"خلافت" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) م (←حوالہ جات) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 6: | سطر 6: | ||
خلافت اور [[خلیفہ]]، ان دو الفاظ کا سب سے زیادہ استعمال انکا اصطلاحی معنی ہے جو [[پیامبر(ص)]] کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرے میں سیاسی تغییر و تحولات کے لیے استعمال ہوا پہلا لفظ حکومت اور مطلق حاکمیت میں جانشینی کے معنی میں ہے اور دوسرا لفظ حکومت میں پیامبر اکرم کے جانشین کے معنی میں ہے | خلافت اور [[خلیفہ]]، ان دو الفاظ کا سب سے زیادہ استعمال انکا اصطلاحی معنی ہے جو [[پیامبر(ص)]] کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرے میں سیاسی تغییر و تحولات کے لیے استعمال ہوا پہلا لفظ حکومت اور مطلق حاکمیت میں جانشینی کے معنی میں ہے اور دوسرا لفظ حکومت میں پیامبر اکرم کے جانشین کے معنی میں ہے | ||
مذکورہ اصطلاحات کا بہت زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے یہ دونوں الفاظ مسلمانوں کے سیاسی کلچر میں کلیدترین مفاہیم اور الفاظ میں بدل گئے ہیں یہاں تک کہ بعد میں مسلمانوں کے کچھ گروہ نظام خلافت کی مشروعیت کیلئے اس خلیفہ کے لفظ کو [[قرآن]] میں استعمال ہونے سے مستند کیا ہے | مذکورہ اصطلاحات کا بہت زیادہ استعمال ہونے کی وجہ سے یہ دونوں الفاظ مسلمانوں کے سیاسی کلچر میں کلیدترین مفاہیم اور الفاظ میں بدل گئے ہیں یہاں تک کہ بعد میں مسلمانوں کے کچھ گروہ نظام خلافت کی مشروعیت کیلئے اس خلیفہ کے لفظ کو [[قرآن]] میں استعمال ہونے سے مستند کیا ہے | ||
۔<ref>ماوردی، ۱۴۰۹، ص ۴؛ قلقشندی، | ۔<ref>ماوردی، ۱۴۰۹، ص ۴؛ قلقشندی، مآثرالأنافۃ فی معالم الخلافۃ (بیروت)، ج ۱، ص ۸ـ۱۲، ۱۴ـ۱۶۔</ref> اسی معنی میں، [[امامت]] اور [[امام]] کے دو لفظ بھی بار بار ابتدایی مسلمان مولفین کی کتابوں میں استعمال ہویے ہیں جو [[شیعہ]] امامت کے مفہوم سے کوسوں دور ہے۔ | ||
تاریخ اسلام میں خلافت اس حکومتی ڈھانچے کا نام ہے جو [[پیامبر(ص)|پیغمبر]] کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرے کی باگ ڈور اس ڈھانچے میں تشکیل پایی اور اس کے ذمہ دار یعنی خلیفہ، اسلامی حکومت میں پیغمبر اکرم کے جانشین شمار کیے جاتے ہیں۔ | تاریخ اسلام میں خلافت اس حکومتی ڈھانچے کا نام ہے جو [[پیامبر(ص)|پیغمبر]] کی رحلت کے بعد اسلامی معاشرے کی باگ ڈور اس ڈھانچے میں تشکیل پایی اور اس کے ذمہ دار یعنی خلیفہ، اسلامی حکومت میں پیغمبر اکرم کے جانشین شمار کیے جاتے ہیں۔ | ||
سطر 16: | سطر 16: | ||
*ابوبکر بن ابی قحافہ | *ابوبکر بن ابی قحافہ | ||
{{اصلی|ابوبکر بن ابی قحافہ}} | {{اصلی|ابوبکر بن ابی قحافہ}} | ||
خلافت کا نظام [[ابوبکر بن ابی قحافہ]] کوپیغمبر اکرم کے جانشین بنانے سے متحقق ہوگیا؛ لیکن بعض [[صحابہ]]، [[بنی ہاشم]] اور بالخصوص پیغمبر اکرم کے [[اہل بیت]] علیہم السلام کی طرف سے متعدد مخالفتوں کا سامنا ہوا لیکن آخرکار مختلف حربوں کے زریعے سے مخالفوں کو خاموش کردیا <ref>مراجعہ کریں: ابن قتیبہ، ج۱، ص ۱۲ـ۱۴؛ طبری، ج ۳، ص ۲۰۲ـ۲۰۳۔</ref> اور اس کے بعد رسول اللہ کا خلیفہ کہا گیا۔<ref>ابن سعد، ج ۳، ص ۸۳؛ احمد بن حنبل، ج۱، ص ۲۰۔</ref> [[ابوبکر]] [[خلفای راشدین]] میں پہلا خلیفہ ہے کہ جس کے انتخاب کا طریقہ کار بعد میں [[اہل سنت]] کے فقہ سیاسی میں اہل [[حلّ و عقد]] کے نظریے کیلئے مبنا بن گیا۔ <ref>مراجعہ کریں: ماوردی، الاحکام | خلافت کا نظام [[ابوبکر بن ابی قحافہ]] کوپیغمبر اکرم کے جانشین بنانے سے متحقق ہوگیا؛ لیکن بعض [[صحابہ]]، [[بنی ہاشم]] اور بالخصوص پیغمبر اکرم کے [[اہل بیت]] علیہم السلام کی طرف سے متعدد مخالفتوں کا سامنا ہوا لیکن آخرکار مختلف حربوں کے زریعے سے مخالفوں کو خاموش کردیا <ref>مراجعہ کریں: ابن قتیبہ، ج۱، ص ۱۲ـ۱۴؛ طبری، ج ۳، ص ۲۰۲ـ۲۰۳۔</ref> اور اس کے بعد رسول اللہ کا خلیفہ کہا گیا۔<ref>ابن سعد، ج ۳، ص ۸۳؛ احمد بن حنبل، ج۱، ص ۲۰۔</ref> [[ابوبکر]] [[خلفای راشدین]] میں پہلا خلیفہ ہے کہ جس کے انتخاب کا طریقہ کار بعد میں [[اہل سنت]] کے فقہ سیاسی میں اہل [[حلّ و عقد]] کے نظریے کیلئے مبنا بن گیا۔ <ref>مراجعہ کریں: ماوردی، الاحکام السلطانیۃ و الولایات الدینیۃ، ص ۶ـ۹۔</ref> | ||
* عمر بن خطاب | * عمر بن خطاب | ||
{{اصلی|عمر بن خطاب}} | {{اصلی|عمر بن خطاب}} | ||
ابوبکر نے اپنی وفات سے کچھ پہلے (سال ۱۳ق)، [[عمر بن خطاب]] کو اپنا جانشین منصوب کیا اور مسلمانوں پران کی [[بیعت]] کرنے کو لازمی قرار دیا۔<ref>مراجعہ کریں: بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۱۰، ص ۸۸ـ۸۹، ۳۰۵؛ طبری، ج ۳، ص ۴۲۸ـ۴۳۴ ۔</ref> کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے اس اقدام کی علت کو فتنہ ایجاد ہونا قرار دیا۔۔<ref>ابن سعد، ج ۳، ص ۲۰۰۔</ref> [[عمر بن خطاب]] کو ابوبکر کے خلافت کے عنوان کی پیروی کرتے ہوئے، رسولاللّہ کے خلیفے کا خلیفہ نام دیا لیکن انہوں نے اس لمبی عبارت کے بجایے اپنے آپ کو امیر المومنین کہہ کر پکارنے کو ترجیح دی۔<ref>بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج۱۰، ص۳۲۱۔</ref> یہ لقب بعد میں عصر خلافت ختم ہونے تک خلفاء کیلئے تک مہمترین اور رایج ترین لقب تھا۔ عمر خلیفہ کے حدود اور اختیارات کو [[پیامبر اکرم(ص)]] کے اختیارات کے ساتھ برابر سمجھتے تھے۔<ref>مراجعہ کریں:جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص۱۰۱۔</ref> انکی بعض حکومتی پالیسیاں خلافت کے ساختار کو اس دور کے رائج حکومتی ڈھانچے کے قریب لانے میں بہت موثر تھیں؛ ان میں سے بعض اہم اقدامات؛ عرب کو دیگر اقوام(اصطلاحاً عجم) پر برتری کو ترویج دینا جو کہ [[پیامبر اسلام]] کی قوم پرستی کے مخالف پالیسی کی معارض تھی، بیت المال (جسکو اللہ کا مال نام دیا تھا) کی تقسیم بندی میں مسلمانوں کے لیے برتری کا قایل ہونا؛ غنایم کو مساوی تقسیم کرنے کے طریقے کو ختم کرنا اہم مثالیں ہیں۔<ref>مراجعہ کریں: مالک بن انس، ص ۳۰۸؛ ابن سعد، ج ۳، ص ۲۷۶؛ بلاذری، فتوح البلدان، ص ۴۴۸ـ ۴۶۱؛ ماوردی، | ابوبکر نے اپنی وفات سے کچھ پہلے (سال ۱۳ق)، [[عمر بن خطاب]] کو اپنا جانشین منصوب کیا اور مسلمانوں پران کی [[بیعت]] کرنے کو لازمی قرار دیا۔<ref>مراجعہ کریں: بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج ۱۰، ص ۸۸ـ۸۹، ۳۰۵؛ طبری، ج ۳، ص ۴۲۸ـ۴۳۴ ۔</ref> کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے اس اقدام کی علت کو فتنہ ایجاد ہونا قرار دیا۔۔<ref>ابن سعد، ج ۳، ص ۲۰۰۔</ref> [[عمر بن خطاب]] کو ابوبکر کے خلافت کے عنوان کی پیروی کرتے ہوئے، رسولاللّہ کے خلیفے کا خلیفہ نام دیا لیکن انہوں نے اس لمبی عبارت کے بجایے اپنے آپ کو امیر المومنین کہہ کر پکارنے کو ترجیح دی۔<ref>بلاذری، جُمَل من انساب الاشراف، ج۱۰، ص۳۲۱۔</ref> یہ لقب بعد میں عصر خلافت ختم ہونے تک خلفاء کیلئے تک مہمترین اور رایج ترین لقب تھا۔ عمر خلیفہ کے حدود اور اختیارات کو [[پیامبر اکرم(ص)]] کے اختیارات کے ساتھ برابر سمجھتے تھے۔<ref>مراجعہ کریں:جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص۱۰۱۔</ref> انکی بعض حکومتی پالیسیاں خلافت کے ساختار کو اس دور کے رائج حکومتی ڈھانچے کے قریب لانے میں بہت موثر تھیں؛ ان میں سے بعض اہم اقدامات؛ عرب کو دیگر اقوام(اصطلاحاً عجم) پر برتری کو ترویج دینا جو کہ [[پیامبر اسلام]] کی قوم پرستی کے مخالف پالیسی کی معارض تھی، بیت المال (جسکو اللہ کا مال نام دیا تھا) کی تقسیم بندی میں مسلمانوں کے لیے برتری کا قایل ہونا؛ غنایم کو مساوی تقسیم کرنے کے طریقے کو ختم کرنا اہم مثالیں ہیں۔<ref>مراجعہ کریں: مالک بن انس، ص ۳۰۸؛ ابن سعد، ج ۳، ص ۲۷۶؛ بلاذری، فتوح البلدان، ص ۴۴۸ـ ۴۶۱؛ ماوردی، نصیحۃ الملوک، ص ۳۵۳۔</ref> | ||
*عثمان بن عفان | *عثمان بن عفان | ||
سطر 37: | سطر 37: | ||
امام حسن خلافت اسلامی کے پہلے دور کے آخری خلیفہ تھے جسکو بعد میں [[خلفای راشدین|راشدین]] کی کارسمیٹک شناخت مل گئی۔ اس بات کو سنی مذہب کے مختلف صدیوں کے مولفین کی کتابوں میں کثرت سے مشاہدہ کرسکتے ہیں،<ref>اسفراینی، ج۲، ص۵۰۱؛ غزالی، ص۲۷ـ۲۸، ۱۴۸؛ سجاسی، ص۳۴ـ۳۹</ref> | امام حسن خلافت اسلامی کے پہلے دور کے آخری خلیفہ تھے جسکو بعد میں [[خلفای راشدین|راشدین]] کی کارسمیٹک شناخت مل گئی۔ اس بات کو سنی مذہب کے مختلف صدیوں کے مولفین کی کتابوں میں کثرت سے مشاہدہ کرسکتے ہیں،<ref>اسفراینی، ج۲، ص۵۰۱؛ غزالی، ص۲۷ـ۲۸، ۱۴۸؛ سجاسی، ص۳۴ـ۳۹</ref> | ||
چند اہم خصوصیات کے حامل ہونے جیسے [[پیامبر(ص)]] کے نامور[[صحابہ]] میں شمار ہونا، پیامبر اکرم سے نسبی یا سببی رشتہ داری ہونا، اسلام میں پہل کرنا، پیغمبر اکرم اور انکے اہداف سے یاری، اور آخر میں سیرہ علمی (اس مورد میں تیسرا خلیفہ کو استثناء کرنا ہوگا) نے وہ اور بعد والے خلیفوں کے درمیان تفاوت ایجاد کیا بلکہ اسلامی معاشرے میں صاحبان قدرت کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کے لیے ایک معیار میں تبدیل ہوگیا۔ | چند اہم خصوصیات کے حامل ہونے جیسے [[پیامبر(ص)]] کے نامور[[صحابہ]] میں شمار ہونا، پیامبر اکرم سے نسبی یا سببی رشتہ داری ہونا، اسلام میں پہل کرنا، پیغمبر اکرم اور انکے اہداف سے یاری، اور آخر میں سیرہ علمی (اس مورد میں تیسرا خلیفہ کو استثناء کرنا ہوگا) نے وہ اور بعد والے خلیفوں کے درمیان تفاوت ایجاد کیا بلکہ اسلامی معاشرے میں صاحبان قدرت کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کے لیے ایک معیار میں تبدیل ہوگیا۔ | ||
آراء اہل حل و عقد، اہل استخلاف، اصل شورا،<ref>مراجعہ کریں:حاتم قادری، تحول مبانی مشروعیت خلافت، ص ۸۳ـ۸۴، ۸۷؛ جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص ۹۹</ref> خلیفہ کا[[قریش|قریشی]] ہونا، خلافت کے اثبات، یا وفاداری اور موافقت کا اظہار کیلئے [[بیعت]] ایک سبب بننا، <ref>ماوردی، الاحکام | آراء اہل حل و عقد، اہل استخلاف، اصل شورا،<ref>مراجعہ کریں:حاتم قادری، تحول مبانی مشروعیت خلافت، ص ۸۳ـ۸۴، ۸۷؛ جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص ۹۹</ref> خلیفہ کا[[قریش|قریشی]] ہونا، خلافت کے اثبات، یا وفاداری اور موافقت کا اظہار کیلئے [[بیعت]] ایک سبب بننا، <ref>ماوردی، الاحکام السلطانیۃ و الولایات الدینیۃ، ص ۶ـ۷؛ مراجعہ کریں: جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص ۹۰ـ۹۳</ref>، امت کی وحدت کو محفوظ رکھنے کے لیے حاکم کی اطاعت ضروری ہونا، خروج سے ممانعت، <ref>ابن ابی شیبہ، ج ۷، ص ۵۶۶ـ۵۶۷</ref>، خلیفہ کو خلافت سے خلع کرنے کا امکان یا عدم امکان،<ref>ابن فرّاء، ص ۲۰ـ۲۳</ref>، باغیوں کے ساتھ[[جہاد]] وغیرہ، سب [[خلفای راشدین]] کے انتصاب اور انکی کارکردگی سے ماخوذ تھے جو ایک آیڈیل حکومت کے طور پر استناد کیا جاتا تھا | ||
===امویوں کی خلافت=== | ===امویوں کی خلافت=== | ||
[[معاویہ بن ابی سفیان]] نے 41 ہ ق کو اموی حکومت تشکیل دیکر اسلامی خلافت کو مشروعیت کے بحران سے دوچار کردیا۔ معاویہ کو نہ تو مسلمان گزشتہ خلفاء کی طرح سمجھتے تھے اور نہ ہی نیک شہرت کے مالک تھے بلکہ اس نے خود اس بات کی تصریح کی تھی کہ خلافت کو رضایت سے نہیں بلکہ زبردستی حاصل کیا ہے۔ <ref>ابن عبد ربّہ، ج ۴، ص ۷۵ـ۷۶</ref> اور خود کہ پہلا بادشاہ کا نام دیکر خلافت کے زوال کی خبر دے دی۔۔<ref>مراجعہ کریں: ابن عساکر، ج ۵۹، ص ۱۵۱، ۱۷۷</ref> اس نے حکومت کو اپنی خاندان کے لیے ایک الہی برتری سمجھا۔<ref>ابن قتیبہ، ج ۱، ص ۱۸۳، ۱۸۷؛ ابن عساکر، ج ۵۹، ص ۱۵۰</ref> آخری مورد ایک ایسے غالب نظریے میں تبدیل ہوگیا کہ خلافت بنی امیہ میں موروثی ہونے علاوہ اسلامی خلافت کو ایک مذہبی لبادہ میں رکھ کر اسلامی سلطنت میں تبدیل کردیا، اور بعد میں پیامبر اکرم سے ایک منسوب حدیث « خلافت تیس سال کی ہے اور اس کے بعد بادشاہت ہے»،<ref>نعیم بن حمّاد، ص ۵۷؛ احمد بن حنبل، ج ۶، ص ۲۸۹</ref> کے ذریعے تأکید بلکہ ایک قسم کی تائید کی گئی۔ | [[معاویہ بن ابی سفیان]] نے 41 ہ ق کو اموی حکومت تشکیل دیکر اسلامی خلافت کو مشروعیت کے بحران سے دوچار کردیا۔ معاویہ کو نہ تو مسلمان گزشتہ خلفاء کی طرح سمجھتے تھے اور نہ ہی نیک شہرت کے مالک تھے بلکہ اس نے خود اس بات کی تصریح کی تھی کہ خلافت کو رضایت سے نہیں بلکہ زبردستی حاصل کیا ہے۔ <ref>ابن عبد ربّہ، ج ۴، ص ۷۵ـ۷۶</ref> اور خود کہ پہلا بادشاہ کا نام دیکر خلافت کے زوال کی خبر دے دی۔۔<ref>مراجعہ کریں: ابن عساکر، ج ۵۹، ص ۱۵۱، ۱۷۷</ref> اس نے حکومت کو اپنی خاندان کے لیے ایک الہی برتری سمجھا۔<ref>ابن قتیبہ، ج ۱، ص ۱۸۳، ۱۸۷؛ ابن عساکر، ج ۵۹، ص ۱۵۰</ref> آخری مورد ایک ایسے غالب نظریے میں تبدیل ہوگیا کہ خلافت بنی امیہ میں موروثی ہونے علاوہ اسلامی خلافت کو ایک مذہبی لبادہ میں رکھ کر اسلامی سلطنت میں تبدیل کردیا، اور بعد میں پیامبر اکرم سے ایک منسوب حدیث « خلافت تیس سال کی ہے اور اس کے بعد بادشاہت ہے»،<ref>نعیم بن حمّاد، ص ۵۷؛ احمد بن حنبل، ج ۶، ص ۲۸۹</ref> کے ذریعے تأکید بلکہ ایک قسم کی تائید کی گئی۔ | ||
جب 60 ہجری کو یزید خلافت پر پہنچا تو اسلامی اقدار کو پامال کرنے کے علاوہ، اپنے خلاف ہونے والی تمام مخالفتوں کو سنگدلی کے ساتھ سرکوب کیا۔ [[امام حسین (ع)]] سے نبرد آزمایی اور [[واقعہ حرہ]] انہی میں سے ہیں۔<ref>مراجعہ کریں: طبری، ج ۵، ص ۴۶۱ـ۴۶۲ و ابن قتیبہ، ج ۱، ص ۲۱۴؛ یعقوبی، ج ۲، ص ۲۵۰</ref> اس کے بعد ، خلافت کی مشروعیت کا معیار حق پر ثابت قدم ہونا نہیں بلکہ وہ خود [[حق]] اور [[باطل]] کا معیار تھا۔<ref>مراجعہ کریں: طبری، ج ۵، ص ۴۹۷</ref> مخالفوں کے مختلف قیام اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اس قسم کی خلافت اگرچہ مسلط تھی لیکن سب کو شامل نہیں کرتی تھی اور پیامبر اکرم کی خاندان کے علاوہ کہ جنہوں نے کربلا میں قیام کر کے اپنا موقف بیان کیا، مسلمانوں کے دیگر چند گروہ خاص کر ([[مکہ]]، [[مدینہ]]) اور [[عراق]] کے لوگوں نے بھی انہیں تحمل نہیں کیا۔<ref>مراجعہ کریں: | جب 60 ہجری کو یزید خلافت پر پہنچا تو اسلامی اقدار کو پامال کرنے کے علاوہ، اپنے خلاف ہونے والی تمام مخالفتوں کو سنگدلی کے ساتھ سرکوب کیا۔ [[امام حسین (ع)]] سے نبرد آزمایی اور [[واقعہ حرہ]] انہی میں سے ہیں۔<ref>مراجعہ کریں: طبری، ج ۵، ص ۴۶۱ـ۴۶۲ و ابن قتیبہ، ج ۱، ص ۲۱۴؛ یعقوبی، ج ۲، ص ۲۵۰</ref> اس کے بعد ، خلافت کی مشروعیت کا معیار حق پر ثابت قدم ہونا نہیں بلکہ وہ خود [[حق]] اور [[باطل]] کا معیار تھا۔<ref>مراجعہ کریں: طبری، ج ۵، ص ۴۹۷</ref> مخالفوں کے مختلف قیام اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اس قسم کی خلافت اگرچہ مسلط تھی لیکن سب کو شامل نہیں کرتی تھی اور پیامبر اکرم کی خاندان کے علاوہ کہ جنہوں نے کربلا میں قیام کر کے اپنا موقف بیان کیا، مسلمانوں کے دیگر چند گروہ خاص کر ([[مکہ]]، [[مدینہ]]) اور [[عراق]] کے لوگوں نے بھی انہیں تحمل نہیں کیا۔<ref>مراجعہ کریں:خلیفۃ بن خیاط، ص ۱۵۷؛ ابن قتیبہ، ج ۱، ص ۱۷۳ـ۱۷۴؛ طبری، ج ۵، ص ۴۹۲</ref> | ||
خلافت کے دعویداروں میں سے ایک [[عبداللہ بن زبیر]] تھا جو [[یزید ابن معاویہ|یزید]] کی موت کے بعد 64 ہجری کو [[قرآن|اللہ کی کتاب]]، رسول کی [[سنّت]] اور سیرہ خلفای صالح» پر عمل کرنے کو اساس بنا کر لوگوں کو اپنی [[بیعت]] کی طرف بلایا۔<ref>بلاذری، ج ۶، ص ۳۴۱</ref> ان کی اس دعوت کا اصل ہدف خلاف کی ابتدائی شکل کی طرف لوٹنا تھا، [[معاویہ ابن یزید]] کی اموی پرتنش خلافت سے دستبرداری کے بعد، آہستہ آہستہ حجاز (ابن زبیر کی تحریک کا محل آغاز) سے دیگر علاقوں کی طرف پھیلنے لگا | خلافت کے دعویداروں میں سے ایک [[عبداللہ بن زبیر]] تھا جو [[یزید ابن معاویہ|یزید]] کی موت کے بعد 64 ہجری کو [[قرآن|اللہ کی کتاب]]، رسول کی [[سنّت]] اور سیرہ خلفای صالح» پر عمل کرنے کو اساس بنا کر لوگوں کو اپنی [[بیعت]] کی طرف بلایا۔<ref>بلاذری، ج ۶، ص ۳۴۱</ref> ان کی اس دعوت کا اصل ہدف خلاف کی ابتدائی شکل کی طرف لوٹنا تھا، [[معاویہ ابن یزید]] کی اموی پرتنش خلافت سے دستبرداری کے بعد، آہستہ آہستہ حجاز (ابن زبیر کی تحریک کا محل آغاز) سے دیگر علاقوں کی طرف پھیلنے لگا | ||
مروانیوں کی خلافت 64 ہجری سے شروع ہوئی اور دس خلیفوں کے ذریعے 132 ہجری تک باقی رہی۔ مروانیوں نے خلافت میں اپنی بادشاہتی نظر کو دوام بخشا اور خلیفہ کے معنوی مقام کو پہلے سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کی اور اس کے لیے قدسی معنی ایجاد کیا۔<ref>مراجعہ کریں: جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص ۲۳۶ـ۲۴۷</ref> | مروانیوں کی خلافت 64 ہجری سے شروع ہوئی اور دس خلیفوں کے ذریعے 132 ہجری تک باقی رہی۔ مروانیوں نے خلافت میں اپنی بادشاہتی نظر کو دوام بخشا اور خلیفہ کے معنوی مقام کو پہلے سے زیادہ بڑھانے کی کوشش کی اور اس کے لیے قدسی معنی ایجاد کیا۔<ref>مراجعہ کریں: جعفریان، تاریخ تحول دولت و خلافت، ص ۲۳۶ـ۲۴۷</ref> | ||
امویوں کی وسیع تبلیغات اور سیاسی تسلط کی وجہ سے خلافت اور خلیفہ کا مفہوم اکثر مسلمانوں کے ذھن میں یہاں تک کہ [[امویوں]] کی حکومت کے بعد بھی انکا ترویج کیا ہوا مفہوم تھا۔ | امویوں کی وسیع تبلیغات اور سیاسی تسلط کی وجہ سے خلافت اور خلیفہ کا مفہوم اکثر مسلمانوں کے ذھن میں یہاں تک کہ [[امویوں]] کی حکومت کے بعد بھی انکا ترویج کیا ہوا مفہوم تھا۔ | ||
اس کے باوجود [[اہل بیت(ع)|خاندان پیامبر]] کے ساتھ ظالمانہ سلوک اور رفتار کی وجہ سے انکی حکومت کا چہرہ مسخ اور ناقابل ترمیم باقی رہا۔۔<ref>مراجعہ کریں: جاحظ، رسائل الجاحظ: الرسائل | اس کے باوجود [[اہل بیت(ع)|خاندان پیامبر]] کے ساتھ ظالمانہ سلوک اور رفتار کی وجہ سے انکی حکومت کا چہرہ مسخ اور ناقابل ترمیم باقی رہا۔۔<ref>مراجعہ کریں: جاحظ، رسائل الجاحظ: الرسائل الکلامیۃ، ص ۲۴۲ـ۲۴۵؛ غزالی، ص ۱۱۹؛ ہندوشاہ بن سنجر، ص ۵۷؛ تحفہ: در اخلاق و سیاست، ص ۱۵۴</ref> اسی وجہ سے تاریخ میں بہت سارے مسلم مولفین نے امیر المومنین کی اصطلاح یا حتی خلیفہ کی اصطلاح کو امویوں کے لیے استعمال کرنے سے اجتناب کیا ہے یہاں تک کہ اموی دو اصلاح کرنے والے خلیفے، [[عمر بن عبدالعزیز]] اور [[یزید بن ولید]] کا انکے درمیان موجود ہونا، یا بعض مولفین کی امویوں کی کارکردگی کی توجیہ کرنے کی کوششیں<ref>مراجعہ کریں: خطیب اسکافی، ص ۱۲؛ طرطوشی، ص ۱۲۶ـ۱۲۷</ref>، بھی انکے منفی چہرے کی تطہیر کے لیے مفید واقع نہیں ہوئیں۔ | ||
===عباسیوں کی خلافت=== | ===عباسیوں کی خلافت=== | ||
اسلامی خلافت کا تیسرا دور بنی عباس والوں کا ہے جنہوں نے 37 خلیفوں کے زریعے پانچ صدیوں(۱۳۲ـ۶۵۶ھ) سے زیادہ مملکت اسلامی پر حکومت کیا۔ «الرضا من آل محمد (ص)» کے نعرے سے یہ خلافت تشکیل پائی، [[اہل بیت]] کو حقوق دلانے اور الہی میراث یعنی [[محمد (ص)|پیامبر (ص)]]کی (جانشینی) انکے خاندان کو واپس کرنے کے لیے [[سفاح]] کی بیعت کی۔<ref>مراجعہ کریں: یعقوبی، ج ۲، ص ۳۵۰ـ۳۵۱</ref> وراثت بنی عباس کی خلافت کے ڈھانچے میں ایک لازمی رکن شمار ہوتی تھی۔ | اسلامی خلافت کا تیسرا دور بنی عباس والوں کا ہے جنہوں نے 37 خلیفوں کے زریعے پانچ صدیوں(۱۳۲ـ۶۵۶ھ) سے زیادہ مملکت اسلامی پر حکومت کیا۔ «الرضا من آل محمد (ص)» کے نعرے سے یہ خلافت تشکیل پائی، [[اہل بیت]] کو حقوق دلانے اور الہی میراث یعنی [[محمد (ص)|پیامبر (ص)]]کی (جانشینی) انکے خاندان کو واپس کرنے کے لیے [[سفاح]] کی بیعت کی۔<ref>مراجعہ کریں: یعقوبی، ج ۲، ص ۳۵۰ـ۳۵۱</ref> وراثت بنی عباس کی خلافت کے ڈھانچے میں ایک لازمی رکن شمار ہوتی تھی۔ | ||
اس دورے میں خلیفہ کی [[بیعت]] خاص آداب اور رسومات کے ساتھ انجام دی جاتی تھی۔<ref>ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص ۱؛ ابن فرّاء، ص ۲۴؛ بلعمی، ج ۲، ص ۱۱۶۹؛ ثعالبی، ص ۷۶؛ گردیزی، ص ۱۵۳؛ ابن جوزی، ج ۹، ص ۲۱۹؛ قلقشندی، صنع الاعشی فی | اس دورے میں خلیفہ کی [[بیعت]] خاص آداب اور رسومات کے ساتھ انجام دی جاتی تھی۔<ref>ماوردی، الاحکام السلطانیہ، ص ۱؛ ابن فرّاء، ص ۲۴؛ بلعمی، ج ۲، ص ۱۱۶۹؛ ثعالبی، ص ۷۶؛ گردیزی، ص ۱۵۳؛ ابن جوزی، ج ۹، ص ۲۱۹؛ قلقشندی، صنع الاعشی فی صناعۃ الانشا، ج ۹، ص ۲۷۶ـ۲۷۹</ref> تیسری صدی سے ہی خلفاء کے دربار کی آداب و رسوم کے آثار تدوین ہوگئے اور تشریفات، تزین اور ڈیکوریشن خلیفہ اور اس کے دربار کی لوازمات میں سے شمار ہونے لگیں <ref>جاحظ، التاج فی اخلاق الملوک، ص۱۵ـ۲۱، ۲۴ـ ۳۲، ۵۳ـ۸۷؛ ثعلبی، ص۳۷ـ۱۰۱</ref> | ||
عباسی خلفاء کی ابتدائی نسل مذہبی اور سیاسی مقتدر شان و شوکت رکھتے تھے اور انکی دینی اقتدار، سیاسی طاقت کی بنیاد سمجھی جاتی تھی <ref>ابن مقفع، ص ۱۹۲؛ ابویوسف، ص ۵؛ بلک، ص ۳۶ـ۳۹</ref> لیکن خلیفہ کی سیاسی اقتدار آہستہ آہستہ کمزور ہونے لگی؛ اور خلیفہ کا عزل و نصب اور حکومت کی بقاء یہاں تک کہ خلیفہ کی موت و زندگی کا اختیار بھی پورے طور پر ترک فوج، آل بویہ اور سلجوقیوں کے ہاتھ میں تھی۔<ref>مجمل التواریخ و القصص، ص ۳۶۲ـ ۳۶۵، ۳۷۴ـ۳۷۵؛ ہندوشاہ بن سنجر، ص ۱۸۵؛ تحفہ: در اخلاق و سیاست، ص ۱۳۳ـ۱۳۴</ref> | عباسی خلفاء کی ابتدائی نسل مذہبی اور سیاسی مقتدر شان و شوکت رکھتے تھے اور انکی دینی اقتدار، سیاسی طاقت کی بنیاد سمجھی جاتی تھی <ref>ابن مقفع، ص ۱۹۲؛ ابویوسف، ص ۵؛ بلک، ص ۳۶ـ۳۹</ref> لیکن خلیفہ کی سیاسی اقتدار آہستہ آہستہ کمزور ہونے لگی؛ اور خلیفہ کا عزل و نصب اور حکومت کی بقاء یہاں تک کہ خلیفہ کی موت و زندگی کا اختیار بھی پورے طور پر ترک فوج، آل بویہ اور سلجوقیوں کے ہاتھ میں تھی۔<ref>مجمل التواریخ و القصص، ص ۳۶۲ـ ۳۶۵، ۳۷۴ـ۳۷۵؛ ہندوشاہ بن سنجر، ص ۱۸۵؛ تحفہ: در اخلاق و سیاست، ص ۱۳۳ـ۱۳۴</ref> | ||
سطر 101: | سطر 101: | ||
* ابن سباط، صدق الاخبار، تاریخ ابن سباط، چاپ عمر عبدالسلام تدمری، طرابلس ۱۴۱۳/۱۹۹۳۔ | * ابن سباط، صدق الاخبار، تاریخ ابن سباط، چاپ عمر عبدالسلام تدمری، طرابلس ۱۴۱۳/۱۹۹۳۔ | ||
* ابن سعد (بیروت)۔ | * ابن سعد (بیروت)۔ | ||
* ابن شبّہ نمیری، کتاب تاریخ | * ابن شبّہ نمیری، کتاب تاریخ المدینۃ المنورۃ: اخبار المدینۃ النبویۃ، چاپ فہیم محمد شلتوت، جدہ، ۱۳۹۹/۱۹۷۹، چاپ افست قم ۱۳۶۸ش۔ | ||
* ابن عبدربّہ، العقدالفرید، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۰۸ـ۱۴۱۱/۱۹۸۸ـ۱۹۹۰۔ | * ابن عبدربّہ، العقدالفرید، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۰۸ـ۱۴۱۱/۱۹۸۸ـ۱۹۹۰۔ | ||
* ابن عساکر، تاریخ | * ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، چاپ علی شیری، بیروت ۱۴۱۵ـ۱۴۲۱/۱۹۹۵ـ۲۰۰۱۔ | ||
* ابن فرّاء، الاحکام | * ابن فرّاء، الاحکام السلطانیۃ، چاپ محمدحامد فقی، بیروت ۱۴۰۳/۱۹۸۳۔ | ||
* ابن قتیبہ، | * ابن قتیبہ، الامامۃ و السیاسۃ، المعروف بتاریخ الخلفاء، قاہرہ ۱۳۸۸/ ۱۹۶۹، چاپ افست قم ۱۳۶۳ش؛ | ||
* ابن مقفع، | * ابن مقفع، المجموعۃ الکاملۃ مؤلفات عبداللّہ بن المقفع، بیروت ۱۹۷۸۔ | ||
* ابن منظور، لسان العرب، | * ابن منظور، لسان العرب، | ||
* ابن نبی، مالک، دموکراسی در اسلام، ترجمہ عبدالعزیز مولودی، بوکان ۱۳۸۱ش۔ | * ابن نبی، مالک، دموکراسی در اسلام، ترجمہ عبدالعزیز مولودی، بوکان ۱۳۸۱ش۔ | ||
سطر 113: | سطر 113: | ||
* احمدبن حنبل، مسندالامام احمدبن محمدبن حنبل، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۳۔ | * احمدبن حنبل، مسندالامام احمدبن محمدبن حنبل، بیروت ۱۴۱۴/۱۹۹۳۔ | ||
* اسفراینی، شہفوربن طاہر، تاج التراجم فی تفسیرالقرآن للأعاجم، چاپ نجیب مایل ہروی و علی اکبر الہی خراسانی، ج۲، تہران ۱۳۷۵ش؛ | * اسفراینی، شہفوربن طاہر، تاج التراجم فی تفسیرالقرآن للأعاجم، چاپ نجیب مایل ہروی و علی اکبر الہی خراسانی، ج۲، تہران ۱۳۷۵ش؛ | ||
* اسکافی، محمدبن عبداللّہ، المعیار و | * اسکافی، محمدبن عبداللّہ، المعیار و الموازنۃ فی فضائل الامام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب (صلوات اللّہ علیہ)، چاپ محمدباقر محمودی، بیروت ۱۴۰۲/۱۹۸۱۔ | ||
* بارتولد، واسیلی ولادیمیروویچ، خلیفہ و سلطان، و مختصری دربارہ برمکیان، ترجمہ سیروس ایزدی، تہران ۱۳۵۸ش۔ | * بارتولد، واسیلی ولادیمیروویچ، خلیفہ و سلطان، و مختصری دربارہ برمکیان، ترجمہ سیروس ایزدی، تہران ۱۳۵۸ش۔ | ||
* بلاذری، احمدبن یحیی، کتاب جُمَل من انساب الاشراف، چاپ سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت ۱۴۱۷/۱۹۹۶۔ | * بلاذری، احمدبن یحیی، کتاب جُمَل من انساب الاشراف، چاپ سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت ۱۴۱۷/۱۹۹۶۔ | ||
سطر 119: | سطر 119: | ||
* بلعمی، محمدبن محمد، تاریخنامہ طبری، چاپ محمد روشن، تہران ۱۳۶۶ش۔ | * بلعمی، محمدبن محمد، تاریخنامہ طبری، چاپ محمد روشن، تہران ۱۳۶۶ش۔ | ||
* بلک، آنتونی، تاریخ اندیشہ سیاسی اسلام: از عصر پیامبر تا امروز، ترجمہ محمدحسین وقار، تہران ۱۳۸۵ش۔ | * بلک، آنتونی، تاریخ اندیشہ سیاسی اسلام: از عصر پیامبر تا امروز، ترجمہ محمدحسین وقار، تہران ۱۳۸۵ش۔ | ||
* بنّا، حسن، | * بنّا، حسن، مجموعۃ رسائل الامام الشہید حسین البنا، اسکندریہ ۱۴۲۳/۲۰۰۲۔ | ||
* تحفہ: در اخلاق و سیاست، از متون فارسی قرن ہشتم، چاپ محمدتقی دانش پژوہ، تہران ۱۳۴۱ش | * تحفہ: در اخلاق و سیاست، از متون فارسی قرن ہشتم، چاپ محمدتقی دانش پژوہ، تہران ۱۳۴۱ش | ||
* ثعالبی، عبدالملک بن محمد، آداب الملوک، چاپ جلیل عطیہ، بیروت ۱۹۹۰۔ | * ثعالبی، عبدالملک بن محمد، آداب الملوک، چاپ جلیل عطیہ، بیروت ۱۹۹۰۔ | ||
* ثعلبی، محمدبن حارث، اخلاق الملوک، چاپ جلیل عطیہ، بیروت ۱۴۲۴/۲۰۰۳۔ | * ثعلبی، محمدبن حارث، اخلاق الملوک، چاپ جلیل عطیہ، بیروت ۱۴۲۴/۲۰۰۳۔ | ||
* جاحظ، عمروبن بحر، کتاب التاج فی اخلاق الملوک، چاپ فوزی عطوی، بیروت ۱۹۷۰۔ | * جاحظ، عمروبن بحر، کتاب التاج فی اخلاق الملوک، چاپ فوزی عطوی، بیروت ۱۹۷۰۔ | ||
* جاحظ، عمروبن بحر، رسائل الجاحظ: الرسائل | * جاحظ، عمروبن بحر، رسائل الجاحظ: الرسائل الکلامیۃ، چاپ علی ابوملحم، بیروت ۲۰۰۴۔ | ||
* جان احمدی، فاطمہ، ساختار نہاد دینی فاطمیان در مصر، تہران ۱۳۸۸ش۔ | * جان احمدی، فاطمہ، ساختار نہاد دینی فاطمیان در مصر، تہران ۱۳۸۸ش۔ | ||
* جعفریان، رسول، تاریخ تحول دولت و خلافت: از برآمدن اسلام تا برافتادن سفیانیان، قم ۱۳۷۷ش۔ | * جعفریان، رسول، تاریخ تحول دولت و خلافت: از برآمدن اسلام تا برافتادن سفیانیان، قم ۱۳۷۷ش۔ | ||
سطر 131: | سطر 131: | ||
* حاتم قادری، تحول مبانی مشروعیت خلافت: از آغاز تا فروپاشی عباسیان، با رویکردی بہ آراء اہل سنّت، بی جا، بنیان، ۱۳۷۵ش۔ | * حاتم قادری، تحول مبانی مشروعیت خلافت: از آغاز تا فروپاشی عباسیان، با رویکردی بہ آراء اہل سنّت، بی جا، بنیان، ۱۳۷۵ش۔ | ||
* خطیب اسکافی، محمدبن عبداللّہ، کتاب لطف التدبیر، چاپ احمد عبدالباقی، بغداد ۱۹۶۴۔ | * خطیب اسکافی، محمدبن عبداللّہ، کتاب لطف التدبیر، چاپ احمد عبدالباقی، بغداد ۱۹۶۴۔ | ||
* | * خلیفۃ بن خیاط، تاریخ خلیفۃ بن خیاط، چاپ مصطفی نجیب فوّاز و حکمت کشلی فوّاز، بیروت ۱۴۱۵/۱۹۹۵۔ | ||
* رشیدالدین فضل اللّہ، جامع التواریخ: قسمت اسماعیلیان و فاطمیان و نزاریان و داعیان و رفیقان،چاپ محمدتقی دانش پژوہ و محمد مدرسی زنجانی، تہران ۱۳۸۱ش۔ | * رشیدالدین فضل اللّہ، جامع التواریخ: قسمت اسماعیلیان و فاطمیان و نزاریان و داعیان و رفیقان،چاپ محمدتقی دانش پژوہ و محمد مدرسی زنجانی، تہران ۱۳۸۱ش۔ | ||
* زبیدی، محمدبن محمد، تاج العروس من جواہر القاموس، ج۲۳، چاپ عبدالفتاح حلو، کویت ۱۴۰۶/۱۹۸۶۔ | * زبیدی، محمدبن محمد، تاج العروس من جواہر القاموس، ج۲۳، چاپ عبدالفتاح حلو، کویت ۱۴۰۶/۱۹۸۶۔ | ||
* سجاسی، اسحاق بن ابراہیم، فرائدالسلوک، چاپ نورانی وصال و غلامرضا افراسیابی، تہران ۱۳۶۸ش۔ | * سجاسی، اسحاق بن ابراہیم، فرائدالسلوک، چاپ نورانی وصال و غلامرضا افراسیابی، تہران ۱۳۶۸ش۔ | ||
* سعدی، مصلح بن عبداللّہ، کلیات سعدی، چاپ بہاءالدین خرمشاہی، تہران ۱۳۷۹ش۔ | * سعدی، مصلح بن عبداللّہ، کلیات سعدی، چاپ بہاءالدین خرمشاہی، تہران ۱۳۷۹ش۔ | ||
* سنہوری، عبدالرزاق احمد، فقہ | * سنہوری، عبدالرزاق احمد، فقہ الخلافۃ و تطورہا لتصبح عصبۃ امم شرقیۃ، ترجمتہ عن الفرنسیۃ نادیہ عبدالرزاق سنہوری، چاپ توفیق محمد شاوی، قاہرہ، ۱۹۸۹۔ | ||
* طبری، محمدبن جریر، تاریخ، بیروت | * طبری، محمدبن جریر، تاریخ، بیروت | ||
* طرطوشی، محمدبن ولید، سراج الملوک، بیروت ۱۹۹۵۔ | * طرطوشی، محمدبن ولید، سراج الملوک، بیروت ۱۹۹۵۔ | ||
* علیخانی، علی اکبر، «درآمدی بر اندیشہ سیاسی در جہان اسلام»، در اندیشہ سیاسی در جہان اسلام، | * علیخانی، علی اکبر، «درآمدی بر اندیشہ سیاسی در جہان اسلام»، در اندیشہ سیاسی در جہان اسلام، | ||
* عمادالدین کاتب، محمد بن محمد، سناالبرق الشامی: ۵۶۲ـ۵۸۳ہ /۱۱۶۶ـ۱۱۸۷م، اختصار فتح بن علی بنداری، چاپ فتحیہ نبراوی، قاہرہ، ۱۹۷۹۔ | * عمادالدین کاتب، محمد بن محمد، سناالبرق الشامی: ۵۶۲ـ۵۸۳ہ /۱۱۶۶ـ۱۱۸۷م، اختصار فتح بن علی بنداری، چاپ فتحیہ نبراوی، قاہرہ، ۱۹۷۹۔ | ||
* غزالی، محمد بن محمد، | * غزالی، محمد بن محمد، نصیحۃ الملوک، چاپ جلال الدین ہمایی، تہران ۱۳۶۷ش۔ | ||
* فریدون بیگ پاشا، احمد، منشآت السلاطین، استانبول، ۱۲۷۴ـ۱۲۷۵۔ | * فریدون بیگ پاشا، احمد، منشآت السلاطین، استانبول، ۱۲۷۴ـ۱۲۷۵۔ | ||
* فیرحی، داود، نظام سیاسی و دولت در اسلام، تہران ۱۳۸۲ش۔ | * فیرحی، داود، نظام سیاسی و دولت در اسلام، تہران ۱۳۸۲ش۔ | ||
* قلقشندی، احمدبن علی، صبح الاعشی فی | * قلقشندی، احمدبن علی، صبح الاعشی فی صناعۃ الانشا، قاہرہ ۱۹۱۰ـ۱۹۲۰، چاپ افست ۱۳۸۳/۱۹۶۳۔ | ||
* قلقشندی، احمدبن علی، | * قلقشندی، احمدبن علی، مآثرالأنافۃ فی معالم الخلافۃ، چاپ عبدالستار احمد فراج، کویت ۱۹۶۴، چاپ افست بیروت ۱۹۸۰۔ | ||
* قندیل عباس، سید، «ابوالکلام آزاد»، در اندیشہ سیاسی در جہان اسلام | * قندیل عباس، سید، «ابوالکلام آزاد»، در اندیشہ سیاسی در جہان اسلام | ||
* کابلان، جمال الدین بن رشید(خوجا اوغلو)، | * کابلان، جمال الدین بن رشید(خوجا اوغلو)، الخلافۃ و الخلیفۃ، کلن ۱۴۱۶/۱۹۹۵۔ | ||
* گردیزی، عبدالحی بن ضحاک، تاریخ گردیزی، چاپ عبدالحی حبیبی، تہران ۱۳۶۳ش۔ | * گردیزی، عبدالحی بن ضحاک، تاریخ گردیزی، چاپ عبدالحی حبیبی، تہران ۱۳۶۳ش۔ | ||
* گل محمدی، علی، «محمد رشیدرضا»، در اندیشہ سیاسی در جہان اسلام، ہمان، ج۱۔ | * گل محمدی، علی، «محمد رشیدرضا»، در اندیشہ سیاسی در جہان اسلام، ہمان، ج۱۔ | ||
* لطفی پاشا، احمد لطفی بن عبدالمعین، خلاص | * لطفی پاشا، احمد لطفی بن عبدالمعین، خلاص الامۃ فی معرفۃ الائمۃ، چاپ ماجدہ مخلوف، قاہرہ ۱۴۲۲/۲۰۰۱؛ | ||
* مالک بن انس، المُوَطَّأ، چاپ طہ عبدالرؤوف سعد، قاہرہ، ۲۰۰۶۔ | * مالک بن انس، المُوَطَّأ، چاپ طہ عبدالرؤوف سعد، قاہرہ، ۲۰۰۶۔ | ||
* ماوردی، علی بن محمد، الاحکام | * ماوردی، علی بن محمد، الاحکام السلطانیۃ و الولایات الدینیۃ، چاپ احمد مبارک بغدادی، کویت ۱۴۰۹/۱۹۸۹۔ | ||
* ماوردی، علی بن محمد، کتاب | * ماوردی، علی بن محمد، کتاب نصیحۃ الملوک، چاپ محمدجاسم حدیثی، بغداد، ۱۴۰۶/ ۱۹۸۶۔مجمل التواریخ و القصص، ص ۳۶۲ـ ۳۶۵، ۳۷۴ـ۳۷۵ | ||
* مودودی، ابوالاعلی، | * مودودی، ابوالاعلی، نظریۃ الاسلام و ہدیہ فی السیاسۃ و القانون و الدستور، بیروت ۱۳۸۹/۱۹۶۹۔ | ||
* نعیم بن حمّاد، کتاب الفتن، چاپ سہیل زکار، مکہ، ۱۹۹۱ چاپ افست دمشق، بی تا۔ | * نعیم بن حمّاد، کتاب الفتن، چاپ سہیل زکار، مکہ، ۱۹۹۱ چاپ افست دمشق، بی تا۔ | ||
* ہندوشاہ بن سنجر، تجارب السلف، چاپ عباس اقبال آشتیانی، تہران ۱۳۵۷ش۔ | * ہندوشاہ بن سنجر، تجارب السلف، چاپ عباس اقبال آشتیانی، تہران ۱۳۵۷ش۔ | ||
* یعقوبی، تاریخ، | * یعقوبی، تاریخ، | ||
* یوسف امین، «جنبش خلافت 'حافظی حضور، در بنگلادش»، ترجمہ محسن مدیرشانہ چی، | * یوسف امین، «جنبش خلافت 'حافظی حضور، در بنگلادش»، ترجمہ محسن مدیرشانہ چی، مشکوۃ،ش ۱۱ (تابستان ۱۳۶۵)۔ | ||
{{ستون خ}} | {{ستون خ}} | ||