گمنام صارف
"حسین بن عبد الصمد حارثی" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi (←منابع) |
imported>E.musavi کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 34: | سطر 34: | ||
آپ کی ولادت سن 918 ق میں شہر صیدون کے قریب جبع نامی قریہ کے ایک مشہور خاندان میں ہوئی۔<ref>افندی اصفهانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۱۰، ۱۱۹؛ بحرانی، لؤلؤةالبحرین، ص۲۸.</ref> ان کا سلسلہ نسب [[حضرت علی علیہ السلام]] کے صحابی [[حارث بن عبد اللہ ہمدانی]] تک منتہی ہوتا ہے۔<ref>بحرانی، لؤلؤةالبحرین، ص۱۶.</ref> | آپ کی ولادت سن 918 ق میں شہر صیدون کے قریب جبع نامی قریہ کے ایک مشہور خاندان میں ہوئی۔<ref>افندی اصفهانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۱۰، ۱۱۹؛ بحرانی، لؤلؤةالبحرین، ص۲۸.</ref> ان کا سلسلہ نسب [[حضرت علی علیہ السلام]] کے صحابی [[حارث بن عبد اللہ ہمدانی]] تک منتہی ہوتا ہے۔<ref>بحرانی، لؤلؤةالبحرین، ص۱۶.</ref> | ||
حارثی کے جد محمد بن علی جناعی/جبعی جبل عامل کے بزرگ عالم دین اور مجموعۃ الجباعی کے مولف تھے۔<ref>ر.ک: مجلسی، ج۱۰۴، ص۲۱۱ـ۲۱۴؛ افندی | حارثی کے جد محمد بن علی جناعی/جبعی جبل عامل کے بزرگ عالم دین اور مجموعۃ الجباعی کے مولف تھے۔<ref>ر.ک: مجلسی، ج۱۰۴، ص۲۱۱ـ۲۱۴؛ افندی اصفہانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۵، ص۴۸؛ مہاجر، الهجرة العاملیہ الی ایران فی العصرالصفوی، ص۱۴۵.</ref> حارثی کے والد عبد الصمد بن محمد بھی نامور عالم تھے اور [[شہید ثانی]] نے ان کے علم و تقوی کی مدح کی ہے۔<ref>ر.ک: حرّعاملی، امل الآمل، قسم ۱، ص۷۵، ۱۰۹؛ مجلسی، ج۱۰۴، ص۲۰۸؛ افندی اصفہانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۳، ص۱۲۸.</ref> | ||
==تعلیم و تحصیل== | ==تعلیم و تحصیل== | ||
حارثی نے اپنے وطن میں کچھ مدت تک حسین بن جعفر کرکی کے پاس اور زیادہ عرصہ شہید ثانی کے پاس تعلیم حاصل کی۔ وہ مصر، استامبول (ٹرکی) اور عراق کے سفروں میں ان کے ہمراہ رہے۔ 941 ق میں انہوں نے شہید ثانی سے اجازہ حاصل کیا۔<ref>عاملی، الدر المنثور من المأثور و غیرالمأثور، ج۲، ص۱۹۱؛ افندی | حارثی نے اپنے وطن میں کچھ مدت تک حسین بن جعفر کرکی کے پاس اور زیادہ عرصہ شہید ثانی کے پاس تعلیم حاصل کی۔ وہ مصر، استامبول (ٹرکی) اور عراق کے سفروں میں ان کے ہمراہ رہے۔ 941 ق میں انہوں نے شہید ثانی سے اجازہ حاصل کیا۔<ref>عاملی، الدر المنثور من المأثور و غیرالمأثور، ج۲، ص۱۹۱؛ افندی اصفہانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۱۷ـ۱۱۸؛ بحرانی، لؤلؤةالبحرین، ص۲۸؛ استوارت، ۱۹۹۶، ص۳۸۸.</ref> شہید نے اس اجازہ میں ان کی تعریف کی ہے۔<ref>شہید ثانی، رسائل الشہید الثانی، ج۲، ص۱۱۱۳ـ۱۱۱۴؛ مجلسی، ج۱۰۵، ص۱۴۶ـ۱۷۱.</ref> | ||
==ایران کی طرف ہجرت== | ==ایران کی طرف ہجرت== | ||
ایران میں صفویہ شیعہ حکومت کی تاسیس اور عثمانی حکومت کی طرف سے ان کے زیر تسلط [[شیعہ]] نشین علاقوں خاص طور پر جبل عامل میں شدت نے وہاں کے علماء کے ایران کی طرف ہجرت کرنے کا سبب فراہم کیا۔<ref>ر.ک: | ایران میں صفویہ شیعہ حکومت کی تاسیس اور عثمانی حکومت کی طرف سے ان کے زیر تسلط [[شیعہ]] نشین علاقوں خاص طور پر جبل عامل میں شدت نے وہاں کے علماء کے ایران کی طرف ہجرت کرنے کا سبب فراہم کیا۔<ref>ر.ک:مہاجر، الہجرة العاملیہ الی ایران فی العصر الصفوی، ص۳۵، ۹۵ـ۹۶، ۱۴۵ـ۱۴۶</ref> حارثی نے بھی اپنے استاد [[شہید ثانی]] کے ساتھ پیش آنے والی دشواریوں کے بعد ظاہرا 956 ق میں عراق اور اس کے بعد تقریبا 958۔961 ق میں اپنے خانوادہ کے ساتھ ایران کی طرف ہجرت کی۔<ref>حارثی، الرحلہ، ص۱۸۵؛ استوارت، ۱۹۹۱، ص۵۶۴، ۵۶۷؛ استوارت، ۱۹۹۸، ص۹۴</ref> | ||
'''اصفہان''' | '''اصفہان''' | ||
حارثی کی خود نوشت کے مطابق،<ref>حارثی، | حارثی کی خود نوشت کے مطابق،<ref>حارثی، الرحلہ، ص۱۸۴</ref> انہوں نے اپنی مہاجرت کے آغاز میں [[اصفہان]] میں سکونت اختیار کی اور وہاں علی بن ہلال منشار کرکی عاملی (متوفی 984 ق) اصفہان کے شیخ الاسلام نے ان کا استقبال کیا۔<ref>افندی اصفہانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۱۹، ج۴، ص۲۶۸؛ مہاجر، الہجرة العاملیہ الی ایران فی العصر الصفوی، ص۱۴۶</ref> | ||
'''قزوین''' | '''قزوین''' | ||
اصفہان میں 3 سال سکونت اور تدریس کے بعد ان کی علمی شہرت اور علی بن ہلال منشار سفارش سبب بنی کہ شاہ طہماسب اول نے انہیں صفویہ حکومت کے دار السلطنت قزوین دعوت دی اور انہیں وہاں سے شیخ الاسلامی کے عہدہ سے سرفراز کیا۔ وہ 7 سات تک قزوین میں رہے اور انہوں نے وہاں [[نماز جمعہ]] جسے وہ [[واجب عینی]] سمجھتے تھے، قائم کی۔<ref>افندی | اصفہان میں 3 سال سکونت اور تدریس کے بعد ان کی علمی شہرت اور علی بن ہلال منشار سفارش سبب بنی کہ شاہ طہماسب اول نے انہیں صفویہ حکومت کے دار السلطنت قزوین دعوت دی اور انہیں وہاں سے شیخ الاسلامی کے عہدہ سے سرفراز کیا۔ وہ 7 سات تک قزوین میں رہے اور انہوں نے وہاں [[نماز جمعہ]] جسے وہ [[واجب عینی]] سمجھتے تھے، قائم کی۔<ref>افندی اصفہانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۱۹ـ۱۲۰، ج۴، ص۲۶۸؛ مہاجر، الہجرة العاملیہ الی ایران فی العصر الصفوی، ص۱۴۶ـ۱۴۷.</ref> | ||
'''مشہد''' | '''مشہد''' | ||
سطر 58: | سطر 58: | ||
'''ہرات''' | '''ہرات''' | ||
حارثی اس کے بعد ہرات چلے اور وہاں انہوں نے 8 سال تک تدریس اور وعظ کے فرایض انجام دیئے جبکہ وہ ہرات کے شیخ الاسلامی کے عہدہ پر بھی فائز تھے۔<ref>ر.ک:افندی اصفهانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۲۰؛ استوارت، ۱۹۹۶، ص۳۸۷، ۳۹۳ـ۳۹۴، ۴۰۲ـ۴۰۵</ref> افندی اصفہانی کی تحریر کے مطابق،<ref>افندی | حارثی اس کے بعد ہرات چلے اور وہاں انہوں نے 8 سال تک تدریس اور وعظ کے فرایض انجام دیئے جبکہ وہ ہرات کے شیخ الاسلامی کے عہدہ پر بھی فائز تھے۔<ref>ر.ک:افندی اصفهانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۲۰؛ استوارت، ۱۹۹۶، ص۳۸۷، ۳۹۳ـ۳۹۴، ۴۰۲ـ۴۰۵</ref> افندی اصفہانی کی تحریر کے مطابق،<ref>افندی اصفہانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۲۰ـ۱۲۱.</ref> حارثی کے علمی کارناموں اور سماجی خدمات کے سبب ہرات اور اس کے اطراف میں رہنے والے بہت سے لوگوں نے شیعہ مذہب اختیار کر لیا اور بہت سے طلاب نے ان سے استفادہ کی خاطر وہاں کا رخ کر لیا۔ حارثی سن 983 ق تک ہرات کے شیخ الاسلامی کے منصب پر فائز رہے۔ | ||
'''بحرین''' | '''بحرین''' | ||
سطر 66: | سطر 66: | ||
==خصوصیات== | ==خصوصیات== | ||
حارثی نے بھی جبل عامل کے دوسرے شیعہ علماء کی طرح حدیثی و علمی [[شیعہ]] میراث کے ایران منتقل کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایران اور ما وراء النہر کے علماء کے ان کے پاس تحصیل علم کے لئے جاتے تھے۔<ref>حارثی، الاربعون حدیثآ، ص۱۴۱؛ افندی | حارثی نے بھی جبل عامل کے دوسرے شیعہ علماء کی طرح حدیثی و علمی [[شیعہ]] میراث کے ایران منتقل کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایران اور ما وراء النہر کے علماء کے ان کے پاس تحصیل علم کے لئے جاتے تھے۔<ref>حارثی، الاربعون حدیثآ، ص۱۴۱؛ افندی اصفہانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۱۸، ۱۲۰؛ جعفریان، صفویہ در عرصه دین، ج۲، ص۸۱۲ ـ ۸۱۴؛ مہاجر، الہجرة العاملیہ الی ایران فی العصر الصفوی، ص۱۴۱ـ۲۳۶.</ref> بعض منابع نے ان کی تصنیفات کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ تصوف کی طرف تمایل رکھتے تھے اور انہوں نے [[صوفیہ]] کے شیوخ کی مدح کی ہے۔<ref>ر.ک:افندی اصفهانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۱۴ـ۱۱۵؛ محسن امین، اعیان الشیعه، ج۶، ص۶۰.</ref> | ||
==شاگرد== | ==شاگرد== | ||
حارثی نے متعدد شاگردوں کی تربیت کی اور بہت سے علماء کو نقل حدیث کا اجازہ مرحمت کیا۔ ان افراد میں ان کے بیٹے [[شیخ بہائی]]، حسن بن زین الدین کتاب [[معالم الاصول]] کے مولف، میر داماد، راستگو کے نام سے مشہور منصور بن عبد اللہ شیرازی، دسویں صدی ہجری کے فقیہ و ادیب بدر الدین حسن بن علی شدقم مدنی ، و ۔۔۔<ref>مجلسی، ج۱۰۵، ص۱۸۹ـ۱۹۰، ج۱۰۶، ص۸۷؛ افندی | حارثی نے متعدد شاگردوں کی تربیت کی اور بہت سے علماء کو نقل حدیث کا اجازہ مرحمت کیا۔ ان افراد میں ان کے بیٹے [[شیخ بہائی]]، حسن بن زین الدین کتاب [[معالم الاصول]] کے مولف، میر داماد، راستگو کے نام سے مشہور منصور بن عبد اللہ شیرازی، دسویں صدی ہجری کے فقیہ و ادیب بدر الدین حسن بن علی شدقم مدنی ، و ۔۔۔<ref>مجلسی، ج۱۰۵، ص۱۸۹ـ۱۹۰، ج۱۰۶، ص۸۷؛ افندی اصفہانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۰۹؛ محسن امین، اعیان الشیعه، ج۵، ص۱۷۷ـ۱۷۸، ج۶، ص۳۶، ۶۳؛ آقا بزرگ طهرانی، الذریعه، ج۱، ص۱۸۴ـ۱۸۵، ج۱۳، ص۱۷۰؛ حسن امین، مستدرکات اعیان الشیعہ، ج۵، ص۹۱.</ref> | ||
==علمی فعالیت== | ==علمی فعالیت== | ||
حارثی کے علمی کارناموں میں سے ایک گزشتہ منابع حدیثی کی تصحیح و تطبیق ہے۔ افندی اصفہانی<ref>افندی | حارثی کے علمی کارناموں میں سے ایک گزشتہ منابع حدیثی کی تصحیح و تطبیق ہے۔ افندی اصفہانی<ref>افندی اصفہانی، ج ۲، ص۱۱۲.</ref> و [[شیخ حر عاملی]]<ref>حر عاملی، امل الآمل، قسم ۱، ص۷۶.</ref> نے [[تہذیب الاحکام]] کے ایک نسخہ کی طرف، جو حارثی کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا جس کی انہوں نے [[شہید ثانی]] کے پاس تصحیح و تطبیق ساتھ انجام دی تھی، اشارہ کیا ہے۔<ref>نیز رجوع کریں شہید ثانی، رسائل الشهیدالثانی، ج ۲، ص۱۱۷۵؛ حائری، فهرست...، ج ۱، ص۴۷ـ۴۸.</ref> اسی طرح سے افندی اصفہانی<ref>رجوع کریں ج ۲، ص۱۱۲، ۱۱۴، ج ۳، ص۱۲۸.</ref> نے [[شیخ طوسی]] کے ان بعض آثار کی طرف اشارہ کیا ہے جو شہید ثانی کی کتابوں کے درمیان تھیں اور جن پر حارثی کے دست خط موجود تھے۔ | ||
==تالیفات== | ==تالیفات== | ||
سطر 80: | سطر 80: | ||
'''کتب حدیث''' | '''کتب حدیث''' | ||
1۔ وصول الاخیار الی اصول الاخبار، یہ کتاب شہید ثانی کی کتاب الرعایہ فی علم الدرایہ کے بعد، صفویہ دور میں درایۃ الحدیث کے مہم متون میں سے تھی اور نقل کیا گیا ہے کہ یہ کتاب 960 ق سے پہلے مشہد میں تالیف ہوئی ہے۔<ref>حارثی، وصول الاخیار الی اصول الاخبار، ص۶۰؛ افندی | 1۔ وصول الاخیار الی اصول الاخبار، یہ کتاب شہید ثانی کی کتاب الرعایہ فی علم الدرایہ کے بعد، صفویہ دور میں درایۃ الحدیث کے مہم متون میں سے تھی اور نقل کیا گیا ہے کہ یہ کتاب 960 ق سے پہلے مشہد میں تالیف ہوئی ہے۔<ref>حارثی، وصول الاخیار الی اصول الاخبار، ص۶۰؛ افندی اصفہانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۱۵؛ آقا بزرگ طہرانی، الذریعه، ج۲۵، ص۱۰۱؛ صدرایی خویی، فهرستگان نسخه ہای خطّی حدیث و علوم حدیث شیعه، ج۱، ص۱۰۱ـ۱۰۳.</ref> | ||
2۔ [[علامہ حلی]] کی تالیف خلاصة الاقوال فی معرفة الرجال پر حاشیہ | 2۔ [[علامہ حلی]] کی تالیف خلاصة الاقوال فی معرفة الرجال پر حاشیہ | ||
سطر 93: | سطر 93: | ||
1۔ شرح قواعد الاحکام (علامہ حلی) | 1۔ شرح قواعد الاحکام (علامہ حلی) | ||
2۔ شرح تہذیب طریق الوصول الی علم الاصول، (علامہ حلّی)<ref> | 2۔ شرح تہذیب طریق الوصول الی علم الاصول، (علامہ حلّی)<ref>آقا بزرگ طہرانی، الذریعه، ج۴، ص۵۱۳، ج۵، ص۴۳ـ۴۴، ج۱۴، ص۱۹.</ref> | ||
3۔ رسالہ صلاة الجمعہ یا رسالة فی [[وجوب]] صلاة الجمعہ۔<ref>ر.ک: | 3۔ رسالہ صلاة الجمعہ یا رسالة فی [[وجوب]] صلاة الجمعہ۔<ref>ر.ک:آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج۱۵، ص۷۰؛ جعفریان، صفویہ در عرصہ دین، ج۱، ص۳۰۵.</ref> | ||
4۔ رساله العقد الحسینی یا العقد الطہماسبی، یہ کتاب شاہ طہماسب اول کے حکم سے جو وسواس میں مبتلا تھا، تالیف کی گئی اور اس میں [[طہارت]] کے مسئلہ میں شک کی مذمت اور بعض مسائل میں حارثی اور سید حسین کرکی کے درمیان فقہی اختلاف کا ذکر کیا گیا ہے۔<ref> | 4۔ رساله العقد الحسینی یا العقد الطہماسبی، یہ کتاب شاہ طہماسب اول کے حکم سے جو وسواس میں مبتلا تھا، تالیف کی گئی اور اس میں [[طہارت]] کے مسئلہ میں شک کی مذمت اور بعض مسائل میں حارثی اور سید حسین کرکی کے درمیان فقہی اختلاف کا ذکر کیا گیا ہے۔<ref>آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج۱۵، ص۲۸۸ـ ۲۹۰؛ استوارت، ۱۹۹۶، ص۳۹۶ـ۳۹۹.</ref> | ||
5۔ رساله تحفہ اہل الایمان فی قبلہ عراق العجم و الخراسان، اس کتاب میں [[محقق کرکی]] (متوفی 940 ق) کے نظریہ پر تنقید کی گئی ہے جو اس زمانہ میں ایران میں قبلہ کو معین کرنے کی روش کے سلسلہ میں تحریر کی گئی تھی۔<ref>ر.ک:حرّ عاملی، امل الآمل، قسم ۱، ص۷۵؛ افندی | 5۔ رساله تحفہ اہل الایمان فی قبلہ عراق العجم و الخراسان، اس کتاب میں [[محقق کرکی]] (متوفی 940 ق) کے نظریہ پر تنقید کی گئی ہے جو اس زمانہ میں ایران میں قبلہ کو معین کرنے کی روش کے سلسلہ میں تحریر کی گئی تھی۔<ref>ر.ک:حرّ عاملی، امل الآمل، قسم ۱، ص۷۵؛ افندی اصفہانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۱۱؛ آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج۳، ص۴۲۳، ج۱۷، ص۴۰، ۴۶.</ref> | ||
6۔ [[علامہ حلی]] کی کتاب ارشاد الاذهان پر تعلیقہ۔<ref>افندی اصفهانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۱۱؛ | 6۔ [[علامہ حلی]] کی کتاب ارشاد الاذهان پر تعلیقہ۔<ref>افندی اصفهانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۱۱؛ آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج۶، ص۱۵.</ref> | ||
7۔ مسألتان یا دو رسالہ، اس کتاب میں دو مسئلے بیان ہوئے ہیں ایک حصیر سے رفع [[نجاست]] کے سلسلہ میں اور دوسرا غیبت [[امام زمانہ (ع)]] میں غریب سیدوں پر [[سہم امام]] خرچ کرنے کی کیفیت۔<ref>افندی | 7۔ مسألتان یا دو رسالہ، اس کتاب میں دو مسئلے بیان ہوئے ہیں ایک حصیر سے رفع [[نجاست]] کے سلسلہ میں اور دوسرا غیبت [[امام زمانہ (ع)]] میں غریب سیدوں پر [[سہم امام]] خرچ کرنے کی کیفیت۔<ref>افندی اصفہانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۱۶؛ مدرسی طباطبائی، مقدمہ ای بر فقہ شیعہ ص۲۰۰.</ref> | ||
8۔ شرح الفیہ [[شہید اول]]۔<ref>افندی | 8۔ شرح الفیہ [[شہید اول]]۔<ref>افندی اصفہانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۱۵ـ۱۱۷.</ref> | ||
9۔ الرسالہ الرضاعیہ | 9۔ الرسالہ الرضاعیہ | ||
سطر 111: | سطر 111: | ||
10۔ مقالة فی وجوب الافتاء و بیان الحق علی کلِّ مَنْ علم بہ | 10۔ مقالة فی وجوب الافتاء و بیان الحق علی کلِّ مَنْ علم بہ | ||
11۔ الرسالہ التِّساعیہ یا المسائل الصلاتیہ، اس کتاب میں نماز سے مربوط 9 مسائل اور دیگر فقہی [[احکام]] ذکر ہوئے ہیں۔<ref>ر.ک: | 11۔ الرسالہ التِّساعیہ یا المسائل الصلاتیہ، اس کتاب میں نماز سے مربوط 9 مسائل اور دیگر فقہی [[احکام]] ذکر ہوئے ہیں۔<ref>ر.ک:آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ج۱۱، ص۱۴۶، ۱۵۳، ۱۹۱، ج۲۰، ص۳۵۴ـ۳۵۵، ج۲۱، ص۱۷، ۴۰۷.</ref> | ||
'''علم کلام، اخلاق و دیگر کتب''' | '''علم کلام، اخلاق و دیگر کتب''' | ||
1۔ نورالحقیقہ و نور الحدیقہ فی علم الاخلاق، اس کتاب کا کچھ حصہ ادب الدنیا و الدین جو ابو الحسن علی بن محمد ماوردی (شافعی مسلک [[فقیہ]] متوفی 450 ق) کی کتاب ہے، کا خلاصہ ہے۔<ref>ر.ک:حارثی، | 1۔ نورالحقیقہ و نور الحدیقہ فی علم الاخلاق، اس کتاب کا کچھ حصہ ادب الدنیا و الدین جو ابو الحسن علی بن محمد ماوردی (شافعی مسلک [[فقیہ]] متوفی 450 ق) کی کتاب ہے، کا خلاصہ ہے۔<ref>ر.ک:حارثی، نور الحقیقہ و نورالحدیقہ فی علم الاخلاق، ص۳۶ـ۴۱، ۴۵ـ۴۶؛ قس ماوردی، ادب الدنیا و الدین، ص۲۲ـ۲۳، ۲۸ـ۲۹، ۳۱ـ۳۲.</ref> | ||
2۔ الاعتقادات الحقہ | 2۔ الاعتقادات الحقہ | ||
سطر 126: | سطر 126: | ||
5۔ حلب کے بعض اہل سنت علماء کے ساتھ عقائد و علم کلام سے مربوط ان کے مناظرات کا مجموعہ | 5۔ حلب کے بعض اہل سنت علماء کے ساتھ عقائد و علم کلام سے مربوط ان کے مناظرات کا مجموعہ | ||
6۔ دیوان شعر۔<ref>ر.ک:افندی | 6۔ دیوان شعر۔<ref>ر.ک:افندی اصفہانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۱۱ـ۱۱۲، ۱۱۵ـ۱۱۷.</ref> | ||
==رشتے دار== | ==رشتے دار== | ||
*ان کے بھائی، نور الدین علی بن عبد الصمد، [[فقیہ]] و شاعر اور [[شہید ثانی]] کے شاگردوں میں سے تھے۔ انہوں نے شہید اور [[محقق کرکی]] سے اجازہ نقل حدیث دریافت کیا تھا۔<ref>محسن امین، اعیان | *ان کے بھائی، نور الدین علی بن عبد الصمد، [[فقیہ]] و شاعر اور [[شہید ثانی]] کے شاگردوں میں سے تھے۔ انہوں نے شہید اور [[محقق کرکی]] سے اجازہ نقل حدیث دریافت کیا تھا۔<ref>محسن امین، اعیان الشیعہ، ج۷، ص۱۵۴، ج۹، ص۴۳۱؛ آقا بزرگ طہرانی، طبقات، ص۱۴۹</ref> انہوں نے [[شہید اول]] کی کتاب الفیہ کو منظوم صورت عطا کی اور اس کا نام الدرۃ الصفیۃ رکھا۔ <ref>آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج۱، ص۴۸۱، ج۸، ص۱۰۰ـ۱۰۱.</ref> | ||
*ان کے بیٹے، بہاء الدین جو [[شیخ بہائی]] کے نام سے مشہور ہیں۔ | *ان کے بیٹے، بہاء الدین جو [[شیخ بہائی]] کے نام سے مشہور ہیں۔ | ||
*ان کے بیٹے، ابو تراب عبد الصمد، جو 966 ق میں قزوین میں پیدا ہوئے اور ان کے پاس تعلیم حاصل کی اور ان سے نقل حدیث کا اجازہ حاصل کیا۔<ref>افندی اصفهانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۱۰، ج۳، ص۱۲۳.</ref> شیخ بہائی نے کتاب الفوائد الصمدیۃ (جو صمدیہ کے نام سے مشہور ہے) کو اپنے بھائی ابو تراب کے لئے تالیف کیا۔<ref>افندی اصفهانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۳، ص۱۲۳</ref> ابو تراب 1060 ق میں مدینہ کے اطراف میں وفات پائی اور [[نجف]] میں مدفون ہیں۔<ref>محسن امین، اعیان | *ان کے بیٹے، ابو تراب عبد الصمد، جو 966 ق میں قزوین میں پیدا ہوئے اور ان کے پاس تعلیم حاصل کی اور ان سے نقل حدیث کا اجازہ حاصل کیا۔<ref>افندی اصفهانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۱۰، ج۳، ص۱۲۳.</ref> شیخ بہائی نے کتاب الفوائد الصمدیۃ (جو صمدیہ کے نام سے مشہور ہے) کو اپنے بھائی ابو تراب کے لئے تالیف کیا۔<ref>افندی اصفهانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۳، ص۱۲۳</ref> ابو تراب 1060 ق میں مدینہ کے اطراف میں وفات پائی اور [[نجف]] میں مدفون ہیں۔<ref>محسن امین، اعیان الشیعہ، ج۸، ص۱۶؛ آقا بزرگ طہرانی، طبقات، ص۳۲۵؛ آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج۶، ص۱۳؛ قس عبرت نائینی، ج۳، ص۱۱۶.</ref> ان کی تالیفات یہ ہیں: | ||
1۔ [[شیخ بہائی]] کی کتاب الاربعین پر حاشیہ۔ | 1۔ [[شیخ بہائی]] کی کتاب الاربعین پر حاشیہ۔ | ||
2۔ [[خواجہ نصیر الدین طوسی]] کی کتاب الفرایض النصیریہ پر حاشیہ۔<ref> | 2۔ [[خواجہ نصیر الدین طوسی]] کی کتاب الفرایض النصیریہ پر حاشیہ۔<ref>آقا بزرگ طہرانی، الذریعہ، ج۶، ص۱۳، ۱۶۳.</ref> | ||
==وفات== | ==وفات== | ||
ان کی وفات 8 [[ربیع الاول]] 984 ق ہوئی اور انہیں [[بحرین]] کے شہر ہجر کے مضافات میں مصلی نامی قریہ میں دفن کیا گیا۔<ref>افندی | ان کی وفات 8 [[ربیع الاول]] 984 ق ہوئی اور انہیں [[بحرین]] کے شہر ہجر کے مضافات میں مصلی نامی قریہ میں دفن کیا گیا۔<ref>افندی اصفہانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۱۹؛ بحرانی، لؤلؤةالبحرین، ص۲۷.</ref> شیخ بہائی نے ان کے سوگ میں مرثیہ نظم کیا ہے۔<ref>ر.ک:افندی اصفہانی، ریاض العلماء و حیاض الفضلاء، ج۲، ص۱۱۲ـ۱۱۴؛ بحرانی، لؤلؤةالبحرین، ص۲۷ـ۲۸.</ref> | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== |