گمنام صارف
"تفسیر امام حسن عسکری (کتاب)" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←سند کتاب
م (←کتاب کا اعتبار) |
imported>Mabbassi م (←سند کتاب) |
||
سطر 8: | سطر 8: | ||
==سند کتاب== | ==سند کتاب== | ||
اس کتاب کی سند کے سلسلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چوتھی اور پانچویں صدی میں قم کے فقہا اور محدثین کے درمیان اس تفسیر سے مطالب نقل کئے جانے کا رواج تھا۔ <ref>تفسیر امام عسکری (ع)، ص ۷ـ ۸.</ref> خطیب اور مشہور مفسر جرجانی محمد بن قاسم استرآبادی جو شاید تفسیر تدوین کرنے والا ہو، نے اس تفسیر کے دو راویوں یعنی ابوالحسن علی بن محمدبن سیار (یسار؟) اور ابویعقوب یوسف بن محمدبن زیاد سے اس تفسیر کے مطالب نقل کئے ہیں ۔ | اس کتاب کی سند کے سلسلے سے ظاہر ہوتا ہے کہ چوتھی اور پانچویں صدی میں قم کے فقہا اور محدثین کے درمیان اس تفسیر سے مطالب نقل کئے جانے کا رواج تھا۔ <ref>تفسیر امام عسکری (ع)، ص ۷ـ ۸.</ref> خطیب اور مشہور مفسر جرجانی محمد بن قاسم استرآبادی جو شاید تفسیر تدوین کرنے والا ہو، نے اس تفسیر کے دو راویوں یعنی ابوالحسن علی بن محمدبن سیار (یسار؟) اور ابویعقوب یوسف بن محمدبن زیاد سے اس تفسیر کے مطالب نقل کئے ہیں ۔ | ||
تفسیر کے مختصر مقدمے میں ان دونوں سے منقول ہے کہ حسن بن زید کی قدرت کے زمانے میں اپنے وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور ہم [[امام حسن عسکری(ع)]] کی خدمت میں حاضر ہوئے <ref>التفسیر المنسوب الی الامام ابی محمد الحسن بن علی العسکری، ص ۹ـ۱۰؛ قس ابن جوزی، ج ۱۲، ص ۷۴؛ آقابزرگ طہرانی ،الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ج ۴، ص ۲۸۶ـ ۲۸۸.</ref>۔اس لحاظ سے انکے [[سامرا]] میں پہنچنے کی تاریخ ۲۵۴ کے بعد کی ہونی چاہئے چونکہ یہ سال امام کی امامت کے آغاز کا سال تھا ۔ | |||
پھر کہتے ہیں کہ اس تفسیر کا متن امام نے ہمیں سات سال میں املا کروایا۔ <ref>التفسیر المنسوب الی الامام ابی محمد الحسن بن علی العسکری ، ص ۱۲</ref> جبکہ ۲۶۰ قمری امام کی شہادت کا ذکر نہیں آیا ہے ۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ امام کی شہادت کے بعد یہ دونوں اپنے وطن واپس لوٹ گئے ۔ | |||
==اعتبار کتاب== | ==اعتبار کتاب== | ||
<!-- | |||
با وجود قدمت این تفسیر، وثاقت آن در بین علمای [[امامیه]] از گذشته مورد بحث بوده است. [[شیخ صدوق]] (متوفی ۳۸۱) ، نخستین عالم امامی است که از این تفسیر مطالب فراوانی در کتب خود نقل کرده، گرچه در باره وثاقت یا عدم اعتبار آن سخنی نگفته است. | با وجود قدمت این تفسیر، وثاقت آن در بین علمای [[امامیه]] از گذشته مورد بحث بوده است. [[شیخ صدوق]] (متوفی ۳۸۱) ، نخستین عالم امامی است که از این تفسیر مطالب فراوانی در کتب خود نقل کرده، گرچه در باره وثاقت یا عدم اعتبار آن سخنی نگفته است. | ||