مندرجات کا رخ کریں

"عائشہ بنت ابو بکر" کے نسخوں کے درمیان فرق

کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 14: سطر 14:
| نسب  =[[بنی‌ تیم]]
| نسب  =[[بنی‌ تیم]]
| مشہوراقارب          =[[رسول اللہؐ]] • [[ابوبکر]] • [[محمد بن ابی بکر]]
| مشہوراقارب          =[[رسول اللہؐ]] • [[ابوبکر]] • [[محمد بن ابی بکر]]
| شہادت/وفات            =[[۱۰ شوال]] [[سنہ ۵۸ هجری قمری|۵۸ قمری]]
| شہادت/وفات            =[[۱۰ شوال]] [[سنہ ۵۸ ہجری قمری|۵۸ قمری]]
| کیفیت شہادت  =طبیعی موت • معاویہ کے ہاتھوں
| کیفیت شہادت  =طبیعی موت • معاویہ کے ہاتھوں
| مدفن          =[[جنت البقیع]]
| مدفن          =[[جنت البقیع]]
سطر 30: سطر 30:


==سوانح حیات==
==سوانح حیات==
عا‎ئشہ کا باپ [[ابوبکر]] '''بنی تیم''' قبیلے سے تھا اور اس کی ماں رومان بنت عمیر بنی کنانہ قبیلے سے تھی۔<ref>طبقات الکبری، ج۸، ص۴۷؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۰۹</ref> بعثت کے چوتھے یا پانچویں سال مکہ میں متولد ہوئیں۔<ref>عسکری، نقش عایشه در احادیث اسلام، ج۱، ص۴۵؛ ابن حجر، الاصابة، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۲۳۱.</ref>
عا‎ئشہ کا باپ [[ابوبکر]] '''بنی تیم''' قبیلے سے تھا اور اس کی ماں رومان بنت عمیر بنی کنانہ قبیلے سے تھی۔<ref>طبقات الکبری، ج۸، ص۴۷؛ بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۰۹</ref> بعثت کے چوتھے یا پانچویں سال مکہ میں متولد ہوئیں۔<ref>عسکری، نقش عایشہ در احادیث اسلام، ج۱، ص۴۵؛ ابن حجر، الاصابۃ، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۲۳۱.</ref>
عا‎ئشہ کی کنیت ان کا بھتیجا [[عبدالله بن زبیر]] کی وجہ سے «ام عبداللہ» سے مشہور ہوئی۔<ref>ابن سیدالناس، عیون الاثر، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۶۸؛ ابن ابی‌الحدید، شرح نهج‌البلاغه، ۱۳۷۸ق، ج۱۴، ص۲۲.</ref>بہت سارے تاریخ مصادر میں انہیں «ام المؤمنین» کہا گیا ہے۔<ref>ابن طولون، الائمة الاثناعشر، ص۱۳۱.</ref><br />
عا‎ئشہ کی کنیت ان کا بھتیجا [[عبداللہ بن زبیر]] کی وجہ سے «ام عبداللہ» سے مشہور ہوئی۔<ref>ابن سیدالناس، عیون الاثر، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۶۸؛ ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، ۱۳۷۸ق، ج۱۴، ص۲۲.</ref>بہت سارے تاریخ مصادر میں انہیں «ام المؤمنین» کہا گیا ہے۔<ref>ابن طولون، الائمۃ الاثناعشر، ص۱۳۱.</ref><br />
کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم نے عایشہؓ کو «حمیراء» سے پکارا ہے۔<ref>دینوری، الامامة و السیاسة، ۱۴۱۳ق، ص۸۲.</ref>اس بارے میں ایک روایت بھی مشہور ہے کہ جس میں آپؐ نے عایشہ سے کہا ہے:{{حدیث| کَلِّمینی یا حُمَیْراء}}(اے حمیرا مجھ سے بات کرو۔) کہا جاتا ہے کہ پہلی بار غزالی نے اپنی کتاب احیاء علوم الدین میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ان سے پہلے کسی بھی کتاب میں یہ حدیث ذکر نہیں ہوئی ہے۔ اسی لئے اہل سنت کے عالم دین الفتنی (متوفی ۹۸۶ھ) لکھتا ہے کہ غزالی نے جو کچھ نقل کیا ہے وہ بے بنیاد ہے۔<ref>الفتنی، تذکرة الموضوعات، ص۱۹۶.</ref>شیعہ عالم دین [[سید مرتضی عسکری]] بھی اس روایت کو بے بنیاد سمجھتا ہے اور اسے غزالی کی جعلی حدیث قرار دیتا ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے۔<ref>عسکری، احادیث ام‌المؤمنین عائشة، ۱۴۱۸ق، ص۲۵و۲۶.</ref>
کہا گیا ہے کہ پیغمبر اکرم نے عایشہؓ کو «حمیراء» سے پکارا ہے۔<ref>دینوری، الامامۃ و السیاسۃ، ۱۴۱۳ق، ص۸۲.</ref>اس بارے میں ایک روایت بھی مشہور ہے کہ جس میں آپؐ نے عایشہ سے کہا ہے:{{حدیث| کَلِّمینی یا حُمَیْراء}}(اے حمیرا مجھ سے بات کرو۔) کہا جاتا ہے کہ پہلی بار غزالی نے اپنی کتاب احیاء علوم الدین میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور ان سے پہلے کسی بھی کتاب میں یہ حدیث ذکر نہیں ہوئی ہے۔ اسی لئے اہل سنت کے عالم دین الفتنی (متوفی ۹۸۶ھ) لکھتا ہے کہ غزالی نے جو کچھ نقل کیا ہے وہ بے بنیاد ہے۔<ref>الفتنی، تذکرۃ الموضوعات، ص۱۹۶.</ref>شیعہ عالم دین [[سید مرتضی عسکری]] بھی اس روایت کو بے بنیاد سمجھتا ہے اور اسے غزالی کی جعلی حدیث قرار دیتا ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ کی طرف جھوٹی نسبت دی ہے۔<ref>عسکری، احادیث ام‌المؤمنین عائشۃ، ۱۴۱۸ق، ص۲۵و۲۶.</ref>


===وفات===
===وفات===
عایشہ [[۱۰ شوال]] [[سنہ ۵۸ هجری قمری]] یا (۵۷ھ) کو 66 سال کی عمر میں مدینہ میں وفات پائی اور [[ابوهریره]] نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔<ref>ذهبی، تاریخ اسلام، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۱۶۴؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۵۲۰.</ref>بعض نے تاریخ وفات کو رمضان کی 17 تاریخ قرار دیا ہے۔<ref>مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۴۲.</ref><br />
عایشہ [[۱۰ شوال]] [[سنہ ۵۸ ہجری قمری]] یا (۵۷ھ) کو 66 سال کی عمر میں مدینہ میں وفات پائی اور [[ابوہریرہ]] نے نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔<ref>ذہبی، تاریخ اسلام، ۱۴۱۳ق، ج۴، ص۱۶۴؛ ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۵۲۰.</ref>بعض نے تاریخ وفات کو رمضان کی 17 تاریخ قرار دیا ہے۔<ref>مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰ق، ج۶، ص۴۲.</ref><br />
عایشہ کی وفات کی علت کے بارے میں اختلاف ہے۔ اہل سنت کے برخلاف بعض کا کہنا ہے کہ عائشہ کو معاویہ نے قتل کروایا ہے اور اپنی مکر اور چالاکی سے ایک گڑا کھودا اور عایشہ کو اس میں پھینک دیا۔ جبکہ اہل سنت کا کہنا ہے کہ وہ طبیعی موت مری ہے۔<ref>بیاضی، الصراط المستقیم، ۱۳۸۴ق، ج۳، ص۴۸.</ref> اور قتل کی علت کو معاویہ کی طرف سے یزید کے لیے بیعت مانگنے پر عایشہ کی طرف سے اعتراض کرنے کو قرار دیا ہے۔<ref>حر عاملی، اثبات الهداة، ۱۴۲۵ق، ج۳، ص۴۰۲.</ref>جو لوگ کہتے ہیں کہ عائشہ قتل ہوئی ہے ان کے نزدیک یہ قتل [[ذی‌الحجہ]] کی آخری تاریخ قرار دی گئی ہے۔<ref>سید بن طاووس، الطرائف، ۱۴۰۰ق، ج۲، ص۵۰۳.</ref>
عایشہ کی وفات کی علت کے بارے میں اختلاف ہے۔ اہل سنت کے برخلاف بعض کا کہنا ہے کہ عائشہ کو معاویہ نے قتل کروایا ہے اور اپنی مکر اور چالاکی سے ایک گڑا کھودا اور عایشہ کو اس میں پھینک دیا۔ جبکہ اہل سنت کا کہنا ہے کہ وہ طبیعی موت مری ہے۔<ref>بیاضی، الصراط المستقیم، ۱۳۸۴ق، ج۳، ص۴۸.</ref> اور قتل کی علت کو معاویہ کی طرف سے یزید کے لیے بیعت مانگنے پر عایشہ کی طرف سے اعتراض کرنے کو قرار دیا ہے۔<ref>حر عاملی، اثبات الہداۃ، ۱۴۲۵ق، ج۳، ص۴۰۲.</ref>جو لوگ کہتے ہیں کہ عائشہ قتل ہوئی ہے ان کے نزدیک یہ قتل [[ذی‌الحجہ]] کی آخری تاریخ قرار دی گئی ہے۔<ref>سید بن طاووس، الطرائف، ۱۴۰۰ق، ج۲، ص۵۰۳.</ref>


==حضور پاکؐ سے شادی==
==حضور پاکؐ سے شادی==
عائشہ رسول خداؐ کی بیویوں میں سے ایک ہے جن سے خدیجہ کی وفات اور سوده بنت زمعة بن قیس سے شادی کے بعد، آپؐ نے شادی کی ہے۔<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۸۸۱.</ref>اور یہ مشترک زندگی 9 سال پانچ مہینے تک جاری رہی۔<ref>ابن حزم، جوامع السیرة النبویة، ص۲۷.</ref> پیغمبر اکرمؐ سے شادی کی تاریخ معلوم نہیں ہے لیکن یہ شادی [[حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا|حضرت خدیجہؑ]] کی رحلت کے بعد ہونے میں سب کا اتفاق ہے لیکن پیغمبر اکرمؐ کی مدینہ [[ہجرت مدینہ|ہجرت]] سے دو یا تین سال پہلے ہو‎ئی ہے اس میں اختلاف ہے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۲، ص۲۳۵؛ ابن حجر، الاصابة، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۲۳۲.</ref> بعض گزارشات میں ذکر ہے کہ آپؐ کی عائشہ سے شادی، سودہ کی شادی سے پہلے ہوئی ہے، لیکن بعض زیادہ مشہور روایات کی بنا پر عا‎ئشہ سے شادی کرنے سے پہلے، [[سودہ بنت زمعۃ بن قیس|سودہ]] سے شادی ہو‎ئی تھی۔<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ج۸، ص۴۶؛ ابن قتیبہ، المعارف، ص۱۳۳-۱۳۴؛صالحی شامی، سبل الہدی، ج۱۱، ص۴۵؛ ابن قتیبه، المعارف، ۱۴۱۰ق، ص۱۳۳-۱۳۴؛ صالحی شامی، سبل الهدی، ۱۴۱۴ق، ج۱۱، ص۴۵.</ref>
عائشہ رسول خداؐ کی بیویوں میں سے ایک ہے جن سے خدیجہ کی وفات اور سودہ بنت زمعۃ بن قیس سے شادی کے بعد، آپؐ نے شادی کی ہے۔<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج۴، ص۱۸۸۱.</ref>اور یہ مشترک زندگی 9 سال پانچ مہینے تک جاری رہی۔<ref>ابن حزم، جوامع السیرۃ النبویۃ، ص۲۷.</ref> پیغمبر اکرمؐ سے شادی کی تاریخ معلوم نہیں ہے لیکن یہ شادی [[حضرت خدیجہ کبری سلام اللہ علیہا|حضرت خدیجہؑ]] کی رحلت کے بعد ہونے میں سب کا اتفاق ہے لیکن پیغمبر اکرمؐ کی مدینہ [[ہجرت مدینہ|ہجرت]] سے دو یا تین سال پہلے ہو‎ئی ہے اس میں اختلاف ہے۔<ref>مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۲، ص۲۳۵؛ ابن حجر، الاصابۃ، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۲۳۲.</ref> بعض گزارشات میں ذکر ہے کہ آپؐ کی عائشہ سے شادی، سودہ کی شادی سے پہلے ہوئی ہے، لیکن بعض زیادہ مشہور روایات کی بنا پر عا‎ئشہ سے شادی کرنے سے پہلے، [[سودہ بنت زمعۃ بن قیس|سودہ]] سے شادی ہو‎ئی تھی۔<ref>ابن سعد، طبقات الکبری، ج۸، ص۴۶؛ ابن قتیبہ، المعارف، ص۱۳۳-۱۳۴؛صالحی شامی، سبل الہدی، ج۱۱، ص۴۵؛ ابن قتیبہ، المعارف، ۱۴۱۰ق، ص۱۳۳-۱۳۴؛ صالحی شامی، سبل الہدی، ۱۴۱۴ق، ج۱۱، ص۴۵.</ref>
منقول ہے کہ [[عثمان بن مظعون]] کی بیوی خولہ ابوبکر کے پاس گئی اور عایشہ کے باپ سے شادی کی بات کی اور گیارہ بعثت کو شوال کے مہینے میں حضورؐ نے عایشہ سے شادی کی۔<ref>ابن سیدالناس، عیون الاثر، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۶۸.</ref>اور 400 درہم [[حق مهر]] رکھا۔<ref>سهیلی، الروض الانف، ۱۴۱۲ق، ج۷، ص۵۳۴.</ref>
منقول ہے کہ [[عثمان بن مظعون]] کی بیوی خولہ ابوبکر کے پاس گئی اور عایشہ کے باپ سے شادی کی بات کی اور گیارہ بعثت کو شوال کے مہینے میں حضورؐ نے عایشہ سے شادی کی۔<ref>ابن سیدالناس، عیون الاثر، ۱۴۱۴ق، ج۲، ص۳۶۸.</ref>اور 400 درہم [[حق مہر]] رکھا۔<ref>سہیلی، الروض الانف، ۱۴۱۲ق، ج۷، ص۵۳۴.</ref>


===شادی کے وقت عمر===
===شادی کے وقت عمر===
پیغمبر اکرمؐ کی عایشہ سے شادی کے وقت کی عمر کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، اس طرح سے کہ شادی کے وقت عا‎ئشہ کی عمر چھ سے 18 سال کے درمیان تھی۔<ref>ابن حجر، الاصابة، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۲۳۲؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۲، ص۱۹۱.</ref> مشہور تاریخی منابع کے مطابق پیغمبر اکرم سے شادی کے وقت عا‎ئشہ کی عمر چھ یا سات سال تھی <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۴۷-۴۸</ref> لیکن رخصتی اس کے چند سال بعد مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی بعد جب عائشہ کی عمر نو سال کی ہوئی تھی تو تب ہوئی۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج۲، ص۶۴۴؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۴۷-۴۸.</ref>
پیغمبر اکرمؐ کی عایشہ سے شادی کے وقت کی عمر کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے، اس طرح سے کہ شادی کے وقت عا‎ئشہ کی عمر چھ سے 18 سال کے درمیان تھی۔<ref>ابن حجر، الاصابۃ، ۱۴۱۵ق، ج۸، ص۲۳۲؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۲، ص۱۹۱.</ref> مشہور تاریخی منابع کے مطابق پیغمبر اکرم سے شادی کے وقت عا‎ئشہ کی عمر چھ یا سات سال تھی <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۴۷-۴۸</ref> لیکن رخصتی اس کے چند سال بعد مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی بعد جب عائشہ کی عمر نو سال کی ہوئی تھی تو تب ہوئی۔<ref>ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج۲، ص۶۴۴؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۴۷-۴۸.</ref>
اس طرح سے بعض محققین کا کہنا ہے کہ مختلف تاریخی کتابوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عایشہ کی عمر پیغمبر اکرمؐ سے شادی کے وقت 18 سال تھی۔ان کا کہنا ہے کہ عایشہ ابتدائی مسلمانوں میں سے ہے اور بعثت کے ابتدائی دنوں میں بچی تھی۔ ان کے مطابق اگر بعث کے وقت عایشہ کی عمر سات برس کی ہوگی تو شادی کے وقت 17 ہوسکتی ہے اور ہجرت کے وقت 20 سال، مگر یہ کہ کہا جائے کہ آپؓ نے اس وقت اسلام لے آیا جب کہ عمر ابھی سات سال بھی نہیں ہوئی تھی۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۳، ص۲۸۵-۲۸۷.</ref>
اس طرح سے بعض محققین کا کہنا ہے کہ مختلف تاریخی کتابوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عایشہ کی عمر پیغمبر اکرمؐ سے شادی کے وقت 18 سال تھی۔ان کا کہنا ہے کہ عایشہ ابتدائی مسلمانوں میں سے ہے اور بعثت کے ابتدائی دنوں میں بچی تھی۔ ان کے مطابق اگر بعث کے وقت عایشہ کی عمر سات برس کی ہوگی تو شادی کے وقت 17 ہوسکتی ہے اور ہجرت کے وقت 20 سال، مگر یہ کہ کہا جائے کہ آپؓ نے اس وقت اسلام لے آیا جب کہ عمر ابھی سات سال بھی نہیں ہوئی تھی۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۳، ص۲۸۵-۲۸۷.</ref>
اور اس سے کچھ پہلے جبیر بن مطعم سے اس کا نکاح ہونا تھا لیکن پیغمبر اکرم سے شادی کی تجویز کی وجہ سے جبیر سے شادی کا معاملہ ختم ہوا اور عا‎ئشہ کا پیغمبر اکرم سے عقد ہوا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۰۹</ref> عا‎ئشہ کی رخصتی کئی سال بعد اورمدینہ سے ہجرت کے بعد نو سال کی عمر میں ہو‎ئی۔<ref>ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج۲، ص۶۴۴؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۴۷-۴۸</ref>
اور اس سے کچھ پہلے جبیر بن مطعم سے اس کا نکاح ہونا تھا لیکن پیغمبر اکرم سے شادی کی تجویز کی وجہ سے جبیر سے شادی کا معاملہ ختم ہوا اور عا‎ئشہ کا پیغمبر اکرم سے عقد ہوا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۰۹</ref> عا‎ئشہ کی رخصتی کئی سال بعد اورمدینہ سے ہجرت کے بعد نو سال کی عمر میں ہو‎ئی۔<ref>ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج۲، ص۶۴۴؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۴۷-۴۸</ref>


سطر 51: سطر 51:
==افک کا واقعہ==
==افک کا واقعہ==
{{اصلی|افک}}
{{اصلی|افک}}
پانچ ہجری کو [[غزوہ بنی مصطلق]] سے واپسی پر اسلامی فوج جب آرام کرنے رک گیی تو عا‎ئشہ رفع حاجت کی غرض سے کچھ فاصلے پر گئی اور گلے کی ہار گم ہونے کی وجہ سے کچھ عرصہ ڈھونڈنے میں مصروف رہی جبکہ لشکر میں کسی کو بھی عا‎ئشہ وہاں پر نہ ہونے کا علم نہیں تھا اور فوج روانہ ہوئی اس خیال سے کہ عا‎ئشہ کجاوے میں موجود ہے اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ عا‎ئشہ جب واپس پلٹی تو دیکھا سب چلے گئے ہیں، اور وہ جگہ خالی ہوگئی ہے اور وہ اسی مقام پر رک گئی یہاں تک کہ صفون ابن معطل نامی ایک شخص پہنچا اور اس نے اپنی اونٹ عا‎ئشہ کے حوالے کیا اور اس کو لشکر تک پہنچا دیا۔ یہ واقعہ بعض اصحاب کو عا‎ئشہ کے بارے میں بدگو‎ئی کرنے کا سبب بنا اور عا‎ئشہ کے کردار کشی کرنے والا یہ ٹولہ اسلامی متون کے مطابق منافقوں کا گروہ تھا یہاں تک کہ قرآن کریم نے سورہ نور کی بعض آیتوں(آیہ ۱۱ سے ۲۶ تک) میں پاکدامن خواتین پر تہمت لگانے کو گناہ کبیرہ قرار دیا اور عائشہ کو اس سے بری سمجھا اور تہمت لگانے والوں کی مذمت کی۔<ref>نک: ابن ہشام، سیرہ النبویہ، ج۲، ص۲۹۷-۳۰۲ ؛ بخاری، صحیح بخاری، ج ۵، ص۲۲۳-۲۲۷؛ </ref>اہل سنت ان آیتوں کو عائشہ کی فضیلت قرار دیتے ہوئے اسے دوسری ازواج رسول سے برتر سمجھتے ہوئے خود عائشہ اور اس کے رشتہ داروں سے اس کی برتری کو نقل کرتے ہیں۔ جیسے کہ نقل ہوا ہے: رسول اللہ کی سب سے محبوب بیوی عایشہ ہے۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج۸، ص۶۸.</ref> اس کے باوجود بعض شیعہ علماء اگرچہ ان آیات کو عائشہ کے بارے میں نقل ہونے کو مانتے ہیں لیکن اسے عائشہ کے لیے فضیلت نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ صرف الزام کو اس سے دور کیا ہے اور کچھ نہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ج۱۵، ص۱۴۴.</ref>جبکہ بعض لوگ ان آیتوں کو ماریہ قبطیہ کے بارے میں قرار دیتے ہیں جو ابراہیم ابن رسول اللہ کی موت کے بعد نازل ہوئی۔<ref> یوسفی غروی، موسوعہ التاریخ الاسلامی، ج ۳، ص۳۵۰؛ عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ج۱۲، ص۳۲۰، ۳۲۶</ref>
پانچ ہجری کو [[غزوہ بنی مصطلق]] سے واپسی پر اسلامی فوج جب آرام کرنے رک گیی تو عا‎ئشہ رفع حاجت کی غرض سے کچھ فاصلے پر گئی اور گلے کی ہار گم ہونے کی وجہ سے کچھ عرصہ ڈھونڈنے میں مصروف رہی جبکہ لشکر میں کسی کو بھی عا‎ئشہ وہاں پر نہ ہونے کا علم نہیں تھا اور فوج روانہ ہوئی اس خیال سے کہ عا‎ئشہ کجاوے میں موجود ہے اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ عا‎ئشہ جب واپس پلٹی تو دیکھا سب چلے گئے ہیں، اور وہ جگہ خالی ہوگئی ہے اور وہ اسی مقام پر رک گئی یہاں تک کہ صفون ابن معطل نامی ایک شخص پہنچا اور اس نے اپنی اونٹ عا‎ئشہ کے حوالے کیا اور اس کو لشکر تک پہنچا دیا۔ یہ واقعہ بعض اصحاب کو عا‎ئشہ کے بارے میں بدگو‎ئی کرنے کا سبب بنا اور عا‎ئشہ کے کردار کشی کرنے والا یہ ٹولہ اسلامی متون کے مطابق منافقوں کا گروہ تھا یہاں تک کہ قرآن کریم نے سورہ نور کی بعض آیتوں(آیہ ۱۱ سے ۲۶ تک) میں پاکدامن خواتین پر تہمت لگانے کو گناہ کبیرہ قرار دیا اور عائشہ کو اس سے بری سمجھا اور تہمت لگانے والوں کی مذمت کی۔<ref>نک: ابن ہشام، سیرہ النبویہ، ج۲، ص۲۹۷-۳۰۲ ؛ بخاری، صحیح بخاری، ج ۵، ص۲۲۳-۲۲۷؛ </ref>اہل سنت ان آیتوں کو عائشہ کی فضیلت قرار دیتے ہوئے اسے دوسری ازواج رسول سے برتر سمجھتے ہوئے خود عائشہ اور اس کے رشتہ داروں سے اس کی برتری کو نقل کرتے ہیں۔ جیسے کہ نقل ہوا ہے: رسول اللہ کی سب سے محبوب بیوی عایشہ ہے۔<ref>ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج۸، ص۶۸.</ref> اس کے باوجود بعض شیعہ علماء اگرچہ ان آیات کو عائشہ کے بارے میں نقل ہونے کو مانتے ہیں لیکن اسے عائشہ کے لیے فضیلت نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ صرف الزام کو اس سے دور کیا ہے اور کچھ نہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ج۱۵، ص۱۴۴.</ref>جبکہ بعض لوگ ان آیتوں کو ماریہ قبطیہ کے بارے میں قرار دیتے ہیں جو ابراہیم ابن رسول اللہ کی موت کے بعد نازل ہوئی۔<ref> یوسفی غروی، موسوعہ التاریخ الاسلامی، ج ۳، ص۳۵۰؛ عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ج۱۲، ص۳۲۰، ۳۲۶</ref>


==پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد==
==پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد==
پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد عائشہ کی زندگی کے بارے میں چند مرحلوں میں تحقیق کی جاسکتی ہے۔
پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد عائشہ کی زندگی کے بارے میں چند مرحلوں میں تحقیق کی جاسکتی ہے۔
==شیخین کا دور==
==شیخین کا دور==
عائشہ،[[ابوبکر]] اور [[عمر]] کی خلافت کے دوران بلاواسطہ سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرتی تھی لیکن پیغمبر اکرم کی بیوی اور پہلے خلیفہ کی بیٹی ہونے کے ناطے معاشرے میں بڑی حیثیت کی حامل تھی اور خلیفہ اول اور دوم کی مورد توجہ تھی۔ شیعہ بعض مؤلفین کے مطابق ابوبکر کے خلیفہ بنانے میں بھی ان کا کردار تھا اور پیغمبر اکرم کی حیات کے آخری دنوں میں اپنے باپ کی خلافت کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔ اور اسی طرح سے ابوبکر اور عمر کی فضیلت میں پیغمبر اکرم سے کچھ روایات نقل کر کے ان دونوں کی خلافت کو مضبوط کرنے میں مدد کی۔<ref>واردی، نقش ہمسران رسول خدا در حکومت امیر مومنان، ص۱۱۴</ref> اور احادیث اور فتوی کو فکری اور فقہی حمایت میں بیان کر کے دونوں خلیفوں کی سیاست کو تقویت پہنچانے میں بڑا کردار ادا کیا۔<ref>تقی‌زاده داوری، تصویر خانواده پیامبر در دائرةالمعارف اسلام، ۱۳۸۷ش، ص۱۱۵.</ref> اس کے مقابلے میں ایسی گزارشیں بھی ملتی ہیں کہ پہلے دو خلیفوں کی طرف سے عا‎ئشہ کے لیے تحفہ تحا‎ئف اور بیت المال سے دوسری ازواج نبی سے زیادہ رقم دی جاتی تھی۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۵۳</ref>خلیفہ دوم کا عقیدہ تھا کہ عائشہ کو پیغمبر اکرم باقی زوجات کی نسبت زیادہ چاہتے تھے اسی لئے دوسروں کی نسبت اسے دو ہزار درہم زیادہ دیا۔ابن هشام، السیرة النبویة، ج۲، ص۶۷.</ref>اور یہ کام شیعوں کی نظر میں بے عدالتی ہے۔<ref>تقی زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر، ص۱۱۵-۱۱۶</ref>
عائشہ،[[ابوبکر]] اور [[عمر]] کی خلافت کے دوران بلاواسطہ سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرتی تھی لیکن پیغمبر اکرم کی بیوی اور پہلے خلیفہ کی بیٹی ہونے کے ناطے معاشرے میں بڑی حیثیت کی حامل تھی اور خلیفہ اول اور دوم کی مورد توجہ تھی۔ شیعہ بعض مؤلفین کے مطابق ابوبکر کے خلیفہ بنانے میں بھی ان کا کردار تھا اور پیغمبر اکرم کی حیات کے آخری دنوں میں اپنے باپ کی خلافت کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔ اور اسی طرح سے ابوبکر اور عمر کی فضیلت میں پیغمبر اکرم سے کچھ روایات نقل کر کے ان دونوں کی خلافت کو مضبوط کرنے میں مدد کی۔<ref>واردی، نقش ہمسران رسول خدا در حکومت امیر مومنان، ص۱۱۴</ref> اور احادیث اور فتوی کو فکری اور فقہی حمایت میں بیان کر کے دونوں خلیفوں کی سیاست کو تقویت پہنچانے میں بڑا کردار ادا کیا۔<ref>تقی‌زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر در دائرۃالمعارف اسلام، ۱۳۸۷ش، ص۱۱۵.</ref> اس کے مقابلے میں ایسی گزارشیں بھی ملتی ہیں کہ پہلے دو خلیفوں کی طرف سے عا‎ئشہ کے لیے تحفہ تحا‎ئف اور بیت المال سے دوسری ازواج نبی سے زیادہ رقم دی جاتی تھی۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۵۳</ref>خلیفہ دوم کا عقیدہ تھا کہ عائشہ کو پیغمبر اکرم باقی زوجات کی نسبت زیادہ چاہتے تھے اسی لئے دوسروں کی نسبت اسے دو ہزار درہم زیادہ دیا۔ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج۲، ص۶۷.</ref>اور یہ کام شیعوں کی نظر میں بے عدالتی ہے۔<ref>تقی زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر، ص۱۱۵-۱۱۶</ref>
===عثمانؓ کا دور===
===عثمانؓ کا دور===
دوسرے خلیفے کی وفات اور [[عثمان]] خلافت پر آنے کے بعد عائشہ کی زندگی نئے موڈ میں داخل ہوئی اور اسلامی معاشرے میں بڑا سیاسی کردار ادا کیا۔<ref>تقی‌زاده داوری، تصویر خانواده پیامبر در دائرةالمعارف اسلام، ۱۳۸۷ش، ص۱۱۷.</ref> کی خلافت کے ابتدا‎ئی دنوں میں عا‎ئشہ کا عثمان کے ساتھ رابطہ صحیح رہا یہاں تک کہ عائشہ ان کی فضیلت میں احادیث بیان کرنے لگی۔<ref>مسلم، صحیح مسلم، ج۷، ص۱۱۷.</ref> لیکن خلافت کے دوسرے حصے میں یہ رابطہ کم ہوتا گیا اور آخر کار دشمنی اور عثمان کے قتل کی سرپرستی تک جا پہنچا۔<ref>عسکری، نقش عایشه در تاریخ اسلام، ج۱، ص۱۵۰.</ref> جو عائشہ اور خلیفہ سوم کے اختلافات کے بارے میں ذکر ہوا ہے وہ عثمان کی حکومت کرنے میں کمزوری اور اقربا پروری کی وجہ سے تھے۔ اسی طرح بعض اصحاب جیسے؛[[عبدالله بن مسعود]]، [[عمار]]، [[ابوذر]] اور جندب وغیرہ پر ظلم و ستم کرنے کی وجہ سے یہ سب چیزیں سیاسی اور فکری طور پر ان دونوں کے باہمی اختلافات کا باعث بنیں۔<ref>تقی‌زاده داوری، تصویر خانواده پیامبر در دائرةالمعارف اسلام، ۱۳۸۷ش، ص۱۲۰.</ref>اس نے اپنے بیانات میں جو کچھ وہ اور عثمان کے درمیان مسجد نبوی میں پیش آیا تھا اس پر سخت الفاظ میں تنقید کی۔<ref>ابن اعثم، الفتوح، ج۲، ص۴۲۱</ref> عثمان نے بھی انہیں [[نوح]] اور [[لوط]] یک بیویوں سے تشبیہ دی جنہوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی اور جہنم چلی گئیں۔ اور اس جملے پر عائشہ نے سخت موقف انتخاب کیااور «اُقْتُلوا نَعْثَلاً فَقَدْ کَفَر» (یعنی اس نادان بوڑھے کو قتل کردو۔) کہتے ہوئے عثمان کو موت کے لائق سمجھی۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج۳، ص۴۷۷.</ref>
دوسرے خلیفے کی وفات اور [[عثمان]] خلافت پر آنے کے بعد عائشہ کی زندگی نئے موڈ میں داخل ہوئی اور اسلامی معاشرے میں بڑا سیاسی کردار ادا کیا۔<ref>تقی‌زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر در دائرۃالمعارف اسلام، ۱۳۸۷ش، ص۱۱۷.</ref> کی خلافت کے ابتدا‎ئی دنوں میں عا‎ئشہ کا عثمان کے ساتھ رابطہ صحیح رہا یہاں تک کہ عائشہ ان کی فضیلت میں احادیث بیان کرنے لگی۔<ref>مسلم، صحیح مسلم، ج۷، ص۱۱۷.</ref> لیکن خلافت کے دوسرے حصے میں یہ رابطہ کم ہوتا گیا اور آخر کار دشمنی اور عثمان کے قتل کی سرپرستی تک جا پہنچا۔<ref>عسکری، نقش عایشہ در تاریخ اسلام، ج۱، ص۱۵۰.</ref> جو عائشہ اور خلیفہ سوم کے اختلافات کے بارے میں ذکر ہوا ہے وہ عثمان کی حکومت کرنے میں کمزوری اور اقربا پروری کی وجہ سے تھے۔ اسی طرح بعض اصحاب جیسے؛[[عبداللہ بن مسعود]]، [[عمار]]، [[ابوذر]] اور جندب وغیرہ پر ظلم و ستم کرنے کی وجہ سے یہ سب چیزیں سیاسی اور فکری طور پر ان دونوں کے باہمی اختلافات کا باعث بنیں۔<ref>تقی‌زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر در دائرۃالمعارف اسلام، ۱۳۸۷ش، ص۱۲۰.</ref>اس نے اپنے بیانات میں جو کچھ وہ اور عثمان کے درمیان مسجد نبوی میں پیش آیا تھا اس پر سخت الفاظ میں تنقید کی۔<ref>ابن اعثم، الفتوح، ج۲، ص۴۲۱</ref> عثمان نے بھی انہیں [[نوح]] اور [[لوط]] یک بیویوں سے تشبیہ دی جنہوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی اور جہنم چلی گئیں۔ اور اس جملے پر عائشہ نے سخت موقف انتخاب کیااور «اُقْتُلوا نَعْثَلاً فَقَدْ کَفَر» (یعنی اس نادان بوڑھے کو قتل کردو۔) کہتے ہوئے عثمان کو موت کے لائق سمجھی۔<ref>طبری، تاریخ طبری، ج۳، ص۴۷۷.</ref>


===امام علیؑ کا دور===
===امام علیؑ کا دور===
{{اصلی| جنگ جمل}}
{{اصلی| جنگ جمل}}
عا‎ئشہ [[امام علیؑ]] کے مخالفوں میں سے تھی۔ بعض مصنفوں نے اس اختلاف کی ابتداء کو پیغمبر اکرمؐ کی زندگی دوران تک لے گئے ہیں۔<ref>واردی، نقش ہمسران رسول خدا در حکومت امیر مومنان، ص۱۰۳؛ مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۴۲۶</ref>اگرچہ مختلف گروہوں کو امام علیؑ کی خلافت کے خلاف جمع کرنے اور انہیں نظم دے کر ایک لشکر تیار کرنے سے جنگ جمل وجود میں آئی اور یہی علیؑ سے دشمنی کی واضح دلیل ہے، اگرچہ بعض اہل سنت مصنفوں نے اس کی وجہ مخالفوں کے بہکاو‎ے سے متاثر ہونا قرار دیا ہے، یا بصرہ پر فوجی چڑھا‎ئی کو عثمان کے قاتلوں سے [[قصاص]] لینا قرار دیا ہے نہ علی کی مخالفت، اور عا‎ئشہ کے اس فعل کو اجتہاد میں خطا قرار دیا ہے جس پر خود عا‎ئشہ بھی پشیمان تھی ۔<ref>ندوی، سیرہ السیدہ عائشہ‌ام المومنین،‌ ص۱۸۹-۱۹۲</ref>جبکہ شیعہ علما نے عثمان کا قصاص یا عائشہ کی پشیمانی کو نقد کرتے ہوئے اسے قبول نہیں کیا ہے۔<ref>سید مرتضی، الذخیره، ۱۴۱۱ق، ص۴۹۶؛ مفید، الفصول المختارة، ۱۴۱۳ق، ص۱۴۱.</ref><br />
عا‎ئشہ [[امام علیؑ]] کے مخالفوں میں سے تھی۔ بعض مصنفوں نے اس اختلاف کی ابتداء کو پیغمبر اکرمؐ کی زندگی دوران تک لے گئے ہیں۔<ref>واردی، نقش ہمسران رسول خدا در حکومت امیر مومنان، ص۱۰۳؛ مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۴۲۶</ref>اگرچہ مختلف گروہوں کو امام علیؑ کی خلافت کے خلاف جمع کرنے اور انہیں نظم دے کر ایک لشکر تیار کرنے سے جنگ جمل وجود میں آئی اور یہی علیؑ سے دشمنی کی واضح دلیل ہے، اگرچہ بعض اہل سنت مصنفوں نے اس کی وجہ مخالفوں کے بہکاو‎ے سے متاثر ہونا قرار دیا ہے، یا بصرہ پر فوجی چڑھا‎ئی کو عثمان کے قاتلوں سے [[قصاص]] لینا قرار دیا ہے نہ علی کی مخالفت، اور عا‎ئشہ کے اس فعل کو اجتہاد میں خطا قرار دیا ہے جس پر خود عا‎ئشہ بھی پشیمان تھی ۔<ref>ندوی، سیرہ السیدہ عائشہ‌ام المومنین،‌ ص۱۸۹-۱۹۲</ref>جبکہ شیعہ علما نے عثمان کا قصاص یا عائشہ کی پشیمانی کو نقد کرتے ہوئے اسے قبول نہیں کیا ہے۔<ref>سید مرتضی، الذخیرہ، ۱۴۱۱ق، ص۴۹۶؛ مفید، الفصول المختارۃ، ۱۴۱۳ق، ص۱۴۱.</ref><br />
عا‎ئشہ جو عثمان کی مخالف تھی اور عثمان کے قتل کے وقت [[مکہ]] میں تھی جب [[خلافت]] علی علیہ السلام کو ملنے کی خبر ملی تو [[مکہ]] میں ہی رہ گئی۔ اور ایک عرصے کے بعد جب [[طلحہ]] اور [[زبیر]] مکہ پہنچے تو عرب قبیلوں سے کچھ جنگجو لیکر تینوں [[بصرہ]] کی طرف روانہ ہو‎ئے اور عثمان کے خون کا بدلہ لینے کا اعلان کیا <ref>ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۷۱-۷۲ </ref> اور اس شہر پر قبضہ کرنے کے بعد امام علی علیہ السلام کی فوج سے نبرد آزما ہو‎گئے۔<ref>یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۱۸۰-۱۸۱</ref>ایک نقل میں آیا ہے کہ عائشہ نے ام سلمہ کو بھی عثمان کے قصاص میں ساتھ دینے کی دعوت کی تو آپ نے اس کی دوغلی پالیسی کہ ایک طرف عثمان کو کافر کہتی ہے اور دوسری طرف اسے شہید قرار دیتے ہوئے اسے مظلوم قرار دے کر خونخواہی کا مطالبہ کرنے پر اعتراض کیا۔<ref>ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۴۵۴.</ref><br /> شیخ مفید کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی بیوی ہونے اور خلیفہ اول کی بیٹی ہونا سبب ہوا کہ امام علیؑ کے دشمن کی پوزیشن مضبوط ہوجائے۔<ref>مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۲۲۶و۲۲۷.</ref> جنگ ختم ہونے کے بعد امام علیؑ نے عائشہ سے، جو کہ زخمی بھی ہوئی تھی، سخت الفاظ میں بات کی اور محمد ابن ابی بکر کو اپنی خواہر کی حالات سے باخبر رہنے کا حکم دیا پھر اسے احترام کے ساتھ مدینہ لے آئے۔<ref>مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۱۶۰-۱۶۹. ۳۶۹-۳۸۲.</ref>
عا‎ئشہ جو عثمان کی مخالف تھی اور عثمان کے قتل کے وقت [[مکہ]] میں تھی جب [[خلافت]] علی علیہ السلام کو ملنے کی خبر ملی تو [[مکہ]] میں ہی رہ گئی۔ اور ایک عرصے کے بعد جب [[طلحہ]] اور [[زبیر]] مکہ پہنچے تو عرب قبیلوں سے کچھ جنگجو لیکر تینوں [[بصرہ]] کی طرف روانہ ہو‎ئے اور عثمان کے خون کا بدلہ لینے کا اعلان کیا <ref>ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ج۱، ص۷۱-۷۲ </ref> اور اس شہر پر قبضہ کرنے کے بعد امام علی علیہ السلام کی فوج سے نبرد آزما ہو‎گئے۔<ref>یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۱۸۰-۱۸۱</ref>ایک نقل میں آیا ہے کہ عائشہ نے ام سلمہ کو بھی عثمان کے قصاص میں ساتھ دینے کی دعوت کی تو آپ نے اس کی دوغلی پالیسی کہ ایک طرف عثمان کو کافر کہتی ہے اور دوسری طرف اسے شہید قرار دیتے ہوئے اسے مظلوم قرار دے کر خونخواہی کا مطالبہ کرنے پر اعتراض کیا۔<ref>ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۲، ص۴۵۴.</ref><br /> شیخ مفید کے مطابق پیغمبر اکرمؐ کی بیوی ہونے اور خلیفہ اول کی بیٹی ہونا سبب ہوا کہ امام علیؑ کے دشمن کی پوزیشن مضبوط ہوجائے۔<ref>مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۲۲۶و۲۲۷.</ref> جنگ ختم ہونے کے بعد امام علیؑ نے عائشہ سے، جو کہ زخمی بھی ہوئی تھی، سخت الفاظ میں بات کی اور محمد ابن ابی بکر کو اپنی خواہر کی حالات سے باخبر رہنے کا حکم دیا پھر اسے احترام کے ساتھ مدینہ لے آئے۔<ref>مفید، الجمل، ۱۴۱۳ق، ص۱۶۰-۱۶۹. ۳۶۹-۳۸۲.</ref>
اس جنگ میں چونکہ عا‎ئشہ ایک اونٹ پر سوار ہوکر آ‎ئی تھی اسی لیے [[جنگ جمل]] کے نام سے مشہور ہوگئی اور یہ مسلمانوں کی پہلی داخلی جنگ تھی۔
اس جنگ میں چونکہ عا‎ئشہ ایک اونٹ پر سوار ہوکر آ‎ئی تھی اسی لیے [[جنگ جمل]] کے نام سے مشہور ہوگئی اور یہ مسلمانوں کی پہلی داخلی جنگ تھی۔


===معاویہ کا دور===
===معاویہ کا دور===
اگرچہ بعض نے بنی امیہ کے دور کو عائشہ کا خاموش دور قرار دیا ہے لیکن بعض نے عائشہ کی ان کے ساتھ ہمکاری کو فاش کیا ہے۔<ref>تقی‌زاده داوری، تصویر خانواده پیامبر در دائرةالمعارف اسلام، ۱۳۸۷ش، ص۱۲۶.</ref> اگرچہ ان کا بھائی محمد ابی بکر کو معاویہ نے بہت بری حالت میں قتل کرایا اور حجر ابن عدی اور ان کے ساتھیوں کو عثمان نے قتل کرایا تھا اس وجہ سے ان سے راضی نہیں تھی اور ان کی مذمت بھی کرتی تھی لیکن امام علیؑ کی شہادت کے بعد ان سے جا ملی۔<ref>ابن قتیبه، الامامه و السیاسه، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۰۵؛ طبری، تاریخ الطبری، ج۵، ص۲۵۷.</ref> معاویہ نے بھی اپنے کو عائشہ کے بہت قریب کردیا اور عا‎ئشہ کو مالی تحفے تحا‎ئف بھی بھیجنے لگا۔<ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۱۳۶و۱۳۷.</ref> کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ ایک لاکھ دینار بھیجا اور اٹھارہ ہزار کا قرضہ بھی ادا کیا۔<ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۱۳۶.</ref>
اگرچہ بعض نے بنی امیہ کے دور کو عائشہ کا خاموش دور قرار دیا ہے لیکن بعض نے عائشہ کی ان کے ساتھ ہمکاری کو فاش کیا ہے۔<ref>تقی‌زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر در دائرۃالمعارف اسلام، ۱۳۸۷ش، ص۱۲۶.</ref> اگرچہ ان کا بھائی محمد ابی بکر کو معاویہ نے بہت بری حالت میں قتل کرایا اور حجر ابن عدی اور ان کے ساتھیوں کو عثمان نے قتل کرایا تھا اس وجہ سے ان سے راضی نہیں تھی اور ان کی مذمت بھی کرتی تھی لیکن امام علیؑ کی شہادت کے بعد ان سے جا ملی۔<ref>ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسہ، ۱۴۱۰ق، ج۱، ص۲۰۵؛ طبری، تاریخ الطبری، ج۵، ص۲۵۷.</ref> معاویہ نے بھی اپنے کو عائشہ کے بہت قریب کردیا اور عا‎ئشہ کو مالی تحفے تحا‎ئف بھی بھیجنے لگا۔<ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۴۱۷ق، ج۷، ص۱۳۶و۱۳۷.</ref> کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ ایک لاکھ دینار بھیجا اور اٹھارہ ہزار کا قرضہ بھی ادا کیا۔<ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ۱۴۱۷ق، ج۸، ص۱۳۶.</ref>


=== امام حسنؑ کی تدفین===
=== امام حسنؑ کی تدفین===
عائشہ کی زندگی میں انجام دینے والی اقدامات میں سے ایک [[امام حسن]] علیہ السلام کے جنازے کو پیغمبر اکرم کی قبر مطہر کے جوار میں دفن سے روکنا ہے۔<ref>ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبیین، ص۸۲.</ref> پیغمبر اکرم کے دفن کی جگہ عا‎ئشہ کا گھر ہے اور اس سے پہلے خلیفہ اول اور دوم بھی اسی مکان میں دفن ہوچکے تھے امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد [[امام حسین]] (علیہ السلام) کو امامت ملی اور اپنے بھا‎ئی کی وصیت کے مطابق آپکے جسد اطہر کو پیغمبر اکرم کی قبر کے قریب دفن کرنا چاہا لیکن عا‎ئشہ نے مدینے کے گورنر [[مروان بن حکم]] کی مدد سے دفن کرنے سے منع کیا اور امام حسین علیہ السلام لڑا‎ئی جھگڑے سے بچنے کے لیے اس اقدام سے منصرف ہوگئے۔<ref>یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۲۲۵؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۴، ص۱۴۱</ref> اور امام کے جنازے کو بقیع میں دفنایا گیا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۷ق، ج۳، ص۶۶.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ جب عائشہ نے دیکھا کہ مروان بن حکم اور اس کے ساتھی اسلحہ کے ساتھ [[تشییع]] کرنے آئے تھے اور یہ بڑا خطرناک مرحلہ تھا اس لئے وہاں پر دفن سے منع کیا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۷ق، ج۳، ص۶۱.</ref>
عائشہ کی زندگی میں انجام دینے والی اقدامات میں سے ایک [[امام حسن]] علیہ السلام کے جنازے کو پیغمبر اکرم کی قبر مطہر کے جوار میں دفن سے روکنا ہے۔<ref>ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ص۸۲.</ref> پیغمبر اکرم کے دفن کی جگہ عا‎ئشہ کا گھر ہے اور اس سے پہلے خلیفہ اول اور دوم بھی اسی مکان میں دفن ہوچکے تھے امام حسن علیہ السلام کی شہادت کے بعد [[امام حسین]] (علیہ السلام) کو امامت ملی اور اپنے بھا‎ئی کی وصیت کے مطابق آپکے جسد اطہر کو پیغمبر اکرم کی قبر کے قریب دفن کرنا چاہا لیکن عا‎ئشہ نے مدینے کے گورنر [[مروان بن حکم]] کی مدد سے دفن کرنے سے منع کیا اور امام حسین علیہ السلام لڑا‎ئی جھگڑے سے بچنے کے لیے اس اقدام سے منصرف ہوگئے۔<ref>یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۲۲۵؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۴۴، ص۱۴۱</ref> اور امام کے جنازے کو بقیع میں دفنایا گیا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۷ق، ج۳، ص۶۶.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ جب عائشہ نے دیکھا کہ مروان بن حکم اور اس کے ساتھی اسلحہ کے ساتھ [[تشییع]] کرنے آئے تھے اور یہ بڑا خطرناک مرحلہ تھا اس لئے وہاں پر دفن سے منع کیا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۳۹۷ق، ج۳، ص۶۱.</ref>


===عا‎ئشہ کی خصوصیات===
===عا‎ئشہ کی خصوصیات===
اہل سنت کی روایی اور تاریخی کتابوں میں عائشہ کے بارے میں تفصیلی بحث ہوئی ہے۔<ref>مراجعہ کریں: ابن اثیر، اسد الغابة، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۱۸۹-۱۹۱؛ ابن حجر، فتح الباری، ج۷، ص۸۳؛ صالحی شامی، سبل الهدی و الرشاد، ۱۴۱۴ق، ج۱۱، ص۱۶۴</ref> اور انہیں عالم معرفی کیا ہے جسے وہ اپنے باپ سے سیکھی تھی۔ طب سے بھی کچھ آشنائی تھی۔<ref>ابن حنبل، مسند احمد، ج۶، ص۶۷؛ حاکم نیشابوری، مستدرک حاکم، </ref> اسی طرح ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آیات، احکام، اسلامی سنتیں، شعر، عرب جنگیں، قضاوت، قیافہ شناسی کے بارے میں علم رکھتی تھی۔<ref>ذهبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸۳.</ref>آپ کی پیغمبر اکرمؐ سے شادی کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ آپؐ کی بیویوں میں سے صرف آپ غیر شادی شدہ تھیں۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۴۰۹.</ref>اہل سنت کی کتابوں میں پیغمبر اکرمؐ کی آپ سے محبت کے بارے میں کچھ گزارشات ملتی ہیں اور اسے پیغمبر اکرمؐ کی محبوترین اور سب سے خوبصورت بیوی معرفی کیا ہے۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج۸، ص۶۸.</ref> <ref>ابن کثیر، البدایة و النهایة، ۱۴۰۸ق، ج۸، ص۹۹.</ref>
اہل سنت کی روایی اور تاریخی کتابوں میں عائشہ کے بارے میں تفصیلی بحث ہوئی ہے۔<ref>مراجعہ کریں: ابن اثیر، اسد الغابۃ، ۱۴۰۹ق، ج۶، ص۱۸۹-۱۹۱؛ ابن حجر، فتح الباری، ج۷، ص۸۳؛ صالحی شامی، سبل الہدی و الرشاد، ۱۴۱۴ق، ج۱۱، ص۱۶۴</ref> اور انہیں عالم معرفی کیا ہے جسے وہ اپنے باپ سے سیکھی تھی۔ طب سے بھی کچھ آشنائی تھی۔<ref>ابن حنبل، مسند احمد، ج۶، ص۶۷؛ حاکم نیشابوری، مستدرک حاکم، </ref> اسی طرح ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آیات، احکام، اسلامی سنتیں، شعر، عرب جنگیں، قضاوت، قیافہ شناسی کے بارے میں علم رکھتی تھی۔<ref>ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۱۸۳.</ref>آپ کی پیغمبر اکرمؐ سے شادی کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ آپؐ کی بیویوں میں سے صرف آپ غیر شادی شدہ تھیں۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ۱۹۵۹م، ج۱، ص۴۰۹.</ref>اہل سنت کی کتابوں میں پیغمبر اکرمؐ کی آپ سے محبت کے بارے میں کچھ گزارشات ملتی ہیں اور اسے پیغمبر اکرمؐ کی محبوترین اور سب سے خوبصورت بیوی معرفی کیا ہے۔<ref>ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ج۸، ص۶۸.</ref> <ref>ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۸ق، ج۸، ص۹۹.</ref>
===شیعوں کا نظریہ===
===شیعوں کا نظریہ===
شیعہ محققین نے عائشہ کی فضایل کو رد کیا ہے اور اہل سنت کی کتابوں میں جو فضیلتیں بیان ہوئی ہیں انہیں جعلی اور غلو پر مشتمل قرار دیا ہے، یہاں تک کہ عائشہ کے لیے فضیلت بنانے اور محبوب بناتے ہوئے رسول اللہؐ کی ذات کی تحقیر اور قربانی کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا ہے۔<ref>تقی‌زاده داوری، تصویر خانواده پیامبر در دایرةالمعارف اسلام، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۱و۱۰۲.</ref>اہل سنت نے جہاں عائشہ کی بہت فضیلتیں بیان کی ہے ان کے برخلاف شیعوں نے اسے بے ادب، بخیل اور حسد جیسی صفات سے متصف کیا ہے اور بعض دفعہ ان کی ان عادتوں کی وجہ سے پیغمبر اکرمؐ بھی ناراحت ہوئے ہیں اور بعض موقعوں پر تو عائشہ کو تذکر بھی دیا ہے۔<ref>مجلسی،بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۲، ص۲۲۷؛ سید بن طاووس، الطرائف، ۱۴۰۰ق، ج۱، ص۲۹۰؛تقی‌زاده داوری، تصویر خانواده پیامبر در دایرةالمعارف اسلام، ۱۳۸۷ش، ص۹۷و۱۰۱-۱۰۴</ref> شیعوں کے مطابق عایشہ کا پیغمبر اکرمؐ کی دوسری بیویوں کی نسبت حساسیت اور حسد کی بنیادی پر کئے جانے والے اقدامات ناپسند تھے۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۳، ص۲۹۱.</ref>عائشہ کی حسد کے واقعات میں سے ایک جو تاریخ میں ذکر ہوا ہے وہ پیغمبر اکرمؐ کی دوسری بیویاں خاص کر [[حضرت خدیجهؑ]] سے حسد کرنا ہے۔ اور اس بارے میں اہل سنت کی کتابوں میں بھی مختلف جگہوں پر ذکر آیا ہے۔ خود ان سے ہی نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کا خدیجہ کے نام لینے پر حسد کرتی تھی۔<ref>مسلم بن حجاج نیشابوری، صحیح مسلم، ج ۴، ص۱۸۸۹</ref>اور اسی طرح ماریہ قبطیہ سے بھی حسد کرتی تھی جب ان کو بیٹا ہوا۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۸۷.</ref>اور یہ بھی نقل ہوا ہے کہ اس کی حسد کرنے سے پیغمبر اکرمؐ ناراض ہوتے تھے۔<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج ۴ ص۲۷۸و۲۷۹.</ref><br />
شیعہ محققین نے عائشہ کی فضایل کو رد کیا ہے اور اہل سنت کی کتابوں میں جو فضیلتیں بیان ہوئی ہیں انہیں جعلی اور غلو پر مشتمل قرار دیا ہے، یہاں تک کہ عائشہ کے لیے فضیلت بنانے اور محبوب بناتے ہوئے رسول اللہؐ کی ذات کی تحقیر اور قربانی کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا ہے۔<ref>تقی‌زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر در دایرۃالمعارف اسلام، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۱و۱۰۲.</ref>اہل سنت نے جہاں عائشہ کی بہت فضیلتیں بیان کی ہے ان کے برخلاف شیعوں نے اسے بے ادب، بخیل اور حسد جیسی صفات سے متصف کیا ہے اور بعض دفعہ ان کی ان عادتوں کی وجہ سے پیغمبر اکرمؐ بھی ناراحت ہوئے ہیں اور بعض موقعوں پر تو عائشہ کو تذکر بھی دیا ہے۔<ref>مجلسی،بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۲۲، ص۲۲۷؛ سید بن طاووس، الطرائف، ۱۴۰۰ق، ج۱، ص۲۹۰؛تقی‌زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر در دایرۃالمعارف اسلام، ۱۳۸۷ش، ص۹۷و۱۰۱-۱۰۴</ref> شیعوں کے مطابق عایشہ کا پیغمبر اکرمؐ کی دوسری بیویوں کی نسبت حساسیت اور حسد کی بنیادی پر کئے جانے والے اقدامات ناپسند تھے۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۳، ص۲۹۱.</ref>عائشہ کی حسد کے واقعات میں سے ایک جو تاریخ میں ذکر ہوا ہے وہ پیغمبر اکرمؐ کی دوسری بیویاں خاص کر [[حضرت خدیجہؑ]] سے حسد کرنا ہے۔ اور اس بارے میں اہل سنت کی کتابوں میں بھی مختلف جگہوں پر ذکر آیا ہے۔ خود ان سے ہی نقل ہوا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ کا خدیجہ کے نام لینے پر حسد کرتی تھی۔<ref>مسلم بن حجاج نیشابوری، صحیح مسلم، ج ۴، ص۱۸۸۹</ref>اور اسی طرح ماریہ قبطیہ سے بھی حسد کرتی تھی جب ان کو بیٹا ہوا۔<ref>یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۸۷.</ref>اور یہ بھی نقل ہوا ہے کہ اس کی حسد کرنے سے پیغمبر اکرمؐ ناراض ہوتے تھے۔<ref>ابن عبدالبر، الاستیعاب، ۱۴۱۲ق، ج ۴ ص۲۷۸و۲۷۹.</ref><br />
شیعوں نے عائشہ کی خوبصورتی اور پیغمبرؐ کے ہاں محبوبیت کے بارے میں بھی کہا ہے کہ چونکہ ان روایات میں سے اکثر خود عائشہ یا ان کا بھتیجا یعنی عروۃ بن زبیر سے نقل ہوئی ہیں، اس لئے ان روایات پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے اور خوبصورتی اور محبوبیت کے رد میں بہت ساری دلائل بھی پیش کئے ہیں۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۳، ص۲۸۹-۲۹۱.</ref>
شیعوں نے عائشہ کی خوبصورتی اور پیغمبرؐ کے ہاں محبوبیت کے بارے میں بھی کہا ہے کہ چونکہ ان روایات میں سے اکثر خود عائشہ یا ان کا بھتیجا یعنی عروۃ بن زبیر سے نقل ہوئی ہیں، اس لئے ان روایات پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے اور خوبصورتی اور محبوبیت کے رد میں بہت ساری دلائل بھی پیش کئے ہیں۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۳، ص۲۸۹-۲۹۱.</ref>
====لعنت کی حرمت کا فتوای====
====لعنت کی حرمت کا فتوای====
[[کویت]] کا لندن میں سکونت پذیر شیعہ عالم یاسر الحبیب کی طرف سے عائشہ کی توہین اور لعن کرنے پر بعض [احساء]] سعودی عرب کے علماء نے [[آیت‌الله خامنه‌ای]] سے زوجۂ رسول خدا، عایشہ کے بارے میں اس طرح کے توہین آمیز اور تحقیر آمیز کلمات کے بارے میں اپنی نظر بیان کرنے کی درخواست کی تو آپ نے اس سوال کے جواب میں یوں فرمایا: «اہل سنت برادری کی مقدسات جن میں سے پیغمبر اکرمؐ کی زوجہ (عائشہ) پر تہمت لگانا حرام ہے۔ یہ موضوع تمام انبیاء کی بیویاں خاص کر سید الانبیاء حضرت محمدؐ کی بیویوں کو بھی شامل ہے۔»اس فتوی کا دنیا میں خاص کر اسلامی دنیا میں بڑا استقبال ہوا۔<ref>[http://www.khabaronline.ir/detail/97482/culture/religion (عائشہ یا اہل سنت کی کسی بھی مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے۔)توهین به عایشه و هر یک از نمادهای اهل‌سنت حرام است. خبرگزاری خبرآنلاین. تاریخ انتشار: دوشنبه ۱۲ مهر ۱۳۸۹.] </ref>
[[کویت]] کا لندن میں سکونت پذیر شیعہ عالم یاسر الحبیب کی طرف سے عائشہ کی توہین اور لعن کرنے پر بعض [احساء]] سعودی عرب کے علماء نے [[آیت‌اللہ خامنہ‌ای]] سے زوجۂ رسول خدا، عایشہ کے بارے میں اس طرح کے توہین آمیز اور تحقیر آمیز کلمات کے بارے میں اپنی نظر بیان کرنے کی درخواست کی تو آپ نے اس سوال کے جواب میں یوں فرمایا: «اہل سنت برادری کی مقدسات جن میں سے پیغمبر اکرمؐ کی زوجہ (عائشہ) پر تہمت لگانا حرام ہے۔ یہ موضوع تمام انبیاء کی بیویاں خاص کر سید الانبیاء حضرت محمدؐ کی بیویوں کو بھی شامل ہے۔»اس فتوی کا دنیا میں خاص کر اسلامی دنیا میں بڑا استقبال ہوا۔<ref>[http://www.khabaronline.ir/detail/97482/culture/religion (عائشہ یا اہل سنت کی کسی بھی مقدسات کی توہین کرنا حرام ہے۔)توہین بہ عایشہ و ہر یک از نمادہای اہل‌سنت حرام است. خبرگزاری خبرآنلاین. تاریخ انتشار: دوشنبہ ۱۲ مہر ۱۳۸۹.] </ref>
 
 
==وفات==
عا‎ئشہ سنہ ۵۸ ہجری قمری کو 66 سال کی عمر میں مدینہ میں طبیعی موت وفات پا‎ئی اور [[ابو ہریرہ]] نے اس کا نماز جنازہ پڑھا‎یا<ref>ذہبی، تاریخ اسلام، ج ۴، ص۱۶۴؛ ابن اثیر، کامل، ج ۳، ص۵۲۰</ref> اور [[جنۃ البقیع]] میں سپرد خاک ہوگئی۔<ref>طبری، تاریخ الامم و الملوک، ج۱۱، ص۶۰۲</ref> لیکن بعض لوگ کچھ شواہد کی بنا پر معاویہ کو عا‎ئشہ کے قتل کا محرک سمجھتے ہیں۔<ref> سید بن طاووس، ج۲، ص۵۰۳۱</ref> ایک نقل کے مطابق یہ حادثہ ذی الحجہ کے مہینے میں واقع ہوا ہے۔<ref>الطرائف فی معرفة مذاہب الطوائف، ج ۲، ص۵۰۳۔</ref> [[اعمش کوفی]] سے منقول ہے کہ:«کیا کسی نے [معاویہ] سے بھی بے حیا شخص دیکھا ہے؟ اس نے ستر ہزار آدمی قتل کئے جن میں [[عمار یاسر|عمار]]، [[خزیمہ بن ثابت|خزیمہ]]، [[حجر بن عدی|حجر]]، [[عمرو بن حمق خزاعی|عمرو بن حمق]]، [[محمد بن ابوبکر]]، [[مالک اشتر نخعی|مالک اشتر]]، [[اویس قرنی]]، [[صعصعۃ بن سوہان]] ، [[ابو الہیثم بن تیہان|ابن تیہان]] عا‎ئشہ اور ابن حسان شامل ہیں»۔<ref>الصراط المستقیم، ج ۳، ص۴۸</ref>
عا‎ئشہ کی وفات کے بعد عبداللہ ابن عمر اس پر رویا، جب یہ خبر معاویہ تک پہنچی اس وقت معاویہ مدینہ میں تھا اور ابن عمر سے کہا: کیا ایک بڑھیا کے مرنے پر رو رہے ہو؟ عبد اللہ نے کہا: ام المومنین کے تمام بیٹے اس پر روتے ہیں؛ البتہ اگر کو‎ئی اس کا بیٹا نہ ہو(مومن نہ ہو) تو نہیں روتا ہے۔<ref>وفیات الأعیان، ج۳، ص۱۶</ref>


==نقل حدیث میں کردار==
==نقل حدیث میں کردار==
پیغمبر اکرم کی روایات اور سیرت نقل کرنے والوں راویوں میں سب سے اہم عا‎ئشہ ہے۔ اور اس سے منقول روایات کی تعداد 2210 احادیث ہیں۔<ref>مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰، ج۶، ص۴۳.</ref> جبکہ پیغمبر اکرمؐ کی دوسری تمام بیویوں نے 612 احادیث نقل کی ہیں۔ مسند احمد میں 2270 احادیث عایشہ سے نقل ہوئی ہیں جو پوری شریعت کا ایک چوتھائی حصہ کی حامل ہیں۔<ref>عسکری، احادیث ام المؤمنین عائشة، ۱۴۱۸ق، ص۳۲.</ref>
پیغمبر اکرم کی روایات اور سیرت نقل کرنے والوں راویوں میں سب سے اہم عا‎ئشہ ہے۔ اور اس سے منقول روایات کی تعداد 2210 احادیث ہیں۔<ref>مقریزی، امتاع الاسماع، ۱۴۲۰، ج۶، ص۴۳.</ref> جبکہ پیغمبر اکرمؐ کی دوسری تمام بیویوں نے 612 احادیث نقل کی ہیں۔ مسند احمد میں 2270 احادیث عایشہ سے نقل ہوئی ہیں جو پوری شریعت کا ایک چوتھائی حصہ کی حامل ہیں۔<ref>عسکری، احادیث ام المؤمنین عائشۃ، ۱۴۱۸ق، ص۳۲.</ref>
اس سے نقل ہونے والی کچھ حدیثں شیعہ محققین کی طرف سے مورد نقد قرار پا‎ئی ہیں۔<ref>نک‌: عسکری، [[نقش عا‎ئشہ در احادیث اسلام (کتاب)|احادیث ام المومنین عا‎ئشہ]]</ref><ref>عسکری، احادیث ام المومنین عایشه، طیبیان، عایشه در صحاح سته.</ref>
اس سے نقل ہونے والی کچھ حدیثں شیعہ محققین کی طرف سے مورد نقد قرار پا‎ئی ہیں۔<ref>عسکری، [[نقش عا‎ئشہ در احادیث اسلام (کتاب)|احادیث ام المومنین عا‎ئشہ]]</ref><ref>عسکری، احادیث ام المومنین عایشہ، طیبیان، عایشہ در صحاح ستہ.</ref>
 
 


==کتاب‌شناسی==
==کتاب‌شناسی==
[[ملف:نقش عایشه1.jpg|150px|تصغیر|کتاب نقش عایشه در تاریخ اسلام]]
[[ملف:نقش عایشه1.jpg|150px|تصغیر|علامہ عسکری کی کتاب]]
عائشہ کے بارے میں اب تک بہت ساری کتابیں دنیا کی مختلف زبانوں میں لکھی گئی ہیں اور بہت سارے شیعہ اور سنی علما نے اس بارے میں قلم فرسائی کی ہے جن میں سے بعض کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:
عائشہ کے بارے میں اب تک بہت ساری کتابیں دنیا کی مختلف زبانوں میں لکھی گئی ہیں اور بہت سارے شیعہ اور سنی علما نے اس بارے میں قلم فرسائی کی ہے جن میں سے بعض کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:
*«أحادیث ام المؤمنین عایشة» تالیف [[سید مرتضی عسکری]]
*«أحادیث ام المؤمنین عایشۃ» تالیف [[سید مرتضی عسکری]]
*«عایشه در دوران علی علیه‌السلام» تالیف: سید مرتضی عسکری
*«عایشہ در دوران علی علیہ‌السلام» تالیف: سید مرتضی عسکری
*«[[نقش عایشه در تاریخ اسلام]]» تالیف: سید مرتضی عسکری، اس کتاب کا اردو میں سید علی اختر روضوی نے «تاریخ اسلام میں عائشہ کا کردار» کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔
*«[[نقش عایشہ در تاریخ اسلام]]» تالیف: سید مرتضی عسکری، اس کتاب کا اردو میں سید علی اختر روضوی نے «تاریخ اسلام میں عائشہ کا کردار» کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔
*«عایشه بعد از پیغمبر» تالیف: کورت فریشلر
*«عایشہ بعد از پیغمبر» تالیف: کورت فریشلر
*«عایشه در صحاح سته» تالیف: حسین طیبیان
*«عایشہ در صحاح ستہ» تالیف: حسین طیبیان
*«عایشه در حیات محمد(ص)» تالیف: سپهروز مولودی.
*«عایشہ در حیات محمدؐ» تالیف: سپہروز مولودی.


== حوالہ جات ==
== حوالہ جات ==
confirmed، movedable، protected، منتظمین، templateeditor
8,869

ترامیم