صارف:Mohsin/تختہ مشق 2
آیت حَرْث سورہ بقرہ کی آیت نمبر 223 کا ایک حصہ ہے جس میں میاں بیوی کے مابین جنسی تعلقات کی نوعیت اور نسل انسانی بڑھانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو کھیت سے تشبیہ دی ہے، جس طرح کھیت میں دانہ بویا جاتا ہے اسی طرح مرد اپنی بیوی کے ذریعے نسل انسانی بڑھاتا ہے۔
فقہاء نے اپنی فقہی کتابوں میں نکاح کے بارے میں اس آیت سے [[فقہی احکام[[ اخذ کیا ہے۔ مجتہدین میں سے اکثر نے اس آیت میں موجود جملہ «اَنّیٰ شِئْتُم؛ جس طرح چاہو» کی بنیاد پر فتوا دیا ہے کہ عورت کے دُبر(مقعد) میں بھی جماع کرنا بھی جائز ہے اور اس کی تائید میں احادیث بھی موجود ہیں۔ بعض فقہاء نے جملہ «اَنّیٰ» سے "کسی بھی وقت" مراد لیا ہے اور ان روایات سے استناد کرتے ہوئے جن پر فقہاء نے عمل نہیں کیا ہے؛ فتوا دیا ہے کہ دبر میں جماع کرنا مکروہ عمل ہے۔
آیت کے آخری حصے میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی تاکید کی ہے کہ بہر صورت اعمال صالح کو ترجیح دیں، تقوائے الہی اختیار کریں اور جان لیں کہ وہ قیامت کے دن خدا سے ملیں گے اور ان کے تمام اعمال کا حساب لیا جائے گا۔
وجہ تسمیہ
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 223 کو آیت حرث کہا گیا ہے جس میں میاں بیوی کےمابین جنسی تعلقات اور نسل انسانی بڑھانے کا ذکر ہے۔[1] اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو "حرث" یعنی کھیت یا قابل کاشت زمین سے تشبیہ دے کر تولید اور کثرت نسل میں ان کے خصوصی کردار کے بارے میں بتایا ہے۔[2] ازدواجی مسائل کے سلسلے میں قرآن نے کنایہ اور استعارہ کے ذریعے مطلب پہنچا کر خدا کی جانب سے ادب و اخلاق کی رعایت، کلام کی پاکیزگی اور شائستگی کا اظہار کیا ہے۔[3] بعض علما کے مطابق قرآن نے بیان مفہوم کے سلسلے میں عورت کے لیے حرث اور کھیتی کی تعبیر استعمال کر کے بہترین اور مناسب تعبیر بروئے کا لائی ہے۔[4] بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ عورت کو کھیت سے تشبیہ دینے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح کھیت میں بیج بویا جاتا ہے اسی طرح مرد کا نطفہ عورت کے رحم میں داخل ہوکر نسل انسانی بڑھنے کا سبب بنتا ہے۔[5] بعض علما نے اس آیت میں عورت کو کھیت کی مانند قرار دینے کو تشبیہ، بعض اسے مجاز اور بعض اسے استعارہ یا استعارہ تمثیلیہ قرار دیا ہے۔[6]
شأن نزول
سورہ بقرہ کی آیت 223 کے شان نزول کے سلسلے میں جو روایت امام رضاؑ سے منقول ہے، اس کی رو سے یہ آیت عورتوں کے ساتھ جماع کرنے کے بارے میں بعض یہودی عقائد کی تردید کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔ یہودیوں کا عقیدہ تھا عورتوں مباشرت کرتے وقت صرف اگلی شرمگاہ کے راستے سے ہونا ہمبستری ہونی چاہیے۔ ان کا خیال تھا کہ عورت کے ساتھ اگر پچھلی جانب سے جماع کیا جائے تو بچہ بھینگا((ایک چیز کو دو دیکھنے والا)) پیدا ہوگا۔ اسی وجہ سے یہ آیت نازل ہوئی اور اس کام کو جائز قرار دیا گیا۔[7] البتہ بعض علما نے کچھ دیگر شان نزول بھی بیان کیا ہے۔[8]
آیت حرث کے مطابق طریقہ جماع کا شرعی حکم
فقہاء نے اس آیت پر «وطی المَرأة دُبُراً» (اردو: بیوی سے پیچھے کے راستے سے جماع کرنا) کے مسئلہ میں بحث کی ہے اور علمائے اصول نے اس آیت پر «اَلامرُ عَقیبِ الْحَظْر» (اردو: ممانعت کے بعد حکم دینا) کے مسئلہ میں بحث کی ہے۔[9]
شیعہ فقہاء نے آیت حرث سے استناد کرتے ہوئے عورت سے جماع کے شرعی حکم کے سلسلے میں مختلف آراء پیش کی ہیں۔ ان میں سے اکثر فقہاء نے آیت میں لفظ «اَنّیٰ» کے "کہیں بھی"، "کہیں سے"، "کسی بھی شکل" یا "کسی بھی طریقے سے" معنی کیے ہیں اور آیت حرث کو شرعی لحاظ سے عورت سے پیچھے کے راستے سے جماع کے جواز کے لیے استناد کے طور بیان کیا ہے[10] نیز بعض احادیث سے اسی معنی کی تائید لیتے ہوئے اس عمل کو جائز قرار دیا ہے۔[11]
دوسری طرف بعض فقہاء نے آیت میں موجود لفظ «اَنّیٰ» کو "کسی بھی وقت" سے تعبیر کیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ آیت حرث سے عورت کے مقعد میں جماع کرنے کا جواز ثابت نہیں ہوتا ہے[12] اور اس سلسلے میں وارد شدہ احادیث مختلف نوعیت کی وجہ سے،[13] بکثرت ایسی احادیث بھی پائی جاتی ہیں جن سے دُبری جماع کا حرام ہونا ثابت ہوتا ہے اور اس سلسلے میں شہرت فتوایی کی وجہ سے فقہاء نے اس عمل کو کراہت شدیدہ قرار دیا ہے۔ نیز ایک بعض دیگر فقہاء نے اسے مکروہ سمجھتے ہوئے اس کے جواز کو عورت کی رضامندی سے مشروط کردیا ہے۔[14]
برخی نیز عبارت «قَدِّمُوا لاَنْفُسِکم» (بہفارسی: و برای خود از پیش بفرستید.) را مستند حرامبودن آمیزش از راہ مقعد قرار دادہاند. بہباور اینان، آیۂ حرث تنہا آمیزشی را جایز شمردہ است کہ بتوان از آن تولید مثل کرد؛ و ازآنجاکہ نمیتوان با آمیزش از راہ دُبُر (مقعد) فرزندی بہدنیا آورد، پس این حالت از آمیزش جایز نیست.[15] عدہای از مفسران، خطاب «قدّموا لاَنفسکم» را کنایہ از «فرزند صالح» دانستہاند؛[16] با اسن استدلال کہ اعمال صالحِ چنین فرزندی برای پدر و مادرش نیز محسوب میشود.[17] طباطبایی نویسندہ تفسیر المیزان سفارش بہ تقوای الہی در آیۂ حرث را رعایت حق و حقوق در مسائل زناشویی معنا کردہ است.[18] بعض نے مقعد کے ذریعے جماع کی ممانعت کی دستاویز کے طور پر "قدیموا لنفوسیکم" (فارسی: اور اسے پہلے سے اپنے پاس بھیج دیں) کا جملہ بھی لگایا ہے۔ ان کے مطابق، ہرتھ کی آیت نے صرف ایسے جماع کی اجازت دی ہے جو دوبارہ پیدا کر سکتی ہے۔ اور چونکہ مقعد کے ذریعے جماع کے ذریعے بچہ پیدا کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے یہ جماع جائز نہیں ہے۔ متعدد مفسرین نے "میری زندگی کے لیے آگے بڑھو" کے خطاب کو "ایک صالح بچے" کی طرف اشارہ سمجھا ہے [16] اس دلیل کے ساتھ کہ ایسے بچے کے اعمال صالحہ اس کے والدین کے لیے بھی شمار ہوتے ہیں۔ تفسیر المیزان کے مصنف طباطبائی نے آیت حارث میں خدا کے تقویٰ کے حکم کی تشریح ازدواجی معاملات میں حقوق و حقوق کی تعمیل کی ہے۔[18]
آیا در آیہ حرث بہ زن توہین شدہ است؟
عدہای تعبیر آیہ حرث از زن بہ کشتزار را نوعی توہین بہ جایگاہ زن پنداشتہاند و آیہ را مجوز تجاوز شوہر بہ ہمسرش میدانند.[19] در تأیید این سخن، بہ برخی روایات ہم استناد شدہ است؛[20] اما پژوہشگرانی با استناد بہ مفاد برخی آیات دیگر ہمچون آیہ ۱۸۷ سورہ بقرہ یا آیہ ۱۳ سورہ حجرات کہ بر مساویبودن مرد و زن از نظر ہویت و جایگاہ انسانی دلالت دارند، آیہ حرث را در مقام بیان تفاوتہای جسمی و فیزیکی زن و مرد برای تحقق ہدف فرزندآوری دانستہ و گفتہاند این تفاوتہا فاقد ہرگونہ بار ارزشی برای مرد و ضدارزشی برای زن است.[21] ہمچنین گفتہشدہ تشبیہ، بہ معنای یکیدانستن دو چیز نیست؛ بلکہ برای بیان وجہ شباہتِ بارز میان آندو است.[22]
مکارم شیرازی و طباطبایی از مفسران شیعہ معتقدند آیۂ حَرث تنہا در صدد بیان ضرورتِ وجودِ زن در اجتماع انسانی است؛ بہگفتہ آنہا بذر بہتنہایی ارزشی ندارند و اگر کشتزار نباشد، بذرہا بہکلی نابود میشوند و حیات و بقای بشر بہ خطر میافتد؛ ہمچنین است اگر زنان نباشند.[23] یا حارث کی آیت میں عورت کی توہین کی گئی ہے؟ بعض لوگوں نے عورت کی طرف سے کھیت چلانے کے بارے میں آیت کی تفسیر کو عورت کے مقام کی توہین قرار دیا ہے اور اس آیت کو شوہر کے لیے بیوی کی عصمت دری کرنے کا جواز قرار دیا ہے۔ روایات کا حوالہ دیا گیا ہے، جیسے سورہ البقرہ کی آیت نمبر 187 یا سورۃ الحجرات کی آیت 13، جو شناخت اور انسانی حیثیت کے لحاظ سے مرد اور عورت کی برابری پر دلالت کرتی ہیں، یہ آیتیں بطور بیان ہیں۔ . مردوں اور عورتوں کے جسمانی اور جسمانی فرق کو بچے پیدا کرنے کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے سمجھا جاتا ہے اور انھوں نے کہا کہ یہ اختلافات مردوں کے لیے کوئی قیمتی بوجھ اور عورتوں کے لیے مخالف قدر نہیں رکھتے۔[21] یہ بھی کہا گیا ہے کہ مشابہت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دو چیزوں کو ایک جیسا سمجھنا۔ بلکہ یہ دونوں کے درمیان واضح مماثلت کا اظہار کرنا ہے۔[22]
مکارم شیرازی اور طباطبائی، شیعہ مفسرین میں سے ایک کا خیال ہے کہ آیت ہارتھ کا مقصد صرف انسانی معاشرے میں عورتوں کے وجود کی ضرورت کو ظاہر کرنا ہے۔ ان کے نزدیک صرف بیج کی کوئی قیمت نہیں اور اگر کاشت نہ ہو تو بیج مکمل طور پر تباہ ہو جائیں گے اور انسانی زندگی اور بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔ اگر عورتیں نہ ہوں تو ایسا ہی ہے [23]۔
ملاقات با خدا
در بخش انتہایی آیہ ۲۲۳ بقرہ چنین آمدہ است: «وَ اتَّقُواْ اللَّہَ وَ اعْلَمُواْ أَنَّکُم مُّلَاقُوہُ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِین؛ و از خدا پروا کنید و بدانید کہ او را دیدار خواہید کرد، و مؤمنان را [بہ این دیدار] مژدہ دہ».[24] در اینکہ مرجع ضمیر در «مُلاقُوہ؛ او را دیدار خواہید کرد» چیست و این ملاقات، با چہچیزی خواہد بود، دو قول نقل شدہ است:[25]
- مرجع ضمیر خداوند است؛ یعنی ملاقات با خداوند خواہد بود و آیہ بہ مخاطبان خود میگوید کہ تقوای الہی پیشہ کنند و بدانند کہ خداوند را ملاقات خواہند کرد.[26] ملاقات با خداوند در قیامت روی خواہد داد.[27] و معنای ملاقات غیر از معنای رؤیت با چشم ظاہری است.[28] خداوند در این بخش از آیہ تذکر میدہد کہ اعمال صالح را مقدم بدارند، تقوای الہی داشتہ باشد و بدانند کہ در قیامت خداوند را ملاقات میکنند و ہمہ اعمال آنہا محاسبہ میشود.[29]
- مرجع ضمیر ثواب و عقاب اعمال است. برخی مفسران در تفسیر این بخش از آیہ آوردہاند کہ آنہا ثواب و عقاب اعمال خود را خواہند دید.[30]
خدا سے ملاقات سورہ بقرہ کی آیت نمبر 223 کے آخری حصے میں ارشاد ہے: اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ تم اس سے ملاقات کرنے والے ہو اور مومنوں کو [اس ملاقات کی] بشارت سنا دو"۔ اس میں "مولقوی" میں ضمیر کا حوالہ "تم اس سے ملو گے" کیا ہے اور یہ ملاقات کس سے ہوگی، دو وعدے نقل کیے گئے ہیں:[25]
حوالہ خدا کا ضمیر ہے۔ یعنی یہ خدا سے ملاقات ہوگی اور آیت اپنے سامعین سے کہتی ہے کہ وہ تقویٰ اختیار کریں اور جان لیں کہ خدا سے ملاقات قیامت کے دن ہوگی۔[27] اور ملاقات کا معنی ظاہری آنکھ سے دیکھنے کے معنی سے مختلف ہے [28] آیت کے اس حصے میں خدا نے خبردار کیا ہے کہ وہ نیک کاموں کو ترجیح دیں، تقویٰ اختیار کریں اور جان لیں کہ وہ روز خدا سے ملیں گے۔ جزا اور ان کے تمام اعمال شمار کیے جائیں گے [29]۔ ضمیر کا حوالہ جزا اور اعمال کا عقاب ہے۔ بعض مفسرین نے آیت کے اس حصہ کی تفسیر میں یہ ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے عمل کا اجر و ثواب دیکھیں گے[30]۔
حوالہ جات
- ↑ خراسانی، «آیات نامدار»، ص۳۸۱.
- ↑ ابراہیمی و بستان و درستی، دلالتہای تشبیہ زنان بہ حرث در آیہ ۲۲۳ سورہ بقرہ با رویکرد تحلیلی - انتقادی آرای نواندیشان معاصر دربارہ آن، ص۱۰۵.
- ↑ ابراہیمی و بستان و درستی، دلالتہای تشبیہ زنان بہ حرث در آیہ ۲۲۳ سورہ بقرہ با رویکرد تحلیلی - انتقادی آرای نواندیشان معاصر دربارہ آن، ص۱۰۶.
- ↑ شیبانی، نہج البیان عن کشف معانی القرآن، ۱۴۱۳ھ، ج۱، ص۲۹۵؛ سبزورای، الجدید، ۱۴۰۶ھ، ج۱، ص۲۶۹.
- ↑ فخرالدین رازی، مفتاح الغیب، ۱۴۲۰ھ، ج۶، ص۴۲۱.
- ↑ ابراہیمی و بستان و درستی، دلالتہای تشبیہ زنان بہ حرث در آیہ ۲۲۳ سورہ بقرہ با رویکرد تحلیلی - انتقادی آرای نواندیشان معاصر دربارہ آن، ص۱۱۵ـ۱۱۷.
- ↑ طوسی، الإستبصار، دار الکتب الإسلامیہ، ج۳، ص۲۴۴.
- ↑ مولوی و غلامی و مہری، «تحلیل و نقد معنای واژہ «أنی» در ترجمہہای فارسی قرآن با تاکید بر نقش سیاق در ترجمہ»، ص۲۱-۲۳.
- ↑ ملاحظہ کیجیے:«وقوع امر وقع عقیب حظر یا در مقام توہم حظر»، وبگاہ مدرسہ فقاہت درس خارج حسین شوپانی؛ «تمایل بہ حکم حلیت ہمراہ با کراہت در مسالہ وطی در دبر»، پایگاہ تخصصی فقہ حکومتی وسائل درس خارج جوادی آملی؛ ابنعاشور، التحریر و التنویر، ۱۴۲۰ھ، ج۲، ص۳۵۳.
- ↑ مولوی و غلامی و مہری ثابت، «تحلیل و نقد معنای واژہ «أنی» در ترجمہہای فارسی قرآن با تاکید بر نقش سیاق در ترجمہ»، ص۲۴.
- ↑ ملاحظہ کیجیے: طوسی، التبیان، ج۲، ص۲۲۳ و ۲۲۴؛ شہید ثانی، ۱۴۱۶ھ، ج۷، ص۶۱؛ حرّ عاملی، وسائل الشیعہ، ۱۴۱۴ھ، ج۲۰، ص۱۴۶ـ۱۴۸.
- ↑ مولوی و غلامی و مہری ثابت، «تحلیل و نقد معنای واژہ «أنی» در ترجمہہای فارسی قرآن با تاکید بر نقش سیاق در ترجمہ»، ص۲۵.
- ↑ مجلسی، بحارالأنوار، ۱۴۰۳، ج۱۰۰، ص۲۸۸.
- ↑ «تمایل بہ حکم حلیت ہمراہ با کراہت در مسالہ وطی در دبر»، پایگاہ تخصصی فقہ حکومتی وسائل درس خارج آیتاللہ جوادی آملی.
- ↑ نگاہ کنید بہ: مغنیہ، التفسیر الکاشف، ۱۴۲۴ق، ج۱، ص۳۳۷، نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲ش، ج۲۹، ص۱۰۶.
- ↑ الطباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۲۱۳.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۸ق، ج۲۷ ص۵۶۴.
- ↑ الطباطبایی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۲، ص۲۱۴.
- ↑ ابراہیمی و بستان و درستی، «دلالتہای تشبیہ زنان بہ حرث در آیہ ۲۲۳ سورہ بقرہ با رویکرد تحلیلی - انتقادی آرای نواندیشان معاصر دربارہ آن»، ص۱۰۶.
- ↑ ابراہیمی و بستان و درستی، «دلالتہای تشبیہ زنان بہ حرث در آیہ ۲۲۳ سورہ بقرہ با رویکرد تحلیلی - انتقادی آرای نواندیشان معاصر دربارہ آن»، ص۱۰۶.
- ↑ ابراہیمی و بستان و درستی، «دلالتہای تشبیہ زنان بہ حرث در آیہ ۲۲۳ سورہ بقرہ با رویکرد تحلیلی - انتقادی آرای نواندیشان معاصر دربارہ آن»، ص۱۱۷.
- ↑ ابراہیمی و بستان و درستی، «دلالتہای تشبیہ زنان بہ حرث در آیہ ۲۲۳ سورہ بقرہ با رویکرد تحلیلی - انتقادی آرای نواندیشان معاصر دربارہ آن»، ص۱۱۸و۱۱۹.
- ↑ طباطبایی، المیزان، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۳۱۹؛ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۲، ص۱۴۱.
- ↑ سورہ بقرہ، آیہ ۲۲۳.
- ↑ طیب، أطیب البیان، ۱۳۷۸ش، ج۲، ص۴۴۷.
- ↑ قرشی، تفسیر أحسن الحدیث، ۱۳۷۷ش، ج۱، ص۴۱۲.
- ↑ طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۹، ص۳۷.
- ↑ صدرالمتألہین، تفسیر القرآن الکریم، ۱۳۶۶ش، ج۳، ص۲۹۶.
- ↑ فضلاللہ، تفسیر من وحی القرآن، ۱۴۱۹ق، ج۴، ص۲۶۰.
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۵۶۵.
مآخذ
- «تمایل بہ حکم حلیت ہمراہ با کراہت در مسالہ وطی در دبر»، پایگاہ تخصصی فقہ حکومتی وسائل درس خارج آیتاللہ جوادی آملی، تاریخ درج مطلب: ۲۴بہمن۱۳۹۴ش، تاریخ بازدید: ۲۱آبان۱۴۰۲ش.
- «وقوع امر وقع عقیب حظر یا در مقام توہم حظر»، وبگاہ مدرسہ فقاہت درس خارج حسین شوپانی، تاریخ درج مطلب: ۱۶آذر۱۴۰۱ش، تاریخ بازدید:۱۶آبان۱۴۰۲ش.
- ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، قم، نشر أدب الحوزہ، ۱۴۰۵ق.
- ابنعاشور، محمدطاہر، التحریر و التنویر، بیروت، موسسة التاریخ العربی، ۱۴۲۰ق.
- جوہری، ابونصر اسماعیل بن حماد، الصحاح ( التاج اللغہ و صحاح العربیّہ)، مصر، دار الکتب العربی، بیتا.
- خراسانی، علی، «آیات نامدار»، دائرة المعارف قرآن کریم، قم، بوستان کتاب، ۱۳۸۲ش
- سبزورای، محمد، الجدید فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، ۱۴۰۶ق.
- شیبانی، محمد بن حسن، نہج البیان عن کشف معانی القرآن، قم، نشر الہادی، ۱۴۱۳ق.
- صدرالمتألہین، محمد بن ابراہیم، تفسیر القرآن الکریم، تحقیق: خواجوی، محمد، قم، انتشارات بیدار، چاپ دوم، ۱۳۶۶ش.
- طباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، ۱۳۹۰ق.
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان. بیروت، دار المعرفہ، ۱۴۰۸ق.
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دارالمعرفہ، ۱۴۱۲ق.
- طریحی، فخرالدین، مجع البحرین، تہران، مکتب النشر الثقافقیة الاسلامیّہ، ۱۴۰۸ق.
- طوسی، محمد بن حسن، الاستبصار فیما اختلف من الأخبا، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، بیتا.
- طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، بیتا.
- طیب، سید عبد الحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات اسلام، چاپ دوم، ۱۳۷۸ش..
- فخرالدین رازی، ابوعبداللہ محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۲۰ق.
- فضلاللہ، سید محمدحسین، تفسیر من وحی القرآن، بیروت، دارالملاک للطباعة و النشر، چاپ دوم، ۱۴۱۹ق.
- قرشی، سید علی اکبر، تفسیر احسن الحدیث، تہران، بنیاد بعثت، چاپ سوم، ۱۳۷۷ش.
- لیلا، ابراہیمی و حسین، بستان و مہدی، درستی، «دلالتہای تشبیہ زنان بہ حرث در آیہ ۲۲۳ سورہ بقرہ با رویکرد تحلیلی - انتقادی آرای نواندیشان معاصر دربارہ آن»، در فصلنامہ علمی ترویجی مطالعات علوم قرآن، شمارہ۱۲، ۱۴۰۱ق.
- مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، ، بحارالأنوار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق.
- مغنیہ، محمد جواد، التفسیر الکاشف، قم، دارالکتاب الإسلامی، ۱۴۲۴ق.
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، ۱۳۷۴ش.
- مولوی، محمد و غلامی، عبداللہ و مرضیہ مہری ثابت، «تحلیل و نقد معنای واژہ «أنی» در ترجمہہای فارسی قرآن با تاکید بر نقش سیاق در ترجمہ»، در دوفصلنامہ علمی پژوہشی «پژوہشہای زبانشناختی قرآن»، شمارہ۸، ۱۳۹۴ش.
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، ۱۳۶۲ش.