مندرجات کا رخ کریں

"محمد بن حنفیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
سطر 96: سطر 96:
آپ نے [[مدینہ]] میں وسیع پیمانے پر درس اور تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اسی مکتب سے بہت سارے نظریات مطرح ہوئے یہاں تک کہ مدینے میں آپ کے درس تدریس کو [[بصرہ]] میں [[حسن بصری]] کے علمی مجمع سے مقایسہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ جس طرح وہ مجمع [[معتزلہ]] کے عقاید کا سرچشمہ اور [[تصوف|صوفیوں]] اور زاہدوں کے مسلک کے نام سے معرفی ہوا، اس حلقے کے شاگردوں کو بھی کلامی نظریات کے بانی سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس حلقے سے ابن حنفیہ کے دو بیٹے عبد اللہ جو ابو القاسم سے ملقب تھا اور حسن جو ابو محمد سے ملقب تھا، نکلے اور ابوہاشم، معتزلی نظریات کا واسطہ بنا اور ابومحمد [[مرجئہ]] کا بانی بنا۔<ref>صابری، ج۲، ص۵۴.</ref>
آپ نے [[مدینہ]] میں وسیع پیمانے پر درس اور تدریس کا سلسلہ شروع کیا اور اسی مکتب سے بہت سارے نظریات مطرح ہوئے یہاں تک کہ مدینے میں آپ کے درس تدریس کو [[بصرہ]] میں [[حسن بصری]] کے علمی مجمع سے مقایسہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ جس طرح وہ مجمع [[معتزلہ]] کے عقاید کا سرچشمہ اور [[تصوف|صوفیوں]] اور زاہدوں کے مسلک کے نام سے معرفی ہوا، اس حلقے کے شاگردوں کو بھی کلامی نظریات کے بانی سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اس حلقے سے ابن حنفیہ کے دو بیٹے عبد اللہ جو ابو القاسم سے ملقب تھا اور حسن جو ابو محمد سے ملقب تھا، نکلے اور ابوہاشم، معتزلی نظریات کا واسطہ بنا اور ابومحمد [[مرجئہ]] کا بانی بنا۔<ref>صابری، ج۲، ص۵۴.</ref>


==جنگ جمل میں سپہ سالاری==<!--
==جنگ جمل میں سپہ سالاری==
[[36 ہجری قمری]] کو [[جنگ جمل]] واقع ہو‎ئی۔ اس دن محمد حملہ کرنے سے رک گئے اور پرچم خود امام علی علیہ السلام نے سنبھالا اور جمل والوں کی فوج کو پسپا کرنے کے بعد پھر پرچم محمد کے حوالے کیا اور ان سے کہا: «دوبارہ حملہ کر کے اپنی گزشتہ کوتاہی کی اصلاح کرو» اور آپ نے [[خزیمۃ ابن ثابت]] (<small>ذو الشّہادتین</small>) اور بعض دوسرے [[انصار]]، جن میں سے بہت سارے [[جنگ بدر|بدر]] کے جنگجو تھے، ان کی مدد سے دشمن پر یکے پس از دیگرے حملہ کیا اور دشمن کو شکست سے دوچار کیا۔<ref>مدرس وحید، ج۲، ص۳۵۷؛ نک: ری‌شہری، ج۱، ص۱۸۳.</ref>
[[36 ہجری قمری]] کو [[جنگ جمل]] واقع ہو‎ئی۔ اس دن محمد حملہ کرنے سے رک گئے اور پرچم خود امام علی علیہ السلام نے سنبھالا اور جمل والوں کی فوج کو پسپا کرنے کے بعد پھر پرچم محمد کے حوالے کیا اور ان سے کہا: «دوبارہ حملہ کر کے اپنی گزشتہ کوتاہی کی اصلاح کرو» اور آپ نے [[خزیمۃ ابن ثابت]] (<small>ذو الشّہادتین</small>) اور بعض دوسرے [[انصار]]، جن میں سے بہت سارے [[جنگ بدر|بدر]] کے جنگجو تھے، ان کی مدد سے دشمن پر یکے پس از دیگرے حملہ کیا اور دشمن کو شکست سے دوچار کیا۔<ref>مدرس وحید، ج۲، ص۳۵۷؛ نک: ری‌شہری، ج۱، ص۱۸۳.</ref>
ابن خلکان نے نامعلوم شخص سے نقل کیا ہے کہ [[جنگ جمل|جَمَل]] میں ابن حنفیہ [[علی(ع)]] کی فوج کے سپہ سالار بنے میں مردد تھے یہاں تک کہ اپنے باپ پر اعتراض بھی کیا۔.<ref>ابن خَلِّکان، ج۴، ص۱۷۱.</ref>لیکن آخر کار پرچم ہاتھ میں لیا۔ طبری، ابن کثیر اور ابن جوزی نے اس تردید کی طرف اشارہ کئے بغیر جنگ جمل میں محمد ابن حنفیہ کی سپہ سالاری کا تذکرہ کیا ہے۔<ref>دیکھیں : ابن جوزی، ج۵، ص۷۸؛ صابری، ج۲، ص۵۱.</ref>
ابن خلکان نے نامعلوم شخص سے نقل کیا ہے کہ [[جنگ جمل|جَمَل]] میں ابن حنفیہ [[علی(ع)]] کی فوج کے سپہ سالار بنے میں مردد تھے یہاں تک کہ اپنے باپ پر اعتراض بھی کیا۔.<ref>ابن خَلِّکان، ج۴، ص۱۷۱.</ref>لیکن آخر کار پرچم ہاتھ میں لیا۔ طبری، ابن کثیر اور ابن جوزی نے اس تردید کی طرف اشارہ کئے بغیر جنگ جمل میں محمد ابن حنفیہ کی سپہ سالاری کا تذکرہ کیا ہے۔<ref>دیکھیں : ابن جوزی، ج۵، ص۷۸؛ صابری، ج۲، ص۵۱.</ref>
سطر 122: سطر 122:
وہ لوگ ہاتھوں میں پرچم لئے [[مسجد الحرام]] میں داخل ہو‎ئے اور اونچی آواز میں [[حسین ابن علی علیہ السلام]] کے قاتلوں سے انتقام کے نعرے لگاتے ہو‎ئے زمزم تک پہنچ گئے۔ ابن زبیر نے ان لوگوں پر آگ لگانے کی نیت سے بہت ساری لکڑیاں جمع کیا۔ وہ لوگ مسجد الحرام کا دروازہ توڑ کر ابن حنفیہ تک پہنچ گئے اور ان سے کہا ہم اور عبد اللہ ابن زبیر میں سے کسی ایک کو انتخاب کریں۔ محمد ابن حنفیہ نے کہا: اللہ کے گھر میں جنگ اور خونریزی ہونا مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔ ابن زبیر ان لوگوں تک پہنچا اور غصے سے بولا «ان ‎ڈنڈے برداروں سے تعجب ہے» (<small>جب مختار کے لوگ حرم میں داخل ہو‎ئے تو ان کے ہاتھوں میں تلوار کے بدلے ڈنڈے تھے کیونکہ حرم میں تلوار ساتھ رکھنا جا‎ئز نہیں ہے۔</small>)کیا تم لوگ یہ سوچتے ہو کہ محمد کو میری بیعت کئے بغیر جانے دونگا؟ اس وقت مسجد الحرام کے باہر موجود مختار کے لوگ مسجد میں داخل ہو‎ئے اور [[امام حسین(ع)|حسین(ع)]] کی انتقام کا نعرہ بلند کیا۔ ابن زبیر ان سے ڈر گیا اور محمد حنفیہ کو جانے سے نہیں روکا۔ محمد چار ہزار لوگوں کے ساتھ «[[علی کی گھاٹی|شعب ابی طالب]]» چلے گئے اور مختار کے قتل ہونے تک وہیں پر رہے۔<ref>نوبختی، ص۸۵ و ۸۶.</ref>
وہ لوگ ہاتھوں میں پرچم لئے [[مسجد الحرام]] میں داخل ہو‎ئے اور اونچی آواز میں [[حسین ابن علی علیہ السلام]] کے قاتلوں سے انتقام کے نعرے لگاتے ہو‎ئے زمزم تک پہنچ گئے۔ ابن زبیر نے ان لوگوں پر آگ لگانے کی نیت سے بہت ساری لکڑیاں جمع کیا۔ وہ لوگ مسجد الحرام کا دروازہ توڑ کر ابن حنفیہ تک پہنچ گئے اور ان سے کہا ہم اور عبد اللہ ابن زبیر میں سے کسی ایک کو انتخاب کریں۔ محمد ابن حنفیہ نے کہا: اللہ کے گھر میں جنگ اور خونریزی ہونا مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔ ابن زبیر ان لوگوں تک پہنچا اور غصے سے بولا «ان ‎ڈنڈے برداروں سے تعجب ہے» (<small>جب مختار کے لوگ حرم میں داخل ہو‎ئے تو ان کے ہاتھوں میں تلوار کے بدلے ڈنڈے تھے کیونکہ حرم میں تلوار ساتھ رکھنا جا‎ئز نہیں ہے۔</small>)کیا تم لوگ یہ سوچتے ہو کہ محمد کو میری بیعت کئے بغیر جانے دونگا؟ اس وقت مسجد الحرام کے باہر موجود مختار کے لوگ مسجد میں داخل ہو‎ئے اور [[امام حسین(ع)|حسین(ع)]] کی انتقام کا نعرہ بلند کیا۔ ابن زبیر ان سے ڈر گیا اور محمد حنفیہ کو جانے سے نہیں روکا۔ محمد چار ہزار لوگوں کے ساتھ «[[علی کی گھاٹی|شعب ابی طالب]]» چلے گئے اور مختار کے قتل ہونے تک وہیں پر رہے۔<ref>نوبختی، ص۸۵ و ۸۶.</ref>


===بعض کیسانیوں کا ان کی مہدویت کاعقیدہ===
===بعض کیسانیوں کا ان کی مہدویت کا عقیدہ===
اسلامی مذاہب اور فرقوں کے بعض محققوں کا کہنا ہے کہ محمد حنفیہ اسلام میں پہلا وہ شخص ہے جس کو [[مہدی]] کا نام دیا گیا۔<ref>صابری، ج۲، ص۵۵.</ref>ان کی مہدویت کا عقیدہ رکھنے والوں کا دعوا ہے کہ آپ [[کوہ رضوی]] میں سکونت پذیر ہیں اور اللہ تعالی کی طرف سے ان کے فرج کا حکم آنے تک دودھ اور شہد کی دو نہروں سے کھاتے اور سیراب ہوتے ہیں۔<ref>اشعری، مقالات الاسلامیین، تحقیق: محمد محیی‎الدین عبدالحمید، ج۱، ص۹۰ و ۹۱؛ بغدادی، الفرق بین الفرق،  قاہرہ، مکتبۃ محمد صبیح و اولادہ، ص۳۹، ۴۱ و ۴۳.</ref> [[سید ابوالقاسم خویی|آیت اللہ خویی]] نے محمد بن حنفیہ کو کیسانیہ سے مبرا سمجھا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ کیسانیہ محمد حنفیہ کے بعد وجود میں آ‎ئے ہیں۔<ref>معجم الرجال، ج ۱۸، ص ۱۰۳-۱۰۲.</ref>
اسلامی مذاہب اور فرقوں کے بعض محققوں کا کہنا ہے کہ محمد حنفیہ اسلام میں پہلا وہ شخص ہے جس کو [[مہدی]] کا نام دیا گیا۔<ref>صابری، ج۲، ص۵۵.</ref>ان کی مہدویت کا عقیدہ رکھنے والوں کا دعوا ہے کہ آپ [[کوہ رضوی]] میں سکونت پذیر ہیں اور اللہ تعالی کی طرف سے ان کے فرج کا حکم آنے تک دودھ اور شہد کی دو نہروں سے کھاتے اور سیراب ہوتے ہیں۔<ref>اشعری، مقالات الاسلامیین، تحقیق: محمد محیی‎الدین عبدالحمید، ج۱، ص۹۰ و ۹۱؛ بغدادی، الفرق بین الفرق،  قاہرہ، مکتبۃ محمد صبیح و اولادہ، ص۳۹، ۴۱ و ۴۳.</ref> [[سید ابوالقاسم خویی|آیت اللہ خویی]] نے محمد بن حنفیہ کو کیسانیہ سے مبرا سمجھا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ کیسانیہ محمد حنفیہ کے بعد وجود میں آ‎ئے ہیں۔<ref>معجم الرجال، ج ۱۸، ص ۱۰۳-۱۰۲.</ref>


==امامت کا دعوی==
==امامت کا دعوی==
===امام سجاد(ع) سے بحث کرنا ===
===امام سجاد(ع) سے بحث ===
محمد بن حنفیہ، اپنے بھا‎ئی [[امام حسن]](ع) اور [[امام حسین]](ع) کو خود سے افضل سمجھتے تھے لیکن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد [[امام سجاد علیہ السلام]] کو ایک خط لکھا اور اس میں اپنی امامت قبول کرنے کی درخواست کی۔ اور محمد حنفیہ کی دلیل یہ تھی کہ امام حسین علیہ السلام نے پہلے دو اماموں کے برخلاف اپنے بعد کسی کو امام معرفی نہیں کیا ہے اور محمد حنفیہ [[علی علیہ السلام]] کے بلافصل فرزند ہیں اور عمر اور زیادہ احادیث نقل کرنے کے اعتبار سے زین العابدین علیہ السلام پر برتری حاصل ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے اپنے چچا کے جواب میں ان کو جہالت سے دوری اور اللہ تعالی سے ڈرنے کی نصیحت کی اور انہیں لکھا:
محمد بن حنفیہ، اپنے بھا‎ئی [[امام حسن]](ع) اور [[امام حسین]](ع) کو خود سے افضل سمجھتے تھے لیکن امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد [[امام سجاد علیہ السلام]] کو ایک خط لکھا اور اس میں اپنی امامت قبول کرنے کی درخواست کی۔ اور محمد حنفیہ کی دلیل یہ تھی کہ امام حسین علیہ السلام نے پہلے دو اماموں کے برخلاف اپنے بعد کسی کو امام معرفی نہیں کیا ہے اور محمد حنفیہ [[علی علیہ السلام]] کے بلافصل فرزند ہیں اور عمر اور زیادہ احادیث نقل کرنے کے اعتبار سے زین العابدین علیہ السلام پر برتری حاصل ہے۔ امام سجاد علیہ السلام نے اپنے چچا کے جواب میں ان کو جہالت سے دوری اور اللہ تعالی سے ڈرنے کی نصیحت کی اور انہیں لکھا:
::<small>«میرے والد گرامی نے [[عراق]] کے سفر کی نیت سے پہلے میری امامت کا بتا دیا تھا اور اپنی [[شہادت|شہادت]] سے کچھ لمحے پہلے مجھ سے عہد لیا۔»</small>
::<small>«میرے والد گرامی نے [[عراق]] کے سفر کی نیت سے پہلے میری امامت کا بتا دیا تھا اور اپنی [[شہادت|شہادت]] سے کچھ لمحے پہلے مجھ سے عہد لیا۔»</small>
سطر 144: سطر 144:
مختار کو قتل کرنے کے بعد ابن زبیر نے محمد حنفیہ سے دوبارہ [[بیعت]] مانگا اور چاہتا تھا ان پر اور انکے دوست احباب پر حملہ کرے۔ اس وقت [[عبد الملک ابن مروان]] جو ابھی مسند [[خلافت]] پر بیٹھ گیا تھا اس کی طرف سے محمد ابن حنفیہ کو ایک خط موصول ہوا جس میں محمد اور اس کے چاہنے والوں کو [[شام]] آنے کی وعوت تھی۔ محمد اور اس کے دوست احباب شام کی طرف چلے گئے۔ لیکن [[مدین|مَدین]] پہنچے تو ان کو خبر ملی کہ عبد الملک ابن مروان نے عمرو ابن سعید سے <small>(جو کہ ابن حنفیہ کے دوستوں میں سے تھا</small>) بے وفا‎ئی کی ہے۔ اس وجہ سے سفر سے پشیمان ہو‎ئے اور «[[ایلہ|أیلہ]]» میں رک گئے جو کہ [[بحیرہ احمر]] کے کنارے، [[حجاز]] کے آخر میں شام کے بارڈر پر ایک شہر ہے۔ وہاں سے واپس [[مکہ]] لوٹے اور [[ابوطالب کی گھاٹی|شعب ابوطالب]] میں سکونت اختیار کیا۔ اور وہاں سے [[طا‎ئف]] چلے گئے۔ جب تک حجاج نے ابن زبیر کو مکہ میں محاصرے میں رکھا محمد حنفیہ طا‌‎ئف میں رہے۔ اس کے بعد پھر شعب ابو طالب واپس آ‎ئے۔ حجاج نے ان سے عبد الملک کی بیعت مانگی لیکن انہوں نے بیعت کرنے سے انکار کیا۔ ابن زبیر مرنے کے بعد محمد ابن حنفیہ نے عبد الملک کو ایک خط لکھا اور اس سے امان مانگی اور عبد الملک نے اسے امان دیا۔<ref>دیکھ‎ئے: نوبختی، ص ۸۶-۸۷.</ref>
مختار کو قتل کرنے کے بعد ابن زبیر نے محمد حنفیہ سے دوبارہ [[بیعت]] مانگا اور چاہتا تھا ان پر اور انکے دوست احباب پر حملہ کرے۔ اس وقت [[عبد الملک ابن مروان]] جو ابھی مسند [[خلافت]] پر بیٹھ گیا تھا اس کی طرف سے محمد ابن حنفیہ کو ایک خط موصول ہوا جس میں محمد اور اس کے چاہنے والوں کو [[شام]] آنے کی وعوت تھی۔ محمد اور اس کے دوست احباب شام کی طرف چلے گئے۔ لیکن [[مدین|مَدین]] پہنچے تو ان کو خبر ملی کہ عبد الملک ابن مروان نے عمرو ابن سعید سے <small>(جو کہ ابن حنفیہ کے دوستوں میں سے تھا</small>) بے وفا‎ئی کی ہے۔ اس وجہ سے سفر سے پشیمان ہو‎ئے اور «[[ایلہ|أیلہ]]» میں رک گئے جو کہ [[بحیرہ احمر]] کے کنارے، [[حجاز]] کے آخر میں شام کے بارڈر پر ایک شہر ہے۔ وہاں سے واپس [[مکہ]] لوٹے اور [[ابوطالب کی گھاٹی|شعب ابوطالب]] میں سکونت اختیار کیا۔ اور وہاں سے [[طا‎ئف]] چلے گئے۔ جب تک حجاج نے ابن زبیر کو مکہ میں محاصرے میں رکھا محمد حنفیہ طا‌‎ئف میں رہے۔ اس کے بعد پھر شعب ابو طالب واپس آ‎ئے۔ حجاج نے ان سے عبد الملک کی بیعت مانگی لیکن انہوں نے بیعت کرنے سے انکار کیا۔ ابن زبیر مرنے کے بعد محمد ابن حنفیہ نے عبد الملک کو ایک خط لکھا اور اس سے امان مانگی اور عبد الملک نے اسے امان دیا۔<ref>دیکھ‎ئے: نوبختی، ص ۸۶-۸۷.</ref>


[[پروندہ:شریفی نیا جس نے فیلم مختارنامہ میں محمد حنفیہ کا کردار ادا کیا.jpg|بندانگشتی| [[مختارنامہ (ٹی وی سیریل)| مختارنامہ ٹی وی سیریل]] میں محمدرضا شریفی نیا، محمد بن حنفیہ کے کردار میں]]
[[ملف:شریفی نیا در نقش محمد حنفیه در سریال مختارنامه.jpg|تصغیر| [[مختارنامہ (ٹی وی سیریل)| مختارنامہ ٹی وی سیریل]] میں محمدرضا شریفی نیا، محمد بن حنفیہ کے کردار میں]]
==وفات اور محل دفن==
==وفات اور محل دفن==
[[امام باقر علیہ السلام]] سے ایک روایت میں آیا ہے کہ:
[[امام باقر علیہ السلام]] سے ایک روایت میں آیا ہے کہ:
سطر 153: سطر 153:
‎ٹی وی ڈرامہ سیریل [[‎ڈرامہ سیریل مختارنامہ|مختارنامہ]] جس کے ڈا‎ئریکٹر [[داود میرباقری]] تھے جو 60 منٹ کی چالیس قسطوں پر مشتمل تھی اس میں محمد رضا شریفی نیا نے محمد حنفیہ کا کردار ادا کیا۔ یہ سیریل پہلی بار 2010 (1389 ھ [[شمسی]]) کو [[جمہوری اسلامی ایران]] کے ٹی وی چینل سے نشر ہو‎ئی
‎ٹی وی ڈرامہ سیریل [[‎ڈرامہ سیریل مختارنامہ|مختارنامہ]] جس کے ڈا‎ئریکٹر [[داود میرباقری]] تھے جو 60 منٹ کی چالیس قسطوں پر مشتمل تھی اس میں محمد رضا شریفی نیا نے محمد حنفیہ کا کردار ادا کیا۔ یہ سیریل پہلی بار 2010 (1389 ھ [[شمسی]]) کو [[جمہوری اسلامی ایران]] کے ٹی وی چینل سے نشر ہو‎ئی
در ۴۰ قسمت ۶۰ دقیقہ‌ای ساختہ شد، محمدرضا شریفی‌نیا نقش محمد حنفیہ را بازی کرد. این سریال برای اولین بار در سال ۱۳۸۹ [[شمسی]] از سیمای [[جمہوری اسلامی ایران]] پخش شد.
در ۴۰ قسمت ۶۰ دقیقہ‌ای ساختہ شد، محمدرضا شریفی‌نیا نقش محمد حنفیہ را بازی کرد. این سریال برای اولین بار در سال ۱۳۸۹ [[شمسی]] از سیمای [[جمہوری اسلامی ایران]] پخش شد.
[[پروندہ:امامزادہ محمد حنفیہ بیورزن گیلان.jpg|بندانگشتی|امامزادہ محمد حنفیہ در بیورزین گیلان]]
[[ملف:امامزاده محمد حنفیه بیورزن گیلان.jpg|تصغیر|امامزادہ محمد حنفیہ در بیورزین گیلان]]
==محمد حنفیہ کے نام سے امام زادے==
==محمد حنفیہ کے نام سے امام زادے==
[[بوشہر]] کا علاقہ [[خارک]] اور [[گیلان]] کا علاقہ [[رودبار]] میں کچھ امام زادے محمد حنفیہ سے منسوب ہیں لیکن ان کے محل وفات کو دیکھتے ہو‎ئے اس نسبت کا صحیح ہونا بعید نظر آتا ہے۔
[[بوشہر]] کا علاقہ [[خارک]] اور [[گیلان]] کا علاقہ [[رودبار]] میں کچھ امام زادے محمد حنفیہ سے منسوب ہیں لیکن ان کے محل وفات کو دیکھتے ہو‎ئے اس نسبت کا صحیح ہونا بعید نظر آتا ہے۔
[[پروندہ:امامزادہ میرمحمد خارک.jpg|بندانگشتی|امامزادہ میرمحمد (محمد حنفیہ) در جزیرہ خارک]]
[[ملف:امامزاده میرمحمد خارک.jpg|بندانگشتی|امامزادہ میرمحمد (محمد حنفیہ) در جزیرہ خارک]]


* محمد حنفیہ کے نام سے ایک امام زادہ [[رودبار]] شہر کی [[بیورزین]] نامی دیہات میں بھی ہے جو [[شجرہ نامہ|شجرہ نسب]] اور وہاں کے لوگوں کے کہنے کے مطابق محمد حنفیہ، ان کا بیٹا ہاشم اور (<small [[امام کاظم علیہ السلام]] کے بیٹے</small>)  ابو القاسم حمزہ دفن ہیں۔ البتہ یہ بات بھی محمد ابن حنفیہ کے محل وفات جو کتابوں میں بیان ہوا ہے اس کے ساتھ مطابق نہیں۔ امام زادہ محمد حنفیہ کو امام زادہ «قِل قِلی» یا «غلتان» کا نام بھی دیا گیا ہے۔ ہر سال [[۲۸ صفر]] کو اس امام‌زادے پر بہت رش ہوتا ہے۔.<ref>[http://guilan.irib.ir/index.php?option=com_content&view=article&id=1028:1&catid=302:amaken صوبہ گیلان صدا و سیما کی ویب سایٹ]</ref>
* محمد حنفیہ کے نام سے ایک امام زادہ [[رودبار]] شہر کی [[بیورزین]] نامی دیہات میں بھی ہے جو [[شجرہ نامہ|شجرہ نسب]] اور وہاں کے لوگوں کے کہنے کے مطابق محمد حنفیہ، ان کا بیٹا ہاشم اور (<small [[امام کاظم علیہ السلام]] کے بیٹے</small>)  ابو القاسم حمزہ دفن ہیں۔ البتہ یہ بات بھی محمد ابن حنفیہ کے محل وفات جو کتابوں میں بیان ہوا ہے اس کے ساتھ مطابق نہیں۔ امام زادہ محمد حنفیہ کو امام زادہ «قِل قِلی» یا «غلتان» کا نام بھی دیا گیا ہے۔ ہر سال [[۲۸ صفر]] کو اس امام‌زادے پر بہت رش ہوتا ہے۔.<ref>[http://guilan.irib.ir/index.php?option=com_content&view=article&id=1028:1&catid=302:amaken صوبہ گیلان صدا و سیما کی ویب سایٹ]</ref>
سطر 198: سطر 198:
{{امام علی (ع)}}
{{امام علی (ع)}}
{{شیعہ فرقے}}
{{شیعہ فرقے}}
-->
 
[[fa:محمد بن حنفیه]]
[[fa:محمد بن حنفیه]]
[[ar:محمد بن الحنفيۃ]]
[[ar:محمد بن الحنفيۃ]]
confirmed، templateeditor
8,290

ترامیم