"حدیث قرطاس" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>Mabbassi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
imported>Mabbassi مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 1: | سطر 1: | ||
{{زیر تعمیر}} | {{زیر تعمیر}} | ||
[[حدیث قرطاس]]، [[حدیث]] دوات و قرطاس، حدیث قلم و کاغذ یا حدیث قلم و دوات سے [[رسول خدا]] کےآخری ایام کے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ جس میں آپ نے موجود[[ صحابہ]] سے فرمایا کہ مجھے قلم اور دوات دو تا کہ میں تمہیں گمراہی بچنے کیلئے [[وصیت]] لکھ دوں ۔وہاں موجود حضرت [[عمر بن خطاب]] نے [[رسول اللہ]] کی اس چاہت کی مخالفت کی اور یوں [[رسول اللہ]] اپنی [[وصیت]] نہ لکھ سکے۔ | |||
اس واقعے کو [[رسول اللہ]] کی زندگی کے واقعات میں سے مشہور ترین اور بزرگترین مصیبتوں میں سے سمجھا جاتا ہے کہ جسے صحاح ستہ ، سُنَن ، سیَر اور کے تمام مصنفین نے ذکر کیا ہے۔اس واقعے کی روایات میں اگرچہ جزئی اختلاف مذکور ہیں لیکن اصل واقعہ اور ان کا [[رسول اللہ]] کی | اس واقعے کو [[رسول اللہ]] کی زندگی کے واقعات میں سے مشہور ترین اور بزرگترین مصیبتوں میں سے سمجھا جاتا ہے کہ جسے صحاح ستہ ، سُنَن ، سیَر اور کے تمام مصنفین نے ذکر کیا ہے۔اس واقعے کی روایات میں اگرچہ جزئی اختلاف مذکور ہیں لیکن اصل واقعہ اور ان کا [[رسول اللہ]] کی [[وصیت]] میں رکاوٹ بننا خود حضرت [[عمر بن خطاب]] سے بھی منقول ہے ۔ | ||
[[شیعہ]] مکتب کے نزدیک [[رسول خدا]] کا اس | [[شیعہ]] مکتب کے نزدیک [[رسول خدا]] کا اس [[وصیت]] سے مقصد اپنے بعد [[حضرت علی]] کی جانشینی کی تاکید اور [[وصیت]] کرنا تھی۔ | ||
== [[حدیث]] کا متن اور مضمون == | == [[حدیث]] کا متن اور مضمون == | ||
سطر 12: | سطر 12: | ||
یہ واقعہ تفصیلی اور مختلف جملوں کے ساتھ منابع میں ذکر ہوا ہے ۔مختلف منابع میں [[رسول اللہ]] سے نقل ہونے والے جملے درج ذیل ہیں : | یہ واقعہ تفصیلی اور مختلف جملوں کے ساتھ منابع میں ذکر ہوا ہے ۔مختلف منابع میں [[رسول اللہ]] سے نقل ہونے والے جملے درج ذیل ہیں : | ||
{{ستون آ|2}} | {{ستون آ|2}} | ||
*<font color=blue>{{ | *<font color=blue>{{حدیث|'''ائتونی بدواة و كتف أكتب لكم كتابا لا تضلّوا بعده أبدا'''}}</font><ref>مفید، الارشاد، ج۱، ص۱۸۴؛ صحیح البخاری، ج۴، ص۶۶؛ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶</ref> | ||
مجھے قلم اور دوات دو، میں تمہارے لئے ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ جسکے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ | مجھے قلم اور دوات دو، میں تمہارے لئے ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ جسکے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ | ||
*<font color=blue>{{[[حدیث | *<font color=blue>{{[[حدیث|'''هلُمّ اکتب لکم کتابا لا تضلون بعده'''}}</font><ref>صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.</ref> | ||
:آؤ !میں تمہارے لئے ایسی تحریر لکھ دوں کہ اسکے بعد گمراہی نہیں ہو گی ۔ | :آؤ !میں تمہارے لئے ایسی تحریر لکھ دوں کہ اسکے بعد گمراہی نہیں ہو گی ۔ | ||
*<font color=blue>{{[[حدیث | *<font color=blue>{{[[حدیث|'''ائتونی بدواة وصحیفة أکتب لکم کتابا لا تضلوا بعده أبدا}}</font><ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۲.</ref> | ||
:دوات و صحیفہ دو تا کہ میں تمہارے لئے تحریر لکھ دوں کہ اس کے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو جاؤ ۔ | :دوات و صحیفہ دو تا کہ میں تمہارے لئے تحریر لکھ دوں کہ اس کے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو جاؤ ۔ | ||
*<font color=blue>{{[[حدیث | *<font color=blue>{{[[حدیث|'''ائتونی بالکتف والدواة أکتب لکم کتابا لا تضلوا بعده أبدا'''}}</font><ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۳.</ref> | ||
{{ستون خ}} | {{ستون خ}} | ||
اسی طرح بعض تاریخی منابع میں حضرت [[عمر بن خطاب]] کو اس قول رسول کی مخالفت کرنے والا کہا گیا لیکن بعض میں مخالفت کرنے والے کا نام ذکر نہیں ہوا ہے ۔مختلف کتب میں [[ | اسی طرح بعض تاریخی منابع میں حضرت [[عمر بن خطاب]] کو اس قول رسول کی مخالفت کرنے والا کہا گیا لیکن بعض میں مخالفت کرنے والے کا نام ذکر نہیں ہوا ہے ۔مختلف کتب میں [[عمر بن خطاب|حضرت عمر]] کی مخالفت مختلف الفاظ میں بیان ہوئی ہے : | ||
{{ستون آ|2}} | {{ستون آ|2}} | ||
*<font color=blue>{{[[حدیث | *<font color=blue>{{[[حدیث| '''إن نبی الله ليهجر'''}}</font><ref>ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج۲، ص۱۸۷</ref> | ||
: خدا کا نبی ہذیان کہہ رہا ہے۔ | : خدا کا نبی ہذیان کہہ رہا ہے۔ | ||
*<font color=blue>{{[[حدیث | *<font color=blue>{{[[حدیث| '''إن رسول الله يهجر'''}}</font><ref>صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶</ref> | ||
: [[رسول خدا]] هذیان کہتا ہے۔ | : [[رسول خدا]] هذیان کہتا ہے۔ | ||
*<font color=blue>{{[[حدیث | *<font color=blue>{{[[حدیث|'''ان الرجل لیهجر'''}}</font><ref>اربلي، كشف الغمہ، ج۱، ص۴۰۲</ref> | ||
: یہ مرد ہذیان کہتا ہے ۔ | : یہ مرد ہذیان کہتا ہے ۔ | ||
*<font color=blue>{{[[حدیث | *<font color=blue>{{[[حدیث|'''أهجر رسول الله؟'''}}</font><ref> صحيح بخارى، كتاب الجہاد و السير، باب 175، ح 1 </ref> | ||
:کیا [[رسول خدا]] نے ہذیان کہا ہے۔ | :کیا [[رسول خدا]] نے ہذیان کہا ہے۔ | ||
*<font color=blue>{{[[حدیث | *<font color=blue>{{[[حدیث|'''ما شأنه؟ أهجر؟ استفهموه'''}}</font><ref> صحيح بخارى، كتاب المغازى، باب 84، ح 4؛ صحيح مسلم، كتاب الوصيہ، باب 6، ح 6 </ref> | ||
: اسے کیا ہوا ہے ؟ آیا(اسنے) یذیان کہا؟اس سے پوچھو۔ | : اسے کیا ہوا ہے ؟ آیا(اسنے) یذیان کہا؟اس سے پوچھو۔ | ||
*<font color=blue>{{[[حدیث | *<font color=blue>{{[[حدیث|'''إنّ النّبى (رسول الله) قد غلب عليه (غلبه) الوجع وعندکم القرآن حسبنا کتاب الله'''}}</font><ref> صحيح بخارى، كتاب المغازى، باب 84، ح 5 . 13 و كتاب المرضى، باب 17، ح 1 . 15 و كتاب العلم، باب 39 (باب كتابۃ العلم)، ح 4؛ صحيح مسلم، كتاب الوصيہ، باب 6، ح 8 . 14 .</ref> | ||
: درد نے [[رسول خدا]] پر غلبہ کیا ہے ،تمہارے لئے[[ قرآن]] ہے اور ہمارے لئے خدا کی کتاب کافی ہے۔ | : درد نے [[رسول خدا]] پر غلبہ کیا ہے ،تمہارے لئے[[ قرآن]] ہے اور ہمارے لئے خدا کی کتاب کافی ہے۔ | ||
{{ستون خ}} | {{ستون خ}} | ||
[[سید عبدالحسین شرف الدین]] نے اپنی تصنیف [[المراجعات]] میں کہا ہے کہ {{ | [[سید عبدالحسین شرف الدین]] نے اپنی تصنیف [[المراجعات]] میں کہا ہے کہ {{حدیث|قد غلب عليه الوجع}} کے الفاظ [[اہل سنت]] محدثین نے تبدیل کئے ہیں تا کہ اس کے ذریعے عبارت کی تلخی کو کم کر سکیں <ref>شرف الدین، المراجعات، صص۲۴۳-۲۴۲؛ ترجمہ فارسی: مناظرات، ص۴۳۱-۴۳۲.</ref> اس نے اپنے اس مدعا کے اثبات کیلئے ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری کی کتاب السقیفہ میں ابن عباس کی روایت سے استناد کرتے ہوئے کہا اس میں آیا ہے : پس [[عمر بن خطاب|عمر]] نے ایسی بات کہی کہ جس کا معنی یہ ہے کہ درد نے [[پیغمبر]] پر غالب ہو گیا ... | ||
==منابع [[حدیث]]== | ==منابع [[حدیث]]== | ||
=== منابع | === منابع [[اہل سنت]] === | ||
یہ [[حدیث]] | یہ [[حدیث]] [[اہل سنت]] کے بہت سے معتبر مآخذوں میں مذکور ہوئی ہے مثلا: | ||
{{ستون آ|2}} | {{ستون آ|2}} | ||
* [[صحیح بخاری]] کےاب میں پانچ مقامات پر آئی جن میں سے دو مقام پر [[عمر بن خطاب |عمر]] کا نام آیا ہے ۔<ref>صحیح البخاری، ج۱، ص۳۷.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۴، ص۳۱.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۴، ص۶۶.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۷، ص۹.</ref> | * [[صحیح بخاری]] کےاب میں پانچ مقامات پر آئی جن میں سے دو مقام پر [[عمر بن خطاب |عمر]] کا نام آیا ہے ۔<ref>صحیح البخاری، ج۱، ص۳۷.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۴، ص۳۱.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۴، ص۶۶.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸.</ref> <ref>صحیح البخاری، ج۷، ص۹.</ref> | ||
سطر 57: | سطر 57: | ||
== مختلف مؤقف == | == مختلف مؤقف == | ||
=== [[شیعہ]] مؤقف=== | === [[شیعہ]] مؤقف=== | ||
علمائے [[شیعہ]] اس واقعہ کو بہت بڑی مصیبت سمجھتے ہیں کیونکہ یہ واقعہ مسلمانوں کو گمراہی سے بچانے سے کیلئے [[رسول اللہ]] کے | علمائے [[شیعہ]] اس واقعہ کو بہت بڑی مصیبت سمجھتے ہیں کیونکہ یہ واقعہ مسلمانوں کو گمراہی سے بچانے سے کیلئے [[رسول اللہ]] کے [[وصیت]] لکھنے میں رکاوٹ بنا۔ <ref>جوہري، مقتضب الأثر، ص1</ref> [[اہل سنت]] کے بعض مآخذوں میں بھی آیا ہے کہ [[عبد اللہ بن عباس]] [[رسول اللہ]] کی [[وصیت]] میں رکاوٹ کو ایک عظیم مصیبت سمجھتے اور گریہ کرتے تھے۔<ref>صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸؛ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.</ref> | ||
[[شرف الدین عاملی]] [[المراجعات]] میں[[ قرآنی]] [[آیات]] کے تناظر میں [[عمر بن خطاب|حضرت عمر]] پر چند اعتراض کرتے ہیں ان میں سے:<ref>شرف الدین، المراجعات، ص۲۴۴؛ ترجمہ فارسی: مناظرات، ص۴۳۵.</ref> | [[شرف الدین عاملی]] [[المراجعات]] میں[[ قرآنی]] [[آیات]] کے تناظر میں [[عمر بن خطاب|حضرت عمر]] پر چند اعتراض کرتے ہیں ان میں سے:<ref>شرف الدین، المراجعات، ص۲۴۴؛ ترجمہ فارسی: مناظرات، ص۴۳۵.</ref> | ||
سطر 65: | سطر 65: | ||
[[شیعہ|شیعوں]] کے نزدیک [[عمر بن خطاب|حضرت عمر]] کا یہ رویہ[[ قرآن]] کی بہت سی آیات کے مخالف تھا مثلا: | [[شیعہ|شیعوں]] کے نزدیک [[عمر بن خطاب|حضرت عمر]] کا یہ رویہ[[ قرآن]] کی بہت سی آیات کے مخالف تھا مثلا: | ||
*<font color=green>{{[[حدیث | *<font color=green>{{[[حدیث|وَمَا آتَاکمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکمْ عَنْهُ فَانتَهُوا[[سورہ حشر]]|آیت ۷}}</font> | ||
جو کچھ رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔ | جو کچھ رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔ | ||
*<font color=green>{{[[حدیث | *<font color=green>{{[[حدیث|مَا ضَلَّ صَاحِبُکمْ وَمَا غَوَیٰ ﴿۲﴾ وَمَا ینطِقُ عَنِ الْهَوَیٰ ﴿۳﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْی یوحَیٰ ﴿۴﴾ عَلَّمَهُ شَدِیدُ الْقُوَیٰ ﴿۵﴾[[سورہ نجم]]}}</font> | ||
:کہ تمہارا یہ ساتھی [[پیغمبرِ اسلام(ص)]] نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔ (2) اور وہ (اپنی) خواہشِ نفس سے بات نہیں کرتا۔ (3) وہ تو بس وحی (بات کرتا) ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔ (4) | :کہ تمہارا یہ ساتھی [[پیغمبرِ اسلام(ص) ]] نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔ (2) اور وہ (اپنی) خواہشِ نفس سے بات نہیں کرتا۔ (3) وہ تو بس وحی (بات کرتا) ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔ (4) | ||
===[[اہل سنت]] مؤقف=== | ===[[اہل سنت]] مؤقف=== | ||
[[اہل سنت]] علما اس واقعے کی توجیہ کے در پے ہوئے ہیں مثلا: | [[اہل سنت]] علما اس واقعے کی توجیہ کے در پے ہوئے ہیں مثلا: |
نسخہ بمطابق 08:24، 25 جنوری 2017ء
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم [[صارف:imported>Mabbassi|imported>Mabbassi]] ([[Special:Contributions/imported>Mabbassi|حصہ]] · [[Special:Log/imported>Mabbassi|شراکت]]) نے 8 سال قبل کی۔ |
حدیث قرطاس، حدیث دوات و قرطاس، حدیث قلم و کاغذ یا حدیث قلم و دوات سے رسول خدا کےآخری ایام کے اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے کہ جس میں آپ نے موجودصحابہ سے فرمایا کہ مجھے قلم اور دوات دو تا کہ میں تمہیں گمراہی بچنے کیلئے وصیت لکھ دوں ۔وہاں موجود حضرت عمر بن خطاب نے رسول اللہ کی اس چاہت کی مخالفت کی اور یوں رسول اللہ اپنی وصیت نہ لکھ سکے۔
اس واقعے کو رسول اللہ کی زندگی کے واقعات میں سے مشہور ترین اور بزرگترین مصیبتوں میں سے سمجھا جاتا ہے کہ جسے صحاح ستہ ، سُنَن ، سیَر اور کے تمام مصنفین نے ذکر کیا ہے۔اس واقعے کی روایات میں اگرچہ جزئی اختلاف مذکور ہیں لیکن اصل واقعہ اور ان کا رسول اللہ کی وصیت میں رکاوٹ بننا خود حضرت عمر بن خطاب سے بھی منقول ہے ۔
شیعہ مکتب کے نزدیک رسول خدا کا اس وصیت سے مقصد اپنے بعد حضرت علی کی جانشینی کی تاکید اور وصیت کرنا تھی۔
حدیث کا متن اور مضمون
تاریخی اور روائی منابع کے مطابق نبوت نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں بستر بیماری پر ۱۱ ہجری 25 صفر کو حاضرین سے فرمایا :
- مجھے قلم اور دوات دو تا کہ میں تمہیں ایسی چیز لکھ دوں کہ جس کی بدولت تم کبھی گمراہ نہیں ہو گے ۔
عمر بن خطاب نے رسول اللہ کی اس درخواست کی مخالفت کی اور کہا: پیغمبر ہذیان کہہ رہے ہیں اور بعض روایات کے مطابققرآن ہمارے لئے کافی ہے کہ جملے کا اضافہ موجود ہے ۔یہ سننے کے بعدصحابہ کے درمیان نزاع شروع ہو گئی ۔پیغمبر نے جب یہ صورت حال دیکھی تو فرمایا میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ۔ یہ واقعہ تفصیلی اور مختلف جملوں کے ساتھ منابع میں ذکر ہوا ہے ۔مختلف منابع میں رسول اللہ سے نقل ہونے والے جملے درج ذیل ہیں :
- ائتونی بدواة و كتف أكتب لكم كتابا لا تضلّوا بعده أبدا[1]
مجھے قلم اور دوات دو، میں تمہارے لئے ایسا نوشتہ لکھ دوں کہ جسکے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔
- {{[[حدیث|هلُمّ اکتب لکم کتابا لا تضلون بعده}}[2]
- آؤ !میں تمہارے لئے ایسی تحریر لکھ دوں کہ اسکے بعد گمراہی نہیں ہو گی ۔
- {{[[حدیث|ائتونی بدواة وصحیفة أکتب لکم کتابا لا تضلوا بعده أبدا}}[3]
- دوات و صحیفہ دو تا کہ میں تمہارے لئے تحریر لکھ دوں کہ اس کے بعد کبھی گمراہ نہیں ہو جاؤ ۔
- {{[[حدیث|ائتونی بالکتف والدواة أکتب لکم کتابا لا تضلوا بعده أبدا}}[4]
اسی طرح بعض تاریخی منابع میں حضرت عمر بن خطاب کو اس قول رسول کی مخالفت کرنے والا کہا گیا لیکن بعض میں مخالفت کرنے والے کا نام ذکر نہیں ہوا ہے ۔مختلف کتب میں حضرت عمر کی مخالفت مختلف الفاظ میں بیان ہوئی ہے :
- {{[[حدیث| إن نبی الله ليهجر}}[5]
- خدا کا نبی ہذیان کہہ رہا ہے۔
- {{[[حدیث| إن رسول الله يهجر}}[6]
- رسول خدا هذیان کہتا ہے۔
- {{[[حدیث|ان الرجل لیهجر}}[7]
- یہ مرد ہذیان کہتا ہے ۔
- {{[[حدیث|أهجر رسول الله؟}}[8]
- کیا رسول خدا نے ہذیان کہا ہے۔
- {{[[حدیث|ما شأنه؟ أهجر؟ استفهموه}}[9]
- اسے کیا ہوا ہے ؟ آیا(اسنے) یذیان کہا؟اس سے پوچھو۔
- {{[[حدیث|إنّ النّبى (رسول الله) قد غلب عليه (غلبه) الوجع وعندکم القرآن حسبنا کتاب الله}}[10]
سید عبدالحسین شرف الدین نے اپنی تصنیف المراجعات میں کہا ہے کہ قد غلب عليه الوجع کے الفاظ اہل سنت محدثین نے تبدیل کئے ہیں تا کہ اس کے ذریعے عبارت کی تلخی کو کم کر سکیں [11] اس نے اپنے اس مدعا کے اثبات کیلئے ابوبکر احمد بن عبدالعزیز جوہری کی کتاب السقیفہ میں ابن عباس کی روایت سے استناد کرتے ہوئے کہا اس میں آیا ہے : پس عمر نے ایسی بات کہی کہ جس کا معنی یہ ہے کہ درد نے پیغمبر پر غالب ہو گیا ...
منابع حدیث
منابع اہل سنت
یہ حدیث اہل سنت کے بہت سے معتبر مآخذوں میں مذکور ہوئی ہے مثلا:
- صحیح بخاری کےاب میں پانچ مقامات پر آئی جن میں سے دو مقام پر عمر کا نام آیا ہے ۔[12] [13] [14] [15] [16]
- صحیح مسلم میں تین جگہ پر : ایک مقام پر حضرت عمر کا نام آیا ہے [17] [18] [19]
- مسند احمد میں ایک مقام پر :کہنے والے کے نام کی طرف اشارہ نہیں ہوا ۔[20]
- سنن بیہقی میں ایک جگہ نقل ہوا ہے :کہنے والے کے نام نہیں آیا ۔[21]
- طبقات ابن سعد میں آٹھ جگہ آیا ہے : تین جگہ حضرت عمر کا نام آیا ہے [22] [23] [24] [25] [26] [27] [28] [29]
شیعہ مآخذ
مختلف مؤقف
شیعہ مؤقف
علمائے شیعہ اس واقعہ کو بہت بڑی مصیبت سمجھتے ہیں کیونکہ یہ واقعہ مسلمانوں کو گمراہی سے بچانے سے کیلئے رسول اللہ کے وصیت لکھنے میں رکاوٹ بنا۔ [34] اہل سنت کے بعض مآخذوں میں بھی آیا ہے کہ عبد اللہ بن عباس رسول اللہ کی وصیت میں رکاوٹ کو ایک عظیم مصیبت سمجھتے اور گریہ کرتے تھے۔[35]
شرف الدین عاملی المراجعات میںقرآنی آیات کے تناظر میں حضرت عمر پر چند اعتراض کرتے ہیں ان میں سے:[36]
- رسول خدا(ص) کے حکم کی نافرمانی اور رسول کی مخالفت ۔
- اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گویا حضرت عمر رسول اللہ سے زیادہ دانا تر ہے۔
- رسول کی نسبت ہذیان گوئی کا الزام لگانا۔
شیعوں کے نزدیک حضرت عمر کا یہ رویہقرآن کی بہت سی آیات کے مخالف تھا مثلا:
- {{[[حدیث|وَمَا آتَاکمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکمْ عَنْهُ فَانتَهُواسورہ حشر|آیت ۷}}
جو کچھ رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔
- {{[[حدیث|مَا ضَلَّ صَاحِبُکمْ وَمَا غَوَیٰ ﴿۲﴾ وَمَا ینطِقُ عَنِ الْهَوَیٰ ﴿۳﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْی یوحَیٰ ﴿۴﴾ عَلَّمَهُ شَدِیدُ الْقُوَیٰ ﴿۵﴾سورہ نجم}}
- کہ تمہارا یہ ساتھی پیغمبرِ اسلام(ص) نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا ہے۔ (2) اور وہ (اپنی) خواہشِ نفس سے بات نہیں کرتا۔ (3) وہ تو بس وحی (بات کرتا) ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔ (4)
اہل سنت مؤقف
اہل سنت علما اس واقعے کی توجیہ کے در پے ہوئے ہیں مثلا:
- بعض اس واقعے کو متون اصلی میں مذکور ہونے کے باوجود اسے ضعیف اورغیر معتبر سمجھتے ہیں ۔
- بعض اس حدیث کا ایک اور معنا ذکر کرتے ہیں ۔ مثلا: «ہجر» کا مادہ چھوڑنے اور تک کرنے کے معنا میں ہے اور اس سے حضرت عمر کی مراد یہ تھی کہ پیغمبر ہمیں چھوڑ رہے ہیں یا حضرت عمر کی گفتگو استفہام انکاری ہے یعنی پیغمبر ہذیان نہیں کہتا ہے ؟
- عمر کاقرآن کو کافی سمجھنا اسکی قوت فقہ اور دقت نظر کا بیان گر ہے ۔
- بعض مآخذوں کے مطابق ایک شخص نہیں کئی افراد مراد ہیں ۔
پیمبر(ص) کا مقصود
[[مضمون اصلی|حدیث ثقلین]]
شیعہ علما کے نزدیک حدیث قرطاس اور حدیث ثقلین کہ جس میں رسول اکرم نے فرمایا :میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیںقرآن و [[اہل بیت]، چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم انہیں تھامے رکھو گے اس وقت تک تم گمراہ نہیں ہو گے؛کی غرض ایک اور ان کا ہدف حضرت علی کی تاکید ہے ۔ شیعہ علما کے مطابق ان دونوں احادیث سے حضرت رسول اکرم کا قصد یہ تھا کہ خلافت اور امامت کو اپنی عترت کیلئے استوار کریں ۔چونکہ کچھ افراد اس حقیقت کو بھانپ گئے تھے اسی وجہ سے وہ اس حدیث قرطاس کے لکھنے سے مانع ہوئے۔[37] نیز خلیفۂ دوم اور عبد اللہ بن عباس کے درمیان ہونے والی گفتگو میں وہ وضاحت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم اپنی بیماری کے ایام میں چاہتے تھے کہ اپنے بعد خلافت کیلئے علی کا نام لیں تو میں دلسوزی اور حفاظت اسلام کی خاطر اس میں آڑے آیا ۔[38]
- ↑ مفید، الارشاد، ج۱، ص۱۸۴؛ صحیح البخاری، ج۴، ص۶۶؛ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶
- ↑ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۲.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۳.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الكبرى، ج۲، ص۱۸۷
- ↑ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶
- ↑ اربلي، كشف الغمہ، ج۱، ص۴۰۲
- ↑ صحيح بخارى، كتاب الجہاد و السير، باب 175، ح 1
- ↑ صحيح بخارى، كتاب المغازى، باب 84، ح 4؛ صحيح مسلم، كتاب الوصيہ، باب 6، ح 6
- ↑ صحيح بخارى، كتاب المغازى، باب 84، ح 5 . 13 و كتاب المرضى، باب 17، ح 1 . 15 و كتاب العلم، باب 39 (باب كتابۃ العلم)، ح 4؛ صحيح مسلم، كتاب الوصيہ، باب 6، ح 8 . 14 .
- ↑ شرف الدین، المراجعات، صص۲۴۳-۲۴۲؛ ترجمہ فارسی: مناظرات، ص۴۳۱-۴۳۲.
- ↑ صحیح البخاری، ج۱، ص۳۷.
- ↑ صحیح البخاری، ج۴، ص۳۱.
- ↑ صحیح البخاری، ج۴، ص۶۶.
- ↑ صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸.
- ↑ صحیح البخاری، ج۷، ص۹.
- ↑ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۵.
- ↑ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.
- ↑ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.
- ↑ مسند الامام احمد بن حنبل، ج۲، ح۱۹۶۳، ص۴۵.
- ↑ بیہقی، السنن الکبری، ج۹، ص۲۰۷.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۲.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۲.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۳.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۳.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، صص۲۴۴-۲۴۳.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۴.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، ص۲۴۴.
- ↑ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۲، صص۲۴۴-۲۴۵.
- ↑ شیخ مفيد، الإرشاد، ج۱، ص۱۸۴
- ↑ شیخ مفید، اوائل المقالات، ص۴۰۶
- ↑ نعماني الغيبت، ص ۸۱-۸۲
- ↑ ابن شہرآشوب، المناقب، ج۱، ص۲۳۶
- ↑ جوہري، مقتضب الأثر، ص1
- ↑ صحیح البخاری، ج۵، صص۱۳۷-۱۳۸؛ صحیح مسلم، ج۵، ص۷۶.
- ↑ شرف الدین، المراجعات، ص۲۴۴؛ ترجمہ فارسی: مناظرات، ص۴۳۵.
- ↑ شرف الدین، المراجعات، ص۲۴۵؛ ترجمہ فارسی: مناظرات، ص۴۳۶.
- ↑ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۱۲، صص ۲۰-۲۱.