"حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی شادی" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 3: | سطر 3: | ||
حضرت زہراؑ کے [[مہر|مہریے]] کے بارے میں مختلف اعداد و شمار منقول ہیں۔ 400 سے 500 درہم کے درمیان آپ کا مہریہ تھا جو [[شیعوں]] کے ہاں [[مہر السنہ]] کے نام سے معروف ہے۔ احادیث کے مطابق امام علیؑ نے اپنی زرہ بیچ کر حضرت زہراؑ کا مہریہ ادا کیا۔ آپ دونوں کی شادی کی مناسبت سے پیغمبر خداؐ نے [[مدینہ]] کے لوگوں کو [[ولیمہ]] دیا۔ | حضرت زہراؑ کے [[مہر|مہریے]] کے بارے میں مختلف اعداد و شمار منقول ہیں۔ 400 سے 500 درہم کے درمیان آپ کا مہریہ تھا جو [[شیعوں]] کے ہاں [[مہر السنہ]] کے نام سے معروف ہے۔ احادیث کے مطابق امام علیؑ نے اپنی زرہ بیچ کر حضرت زہراؑ کا مہریہ ادا کیا۔ آپ دونوں کی شادی کی مناسبت سے پیغمبر خداؐ نے [[مدینہ]] کے لوگوں کو [[ولیمہ]] دیا۔ | ||
رخصتی کے وقت پیغمبر اکرمؐ نے حضرت فاطمہؑ کا ہاتھ امام علیؑ کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے دعا فرمائی: خدایا ان کے دلوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے | رخصتی کے وقت پیغمبر اکرمؐ نے حضرت فاطمہؑ کا ہاتھ امام علیؑ کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے دعا فرمائی: خدایا ان کے دلوں کو بھی آپس میں ایک دوسرے کے نزدیک اور ان کی نسل کو مبارک قرار دے۔ | ||
== خواستگار== | == خواستگار== | ||
شیعہ اور سنی کے مصادر میں [[حضرت فاطمہؑ]] کا رشتہ مانگنے کے بارے میں مختلف قول نقل ہوئے ہیں. کہا گیا ہے کہ [[مدینہ]] میں کچھ [[صحابہ]] جیسے [[ابوبکر]]، [[عمربن خطاب]] اور [[عبدالرحمن بن عوف]] حضرت فاطمہؑ کا ہاتھ مانگنے کے لئے آئے لیکن [[پیغمبرؐ]] نے جواب میں فرمایا: آپؑ کی شادی کا فیصلہ [[خدا]] کے ہاتھ میں ہے؛ اور فرمایا: میں خود اس بارے میں حکم خدا کا منتظر ہوں.<ref>ابن سعد، طبقات، ح۸، ص۱۱؛ قزوینی، فاطمۃ الزہراء از ولادت تا شہادت، ص۱۹۱.</ref> | شیعہ اور سنی کے مصادر میں [[حضرت فاطمہؑ]] کا رشتہ مانگنے کے بارے میں مختلف قول نقل ہوئے ہیں. کہا گیا ہے کہ [[مدینہ]] میں کچھ [[صحابہ]] جیسے [[ابوبکر]]، [[عمربن خطاب]] اور [[عبدالرحمن بن عوف]] حضرت فاطمہؑ کا ہاتھ مانگنے کے لئے آئے لیکن [[پیغمبرؐ]] نے جواب میں فرمایا: آپؑ کی شادی کا فیصلہ [[خدا]] کے ہاتھ میں ہے؛ اور فرمایا: میں خود اس بارے میں حکم خدا کا منتظر ہوں.<ref>ابن سعد، طبقات، ح۸، ص۱۱؛ قزوینی، فاطمۃ الزہراء از ولادت تا شہادت، ص۱۹۱.</ref> |