گمنام صارف
"آیت" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
←آفاقی و انفسی آیات
imported>Mabbassi |
imported>Mabbassi |
||
سطر 127: | سطر 127: | ||
# انسان کا اپنے جسم و جان کی آیات میں غور و فکر کرنا انہیں آیات انفسی کہتے ہیں۔ | # انسان کا اپنے جسم و جان کی آیات میں غور و فکر کرنا انہیں آیات انفسی کہتے ہیں۔ | ||
#انسانی وجود سے باہر کی آیات الہی میں غور و فکر کرنا ، انہیں آیات آفاقی کہا جاتا ہے۔<ref>تفسیر نمونه، ج۱۸، ص۳۲۸</ref> | #انسانی وجود سے باہر کی آیات الہی میں غور و فکر کرنا ، انہیں آیات آفاقی کہا جاتا ہے۔<ref>تفسیر نمونه، ج۱۸، ص۳۲۸</ref> | ||
قرآن و حدیث میں غور و فکر اور تدبر کے بارے میں خاص طور پر آیات انفسی میں زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔جیسا کہ خدا کا ارشاد ہے : <font color=geen>{{حدیث|سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ ۗ...(٥٣)}}</font> | |||
آفاقی اور انفسی آیات کے مصادیق اور موارد کے متعلق مختلف اقوال بیان ہوئے ہیں۔<ref>برای نمونه نک: جامع البیان، ج۱۱، ص۴ ; مجمع البیان، ج۹، ص۲۹ ; المیزان، ج۱۷، ص۴۰۵</ref>؛جیسے آسمانوں،سمندروں،صحراؤں،حیوانات اور موجودات کے اندر تامل وحدت حق کے سالک کو آشنا کرتا ہے۔ | |||
آیات انفسی | آیات انفسی ایسی آیات ہیں کہ جو انسان کی ذات کے اندر موجود ہیں جو اسکے اعضا اور قوائے انسان کی پیچیدگیوں سے تعلق رکھتی ہیں<ref>المیزان، ج۱۸، ص۴۰۵</ref> یا تجرد نفس اور اسکے عجائب میں غور وفکر کرنا ہے . | ||
روایات میں معرفتِ آفاقی کی اہمیت اور خاص طور پر آیات انفسی کی جانب زیادہ تاکید بیان ہوئی ہے ۔ پیامبر اکرم(ص) فرمایا: <font color=blue>{{حدیث|من عرف نفسه فقد عرف ربه}}</font> جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ <ref>مجلسی، بحارالانوار، ج۲، ص۳۲ ; غرر الحکم، ص۲۳۲</ref> <ref> برای تفاسیر این حدیث نک: مصابیح الانوار، ج۱، ص۲۰۴، و الالهیات فی مدرسة أهل البیت(ع)، ص</ref> | |||
<!-- | |||
امام علی(ع) | امام علی(ع) ایک اور بیان کے ذریعے آیات آفاقی سے وجود خدا پر دلیل قائم کی ہے: پس تم سورج اور چاند میں فکر کرو،شجر و گیاه، آب و سنگ، شب و روز کے اختلاف، دریاؤں کے پھوٹنے، پہاڑوں کی کثرت اور ان کی بلند چوٹیوں ، مختلف لغات، زبانوں میں اختلاف کہ پروردگار کی واضح نشانیوں میں سے ہیں۔پس وائے ہو اس پر جو تقدیر مقرر کرنے والے کو قبول نہیں کرتا پے ، تدبیر کرنے والے کا انکار کرتا ہے ! گمان کردند که آنها چون گیاهانند و زارعی ندارند، و اختلاف صورت هایشان را سازندهای نیست، بر آنچه ادعا میکنند حجت و دلیلی ندارند، آیا ممکن است ساختمانی بدون سازنده باشد ».<ref>نهج البلاغه، خطبه ۱۸۵</ref> | ||
توجه و تمسک به آیات آفاقی و انفسی در [[فلسفه]] و [[عرفان]] نیز مورد بحث واقع شده است.<ref>الأسفار الأربعه، ج۷، ص۱۴ ; اسرار الآیات، ص۱۶؛ الأسفار الأربعه، ج۷، ص۱۴</ref> | توجه و تمسک به آیات آفاقی و انفسی در [[فلسفه]] و [[عرفان]] نیز مورد بحث واقع شده است.<ref>الأسفار الأربعه، ج۷، ص۱۴ ; اسرار الآیات، ص۱۶؛ الأسفار الأربعه، ج۷، ص۱۴</ref> |