گمنام صارف
"نہج البلاغہ" کے نسخوں کے درمیان فرق
←اسناد
imported>E.musavi (←شرحیں) |
imported>E.musavi (←اسناد) |
||
سطر 279: | سطر 279: | ||
== اسناد == | == اسناد == | ||
[[اہل سنت]] کے بعض علماء نے نہج البلاغہ کی سند میں شک و | [[اہل سنت]] کے بعض علماء نے نہج البلاغہ کی سند میں شک و شبہہ کا اظہار کیا ہے۔ ابن خلکان (متوفٰی 681 ہجری) ان ہی علماء میں سے ہیں۔ ابن خلکان کا کہنا ہے: | ||
:::"لوگوں کے درمیان [[امام علی علیہ السلام|امام علی بن ابی طالب]] رضی اللہ عنہ کے اقوال و کلمات سے تالیف شدہ کتاب "نہج البلاغہ" کے بارے میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ کیا اس کے مؤلف [[سید مرتضی علم الہدی|سید مرتضی]] ہیں یا ان کے بھائی [[سید رضی]]؟ اور ان لوگوں نے کہا ہے کہ یہ کلام [[امام علی علیہ السلام|علیؑ]] کا نہیں ہے؛ اور جس نے یہ کلام اکٹھا کیا ہے اس کے تخلیق کار بھی وہی ہیں! واللہ الاعلم"۔<ref>ابن خلکان، وفیات الأعیان وأنباء أبناء الزمان، ج3، ص313.</ref> | :::"لوگوں کے درمیان [[امام علی علیہ السلام|امام علی بن ابی طالب]] رضی اللہ عنہ کے اقوال و کلمات سے تالیف شدہ کتاب "نہج البلاغہ" کے بارے میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ کیا اس کے مؤلف [[سید مرتضی علم الہدی|سید مرتضی]] ہیں یا ان کے بھائی [[سید رضی]]؟ اور ان لوگوں نے کہا ہے کہ یہ کلام [[امام علی علیہ السلام|علیؑ]] کا نہیں ہے؛ اور جس نے یہ کلام اکٹھا کیا ہے اس کے تخلیق کار بھی وہی ہیں! واللہ الاعلم"۔<ref> ابن خلکان، وفیات الأعیان وأنباء أبناء الزمان، ج3، ص313.</ref> | ||
ان کے بعد [[ذہبی]] (متوفٰی | ان کے بعد [[ذہبی]] (متوفٰی 748 ہجری) نے یقین کے ساتھ کہا ہے: | ||
::: [[سید مرتضی علم الہدی|سید مرتضی]] نہج البلاغہ | ::: [[سید مرتضی علم الہدی|سید مرتضی]] نہج البلاغہ کے مؤلف ہیں، جس کے الفاظ کو [[امام علی علیہ السلام|امام علی]] رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا گیا ہے اور اس نسبت کے لئے کوئی سند موجود نہیں ہے؛ اور ان اقوال و کلمات میں سے بعض باطل ہیں اور بعض صحیح ہیں۔ تاہم اس میں بعض اقوال وہ ہیں کہ دور ہوں امام، انہیں زبان پر لانے سے ۔۔۔؛ اور کہا گیا ہے کہ یہ مجموعہ ان کے بھائی [[سید رضی]] نے اکٹھا کیا ہے۔<ref> الذہبی، سیر أعلام النبلاء، ج17، ص589۔</ref> | ||
[[ملف:تصویر نسخه قرن6 نهج البلاغه.gif|تصغیر| | [[ملف:تصویر نسخه قرن6 نهج البلاغه.gif|تصغیر|544 ہجری کے قلمی نہج البلاغہ کا ایک صفحہ]] | ||
جس طرح کہ ابن خلکان نے "لوگوں کے شک و تردد" کا ذکر کیا ہے ابن ابی الحدید (متوفا | جس طرح کہ ابن خلکان نے "لوگوں کے شک و تردد" کا ذکر کیا ہے ابن ابی الحدید (متوفا 656 ہجری) بھی اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ میں [[خطبۂ شقشقیہ]]، کی شرح کے بعد ایک حکایت نقل کرتے ہیں جو عوام کے درمیان نہج البلاغہ کے سلسلے میں شک و تردد پر مبنی ہے؛ تاہم وہ خود اس شک و تردد کا نہایت فیصلہ کن انداز سے جواب دیتے ہیں اور کہتے ہیں: | ||
:::میں نے سنہ | :::میں نے سنہ 603 ہجری میں اپنے شیخ (استاد) مصدق بن شبیب واسطی سے سنا جو کہہ رہے تھے: "میں نے یہ خطبہ (یعنی [[خطبۂ شقشقیہ]]) عبداللہ بن احمد المعروف ابن خشاب کو پڑھ کر سنایا ... اور ان سے کہا: کیا آپ اس خطبے کی [[امام علی علیہ السلام|امام علی]] سے نسبت کو جعلی سمجھتے ہیں؟ انھوں نے کہا: [[اللہ]] کی قسم! میں جانتا ہوں کہ یہ [[امام علی علیہ السلام|امام علی]] کا کلام ہے جیسا کہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ بھی اس کے مصدق ہیں (یعنی اس کی تصدیق کرنے والے ہیں)۔ چنانچہ میں نے ان سے کہا: بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ خطبہ [[سید رضی]] رحمہ اللہ تعالی، کا ہے۔ تو انھوں نے کہا: "رضی کہاں اور رضی جیسے دوسرے کہاں اور یہ اسلوب کلام کہاں!؟" بے شک ہم رضی کے رسائل سے واقف ہیں اور نثری کلام میں ان کا طریقہ اور فن جانتے ہیں، رضی نے اس میں کسی اچھے یا برے کا اضافہ نہيں کیا ہے۔ انھوں نے کہا: خدا کی قسم! میں نے یہ خطبات ان کتابوں میں بھی دیکھے ہیں جو سید رضی کی ولادت کے 200 سال قبل لکھی گئی ہیں؛ میں نے ان خطبات کو ایسے خط میں لکھا ہوا پایا جنہیں میں جانتا ہوں اور جانتا ہوں کہ کن علماء اور ادباء نے یہ خطبات مسطور کئے ہیں قبل اس کے سید رضی کے والد نقیب ابو احمد دنیا میں آ جائیں"۔<ref> ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج1، ص205۔</ref> | ||
ابن ابی الحدید کہتے ہیں: | ابن ابی الحدید کہتے ہیں: | ||
::: میں | ::: میں نے اس خطبے کا بڑا حصہ اپنے استاد اور [[بغداد]] کے [[معتزلہ]] کے امام ابو القاسم بلخی کی تصانیف میں لکھا ہوا پایا جو رضی کی ولادت سے بہت عرصہ قبل (عباسی بادشاہ) [[مقتدر عباسی]] کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ نیز ان میں سے بہت سے خطبات کو میں نے [[امامیہ]] کے [[متکلم]] [[ابن قبہ رازی|ابو جعفر بن قبہ]] کی کتاب [[الانصاف]] میں دیکھا ہے۔ اور یہ ابو جعفر ہمارے استاد شیخ ابو القاسم بلخی کے شاگردوں میں سے تھے اور اسی دور میں وفات پا چکے ہیں جبکہ ابھی رضی رحمۃ اللہ تعالی علیہ موجود نہ تھے۔<ref>ابن أبی الحدید، شرح نہج البلاغۃ، ج1، صص205-206۔</ref> | ||
نہج البلاغہ کی شرحوں کے ضمن میں ابن ابی الحدید سمیت | نہج البلاغہ کی شرحوں کے ضمن میں ابن ابی الحدید سمیت بہت سے محققین نے اس کتاب کے تمام اقوال و کلمات کی اسناد کے سلسلے میں مستقبل کتب تالیف کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کتب میں [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کا کلام [[سید رضی]] سے قبل، ان کے ہم عصر نیز ان کے بعد کی ان کتب سے مستند کیا گیا ہے اور ان اقوال کو [[سید رضی]] اور [[سید مرتضی]] کے بغیر دوسرے علماء سے نقل کیا گیا ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ کلام [[امام علی علیہ السلام|علیؑ]] کی سند میں شک و تردد بالکل بےجا ہے؛ اور اس حقیقت میں بھی شک و شبہہ بے جا ہے کہ یہ کتاب سید رضی نے تالیف کی ہے نہ کہ ان کے بھائی [[سید مرتضی علم الہدی|سید مرتضی]] نے۔ ذیل میں نہج البلاغہ کے اسناد اکٹھا کرنے والے بعض منابع کا حوالہ دیا جاتا ہے: | ||
#استناد نہج البلاغہ، تالیف امتیاز علی خان عرشی؛ ترجمہ، تعلیقات اور حواشی از مرتضی آیت اللہ زادہ شیرازی۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/526351|استناد نہج البلاغہ، امتیاز علی خان عرشی]۔</ref> | #استناد نہج البلاغہ، تالیف امتیاز علی خان عرشی؛ ترجمہ، تعلیقات اور حواشی از مرتضی آیت اللہ زادہ شیرازی۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/526351|استناد نہج البلاغہ، امتیاز علی خان عرشی]۔</ref> | ||
#مصادر نہج البلاغہ و اسانیدہ، سید عبد الزہراء الحسینی الخطیب۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/885620|مصادر نہج البلاغہ عبد الزہرا الخطیب]۔</ref> | #مصادر نہج البلاغہ و اسانیدہ، سید عبد الزہراء الحسینی الخطیب۔<ref>[http://opac.nlai.ir/opac-prod/bibliographic/885620|مصادر نہج البلاغہ عبد الزہرا الخطیب]۔</ref> |