مندرجات کا رخ کریں

"حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی شادی" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 5: سطر 5:
رخصتی کے وقت پیغمبر اکرمؐ نے حضرت فاطمہؑ کا ہاتھ امام علیؑ کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے دعا فرمائی: خدایا ان کے دلوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے کے نزدیک اور ان کی نسل کو مبارک قرار دے۔
رخصتی کے وقت پیغمبر اکرمؐ نے حضرت فاطمہؑ کا ہاتھ امام علیؑ کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے دعا فرمائی: خدایا ان کے دلوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے کے نزدیک اور ان کی نسل کو مبارک قرار دے۔
==  خواستگار==
==  خواستگار==
شیعہ اور سنی کے مصادر میں [[حضرت فاطمہؑ]] کا رشتہ مانگنے کے بارے میں مختلف قول نقل ہوئے ہیں. کہا گیا ہے کہ [[مدینہ]] میں کچھ [[صحابہ]] جیسے [[ابوبکر]]، [[عمربن خطاب]] اور [[عبدالرحمن بن عوف]]  حضرت فاطمہؑ کا ہاتھ مانگنے کے لئے آئے لیکن [[پیغمبرؐ]] نے جواب میں فرمایا: آپؑ کی شادی کا فیصلہ [[خدا]] کے ہاتھ میں ہے؛ اور فرمایا: میں خود اس بارے میں حکم خدا کا منتظر ہوں.<ref>ابن سعد، طبقات، ح۸، ص۱۱؛ قزوینی، فاطمۃ الزہراء از ولادت تا شہادت، ص۱۹۱.</ref>
شیعہ اور سنی کے مصادر میں [[حضرت فاطمہؑ]] کا رشتہ مانگنے کے بارے میں مختلف قول نقل ہوئے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ [[مدینہ]] میں کچھ [[صحابہ]] جیسے [[ابوبکر]]، [[عمربن خطاب]] اور [[عبدالرحمن بن عوف]]  حضرت فاطمہؑ کا ہاتھ مانگنے کے لئے آئے لیکن [[پیغمبرؐ]] نے جواب میں فرمایا: آپؑ کی شادی کا فیصلہ [[خدا]] کے ہاتھ میں ہے؛ اور فرمایا: میں خود اس بارے میں حکم خدا کا منتظر ہوں۔<ref>ابن سعد، طبقات، ح۸، ص۱۱؛ قزوینی، فاطمۃ الزہراء از ولادت تا شہادت، ص۱۹۱۔</ref>
بعض مہاجرین نے [[حضرت علیؑ]] سے کہا: کہ آپ [[حضرت فاطمہؑ]] کا رشتہ کیوں نہیں مانگتے؟ آپؑ نے جواب دیا: ۔خدا کی قسم! میرے پاس کچھ نہیں ہے. تو [[مہاجرین]] نے کہا کہ پیغمبرؐ آپ سے کچھ نہیں مانگیں گے. آخر کار علیؑ رسول خداؐ کے پاس گئے لیکن شرم کی وجہ سے اس بارے میں کوئی درخواست نہ کی. تیسری بار آخر آپؑ نے اس بارے میں حضرت پیغمبرؐ سے بات کی. پیغمبرؐ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ علیؑ نے فرمایا: یا رسول اللہؐ! ایک زرہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے. حضرت پیغمبرؐ نے حضرت فاطمہؑ کا ساڑھے بارہ اوقیہ  سونا [[حق مہر]] رکھنے کے بعد حضرت علیؑ کے ساتھ شادی کر دی اور زرہ بھی حضرت علیؑ کو واپس لوٹا دی.<ref> اعلام الوری، ج۱، ص۱۶۱؛ تاریخ تحقیقی اسلام، محمد ہادی یوسفی غروی، ج۲، ص۲۵۱.</ref>
بعض مہاجرین نے [[حضرت علیؑ]] سے کہا: کہ آپ [[حضرت فاطمہؑ]] کا رشتہ کیوں نہیں مانگتے؟ آپؑ نے جواب دیا: ۔خدا کی قسم! میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ تو [[مہاجرین]] نے کہا کہ پیغمبرؐ آپ سے کچھ نہیں مانگیں گے۔ آخر کار علیؑ رسول خداؐ کے پاس گئے لیکن شرم کی وجہ سے اس بارے میں کوئی درخواست نہ کی۔ تیسری بار آخر آپؑ نے اس بارے میں حضرت پیغمبرؐ سے بات کی۔ پیغمبرؐ نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ علیؑ نے فرمایا: یا رسول اللہؐ! ایک زرہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ حضرت پیغمبرؐ نے حضرت فاطمہؑ کا ساڑھے بارہ اوقیہ  سونا [[حق مہر]] رکھنے کے بعد حضرت علیؑ کے ساتھ شادی کر دی اور زرہ بھی حضرت علیؑ کو واپس لوٹا دی۔<ref> اعلام الوری، ج۱، ص۱۶۱؛ تاریخ تحقیقی اسلام، محمد ہادی یوسفی غروی، ج۲، ص۲۵۱۔</ref>
کہا گیا ہے کہ بعض مہاجرین نے اس بات پر شکوہ کیا تو حضرت پیغمبرؐ نے فرمایا: فاطمہ کا ہاتھ علی کے ہاتھ میں، میں نے نہیں دیا بلکہ [[خدا]] نے دیا ہے. <ref> تاريخ يعقوبي، ج۲، ص۴۱.</ref>
کہا گیا ہے کہ بعض مہاجرین نے اس بات پر شکوہ کیا تو حضرت پیغمبرؐ نے فرمایا: فاطمہ کا ہاتھ علی کے ہاتھ میں، میں نے نہیں دیا بلکہ [[خدا]] نے دیا ہے۔ <ref> تاريخ يعقوبي، ج۲، ص۴۱۔</ref>


== خطبہ نکاح==
== خطبہ نکاح==
[[ابن شہر آشوب]] نے [[مناقب آل ابی طالب]] میں لکھا ہے کہ حضرت فاطمہؑ کی شادی کے وقت حضرت  منبر پر گئے اور یہ خطبہ ارشاد فرمایا:
[[ابن شہر آشوب]] نے [[مناقب آل ابی طالب]] میں لکھا ہے کہ حضرت فاطمہؑ کی شادی کے وقت حضرت  منبر پر گئے اور یہ خطبہ ارشاد فرمایا:
:خداوند نے مجھے حکم دیا ہے کہ [[فاطمہؑ]] کا نکاح علیؑ کے ساتھ کروں اور اگر علی راضی ہو تو چار سو مثقال چاندی [[حق مہر]] کے طور پر میں فاطمہ ؑ کا [[نکاح]] علیؑ کے ساتھ کر دوں. علیؑ نے فرمایا میں اس کام پر راضی ہوں.<ref> مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۳۵۰</ref>
:خداوند نے مجھے حکم دیا ہے کہ [[فاطمہؑ]] کا نکاح علیؑ کے ساتھ کروں اور اگر علی راضی ہو تو چار سو مثقال چاندی [[حق مہر]] کے طور پر میں فاطمہ ؑ کا [[نکاح]] علیؑ کے ساتھ کر دوں۔ علیؑ نے فرمایا میں اس کام پر راضی ہوں۔<ref> مناقب آل ابی طالب، ج۳، ص۳۵۰</ref>


بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہ کی موجودگی میں خدا نے حضرت علی کیلئے دوسری شادی حرام قرار دی تھی اسی لئے حضرت فاطمہ کی زندگی میں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔<ref> شیخ طوسی، الأمالی، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۱۰۱؛ علامه مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۳، ص۱۵۳، ح۱۱.</ref>
بعض روایات کے مطابق حضرت فاطمہ کی موجودگی میں خدا نے حضرت علی کیلئے دوسری شادی حرام قرار دی تھی اسی لئے حضرت فاطمہ کی زندگی میں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔<ref> شیخ طوسی، الأمالی، ۱۳۸۸ش، ج۱، ص۱۰۱؛ علامه مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۳، ص۱۵۳، ح۱۱۔</ref>


==شادی کی تاریخ==
==شادی کی تاریخ==
   
   
*[[کلینی]] نے [[اصول کافی|کافی]] میں [[امام سجادؑ]] سے قول نقل کیا ہے کہ [[ہجرت مدینہ]]  کے ایک سال بعد رسول اللہؐ نے حضرت فاطمہؑ کی شادی حضرت علیؑ کے ساتھ کر دی.<ref> روضہ کافی، ص۱۸۰.</ref> یہ قول [[امام باقرؑ]] کے اس قول کے موافق ہے جسے  طبرئ نے نقل کیا ہے۔ اس میں مذکور ہے  کہ ہجری کے دوسرے سال [[صفر]] کا مہینہ شروع ہونے میں کچھ دن باقی تھے تو اس وقت علیؑ نے حضرت فاطمہؑ سے شادی کی.<ref>تاریخ طبری، ابو جعفر محمد بن جریر طبری، ج۲، ص۴۱۰</ref>
*[[کلینی]] نے [[اصول کافی|کافی]] میں [[امام سجادؑ]] سے قول نقل کیا ہے کہ [[ہجرت مدینہ]]  کے ایک سال بعد رسول اللہؐ نے حضرت فاطمہؑ کی شادی حضرت علیؑ کے ساتھ کر دی۔<ref> روضہ کافی، ص۱۸۰۔</ref> یہ قول [[امام باقرؑ]] کے اس قول کے موافق ہے جسے  طبرئ نے نقل کیا ہے۔ اس میں مذکور ہے  کہ ہجری کے دوسرے سال [[صفر]] کا مہینہ شروع ہونے میں کچھ دن باقی تھے تو اس وقت علیؑ نے حضرت فاطمہؑ سے شادی کی۔<ref>تاریخ طبری، ابو جعفر محمد بن جریر طبری، ج۲، ص۴۱۰</ref>
:[[ابوالفرج اصفہانی]] نے مقاتل الطالبیین میں طبری کا یہی قول لکھا اور اس کے بعد کہا کہ: .. [[جنگ بدر]] سے واپسی پر علیؑ نے فاطمہؑ سے شادی کی. <ref> مقاتل الطالبین، ابوالفرج علی بن الحسین الاصفہانی، تحقیق سید احمد صقر، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا، ص۳۰،  میں مذکور ہے کہ  فاطمہ زہرا ؑ کا اس وقت سن اٹھارہ سال تھا۔</ref>
:[[ابوالفرج اصفہانی]] نے مقاتل الطالبیین میں طبری کا یہی قول لکھا اور اس کے بعد کہا کہ: ۔۔ [[جنگ بدر]] سے واپسی پر علیؑ نے فاطمہؑ سے شادی کی۔ <ref> مقاتل الطالبین، ابوالفرج علی بن الحسین الاصفہانی، تحقیق سید احمد صقر، بیروت، دارالمعرفہ، بی‌تا، ص۳۰،  میں مذکور ہے کہ  فاطمہ زہرا ؑ کا اس وقت سن اٹھارہ سال تھا۔</ref>
*پیغمبرؐ نے ہجرت کے دوسرے سال پہلی [[ذی الحج]] کے دن [[حضرت فاطمہؑ]] کو [[امیرالمومنینؑ]] کے گھر بھیجا. <ref>بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج۴۳، ص۹۲.</ref> اس لئے شادی اور نکاح کے درمیان تقریباً دس مہینے کا فاصلہ تھا. شاید نکاح کا صیغہ جلدی پڑھنے کی وجہ یہ تھی کہ دوسرے رشتے مانگنے والے لوگوں کے لئے جواب واضح ہو جائے اور شادی کی دیر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ فاطمہؑ جسمانی رشد و نما کے لحاظ سے بہتر ہو جائیں. <ref> یوسفی غروی، محمد ہادی؛ تاریخ تحقیقی اسلام، ج۲، ص۲۵۰.</ref>
*پیغمبرؐ نے ہجرت کے دوسرے سال پہلی [[ذی الحج]] کے دن [[حضرت فاطمہؑ]] کو [[امیرالمومنینؑ]] کے گھر بھیجا۔ <ref>بحارالانوار، علامہ مجلسی، ج۴۳، ص۹۲۔</ref> اس لئے شادی اور نکاح کے درمیان تقریباً دس مہینے کا فاصلہ تھا۔ شاید نکاح کا صیغہ جلدی پڑھنے کی وجہ یہ تھی کہ دوسرے رشتے مانگنے والے لوگوں کے لئے جواب واضح ہو جائے اور شادی کی دیر کرنے کی وجہ یہ تھی کہ فاطمہؑ جسمانی رشد و نما کے لحاظ سے بہتر ہو جائیں۔ <ref> یوسفی غروی، محمد ہادی؛ تاریخ تحقیقی اسلام، ج۲، ص۲۵۰۔</ref>
*[[سید ابن طاؤوس]] نے اس شادی کی تاریخ [[شیخ مفید]] کے حوالے سے اکیس [[محرم الحرام]] ذکر کی ہے ۔<ref>سید ابن طاوس ،الاقبال،2/584</ref>
*[[سید ابن طاؤوس]] نے اس شادی کی تاریخ [[شیخ مفید]] کے حوالے سے اکیس [[محرم الحرام]] ذکر کی ہے ۔<ref>سید ابن طاوس ،الاقبال،2/584</ref>
*[[جنگ بدر]] سے واپسی پر ماہ [[شوال]] میں یہ شادی ہوئی۔<ref>شیخ طوسی، الأمالی، ص 43، دار الثقافہ، قم، 1414ق.</ref>
*[[جنگ بدر]] سے واپسی پر ماہ [[شوال]] میں یہ شادی ہوئی۔<ref>شیخ طوسی، الأمالی، ص 43، دار الثقافہ، قم، 1414ق۔</ref>
*جنگ بدر سے واپسی پر 6 [[ذی الحج]] کو ہوئی۔<ref>شیخ طوسی، الأمالی، ص 43، دار الثقافہ، قم، 1414ق.</ref>
*جنگ بدر سے واپسی پر 6 [[ذی الحج]] کو ہوئی۔<ref>شیخ طوسی، الأمالی، ص 43، دار الثقافہ، قم، 1414ق۔</ref>
*[[امام صادق]] (ع) کی [[روایت]] کے مطابق : [[ہجرت]] کے دوسرے سال [[ماہ رمضان]] میں حضرت على اور فاطمہ ؑ کا باہمی عقد  اور  شادی [[ذو الحجہ|ذى الحجّہ]] میں ہوئی <ref>اربلی،کشف الغمہ،1/374، دار الأضواء - بيروت - لبنان</ref>۔
*[[امام صادق]] (ع) کی [[روایت]] کے مطابق : [[ہجرت]] کے دوسرے سال [[ماہ رمضان]] میں حضرت على اور فاطمہ ؑ کا باہمی عقد  اور  شادی [[ذو الحجہ|ذى الحجّہ]] میں ہوئی <ref>اربلی،کشف الغمہ،1/374، دار الأضواء - بيروت - لبنان</ref>۔
*...۔
*۔۔۔۔


==حق مہر اور جہیز==
==حق مہر اور جہیز==
تاریخی مآخذوں کے مطابق حضرت زہراءؑ کا حق مہر ٤٠٠ سے ٥٠٠ درہم کے درمیان تھا.<ref>ابن شہر آشوب، مناقب، ج۳، ص۳۵۰، ۳۵۱، و متقی ہندی، فاضل، کنزالعمال، ج۱۳، ص۶۸۰. </ref> [[امام رضا علیہ السلام|امام رضاؑ]] کی حدیث کے مطابق حق مہر کی سنت، کہ جو [[حق مہر|مہرالسنہ]] سے مشہور ہے، وہ ٥٠٠ درہم معین ہوا تھا. <ref>علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج۹۳، ص۱۷۰، روایت ۱۰ </ref>
تاریخی مآخذوں کے مطابق حضرت زہراءؑ کا حق مہر ٤٠٠ سے ٥٠٠ درہم کے درمیان تھا۔<ref>ابن شہر آشوب، مناقب، ج۳، ص۳۵۰، ۳۵۱، و متقی ہندی، فاضل، کنزالعمال، ج۱۳، ص۶۸۰۔ </ref> [[امام رضا علیہ السلام|امام رضاؑ]] کی حدیث کے مطابق حق مہر کی سنت، کہ جو [[حق مہر|مہرالسنہ]] سے مشہور ہے، وہ ٥٠٠ درہم معین ہوا تھا۔ <ref>علامہ مجلسی، بحار الانوار، ج۹۳، ص۱۷۰، روایت ۱۰ </ref>
٥٠٠ درہم تقریباً ١٢٥٠ <ref>[http://www.bahjat.org/index.php/ahkam-2/esteftahat/76-2011-09-06-09-10-59.html]</ref> سے ١٥٠٠ گرام <ref>در میزان دقیق وزن درہم اختلاف نظر وجود دارد. </ref>چاندی ہے اور اس زمانے میں ہر دس درہم چاندی ایک دینار سونے کے برابر تھی، اور مہرالسنہ(حق مہر) تقریباً ١٧٠تا٢٢٣ گرام سونا بنتا ہے. <ref>[http://www.sistani.org/persian/qa/0929/]</ref> یہ مقداربھی  درہم اور دینار کے وزن مختلف ہونے کی وجہ سے، مختلف ہے. <ref>نجفی، جواہر الکلام، ج۱۵، ص۱۷۴-۱۷۹. توضیح المسائل مراجع، ج۲، ص۱۲۹</ref>
٥٠٠ درہم تقریباً ١٢٥٠ <ref>[http://www۔bahjat۔org/index۔php/ahkam-2/esteftahat/76-2011-09-06-09-10-59۔html]</ref> سے ١٥٠٠ گرام <ref>در میزان دقیق وزن درہم اختلاف نظر وجود دارد۔ </ref>چاندی ہے اور اس زمانے میں ہر دس درہم چاندی ایک دینار سونے کے برابر تھی، اور مہرالسنہ(حق مہر) تقریباً ١٧٠تا٢٢٣ گرام سونا بنتا ہے۔ <ref>[http://www۔sistani۔org/persian/qa/0929/]</ref> یہ مقداربھی  درہم اور دینار کے وزن مختلف ہونے کی وجہ سے، مختلف ہے۔ <ref>نجفی، جواہر الکلام، ج۱۵، ص۱۷۴-۱۷۹۔ توضیح المسائل مراجع، ج۲، ص۱۲۹</ref>
[[امام علیؑ]]  نے [[حق مہر]] کی ادائیگی کے لئے''' زرہ، بھیڑ کا چمڑا، یمنی کرتا یا اونٹ '''ان میں سے کوئی ایک چیز فروخت کی تھی. جب رقم پیغمبرؐ کو دی تو آپؐ نے اس رقم کو گنے بغیر کچھ رقم [[بلال حبشی|بلال]] کو دی اور فرمایا: اس رقم سے میری بیٹی کے لئے اچھی خوشبو خرید کر لے آؤ! اور باقی بچی رقم [[ابوبکر]] کو دی اور فرمایا: اس سے کچھ گھر کی اشیاء  جن کی ضرورت میری بیٹی کو ہو گی وہ تیار کرو. پیغمبرؐ نے [[عمار یاسر]] اور کچھ اور صحابہ کو بھی ابوبکر کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ حضرت زہراءؑ کے جہیز کے لئے کچھ اشیاء تیار کریں.
[[امام علیؑ]]  نے [[حق مہر]] کی ادائیگی کے لئے''' زرہ، بھیڑ کا چمڑا، یمنی کرتا یا اونٹ '''ان میں سے کوئی ایک چیز فروخت کی تھی۔ جب رقم پیغمبرؐ کو دی تو آپؐ نے اس رقم کو گنے بغیر کچھ رقم [[بلال حبشی|بلال]] کو دی اور فرمایا: اس رقم سے میری بیٹی کے لئے اچھی خوشبو خرید کر لے آؤ! اور باقی بچی رقم [[ابوبکر]] کو دی اور فرمایا: اس سے کچھ گھر کی اشیاء  جن کی ضرورت میری بیٹی کو ہو گی وہ تیار کرو۔ پیغمبرؐ نے [[عمار یاسر]] اور کچھ اور صحابہ کو بھی ابوبکر کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ حضرت زہراءؑ کے جہیز کے لئے کچھ اشیاء تیار کریں۔
===جہیز===
===جہیز===
شیخ طوسی نے جہیز کی فہرست یوں لکھی ہے:  
شیخ طوسی نے جہیز کی فہرست یوں لکھی ہے:  
سطر 38: سطر 38:
*کجھور کے پتوں سے بنی چارپائی
*کجھور کے پتوں سے بنی چارپائی
*دو بچھونے جن کی بیرونی کپڑا موٹی کتان کا تھا ایک کجھور کی چھال سے اور دوسرا بھیڑ کی اون سے بھرا ہوا تھا
*دو بچھونے جن کی بیرونی کپڑا موٹی کتان کا تھا ایک کجھور کی چھال سے اور دوسرا بھیڑ کی اون سے بھرا ہوا تھا
*طائف کے تیار کردہ چمڑے کے چار تکیے جنہیں اذخر (مکی گھاس، بوریا (چٹائی) کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے، اس کے پتے باریک ہیں جو طبی خصوصیات کی حامل ہے) سے پر کیا گیا تھا.
*طائف کے تیار کردہ چمڑے کے چار تکیے جنہیں اذخر (مکی گھاس، بوریا (چٹائی) کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے، اس کے پتے باریک ہیں جو طبی خصوصیات کی حامل ہے) سے پر کیا گیا تھا۔
*اون کا ایک پردہ
*اون کا ایک پردہ
*ہجر میں بنی ایک چٹائی (گویا ہجر سے مراد بحرین کا مرکز ہے نیز ہجر مدینہ کے قریب ایک گاؤں کا نام بھی تھا)
*ہجر میں بنی ایک چٹائی (گویا ہجر سے مراد بحرین کا مرکز ہے نیز ہجر مدینہ کے قریب ایک گاؤں کا نام بھی تھا)
سطر 48: سطر 48:
*پانی کے لئے ایک مشک
*پانی کے لئے ایک مشک
*ایک مطہرہ (لوٹا یا صراحی جسے طہارت [[وضو]] کے لئے استعمال کیا جاتا ہے) جس پر گوند چڑھایا گیا تھا
*ایک مطہرہ (لوٹا یا صراحی جسے طہارت [[وضو]] کے لئے استعمال کیا جاتا ہے) جس پر گوند چڑھایا گیا تھا
*مٹی کے کئی مٹکے یا جام.
*مٹی کے کئی مٹکے یا جام۔
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}
کہا گیا ہے کہ شادی کے بعد ایک حاجت مند عورت نے جب حضرت فاطمہؑ سے کچھ مانگا تو آپؑ  نے اپنا شادی کا جوڑا اسے دے دیا. <ref>شوشتری، احقاق الحق، ج۱۰، ص۴۰۱</ref>
کہا گیا ہے کہ شادی کے بعد ایک حاجت مند عورت نے جب حضرت فاطمہؑ سے کچھ مانگا تو آپؑ  نے اپنا شادی کا جوڑا اسے دے دیا۔ <ref>شوشتری، احقاق الحق، ج۱۰، ص۴۰۱</ref>


== ولیمہ==
== ولیمہ==
[[پیغمبر اکرمؐ]] نے [[بلال حبشی]] کو بلایا اور فرمایا:
[[پیغمبر اکرمؐ]] نے [[بلال حبشی]] کو بلایا اور فرمایا:
'''میری بیٹی کی شادی میرے چچا کے بیٹے سے ہو رہی ہے، میں چاہتا ہوں کہ میری امت کے لئے شادی کے دن کھانا دینا ایک [[سنت]] ہو۔ اس لئے جاؤ اور ایک بھیڑ اور پانچ مد جو مہیا کرو تا کہ [[مہاجرین]] اور [[انصار]] کو دعوت دوں'''۔
'''میری بیٹی کی شادی میرے چچا کے بیٹے سے ہو رہی ہے، میں چاہتا ہوں کہ میری امت کے لئے شادی کے دن کھانا دینا ایک [[سنت]] ہو۔ اس لئے جاؤ اور ایک بھیڑ اور پانچ مد جو مہیا کرو تا کہ [[مہاجرین]] اور [[انصار]] کو دعوت دوں'''۔
بلال نے یہ سب تیار کیا اور رسول اللہؐ کے پاس لے آیا۔ آپؐ نے یہ کھانا اپنے آگے رکھا. لوگ پیغمبرؐ کے حکم پر گروہ در گروہ [[مسجد]] میں داخل ہوئے اور سب نے کھانا کھایا۔ جب سب نے کھا لیا تو کچھ مقدار میں جو بچ گیا تھا اسے آپؐ نے متبرک کیا اور بلال سے فرمایا: '''اس کھانے کو عورتوں کے پاس لے جاؤ اور کہو: یہ کھانا خود بھی کھائیں اور کوئی بھی اگر ان کے پاس آئے تو اسے بھی اس کھانے سے دیں''' <ref>یوسفی غروی، محمد ہادی، موسوعۃ التاریخ الاسلام، ج۲، ص۲۱۴.</ref>
بلال نے یہ سب تیار کیا اور رسول اللہؐ کے پاس لے آیا۔ آپؐ نے یہ کھانا اپنے آگے رکھا۔ لوگ پیغمبرؐ کے حکم پر گروہ در گروہ [[مسجد]] میں داخل ہوئے اور سب نے کھانا کھایا۔ جب سب نے کھا لیا تو کچھ مقدار میں جو بچ گیا تھا اسے آپؐ نے متبرک کیا اور بلال سے فرمایا: '''اس کھانے کو عورتوں کے پاس لے جاؤ اور کہو: یہ کھانا خود بھی کھائیں اور کوئی بھی اگر ان کے پاس آئے تو اسے بھی اس کھانے سے دیں''' <ref>یوسفی غروی، محمد ہادی، موسوعۃ التاریخ الاسلام، ج۲، ص۲۱۴۔</ref>


==پیغمبرؐ کی دعا==
==پیغمبرؐ کی دعا==
شادی کے ولیمے کے بعد [[رسول خداؐ]] علیؑ کے ہمراہ گھر میں داخل ہوئے اور فاطمہؑ کو آواز دی. جب فاطمہؑ نزدیک آئیں، تو دیکھا کہ رسول اللہؐ کے ساتھ حضرت علیؑ بھی ہیں. رسول اللہؐ نے فرمایا: نزدیک آ جاؤ. فاطمہؑ اپنے بابا کے نزدیک آئیں. رسول اللہؐ نے حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کے ہاتھ کو پکڑا اور جب فاطمہؑ کا ہاتھ علیؑ کے ہاتھ میں دیا تو فرمایا: '''خدا کی قسم میں نے تمہارے حق میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور تمہاری عزت کی اور اپنے خاندان کے بہترین فرد کو تمہارے لئے انتخاب کیا خدا کی قسم تمہاری شادی ایسے فرد سے کر رہا ہوں جو دنیا اور آخرت میں سید و آقا اور صالحین سے ہے... اپنے گھر کی طرف جائیں. خداوند یہ شادی آپکے لئے مبارک فرمائے اور آپکے کاموں کی اصلاح فرمائے.''' <ref>یوسفی غروی، محمد ہادی؛ موسوعۃ التاریخ الاسلام، ج۲، ص۲۱۴.</ref>
شادی کے ولیمے کے بعد [[رسول خداؐ]] علیؑ کے ہمراہ گھر میں داخل ہوئے اور فاطمہؑ کو آواز دی۔ جب فاطمہؑ نزدیک آئیں، تو دیکھا کہ رسول اللہؐ کے ساتھ حضرت علیؑ بھی ہیں۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: نزدیک آ جاؤ۔ فاطمہؑ اپنے بابا کے نزدیک آئیں۔ رسول اللہؐ نے حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ کے ہاتھ کو پکڑا اور جب فاطمہؑ کا ہاتھ علیؑ کے ہاتھ میں دیا تو فرمایا: '''خدا کی قسم میں نے تمہارے حق میں کوئی کوتاہی نہیں کی اور تمہاری عزت کی اور اپنے خاندان کے بہترین فرد کو تمہارے لئے انتخاب کیا خدا کی قسم تمہاری شادی ایسے فرد سے کر رہا ہوں جو دنیا اور آخرت میں سید و آقا اور صالحین سے ہے۔۔۔ اپنے گھر کی طرف جائیں۔ خداوند یہ شادی آپکے لئے مبارک فرمائے اور آپکے کاموں کی اصلاح فرمائے۔''' <ref>یوسفی غروی، محمد ہادی؛ موسوعۃ التاریخ الاسلام، ج۲، ص۲۱۴۔</ref>
رسول خداؐ نے اسماء بنت عمیس سے فرمایا: '''ایک برتن میں میرے لئے پانی لے آؤ''' اسماء فوراً گئیں اور ایک برتن پانی کا بھر کر لے آئیں. آپؐ نے پانی کا ایک چلو بھرا اور اسے حضرت فاطمہؑ کے سر پر ڈالا اور پھر ایک چلو بھرا اور آپؑ کے ہاتھوں پر ڈالا اور کچھ پانی آپؑ کی گردن اور بدن پر ڈالا.''' پھر فرمایا: '''خدایا فاطمہ مجھ سے ہے اور میں فاطمہ سے ہوں. پس جس طرح ہر پلیدی کو مجھ سے دور کیا اور مجھے پاک وپاکیزہ کیا ہے اسی طرح اس کو بھی پاک و طاہر کر دے'''۔ اس کے بعد فاطمہؑ سے فرمایا: یہ پانی پئیں اور اس سے اپنے منہ کو دھوئیں اور ناک میں ڈالیں اور کلی کریں. پھر پانی کا ایک اور برتن طلب کیا اور علیؑ کو بلایا اور یہی عمل دہرایا اور آپؑ کے لئے بھی اسی طرح دعا فرمائی اور پھر فرمایا:'''خداوند آپ دونوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے لئے نزدیک اور مہربان کرے اور آپکی نسل کو مبارک اور آپکے کاموں کی اصلاح فرمائے'''. <ref> یوسفی غروی، محمد ہادی؛ موسوعۃ التاریخ الاسلام، ج۲، ص۲۱۵</ref>
رسول خداؐ نے اسماء بنت عمیس سے فرمایا: '''ایک برتن میں میرے لئے پانی لے آؤ''' اسماء فوراً گئیں اور ایک برتن پانی کا بھر کر لے آئیں۔ آپؐ نے پانی کا ایک چلو بھرا اور اسے حضرت فاطمہؑ کے سر پر ڈالا اور پھر ایک چلو بھرا اور آپؑ کے ہاتھوں پر ڈالا اور کچھ پانی آپؑ کی گردن اور بدن پر ڈالا۔''' پھر فرمایا: '''خدایا فاطمہ مجھ سے ہے اور میں فاطمہ سے ہوں۔ پس جس طرح ہر پلیدی کو مجھ سے دور کیا اور مجھے پاک وپاکیزہ کیا ہے اسی طرح اس کو بھی پاک و طاہر کر دے'''۔ اس کے بعد فاطمہؑ سے فرمایا: یہ پانی پئیں اور اس سے اپنے منہ کو دھوئیں اور ناک میں ڈالیں اور کلی کریں۔ پھر پانی کا ایک اور برتن طلب کیا اور علیؑ کو بلایا اور یہی عمل دہرایا اور آپؑ کے لئے بھی اسی طرح دعا فرمائی اور پھر فرمایا:'''خداوند آپ دونوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے لئے نزدیک اور مہربان کرے اور آپکی نسل کو مبارک اور آپکے کاموں کی اصلاح فرمائے'''۔ <ref> یوسفی غروی، محمد ہادی؛ موسوعۃ التاریخ الاسلام، ج۲، ص۲۱۵</ref>


==پیغمبرؐ کی ہمسائیگی ==
==پیغمبرؐ کی ہمسائیگی ==
شادی کے کچھ دن گزرنے کے بعد [[پیغمبرؐ]] کے لئے [[فاطمہؑ]] سے دوری مشکل ہو گئی اس لئے سوچا کہ بیٹی اور داماد کو اپنے گھر میں ہی جگہ دی جائے. [[حارث بن نعمان]] جو کہ آپؐ کا صحابی تھا جب وہ اس خبر سے آگاہ ہوا تو پیغمبرؐ کے پاس آیا اور کہا:  
شادی کے کچھ دن گزرنے کے بعد [[پیغمبرؐ]] کے لئے [[فاطمہؑ]] سے دوری مشکل ہو گئی اس لئے سوچا کہ بیٹی اور داماد کو اپنے گھر میں ہی جگہ دی جائے۔ [[حارث بن نعمان]] جو کہ آپؐ کا صحابی تھا جب وہ اس خبر سے آگاہ ہوا تو پیغمبرؐ کے پاس آیا اور کہا:  
میرے سب گھر آپ کے نزدیک ہیں. میرے پاس جو کچھ بھی ہے سب آپ کا ہی ہے. خدا کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ میرا مال آپ لے لیں یہ اس سے بہتر ہے کہ یہ میرے پاس ہو.
میرے سب گھر آپ کے نزدیک ہیں۔ میرے پاس جو کچھ بھی ہے سب آپ کا ہی ہے۔ خدا کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ میرا مال آپ لے لیں یہ اس سے بہتر ہے کہ یہ میرے پاس ہو۔
پیغمبرؐ نے اس کے جواب میں فرمایا: خدا تمہیں اس کا اجر دے.
پیغمبرؐ نے اس کے جواب میں فرمایا: خدا تمہیں اس کا اجر دے۔
اس طرح سے حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ رسول خداؐ کے ہمسائے بن گئے. <ref>شہیدی، زندگانی فاطمہ زہرا، صص ۷۳-۷۲؛ نیز ر.ک: ابن سعد، طبقات، ج ۸، صص ۲۲-۲۳.</ref>
اس طرح سے حضرت علیؑ اور حضرت فاطمہؑ رسول خداؐ کے ہمسائے بن گئے۔ <ref>شہیدی، زندگانی فاطمہ زہرا، صص ۷۳-۷۲؛ نیز ر۔ک: ابن سعد، طبقات، ج ۸، صص ۲۲-۲۳۔</ref>


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
confirmed، templateeditor
9,251

ترامیم