مندرجات کا رخ کریں

"گناہان کبیرہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 8: سطر 8:
گناہ کی دو قسمیں ہیں: کبیرہ گناہ (بڑے) اور صغیرہ گناہ (چھوٹے).
گناہ کی دو قسمیں ہیں: کبیرہ گناہ (بڑے) اور صغیرہ گناہ (چھوٹے).
یہ تقسیم قرآن اور روایات کے ذریعے ہوئی ہے، سورہ نساء کی آیت ٣١ میں آیا ہے: '' اِنْ تَجْتَنِبُوا کَباِئَر ماتُنْهَؤنَ عَنْهُ نُکَفرِّعَنْکُمْ سَیئاتِکُم'' ترجمہ: اگر کبیرہ گناہ جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے اس سے دوری کرو تو تمہارے چھوٹے گناہوں کی پردہ پوشی کریں گے اور تمہیں اچھی جگہ پر داخل کریں گے'' [نساء.٣١] اور سورہ شوری کی آیت ٣٧ میں اہل بہشت کے بارے میں آیا ہے: ''جو کبیرہ گناہوں اور برے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں ان کے لئے ہمیشہ آخرت کی نعمات ہیں''
یہ تقسیم قرآن اور روایات کے ذریعے ہوئی ہے، سورہ نساء کی آیت ٣١ میں آیا ہے: '' اِنْ تَجْتَنِبُوا کَباِئَر ماتُنْهَؤنَ عَنْهُ نُکَفرِّعَنْکُمْ سَیئاتِکُم'' ترجمہ: اگر کبیرہ گناہ جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے اس سے دوری کرو تو تمہارے چھوٹے گناہوں کی پردہ پوشی کریں گے اور تمہیں اچھی جگہ پر داخل کریں گے'' [نساء.٣١] اور سورہ شوری کی آیت ٣٧ میں اہل بہشت کے بارے میں آیا ہے: ''جو کبیرہ گناہوں اور برے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں ان کے لئے ہمیشہ آخرت کی نعمات ہیں''
[[ائمہ معصومین علیہم السلام|ائمہ معصومین(ع)]] سے بہت زیادہ تعداد میں روایات ہم تک پہنچی ہیں کہ جو کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کو تقسیم کرتی ہیں، اور [[اصول کافی]] کی کتاب میں باب الکبائر کے عنوان سے ایک باب اس موضوع کے لئے مخصوص ہے کہ جس میں ٢٤ حدیث بیان ہوئی ہیں.  
[[ائمہ معصومین علیہم السلام|ائمہ معصومینؑ]] سے بہت زیادہ تعداد میں روایات ہم تک پہنچی ہیں کہ جو کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کو تقسیم کرتی ہیں، اور [[اصول کافی]] کی کتاب میں باب الکبائر کے عنوان سے ایک باب اس موضوع کے لئے مخصوص ہے کہ جس میں ٢٤ حدیث بیان ہوئی ہیں.  
اس باب کی پہلی اور دوسری روایت میں بیان ہوا ہے کہ کبیرہ گناہ، ایسے گناہوں کو کہتے ہیں کہ جس کے لئے خداوند نے جہنم کی آگ کو مقرر کیا ہے. اور ان میں بعض روایات (تیسری اور آٹھویں) نے گناہ کبیرہ کی تعداد ٧ کہی ہے اور بعض روایات میں (روایت ٢٤) گناہ کبیرہ کی تعداد ١٩ کہی گئی ہے.
اس باب کی پہلی اور دوسری روایت میں بیان ہوا ہے کہ کبیرہ گناہ، ایسے گناہوں کو کہتے ہیں کہ جس کے لئے خداوند نے جہنم کی آگ کو مقرر کیا ہے. اور ان میں بعض روایات (تیسری اور آٹھویں) نے گناہ کبیرہ کی تعداد ٧ کہی ہے اور بعض روایات میں (روایت ٢٤) گناہ کبیرہ کی تعداد ١٩ کہی گئی ہے.


سطر 17: سطر 17:
#ہر وہ معصیت جس کے مرتکب ہونے پر قرآن یا روایات میں آگ کا وعدہ دیا گیا ہے.
#ہر وہ معصیت جس کے مرتکب ہونے پر قرآن یا روایات میں آگ کا وعدہ دیا گیا ہے.
#ہر گناہ جو قرآن اور حدیث میں اس کا کبیرہ ہونا مسلم اور قطعی ہے وہ بڑا ہے.  
#ہر گناہ جو قرآن اور حدیث میں اس کا کبیرہ ہونا مسلم اور قطعی ہے وہ بڑا ہے.  
#ہر گناہ جو متدینین کے یہاں بڑا ہو جیسے کہ یقین حاصل ہو جائے کہ معصومین(ع) کے زمانے میں بھی مومنین اس گناہ کو کبیرہ کہتے تھے.  
#ہر گناہ جو متدینین کے یہاں بڑا ہو جیسے کہ یقین حاصل ہو جائے کہ معصومینؑ کے زمانے میں بھی مومنین اس گناہ کو کبیرہ کہتے تھے.  
ِ#صغیرہ گناہوں کی تکرار
ِ#صغیرہ گناہوں کی تکرار
بعض فقہاء صغیرہ گناہوں کے بار بار انجام دینے کو کبیرہ گناہ کی نشانی کہتے ہیں.
بعض فقہاء صغیرہ گناہوں کے بار بار انجام دینے کو کبیرہ گناہ کی نشانی کہتے ہیں.
سطر 40: سطر 40:
#قذف<ref>نور/۲۳ </ref>
#قذف<ref>نور/۲۳ </ref>
#جھوٹ
#جھوٹ
#خدا، پیغمبرؐ یا ائمہ(ع) پر جھوٹی نسبت
#خدا، پیغمبرؐ یا ائمہؑ پر جھوٹی نسبت
#تہمت
#تہمت
#غیبت
#غیبت
سطر 72: سطر 72:
==گناہ صغیرہ کا کبیرہ گناہ میں تبدیل ہونا==
==گناہ صغیرہ کا کبیرہ گناہ میں تبدیل ہونا==
آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسے مورد ہیں جہاں صغیرہ گناہ کبیرہ گناہوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں:<ref> گناه شناسی، صص۲۵-۳۱</ref>
آیات اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ ایسے مورد ہیں جہاں صغیرہ گناہ کبیرہ گناہوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں:<ref> گناه شناسی، صص۲۵-۳۱</ref>
*صغیرہ گناہ پر اصرار کرنا: صغیرہ گناہ کو بار بار انجام دینا، اسکو کبیرہ گناہ میں تبدیل کر دیتا ہے.<ref> امام صادق علیه‌السلام فرمود: لا صَغیرة مع الاِصرار در صورت اصرار، گناه صغیره‌ای نباشد. بحار الانوار، ج ۸، ص۳۵۲ </ref> قرآن پرہیزگاروں کے بارے میں فرماتا ہے: کہ وہ آگاہانہ طور پر اپنے گناہوں پر اصرار نہ کریں. <ref>آل عمران، ۱۳۵ </ref> امام باقر(ع) اس کی تشریح یوں فرماتے ہیں: اصرار، یعنی کوئی گناہ میں مرتکب ہو اور پھر خدا سے معافی نہ مانگے اور توبہ کی فکر میں نہ ہو.  
*صغیرہ گناہ پر اصرار کرنا: صغیرہ گناہ کو بار بار انجام دینا، اسکو کبیرہ گناہ میں تبدیل کر دیتا ہے.<ref> امام صادق علیه‌السلام فرمود: لا صَغیرة مع الاِصرار در صورت اصرار، گناه صغیره‌ای نباشد. بحار الانوار، ج ۸، ص۳۵۲ </ref> قرآن پرہیزگاروں کے بارے میں فرماتا ہے: کہ وہ آگاہانہ طور پر اپنے گناہوں پر اصرار نہ کریں. <ref>آل عمران، ۱۳۵ </ref> امام باقرؑ اس کی تشریح یوں فرماتے ہیں: اصرار، یعنی کوئی گناہ میں مرتکب ہو اور پھر خدا سے معافی نہ مانگے اور توبہ کی فکر میں نہ ہو.  
*گناہوں کو چھوٹا سمجھنا: امام حسن عسکری(ع) فرماتے ہیں: معاف نہ کرنے والے گناہ وہ ہیں کہ انسان کہے کاش مجھے اس گناہ کے علاوہ کسی گناہ پر سزا نہ دی جائے، یعنی اس گناہ جس کی طرف اشارہ کیا ہے اسے چھوٹا سمجھے. <ref> بحارالانوار، ج۵۰، ص۲۵۰ </ref> امیرالمومنین علی(ع) فرماتے ہیں: بدترین گناہ وہ ہیں جنہیں انجام دینے والا چھوٹا سمجھے. <ref> کلمة التقوی، ج۲، ص۲۹۴ </ref>
*گناہوں کو چھوٹا سمجھنا: امام حسن عسکریؑ فرماتے ہیں: معاف نہ کرنے والے گناہ وہ ہیں کہ انسان کہے کاش مجھے اس گناہ کے علاوہ کسی گناہ پر سزا نہ دی جائے، یعنی اس گناہ جس کی طرف اشارہ کیا ہے اسے چھوٹا سمجھے. <ref> بحارالانوار، ج۵۰، ص۲۵۰ </ref> امیرالمومنین علیؑ فرماتے ہیں: بدترین گناہ وہ ہیں جنہیں انجام دینے والا چھوٹا سمجھے. <ref> کلمة التقوی، ج۲، ص۲۹۴ </ref>
*گناہ کے وقت خوشی کا اظہار کرنا: گناہ کے انجام دیتے وقت لذت محسوس کرنا ان امور سے ہے جو گناہ کو بڑا کرتا ہے اور زیادہ عذاب کا باعث بنتا ہے. امام علی(ع) فرماتے ہیں: اگر کوئی گناہ کرتے وقت لذت محسوس کرے گا خداوند اسے اس لذت کی جگہ ذلت کا مزہ چکھائے گا. <ref>عیون الحکم والمواعظ، ص۴۳۶ </ref> اور امام سجاد(ع) فرماتے ہیں: گناہ کرتے وقت خوش نہ ہوں، کیونکہ یہ خوشی اس کے انجام دینے سے زیادہ بڑی ہے. <ref> بحارالانوار، ج۷۵، ص۱۵۹ </ref>
*گناہ کے وقت خوشی کا اظہار کرنا: گناہ کے انجام دیتے وقت لذت محسوس کرنا ان امور سے ہے جو گناہ کو بڑا کرتا ہے اور زیادہ عذاب کا باعث بنتا ہے. امام علیؑ فرماتے ہیں: اگر کوئی گناہ کرتے وقت لذت محسوس کرے گا خداوند اسے اس لذت کی جگہ ذلت کا مزہ چکھائے گا. <ref>عیون الحکم والمواعظ، ص۴۳۶ </ref> اور امام سجادؑ فرماتے ہیں: گناہ کرتے وقت خوش نہ ہوں، کیونکہ یہ خوشی اس کے انجام دینے سے زیادہ بڑی ہے. <ref> بحارالانوار، ج۷۵، ص۱۵۹ </ref>
*خدا کی دی گئی مہلت پر مغرور ہونا: اگر گناہ کار خدا کی دی گئی مہلت اور جلدی اس کی سزا نہ ملنے پر مغرور ہو تو یہ بھی چھوٹے گناہ کو بڑے گناہ میں تبدیل کر دیتا ہے.  
*خدا کی دی گئی مہلت پر مغرور ہونا: اگر گناہ کار خدا کی دی گئی مہلت اور جلدی اس کی سزا نہ ملنے پر مغرور ہو تو یہ بھی چھوٹے گناہ کو بڑے گناہ میں تبدیل کر دیتا ہے.  
*اعلانیہ طور پر گناہ انجام دینا: گناہ کو اعلانیہ طور پر انجام دینا بھی چھوٹے گناہ کو بڑے گناہ میں تبدیل کرتا ہے. <ref>امام علی(ع) فرمود: از آشکار نمودن گناهان بپرهیز، که آن از سخت‌ترین گناهان است. عیون الحکم والمواعظ، ص۹۵ </ref>
*اعلانیہ طور پر گناہ انجام دینا: گناہ کو اعلانیہ طور پر انجام دینا بھی چھوٹے گناہ کو بڑے گناہ میں تبدیل کرتا ہے. <ref>امام علیؑ فرمود: از آشکار نمودن گناهان بپرهیز، که آن از سخت‌ترین گناهان است. عیون الحکم والمواعظ، ص۹۵ </ref>
*بڑی شخصیات کا گناہ بجا لانا: جن افراد کا لوگوں کے سامنے خاص مقام ہیں ان کی موقعیت گناہ انجام دینے پر دوسروں کی طرح نہیں ہے، اور شاید کہ ان کے صغیرہ گناہ بھی کبیرہ گناہ کے برابر ہیں، کیونکہ انکے گناہ دو زاویے ہیں: ایک فردی زاویہ اور ایک اجتماعی زاویہ. بڑی شخصیات کا گناہ کرنا اجتماعی نظر میں معاشرے کے منحرف ہونے کا سبب ہے اور دین کی کمزوری کا باعث بنتا ہے. امام صادق(ع) اس گفتار کے ضمن میں فرماتے ہیں: جاہل کے ستر گناہ، معاف کر دئیے جائیں گے قبل اس کے کہ عالم کا ایک گناہ معاف کیا جائے.<ref> بحارالانوار،ج۷۵، ص۱۹۳ </ref> رسول اکرمؐ نے فرمایا: میری امت کے عام لوگوں کی اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک میری امت کے خاص افراد کی اصلاح نہ ہو جائے. ایک شخص نے پوچھا: آپؐ کی امت کے خواص کون ہیں؟ فرمایا: میری امت کے خاص افراد چار گروہ ہیں: ١. حکومتی سربراہ. ٢. دانشور. ٣. عابد. ٤.تاجر.
*بڑی شخصیات کا گناہ بجا لانا: جن افراد کا لوگوں کے سامنے خاص مقام ہیں ان کی موقعیت گناہ انجام دینے پر دوسروں کی طرح نہیں ہے، اور شاید کہ ان کے صغیرہ گناہ بھی کبیرہ گناہ کے برابر ہیں، کیونکہ انکے گناہ دو زاویے ہیں: ایک فردی زاویہ اور ایک اجتماعی زاویہ. بڑی شخصیات کا گناہ کرنا اجتماعی نظر میں معاشرے کے منحرف ہونے کا سبب ہے اور دین کی کمزوری کا باعث بنتا ہے. امام صادقؑ اس گفتار کے ضمن میں فرماتے ہیں: جاہل کے ستر گناہ، معاف کر دئیے جائیں گے قبل اس کے کہ عالم کا ایک گناہ معاف کیا جائے.<ref> بحارالانوار،ج۷۵، ص۱۹۳ </ref> رسول اکرمؐ نے فرمایا: میری امت کے عام لوگوں کی اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک میری امت کے خاص افراد کی اصلاح نہ ہو جائے. ایک شخص نے پوچھا: آپؐ کی امت کے خواص کون ہیں؟ فرمایا: میری امت کے خاص افراد چار گروہ ہیں: ١. حکومتی سربراہ. ٢. دانشور. ٣. عابد. ٤.تاجر.
==کبیرہ گناہ کی توبہ==
==کبیرہ گناہ کی توبہ==
کبیرہ گناہوں کی توبہ دوسرے گناہوں کی طرح ہی ہے لیکن اس کا طریقہ گناہوں کے مختلف ہونے میں ایک دوسرے سے مختلف ہے. بعض گناہ صرف حق اللہ سے متعلق ہیں جیسے زنا، اور بعض حق اللہ اور حق الناس دونوں سے متعلق ہیں جیسے چوری. حق اللہ سے متعلق گناہ کی توبہ کرنے کا طریقہ ندامت اور پشیمانی واقعی اور اس کے ترک کا پکا ارادہ اور دوبارہ اس کو بجا نہ لانا ہے اور وہ جگہ جہاں قضا کا امکان ہے (جیسے وہ نماز جو نہیں پڑھی یا روزے جو نہیں رکھے) ان واجب اعمال کی قضا بجا لائی جائے. لیکن جو حق الناس سے متعلق گناہ ہیں ان کے لئے ندامت اور پشیمانی کے علاوہ لوگوں کا حق ادا کرے مگر یہ کہ وہ شخص اپنے حق کو معاف کر دے.
کبیرہ گناہوں کی توبہ دوسرے گناہوں کی طرح ہی ہے لیکن اس کا طریقہ گناہوں کے مختلف ہونے میں ایک دوسرے سے مختلف ہے. بعض گناہ صرف حق اللہ سے متعلق ہیں جیسے زنا، اور بعض حق اللہ اور حق الناس دونوں سے متعلق ہیں جیسے چوری. حق اللہ سے متعلق گناہ کی توبہ کرنے کا طریقہ ندامت اور پشیمانی واقعی اور اس کے ترک کا پکا ارادہ اور دوبارہ اس کو بجا نہ لانا ہے اور وہ جگہ جہاں قضا کا امکان ہے (جیسے وہ نماز جو نہیں پڑھی یا روزے جو نہیں رکھے) ان واجب اعمال کی قضا بجا لائی جائے. لیکن جو حق الناس سے متعلق گناہ ہیں ان کے لئے ندامت اور پشیمانی کے علاوہ لوگوں کا حق ادا کرے مگر یہ کہ وہ شخص اپنے حق کو معاف کر دے.
اگر کوئی شخص توبہ کے بغیر دنیا سے چلا جائے دنیا کی مشکلات اور سختیوں نے اس کے حق اللہ کومعاف کرنے کا سبب فراہم نہ کیا ہو تو اس صورت میں وہ عذاب کا مستحق ہے اور اگر فضل الہی اس کے شامل حال نہ ہوا تو اسے گناہوں کی سزا ملے گی. فضل الہی کی ایک قسم، اولیاء خدا کی شفاعت ہے. ایک حدیث میں پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: میری امت کے وہ لوگ جو گناہ کبیرہ میں مرتکب ہوئے ہیں میں نے ان کے لئے شفاعت کو ذخیرہ کیا ہوا ہے، لیکن نیک افراد (یعنی جو گناہ کبیرہ کو ترک کرتے ہیں) کا محاسبہ نہیں ہو گا. <ref> من لا یحضره الفقیه، ج ۳، ص۵۷۴ </ref>
اگر کوئی شخص توبہ کے بغیر دنیا سے چلا جائے دنیا کی مشکلات اور سختیوں نے اس کے حق اللہ کومعاف کرنے کا سبب فراہم نہ کیا ہو تو اس صورت میں وہ عذاب کا مستحق ہے اور اگر فضل الہی اس کے شامل حال نہ ہوا تو اسے گناہوں کی سزا ملے گی. فضل الہی کی ایک قسم، اولیاء خدا کی شفاعت ہے. ایک حدیث میں پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: میری امت کے وہ لوگ جو گناہ کبیرہ میں مرتکب ہوئے ہیں میں نے ان کے لئے شفاعت کو ذخیرہ کیا ہوا ہے، لیکن نیک افراد (یعنی جو گناہ کبیرہ کو ترک کرتے ہیں) کا محاسبہ نہیں ہو گا. <ref> من لا یحضره الفقیه، ج ۳، ص۵۷۴ </ref>
==گناہ کبیرہ کے مرتکب: کافر یا فاسق؟==
==گناہ کبیرہ کے مرتکب: کافر یا فاسق؟==
خوارج کی نظر میں جو گناہ کبیرہ انجام دے وہ کافر ہوتا ہے اور اسی لئے جب جنگ صفین میں امیرالمومنین علی(ع) نے حکمیت کو مان لیا، تو انکو کافر سمجھ کر شہید کر دیا. اہل سنت کے مذہب معتزلہ کی نظر میں گناہ کبیرہ کا انجام دینے والا ایمان سے خارج ہو جاتا ہے لیکن کافر نہیں ہوتا بلکہ اسے فاسق کہتے ہیں. اشاعرہ مذہب میں اگر کوئی کبیرہ گناہ کو انجام دیتا ہے، اسے مومن نہیں کہہ سکتے اور ایسے شخص کی تشخیص انسان کے بس سے باہر ہے اور اس کو خدا پر چھوڑ دیا ہے. <ref> تاریخ علم کلام و مذاهب اسلامی، ج2، ص475</ref> اور شیعہ مذہب میں اگر کوئی مومن گناہ کبیرہ کو انجام دیتا ہے تو وہ فاسق مومن ہو گا لیکن اصلی ایمان ختم نہیں ہوتا.
خوارج کی نظر میں جو گناہ کبیرہ انجام دے وہ کافر ہوتا ہے اور اسی لئے جب جنگ صفین میں امیرالمومنین علیؑ نے حکمیت کو مان لیا، تو انکو کافر سمجھ کر شہید کر دیا. اہل سنت کے مذہب معتزلہ کی نظر میں گناہ کبیرہ کا انجام دینے والا ایمان سے خارج ہو جاتا ہے لیکن کافر نہیں ہوتا بلکہ اسے فاسق کہتے ہیں. اشاعرہ مذہب میں اگر کوئی کبیرہ گناہ کو انجام دیتا ہے، اسے مومن نہیں کہہ سکتے اور ایسے شخص کی تشخیص انسان کے بس سے باہر ہے اور اس کو خدا پر چھوڑ دیا ہے. <ref> تاریخ علم کلام و مذاهب اسلامی، ج2، ص475</ref> اور شیعہ مذہب میں اگر کوئی مومن گناہ کبیرہ کو انجام دیتا ہے تو وہ فاسق مومن ہو گا لیکن اصلی ایمان ختم نہیں ہوتا.
==فقہی نظر سے گناہان کبیرہ کے اثرات==
==فقہی نظر سے گناہان کبیرہ کے اثرات==
حتیٰ کہ ایک گناہ کبیرہ کے انجام دینے سے شخص فاسق حساب ہو گا اور عادل ہونے کے فقہی احکام اس پر لاگو نہیں ہوں گے. اور اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جا سکتی، اس کی شہادت مورد قبول واقع نہیں ہوتی، مگر یہ کہ توبہ کر کے اپنے گناہ کی تلافی کر لے اور یہ توبہ دوسروں کے لئے ثابت ہو جائے.  
حتیٰ کہ ایک گناہ کبیرہ کے انجام دینے سے شخص فاسق حساب ہو گا اور عادل ہونے کے فقہی احکام اس پر لاگو نہیں ہوں گے. اور اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھی جا سکتی، اس کی شہادت مورد قبول واقع نہیں ہوتی، مگر یہ کہ توبہ کر کے اپنے گناہ کی تلافی کر لے اور یہ توبہ دوسروں کے لئے ثابت ہو جائے.  
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,344

ترامیم