مندرجات کا رخ کریں

"آیت اہل الذکر" کے نسخوں کے درمیان فرق

سطر 54: سطر 54:
اسی طرح کتاب [[بصائر الدرجات (کتاب)|بصائر الدرجات]] میں ایک باب کے عنوان کو {{حدیث|"فی ائمة آل محمد انهم اهل الذکر الذین امر الله بسؤالهم"}} کو قرار دیا ہے۔<ref>صفار قمی، بصائر الدرجات، باب ۱۹۔</ref> [[محمد بن یعقوب کلینی|کلینی]] [[الکافی (کتاب)|کافی]] میں بھی ایک باب "{{حدیث|ان اهل الذکر الذین امر الله الخلق بسؤالهم هم الائمه}}" کے عنوان سے قرار دیا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷، ج۱، ص۳۰۳۔</ref> [[محمد باقر مجلسی|علامہ مجلسی]] بھی [[بحار الانوار (کتاب)|بحارالانوار]] میں "{{حدیث|انهم (الائمه) علیهم السلام الذکر و اهل الذکر}}" نامی باب میں بعض [[حدیث|احادیث]] نقل کرتے ہیں جن میں اہل ذکر سے مراد [[شیعہ ائمہ]] کو قرار دیا گیا ہے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۳، ص۱۷۲۔</ref>
اسی طرح کتاب [[بصائر الدرجات (کتاب)|بصائر الدرجات]] میں ایک باب کے عنوان کو {{حدیث|"فی ائمة آل محمد انهم اهل الذکر الذین امر الله بسؤالهم"}} کو قرار دیا ہے۔<ref>صفار قمی، بصائر الدرجات، باب ۱۹۔</ref> [[محمد بن یعقوب کلینی|کلینی]] [[الکافی (کتاب)|کافی]] میں بھی ایک باب "{{حدیث|ان اهل الذکر الذین امر الله الخلق بسؤالهم هم الائمه}}" کے عنوان سے قرار دیا ہے۔<ref>کلینی، الکافی، ۱۴۰۷، ج۱، ص۳۰۳۔</ref> [[محمد باقر مجلسی|علامہ مجلسی]] بھی [[بحار الانوار (کتاب)|بحارالانوار]] میں "{{حدیث|انهم (الائمه) علیهم السلام الذکر و اهل الذکر}}" نامی باب میں بعض [[حدیث|احادیث]] نقل کرتے ہیں جن میں اہل ذکر سے مراد [[شیعہ ائمہ]] کو قرار دیا گیا ہے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۳، ص۱۷۲۔</ref>


درج بالا احادیث کی وضاحت میں کہا جاتا ہے کہ ائمہ اہل بیتؑ کا یہ کہنا کہ ہم اہل‌الذکر ہیں، اس سے مراد ظاہری طور پر نہیں کیونکہ مکہ کے کفار ائمہ سے کچھ نہیں پوچھ سکتے تھے اور اگر پوچھ بھی لیتے تو وہ ائمہ کے کلام کو حجت نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ وہ رسول خدا کے کلام کو بھی حجت نہیں سجھتے تھے؛ بنابراین ان احادیث سے مراد تشبیہ و تمثیل ہے۔ یعنی ہر چیز کے بارے میں اس کے اہل سے سوال کیا جانا چاہئیے۔ جس طرح [[انبیاء]] کا انسان ہونے کے بارے میں گذشتہ امتوں کے علماء سے سوال کیا جانا چاہئیے اسی طرح اسلامی تعلیمات اور قرآن کی تفسیر کے بارے میں بھی [[ائمہ معصومینؑ]] سے پوچھنا چاہئیے۔<ref>شعرانی، نثر طوبی، ۱۳۹۸ق، ج۱، ص۲۷۶۔</ref>
درج بالا احادیث کی وضاحت میں کہا جاتا ہے کہ ائمہ اہل بیتؑ کا یہ کہنا کہ ہم اہل‌الذکر ہیں، اس سے مراد ظاہری طور پر نہیں کیونکہ مکہ کے کفار ائمہ سے کچھ نہیں پوچھ سکتے تھے اور اگر پوچھ بھی لیتے تو وہ ائمہ کے کلام کو حجت نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ وہ رسول خدا کے کلام کو بھی حجت نہیں سجھتے تھے؛ بنابراین ان احادیث سے مراد تشبیہ و تمثیل ہے۔ یعنی ہر چیز کے بارے میں اس کے اہل سے سوال کیا جانا چاہئیے۔ جس طرح [[انبیاء]] کا انسان ہونے کے بارے میں گذشتہ امتوں کے علماء سے سوال کیا جانا چاہئیے اسی طرح اسلامی تعلیمات اور قرآن کی تفسیر کے بارے میں بھی [[ائمہ معصومینؑ]] سے پوچھنا چاہئے۔<ref>شعرانی، نثر طوبی، ۱۳۹۸ق، ج۱، ص۲۷۶۔</ref>


[[آیت اللہ مکارم شیرازی]] کے مطابق اہل بیت کو اہل ذکر کا بارز مصداق قرار دینا اور اور مذکورہ آیت کا اہل کتاب کے علماء کے بارے میں نازل ہونے کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے؛ کیونکہ قرآن کی تفسیری احادیث میں اس مسئلے کی طرف بار بار اشارہ ہوا ہے کہ کسی بھی آیت کا معین مصداق ہونا اس آیت کے مفہوم کی وسعت کو محدود نہیں کرتا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۴۔</ref>
[[آیت اللہ مکارم شیرازی]] کے مطابق اہل بیت کو اہل ذکر کا بارز مصداق قرار دینا اور اور مذکورہ آیت کا اہل کتاب کے علماء کے بارے میں نازل ہونے کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے؛ کیونکہ قرآن کی تفسیری احادیث میں اس مسئلے کی طرف بار بار اشارہ ہوا ہے کہ کسی بھی آیت کا معین مصداق ہونا اس آیت کے مفہوم کی وسعت کو محدود نہیں کرتا ہے۔<ref>مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۱ش، ج۱۱، ص۲۴۴۔</ref>
confirmed، templateeditor
8,265

ترامیم