مندرجات کا رخ کریں

"علامہ حلی" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 105: سطر 105:


اس داستان کا سب سے قدیمی‌ منبع کتاب [[مجالس المؤمنین (کتاب)|مجالس المومنین]] تالیف [[سید نوراللہ حسینی شوشتری|قاضی نوراللہ شوشتری]] ہے۔ انہوں نے اس واقعے کیلئے کوئی مکتوب منبع ذکر کئے بغیر لکھا ہے کہ یہ واقعہ مؤمنین کے درمیان مشہور ہے۔ <ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۱، ص۵۷۱</ref>
اس داستان کا سب سے قدیمی‌ منبع کتاب [[مجالس المؤمنین (کتاب)|مجالس المومنین]] تالیف [[سید نوراللہ حسینی شوشتری|قاضی نوراللہ شوشتری]] ہے۔ انہوں نے اس واقعے کیلئے کوئی مکتوب منبع ذکر کئے بغیر لکھا ہے کہ یہ واقعہ مؤمنین کے درمیان مشہور ہے۔ <ref>شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۱، ص۵۷۱</ref>
===کربلا کے راستے میں ملاقات===<!--
===کربلا کے راستے میں ملاقات===
ماجرای دوم در کتاب [[قصص العلماء (کتاب)|قصص العلما]] نوشتہ [[محمد بن سلیمان تنکابنی|تنکابنی]] نقل شدہ است. و بر اساس نقل او در یکی از سفرہای علامہ حلی بہ [[کربلا]] او در میان راہ با سیدی ہمراہ می‌شود و پس از گفتگو با او متوجہ می‌شود کہ او شخص بسیار عالمی است و مسائل مشکل علمی خود را با او در میان می‌گذارد و جواب می‌گیرد و در این بین از او سوال می‌کند کہ آیا در زمان [[غیبت کبری]] امکان ملاقات با امام عصر(ع) وجود دارد؟ و ہمزمان تازیہ از دستش می‌افتد آن شخص تازیانہ را از زمین برداشتہ بہ علامہ می‌دہد و جواب می‌دہد کہ چگونہ ممکن نباشد در حالی کہ دست او ہم‌اکنون در دست توست. علامہ حلی متوجہ می‌شود کہ آن شخص خود امام مہدی(ع) است و خود را بہ پای ایشان می‌اندازد. <ref>تنکابنی، قصص العلماء، ص۸۸۳</ref>
دوسرا واقعہ [[قصص العلماء (کتاب)|قصص العلما]] تالیف [[محمد بن سلیمان تنکابنی|تنکابنی]] میں نقل ہوا ہے۔ مصنف کی مطابق علامہ حلی کی [[کربلا]] کی طرف سفر کے دوران ایک دفعہ راستے میں ان کی کسی سید سے ملاقات ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ گفتگو کے دوران معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی علمی شخصیت ہے لہذا علامہ نے اپنی علمی مشکلات کو ان سے دریافت کرنا شروع کیا اور وہ ان سوالوں کا جواب دیتے گئے۔ اسی دوران ایک دفعہ علامہ حلی سوال کرتے ہیں کہ آیا زمانہ [[غیبت کبری]] میں [[امام مہدی(ع)|امام عصر(ع)]] سے مقلاقات کا امکان ہے یا نہیں؟ اس سوال کے ساتھ علامہ حلی کے ہاتھ سے تازیانہ زمین پر گر جاتا ہے تو وہ شخص زمین سے اس تازیانہ کو اٹھا کر علامہ حلی کو دیتے ہوئے جواب دیتے ہیں کہ کیسے ممکن نہیں ہے جبکہ اس (امام زمانہ) کا ہاتھ ابھی تمہارے ہاتھ میں ہے۔ اس وقت علامہ حلی متوجہ ہوتے ہیں کہ یہ شخص خود امام زمانہ(ع) ہیں۔ یہ معلوم ہوتے ہی علامہ حلی نے خود کو امام کے قدموں میں گرا دیا۔ <ref>تنکابنی، قصص العلماء، ص۸۸۳</ref>


تنکابنی برای این داستان منبعی ذکر نکزمرہ و آن را بہ عنوان داستانی کہ در السنہ و افواہ (زبان ہا و دہان ہا) مشہور است نقل می‌کند. <ref>تنکابنی، قصص العلماء، ص۸۸۳</ref> شاہدی کہ تنکابنی برای تأیید داستان ذکر می‌کند آن است کہ در مکالمہ بین علامہ و آن شخص،‌ او آدرس حدیثی در کتاب [[تہذیب الاحکام (کتاب)|تہذیب]] [[شیخ طوسی]] را بہ علامہ می‌دہد کہ علامہ متوجہ آن حدیث نبودہ است. علامہ پس از بازگشت بہ منزل آن حدیث را یافتہ و در حاشیہ آن می‌نویسد کہ امام عصر(ع) مرا بہ این حدیث راہنمایی کزمرہ است. تنکابنی ماجرا را از شخصی بہ نام ملا صفرعلی لاہیجی شاگرد [[سید محمد طباطبایی|سید محمد]] صاحب مناہل نقل کزمرہ است. لاہیجی از استادش سید محمد نقل می‌کند کہ  آن کتاب و آن یادداشت علامہ حلی را دیدہ‌ است.<ref>تنکابنی، قصص العلماء، ص۸۸۵</ref>
تنکابنی اس داستان کیلئے کوئی منبع ذکر کئے بغیر اسے لوگوں کی زبانی مشہور داستانوں کے طور پر ذکر کرتے ہیں۔ <ref>تنکابنی، قصص العلماء، ص۸۸۳</ref> اپنی بات پر گواہ کے طور پر انہوں نے جس چیز کو ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ علامہ اور اس شخص کے درمیان ہونے والی گفتگو میں اس شخص نے علامہ کو [[شیخ طوسی]] کی کتاب [[تہذیب الاحکام]] میں ایک حدیث کا ایڈریس بتا دیتے ہیں جس سے علامہ آگاہ نہیں تھے۔ جب علامہ اس سفر سے واپس آکر اس حدیث کو مذکورہ کتاب میں دریافت کرتے ہیں اور اس کے حاشیہ میں علامہ حلی لکھتے ہیں کہ امام عصر(ع) نے مجھے اس حدیث کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ تنکابنی اس واقعہ کو [[سید محمد طباطبایی]] صاحب مناہل کے ایک شاگرد "ملا صفرعلی لاہیجی" سے نقل کیا ہے۔ لاہیجی اپنے استاد سے نقل کرتے ہیں جنہوں نے اس کتاب اور اس میں علامہ حلی کی یاداشت کو دیکھا ہے۔ <ref>تنکابنی، قصص العلماء، ص۸۸۵</ref>


==وفات ==
==وفات ==
علامہ حلی پس از مرگ [[اولجایتو|سلطان محمد خدابندہ]] در سال ۷۱۶ قمری بہ شہر [[حلہ]] بازگشت و تا آخر عمر در آنجا اقامت گزید. وی سرانجام ۲۱ [[محرم]] ۷۲۶ قمری در سن ۷۸ سالگی، در شہر [[حلہ]] وفات یافت و در [[حرم امیرالمومنین]] بہ خاک سپزمرہ شد.<ref>امین، اعیان الشیعہ، ج۲۴، ص ۲۲۳ و شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۱، ص ۵۷۴</ref>
علامہ حلی سنہ ۷۱۶ قمری کو [[سلطان محمد خدابندہ]] کی وفات کی بعد اپنے آبائی شہر [[حلہ]] واپس آتے ہیں اور آخر عمر تک وہیں قیام پذیر ہوتے ہیں۔ آخر کار 21 [[محرم]] سنہ ۷۲۶ قمری کو ۷۸ سال کی عمر میں "حلہ" میں وفات پاتے ہیں اور [[حرم امام علی(ع)|حرم امیرالمومنین(ع)]] میں سپرد خاک کیا جاتا ہے۔<ref>امین، اعیان الشیعہ، ج۲۴، ص ۲۲۳ و شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۱، ص ۵۷۴</ref>
-->


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
confirmed، templateeditor
8,912

ترامیم