مندرجات کا رخ کریں

"قرآن کریم" کے نسخوں کے درمیان فرق

imported>E.musavi
imported>E.musavi
سطر 79: سطر 79:
عربی زبان میں معنی سمجھنے میں اعراب کا بہت بڑا کردار ہے اس لئے اعراب کی طرف توجہ دینا زیادہ اہم ہے؛ کیونکہ اعراب کی شناخت میں غلطی معنی میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے اور کبھی تو اللہ تعالی کی مراد کے مخالف معنی دیتا ہے۔<ref>محمدی ری‌شهری، شناخت‌نامه قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۳۱۲.</ref> کاتبان وحی شروع میں قرآنی الفاظ کو نقطہ اور اعراب کے بغیر لکھتے تھے اور یہ کام جو لوگ پیغمبر اکرمؐ کے دور میں بستے تھے ان کے لیے کوئی مشکل نہیں تھا لیکن بعد کی نسلیں خاص کر غیر عرب (عجم) کے لیے بعض اوقات مختلف قرائتوں اور معنی میں تبدیلی کا باعث بنتا تھا۔ اسی لیے اختلافات، قرآن کے معنی میں تحریف اور تغییر کے خاتمے کے لیے اعراب لگانا بہت ضروری تھا۔<ref>محمدی ری‌شهری، شناخت‌نامه قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۳۱۴.</ref>  
عربی زبان میں معنی سمجھنے میں اعراب کا بہت بڑا کردار ہے اس لئے اعراب کی طرف توجہ دینا زیادہ اہم ہے؛ کیونکہ اعراب کی شناخت میں غلطی معنی میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے اور کبھی تو اللہ تعالی کی مراد کے مخالف معنی دیتا ہے۔<ref>محمدی ری‌شهری، شناخت‌نامه قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۳۱۲.</ref> کاتبان وحی شروع میں قرآنی الفاظ کو نقطہ اور اعراب کے بغیر لکھتے تھے اور یہ کام جو لوگ پیغمبر اکرمؐ کے دور میں بستے تھے ان کے لیے کوئی مشکل نہیں تھا لیکن بعد کی نسلیں خاص کر غیر عرب (عجم) کے لیے بعض اوقات مختلف قرائتوں اور معنی میں تبدیلی کا باعث بنتا تھا۔ اسی لیے اختلافات، قرآن کے معنی میں تحریف اور تغییر کے خاتمے کے لیے اعراب لگانا بہت ضروری تھا۔<ref>محمدی ری‌شهری، شناخت‌نامه قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۳۱۴.</ref>  


تاریخی روایات کے مطابق سب سے پہلے اعراب اور نقطے اور ان کے لگانے والے کے بارے میں اختلاف نظر ہے۔ اکثر [[ابو الاسود دئلی|ابو الاسود دُئِلی]] (م 69ھ) کو اعراب کے موجد قرار دیتے ہیں جنہوں نے یحیی بن یعمر کی تعاون سے یہ کام انجام دیا۔<ref>محمدی ری‌شهری، شناخت‌نامه قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۳۱۵.</ref> شروع میں اعراب اس طرح سے تھے: ہر لفظ کے آخری حرف پر نقطہ زبر (نصب) کے لیے، نیچے نقطہ زیر (جر اور کسرہ) کے لیے جبکہ آخری حرف کے بعد نقطہ پیش (رفع اور ضمہ) کے لیے۔<ref>محمدی ری‌شهری، شناخت‌نامه قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۳۱۵.</ref>ایک صدی کے بعد، خلیل بن احمد فراہیدی (175ھ) نے نقطوں کے بدلے خاص شکل قرار دیا: نصب کے لیے حرف پر مستطیل اور جر اور کسرہ کے لیے حرف کے نیچے مستطیل اور رفع کے لیے حرف کے اوپر چھوٹا سا واو اور تنوین کے لیے انہی شکلوں کو دوبار قرار دیا جبکہ تشدید کے لیے «س» کے تینوں دانت اور جزم یا ساکن کے لیے «ص» کا اگلا حصہ قرار دیا۔<ref>محمدی ری‌شهری، شناخت‌نامه قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۳۱۵.</ref>دوسری صدی کے دوسرے حصے میں نحو کے مکاتب؛ بصرہ میں سیبویہ کی قیادت میں، کوفہ میں کسائی کی سرپرستی میں جبکہ تیسری صدی ہجری کے اواسط میں بغدا میں بھی نحو کا مکتب ظہور کر گیا اور قرآن مجید کے اعراب لگانے میں کافی ترقی ہوگئی۔<ref>محمدی ری‌شهری، شناخت‌نامه قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۳۱۶و۳۱۷.</ref>
تاریخی روایات کے مطابق سب سے پہلے اعراب اور نقطے اور ان کے لگانے والے کے بارے میں اختلاف نظر ہے۔ اکثر [[ابو الاسود دوئلی|ابو الاسود دُوئِلی]] (م 69 ھ) کو اعراب کے موجد قرار دیتے ہیں جنہوں نے یحیی بن یعمر کی تعاون سے یہ کام انجام دیا۔<ref>محمدی ری‌شهری، شناخت‌نامه قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۳۱۵.</ref> شروع میں اعراب اس طرح سے تھے: ہر لفظ کے آخری حرف پر نقطہ زبر (نصب) کے لیے، نیچے نقطہ زیر (جر اور کسرہ) کے لیے جبکہ آخری حرف کے بعد نقطہ پیش (رفع اور ضمہ) کے لیے۔<ref>محمدی ری‌شهری، شناخت‌نامه قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۳۱۵.</ref>ایک صدی کے بعد، خلیل بن احمد فراہیدی (175ھ) نے نقطوں کے بدلے خاص شکل قرار دیا: نصب کے لیے حرف پر مستطیل اور جر اور کسرہ کے لیے حرف کے نیچے مستطیل اور رفع کے لیے حرف کے اوپر چھوٹا سا واو اور تنوین کے لیے انہی شکلوں کو دوبار قرار دیا جبکہ تشدید کے لیے «س» کے تینوں دانت اور جزم یا ساکن کے لیے «ص» کا اگلا حصہ قرار دیا۔<ref>محمدی ری‌شهری، شناخت‌نامه قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۳۱۵.</ref>دوسری صدی کے دوسرے حصے میں نحو کے مکاتب؛ بصرہ میں سیبویہ کی قیادت میں، کوفہ میں کسائی کی سرپرستی میں جبکہ تیسری صدی ہجری کے اواسط میں بغدا میں بھی نحو کا مکتب ظہور کر گیا اور قرآن مجید کے اعراب لگانے میں کافی ترقی ہوگئی۔<ref>محمدی ری‌شهری، شناخت‌نامه قرآن، ۱۳۹۱ش، ج۳، ص۳۱۶و۳۱۷.</ref>


===قرآن کا ترجمہ===
===قرآن کا ترجمہ===
گمنام صارف