مندرجات کا رخ کریں

"استطاعت" کے نسخوں کے درمیان فرق

112 بائٹ کا اضافہ ،  21 فروری 2018ء
م
سطر 20: سطر 20:


==بدنی استطاعت==
==بدنی استطاعت==
بعض حنفی علما کے نظرئے کے مطابق وہ لوگ جو بیمار، زمین گیر، مفلوج اور نابینا انسان پر حج واجب نہیں ہے۔ اگرچہ ان کے لیے کوئی راہنما ہو بھی تو۔ لیکن اہل سنت کے باقی فقہا کے مطابق جس نابینا انسان کے ہمراہ کوئی ہو تو اس پر حج واجب ہے۔ شافعی علما کا کہنا ہے کہ جسمی توانایی اس قدر ہونا ضروری ہے کہ کسی مشقت کے بغیر اپنی سواری پر سوار ہوسکے۔ اور مالکیوں کا کہنا ہے کہ انسان کسی غیر معمولی مشقت کے بغیر سوار یا پیدل مکہ پہنچنے کی جسمانی توانائی رکھے تو یہ بدنی استطاعت کے حصول کے لیے کافی ہے۔<ref>مراجعہ کریں: کاسانی، ج ۲، ص۱۲۱؛ نووی، المجموع، ج ۷، ص۶۳، ۸۵؛ زحیلی، ج ۳، ص۲۷ـ۲۹</ref>
بعض حنفی علما کے مطابق بیمار، زمین گیر، مفلوج اور نابینا انسان پر حج واجب نہیں ہے۔ اگرچہ ان کی رہنمائی کیلئے کوئی دوسرا شخص بھی ہو تب بھی مذکورہ اشخاص پر حج واجب نہیں۔ لیکن اہل سنت کے باقی فقہا کے مطابق جس نابینا انسان کے ہمراہ کوئی اور شخص راہنمائی کیلئے ہو تو اس پر حج واجب ہو جاتا ہے۔ شافعی علما کا کہنا ہے کہ جسمی توانایی اس قدر ہونا ضروری ہے کہ کسی مشقت کے بغیر اپنی سواری پر سوار ہوسکے۔ اور مالکیوں کا کہنا ہے کہ انسان کسی غیر معمولی مشقت کے بغیر سوار یا پیدل مکہ پہنچنے کی جسمانی توانائی رکھے تو یہ بدنی استطاعت کے حصول کے لیے کافی ہے۔<ref>مراجعہ کریں: کاسانی، ج ۲، ص۱۲۱؛ نووی، المجموع، ج ۷، ص۶۳، ۸۵؛ زحیلی، ج ۳، ص۲۷ـ۲۹</ref>
 
[[شیعہ]] فقہا نے بدنی استطاعت کو حج واجب ہونے کے لئے شرط جانا ہے اور وہ بیمار لوگ جو مشکل سے گاڑی یا جہاز اور سواری پر سوار ہوسکتے ہیں، ان پر حج واجب نہیں جانا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: محقق حلّی، ۱۴۰۹، ج ۱، ص۱۶۵ـ۱۶۶؛ نجفی، ج ۱۷، ص۲۸۰ـ ۲۸۱؛ امام خمینی، ج ۱، ص۳۸۰</ref>


[[شیعہ]] فقہا نے بدنی استطاعت کو حج واجب ہونے کے لئے شرط جانا ہے اور وہ بیمار لوگ جو مشکل سے گاڑی یا جہاز اور سواری پر سوار ہوسکتے ہیں، ان پر واجب نہیں جانا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: محقق حلّی، ۱۴۰۹، ج ۱، ص۱۶۵ـ۱۶۶؛ نجفی، ج ۱۷، ص۲۸۰ـ ۲۸۱؛ امام خمینی، ج ۱، ص۳۸۰</ref>
==راستے میں امنیت==
==راستے میں امنیت==
حج میں استطاعت کی ایک اور قسم راستے میں امن کا ہونا ہے یعنی حاجی کی جان اور مال کو کوئی خطرہ نہ ہو۔<ref>فقہ امامیہ کے لیے مراجعہ کریں: ابن‌سعید، ص۱۷۵؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۷، ص۷۸؛ فقہ اہل سنت کے لیے مراجعہ کریں: نَوَوی، المجموع، ج ۷، ص۷۹ـ۸۰؛ زُحَیلی، ج ۳، ص۲۹، ۳۱، ۳۵</ref> روایات میں «مُخَلّی سَرْبُہ» (راستہ کھلا ہو اور امن ہو) کی تعبیر<ref>مراجعہ کریں: کلینی، ج ۴، ص۲۶۷؛ ابن‌بابویہ، ۱۴۰۴، ج ۲، ص۲۹۶</ref>، استطاعت کی اسی قسم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اگر راستے میں خطرہ ہو تو شافعیوں کے نزدیک کسی شخص کو محافظ کے طور پر لانا واجب ہے۔ اور مالکیوں اور بعض شافعیوں کا کہنا ہے کہ اگر مکہ تک پہنچنے کے لیے صرف سمندری راستہ ہو اور اس میں ہلاک ہونے کا خطرہ زیادہ ہو تو ایسی صورت میں حج واجب نہیں ہے۔<ref>مراجعہ کریں: نووی، المجموع، ج ۷، ص۸۲ـ۸۳؛ دسوقی، ج ۲، ص۸؛ زحیلی، ج ۳، ص۲۷، ۲۹، ۳۱</ref>
حج میں استطاعت کی ایک اور قسم راستے میں امن کا ہونا ہے یعنی حاجی کی جان اور مال کو کوئی خطرہ نہ ہو۔<ref>فقہ امامیہ کے لیے مراجعہ کریں: ابن‌سعید، ص۱۷۵؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۷، ص۷۸؛ فقہ اہل سنت کے لیے مراجعہ کریں: نَوَوی، المجموع، ج ۷، ص۷۹ـ۸۰؛ زُحَیلی، ج ۳، ص۲۹، ۳۱، ۳۵</ref> روایات میں «مُخَلّی سَرْبُہ» (راستہ کھلا ہو اور امن ہو) کی تعبیر<ref>مراجعہ کریں: کلینی، ج ۴، ص۲۶۷؛ ابن‌بابویہ، ۱۴۰۴، ج ۲، ص۲۹۶</ref>، استطاعت کی اسی قسم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اگر راستے میں خطرہ ہو تو شافعیوں کے نزدیک کسی شخص کو محافظ کے طور پر لانا واجب ہے۔ اور مالکیوں اور بعض شافعیوں کا کہنا ہے کہ اگر مکہ تک پہنچنے کے لیے صرف سمندری راستہ ہو اور اس میں ہلاک ہونے کا خطرہ زیادہ ہو تو ایسی صورت میں حج واجب نہیں ہے۔<ref>مراجعہ کریں: نووی، المجموع، ج ۷، ص۸۲ـ۸۳؛ دسوقی، ج ۲، ص۸؛ زحیلی، ج ۳، ص۲۷، ۲۹، ۳۱</ref>
confirmed، templateeditor
8,854

ترامیم