گمنام صارف
"معاویۃ بن ابی سفیان" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mabbassi م (←شیعہ) |
imported>Mabbassi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 53: | سطر 53: | ||
ازواج پیغمبر کے بھائیوں میں سے صرف معاویہ کو خال المومنین کہا گیا ۔ رسول خدا کی زوجہ [[ام حبیبہ]] معاویہ کی بہن تھی۔اس لحاظ سے اسے خال المومنین کہا گیا ۔<ref>رک: اسکافی، المعیار و الموازنہ، ص ۲۱ و تفسیر ابن کثیر، ج۳، ص ۴۷۷ ، ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج ۵۹، ص ۱۰۳</ref>) | ازواج پیغمبر کے بھائیوں میں سے صرف معاویہ کو خال المومنین کہا گیا ۔ رسول خدا کی زوجہ [[ام حبیبہ]] معاویہ کی بہن تھی۔اس لحاظ سے اسے خال المومنین کہا گیا ۔<ref>رک: اسکافی، المعیار و الموازنہ، ص ۲۱ و تفسیر ابن کثیر، ج۳، ص ۴۷۷ ، ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج ۵۹، ص ۱۰۳</ref>) | ||
معاویہ نے | معاویہ نے [[ابو بکر بن ابی قحافہ|ابوبکر]]، [[عمر بن خطاب|عمر]]، [[عثمان بن عفان|عثمان]] اور اپنی بہن [[ام حبیبہ]] سے حدیث نقل کی ہے۔ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت نے اس سے روایت نقل کی ہے ۔<ref>عسقلانی، ابن حجر، فتح الباری فی شرح صحیح البخاری، ج ۸، ص ۱۰۵</ref> | ||
معاویہ نے [[جنگ یمامہ]] میں شرکت کی اور پھر اسکے بعد اپنے بھائی یزید کے ساتھ سپاه ابوبکر میں [[شام]] گیا. ساحلی شہر صیدا، عرقہ، جبیل، [[بیروت]]، عکا اور صور میں موجود تھا ۔<ref>بلاذری، ابوالعباس احمد بن یحیی بن جابر، فتوح البلدان، ص ۱۷۳</ref> | معاویہ نے [[جنگ یمامہ]] میں شرکت کی اور پھر اسکے بعد اپنے بھائی یزید کے ساتھ سپاه ابوبکر میں [[شام]] گیا. ساحلی شہر صیدا، عرقہ، جبیل، [[بیروت]]، عکا اور صور میں موجود تھا ۔<ref>بلاذری، ابوالعباس احمد بن یحیی بن جابر، فتوح البلدان، ص ۱۷۳</ref> | ||
سطر 63: | سطر 63: | ||
==ابتدائی خلافتوں کا زمانہ== | ==ابتدائی خلافتوں کا زمانہ== | ||
[[یزید بن ابی سفیان]] شامات کی فتح کے موقع پر سپہ سالار تھا ۔ابوبکر نے معاویہ کو اس کے بھائی کے ساتھ حکومت دی ۔<ref>رسائل جاحظ، الرسائل السیاسیہ، ص ۳۴۴</ref> اس کی فوات کے بعد عمر کے زمانے میں شام کی ولایت پر منصوب ہوا ۔بعض مؤرخین نے عمر کی جانب سے معاویہ کی نسبت سہل انگاری ہر حیرانگی کا اظہار کیا۔ <ref>مختصر تاریخ دمشق، ج ۲۵، ص ۲۴</ref> حسن بصری کہتا ہے : معاویہ نے عمر کے زمانے سے ہی اپنے آپ کو خلافت کیلئے تیار کر لیا تھا۔<ref>تثبیت دلائل النبوه، ص ۵۹۳</ref> عمر نے تمام شامات معاویہ کے حوالے کر دئے تھے۔<ref>مختصر تاریخ دمشق، ج ۲۵، صص ۱۷، ۱۸، ۲۰؛ رسائل الجاحظ، الرسائل السیاسیہ، ص ۳۴۴</ref> معاویہ کہتا تھا:خدا کی قسم !وہ تنہا عمر کے نزدیک ایسا مقام رکھتا تھا اس طرح لوگوں پر تسلط حاصل کر لیا۔<ref>العقد الفرید، ج ۱، ص ۱۵، ج ۵، ص ۱۱۴؛ مختصر تاریخ دمشق، ج ۲۵، ص ۱۸</ref> عثمان کے سامنے جب معاویہ کی نسبت اعتراضات ہوتے تو وہ کہتا کہ کس طرح اسے معزول کروں اسے تو عمر نے منصوب کیا ہے ۔ <ref>انساب الاشراف، ج ۴، ص ۵۵۰</ref> | [[یزید بن ابی سفیان]] شامات کی فتح کے موقع پر سپہ سالار تھا ۔ابوبکر نے معاویہ کو اس کے بھائی کے ساتھ حکومت دی ۔<ref>رسائل جاحظ، الرسائل السیاسیہ، ص ۳۴۴</ref> اس کی فوات کے بعد عمر کے زمانے میں شام کی ولایت پر منصوب ہوا ۔بعض مؤرخین نے عمر کی جانب سے معاویہ کی نسبت سہل انگاری ہر حیرانگی کا اظہار کیا۔ <ref>مختصر تاریخ دمشق، ج ۲۵، ص ۲۴</ref> حسن بصری کہتا ہے : معاویہ نے عمر کے زمانے سے ہی اپنے آپ کو خلافت کیلئے تیار کر لیا تھا۔<ref>تثبیت دلائل النبوه، ص ۵۹۳</ref> عمر نے تمام شامات معاویہ کے حوالے کر دئے تھے۔<ref>مختصر تاریخ دمشق، ج ۲۵، صص ۱۷، ۱۸، ۲۰؛ رسائل الجاحظ، الرسائل السیاسیہ، ص ۳۴۴</ref> معاویہ کہتا تھا:خدا کی قسم !وہ تنہا عمر کے نزدیک ایسا مقام رکھتا تھا اس طرح لوگوں پر تسلط حاصل کر لیا۔<ref>العقد الفرید، ج ۱، ص ۱۵، ج ۵، ص ۱۱۴؛ مختصر تاریخ دمشق، ج ۲۵، ص ۱۸</ref> عثمان کے سامنے جب معاویہ کی نسبت اعتراضات ہوتے تو وہ کہتا کہ کس طرح اسے معزول کروں اسے تو عمر نے منصوب کیا ہے ۔ <ref>انساب الاشراف، ج ۴، ص ۵۵۰</ref> [[ عثمان]] کے دور میں ، شام کا علاقہ پر امن علاوہ شمار ہوتا تھا۔اس نے ورائے کوفہ اور [[ابوذر غفاری|ابوذر]] کو اسی جگہ جلاوطن کیا ؛ گرچه معاویہ نے اپنی شخصیت و حیثیت کی حفاظت اور لوگوں پر ان کے اثرات روکنے کیلیے انہیں شام سے نکال دیا ۔<ref>نک: طبقات الکبری، ج ۴، ص ۲۲۹؛ الغدیر، ج ۶، ص ۳۰۴؛ ج ۹، ص ۳۷۳</ref> شام معاویہ کا تربیت شده علاقہ تھا۔ یہ ایک ایسا امر ہے کہ جسکی حقیقت بنی امیہ کی حکومت کے دوران وہاں کے لوگوں کی اس سے وفاداری مکمل طور پر آشکار ہوئی ۔ کہتے ہیں کہ بنی امیہ کے بزرگوں نے [[سفاح]] کے نزدیک گواہی دی کہ وہ بنی امیہ کے علاوہ کسی کو [[پیامبر (ص)]] کی اقوام سے نہیں سمجھتے ہیں ۔<ref>مروج الذہب، ج ۳، ص ۳۳؛ النزاع و التخاصم، ص ۲۸</ref> | ||
معاویہ سے منقول ہوا کہ اس نے کہا :{{حدیث| نحن شجرة رسول الله}}<ref>مختصر تاریخ دمشق، ج ۱۱، ص ۸۷</ref>.اسی طرح اس نے کاتب وحی اور خال المومنین کے القابات کی کوشش کی تا کہ اس کی شخصیت میں استحکام پیدا ہو ۔وہ ان لوگوں کی تشویق کرتا جو اسکی شان میں روایات جعل کرتے اور وہ لوگوں میں اسکی ترویج کرتے ۔<ref>نک: مختصر تاریخ دمشق، ج ۲۵، صص ۵-۱۶؛ جس کا نمونہ یہ کہ رسول اللہ سے نقل ہے:{{حدیث| الامناء عندالله ثلاثه: جبرئیل وأنا و معاویہ}}. ابن عساکر نے ان روایت کو تفصیل سے بیان کیا ہے ۔</ref> | معاویہ سے منقول ہوا کہ اس نے کہا :{{حدیث| نحن شجرة رسول الله}}<ref>مختصر تاریخ دمشق، ج ۱۱، ص ۸۷</ref>.اسی طرح اس نے کاتب وحی اور خال المومنین کے القابات کی کوشش کی تا کہ اس کی شخصیت میں استحکام پیدا ہو ۔وہ ان لوگوں کی تشویق کرتا جو اسکی شان میں روایات جعل کرتے اور وہ لوگوں میں اسکی ترویج کرتے ۔<ref>نک: مختصر تاریخ دمشق، ج ۲۵، صص ۵-۱۶؛ جس کا نمونہ یہ کہ رسول اللہ سے نقل ہے:{{حدیث| الامناء عندالله ثلاثه: جبرئیل وأنا و معاویہ}}. ابن عساکر نے ان روایت کو تفصیل سے بیان کیا ہے ۔</ref> | ||
===عثمان کے خلاف شورش کا آغاز=== | ===عثمان کے خلاف شورش کا آغاز=== | ||
معاویہ عثمان کے خلاف شروع ہونے والی شورش کی ابتدا سے ہی اس سے فائدہ اٹھانے کے در پے تھا ۔ اس نے ایک وقت عثمان سے تقاضا کیا کہ وہ اس کے پاس شام آ جائے تا کہ مخالفین کے ہاتھوں سے امان میں رہے ۔ لیکن اس نے یہ تجویز قبول نہیں کی ۔<ref>ابن کثیر، الکامل فی التاریخ، ج ۳، ص ۱۵۷</ref> جب شورش میں سختی اور شدت پیدا ہوئی تو معاویہ نے صرف یہی راہ دیکھی کہ عثمان قتل ہو جائے ۔اسی وجہ سے اس نے عثمان کی کسی قسم کی مدد نہیں کی ۔یہانتک کہ عثمان سخت ترین حالات میں خود اس بات کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے ایک عتاب آمیز خط اسے لکھا ۔ <ref>ذہبی، شمس الدین، تاریخ الاسلام، عہد الخلفاء الراشدین، ص ۴۵۰-۴۵۱؛ نیز رک: بلاذری، انساب الاشراف، ج ۴، ص ۱۹</ref> عثمان کے بعد معاویہ نے امویوں کو اس کا وارث سمجھا اور اسی کی خونخواہی کے بہانے حضرت علی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا .عثمان کے قتل کے بعد اس کی بیوی کی شام فرار ہونے کے بعد اس سے شادی کی خواہش کی لیکن اس نے اسے قبول نہیں کیا ۔ <ref>نثر الدر، ج ۴، ص ۶۲؛ بلاغات النساء، ص ۱۳۹؛ العقد الفرید، ج ۶، ص ۹۰</ref> | معاویہ [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے خلاف شروع ہونے والی شورش کی ابتدا سے ہی اس سے فائدہ اٹھانے کے در پے تھا ۔ اس نے ایک وقت عثمان سے تقاضا کیا کہ وہ اس کے پاس شام آ جائے تا کہ مخالفین کے ہاتھوں سے امان میں رہے ۔ لیکن اس نے یہ تجویز قبول نہیں کی ۔<ref>ابن کثیر، الکامل فی التاریخ، ج ۳، ص ۱۵۷</ref> جب شورش میں سختی اور شدت پیدا ہوئی تو معاویہ نے صرف یہی راہ دیکھی کہ عثمان قتل ہو جائے ۔اسی وجہ سے اس نے [[عثمان بن عفان|عثمان]] کی کسی قسم کی مدد نہیں کی ۔یہانتک کہ عثمان سخت ترین حالات میں خود اس بات کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے ایک عتاب آمیز خط اسے لکھا ۔ <ref>ذہبی، شمس الدین، تاریخ الاسلام، عہد الخلفاء الراشدین، ص ۴۵۰-۴۵۱؛ نیز رک: بلاذری، انساب الاشراف، ج ۴، ص ۱۹</ref> عثمان کے بعد معاویہ نے امویوں کو اس کا وارث سمجھا اور اسی کی خونخواہی کے بہانے حضرت علی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا .عثمان کے قتل کے بعد اس کی بیوی کی شام فرار ہونے کے بعد اس سے شادی کی خواہش کی لیکن اس نے اسے قبول نہیں کیا ۔ <ref>نثر الدر، ج ۴، ص ۶۲؛ بلاغات النساء، ص ۱۳۹؛ العقد الفرید، ج ۶، ص ۹۰</ref> | ||
معاویہ نے حضرت علی کو لکھنے والے خطوط میں اس بات کا سہارا لیا: ہمارا خلیفہ عثمان مظلوم قتل ہوا اور خدا اسکے متعلق فرماتا ہے : جو کوئی مظلوم مارا جائے ہم اس کے ولی کیلئے قدرت فراہم کرتے ہیں ۔ پس ہم عثمان اور اس کے بیٹوں کی نسبت اس خونخواہی کیلئے زیادہ سزاوار ہیں ۔<ref>نک: الغارات، ص ۷۰</ref> معاویہ اپنے بہت زیادہ پروپیگنڈے میں اپنے آپ کو عثمان کا وارث کہتا تھا. | معاویہ نے حضرت علی کو لکھنے والے خطوط میں اس بات کا سہارا لیا: ہمارا خلیفہ عثمان مظلوم قتل ہوا اور خدا اسکے متعلق فرماتا ہے : جو کوئی مظلوم مارا جائے ہم اس کے ولی کیلئے قدرت فراہم کرتے ہیں ۔ پس ہم [[عثمان بن عفان|عثمان]] اور اس کے بیٹوں کی نسبت اس خونخواہی کیلئے زیادہ سزاوار ہیں ۔<ref>نک: الغارات، ص ۷۰</ref> معاویہ اپنے بہت زیادہ پروپیگنڈے میں اپنے آپ کو عثمان کا وارث کہتا تھا. | ||
== امام علی(ع) کا عہد == | == امام علی(ع) کا عہد == | ||
=== برطرفی کی کوشش=== | === برطرفی کی کوشش=== | ||
[[امام علی(ع)]] نے خلافت کے آغاز میں ہی معاویہ نمائندے سے کہا:معاویہ سے کہو کہ میں اس کی شام پر امیری سے خوش نہیں ہوں اور لوگ کبھی اس کی خلافت کے متعلق رضایت نہیں دینگے ۔ <ref>رسائل جاحظ، الرسائل السیاسیہ، صص ۳۴۵-۳۴۶</ref> معاویہ نے جنگ جمل سے پہلے زبیر کو لکھا: اس نے شام کے لوگوں سے اسکے لیے بیعت لی ہے ، اگر عراق انکی ہمنوائی کرے تو شام کی طرف سے کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ زبیر معاویہ کے اس خط سے بہت خوش ہوا۔<ref>نک: اعیان الشیعہ، ج ۳، جزء دوم، ص ۱۲</ref> معاویہ اس بات پر تھا کہ قریش کی سیاسی شخصیات میں سے خاص طور پر ایسی شخصیات کو چاہتا تھا کہ جو اس شورا میں موجود ہوں اور وہ انہیں اپنی جانب جذب کرے تاکہ ان سے سیاسی فائدہ حاصل کر سکے ۔ امام نے اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا اور کہا شام میں موجود قرشیوں میں سے کوئی ایک بھی شورا میں قبول نہیں ہوئے ہیں اور خلافت ان کے لیے روا نہیں ہے ۔ <ref>وقعۃ صفین، ص ۵۸</ref> نیز معاویہ نے امام علی کو لکھے جانے والے خط میں شورا کا مسئلہ بیان کیا ۔<ref>الامامۃ و السیاسۃ، ج ۱، ص ۱۲۱</ref> | [[امام علی(ع)]] نے خلافت کے آغاز میں ہی معاویہ نمائندے سے کہا:معاویہ سے کہو کہ میں اس کی شام پر امیری سے خوش نہیں ہوں اور لوگ کبھی اس کی خلافت کے متعلق رضایت نہیں دینگے ۔ <ref>رسائل جاحظ، الرسائل السیاسیہ، صص ۳۴۵-۳۴۶</ref> معاویہ نے جنگ جمل سے پہلے زبیر کو لکھا: اس نے شام کے لوگوں سے اسکے لیے بیعت لی ہے ، اگر عراق انکی ہمنوائی کرے تو شام کی طرف سے کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ زبیر معاویہ کے اس خط سے بہت خوش ہوا۔<ref>نک: اعیان الشیعہ، ج ۳، جزء دوم، ص ۱۲</ref> معاویہ اس بات پر تھا کہ قریش کی سیاسی شخصیات میں سے خاص طور پر ایسی شخصیات کو چاہتا تھا کہ جو اس شورا میں موجود ہوں اور وہ انہیں اپنی جانب جذب کرے تاکہ ان سے سیاسی فائدہ حاصل کر سکے ۔ امام نے اسی نکتے کی طرف اشارہ کیا اور کہا شام میں موجود قرشیوں میں سے کوئی ایک بھی شورا میں قبول نہیں ہوئے ہیں اور خلافت ان کے لیے روا نہیں ہے ۔ <ref>وقعۃ صفین، ص ۵۸</ref> نیز معاویہ نے [[امام علی]] کو لکھے جانے والے خط میں شورا کا مسئلہ بیان کیا ۔<ref>الامامۃ و السیاسۃ، ج ۱، ص ۱۲۱</ref> | ||
امام نے عبدالله بن عباس کو حکومت شام میں بھیجنا چاہا تو معاویہ کو خط لکھا ۔اس نے جواب میں امام کو ایک سفید کاغذ بھیجا ۔معاویہ کے نمائندے نے امام سے کہا :میں ایسے لوگوں کی جانب سے آیا ہوں جو تمہارے متعلق یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ تم نے عثمان کو قتل کیا اور وہ تمہارے قتل کے سوا راضی نہیں ہیں ۔ <ref>انساب الاشراف، ج ۲، ص ۲۱۱-۲۱۲</ref> معاویہ جنگ جمل اور علی کے طلحہ ، زبیر اور عائشہ کے مقابلے میں آنے سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے امام کی قتل عثمان میں مداخلت کو زیادہ تبلیغ کرتا ۔ <ref>رسول جعفریان، تاریخ خلفا، ج ۲، ص ۲۷۸</ref> جنگ جمل کے بعد امام کوفہ میں مستقر ہوئے ۔ سپاہ شام سے درگیری کے پیش نظر لوگوں سے بیعت لینا شروع کی، شام کے علاوہ تمام علاقوں نے امام کی بیعت کی ۔ امام نے اپنے خطوط کے ذریعے معاویہ کو قانع اور اپنا مطیع کرنے کی کوشش کی۔لیکن وہ عمر کی طرف سے منصوب ہونے کے استناد کی بنا پر امام کی اطاعت سے سر پیچی کرتا رہا ۔ <ref>الفتوح، ج ۲، ص ۳۸۰</ref> معاویہ نے امام سے چاہا کہ شام اور مصر اس کے حوالے کرے نیز اسکے بعد بیعت کیلئے امام کسی اور کو مقرر نہ کریں بلکہ وہ خود امام کے سامنے بیعت کرے گا ۔امام نے اس کے جواب میں کہا :<font color=blue>{{حدیث|لم یکن الله لیرانی اتخذ المضلین عضدا}}</font>»<ref>وقعة صفین، ص ۵۲؛ الفتوح، ج ۲، ص ۳۹۲</ref> | امام نے [[عبدالله بن عباس]] کو حکومت شام میں بھیجنا چاہا تو معاویہ کو خط لکھا ۔اس نے جواب میں امام کو ایک سفید کاغذ بھیجا ۔معاویہ کے نمائندے نے امام سے کہا :میں ایسے لوگوں کی جانب سے آیا ہوں جو تمہارے متعلق یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ تم نے عثمان کو قتل کیا اور وہ تمہارے قتل کے سوا راضی نہیں ہیں ۔ <ref>انساب الاشراف، ج ۲، ص ۲۱۱-۲۱۲</ref> معاویہ جنگ جمل اور علی کے طلحہ ، زبیر اور عائشہ کے مقابلے میں آنے سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے امام کی قتل عثمان میں مداخلت کو زیادہ تبلیغ کرتا ۔ <ref>رسول جعفریان، تاریخ خلفا، ج ۲، ص ۲۷۸</ref> [[جنگ جمل]] کے بعد امام [[کوفہ]] میں مستقر ہوئے ۔ سپاہ شام سے درگیری کے پیش نظر لوگوں سے بیعت لینا شروع کی، شام کے علاوہ تمام علاقوں نے امام کی بیعت کی ۔ امام نے اپنے خطوط کے ذریعے معاویہ کو قانع اور اپنا مطیع کرنے کی کوشش کی۔لیکن وہ عمر کی طرف سے منصوب ہونے کے استناد کی بنا پر امام کی اطاعت سے سر پیچی کرتا رہا ۔ <ref>الفتوح، ج ۲، ص ۳۸۰</ref> معاویہ نے امام سے چاہا کہ شام اور مصر اس کے حوالے کرے نیز اسکے بعد بیعت کیلئے امام کسی اور کو مقرر نہ کریں بلکہ وہ خود امام کے سامنے بیعت کرے گا ۔امام نے اس کے جواب میں کہا :<font color=blue>{{حدیث|لم یکن الله لیرانی اتخذ المضلین عضدا}}</font>»<ref>وقعة صفین، ص ۵۲؛ الفتوح، ج ۲، ص ۳۹۲</ref> | ||
معاویہ نے شام میں ایک گفتگو کے دوران کہا: علی مجھ سے کیسے خلافت میں برتر ہے ؟ اگر حجاز کے لوگوں نے اسکی بیعت کی ہے تو شام کے لوگوں نے میری بیعت کی۔ حجاز اور شام برابر ہے۔اس نے یہی کلمات امام کو ایک خط میں لکھے : جب تک حجاز کے لوگ حق کی رعایت کرتے رہے اس وقت تک وہ شام پر حاکم تھے ۔ لیکن اب انہوں نے حق کو چھوڑ دیا ہے اب یہ حق شامیوں کا ہے ۔ <ref>الفتوح، ج ۲، ص ۴۳۰-۴۲۹</ref> امام نے جواب میں لکھا :تیری یہ بات:اہل شام اہل حجاز پر حاکم ہیں ،قرشیوں میں سے کوئی ایسا شخص بتاؤ جسے شورا میں قبول کیا جائے یا اسکے لیے خلافت روا ہو۔ اگر تم ایسا ادعا کرو گے تو مہاجر و انصار تمہیں جھٹلائیں گے ...میری بیعت سب نے کی کسی کی اس میں مخالفت موجود نہیں ہے اور تجدید بیعت کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی ہے ۔ <ref>وقعۃ صفین، ص ۵۸؛ الفتوح، ج ۲، ص ۴۳۲</ref> | معاویہ نے شام میں ایک گفتگو کے دوران کہا: علی مجھ سے کیسے خلافت میں برتر ہے ؟ اگر [[حجاز]] کے لوگوں نے اسکی [[بیعت]] کی ہے تو شام کے لوگوں نے میری بیعت کی۔ حجاز اور شام برابر ہے۔اس نے یہی کلمات امام کو ایک خط میں لکھے : جب تک حجاز کے لوگ حق کی رعایت کرتے رہے اس وقت تک وہ شام پر حاکم تھے ۔ لیکن اب انہوں نے حق کو چھوڑ دیا ہے اب یہ حق شامیوں کا ہے ۔ <ref>الفتوح، ج ۲، ص ۴۳۰-۴۲۹</ref> امام نے جواب میں لکھا :تیری یہ بات:اہل شام اہل حجاز پر حاکم ہیں ،قرشیوں میں سے کوئی ایسا شخص بتاؤ جسے [[شورا]] میں قبول کیا جائے یا اسکے لیے خلافت روا ہو۔ اگر تم ایسا ادعا کرو گے تو [[مہاجر]] و [[انصار]] تمہیں جھٹلائیں گے ...میری بیعت سب نے کی کسی کی اس میں مخالفت موجود نہیں ہے اور تجدید بیعت کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی ہے ۔ <ref>وقعۃ صفین، ص ۵۸؛ الفتوح، ج ۲، ص ۴۳۲</ref> | ||
===جنگ صفین=== | ===جنگ صفین=== | ||
{{اصلی|جنگ صفین}} | {{اصلی|جنگ صفین}} | ||
پس جب خط و کتابت اور معاویہ کو ہٹانے کی کوششیں ناکام ہو گئیں <ref>وقعۃ صفین، ص ۱۱۰-۱۱۱؛ الفتوح، ج ۲، ص ۴۷۷-۴۸۰</ref> تو امام نے اس سے جہاد کا قطعی فیصلہ کیا ۔ امام نے [[مہاجر]] و [[انصار]] میں سے اپنے بزرگ [[صحابہ|صحابیوں]] کو اپنے پاس بلایا ۔ خطبہ پڑھا اور اسکے بعد انہیں جہاد کی دعوت دی ۔بالآخر سال ۳۷ ہجری کے صفر کے مہینے میں صفین نامی جگہ پر جنگ ہوئی ۔ شکست جب معاویہ کی فوج کے روبرو تھی تو انہوں نے قرآن نیزوں پر بلند کیے۔ یہ صورتحال دیکھ کر امام علی کے بعض سپاہیوں نے جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا ۔ نتیجے میں حَکَمیت کیلئے دونوں طائفوں کے درمیان حَکَم مقرر ہوئے اور جنگ کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئی ۔ <ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص ۱۸۸ </ref> | پس جب خط و کتابت اور معاویہ کو ہٹانے کی کوششیں ناکام ہو گئیں <ref>وقعۃ صفین، ص ۱۱۰-۱۱۱؛ الفتوح، ج ۲، ص ۴۷۷-۴۸۰</ref> تو امام نے اس سے جہاد کا قطعی فیصلہ کیا ۔ امام نے [[مہاجر]] و [[انصار]] میں سے اپنے بزرگ [[صحابہ|صحابیوں]] کو اپنے پاس بلایا ۔ خطبہ پڑھا اور اسکے بعد انہیں [[جہاد]] کی دعوت دی ۔بالآخر سال ۳۷ ہجری کے صفر کے مہینے میں [[صفین]] نامی جگہ پر جنگ ہوئی ۔ شکست جب معاویہ کی فوج کے روبرو تھی تو انہوں نے [[قرآن]] نیزوں پر بلند کیے۔ یہ صورتحال دیکھ کر امام علی کے بعض سپاہیوں نے جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا ۔ نتیجے میں حَکَمیت کیلئے دونوں طائفوں کے درمیان حَکَم مقرر ہوئے اور جنگ کسی نتیجے کے بغیر ختم ہو گئی ۔ <ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج ۲، ص ۱۸۸ </ref> | ||
===جنگ صفین کے بعد=== | ===جنگ صفین کے بعد=== | ||
امام نے [[جنگ نہروان|نہروان]] کے بعد دوبارہ کوشش کی کہ عراقیوں کو شام سے جنگ کیلئے تیار کریں ۔اس کام کیلئے تیار ہونے والے افراد کی تعداد کم تھی ۔ امام نے لوگوں کی | امام نے [[جنگ نہروان|نہروان]] کے بعد دوبارہ کوشش کی کہ عراقیوں کو شام سے جنگ کیلئے تیار کریں ۔اس کام کیلئے تیار ہونے والے افراد کی تعداد کم تھی ۔ امام نے لوگوں کی سستی میں خطبے دیے اور کہا: ۔<ref>نمونے کے طور پر دیکھیں: نهج البلاغه، خطبہ ۳۹، ۱۳۱، ۱۸۰ </ref> میں ایسے لوگوں میں گرفتار ہوا ہوں کہ جب حکم دیتا ہوں وہ عمل نہیں کرتے جب بلاتا ہوں تو جواب نہیں دیتے ہیں ۔ <ref>نہج البلاغہ، خطبہ ۳۹</ref> معاویہ عراقیوں کی اس سستی سے آگاہ تھا ۔لہذا اس نے ان حالات میں امام علی کی حکومت کی تضعیف اور عراق میں اپنا راستہ ہموار کرنے کے لیے امام کے زیر تسلط علاقوں جزیرۃ العرب اور عراق کے کچھ علاقوں میں شب خون مارنے کا ارادہ کیا ۔ <ref>رسول جعفریان، تاریخ خلفا، ج ۲، ص ۳۲۳</ref> معاویہ کہتا تھا : یہ قتل و غارت اور تاراجی عراقیوں کو خوفزدہ کرتی ہے اور جو امام کے مخالفین میں سے ہیں یا جو امام سے جدائی کا ارادہ رکھتے ہیں انہیں اس کام کی ہمت دیتی ہے۔ جو اس دگرگونی سے بیمناک ہیں انہیں ہمارے پاس لاؤ۔ <ref>الغارات، ص ۱۷۶ (ترجمہ فارسی)</ref> این تہاجمات اور شب خون '''غارات''' کے نام سے معروف ہیں. [[ابراہیم بن محمد ثقفی|ابواسحق ثقفی]] نے [[الغارات (کتاب)|کتاب الغارات]] نے ان غارات کی فہرست میں کتاب تالیف کی ہے ۔ | ||
=== سپاه شام کے ناجائز اقدام=== | === سپاه شام کے ناجائز اقدام=== | ||
[[ابراہیم بن محمد ثقفی|ابواسحق ابراہیم ثقفی]] نے [[الغارات (کتاب)|کتاب الغارات]] میں سپاه معاویہ کے دوسرے علاقوں پر حملوں کو اکٹھا کیا ہے ۔ | [[ابراہیم بن محمد ثقفی|ابواسحق ابراہیم ثقفی]] نے [[الغارات (کتاب)|کتاب الغارات]] میں سپاه معاویہ کے دوسرے علاقوں پر حملوں کو اکٹھا کیا ہے ۔ | ||
====مصر پر حملہ==== | ====مصر پر حملہ==== | ||
[[مصر]] وہ پہلا علاقہ ہے جہاں شام کی فوج نے تجاوز کرتے ہوئے حملہ کیا ۔ مصر کے والی [[قیس بن سعد]] نے جنگ صفین میں امام کی ہمراہی کی ۔جنگ صفین کے بعد محمد بن ابی بکر حاکم مصر تھا ۔امام نے مصر کے حالات کی بنا پر امام نے [[مالک اشتر نخعی|مالک]] کو مصر بھیجا ۔ معاویہ نے اسکی اطلاع پاتے ہوئے مالک بن اشتر کے قتل کا نقشہ تیار کیا اور مالک قلزم نامی جگہ شہید ہو گئے ۔ معاویہ نے مصر کی حکومت کا وعدہ عمرو عاص کو دیا تھا . عمرو ایک عظیم لشکر کے ساتھ مصر روانہ ہوا ۔[[کنانہ بن بشر]] دو ہزار افراد کے ساتھ شہر سے باہر آیا اس نے جنگ کی قتل ہوا فوج نے شکست کھائی | [[مصر]] وہ پہلا علاقہ ہے جہاں شام کی فوج نے تجاوز کرتے ہوئے حملہ کیا ۔ مصر کے والی [[قیس بن سعد]] نے [[جنگ صفین]] میں امام کی ہمراہی کی ۔جنگ صفین کے بعد محمد بن ابی بکر حاکم مصر تھا ۔امام نے مصر کے حالات کی بنا پر امام نے [[مالک اشتر نخعی|مالک]] کو مصر بھیجا ۔ معاویہ نے اسکی اطلاع پاتے ہوئے مالک بن اشتر کے قتل کا نقشہ تیار کیا اور مالک قلزم نامی جگہ [[شہید]] ہو گئے ۔ معاویہ نے مصر کی حکومت کا وعدہ عمرو عاص کو دیا تھا . عمرو ایک عظیم لشکر کے ساتھ مصر روانہ ہوا ۔[[کنانہ بن بشر]] دو ہزار افراد کے ساتھ شہر سے باہر آیا اس نے جنگ کی قتل ہوا فوج نے شکست کھائی ۔[[محمد بن ابی بکر]] کے اطراف سے لوگ پراکندہ ہو گئے ۔ شامی فوج کے ہراول دستے کے سربراہ [[معاویہ بن خدیج]] نے محمد کو ایک خرابہ میں پا کر اس کی گردن اڑا دی اور اسکے پیٹ میں مردار رکھ کر اسے آگ لگا دی <ref>الغارات، ج ۱، ص ۲۷۶-۲۸۹</ref> اس طرح مصر امام کی دسترس سے نکل گیا اور [[عمرو بن عاص|عمرو عاص]] سال ۴۳ تک ان پر حاکم رہا ۔ | ||
====بصرے پر حملہ==== | ====بصرے پر حملہ==== | ||
معاویہ نے عمرو عاص سے مشورے کے ساتھ عبدالله بن عامر حضرمی کو [[بصره]] روانہ کیا تا کہ وہاں کے لوگوں کے درمیان خون عثمان کی خونخواہی کے ذریعے اپنے حامیوں کو اکٹھا کرے اور وہ اس شہر میں تصرف کرے ۔ ابن عامر نے قبیلۂ [[بنی تمیم]] کو اکٹھا کیا ۔ [[ضحاک بن عبدالله ہلالی]] نے امام علی کی حمایت میں اس پر اعتراض کیا لیکن اکثر تمیمیوں نے ابن عامر کی حمایت کی اور اٹھ کھڑے ہوئے .معاویہ نے ابن عامر سے چاہا تھا کہ وہ مضریوں پر اعتماد کرے یہ بات ازدیوں کی رنجش کا سبب بنی ۔ بصرے کے نائب زیاد بن عبید نے [[عبدالله بن عباس]] کو خط لکھا جو اس وقت کوفہ میں تھا اور بصرے کا والی تھا ۔ زیاد نے ازدیوں کی حمایت سے نماز جمعہ کا اقامہ کیا اور لوگوں سے تقاضا کیا کہ وہ بنی تمیم کے مقابلے میں کھڑے ہوں . امام نے [[زیاد بن ضبیعہ تمیمی]] کو بصرے میں بھیجا تا کہ وہ بنی تمیم کو ابن عامر کی حمایت سے روکے . بہت زیادہ کوششوں سے بنی تمیم ابن عامر کی حمایت سے دستبردار ہوئے .ان حالات میں وہ خوارج کے ہاتھوں میں قتل ہو گیا ۔ امام نے [[جاریۃ بن قدامہ]] کی سرکردگی میں بنی تمیم کے پچاس افراد کو بصره بھیجا . اس نے شیعوں کیلئے امام کا خط پڑھا .جنگ ہوئی تو بنی تمیم شکست سے دوچار ہوئے <ref>الغارات، ج ۲، ص ۳۷۳-۴۱۲</ref> | معاویہ نے عمرو عاص سے مشورے کے ساتھ عبدالله بن عامر حضرمی کو [[بصره]] روانہ کیا تا کہ وہاں کے لوگوں کے درمیان خون [[عثمان بن عفان|عثمان]] کی خونخواہی کے ذریعے اپنے حامیوں کو اکٹھا کرے اور وہ اس شہر میں تصرف کرے ۔ ابن عامر نے قبیلۂ [[بنی تمیم]] کو اکٹھا کیا ۔ [[ضحاک بن عبدالله ہلالی]] نے امام علی کی حمایت میں اس پر اعتراض کیا لیکن اکثر تمیمیوں نے ابن عامر کی حمایت کی اور اٹھ کھڑے ہوئے .معاویہ نے ابن عامر سے چاہا تھا کہ وہ مضریوں پر اعتماد کرے یہ بات ازدیوں کی رنجش کا سبب بنی ۔ بصرے کے نائب زیاد بن عبید نے [[عبدالله بن عباس]] کو خط لکھا جو اس وقت کوفہ میں تھا اور بصرے کا والی تھا ۔ زیاد نے ازدیوں کی حمایت سے نماز جمعہ کا اقامہ کیا اور لوگوں سے تقاضا کیا کہ وہ بنی تمیم کے مقابلے میں کھڑے ہوں . امام نے [[زیاد بن ضبیعہ تمیمی]] کو بصرے میں بھیجا تا کہ وہ بنی تمیم کو ابن عامر کی حمایت سے روکے . بہت زیادہ کوششوں سے بنی تمیم ابن عامر کی حمایت سے دستبردار ہوئے .ان حالات میں وہ خوارج کے ہاتھوں میں قتل ہو گیا ۔ امام نے [[جاریۃ بن قدامہ]] کی سرکردگی میں بنی تمیم کے پچاس افراد کو بصره بھیجا . اس نے شیعوں کیلئے امام کا خط پڑھا .جنگ ہوئی تو بنی تمیم شکست سے دوچار ہوئے <ref>الغارات، ج ۲، ص ۳۷۳-۴۱۲</ref> | ||
====عراق پر حملہ==== | ====عراق پر حملہ==== | ||
سطر 107: | سطر 107: | ||
سال ۳۹ کے ایام حج میں معاویہ نے یزید بن شجره رہاوی کو مکہ میں بھیجا تا کہ وہ لوگوں کو معاویہ کی طرف دعوت دے ۔ امام نے اس سپاہ کے مقابلے میں [[معقل بن قیس ریاحی]] کو مکہ بھیجا ۔ سپاه شام کسی درگیری کے بغیر مناسک حج کے بعد شام واپس چلے گئے ۔ معقل نے '''وادی القری''' تک ان کا تعاقب کیا ۔چند تن اسیر ہوئے جنکا بعد میں عراق کے قیدیوں سے تبادلہ کیا گیا ۔ <ref>الغارات، ج ۲، ص ۵۰۴-۵۱۶</ref> | سال ۳۹ کے ایام حج میں معاویہ نے یزید بن شجره رہاوی کو مکہ میں بھیجا تا کہ وہ لوگوں کو معاویہ کی طرف دعوت دے ۔ امام نے اس سپاہ کے مقابلے میں [[معقل بن قیس ریاحی]] کو مکہ بھیجا ۔ سپاه شام کسی درگیری کے بغیر مناسک حج کے بعد شام واپس چلے گئے ۔ معقل نے '''وادی القری''' تک ان کا تعاقب کیا ۔چند تن اسیر ہوئے جنکا بعد میں عراق کے قیدیوں سے تبادلہ کیا گیا ۔ <ref>الغارات، ج ۲، ص ۵۰۴-۵۱۶</ref> | ||
معاویہ کی طرف سے [[بسر بن ارطاة|بُسر بن ارطاة]] کی سربراہی میں حجاز اور یمن پر حملہ سخت ترین غارت گری تھی ۔ معاویہ نے بسر سے چاہا کہ جہاں بھی علی کے شیعوں کو پائے انہیں قتل کر دے ۔ یمن میں عثمان کے حامیوں نے عراق میں اختلافات کو دیکھتے ہوئے یمن کے حاکم [[عبیدالله بن عباس]] کے خلاف بغاوت کر دی اور اسکے لیے انہوں نے معاویہ سے مدد مانگی ۔ بسر پہلے مدینہ گیا جہاں ابوایوب انصاری قوت و قدرت نہ ہونے کی وجہ سے وہاں سے فرار کر گیا ۔بسر نے اسکا گھر جلا دیا اور لوگوں کو معاویہ کی بیعت پر اکسایا اور [[ابوہریره]] کو شہر کا حاکم بنا دیا ۔ پھر وہ مکہ اور [[طائف]] گیا ۔تبالہ میں شیعوں کی ایک جماعت کو قتل کیا۔ مکہ کے لوگوں نے خوف سے فرار اختیار کیا۔ بسر نے عبیدالله بن عباس کی بیوی بچوں کو اسیر کیا اور بیٹوں کے سر اڑا دئے ۔پھر [[نجران]] گیا اور عبید اللہ کے سسر [[عبدالله بن عبدالمدان]] کو قتل کیا ۔کچھ شیعوں نے دفاع کیا اور بہت سے قتل ہوئے ۔ پھر ایک سو ایرانی شیعوں کو قتل کیا ۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد اس نے حضر موت کا رخ کیا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہاں شیعوں کی کثیر تعداد ساکن تھی۔ بسر کے حملوں کی خبر پا کر امام نے جاریۃ بن قدامہ کو سپاہیوں کی معیت میں بسر کے تعاقب میں روانہ کیا ۔وہ جب مکہ پہنچا تو وہ وہاں سے جا چکا تھا . کہا گیا ہے کہ جاریہ کے کوفے واپس پہنچنے سے پہلے امام [[شہید]] ہو چکے تھے اور لوگ [[امام حسن]] کی بیعت کر چکے تھے ۔<ref>رسول جعفریان، تاریخ خلفا، ص ۳۳۲-۳۳۳</ref> | معاویہ کی طرف سے [[بسر بن ارطاة|بُسر بن ارطاة]] کی سربراہی میں حجاز اور یمن پر حملہ سخت ترین غارت گری تھی ۔ معاویہ نے بسر سے چاہا کہ جہاں بھی علی کے شیعوں کو پائے انہیں قتل کر دے ۔ یمن میں [[عثمان بن عفان|عثمان]] کے حامیوں نے عراق میں اختلافات کو دیکھتے ہوئے یمن کے حاکم [[عبیدالله بن عباس]] کے خلاف بغاوت کر دی اور اسکے لیے انہوں نے معاویہ سے مدد مانگی ۔ بسر پہلے مدینہ گیا جہاں ابوایوب انصاری قوت و قدرت نہ ہونے کی وجہ سے وہاں سے فرار کر گیا ۔بسر نے اسکا گھر جلا دیا اور لوگوں کو معاویہ کی بیعت پر اکسایا اور [[ابوہریره]] کو شہر کا حاکم بنا دیا ۔ پھر وہ مکہ اور [[طائف]] گیا ۔تبالہ میں شیعوں کی ایک جماعت کو قتل کیا۔ [[مکہ]] کے لوگوں نے خوف سے فرار اختیار کیا۔ بسر نے [[عبیدالله بن عباس]] کی بیوی بچوں کو اسیر کیا اور بیٹوں کے سر اڑا دئے ۔پھر [[نجران]] گیا اور عبید اللہ کے سسر [[عبدالله بن عبدالمدان]] کو قتل کیا ۔کچھ شیعوں نے دفاع کیا اور بہت سے قتل ہوئے ۔ پھر ایک سو ایرانی شیعوں کو قتل کیا ۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد اس نے حضر موت کا رخ کیا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہاں شیعوں کی کثیر تعداد ساکن تھی۔ بسر کے حملوں کی خبر پا کر امام نے جاریۃ بن قدامہ کو سپاہیوں کی معیت میں بسر کے تعاقب میں روانہ کیا ۔وہ جب مکہ پہنچا تو وہ وہاں سے جا چکا تھا . کہا گیا ہے کہ جاریہ کے کوفے واپس پہنچنے سے پہلے امام [[شہید]] ہو چکے تھے اور لوگ [[امام حسن]] کی بیعت کر چکے تھے ۔<ref>رسول جعفریان، تاریخ خلفا، ص ۳۳۲-۳۳۳</ref> | ||
== اموی خلافت کی تشکیل == | == اموی خلافت کی تشکیل == | ||
{{اصلی|صلح امام حسن}}{{اصلی|خلافت بنی امیہ}} | {{اصلی|صلح امام حسن}}{{اصلی|خلافت بنی امیہ}} | ||
امام علی کی [[شہادت]] کے بعد [[بیت المقدس]] میں شام کے لوگوں نے معاویہ خلیفہ کی حیثیت سے [[بیعت]] کی اور اسے خلیفۃ المسلمین کے لقب سے یاد کرنے لگے۔ <ref>ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، ج ۱، ص ۱۶۳؛ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج ۵، ص ۱۶۱</ref> معاویہ پھر عراق کی طرف متوجہ ہوا۔[[امام حسن]] عبد اللہ بن عباس سمیت 12000 افراد کے لشکر کے ہمراہ مدائن کی طرف روانہ ہوئے ۔ جب لشکر ساباط پہنچا تو انہوں نے اپنے اصحاب کے متعلق خاص طو پر معاویہ کی جانب سے انہیں رشوت دینے اور عبید اللہ بن عباس کی دلجوئی کی کوشش کی وجہ سے تردید کا شکار ہوئے .پس امام حسن نے جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا ۔معاویہ اور امام کے درمیان صلح کی بات چلی ،[[امام حسن]] نے حکومت معاویہ کے حوالے کر دی ۔امام نے صلح میں شرط لگائی کہ معاویہ کے بعد حکومت انہیں واپس ملے گی ۔ معاویہ صلح کے بعد کوفے میں آیا اور امام حسین و حسن نے اسکی بیعت کی ۔لوگوں کے اس اکٹھ کی وجہ سے اس سال کا نام {{حدیث|'''عام الجماعة'''}} رکھا گیا کیونکہ امت میں سے خوارج کے علاوہ سب نے ایک شخص کی بیعت کی تھی ۔<ref>یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج ۲، ص ۱۲۳؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج ۸، ص ۱۶؛ مقائسہ کریں: تاریخ خلیفہ بن خیاط، ج ۱، ص ۱۸۷؛ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج ۵، ص ۱۶۳؛ ابوالفداء، اسماعیل بن علی عمادالدین صاحب حماة، المختصر فی اخبار البشر، ج۱، ص ۱۸۴</ref> | امام علی کی [[شہادت]] کے بعد [[بیت المقدس]] میں شام کے لوگوں نے معاویہ خلیفہ کی حیثیت سے [[بیعت]] کی اور اسے خلیفۃ المسلمین کے لقب سے یاد کرنے لگے۔ <ref>ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، ج ۱، ص ۱۶۳؛ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج ۵، ص ۱۶۱</ref> معاویہ پھر عراق کی طرف متوجہ ہوا۔[[امام حسن]] عبد اللہ بن عباس سمیت 12000 افراد کے لشکر کے ہمراہ مدائن کی طرف روانہ ہوئے ۔ جب لشکر ساباط پہنچا تو انہوں نے اپنے اصحاب کے متعلق خاص طو پر معاویہ کی جانب سے انہیں رشوت دینے اور عبید اللہ بن عباس کی دلجوئی کی کوشش کی وجہ سے تردید کا شکار ہوئے .پس [[امام حسن]] نے جنگ سے ہاتھ کھینچ لیا ۔معاویہ اور امام کے درمیان صلح کی بات چلی ،[[امام حسن]] نے حکومت معاویہ کے حوالے کر دی ۔امام نے صلح میں شرط لگائی کہ معاویہ کے بعد حکومت انہیں واپس ملے گی ۔ معاویہ صلح کے بعد کوفے میں آیا اور امام حسین و حسن نے اسکی بیعت کی ۔لوگوں کے اس اکٹھ کی وجہ سے اس سال کا نام {{حدیث|'''عام الجماعة'''}} رکھا گیا کیونکہ امت میں سے [[خوارج]] کے علاوہ سب نے ایک شخص کی بیعت کی تھی ۔<ref>یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج ۲، ص ۱۲۳؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ج ۸، ص ۱۶؛ مقائسہ کریں: تاریخ خلیفہ بن خیاط، ج ۱، ص ۱۸۷؛ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج ۵، ص ۱۶۳؛ ابوالفداء، اسماعیل بن علی عمادالدین صاحب حماة، المختصر فی اخبار البشر، ج۱، ص ۱۸۴</ref> | ||
جاحظ اس سال معاویہ کے بادشاہ بننے ،اعضائے شورا اور مہاجرین و انصار کی نسبت اسکے استبدادیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے : معاویہ نے اگرچہ اس سال کا نام عام الجماعۃ رکھا حالانکہ یہ سال '''عام فرقہ و قہر و جبر و غلبہ''' کا سال تھا ۔یہ وہ سال تھا کہ جس میں امامت ملوکیت میں ،نظام نبوی نظام کسرائی میں تبدیل ہوا اور خلافت مغصوب اور قیصری ہوئی ۔ <ref>جاحظ، رسالہ الجاحظ فی بنی امیہ، ص ۱۲۴، رسالہ النزاع و التخاصم کے ہمراہ چاپ ہوا</ref> | جاحظ اس سال معاویہ کے بادشاہ بننے ،اعضائے شورا اور [[مہاجرین]] و [[انصار]] کی نسبت اسکے استبدادیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے : معاویہ نے اگرچہ اس سال کا نام عام الجماعۃ رکھا حالانکہ یہ سال '''عام فرقہ و قہر و جبر و غلبہ''' کا سال تھا ۔یہ وہ سال تھا کہ جس میں امامت ملوکیت میں ،نظام نبوی نظام کسرائی میں تبدیل ہوا اور خلافت مغصوب اور قیصری ہوئی ۔ <ref>جاحظ، رسالہ الجاحظ فی بنی امیہ، ص ۱۲۴، رسالہ النزاع و التخاصم کے ہمراہ چاپ ہوا</ref> | ||
حکومت معاویہ اگرچہ پہلا حاکمیت کا تجربہ تھا کہ جس میں دینی و سیاسی ، قبیلائی اور علاقائی اختلافات میں زور گوئی کے ذریعے اور سیاسی حیلوں کے توسط سے قدرت حاصل کی گئی تھی۔<ref>محمدسہیل طقوش، دولت امویان،با اضافات رسول جعفریان، ترجمہ حجت الله جودکی، ص ۱۹</ref> معاویہ تصریح کرتا ہے کہ اس نے یہ خلافت کو لوگوں کی محبت ، دوستی اور انکی رضایت سے نہیں بلکہ تلوار کے زور سے حاصل کی ہے .<ref>ابن عبدربہ، العقد الفرید، ج ۴، ص ۸۱</ref> | حکومت معاویہ اگرچہ پہلا حاکمیت کا تجربہ تھا کہ جس میں دینی و سیاسی ، قبیلائی اور علاقائی اختلافات میں زور گوئی کے ذریعے اور سیاسی حیلوں کے توسط سے قدرت حاصل کی گئی تھی۔<ref>محمدسہیل طقوش، دولت امویان،با اضافات رسول جعفریان، ترجمہ حجت الله جودکی، ص ۱۹</ref> معاویہ تصریح کرتا ہے کہ اس نے یہ خلافت کو لوگوں کی محبت ، دوستی اور انکی رضایت سے نہیں بلکہ تلوار کے زور سے حاصل کی ہے .<ref>ابن عبدربہ، العقد الفرید، ج ۴، ص ۸۱</ref> | ||
سطر 120: | سطر 120: | ||
===خلافت سے پہلے کی کوششیں=== | ===خلافت سے پہلے کی کوششیں=== | ||
معاویہ نے اگرچہ ظاہری طور پر اعلان کیا تھا کہ اسکی علی سے مخالفت خلافت کیلئے نہیں ہے۔اس نے جنگ جمل سے پہلے زبیر کو لکھا: اس شام کے لوگوں سے بیعت لے لی ہے اگر عراق انکا ساتھ دے تو شام سے کوئی مشکل نہیں ہے ۔ زبیر اس خط سے خوش ہوا ۔ <ref>رک: امین، احمد، اعیان الشیعہ، ج ۳، جزء دوم، ص ۱۲</ref> معاویہ نے لوگوں کے درمیان خلیفے کے انتخاب کے درمیان مسلمانوں کے درمیان شورا کا نظریہ پیش کیا ۔ معاویہ اس در پے تھا کہ [[قریش]] کی سیاسی شخصیات خاص طور پر شورا کے موجود افراد کو اپنی طرف جذب کرے اور اس سے سیاسی مقاصد حاصل کرے ۔ معاویہ نے یہ مسئلہ ایک خط میں [[امام علی]] کے سامنے بھی پیش کیا ۔<ref>ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج ۱، ص ۱۲۱</ref> | معاویہ نے اگرچہ ظاہری طور پر اعلان کیا تھا کہ اسکی علی سے مخالفت خلافت کیلئے نہیں ہے۔اس نے [[جنگ جمل]] سے پہلے زبیر بن عوام]] کو لکھا: اس نے شام کے لوگوں سے بیعت لے لی ہے اگر عراق انکا ساتھ دے تو شام کی طرف سے کوئی مشکل نہیں ہے ۔ زبیر اس خط سے خوش ہوا ۔ <ref>رک: امین، احمد، اعیان الشیعہ، ج ۳، جزء دوم، ص ۱۲</ref> معاویہ نے لوگوں کے درمیان خلیفے کے انتخاب کے درمیان مسلمانوں کے درمیان شورا کا نظریہ پیش کیا ۔ معاویہ اس در پے تھا کہ [[قریش]] کی سیاسی شخصیات خاص طور پر شورا کے موجود افراد کو اپنی طرف جذب کرے اور اس سے سیاسی مقاصد حاصل کرے ۔ معاویہ نے یہ مسئلہ ایک خط میں [[امام علی]] کے سامنے بھی پیش کیا ۔<ref>ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج ۱، ص ۱۲۱</ref> | ||
دیگر تاریخی کے مطابق اس نے امیر المومنین کے نام سے نہیں بلکہ امیر کے نام سے بیعت کی لیکن [[امام علی]] کی [[شہادت]] کے بعد خلافت کا ادعا کیا اور لوگوں نے امیر المومنین کے نام سے اسکی بیعت کی ۔ <ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج ۵، ص ۱۶۱؛ ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق، ج ۲۵، ص ۲۷</ref> معاویہ حمص کے حاکم کو خط لکھا اور کہا لوگ جس نام سے اسکی بیعت کریں اسی نام سے لوگ بیعت کریں۔ حمص کے اشراف معاویہ کی امیر کے عنوان سے بیعت پر راضی نہیں ہوئے کہ خلیفہ کے بغیر عثمان کی خوانخواہی کیلئے نکلیں گے ۔ پس اس لحاظ سے حمص کے وہ پہلے لوگ ہیں جنہوں نے معاویہ کی خلیفہ کے عنوان سے بیعت کی ۔ اس کے بعد شام کے لوگوں نے بھی خلیفہ کے عنوان سے اسکی بیعت کی ۔<ref>ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج ۱، ص ۱۰۰</ref> | دیگر تاریخی کے مطابق اس نے امیر المومنین کے نام سے نہیں بلکہ امیر کے نام سے بیعت کی لیکن [[امام علی]] کی [[شہادت]] کے بعد خلافت کا ادعا کیا اور لوگوں نے امیر المومنین کے نام سے اسکی بیعت کی ۔ <ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج ۵، ص ۱۶۱؛ ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق، ج ۲۵، ص ۲۷</ref> معاویہ حمص کے حاکم کو خط لکھا اور کہا لوگ جس نام سے اسکی بیعت کریں اسی نام سے لوگ بیعت کریں۔ حمص کے اشراف معاویہ کی امیر کے عنوان سے بیعت پر راضی نہیں ہوئے کہ خلیفہ کے بغیر [[عثمان بن عفان|عثمان]] کی خوانخواہی کیلئے نکلیں گے ۔ پس اس لحاظ سے حمص کے وہ پہلے لوگ ہیں جنہوں نے معاویہ کی خلیفہ کے عنوان سے بیعت کی ۔ اس کے بعد شام کے لوگوں نے بھی خلیفہ کے عنوان سے اسکی بیعت کی ۔<ref>ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج ۱، ص ۱۰۰</ref> | ||
معاویہ کے طلقا میں سے ہونے کی وجہ سے خلافت کا مسئلہ اس کیلئے دشواری پیدا کرتا تھا ۔ معاویہ نے شام میں اپنے آپ کو «خال المؤمنین» اور «کاتب وحی» کے عنوانوں سے پہچنوایا تھا اور اس جہت سے اس مشکل کو حل کرنے کی کوشش کی تھی ۔<ref>محمد سہیل طقوش، دولت امویان، ص ۲۲ -از افزودهہای رسول جعفریان- </ref> | معاویہ کے طلقا میں سے ہونے کی وجہ سے خلافت کا مسئلہ اس کیلئے دشواری پیدا کرتا تھا ۔ معاویہ نے شام میں اپنے آپ کو «خال المؤمنین» اور «کاتب وحی» کے عنوانوں سے پہچنوایا تھا اور اس جہت سے اس مشکل کو حل کرنے کی کوشش کی تھی ۔<ref>محمد سہیل طقوش، دولت امویان، ص ۲۲ -از افزودهہای رسول جعفریان- </ref> | ||
== معاویہ کی سیاسی روش== | == معاویہ کی سیاسی روش== | ||
معاویہ کی امام حسن (ع) کے ساتھ صلح کے ساتھ اس کی خلافت کا پہلا دور اختتام ہوا اور اموی دور حکومت کا آغاز ہوا۔ معاویہ کی حکومت کا پایہ تخت دمشق تھا ۔اس نے اپنے اہداف کے تحت اپنی حکومت کی بنیادیں فراہم کیں ۔ اسکی اہم کوششیں عبارت ہیں :نظام سیاسی میں تبدیلی ،فوج کے کردار کو اساسی محور قرار دینا،قبائل کا موازنہ اور چلانا،ولیعہدی کا ایجاد،مخالفین کی سرکوبی ،خوش روئی کا مظاہرہ کرنا اور بزرگ شخصیات اسلامی کو بخشش و ہدایا جات دینا ،جابر اور قدرتمند والیوں کے ذریعے امنیت ایجاد کرنا، حکومتی کاموں کو مستقیم ادارہ کرنا اور توسع طلبانہ سیاستیں۔ <ref>محمدسہیل طقوش، دولت امویان، ترجمہ حجت اللہ جودکی، ص ۱۸</ref> | معاویہ کی [[امام حسن(ع)]] کے ساتھ صلح کے ساتھ اس کی خلافت کا پہلا دور اختتام ہوا اور اموی دور حکومت کا آغاز ہوا۔ معاویہ کی حکومت کا پایہ تخت دمشق تھا ۔اس نے اپنے اہداف کے تحت اپنی حکومت کی بنیادیں فراہم کیں ۔ اسکی اہم کوششیں عبارت ہیں :نظام سیاسی میں تبدیلی ،فوج کے کردار کو اساسی محور قرار دینا،قبائل کا موازنہ اور چلانا،ولیعہدی کا ایجاد،مخالفین کی سرکوبی ،خوش روئی کا مظاہرہ کرنا اور بزرگ شخصیات اسلامی کو بخشش و ہدایا جات دینا ،جابر اور قدرتمند والیوں کے ذریعے امنیت ایجاد کرنا، حکومتی کاموں کو مستقیم ادارہ کرنا اور توسع طلبانہ سیاستیں۔ <ref>محمدسہیل طقوش، دولت امویان، ترجمہ حجت اللہ جودکی، ص ۱۸</ref> | ||
=== خلافت کے استحکام کیلئے دینی اصولوں کا استعمال === | === خلافت کے استحکام کیلئے دینی اصولوں کا استعمال === | ||
معاویہ نے اپنی خلافت کے استحکام کیلئے بعض دینی اصول بھی بروئے کار لاتا تھا ۔قدرت | معاویہ نے اپنی خلافت کے استحکام کیلئے بعض دینی اصول بھی بروئے کار لاتا تھا ۔قدرت حاصل کرنے کیلئے اپنے آپکو خدا کی طرف سے (نمائندہ) سمجھتا تھا ۔کیونکہ تمام کام اسی کی طرف سے ہیں ۔<ref>کاندہلوی، حیاة الصحابہ، ج ۳، ص ۶۳</ref> ایک زمانے میں معاویہ نے کہا: یہ خلافت خداوند کا امر اور اس کی قضاؤں میں سے قضائے الہی ہے ۔ <ref>ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق، ج ۹، ص ۸۵:{{حدیث|هذه الخلافة امر من امرالله و قضاء من قضاء الله}}</ref>معاویہ نے یزید کی ولایتعہدی کے متعلق عائشہ کی مخالفت کے وقت کہا:یہ قضائے الہی ہے اور قضائے [[توحید|الہی]] میں کسی کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے ۔ <ref>ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص ۲۰۵</ref> بعض گزارشوں کے مطابق اسی نے عائشہ کو قتل کروایا۔ <ref>الصراط المستقیم، ج ۳، ص ۴۸ </ref>بصرے اور کوفہے میں معاویہ کے حاکم زیاد بن ابیہ، نے اپنے معروف خطبے کے ضمن میں کہا :اے لوگوں !ہم سیاست کرنے والے ہیں اور آپ کے مدافع ہیں اور ہم تمہیں اس حکومت کی طرف سیاست کرتے ہیں جو خدا نے ہمیں دی ہے۔<ref>ابن اعثم کوفی، الفتوح، ج ۴، ص ۱۸۰؛ جاحظ، ابوعثمان عمرو، البیان و التبیین، ج ۲، ص ۴۹؛ طبری، تاریخ الرسل و الملوک، ج ۵، ص ۲۲۰</ref> یزید نے بھی اپنے پہلے خطبے میں کہا تھا : اسکا باپ بندگان خدا میں تھا ،خدا نے اس پر اکرام کیا اور است خلافت بخشی ....اور اب خدا نے وہ خلافت مجھے عطا کی ہے ۔<ref>ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، چ۱، ص ۲۲۵؛ دینوری، ابو حنیفہ، الاخبار الطوال، ص ۲۲۶؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۴، ص ۲۹۹، ش ۷۹۸</ref> معاویہ کے سامنے عثمان کے بیٹے نے یزید کی ولایتعہدی پر اعتراض کیا اور کہا تو میرے باپ کی وجہ سے تخت نشین ہوئے ہو تو اس نے جواب میں کہا : یہ وہ ملک ہے جسے خدا نے ہمارے اختیار میں دیا ہے ۔<ref>ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج ۱، ص ۲۱۴</ref> | ||
معاویہ اپنے بارے میں لفظ مُلک کے استعمال سے خوش ہوتا۔معاویہ کہتا تھا : {{حدیث|انا اول الملوک}}.<ref>یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج ۲، ص ۲۳۲؛ ابن ابی شیبہ، المصنف، ج ۱۱، ص ۱۴۷ (طبع ہند)</ref> وہ شاہی نظام کو صرف ایک سیاسی نظام سمجھتا اور توضیح دیتا تھا : لوگوں کی دینداری کے ساتھ اس کا کوئی کام نہیں ہے ۔ اس سے منقول ہے | معاویہ اپنے بارے میں لفظ مُلک کے استعمال سے خوش ہوتا۔معاویہ کہتا تھا : {{حدیث|انا اول الملوک}}.<ref>یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج ۲، ص ۲۳۲؛ ابن ابی شیبہ، المصنف، ج ۱۱، ص ۱۴۷ (طبع ہند)</ref> وہ شاہی نظام کو صرف ایک سیاسی نظام سمجھتا اور توضیح دیتا تھا : لوگوں کی دینداری کے ساتھ اس کا کوئی کام نہیں ہے ۔ اس سے منقول ہے : خدا کی قسم !میری جنگ اقامۂ نماز،زکات دینے اور حج کرنے کیلئے نہ تھی یہ کام تو تم انجام دیتے تھے ۔ میں نے تم پر امارت کیلئے جنگ کی اور [[خدا]] نے مجھے وہ دی حالانکہ تم اس پر ناخوش ہو۔ <ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۱۶، ص ۴۶؛ ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق، ج ۲۵، ص ۴۳ و ۴۵</ref> | ||
===جعل حدیث=== | ===جعل حدیث=== | ||
معاویہ نے جعل حدیث میں دو روشیں بروئے کار لائیں ۔ پہلی روش میں اپنی مدح میں احادیث جعل | معاویہ نے جعل [[حدیث]] میں دو روشیں بروئے کار لائیں ۔ پہلی روش میں اپنی مدح میں احادیث جعل کروانا <ref>شوکانی، الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ، ص ۴۰۳-۴۰۷</ref> اور دیگر رقبائے اہل بیت کی مدح میں روایات جعل کرنادوسری روش میں اہل بیت کی مذمت میں احادیث جعل کروانا ۔<ref>ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج ۴، ص ۶۳ باب</ref> معاویہ کی مدح میں اس قدر احادیث جعل ہوئیں کہ [[احمد بن تیمیہ|ابن تیمیہ]] بھی اس کا اقرار کرتا ہے ۔ وہ حدیث طیر کے رد میں لکھتا ہے :معاویہ کے فضائل میں بہت زیادہ احادیث جعل کی گئیں اور مستقل کتابیں اس لکھی گئیں۔ حدیث کے اہل دانش نہ انہیں درست سمجھتے ہیں اور نہ اسے صحیح سمجھتے ہیں ۔ <ref>ابن تیمیہ منہاج السنہ النبویہ، ج۷، ص۳۷۱</ref> | ||
=== حکومتی سسٹم=== | === حکومتی سسٹم=== |