مندرجات کا رخ کریں

"قریش" کے نسخوں کے درمیان فرق

162 بائٹ کا ازالہ ،  9 دسمبر 2018ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Abbashashmi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Abbashashmi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 3: سطر 3:
== نام رکھنے کی علت ==  
== نام رکھنے کی علت ==  
قریش نام رکھنے کی علت کے بارے میں مختلف وجوہات ذکر ہوئی ہیں، جو یہ ہیں:
قریش نام رکھنے کی علت کے بارے میں مختلف وجوہات ذکر ہوئی ہیں، جو یہ ہیں:
* اول: بعض نے کہا ہے کہ پیغمبرؐ کے جد ’’فھر‘‘ کا لقب تھا۔ لہٰذا ان کی اولاد کو ان سے نسبت دی گئی ہے۔ <ref> ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۲۶.</ref>  
* اول: بعض نے کہا ہے کہ پیغمبرؐ کے جد ’’فھر‘‘ کا لقب تھا۔ لہٰذا ان کی اولاد کو ان سے نسبت دی گئی ہے۔ <ref> ابن جوزی، المنتظم، 1412ق، ج2، ص226۔</ref>  
* دوم: بعض نے کہا ہے کہ ’’قریش نضر بن کنانہ‘‘ کا لقب تھا۔ لہٰذا ان کی اولاد اور نسل پر اس کا اطلاق کیا گیا ہے۔ <ref> ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۲۸.</ref> نضر کو اس اعتبار سے بھی قریش کہا جاتا تھا کہ وہ ضرورت مندوں کو تلاش میں رہتے تھے چونکہ تقریش کا معنی ’’تفتیش(تلاش)‘‘ ہے اس لیے ان کا لقب قریش ہو گیا۔ <ref> ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۲، ص۲۲۸-۲۲۹.</ref>  
* دوم: بعض نے کہا ہے کہ ’’قریش نضر بن کنانہ‘‘ کا لقب تھا۔ لہٰذا ان کی اولاد اور نسل پر اس کا اطلاق کیا گیا ہے۔ <ref> ابن جوزی، المنتظم، 1412ق، ج2، ص228۔</ref> نضر کو اس اعتبار سے بھی قریش کہا جاتا تھا کہ وہ ضرورت مندوں کو تلاش میں رہتے تھے چونکہ تقریش کا معنی ’’تفتیش(تلاش)‘‘ ہے اس لیے ان کا لقب قریش ہو گیا۔ <ref> ابن جوزی، المنتظم، 1412ق، ج2، ص228-229۔</ref>  
* سوم: کہا جاتا ہے کہ ’’قرش‘‘ کا معنی ’’کسب‘‘ ہے چونکہ قریش کا کام کھیتی باڑی نہیں تھا اور ان کا پیشہ تجارت تھا، اس لیے یہ لقب ان سے مخصوص ہو گیا۔ <ref> یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۳۳۷؛ بلاذری،انساب الاشراف، ۱۹۹۶م، ج۱۱، ص۸۰.</ref>  
* سوم: کہا جاتا ہے کہ ’’قرش‘‘ کا معنی ’’کسب‘‘ ہے چونکہ قریش کا کام کھیتی باڑی نہیں تھا اور ان کا پیشہ تجارت تھا، اس لیے یہ لقب ان سے مخصوص ہو گیا۔ <ref> یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995م، ج4، ص337؛ بلاذری،انساب الاشراف، 1996م، ج11، ص80۔</ref>  
* چہارم: بعض نے کہا ہے کہ قریش کا معنی ادھر اُدھر سے جمع ہونے والے ہیں۔ قریش کو قریش کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب قصی بن کلاب کا مکہ پر غلبہ ہوا تو انہوں نے مکہ کے اطراف میں بکھرے ہوئے مختلف خاندانوں کو اکٹھا کیا اور انہیں مکہ میں رہنے کیلئے جگہ فراہم کی۔ <ref> یاقوت حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۴، ص۳۳۶.</ref>  
* چہارم: بعض نے کہا ہے کہ قریش کا معنی ادھر اُدھر سے جمع ہونے والے ہیں۔ قریش کو قریش کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب قصی بن کلاب کا مکہ پر غلبہ ہوا تو انہوں نے مکہ کے اطراف میں بکھرے ہوئے مختلف خاندانوں کو اکٹھا کیا اور انہیں مکہ میں رہنے کیلئے جگہ فراہم کی۔ <ref> یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995م، ج4، ص336۔</ref>  
== قریش کی شاخیں ==  
== قریش کی شاخیں ==  
’’قریش‘‘ مکہ کا ایک بڑا قبیلہ تھا جو ظہور [[ اسلام ]] کے وقت متعدد شاخوں پر مشتمل تھا؛ منجملہ: [[ بنی ہاشم ]] ، [[بنی مطلب]]، بنی حارث، [[بنی امیہ]]، بنی نوفل، بنی حارث بن فهر، بنی اسد، بنی عبد الدار، بنی زهره، بنی تیم بن مره، بنی مخزوم، بنی یقَظه، بنی مرّه، بنی عدی بن کعب، بنی سهم، بنی جُمَح، بنی مالک، بنی معیط، بنی نزار، بنی سامه، بنی ادرم، بنی محارب، بنی حارث بن عبدالله، بنی خزیمه اور بنی بنانہ.{{حوالہ درکار}}
’’قریش‘‘ مکہ کا ایک بڑا قبیلہ تھا جو ظہور [[ اسلام ]] کے وقت متعدد شاخوں پر مشتمل تھا؛ منجملہ: [[ بنی ہاشم ]] ، [[بنی مطلب]]، بنی حارث، [[بنی امیہ]]، بنی نوفل، بنی حارث بن فهر، بنی اسد، بنی عبد الدار، بنی زهره، بنی تیم بن مره، بنی مخزوم، بنی یقَظه، بنی مرّه، بنی عدی بن کعب، بنی سهم، بنی جُمَح، بنی مالک، بنی معیط، بنی نزار، بنی سامه، بنی ادرم، بنی محارب، بنی حارث بن عبدالله، بنی خزیمه اور بنی بنانہ۔{{حوالہ درکار}}
قریش کی ۲۵ شاخوں کے بعض خاندان سرزمین [[ بطحاء ]] ( [[ مکہ ]] کے ہموار علاقوں) میں رہائش پذیر تھے جو (قریش بطاح) یا (قریش بطحاء) کے نام سے مشہور تھے اور کچھ خاندان مکہ شہر سے باہر پہاڑوں پر سکونت پذیر تھے کہ جو ’’قریش ظواہر‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ {{حوالہ درکار}}
قریش کی 25 شاخوں کے بعض خاندان سرزمین [[ بطحاء ]] ( [[ مکہ ]] کے ہموار علاقوں) میں رہائش پذیر تھے جو (قریش بطاح) یا (قریش بطحاء) کے نام سے مشہور تھے اور کچھ خاندان مکہ شہر سے باہر پہاڑوں پر سکونت پذیر تھے کہ جو ’’قریش ظواہر‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ {{حوالہ درکار}}
== مکہ پر حاکمیت کا آغاز ==  
== مکہ پر حاکمیت کا آغاز ==  
قریش سے پہلے [[ کعبہ ]] کے انتظام کی ذمہ داری [[ قبیلہ خزاعہ ]] کے پاس تھی۔ <ref> مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیه، ص۱۲۶.</ref> ان دنوں قریش مکہ کے مضافات میں رہتے تھے اور کعبہ کے معاملات میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد قصی بن کلاب مکہ میں ساکن ہو گئے اور قبیلہ خزاعہ کی بڑی بیٹی کیساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ قصی نے آہستہ آہستہ کعبہ کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور بنی کنانہ اور قریش کو اپنا معاون مقرر کیا۔ <ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۵۶؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج۱، ص۲۳۸-۲۳۹.</ref>  
قریش سے پہلے [[ کعبہ ]] کے انتظام کی ذمہ داری [[ قبیلہ خزاعہ ]] کے پاس تھی۔ <ref> مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبة الثقافة الدینیه، ص126۔</ref> ان دنوں قریش مکہ کے مضافات میں رہتے تھے اور کعبہ کے معاملات میں حصہ نہیں لیتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد قصی بن کلاب مکہ میں ساکن ہو گئے اور قبیلہ خزاعہ کی بڑی بیٹی کیساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ قصی نے آہستہ آہستہ کعبہ کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور بنی کنانہ اور قریش کو اپنا معاون مقرر کیا۔ <ref> ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج1، ص56؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دار صادر، ج1، ص238-239۔</ref>  
== پیشہ ==  
== پیشہ ==  
=== تجارت ===  
=== تجارت ===  
’’قریشی‘‘ تجارت پیشہ لوگ تھے اور اس غرض سے [[ یمن ]] ، [[ شام ]] اور [[ ایران ]] کا رخ کرتے تھے اور معروف بازار جیسے [[ بازار عکاظ ]] اور بازار ذی المجاز ان کے زیر اختیار تھے۔ {{حوالہ درکار}}
’’قریشی‘‘ تجارت پیشہ لوگ تھے اور اس غرض سے [[ یمن ]] ، [[ شام ]] اور [[ ایران ]] کا رخ کرتے تھے اور معروف بازار جیسے [[ بازار عکاظ ]] اور بازار ذی المجاز ان کے زیر اختیار تھے۔ {{حوالہ درکار}}
وہ ہر سال گرمیوں اور سردیوں میں دو تجارتی سفر کرتے تھے کہ جن کی طرف [[ قرآن ]] نے اشارہ کیا ہے۔ البتہ پہلے ان کی تجارت مکہ کے اندر تک محدود تھی۔ غیر عرب تاجر ان سے اشیا خریدتے تھے اور ہمسایہ ممالک میں جا کر فروخت کرتے تھے۔ <ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج۱، ص۲۴۲.</ref> آخرکار ہاشم بن عبد مناف نے قریش کی شام اور یمن کیساتھ تجارت کی داغ بیل ڈالی۔ ہاشم نے شام کے بادشاہ سے [[ شام ]] کے شہروں میں تجارت کی اجازت لی۔ پھر ان کے بھائی عبد الشمس حبشہ کے حاکم سے تجارت کی اجازت لینے میں کامیاب ہوئے اور عبد مناف کے سب سے چھوٹے بیٹے نوفل بن عبد مناف نے بھی [[ عراق ]] کا سفر کر کے کسریٰ سے عراق میں تجارت کا اجازت نامہ دریافت کیا۔ <ref> بلاذری،انساب الاشراف، ۱۹۹۶م، ج۱، ص۵۹.</ref>  
وہ ہر سال گرمیوں اور سردیوں میں دو تجارتی سفر کرتے تھے کہ جن کی طرف [[ قرآن ]] نے اشارہ کیا ہے۔ البتہ پہلے ان کی تجارت مکہ کے اندر تک محدود تھی۔ غیر عرب تاجر ان سے اشیا خریدتے تھے اور ہمسایہ ممالک میں جا کر فروخت کرتے تھے۔ <ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج1، ص242۔</ref> آخرکار ہاشم بن عبد مناف نے قریش کی شام اور یمن کیساتھ تجارت کی داغ بیل ڈالی۔ ہاشم نے شام کے بادشاہ سے [[ شام ]] کے شہروں میں تجارت کی اجازت لی۔ پھر ان کے بھائی عبد الشمس حبشہ کے حاکم سے تجارت کی اجازت لینے میں کامیاب ہوئے اور عبد مناف کے سب سے چھوٹے بیٹے نوفل بن عبد مناف نے بھی [[ عراق ]] کا سفر کر کے کسریٰ سے عراق میں تجارت کا اجازت نامہ دریافت کیا۔ <ref> بلاذری،انساب الاشراف، 1996م، ج1، ص59۔</ref>  
===کعبہ سے مربوط منصب ===
===کعبہ سے مربوط منصب ===
قریش [[ کعبہ ]] اور اس سے مربوط مسائل کو بہت اہمیت دیتے تھے چونکہ ان کی معیشت اور سیاست کعبہ سے مربوط مناصب کی بنیاد پر قائم تھی۔ کعبہ سے مربوط تمام مراکز کا انتظام قریش کی بزرگ شخصیات کے پاس تھا۔ ظہور اسلام کے وقت کعبہ کے مناصب قریش کی دس شاخوں کے پاس تھے۔  
قریش [[ کعبہ ]] اور اس سے مربوط مسائل کو بہت اہمیت دیتے تھے چونکہ ان کی معیشت اور سیاست کعبہ سے مربوط مناصب کی بنیاد پر قائم تھی۔ کعبہ سے مربوط تمام مراکز کا انتظام قریش کی بزرگ شخصیات کے پاس تھا۔ ظہور اسلام کے وقت کعبہ کے مناصب قریش کی دس شاخوں کے پاس تھے۔  
یہ دس شاخیں درج ذیل ہیں: [[بنی ہاشم]]، [[بنی امیہ]]، بنی عبدالدار، بنی اسد، بنی مخزوم، بنی سہم، بنی تیم، بنی عدی، بنی نوفل اور بنی جمح.{{حوالہ درکار}}
یہ دس شاخیں درج ذیل ہیں: [[بنی ہاشم]]، [[بنی امیہ]]، بنی عبدالدار، بنی اسد، بنی مخزوم، بنی سہم، بنی تیم، بنی عدی، بنی نوفل اور بنی جمح۔{{حوالہ درکار}}
کعبہ کے مناصب جو قریش کے پاس تھے؛ یہ ہیں: ’’[[ سقایت ]]‘‘ (کعبہ کے زائرین کو پانی پلانا) ، ’’رفادت‘‘ (زائرین کعبہ کی مہمان نوازی)‘ ’’[[ حجابت ]]‘‘ (کلید داری اور دربانی)، ’’قضاوت‘‘، قیادت (تجارتی اور جنگی قافلوں کی سربراہی اور سرپرستی) ’’عمارت‘‘ (مسجد الحرام کی دیکھ بھال)، اموال کعبہ کی جمع آوری اور دیکھ بھال کا منصب، [[ دیت ]] اور غرامت کی ادائیگی کا منصب اور ۔۔۔ {{حوالہ درکار}}
کعبہ کے مناصب جو قریش کے پاس تھے؛ یہ ہیں: ’’[[ سقایت ]]‘‘ (کعبہ کے زائرین کو پانی پلانا) ، ’’رفادت‘‘ (زائرین کعبہ کی مہمان نوازی)‘ ’’[[ حجابت ]]‘‘ (کلید داری اور دربانی)، ’’قضاوت‘‘، قیادت (تجارتی اور جنگی قافلوں کی سربراہی اور سرپرستی) ’’عمارت‘‘ (مسجد الحرام کی دیکھ بھال)، اموال کعبہ کی جمع آوری اور دیکھ بھال کا منصب، [[ دیت ]] اور غرامت کی ادائیگی کا منصب اور ۔۔۔ {{حوالہ درکار}}
== دین ==  
== دین ==  
=== حضرت ابراہیمؑ کے دین کی پیروی ===  
=== حضرت ابراہیمؑ کے دین کی پیروی ===  
تاریخ اسلام کے بعض مآخذ کی بنا پر قریشی پہلے [[ حضرت ابراہیم ]] کے دین یعنی [[ دین حنیف ]] پر کاربند تھے۔ مگر آہستہ آہستہ اس سے دور ہو گئے۔ اس کے باوجود دین ابراہیم کے بعض احکام و آداب اسی طرح باقی رہے مگر ان میں بھی تبدیلیاں اور بدعتیں ایجاد کر دی گئیں۔ منجملہ ان بدعتوں میں سے ایک [[ عرفہ میں وقوف ]] کا ترک ہے۔ <ref> {{حوالہ درکار}}</ref>  
تاریخ اسلام کے بعض مآخذ کی بنا پر قریشی پہلے [[ حضرت ابراہیم ]] کے دین یعنی [[ دین حنیف ]] پر کاربند تھے۔ مگر آہستہ آہستہ اس سے دور ہو گئے۔ اس کے باوجود دین ابراہیم کے بعض احکام و آداب اسی طرح باقی رہے مگر ان میں بھی تبدیلیاں اور بدعتیں ایجاد کر دی گئیں۔ منجملہ ان بدعتوں میں سے ایک [[ عرفہ میں وقوف ]] کا ترک ہے۔ <ref> {{حوالہ درکار}}</ref>  
قریشی جانتے تھے کہ [[ عرفہ ]] میں وقوف دین [[ ابراہیمؑ ]] کے احکام میں سے ہے مگر اس کے باوجود انہوں نے خود اسے ترک کر دیا جبکہ دوسرے عربوں پر اسے واجب قرار دیا ور کہنے لگے: ہم ابراہیمؑ کی اولاد، اہل حرم، کعبہ کے خادم اور مجاور ہیں؛ ہمارے لیے سزاوار نہیں ہے کہ حرم سے خارج ہو کر غیر حرم کا حرم کی مانند احترام کریں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس کام سے ان کا عربوں کے نزدیک مقام کم ہوتا ہے۔ <ref> ابن حبیب بغدادی، المنمق، ۱۴۰۵ق، ص۱۲۷. </ref>  
قریشی جانتے تھے کہ [[ عرفہ ]] میں وقوف دین [[ ابراہیمؑ ]] کے احکام میں سے ہے مگر اس کے باوجود انہوں نے خود اسے ترک کر دیا جبکہ دوسرے عربوں پر اسے واجب قرار دیا ور کہنے لگے: ہم ابراہیمؑ کی اولاد، اہل حرم، کعبہ کے خادم اور مجاور ہیں؛ ہمارے لیے سزاوار نہیں ہے کہ حرم سے خارج ہو کر غیر حرم کا حرم کی مانند احترام کریں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس کام سے ان کا عربوں کے نزدیک مقام کم ہوتا ہے۔ <ref> ابن حبیب بغدادی، المنمق، 1405ق، ص127۔ </ref>  
یہ لوگ حرم سے باہر کے لوگوں کو پابند کرتے تھے کہ اپنی اشیائے خوردونوش حرم کے اندر نہ لائیں اور اہل حرم کے کھانے تناول کریں، [[ طواف ]] کے موقع پر اہل مکہ کا قومی اور مقامی لباس پہنیں اور اگر کوئی اسے خریدنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پابرہنہ طواف کرے۔ <ref> ابن هشام، السیرة النبویة، دارالمعرفة، ص۱۲۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۵۹. </ref>
یہ لوگ حرم سے باہر کے لوگوں کو پابند کرتے تھے کہ اپنی اشیائے خوردونوش حرم کے اندر نہ لائیں اور اہل حرم کے کھانے تناول کریں، [[ طواف ]] کے موقع پر اہل مکہ کا قومی اور مقامی لباس پہنیں اور اگر کوئی اسے خریدنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پابرہنہ طواف کرے۔ <ref> ابن هشام، السیرة النبویة، دارالمعرفة، ص129؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج1، ص59۔ </ref>
یہ بدعتیں خاص طور پر عام الفیل کے بعد زور پکڑ گئیں کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے ابرہہ کے لشکر کو تہس نہس کر دیا تھا؛ چونکہ اس واقعے کے بعد کعبہ اور قریش کا مقام عربوں کی نگاہ میں بڑھ گیا۔ عرب کہتے تھے: یہ قریش اللہ والے ہیں کیونکہ خدا نے ان کا دفاع کیا اور ان کے دشمنوں کو نابود کیا۔ <ref> ابن هشام، السیرة النبویة، دارالمعرفة، ص۱۲۹؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۵۹.</ref> وہ لوگ اعمال [[ حج ]] کی ادائیگی کے دوران:
یہ بدعتیں خاص طور پر عام الفیل کے بعد زور پکڑ گئیں کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے ابرہہ کے لشکر کو تہس نہس کر دیا تھا؛ چونکہ اس واقعے کے بعد کعبہ اور قریش کا مقام عربوں کی نگاہ میں بڑھ گیا۔ عرب کہتے تھے: یہ قریش اللہ والے ہیں کیونکہ خدا نے ان کا دفاع کیا اور ان کے دشمنوں کو نابود کیا۔ <ref> ابن هشام، السیرة النبویة، دارالمعرفة، ص129؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج1، ص59۔</ref> وہ لوگ اعمال [[ حج ]] کی ادائیگی کے دوران:
* تلی ہوئی اشیا نہیں پکاتے تھے۔
* تلی ہوئی اشیا نہیں پکاتے تھے۔
* دودھ ذخیرہ نہیں کرتے تھے۔
* دودھ ذخیرہ نہیں کرتے تھے۔
سطر 34: سطر 34:
* گوشت نہیں کھاتے تھے۔
* گوشت نہیں کھاتے تھے۔
* مکہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے۔
* مکہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں داخل نہیں ہوتے تھے۔
* مناسک حج کی ادائیگی کے دوران چمڑے کے خیموں میں رہتے تھے۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج۱، ص۲۵۶؛ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۵۹.</ref>  
* مناسک حج کی ادائیگی کے دوران چمڑے کے خیموں میں رہتے تھے۔<ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج1، ص256؛ابن سعد، الطبقات الکبری، 1410ق، ج1، ص59۔</ref>  
=== بت پرستی ===  
=== بت پرستی ===  
مکہ کے لوگ آئین [[ اسماعیل ]] پر باقی تھے مگر [[ عمرو بن لحی خزاعی ]] نے اسے تبدیل کر دیا۔ شام کے علاقے بلقاء کی جانب ایک سفر کے بعد وہ کچھ بت مکہ لے آیا اور مکہ میں بت پرستی کی ترویج کرنے لگا۔ <ref> ابن کلبی، الاصنام، ۱۴۲۱ق، ص۸.</ref>   
مکہ کے لوگ آئین [[ اسماعیل ]] پر باقی تھے مگر [[ عمرو بن لحی خزاعی ]] نے اسے تبدیل کر دیا۔ شام کے علاقے بلقاء کی جانب ایک سفر کے بعد وہ کچھ بت مکہ لے آیا اور مکہ میں بت پرستی کی ترویج کرنے لگا۔ <ref> ابن کلبی، الاصنام، 1421ق، ص8۔</ref>   
عزی، ہبل، أساف، نائلہ اور منات کا شمار قریش کے معروف بتوں میں ہوتا تھا۔
عزی، ہبل، أساف، نائلہ اور منات کا شمار قریش کے معروف بتوں میں ہوتا تھا۔
* ’’عزی‘‘ ان کا سب سے بڑا بت تھا، اس لیے قریش کو عزّی بھی کہتے تھے۔ وہ عزی کی زیارت کرتے، اس کیلئے تحائف لے جاتے،  اس کیلئے قربانی کرتے اور اس کے [[ تقرّب ]] کی سعی میں مشغول رہتے تھے۔  
* ’’عزی‘‘ ان کا سب سے بڑا بت تھا، اس لیے قریش کو عزّی بھی کہتے تھے۔ وہ عزی کی زیارت کرتے، اس کیلئے تحائف لے جاتے،  اس کیلئے قربانی کرتے اور اس کے [[ تقرّب ]] کی سعی میں مشغول رہتے تھے۔  
* ’’ہبل‘‘ کو سرخ عقیق سے انسانی شکل میں بنایا گیا تھا اور کعبہ کے اندر کا سب سے بڑا بت شمار ہوتا تھا۔ <ref> ابن کلبی، الاصنام، ۱۴۲۱ق، ص۲۷-۲۸.</ref>  
* ’’ہبل‘‘ کو سرخ عقیق سے انسانی شکل میں بنایا گیا تھا اور کعبہ کے اندر کا سب سے بڑا بت شمار ہوتا تھا۔ <ref> ابن کلبی، الاصنام، 1421ق، ص27-28۔</ref>  
* اساف اور نائلہ بھی قریش کے دو بت تھے اور وہ اس کی پرستش کرتے تھے۔ یہ دونوں بت مسخ شدہ پتھر کی شکل میں تھے۔ قریش نے انہیں کعبہ کے سامنے لوگوں کی نصیحت کیلئے رکھا ہوا تھا۔ <ref> ابن کلبی، الاصنام، ۱۴۲۱ق، ص ۹ و ۲۹؛ ابن هشام، السیرة النبویة، دار المعرفة، ص۸۲.</ref>  
* اساف اور نائلہ بھی قریش کے دو بت تھے اور وہ اس کی پرستش کرتے تھے۔ یہ دونوں بت مسخ شدہ پتھر کی شکل میں تھے۔ قریش نے انہیں کعبہ کے سامنے لوگوں کی نصیحت کیلئے رکھا ہوا تھا۔ <ref> ابن کلبی، الاصنام، 1421ق، ص 9 و 29؛ ابن هشام، السیرة النبویة، دار المعرفة، ص82۔</ref>  
* منات بھی ان بتوں میں سے تھا کہ جسے دیگر عربوں کے علاوہ قریش بھی لائقِ احترام سمجھتے  تھے۔ <ref> ابن کلبی، الاصنام، ۱۴۲۱ق، ص۱۳.</ref>  
* منات بھی ان بتوں میں سے تھا کہ جسے دیگر عربوں کے علاوہ قریش بھی لائقِ احترام سمجھتے  تھے۔ <ref> ابن کلبی، الاصنام، 1421ق، ص13۔</ref>  
اس کے باوجود قریش میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جو بت پرستی میں ملوث نہیں تھے اور [[ دین حنیف ]] کے پیرو تھے یا نصرانی ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ قریش میں اور بالخصوص بنی ہاشم کے خاندان میں آئین ابراہیمؑ کے پیروکار موجود تھے۔ [[ ورقہ بن نوفل ]] ان شخصیات میں سے تھا کہ جس نے بت پرستی چھوڑ کر [[ مسیحیت ]] اختیار کر لی تھی۔ <ref> ابن قتیبة، المعارف، قاهره، ص۵۹.</ref> زید بن عمرو بن نفیل نے بھی بت پرستی چھوڑ دی تھی اور دین کی تلاش میں تھا یہاں تک کہ اسے شام میں عیسائیوں نے قتل کر دیا۔ <ref> </ref>  
اس کے باوجود قریش میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ جو بت پرستی میں ملوث نہیں تھے اور [[ دین حنیف ]] کے پیرو تھے یا نصرانی ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ قریش میں اور بالخصوص بنی ہاشم کے خاندان میں آئین ابراہیمؑ کے پیروکار موجود تھے۔ [[ ورقہ بن نوفل ]] ان شخصیات میں سے تھا کہ جس نے بت پرستی چھوڑ کر [[ مسیحیت ]] اختیار کر لی تھی۔ <ref> ابن قتیبة، المعارف، قاهره، ص59۔</ref> زید بن عمرو بن نفیل نے بھی بت پرستی چھوڑ دی تھی اور دین کی تلاش میں تھا یہاں تک کہ اسے شام میں عیسائیوں نے قتل کر دیا۔ <ref> </ref>  
== پیمان مطیبن ==  
== پیمان مطیبن ==  
اصلی مضمون: [[ حلف المطیبین ]]  
اصلی مضمون: [[ حلف المطیبین ]]  
سطر 48: سطر 48:
پہلا گروہ: انہوں نے عبد شمس بن عبد مناف کی سربراہی میں بنی مخزوم، بنی سهم بن عمرو، بنی جمح بن عمرو اور بنی عدی بن کعب کیساتھ مل کر بنی عبد الدار کیساتھ پیمان باندھا۔  
پہلا گروہ: انہوں نے عبد شمس بن عبد مناف کی سربراہی میں بنی مخزوم، بنی سهم بن عمرو، بنی جمح بن عمرو اور بنی عدی بن کعب کیساتھ مل کر بنی عبد الدار کیساتھ پیمان باندھا۔  
دوسرا گروہ: انہوں نے عبد الدار عامر بن ہاشم بن عبد مناف کی زیر قیادت؛ بنی ‌اسد بن عبد العزی، بنی‌ زهره بن کلاب، بنی ‌تیم بن مرة بن کعب اور بنی‌حارث بن فهر بن مالک کیساتھ مل کر ’’عبد مناف‘‘ کی حمایت کا اعلان کیا۔
دوسرا گروہ: انہوں نے عبد الدار عامر بن ہاشم بن عبد مناف کی زیر قیادت؛ بنی ‌اسد بن عبد العزی، بنی‌ زهره بن کلاب، بنی ‌تیم بن مرة بن کعب اور بنی‌حارث بن فهر بن مالک کیساتھ مل کر ’’عبد مناف‘‘ کی حمایت کا اعلان کیا۔
پس ہر گروہ نے دوسرے کے خلاف عہد و پیمان باندھ لیا۔ عبد مناف کے حامیوں نے اپنے ہاتھ عطر کے ایک برتن میں ڈال کر کعبہ سے مس کیے اور اپنی ثابت قدمی کا یقین دلایا۔ اس کے جواب میں عبد الدار کے حامیوں نے بھی اپنے ہاتھ خون کے ایک برتن سے تر کر کے کعبہ کی دیوار پر ملے اور قسم کھائی کہ اس وقت تک سرتسلیم خم نہیں کریں گے اور آرام نہیں کریں گے کہ جب تک کامیاب نہ ہو جائیں۔ <ref> ابن هشام، السیرة النبویة، دار المعرفة، ص۱۳۱-۱۳۲؛ بلاذری،انساب الاشراف، ۱۹۹۶م، ج۱، ص۵۶.</ref> البتہ آخرکار دونوں فریقوں نے صلح پر رضامندی ظاہر کر دی اور مکہ کے عہدوں کو آپس میں تقسیم کر لیا۔<ref> ابن هشام، السیرة النبویه، دار المعرفة، ص۱۳۲؛ بلاذری،انساب الاشراف، ۱۹۹۶م، ص۵۶.</ref>   
پس ہر گروہ نے دوسرے کے خلاف عہد و پیمان باندھ لیا۔ عبد مناف کے حامیوں نے اپنے ہاتھ عطر کے ایک برتن میں ڈال کر کعبہ سے مس کیے اور اپنی ثابت قدمی کا یقین دلایا۔ اس کے جواب میں عبد الدار کے حامیوں نے بھی اپنے ہاتھ خون کے ایک برتن سے تر کر کے کعبہ کی دیوار پر ملے اور قسم کھائی کہ اس وقت تک سرتسلیم خم نہیں کریں گے اور آرام نہیں کریں گے کہ جب تک کامیاب نہ ہو جائیں۔ <ref> ابن هشام، السیرة النبویة، دار المعرفة، ص131-132؛ بلاذری،انساب الاشراف، 1996م، ج1، ص56۔</ref> البتہ آخرکار دونوں فریقوں نے صلح پر رضامندی ظاہر کر دی اور مکہ کے عہدوں کو آپس میں تقسیم کر لیا۔<ref> ابن هشام، السیرة النبویه، دار المعرفة، ص132؛ بلاذری،انساب الاشراف، 1996م، ص56۔</ref>   
== حلف الفضول ==
== حلف الفضول ==
اصلی مضمون: [[ حلف الفضول ]]  
اصلی مضمون: [[ حلف الفضول ]]  
اس معاہدے کا سبب یہ تھا کہ یمن کے بنو زبید کا ایک آدمی مکہ آیا اور [[ عاص بن وائل سھمی ]] کو ایک جنس فروخت کی؛ مگر عاص نے اس کے پیسے دینے میں تاخیر کی یہاں تک کہ وہ شخص مایوس ہو کر کوہ ابوقبیس کے اوپر چڑھ کر اشعار کے قالب میں فریادیں بلند کرنے لگا۔ کچھ قریشی اس واقعے پر شرمندہ ہوئے اور چارہ جوئی کی تدبیر کرنے لگے۔ [[ زبیر بن عبد المطلب ]] اس کام میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے قریشی گروہوں کو [[ دار الندوۃ ]] میں جمع کیا اور وہاں سے [[ عبد اللہ بن جدعان ]] کے گھر چلا گئے۔ یہاں پیمان باندھا کہ ’’ہر مظلوم کی مدد اور اس کا حق لینے کیلئے ایک دوسرےے کی مدد کریں گے اور اجازت نہیں دیں گے کہ مکہ میں کسی پر ظلم ہو‘‘۔ قریش نے اس پیمان کو [[ حلف الفضول ]] کا نام دیا۔ <ref> مسعودی، مروج الذهب، ص۲۷۱؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۱۸.</ref>  
اس معاہدے کا سبب یہ تھا کہ یمن کے بنو زبید کا ایک آدمی مکہ آیا اور [[ عاص بن وائل سھمی ]] کو ایک جنس فروخت کی؛ مگر عاص نے اس کے پیسے دینے میں تاخیر کی یہاں تک کہ وہ شخص مایوس ہو کر کوہ ابوقبیس کے اوپر چڑھ کر اشعار کے قالب میں فریادیں بلند کرنے لگا۔ کچھ قریشی اس واقعے پر شرمندہ ہوئے اور چارہ جوئی کی تدبیر کرنے لگے۔ [[ زبیر بن عبد المطلب ]] اس کام میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے قریشی گروہوں کو [[ دار الندوۃ ]] میں جمع کیا اور وہاں سے [[ عبد اللہ بن جدعان ]] کے گھر چلا گئے۔ یہاں پیمان باندھا کہ ’’ہر مظلوم کی مدد اور اس کا حق لینے کیلئے ایک دوسرےے کی مدد کریں گے اور اجازت نہیں دیں گے کہ مکہ میں کسی پر ظلم ہو‘‘۔ قریش نے اس پیمان کو [[ حلف الفضول ]] کا نام دیا۔ <ref> مسعودی، مروج الذهب، ص271؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج2، ص18۔</ref>  
== جنگیں ==  
== جنگیں ==  
اسلام سے پہلے قبائل کے درمیان بہت سی جنگیں ہوئیں کہ جس میں قریش کے کچھ لوگ بھی شامل ہوئے۔ ان میں سے معروف ترین جنگیں وہ تھیں کہ جو حرام مہینوں میں لڑی جانے کی وجہ سے [[ حروبِ فجار ]] کے نام سے مشہور ہوئیں۔ <ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۱۷.</ref> اسلام کے بعد بھی قریش نے [[ پیغمبرؐ ]] اور [[ مسلمانوں ]] سے جنگیں لڑیں کہ جن میں سے مشہور ترین جنگیں [[ غزوہ بدر ]] ، [[ غزوہ احد ]] اور [[ غزوہ خندق ]] ہیں۔ <ref> ر.ک به مدخل غزوه</ref>  
اسلام سے پہلے قبائل کے درمیان بہت سی جنگیں ہوئیں کہ جس میں قریش کے کچھ لوگ بھی شامل ہوئے۔ ان میں سے معروف ترین جنگیں وہ تھیں کہ جو حرام مہینوں میں لڑی جانے کی وجہ سے [[ حروبِ فجار ]] کے نام سے مشہور ہوئیں۔ <ref> یعقوبی، تاریخ یعقوبی، دارصادر، ج2، ص17۔</ref> اسلام کے بعد بھی قریش نے [[ پیغمبرؐ ]] اور [[ مسلمانوں ]] سے جنگیں لڑیں کہ جن میں سے مشہور ترین جنگیں [[ غزوہ بدر ]] ، [[ غزوہ احد ]] اور [[ غزوہ خندق ]] ہیں۔ <ref> ر۔ک به مدخل غزوه</ref>  


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
سطر 59: سطر 59:
==مآخذ==
==مآخذ==
{{ستون آ|2}}
{{ستون آ|2}}
* ابن حبیب بغدادی؛ المنمق فی اخبار القریش، تحقیق خور شید احمد فاروق، بیروت، عالم الکتب، چاپ اول.
* ابن حبیب بغدادی؛ المنمق فی اخبار القریش، تحقیق خور شید احمد فاروق، بیروت، عالم الکتب، چاپ اول۔
* ابن سعد؛ طبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطاء، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ اول.
* ابن سعد؛ طبقات الکبری، تحقیق محمد عبد القادر عطاء، بیروت، دارالکتب العلمیہ، چاپ اول۔
* ابن قتیبہ؛ المعارف، تحقیق ثروت عکاشہ، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، چاپ دوم.
* ابن قتیبہ؛ المعارف، تحقیق ثروت عکاشہ، قاہرہ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، چاپ دوم۔
* ابن ہشام؛ السیرۃ النبویہ، تحقیق مصطفی السقا و دیگران، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا.
* ابن ہشام؛ السیرۃ النبویہ، تحقیق مصطفی السقا و دیگران، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا۔
* اصفہانی، ابوالفرج؛ الاغانی، بیروت،‌دار احیاء التراث العربی.
* اصفہانی، ابوالفرج؛ الاغانی، بیروت،‌دار احیاء التراث العربی۔
* بلاذری؛ انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکارو ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، چاپ اول، ۱۹۹۶.
* بلاذری؛ انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکارو ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، چاپ اول، 1996۔
* سمعانی؛ الانساب، تحقیق عبدالرحمن بن یحیی المعلمی الیمانی، حیدرآباد، مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، چاپ اول.
* سمعانی؛ الانساب، تحقیق عبدالرحمن بن یحیی المعلمی الیمانی، حیدرآباد، مجلس دائرۃ المعارف العثمانیہ، چاپ اول۔
* معجم البلدان، شہاب الدین ابو عبد اللہ یاقوت بن عبد اللہ الحموی (م ۶۲۶)، بیروت،‌دار صادر، ط الثانیۃ، ۱۹۹۵.
* معجم البلدان، شہاب الدین ابو عبد اللہ یاقوت بن عبد اللہ الحموی (م 626)، بیروت،‌دار صادر، ط الثانیۃ، 1995۔
* یعقوبی؛ تاریخ یعقوبی، بیروت، دارالصادر، چاپ دوم، ۱۹۸۸.
* یعقوبی؛ تاریخ یعقوبی، بیروت، دارالصادر، چاپ دوم، 1988۔
* مسعودی؛ مروج الذہب، تحقیق اسعد داغر قم‌دار المجری، چاپ دوم، ۱۴۰۹.
* مسعودی؛ مروج الذہب، تحقیق اسعد داغر قم‌دار المجری، چاپ دوم، 1409۔
* مقدسی، مطہر بن طاہر؛ البدء و التاریخ، پورسعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ بی‌تا.
* مقدسی، مطہر بن طاہر؛ البدء و التاریخ، پورسعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ بی‌تا۔
* کلبی، ہشام بن محمد؛ الاصنام، تحقیق احمد زکی پاشا، قاہرہ، افست تہران، نشر نو، چاپ دوم.
* کلبی، ہشام بن محمد؛ الاصنام، تحقیق احمد زکی پاشا، قاہرہ، افست تہران، نشر نو، چاپ دوم۔
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}


گمنام صارف