مندرجات کا رخ کریں

"خلافت" کے نسخوں کے درمیان فرق

3 بائٹ کا ازالہ ،  26 دسمبر 2016ء
م
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 21: سطر 21:
* عمر بن خطاب
* عمر بن خطاب
{{اصلی|عمر بن خطاب}}
{{اصلی|عمر بن خطاب}}
ابوبکر نے اپنی وفات سے کچھ پہلے (سال ۱۳ق)، [[عمر بن خطاب]] کو اپنا جانشین منصوب کیا اور مسلمانوں پران کی [[بیعت]] کرنے کو لازمی قرار دیا۔<ref>مراجعہ کریں: بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۱۰، ص ۸۸ـ۸۹، ۳۰۵؛ طبری، ج ۳، ص ۴۲۸ـ۴۳۴ ۔</ref> کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے اس اقدام کی علت کو فتنہ ایجاد ہونا قرار دیا۔۔<ref>ابن سعد، ج ۳، ص ۲۰۰۔</ref> [[عمر بن خطاب]] کو ابوبکر کے خلافت کے عنوان کی پیروی کرتے ہو‎ئے، رسول‌اللّہ کے خلیفے کا خلیفہ نام دیا لیکن انہوں نے اس لمبی عبارت کے بجایے اپنے آپ کو امیر المومنین کہہ کر پکارنے کو ترجیح دی۔<ref>بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج۱۰، ص۳۲۱۔</ref> یہ لقب بعد میں عصر خلافت ختم ہونے تک خلفاء کیلئے تک مہمترین اور رایج ترین لقب تھا۔ عمر خلیفہ کے حدود اور اختیارات کو [[پیغمبر اکرم(ص)]] کے اختیارات کے ساتھ برابر سمجھتے تھے۔<ref>مراجعہ کریں:جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص۱۰۱۔</ref>  انکی بعض حکومتی پالیسیاں خلافت کے ساختار کو اس دور کے را‎ئج حکومتی ڈھانچے کے قریب لانے میں بہت موثر تھیں؛ ان میں سے بعض اہم اقدامات؛ عرب کو دیگر اقوام(اصطلاحاً عجم)  پر برتری کو ترویج دینا جو کہ [[پیغمبر اسلام]] کی قوم پرستی کے مخالف پالیسی کی معارض تھی، بیت المال (جسکو اللہ کا مال نام دیا تھا) کی تقسیم بندی میں مسلمانوں کے لیے برتری کا قایل ہونا؛ غنایم کو مساوی تقسیم کرنے کے طریقے کو ختم کرنا اہم مثالیں ہیں۔<ref>مراجعہ کریں: مالک بن انس، ص ۳۰۸؛ ابن سعد، ج ۳، ص ۲۷۶؛ بلاذری، فتوح البلدان، ص ۴۴۸ـ ۴۶۱؛ ماوردی، نصیحۃ الملوک، ص ۳۵۳۔</ref>
ابوبکر نے اپنی وفات سے کچھ پہلے (سال ۱۳ق)، [[عمر بن خطاب]] کو اپنا جانشین منصوب کیا اور مسلمانوں پران کی [[بیعت]] کرنے کو لازمی قرار دیا۔<ref>مراجعہ کریں: بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۱۰، ص ۸۸ـ۸۹، ۳۰۵؛ طبری، ج ۳، ص ۴۲۸ـ۴۳۴ ۔</ref> کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے اس اقدام کی علت کو فتنہ ایجاد ہونا قرار دیا۔<ref>ابن سعد، ج ۳، ص ۲۰۰۔</ref> [[عمر بن خطاب]] کو ابوبکر کے خلافت کے عنوان کی پیروی کرتے ہو‎ئے، رسول‌اللّہ کے خلیفے کا خلیفہ نام دیا لیکن انہوں نے اس لمبی عبارت کے بجایے اپنے آپ کو امیر المومنین کہہ کر پکارنے کو ترجیح دی۔<ref>بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج۱۰، ص۳۲۱۔</ref> یہ لقب بعد میں عصر خلافت ختم ہونے تک خلفاء کیلئے تک مہمترین اور رایج ترین لقب تھا۔ عمر خلیفہ کے حدود اور اختیارات کو [[پیغمبر اکرم(ص)]] کے اختیارات کے ساتھ برابر سمجھتے تھے۔<ref>مراجعہ کریں:جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص۱۰۱۔</ref>  انکی بعض حکومتی پالیسیاں خلافت کے ساختار کو اس دور کے را‎ئج حکومتی ڈھانچے کے قریب لانے میں بہت موثر تھیں؛ ان میں سے بعض اہم اقدامات؛ عرب کو دیگر اقوام(اصطلاحاً عجم)  پر برتری کو ترویج دینا جو کہ [[پیغمبر اسلام]] کی قوم پرستی کے مخالف پالیسی کی معارض تھی، بیت المال (جسکو اللہ کا مال نام دیا تھا) کی تقسیم بندی میں مسلمانوں کے لیے برتری کا قایل ہونا؛ غنایم کو مساوی تقسیم کرنے کے طریقے کو ختم کرنا اہم مثالیں ہیں۔<ref>مراجعہ کریں: مالک بن انس، ص ۳۰۸؛ ابن سعد، ج ۳، ص ۲۷۶؛ بلاذری، فتوح البلدان، ص ۴۴۸ـ ۴۶۱؛ ماوردی، نصیحۃ الملوک، ص ۳۵۳۔</ref>


*عثمان بن عفان
*عثمان بن عفان
سطر 38: سطر 38:
امام حسن خلافت اسلامی کے پہلے دور کے آخری خلیفہ تھے جسکو بعد میں [[خلفای راشدین|راشدین]] کی کارسمیٹک شناخت مل گئی۔ اس بات کو سنی مذہب کے مختلف صدیوں کے مولفین کی کتابوں میں کثرت سے مشاہدہ کرسکتے ہیں،<ref>اسفراینی، ج۲، ص۵۰۱؛ غزالی، ص۲۷ـ۲۸، ۱۴۸؛ سجاسی، ص۳۴ـ۳۹</ref>  
امام حسن خلافت اسلامی کے پہلے دور کے آخری خلیفہ تھے جسکو بعد میں [[خلفای راشدین|راشدین]] کی کارسمیٹک شناخت مل گئی۔ اس بات کو سنی مذہب کے مختلف صدیوں کے مولفین کی کتابوں میں کثرت سے مشاہدہ کرسکتے ہیں،<ref>اسفراینی، ج۲، ص۵۰۱؛ غزالی، ص۲۷ـ۲۸، ۱۴۸؛ سجاسی، ص۳۴ـ۳۹</ref>  
چند اہم خصوصیات کے حامل ہونے جیسے [[پیغمبر(ص)]] کے نامور[[صحابہ]] میں شمار ہونا، پیغمبر اکرم سے نسبی یا سببی رشتہ داری ہونا، اسلام میں پہل کرنا، پیغمبر اکرم اور انکے اہداف سے یاری، اور آخر میں سیرہ علمی (اس مورد میں تیسرا خلیفہ کو استثناء کرنا ہوگا) نے وہ اور بعد والے خلیفوں کے درمیان تفاوت ایجاد کیا بلکہ اسلامی معاشرے میں صاحبان قدرت کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کے لیے ایک معیار میں تبدیل ہوگیا۔
چند اہم خصوصیات کے حامل ہونے جیسے [[پیغمبر(ص)]] کے نامور[[صحابہ]] میں شمار ہونا، پیغمبر اکرم سے نسبی یا سببی رشتہ داری ہونا، اسلام میں پہل کرنا، پیغمبر اکرم اور انکے اہداف سے یاری، اور آخر میں سیرہ علمی (اس مورد میں تیسرا خلیفہ کو استثناء کرنا ہوگا) نے وہ اور بعد والے خلیفوں کے درمیان تفاوت ایجاد کیا بلکہ اسلامی معاشرے میں صاحبان قدرت کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کے لیے ایک معیار میں تبدیل ہوگیا۔
آراء اہل حل و عقد، اہل استخلاف، اصل شورا،<ref>مراجعہ کریں:حاتم قادری، تحول مبانی مشروعیت خلافت، ص ۸۳ـ۸۴، ۸۷؛ جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص ۹۹</ref>  خلیفہ کا[[قریش|قریشی]] ہونا، خلافت کے اثبات، یا وفاداری اور موافقت کا اظہار کیلئے [[بیعت]] ایک سبب بننا، <ref>ماوردی، الاحکام السلطانیۃ و الولایات الدینیۃ، ص ۶ـ۷؛ مراجعہ کریں: جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص ۹۰ـ۹۳</ref>، امت کی وحدت کو محفوظ رکھنے کے لیے حاکم کی اطاعت ضروری ہونا، خروج سے ممانعت، <ref>ابن  ابی شیبہ، ج ۷، ص ۵۶۶ـ۵۶۷</ref>، خلیفہ کو خلافت سے خلع کرنے کا امکان یا عدم امکان،<ref>ابن  فرّاء، ص ۲۰ـ۲۳</ref>، باغیوں کے ساتھ[[جہاد]] وغیرہ، سب [[خلفای راشدین]] کے انتصاب اور انکی کارکردگی سے ماخوذ تھے جو ایک آیڈیل حکومت کے طور پر استناد کیا جاتا تھا  
آراء اہل حل و عقد، اہل استخلاف، اصل شورا،<ref>مراجعہ کریں:حاتم قادری، تحول مبانی مشروعیت خلافت، ص ۸۳ـ۸۴، ۸۷؛ جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص ۹۹</ref>  خلیفہ کا[[قریش|قریشی]] ہونا، خلافت کے اثبات، یا وفاداری اور موافقت کا اظہار کیلئے [[بیعت]] ایک سبب بننا، <ref>ماوردی، الاحکام السلطانیۃ و الولایات الدینیۃ، ص ۶ـ۷؛ مراجعہ کریں: جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص ۹۰ـ۹۳</ref>، امت کی وحدت کو محفوظ رکھنے کے لیے حاکم کی اطاعت ضروری ہونا، خروج سے ممانعت، <ref>ابن  ابی شیبہ، ج ۷، ص ۵۶۶ـ۵۶۷</ref>، خلیفہ کو خلافت سے خلع کرنے کا امکان یا عدم امکان،<ref>ابن  فرّاء، ص ۲۰ـ۲۳</ref>، باغیوں کے ساتھ[[جہاد]] وغیرہ، سب [[خلفای راشدین]] کے انتصاب اور انکی کارکردگی سے ماخوذ تھے جو ایک آیڈیل حکومت کے طور پر استناد کیا جاتا تھا


===امویوں کی خلافت===
===امویوں کی خلافت===
confirmed، templateeditor
9,404

ترامیم