|
|
سطر 46: |
سطر 46: |
| اس طرح سے بعض محققین کا کہنا ہے کہ مختلف تاریخی کتابوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عایشہ کی عمر پیغمبر اکرمؐ سے شادی کے وقت 18 سال تھی۔ان کا کہنا ہے کہ عایشہ ابتدائی مسلمانوں میں سے ہے اور بعثت کے ابتدائی دنوں میں بچی تھی۔ ان کے مطابق اگر بعث کے وقت عایشہ کی عمر سات برس کی ہوگی تو شادی کے وقت 17 ہوسکتی ہے اور ہجرت کے وقت 20 سال، مگر یہ کہ کہا جائے کہ آپؓ نے اس وقت اسلام لے آیا جب کہ عمر ابھی سات سال بھی نہیں ہوئی تھی۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۳، ص۲۸۵-۲۸۷.</ref> | | اس طرح سے بعض محققین کا کہنا ہے کہ مختلف تاریخی کتابوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عایشہ کی عمر پیغمبر اکرمؐ سے شادی کے وقت 18 سال تھی۔ان کا کہنا ہے کہ عایشہ ابتدائی مسلمانوں میں سے ہے اور بعثت کے ابتدائی دنوں میں بچی تھی۔ ان کے مطابق اگر بعث کے وقت عایشہ کی عمر سات برس کی ہوگی تو شادی کے وقت 17 ہوسکتی ہے اور ہجرت کے وقت 20 سال، مگر یہ کہ کہا جائے کہ آپؓ نے اس وقت اسلام لے آیا جب کہ عمر ابھی سات سال بھی نہیں ہوئی تھی۔<ref>عاملی، الصحیح من سیرة النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۳، ص۲۸۵-۲۸۷.</ref> |
| اور اس سے کچھ پہلے جبیر بن مطعم سے اس کا نکاح ہونا تھا لیکن پیغمبر اکرم سے شادی کی تجویز کی وجہ سے جبیر سے شادی کا معاملہ ختم ہوا اور عائشہ کا پیغمبر اکرم سے عقد ہوا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۰۹</ref> عائشہ کی رخصتی کئی سال بعد اورمدینہ سے ہجرت کے بعد نو سال کی عمر میں ہوئی۔<ref>ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج۲، ص۶۴۴؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۴۷-۴۸</ref> | | اور اس سے کچھ پہلے جبیر بن مطعم سے اس کا نکاح ہونا تھا لیکن پیغمبر اکرم سے شادی کی تجویز کی وجہ سے جبیر سے شادی کا معاملہ ختم ہوا اور عائشہ کا پیغمبر اکرم سے عقد ہوا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۰۹</ref> عائشہ کی رخصتی کئی سال بعد اورمدینہ سے ہجرت کے بعد نو سال کی عمر میں ہوئی۔<ref>ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج۲، ص۶۴۴؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۴۷-۴۸</ref> |
|
| |
|
| |
| <ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۴۷-۴۸</ref> اور اس سے کچھ پہلے جبیر بن مطعم سے اس کا نکاح ہونا تھا لیکن پیغمبر اکرم سے شادی کی تجویز کی وجہ سے جبیر سے شادی کا معاملہ ختم ہوا اور عائشہ کا پیغمبر اکرم سے عقد ہوا۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج۱، ص۴۰۹</ref> عائشہ کی رخصتی کئی سال بعد اورمدینہ سے ہجرت کے بعد نو سال کی عمر میں ہوئی۔<ref>ابن ہشام، السیرہ النبویہ، ج۲، ص۶۴۴؛ ابن سعد، الطبقات الکبری، ج۸، ص۴۷-۴۸</ref>
| |
| اس روایت کے مقابلے میں بعض محققوں نے تاریخی منابع کی ان گزارشات کی تحقیق کے بعد کہا ہے کہ شادی کے وقت عائشہ کی عمر 18 سال تھی۔<ref>نک: زیر نظر تقی زادہ داوری، تصویر خانوادہ پیامبر، ص۹۲-۹۳ </ref> ان محققین نے ابن اسحاق کی گزارش کو استناد کیا ہے جسمیں ابن اسحاق نے عائشہ کو ابتدائی مسلمانوں میں سے قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت عائشہ ایک چھوٹی بچی تھی۔ اب اگر بعثت کے وقت عائشہ کی عمر سات سال بھی ہو تو پیغمبر اکرم سے شادی کے وقت اس کی عمر سترہ سال بنتی ہے۔ اس کے علاوہ ابن قتیبہ نے اپنی کتاب المعارف میں عائشہ کی عمر وفات کے وقت 70 سال بتایا ہے جبکہ 58 ہجری میں وفات پائی ہے۔ اس تاریخ کو اگر صحیح قرار دیں تو بعض منابع میں عائشہ کا پیغمبر اکرم سے عقد کی تاریخ کو ہجرت سے تین سال پہلے؛ یعنی بعث کے دس سال بعد قرار دیا ہے اسطرح عائشہ کی عمر اس وقت 9 سال تھی۔<ref>نک: عاملی، الصحیح من السیرہ النبی الاعظم، ۲۸۴-۲۸۶</ref>
| |
| ایک اور چیز جو عائشہ کی عمر کو معین کرتی ہے وہ اس کی بہن [[اسماء بنت ابوبکر]] کی عمر ہے۔ اسماء اپنی بہن عائشہ سے دس سال کی بڑی تھی۔<ref> الاستیعاب،ج۲،ص:۶۱۶</ref> اور ہجرت کے وقت اس کی عمر 27 سال تھی۔ <ref> أسدالغابة،ج۶،ص:۹</ref> اس طرح اگر عائشہ کی شادی کو پہلی ہجری میں قرار دیں تو اس وقت اس کی عمر 17 سال بنتی ہے۔
| |
| <!--
| |
|
| |
|
| ===افک کا واقعہ=== | | ===افک کا واقعہ=== |
| {{اصلی|افک}} | | {{اصلی|افک}} |
| ==ماجرای افک== | | ==افک کا واقعہ== |
| {{اصلی|افک}} | | {{اصلی|افک}} |
| در سال پنجم هجری و زمان بازگشت سپاه اسلام از [[غزوه بنی مصطلق]] و هنگامیکه اردوی مسلمانان برای استراحت، توقف کرده بودند، عایشه برای قضای حاجت از لشکرگاه فاصله گرفت. او که گردنبند خود را گم کرده بود، مدتی مشغول یافتن آن شد، اما لشکریان که از غیبت وی اطلاع نداشتند، به راه افتاده و کجاوه او را به تصور اینکه عایشه در آن است همراه خود بردند. وقتی عایشه بازگشت، محل استراحت کاروان را خالی یافت و در همان مکان ماند تا فردی به نام صفوان بن معطَّل به او رسید و شترش را در اختیار عایشه قرار داد و او را به لشکریان رساند. همین ماجرا موجب بدگویی گروهی از مردم مدینه درباره عایشه شد که از آنان بنابر متون اسلامی، [[منافق|منافقان]] یاد میشود که عایشه را به عمل منافیعفت متهم کردند. پس از این اتفاق، با نزول بخشی از آیات [[سوره نور]] (آیات ۱۱ تا ۲۶) عایشه از این اتهام تبرئه شد و اتهامزنندگان مورد سرزنش قرار گرفتند.<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج۲، ص۲۹۷-۳۰۲؛ بخاری، صحیح بخاری، ۱۴۰۷ق، ج۵، ص۲۲۳-۲۲۷.</ref><br />
| | پانچ ہجری کو [[غزوہ بنی مصطلق]] سے واپسی پر اسلامی فوج جب آرام کرنے رک گیی تو عائشہ رفع حاجت کی غرض سے کچھ فاصلے پر گئی اور گلے کی ہار گم ہونے کی وجہ سے کچھ عرصہ ڈھونڈنے میں مصروف رہی جبکہ لشکر میں کسی کو بھی عائشہ وہاں پر نہ ہونے کا علم نہیں تھا اور فوج روانہ ہوئی اس خیال سے کہ عائشہ کجاوے میں موجود ہے اسے اپنے ساتھ لے گئے۔ عائشہ جب واپس پلٹی تو دیکھا سب چلے گئے ہیں، اور وہ جگہ خالی ہوگئی ہے اور وہ اسی مقام پر رک گئی یہاں تک کہ صفون ابن معطل نامی ایک شخص پہنچا اور اس نے اپنی اونٹ عائشہ کے حوالے کیا اور اس کو لشکر تک پہنچا دیا۔ یہ واقعہ بعض اصحاب کو عائشہ کے بارے میں بدگوئی کرنے کا سبب بنا اور عائشہ کے کردار کشی کرنے والا یہ ٹولہ اسلامی متون کے مطابق منافقوں کا گروہ تھا یہاں تک کہ قرآن کریم نے سورہ نور کی بعض آیتوں(آیہ ۱۱ سے ۲۶ تک) میں پاکدامن خواتین پر تہمت لگانے کو گناہ کبیرہ قرار دیا اور عائشہ کو اس سے بری سمجھا اور تہمت لگانے والوں کی مذمت کی۔<ref>نک: ابن ہشام، سیرہ النبویہ، ج۲، ص۲۹۷-۳۰۲ ؛ بخاری، صحیح بخاری، ج ۵، ص۲۲۳-۲۲۷؛ </ref>اہل سنت ان آیتوں کو عائشہ کی فضیلت قرار دیتے ہوئے اسے دوسری ازواج رسول سے برتر سمجھتے ہوئے خود عائشہ اور اس کے رشتہ داروں سے اس کی برتری کو نقل کرتے ہیں۔ جیسے کہ نقل ہوا ہے: رسول اللہ کی سب سے محبوب بیوی عایشہ ہے۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج۸، ص۶۸.</ref> اس کے باوجود بعض شیعہ علماء اگرچہ ان آیات کو عائشہ کے بارے میں نقل ہونے کو مانتے ہیں لیکن اسے عائشہ کے لیے فضیلت نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ صرف الزام کو اس سے دور کیا ہے اور کچھ نہیں۔<ref>طباطبایی، المیزان، ج۱۵، ص۱۴۴.</ref>جبکہ بعض لوگ ان آیتوں کو ماریہ قبطیہ کے بارے میں قرار دیتے ہیں جو ابراہیم ابن رسول اللہ کی موت کے بعد نازل ہوئی۔<ref> یوسفی غروی، موسوعہ التاریخ الاسلامی، ج ۳، ص۳۵۰؛ عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ج۱۲، ص۳۲۰، ۳۲۶</ref> |
| اهلسنت، نزول این آیات را فضیلتی برای عایشه خواندند و به همین علت، برتری او را نسبت به دیگر همسران از زبان خود عایشه و نزدیکان او نقل کردهاند، مانند اینکه محبوبترین زن نزد رسول خدا عایشه است.<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج۸، ص۶۸.</ref> با این حال، برخی از عالمان شیعه، هر چند نزول این آیات را برای عایشه پذیرفتند اما آن را فضیلتی برای او نمیدانند چرا که فقط اتهام را از دامن او پاک کرده است نه چیز دیگر.<ref>طباطبایی، المیزان، ج۱۵، ص۱۴۴.</ref> در مقابل، عدهای هم نزول این آیات را مرتبط با دیگر همسر پیامبر یعنی [[ماریه قبطیه]] در ماجرای پس از مرگ [[ابراهیم فرزند رسول خدا]] دانستهاند.<ref>یوسفی غروی، موسوعة التاریخ الاسلامی، ۱۴۲۳ق، ج۳، ص۳۵۰؛ عاملی، الصحیح من سیره النبی الاعظم، ۱۴۲۶ق، ج۱۲، ص۳۲۰و۳۲۶.</ref>
| |
| | |
| بعض روایات کے مطابق [[سورہ نور]] کی بعض آیتوں کی تفسیر میں ذکر ہوا ہے کہ پانچ ہجری کو [[غزوہ بنی مصطلق]] سے واپسی پر کاروان جب آرام کرنے رک گیا تو عائشہ رفع حاجت کی غرض سے کاروان سے کافی فاصلے پر گئی اور گلے کی ہار گم ہونے کی وجہ سے کچھ عرصہ ڈھونڈنے میں مصروف رہی جبکہ لشکر میں کسی کو بھی عائشہ کاروان میں موجود نہ ہونے کا علم نہیں تھا اور کاروان چل پڑا اور عائشہ کے کجاوے کو اس خیال سے کہ اندر وہ موجود ہے اپنے ساتھ لے گئے۔ عائشہ جب واپس پلٹی تو دیکھا سب چلے گئے ہیں، اور وہ اسی مقام پر رک گئی یہاں تک کہ صفون ابن معطل نامی ایک شخص پہنچا اور اس نے اپنی اونٹ عائشہ کے حوالے کیا اور اس کو لشکر تک پہنچا دیا۔ یہ واقعہ بعض اصحاب کو عائشہ کے بارے میں بدگوئی کرنے کا سبب بنا اور عائشہ کے کردار کشی کرنے والا یہ ٹولہ اسلامی متون کے مطابق منافقوں کا گروہ تھا یہاں تک کہ قرآن کریم نے سورہ نور کی بعض آیتوں(آیہ ۱۱ سے ۲۶ تک) میں پاکدامن خواتین پر تہمت لگانے کو گناہ کبیرہ قرار دیا۔<ref>نک: ابن ہشام، سیرہ النبویہ، ج۲، ص۲۹۷-۳۰۲ واقدی، المغازی، ص۴۲۶-۴۳۵؛ بخاری، صحیح بخاری، ج ۵، ص۲۲۳-۲۲۷؛ </ref> لیکن بعض لوگ ان آیتوں کو ماریہ قبطیہ کے بارے میں قرار دیتے ہیں۔<ref> یوسفی غروی، موسوعہ التاریخ الاسلامی، ج ۳، ص۳۵۰؛ عاملی، الصحیح من سیرہ النبی الاعظم، ج۱۲، ص۳۲۰، ۳۲۶</ref>
| |
|
| |
|
| ===تحریم کا ماجرا=== | | ===تحریم کا ماجرا=== |