مؤسسہ آل‌البیت، چاپ اول، ۱۴۱۳ق۔
* سید مرتضی، علی بن حسین، الانتصار فی انفرادات الامامیہ، تصحیح و تحقیق گروہ پژوہش دفتر انتشارات اسلامی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، ۱۴۱۵ق۔
* شہید ثانی، زین‌الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، تحقیق سیدمحمد کلانتر، قم، کتابفروشی داوری، چاپ اول، ۱۴۱۰ق۔
* شیخ صدوق، محمد بن علی، المقنع، قم، مؤسسہ امام ہادی(ع)، چاپ اول، ۱۴۱۵ق۔
* شیخ صدوق، محمد بن علی، من لایحضرہ الفقیہ، تحقیق و تصحیح علی‌اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ دوم، ۱۴۱۳ق۔
* مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار، بیروت، دار احیاء‌ التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق۔
* محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق و تصحیح عبدالحسین محمدعلی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، ۱۴۰۸ق۔
* مروجی طبسی، محمدجواد، فاطمہ الگوی حیات زیبا، قم، بوستان کتاب، چاپ اول، ۱۳۸۰ش۔
* مسعودی، عبدالہادی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، در محمدی ری‌شہری، محمد، تحکیم خانوادہ از نگاہ قرآن و حدیث، ترجمہ حمیدرضا شیخی، قم، سازمان چاپ و نشر‌ دار الحدیث، چاپ دوم، ۱۳۸۹ش۔
* مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ على العباد، تحقیق و تصحیح مؤسسہ آل‌البیت، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ق۔
* نجفى، محمدحسن، جواہر الكلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، ۱۴۰۴ق۔
{{خاتمہ}}
{{احکام خانوادہ}}
confirmed، templateeditor
8,972

ترامیم