مندرجات کا رخ کریں

"آیت" کے نسخوں کے درمیان فرق

111 بائٹ کا اضافہ ،  12 دسمبر 2016ء
م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 104: سطر 104:


[[علامہ طباطبائی]] کے مطابق ، چہ بسا ممکن ہے کہ چند آیات  جملۂ معترضہ کی صورت میں ایک سیاق کی آیات کے درمیان آ جائیں کہ جو کسی دوسرے مطلب کو بیان کر رہی ہوں لہذا اس بنا پر آیات کے درمیان  آیات  کے درمیان تناسب اور ارتباط کو پیدا کرنے کی زحمت  ضروری نہیں نیز اس تناسب کے حتمی ہونے پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے مگر ایک جگہ پر نازل ہونے والی سورتوں  کی آیات میں ارتباط اور تناسب واضح ہے ۔<ref>المیزان، ج۴، ص۳۵۹</ref>
[[علامہ طباطبائی]] کے مطابق ، چہ بسا ممکن ہے کہ چند آیات  جملۂ معترضہ کی صورت میں ایک سیاق کی آیات کے درمیان آ جائیں کہ جو کسی دوسرے مطلب کو بیان کر رہی ہوں لہذا اس بنا پر آیات کے درمیان  آیات  کے درمیان تناسب اور ارتباط کو پیدا کرنے کی زحمت  ضروری نہیں نیز اس تناسب کے حتمی ہونے پر کوئی دلیل بھی نہیں ہے مگر ایک جگہ پر نازل ہونے والی سورتوں  کی آیات میں ارتباط اور تناسب واضح ہے ۔<ref>المیزان، ج۴، ص۳۵۹</ref>
==آیت کے دیگر معانی ==
== دیگر معانی ==
آیت کیلئے ایک عام  معنا بیان ہوا ہے جس کے  مطابق آیات الہی ایسے امور ہیں جو خالق کے وجود کے ساتھ قدرت،حکمت ، عظمت اور اس کی دیگر صفات علیا کی گواہی دیتے ہیں۔ اس  لئے تمام خالقین کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
آیت کیلئے ایک عام  معنا بیان ہوا ہے جس کے  مطابق آیات الہی ایسے امور ہیں جو خالق کے وجود کے ساتھ قدرت،حکمت ، عظمت اور اس کی دیگر صفات علیا کی گواہی دیتے ہیں۔ اس  لئے تمام خالقین کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
اس لحاظ سے تمام موجودات کیلئے اس استعمال کیا  جاتا ہے ۔ قرآن کریم اکثر مقامات میں  آفرینشِ جہان  کی  تخلیق  کے بعد  فرماتا ہے : <font color=green>{{حدیث|إِنَّ فی ذلک لآیات}}</font><ref>قرآن شناسی، ج۱، ص۳۳</ref>
اس لحاظ سے تمام موجودات کیلئے اس استعمال کیا  جاتا ہے ۔ قرآن کریم اکثر مقامات میں  آفرینشِ جہان  کی  تخلیق  کے بعد  فرماتا ہے : <font color=green>{{حدیث|إِنَّ فی ذلک لآیات}}</font><ref>قرآن شناسی، ج۱، ص۳۳</ref>
سطر 112: سطر 112:
اصطلاحی اور لغوی معنا کے درمیان مناسبت یہ ہے کہ ایک طرف  آیات قرآنی معجزہ ہیں چونکہ کوئی اس کی مانند نہیں لا سکتا ہے   
اصطلاحی اور لغوی معنا کے درمیان مناسبت یہ ہے کہ ایک طرف  آیات قرآنی معجزہ ہیں چونکہ کوئی اس کی مانند نہیں لا سکتا ہے   
اس کے لانے والے کی علامت صدق کی جہت سے یہ اہل ذکر کیلئے مایہ عبرت  ،دلیل و برہان پر مشتمل کہ جو انسانوں کیلئے یدایت اور علم ہے نیز علم ، حکمت اور قدرت اور سائر صفات الہی کی بیان گر ہے ۔ <ref>مناهل العرفان فی علوم القرآن، ج۱، ص۳۳۹</ref>
اس کے لانے والے کی علامت صدق کی جہت سے یہ اہل ذکر کیلئے مایہ عبرت  ،دلیل و برہان پر مشتمل کہ جو انسانوں کیلئے یدایت اور علم ہے نیز علم ، حکمت اور قدرت اور سائر صفات الہی کی بیان گر ہے ۔ <ref>مناهل العرفان فی علوم القرآن، ج۱، ص۳۳۹</ref>
کسی چیز کا آیت ہونا مختلف جہات اور اعتبارا کے لحاظ سے فرق کرتا ہے اور شدت و ضعف کو قبول کرتا ہے۔ مثلا قرآن کا کچھ حصہ بشر کے مثل لانے سے عاجز ہونے کی بنا پر آیت خدا ہے۔احکام اور الہی ذمہ داریاں (واجبات و مستحبا....) تقوا کے حصول اور سبب قرب الہی ہونے کی جہت سے آیات الہی ہیں۔خارجی و عینی وجودات اپنے وجود و خصوصیات کے لحاظ سے وجود خدا پر دلالت کرتے ہیں وہ اس لحاظ سے آیات الہی ہیں ۔ انبیا اور اولیائے الہی اپنے قول و عمل میں لوگوں کی ہدایت کرنے کے لحاظ سے آیات الہی ہیں ۔جیسا کہ [[امام صادق]] اور [[امام رضا]] علیہما السلام سے: <font color=green>{{حدیث|وَعلامات وبِالنَّجمِ هُمْ یهْتَدُون}}</font> کے بارے میں سوال ہوا آپ نے ارشاد فرمایا:
: نجم‌ سے  رسول خدا (صلی الله علیه وآله وسلم اور علامات‌ سے [[آئمہ]](ع) مراد ہیں ۔<ref> کلینی،اصول کافی، ج۱، ص۲۰۷؛ طباطبائی، المیزان، ج۱، ص۲۵۰</ref>انبیا کے معجزات اور غیر معمولی افعال کو خاص طور پر آیت کہتے ہیں ۔کیونکہ وہ واضح اور روشن تر قدرت اور عظمت الہی  اور انبیا کے ادعائے نبوت کی صداقت پر دلالت کرتے ہیں ۔<ref>قرآن شناسی، ج۱، ص۳۳</ref>
===  تشریعی اور تکوینی آیات ===
آیات الہی کو ابتدائی طور پر  تشریعی‌ اور تکوینی‌ دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
<!--
<!--
آیه بودن چیزی به اعتبارها و جهات گوناگون فرق کرده و قابل شدت و ضعف است؛ مثلاً بخشی از قرآن به اعتبار عجز بشر از آوردن مثل آن، آیه خداست. احکام و تکالیف الهی به اعتبار حصول تقوا و تقرّب به سبب آنها، آیات خداوند هستند. موجودات عینی به اعتبار این که وجود و خصوصیات وجودی‌شان، به وجود و خصوصیات وجودی خداوند دلالت می‌کند، آیات خداوند می‌باشند. انبیا و اولیای الهی به جهت این که در قول و عمل، مردم را به خدا دعوت می‌کنند باز از آیات الهی هستند ; مثلا از [[امام صادق]] و [[امام رضا]] علیهما السلام درباره آیه: (وَعلامات وبِالنَّجمِ هُمْ یهْتَدُون) سؤال شده که فرمود: مراد از «‌نجم‌» رسول خدا (صلی الله علیه وآله وسلم و مراد از «‌علامات‌» [[امامان|ائمه]](ع) می‌باشند.<ref>اصول کافی، ج۱، ص۲۰۷؛ المیزان، ج۱، ص۲۵۰</ref>امور خارق العاده و معجزات انبیا نیز به خصوص «‌آیه» نامیده می‌شوند، زیرا هم دلالت روشن تری به قدرت و عظمت الهی دارند و هم نشانه صدق انبیا در دعوی [[نبوت]] هستند.<ref>قرآن شناسی، ج۱، ص۳۳</ref>
[[آیات تشریعی]] عمدتاً، قرآن کریم و دیگر کتاب‌های آسمانی است.<ref>قرآن شناسی، ج۱، ص۳۳</ref>البته برخی از آیات قرآنی بیانگر آیات تکوینی نیز هستند. و برخی دربردارنده معارف اعتقادی، احکام عملی و یا اخلاقیات بوده که مایه تقرب به سوی خداست.<ref>المیزان، ج۱۸، ص۱۵۹</ref>
 
=== آیات تشریعی و تکوینی ===
آیات الهی را ابتدا می‌توان به دو بخش «‌تشریعی‌» و «‌تکوینی‌» تقسیم کرد; [[آیات تشریعی]] عمدتاً، قرآن کریم و دیگر کتاب‌های آسمانی است.<ref>قرآن شناسی، ج۱، ص۳۳</ref>البته برخی از آیات قرآنی بیانگر آیات تکوینی نیز هستند. و برخی دربردارنده معارف اعتقادی، احکام عملی و یا اخلاقیات بوده که مایه تقرب به سوی خداست.<ref>المیزان، ج۱۸، ص۱۵۹</ref>


[[آیات تکوینی]] خداوند امور عینی و خارجی هستند که به وجود خارجی‌شان، بر وحدت خداوند در خلق و اتصاف او به صفات کمال و تنزّه از نقص و نیاز دلالت می‌کنند<ref>همان، ج۱۸، ص۱۵۸</ref> که این دسته از آیات الهی باز به دو دسته تقسیم می‌شود: عادی و خارق العاده‍. آیات تکوینی عادی شامل همه پدیده‌های جهان می‌شود، ولی خارق العاده دربردارنده امور خارج از عادات و معجزات پیامبران است.<ref>قرآن شناسی، ج۱، ص۳۴</ref>
[[آیات تکوینی]] خداوند امور عینی و خارجی هستند که به وجود خارجی‌شان، بر وحدت خداوند در خلق و اتصاف او به صفات کمال و تنزّه از نقص و نیاز دلالت می‌کنند<ref>همان، ج۱۸، ص۱۵۸</ref> که این دسته از آیات الهی باز به دو دسته تقسیم می‌شود: عادی و خارق العاده‍. آیات تکوینی عادی شامل همه پدیده‌های جهان می‌شود، ولی خارق العاده دربردارنده امور خارج از عادات و معجزات پیامبران است.<ref>قرآن شناسی، ج۱، ص۳۴</ref>
گمنام صارف