گمنام صارف
"معاویۃ بن ابی سفیان" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←بصرے پر حملہ
imported>Mabbassi م (←بصرے پر حملہ) |
imported>Mabbassi م (←بصرے پر حملہ) |
||
سطر 47: | سطر 47: | ||
معاویہ نے عمرو عاص سے مشورے کے ساتھ عبدالله بن عامر حضرمی کو [[بصره]] روانہ کیا تا کہ وہاں کے لوگوں کے درمیان خون عثمان کی خونخواہی کے ذریعے اپنے حامیوں کو اکٹھا کرے اور وہ اس شہر میں تصرف کریں ۔ ابن عامر نے قبیلۂ [[بنی تمیم]] کو اکٹھا کیا ۔ [[ضحاک بن عبدالله ہلالی]] نے امام علی کی حمایت میں اس پر اعتراض کیا لیکن اکثر تمیمیوں نے ابن عامر کی حمایت کی اور اٹھ کھڑے ہوئے .معاویہ نے ابن عامر سے چاہا تھا کہ وہ مضریوں پر اعتماد کرے یہ بات ازدیوں کی رنجش کا سبب بنی ۔ بصرے کے نائب زیاد بن عبید نے [[عبدالله بن عباس]] کو خط لکھا جو اس وقت کوفہ میں تھا اور بصرے کا والی تھا ۔ زیاد ازدیوں کی حمایت نماز جمعہ کا اقامہ کیا اور لوگوں سے تقاضا کیا کہ وہ بنی تمیم کے مقالے میں کھڑے ہوں . امام نے [[زیاد بن ضبیعہ تمیمی]] کو بصرے میں بھیجا تا کہ وہ بنی تمیم کو ابن عامر کی حمایت سے روکے . بہت زیادہ کوششوں سے بنی تمیم ابن عامر کی حمایت سے دستبردار ہوئے .ان حالات میں وہ خوارج کے ہاتھوں میں قتل ہو گیا ۔ امام نے [[جاریۃ بن قدامہ]] کی سرکردگی میں بنی تمیم کے پچاس افراد کو بصره بھیجا . اس نے شیعوں کیلئے امام کا خط پڑھا .جنگ ہوئی تو بنی تمیم شکست سے دوچار ہوئے <ref>الغارات، ج ۲، ص ۳۷۳-۴۱۲</ref> | معاویہ نے عمرو عاص سے مشورے کے ساتھ عبدالله بن عامر حضرمی کو [[بصره]] روانہ کیا تا کہ وہاں کے لوگوں کے درمیان خون عثمان کی خونخواہی کے ذریعے اپنے حامیوں کو اکٹھا کرے اور وہ اس شہر میں تصرف کریں ۔ ابن عامر نے قبیلۂ [[بنی تمیم]] کو اکٹھا کیا ۔ [[ضحاک بن عبدالله ہلالی]] نے امام علی کی حمایت میں اس پر اعتراض کیا لیکن اکثر تمیمیوں نے ابن عامر کی حمایت کی اور اٹھ کھڑے ہوئے .معاویہ نے ابن عامر سے چاہا تھا کہ وہ مضریوں پر اعتماد کرے یہ بات ازدیوں کی رنجش کا سبب بنی ۔ بصرے کے نائب زیاد بن عبید نے [[عبدالله بن عباس]] کو خط لکھا جو اس وقت کوفہ میں تھا اور بصرے کا والی تھا ۔ زیاد ازدیوں کی حمایت نماز جمعہ کا اقامہ کیا اور لوگوں سے تقاضا کیا کہ وہ بنی تمیم کے مقالے میں کھڑے ہوں . امام نے [[زیاد بن ضبیعہ تمیمی]] کو بصرے میں بھیجا تا کہ وہ بنی تمیم کو ابن عامر کی حمایت سے روکے . بہت زیادہ کوششوں سے بنی تمیم ابن عامر کی حمایت سے دستبردار ہوئے .ان حالات میں وہ خوارج کے ہاتھوں میں قتل ہو گیا ۔ امام نے [[جاریۃ بن قدامہ]] کی سرکردگی میں بنی تمیم کے پچاس افراد کو بصره بھیجا . اس نے شیعوں کیلئے امام کا خط پڑھا .جنگ ہوئی تو بنی تمیم شکست سے دوچار ہوئے <ref>الغارات، ج ۲، ص ۳۷۳-۴۱۲</ref> | ||
==== | ====عراق پر حملہ==== | ||
معاویہ نے [[ضحاک بن قیس]] کو عراق بھیجا اور کہا کہ جہاں جاؤ وہاں قتل و غارت اور تباہ و برباد کر دو ،علی کے دوستوں کو قتل کرتے اور جلدی سے اس جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلے جاؤ. ضحاک کوفے آیا لوگوں کے اموال برباد کیے اور حجاج کے کاروان حملہ آور ہوا ۔ امام نے [[حجر بن عدی]] کو 4000 افراد دے کر ضحاک کے پیچھے روانہ کیا . حجر نے اسے ''' تدمر''' میں جا لیا جنگ ہوئی شامیوں کے ۱۹ افراد مارے گئے حجر کے ساتھیوں میں سے 2 مشہید ہوئے ۔ ضحاک رات کی تاریکی میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا ۔ | |||
<!-- | <!-- | ||
[[نعمان بن بشیر]] به عین التمر در حوالی فرات از دیگر تجاوزات معاویہ بود. این حمله با اندکی درگیری و گریختن نعمان به پایان رسید. پس از این حملات [[عدی بن حاتم]] با دو هزار نفر به اراضی پایین شام حملههایی کردند.<ref>الغارات، ج ۲، ص ۴۴۵-۴۵۹</ref>{{سخ}} | |||
معاویہ نیز سپاهی را به سوی دومة الجندل فرستاد تا از آنان زکات بگیرد. امام نیز سپاهی همراه [[مالک بن کعب]] فرستاد. دو سپاه یک روز جنگیدند و سپاه شام بازگشت.<ref>الغارات، ج ۲، ص ۴۵۹-۴۶۱</ref>{{سخ}} | معاویہ نیز سپاهی را به سوی دومة الجندل فرستاد تا از آنان زکات بگیرد. امام نیز سپاهی همراه [[مالک بن کعب]] فرستاد. دو سپاه یک روز جنگیدند و سپاه شام بازگشت.<ref>الغارات، ج ۲، ص ۴۵۹-۴۶۱</ref>{{سخ}} | ||
از دیگر حملات، حمله سفیان بن عوف غامدی با شش هزار نفر به سوی هیت بود. از آنجا به سمت شهر انبار رفتند. یاران امام در شهر اندک بودند. متجاوزین شهر انبار را غارت کردند. امام [[سعید بن قیس همدانی]] را با هشت هزار نفر به تعقیب آنان فرستاد، اما آنان وارد شام شده بودند.<ref>الغارات، ص ۴۶۳-۵۰۳</ref> | از دیگر حملات، حمله سفیان بن عوف غامدی با شش هزار نفر به سوی هیت بود. از آنجا به سمت شهر انبار رفتند. یاران امام در شهر اندک بودند. متجاوزین شهر انبار را غارت کردند. امام [[سعید بن قیس همدانی]] را با هشت هزار نفر به تعقیب آنان فرستاد، اما آنان وارد شام شده بودند.<ref>الغارات، ص ۴۶۳-۵۰۳</ref> |