مندرجات کا رخ کریں

"آیت" کے نسخوں کے درمیان فرق

75 بائٹ کا اضافہ ،  12 دسمبر 2016ء
م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 134: سطر 134:


روایات میں معرفتِ آفاقی  کی اہمیت اور خاص طور پر آیات انفسی کی جانب زیادہ تاکید بیان ہوئی ہے ۔ پیامبر اکرم(ص) فرمایا: <font color=blue>{{حدیث|من عرف نفسه فقد عرف ربه}}</font>  جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ <ref>مجلسی، بحارالانوار، ج۲، ص۳۲ ; غرر الحکم، ص۲۳۲</ref> <ref> برای تفاسیر این حدیث نک: مصابیح الانوار، ج۱، ص۲۰۴، و الالهیات فی مدرسة أهل البیت(ع)، ص</ref>
روایات میں معرفتِ آفاقی  کی اہمیت اور خاص طور پر آیات انفسی کی جانب زیادہ تاکید بیان ہوئی ہے ۔ پیامبر اکرم(ص) فرمایا: <font color=blue>{{حدیث|من عرف نفسه فقد عرف ربه}}</font>  جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ <ref>مجلسی، بحارالانوار، ج۲، ص۳۲ ; غرر الحکم، ص۲۳۲</ref> <ref> برای تفاسیر این حدیث نک: مصابیح الانوار، ج۱، ص۲۰۴، و الالهیات فی مدرسة أهل البیت(ع)، ص</ref>
<!--
امام علی(ع) ایک اور بیان کے ذریعے آیات آفاقی سے وجود خدا پر دلیل قائم کی ہے: پس تم سورج اور چاند میں فکر کرو،شجر و گیاه،  آب و سنگ،  شب و روز کے اختلاف، دریاؤں کے پھوٹنے، پہاڑوں کی کثرت اور ان کی بلند چوٹیوں ، مختلف لغات، زبانوں میں اختلاف کہ پروردگار کی واضح نشانیوں میں سے ہیں۔پس وائے ہو اس پر جو تقدیر مقرر کرنے والے کو قبول نہیں کرتا پے ،  تدبیر کرنے والے کا انکار کرتا ہے ! گمان کردند که آنها چون گیاهانند و زارعی ندارند، و اختلاف صورت هایشان را سازنده‌ای نیست، بر آنچه ادعا می‌کنند حجت و دلیلی ندارند، آیا ممکن است ساختمانی بدون سازنده باشد ».<ref>نهج البلاغه، خطبه ۱۸۵</ref>


توجه و تمسک به آیات آفاقی و انفسی در [[فلسفه]] و [[عرفان]] نیز مورد بحث واقع شده است.<ref>الأسفار الأربعه، ج۷، ص۱۴ ; اسرار الآیات، ص۱۶؛ الأسفار الأربعه، ج۷، ص۱۴</ref>
امام علی(ع) نے ایک اور بیان کے ذریعے آیات آفاقی سے وجود خدا پر دلیل قائم کی ہے: پس تم سورج اور چاند میں فکر کرو،شجر و گیاه،  آب و سنگ،  شب و روز کے اختلاف، دریاؤں کے پھوٹنے، پہاڑوں کی کثرت اور ان کی بلند چوٹیوں ، مختلف لغات، زبانوں میں اختلاف کہ پروردگار کی واضح نشانیوں میں سے ہیں۔پس وائے ہو اس پر جو تقدیر مقرر کرنے والے کو قبول نہیں کرتا پے ،  تدبیر کرنے والے کا انکار کرتا ہے !وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ جڑی بوٹیوں کی مانند ہیں اور ان کی صورتوں میں اختلاف کا کوئی خالق نہیں ہے ،وہ چیز جس کا وہ ادعا کرتے ہیں اس ٌر کوئی دلیل و حجت نہیں ہے کیا یہ ممکن ہے کہ عمارت کسی بنانے والے کے بغیر موجود ہو سکتی ہے۔<ref>نهج البلاغه، خطبه ۱۸۵</ref>
 
فلسفے اور علم عرفان میں آیات آفاقی اور انفسی  سے تمسک کرنا محل بحث واقع ہوا ہے۔<ref>الأسفار الأربعه، ج۷، ص۱۴ ; اسرار الآیات، ص۱۶؛ الأسفار الأربعه، ج۷، ص۱۴</ref>




سطر 145: سطر 145:
[[tr:Ayet]]
[[tr:Ayet]]
[[id:Ayat]]
[[id:Ayat]]
>
گمنام صارف