مندرجات کا رخ کریں

"جہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

حجم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ،  4 ستمبر 2016ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
imported>Jaravi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 13: سطر 13:
جہاد کا حکم [[مدینہ]] میں نازل ہوا تھا، لہذا اس سے پہلے جہاں پر بھی جہاد یا اس کے مشتقات کو [[مکی اور مدنی|مکی آیات]] میں استعمال کیا گیا ہے، ان سے جہاد کا لغوی اور وہی عام معنی لیا جائے گا.<ref>دیکھئے: عنکبوت : ۶، ۸، ۶۹؛ لقمان : ۱۵</ref> جہاد کے سلسلے میں سب پہلی آیت دفاعی جہاد سے متعلق تھی جو [[ہجرت]] کے پہلے سال میں نازل ہوئی جس میں مسلمانون کو اجازت دی گئی کہ وہ مشرکین کے مقابلے میں اپنا دفاع کر سکیں.<ref> حج:۳۹، ۴۰؛ اور دیکھئے: واحدی نیشابوری، ص۲۰۸؛ طباطبائی، متعلقہ آیات</ref> جہاد اور اس کے متعلق مباحث کے بارے میں [[مکی اور مدنی|مدنی سورتوں]] میں خاص طور پر سورت [[بقرہ]]، سورت [[سورہ انفال|انفال]]، سورت [[آل عمران]]، سورت [[سورہ توبہ|توبہ]] اور سورت [[سورہ احزاب|احزاب]] میں آیات موجود ہیں. <ref>محمد فؤاد عبدالباقی، ذیل «جہد»، «قتل»</ref>
جہاد کا حکم [[مدینہ]] میں نازل ہوا تھا، لہذا اس سے پہلے جہاں پر بھی جہاد یا اس کے مشتقات کو [[مکی اور مدنی|مکی آیات]] میں استعمال کیا گیا ہے، ان سے جہاد کا لغوی اور وہی عام معنی لیا جائے گا.<ref>دیکھئے: عنکبوت : ۶، ۸، ۶۹؛ لقمان : ۱۵</ref> جہاد کے سلسلے میں سب پہلی آیت دفاعی جہاد سے متعلق تھی جو [[ہجرت]] کے پہلے سال میں نازل ہوئی جس میں مسلمانون کو اجازت دی گئی کہ وہ مشرکین کے مقابلے میں اپنا دفاع کر سکیں.<ref> حج:۳۹، ۴۰؛ اور دیکھئے: واحدی نیشابوری، ص۲۰۸؛ طباطبائی، متعلقہ آیات</ref> جہاد اور اس کے متعلق مباحث کے بارے میں [[مکی اور مدنی|مدنی سورتوں]] میں خاص طور پر سورت [[بقرہ]]، سورت [[سورہ انفال|انفال]]، سورت [[آل عمران]]، سورت [[سورہ توبہ|توبہ]] اور سورت [[سورہ احزاب|احزاب]] میں آیات موجود ہیں. <ref>محمد فؤاد عبدالباقی، ذیل «جہد»، «قتل»</ref>
ان آیات کی تحلیل و تفسیر کرتے وقت ان کی شان نزول اور [[حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] کے بنیادی مقاصد، خاص طور پر جنگ اور صلح کے فلسفے کو مد نظر رکھنا ضروری ہے.
ان آیات کی تحلیل و تفسیر کرتے وقت ان کی شان نزول اور [[حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم]] کے بنیادی مقاصد، خاص طور پر جنگ اور صلح کے فلسفے کو مد نظر رکھنا ضروری ہے.
سنہ آٹھ ہجری میں [[فتح مکہ]] کے بعد، ایسی آیات نازل ہوئی جو ظاہر میں تمام مشرکین کے ساتھ جہاں پر اور کسی وقت میں بھی جنگ کرنے پر دلالت کرتی ہیں.<ref> توبہ : ۵، ۳۶، ۴۱</ref> بعض فقہاء اور مفسرین کی نظر میں یہ آیات، بالخصوص سورہ توبہ کی آیت نمبر ٥ جو کہ سیف کے نام سے مشہور ہے<ref> یا شمشیر؛ قس خوئی، ۱۳۹۵، ص۳۰۵، کہ آیہ ۳۶ توبہ را آیہ سیف دانستہ است </ref> دوسری آیتیں جو کہ کسی لحاظ سے مشرکین کے ساتھ سمجھوتا کرنے پر دلالت کرتی ہیں<ref>اعراف : ۱۹۹؛ بقره : ۱۰۹؛ انعام : ۱۱۲؛ حجر: ۸۵؛ زخرف : ۸۹</ref> نسخ کرتیں ہیں.<ref>الناسخ و المنسوخ، ص۳۰، ۳۴ـ۳۵؛ طوسی، التبیان، ذیل بقره : ۸۳؛ طبرسی، ذیل انعام : ۱۵۹؛ سجده : ۳۰؛ ابن جوزی، ص۲۴۲؛ ابن کثیر، ج ۲، ص۳۵۰</ref> بعض مستشرقان نے حکم کو قبول کرتے ہوئے نسخ کہا ہے اور فقط وہ آیات جو ظاہری طور پر مسلمانوں کو مشرکین کے خلاف، بالجملہ اہل کتاب، جس زمانے میں اور جس جگہ پر جہاد کی دعوت کرتے ہیں، وہی اپنی قوت پر باقی ہیں اور دوسری آیات نے دشمن کے ساتھ جہاد کو خاص شرایط کو مدنظر رکھتے ہوئے جیسے فتنہ کے تحت منسوخ قرار دیا ہے. <ref>اسلام، چاپ دوم، ذیل «جهاد»</ref> اس کے مقابل، نسخ کے مخالفین اس لئے ہیں کہ قرآن کی نسخ آیات، تاریخ، اور آیات کی شان نزول کو مدنظر رکھتے ہوئے، انکا نسخ ہونا ممکن نہیں ہے. <ref>سیوطی، ج ۲، ص۲۹؛ رشیدرضا، ج ۲، ص۲۱۵؛ خوئی، ۱۳۹۵، ص۳۰۵، ۳۵۳؛ طباطبائی، ذیل بقره : ۲۵۶؛ حجر: ۸۵؛ زحیلی، ص۱۱۴ـ۱۲۰</ref>
سنہ آٹھ ہجری میں [[فتح مکہ]] کے بعد، ایسی آیات نازل ہوئی جو ظاہر میں تمام مشرکین کے ساتھ جہاں پر اور کسی وقت میں بھی جنگ کرنے پر دلالت کرتی ہیں.<ref> توبہ : ۵، ۳۶، ۴۱</ref> بعض فقہاء اور مفسرین کی نظر میں یہ آیات، بالخصوص سورہ توبہ کی آیت نمبر ٥ جو کہ سیف کے نام سے مشہور ہے<ref> یا شمشیر؛ قس خوئی، ۱۳۹۵، ص۳۰۵، کہ آیہ ۳۶ توبہ را آیہ سیف دانستہ است </ref> دوسری آیتیں جو کہ کسی لحاظ سے مشرکین کے ساتھ سمجھوتا کرنے پر دلالت کرتی ہیں<ref>اعراف : ۱۹۹؛ بقرہ : ۱۰۹؛ انعام : ۱۱۲؛ حجر: ۸۵؛ زخرف : ۸۹</ref> نسخ کرتیں ہیں.<ref>الناسخ و المنسوخ، ص۳۰، ۳۴ـ۳۵؛ طوسی، التبیان، ذیل بقرہ : ۸۳؛ طبرسی، ذیل انعام : ۱۵۹؛ سجدہ : ۳۰؛ ابن جوزی، ص۲۴۲؛ ابن کثیر، ج ۲، ص۳۵۰</ref> بعض مستشرقان نے حکم کو قبول کرتے ہوئے نسخ کہا ہے اور فقط وہ آیات جو ظاہری طور پر مسلمانوں کو مشرکین کے خلاف، بالجملہ اہل کتاب، جس زمانے میں اور جس جگہ پر جہاد کی دعوت کرتے ہیں، وہی اپنی قوت پر باقی ہیں اور دوسری آیات نے دشمن کے ساتھ جہاد کو خاص شرایط کو مدنظر رکھتے ہوئے جیسے فتنہ کے تحت منسوخ قرار دیا ہے. <ref>اسلام، چاپ دوم، ذیل «جہاد»</ref> اس کے مقابل، نسخ کے مخالفین اس لئے ہیں کہ قرآن کی نسخ آیات، تاریخ، اور آیات کی شان نزول کو مدنظر رکھتے ہوئے، انکا نسخ ہونا ممکن نہیں ہے. <ref>سیوطی، ج ۲، ص۲۹؛ رشیدرضا، ج ۲، ص۲۱۵؛ خوئی، ۱۳۹۵، ص۳۰۵، ۳۵۳؛ طباطبائی، ذیل بقرہ : ۲۵۶؛ حجر: ۸۵؛ زحیلی، ص۱۱۴ـ۱۲۰</ref>


==جہاد کی فضیلت==
==جہاد کی فضیلت==
سطر 19: سطر 19:
آیات اور احادیث میں جہاد کے بعض دینوی اور اخروی فضائل بیان ہوئے ہیں:  
آیات اور احادیث میں جہاد کے بعض دینوی اور اخروی فضائل بیان ہوئے ہیں:  
===قرآنی آیات===
===قرآنی آیات===
قرآن کی آیات کے مطابق،<ref>نساء: ۹۵؛ عنکبوت : ۶۹؛ توبه : ۲۰</ref> جو لوگ اپنی مال اور جان کو خدا کی راہ میں پیش کرتے ہیں درگاہ خداوندی میں دوسرے مسلمانوں کی نسبت برتر ہیں اور خداوند نے انکو جنت کی خوشخبری اور شہادت کا مرتبہ دیا ہے.<ref>توبه : ۲۱؛ آل عمران : ۱۶۹</ref> قرآن کریم نے <ref>توبه : ۲۴</ref> انسان کو جہاد پر نہ جانے کی سب سے اہم وجہ اس کی اپنے مال اولاد اور خاندان سے محبت کو قرار دیا ہے. اور اسی طرح جو جہاد پر جانے سے کتراتے ہیں انکو فاسق کہا ہے اور انکو عذاب الہی کا وعدہ دیا ہے. قرآن کے مطابق، کامیابی فقط اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے. <ref>آل عمران : ۱۲۶؛ انفال : ۱۰</ref> اور خداوند اور پیغمبر اکرم(ص) کے فرمان کی پیروی، نزاع اور تفرقہ سے دوری، صبر و استقامت اور دشمن سے ڈر کر نہ بھاگنا، جہاد کے اہم ترین احکام میں سے ہیں. <ref>نفال : ۱۵ـ۱۶، ۴۴ـ۴۶</ref> قرآنی آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے،<ref>نفال : ۶۵ـ ۶۶؛ آل عمران : ۱۲۳ـ۱۲۵</ref> مجاہدین اپنے صبر و استقامت کی وجہ سے غیبی امداد سے مواجہ ہوتے ہیں. <ref>احزاب : ۹ـ۱۰؛ توبه : ۲۶</ref> اور یہ غیبی امداد کچھ یوں ہیں، مجاہدین کو سکون اور آرامش کا احساس ہونا اور انکے دلوں سے کافروں کی وحشت اور ڈر کا دور ہونا.<ref> آل عمران : ۱۲۶؛ انفال : ۱۲؛ احزاب : ۲۶</ref>  
قرآن کی آیات کے مطابق،<ref>نساء: ۹۵؛ عنکبوت : ۶۹؛ توبہ : ۲۰</ref> جو لوگ اپنی مال اور جان کو خدا کی راہ میں پیش کرتے ہیں درگاہ خداوندی میں دوسرے مسلمانوں کی نسبت برتر ہیں اور خداوند نے انکو جنت کی خوشخبری اور شہادت کا مرتبہ دیا ہے.<ref>توبہ : ۲۱؛ آل عمران : ۱۶۹</ref> قرآن کریم نے <ref>توبہ : ۲۴</ref> انسان کو جہاد پر نہ جانے کی سب سے اہم وجہ اس کی اپنے مال اولاد اور خاندان سے محبت کو قرار دیا ہے. اور اسی طرح جو جہاد پر جانے سے کتراتے ہیں انکو فاسق کہا ہے اور انکو عذاب الہی کا وعدہ دیا ہے. قرآن کے مطابق، کامیابی فقط اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے. <ref>آل عمران : ۱۲۶؛ انفال : ۱۰</ref> اور خداوند اور پیغمبر اکرم(ص) کے فرمان کی پیروی، نزاع اور تفرقہ سے دوری، صبر و استقامت اور دشمن سے ڈر کر نہ بھاگنا، جہاد کے اہم ترین احکام میں سے ہیں. <ref>نفال : ۱۵ـ۱۶، ۴۴ـ۴۶</ref> قرآنی آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے،<ref>نفال : ۶۵ـ ۶۶؛ آل عمران : ۱۲۳ـ۱۲۵</ref> مجاہدین اپنے صبر و استقامت کی وجہ سے غیبی امداد سے مواجہ ہوتے ہیں. <ref>احزاب : ۹ـ۱۰؛ توبہ : ۲۶</ref> اور یہ غیبی امداد کچھ یوں ہیں، مجاہدین کو سکون اور آرامش کا احساس ہونا اور انکے دلوں سے کافروں کی وحشت اور ڈر کا دور ہونا.<ref> آل عمران : ۱۲۶؛ انفال : ۱۲؛ احزاب : ۲۶</ref>  
===احادیث===
===احادیث===
احادیث کے مطابق راہ خدا میں جہاد کرنا برترین کاموں میں سے ہیں اور ایک شہید مجاہد کا اخروی صلہ یوں ہے کہ وہ جہاد اور شہادت کی آرزو اور تمنا دوبارہ کرتا ہے. <ref>بن حنبل، ج ۱، ص۱۴، ج ۳، ص۱۲۶؛ بخاری، ج ۱، ص۱۲، ج ۶، ص۱۵؛ مسلم بن حجاج، ج ۱، ص۸۸؛ نیز ر.ک: مالک بن انس، ج ۲، ص۴۴۳ـ ۴۴۵؛ کلینی، ج ۵، ص۲، ۴، ۵۳</ref>  
احادیث کے مطابق راہ خدا میں جہاد کرنا برترین کاموں میں سے ہیں اور ایک شہید مجاہد کا اخروی صلہ یوں ہے کہ وہ جہاد اور شہادت کی آرزو اور تمنا دوبارہ کرتا ہے. <ref>بن حنبل، ج ۱، ص۱۴، ج ۳، ص۱۲۶؛ بخاری، ج ۱، ص۱۲، ج ۶، ص۱۵؛ مسلم بن حجاج، ج ۱، ص۸۸؛ نیز ر.ک: مالک بن انس، ج ۲، ص۴۴۳ـ ۴۴۵؛ کلینی، ج ۵، ص۲، ۴، ۵۳</ref>  
امام علی(ع): کہ جہاد بہشت کا ایک دروازہ ہے کہ جس کو خداوند نے اپنے خاص اولیاء کے لئے کھول رکھا ہے. جہاد تقوا کا لباس اور خداوند کی محکم زرہ ہے. <ref>نهج البلاغة، الخطبة ۲۷</ref>  
امام علی(ع): کہ جہاد بہشت کا ایک دروازہ ہے کہ جس کو خداوند نے اپنے خاص اولیاء کے لئے کھول رکھا ہے. جہاد تقوا کا لباس اور خداوند کی محکم زرہ ہے. <ref>نہج البلاغة، الخطبة ۲۷</ref>  
پیغمبر اکرم(ص): خداوند کی راہ میں ایک رات چوکیداری کرنا ان ہزار راتوں سے بہتر ہے جو کہ پوری رات عبادت اور پورا دن روزے میں گزرا ہو. <ref>کنزالعمال، ج۴، ص۳۲۶</ref>  
پیغمبر اکرم(ص): خداوند کی راہ میں ایک رات چوکیداری کرنا ان ہزار راتوں سے بہتر ہے جو کہ پوری رات عبادت اور پورا دن روزے میں گزرا ہو. <ref>کنزالعمال، ج۴، ص۳۲۶</ref>  
==جہاد کے بارے تالیفات اور آثار==
==جہاد کے بارے تالیفات اور آثار==
جہاد کی اہمیت اور منزلت کے سبب، اسلام میں اس کے بہت سے آثار بیان ہوئے ہیں. <ref>حاجی خلیفه، ج ۱، ستون ۵۶؛ بغدادی، ایضاح المکنون، ج ۱، ستون ۲۵۱، ۲۸۲، و جاهای دیگر، ج ۲، ستون ۱۹۶، ۷۰۷، و جاهای دیگر؛ همو، هدیه العارفین، ج ۱، ستون ۱۹۲، ۲۶۴، و جاهای دیگر، ج ۲، ستون ۱۲۳، و جاهای دیگر</ref> اسی طرح جامع حدیثی منابعوں میں جہاد یا سییر کے بارے میں جہاد کا خاص ذکر ہوا ہے. اس بحث کی اہم ترین موضوعات درج ذیل ہیں.  
جہاد کی اہمیت اور منزلت کے سبب، اسلام میں اس کے بہت سے آثار بیان ہوئے ہیں. <ref>حاجی خلیفہ، ج ۱، ستون ۵۶؛ بغدادی، ایضاح المکنون، ج ۱، ستون ۲۵۱، ۲۸۲، و جاہای دیگر، ج ۲، ستون ۱۹۶، ۷۰۷، و جاہای دیگر؛ ہمو، ہدیہ العارفین، ج ۱، ستون ۱۹۲، ۲۶۴، و جاہای دیگر، ج ۲، ستون ۱۲۳، و جاہای دیگر</ref> اسی طرح جامع حدیثی منابعوں میں جہاد یا سییر کے بارے میں جہاد کا خاص ذکر ہوا ہے. اس بحث کی اہم ترین موضوعات درج ذیل ہیں.  
*١.مجاہدین کی رزمی آمادگی کا مقام
*١.مجاہدین کی رزمی آمادگی کا مقام
*٢.مومنین پر وجوب جہاد کے شرائط
*٢.مومنین پر وجوب جہاد کے شرائط
سطر 31: سطر 31:
*٤.میدان جنگ کے متعلق احکام جیسے:
*٤.میدان جنگ کے متعلق احکام جیسے:
::الف) جنگ کرنے کا طریقہ اور فوج کے ساتھ اور قتل ہونے والوں اور باقی رہ جانے والوں کے ساتھ رویہ،  [[مال غنیمت]] کی تقسیم،
::الف) جنگ کرنے کا طریقہ اور فوج کے ساتھ اور قتل ہونے والوں اور باقی رہ جانے والوں کے ساتھ رویہ،  [[مال غنیمت]] کی تقسیم،
::ب) جہاد کا اختتام. <ref>زیدبن علی، ص۳۴۹ـ ۳۶۲؛ شافعی، ج ۴، ص۱۶۷ـ۳۱۳؛ سحنون، ج ۲، ص۲ـ ۵۰؛ مسلم بن حجاج، ج ۲، ص۱۳۵۶ـ ۱۴۵۰؛ کلینی، ج ۵، ص۲ـ ۵۵؛ طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲ـ۷۵؛ ابن حزم، المحلّی، ج ۷، ص۲۹۱ـ ۳۵۴؛ شمس الائمه سرخسی، ۱۴۰۳، ج ۱۰، ص۲ـ ۱۴۴؛ ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۶۴ ـ۶۳۵</ref>  
::ب) جہاد کا اختتام. <ref>زیدبن علی، ص۳۴۹ـ ۳۶۲؛ شافعی، ج ۴، ص۱۶۷ـ۳۱۳؛ سحنون، ج ۲، ص۲ـ ۵۰؛ مسلم بن حجاج، ج ۲، ص۱۳۵۶ـ ۱۴۵۰؛ کلینی، ج ۵، ص۲ـ ۵۵؛ طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲ـ۷۵؛ ابن حزم، المحلّی، ج ۷، ص۲۹۱ـ ۳۵۴؛ شمس الائمہ سرخسی، ۱۴۰۳، ج ۱۰، ص۲ـ ۱۴۴؛ ابن قدامہ، ج ۱۰، ص۳۶۴ ـ۶۳۵</ref>  


==جہاد کا فتوا==
==جہاد کا فتوا==
سنہ تیرہ ہجری کو جب [[ایران]] اور روس کی جنگ ہوئی تھی تو اسلامی سرزمین کے دفاع کی خاطر شیعہ علماء نے جہاد کا حکم دیا تھا.<ref>میرزابزرگ قائم مقام، مقدمه زرگری نژاد، ص۶۲، ۷۴، ۷۶؛ رسایل و فتاوای جهادی، ص۲۰ـ۳۵۱</ref> تاریخی کتابوں میں اہل سنت کے علماء کا بھی ذکر آیا ہے جنہوں نے جہاد کا حکم دیا جیسے ابن عساکر(م٥٧١) کو صلیبی جنگوں میں تشویق کرنا، اور اس بارے میں چالیس حدیث کی جمع آوری کرنا. <ref>حلوانی، ص۱۱ـ۱۳</ref>  
سنہ تیرہ ہجری کو جب [[ایران]] اور روس کی جنگ ہوئی تھی تو اسلامی سرزمین کے دفاع کی خاطر شیعہ علماء نے جہاد کا حکم دیا تھا.<ref>میرزابزرگ قائم مقام، مقدمہ زرگری نژاد، ص۶۲، ۷۴، ۷۶؛ رسایل و فتاوای جہادی، ص۲۰ـ۳۵۱</ref> تاریخی کتابوں میں اہل سنت کے علماء کا بھی ذکر آیا ہے جنہوں نے جہاد کا حکم دیا جیسے ابن عساکر(م٥٧١) کو صلیبی جنگوں میں تشویق کرنا، اور اس بارے میں چالیس حدیث کی جمع آوری کرنا. <ref>حلوانی، ص۱۱ـ۱۳</ref>  


===ابتدائی اور دفاعی جہاد===
===ابتدائی اور دفاعی جہاد===
مجتہدین نے اپنی کتابوں میں جہاد کو ابتدائی اور دفاعی حصوں میں تقسیم کیا ہے.<ref>منتظری، ج ۱، ص۱۱۵</ref> یہ تقسیم بندی فقہ کی پرانی کتابوں میں صریح طور ذکر نہیں کی گئی اور انہوں نے عام طور پر ابتدائی جہاد کے احکام کو مبسوط اور تدافعی جہاد کے احکام کو ضمنی طور پر بیان کیا ہے.<ref>شافعی، ج ۴، ص۱۷۰؛ کلینی، ج ۵</ref>  
مجتہدین نے اپنی کتابوں میں جہاد کو ابتدائی اور دفاعی حصوں میں تقسیم کیا ہے.<ref>منتظری، ج ۱، ص۱۱۵</ref> یہ تقسیم بندی فقہ کی پرانی کتابوں میں صریح طور ذکر نہیں کی گئی اور انہوں نے عام طور پر ابتدائی جہاد کے احکام کو مبسوط اور تدافعی جہاد کے احکام کو ضمنی طور پر بیان کیا ہے.<ref>شافعی، ج ۴، ص۱۷۰؛ کلینی، ج ۵</ref>  
ابتدائی جہاد، مشرکین اور کفار کے ساتھ جنگ اور انکو اسلام اور [[توحید]] کی دعوت دینا اور عدالت کو برقرار کرنا کے معنی میں ہے. اور اس جہاد میں جس کے آغاز گر مسلمان ہیں ان کا مقصد [[کفر]] کا خاتمہ اور دین الہی کو گسترش دینا ہے. <ref>بقره : ۱۹۳؛ انفال :۳۹؛ جصاص، ج ۳، ص۶۵؛ قرطبی ؛ طباطبائی، ذیل بقره : ۱۹۳</ref>  
ابتدائی جہاد، مشرکین اور کفار کے ساتھ جنگ اور انکو اسلام اور [[توحید]] کی دعوت دینا اور عدالت کو برقرار کرنا کے معنی میں ہے. اور اس جہاد میں جس کے آغاز گر مسلمان ہیں ان کا مقصد [[کفر]] کا خاتمہ اور دین الہی کو گسترش دینا ہے. <ref>بقرہ : ۱۹۳؛ انفال :۳۹؛ جصاص، ج ۳، ص۶۵؛ قرطبی ؛ طباطبائی، ذیل بقرہ : ۱۹۳</ref>  
دفاعی جہاد، مسلمانوں اور اسلامی سرزمین کی حفاظت کی خاطر ہے. <ref>منتظری، ج ۱، ص۱۱۵</ref>
دفاعی جہاد، مسلمانوں اور اسلامی سرزمین کی حفاظت کی خاطر ہے. <ref>منتظری، ج ۱، ص۱۱۵</ref>


===ابتدائی جہاد کے واجب ہونے کے شرائط===
===ابتدائی جہاد کے واجب ہونے کے شرائط===
• اہل سنت کے علماء کے مطابق ابتدائی جہاد یعنی اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر، اگرچہ اس کی تشخیص دینے والا رہبرعادل ہو یا فاسق، واجب ہے.<ref>جصاص، ج ۳، ص۱۵۴؛ شمس الائمه سرخسی، ۱۹۷۱، ج ۱، ص۱۵۶ـ ۱۵۷؛ ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۷۱؛ شوکانی، ج ۷، ص۲۴۲ـ ۲۴۳</ref> ان کی نظر میں جہاد کے بارے میں رہبر کا حکم اس طرح واجب ہے جیسے کہ پانچ نمازین واجب ہیں. <ref> مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۹؛ شروانی، ج ۹، ص۲۳۷، ۲۷۷</ref>
• اہل سنت کے علماء کے مطابق ابتدائی جہاد یعنی اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر، اگرچہ اس کی تشخیص دینے والا رہبرعادل ہو یا فاسق، واجب ہے.<ref>جصاص، ج ۳، ص۱۵۴؛ شمس الائمہ سرخسی، ۱۹۷۱، ج ۱، ص۱۵۶ـ ۱۵۷؛ ابن قدامہ، ج ۱۰، ص۳۷۱؛ شوکانی، ج ۷، ص۲۴۲ـ ۲۴۳</ref> ان کی نظر میں جہاد کے بارے میں رہبر کا حکم اس طرح واجب ہے جیسے کہ پانچ نمازین واجب ہیں. <ref> مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۹؛ شروانی، ج ۹، ص۲۳۷، ۲۷۷</ref>
• اکثر امامی مجتہدین کی نظر میں ابتدائی جہاد کی اجازت امام معصوم یا امام کے نائبین کے اختیار میں ہے.<ref>کلینی، ج ۵، ص۲۳؛ طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۸؛ همو، ۱۴۰۰، ص۲۹۰؛ شهیدثانی، ج ۳، ص۹؛ نجفی، ج ۲۱، ص۱۱</ref> اور انکی نظر میں نائب یعنی خاص نائب اور امام زمان(ع) کے غیبت کے زمانے میں عام نائب اس میں شامل نہیں ہیں.<ref>شهیدثانی ؛ نجفی، </ref> لیکن بعض مجتہدین کی نظر میں جہاد کی اجازت صرف امام معصوم یا آپ کے خاص نائب کے اختیار میں نہیں بلکہ عام نائب بھی توحید اور عدل کی حفاظت اور ظلم کو روکنے اور مظلوموں کی حمایت کی خاطر ابتدائی جہاد کی اجازت دے سکتا ہے. <ref>خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۴؛ منتظری، ج ۱، ص۱۱۵؛ خامنه‌ای، ج ۱، ص۳۳۱؛ ر.ک: میرزابزرگ قائم مقام، ص۶۶</ref> ان مجتہدین کی نظر میں اجماع کی رائے مورد قبول ہے اورجہاد کی حدیث میں عادل امام سے مراد امام معصوم نہیں ہے. <ref> منتظری، ج ۱، ص۱۱۸</ref>  
• اکثر امامی مجتہدین کی نظر میں ابتدائی جہاد کی اجازت امام معصوم یا امام کے نائبین کے اختیار میں ہے.<ref>کلینی، ج ۵، ص۲۳؛ طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۸؛ ہمو، ۱۴۰۰، ص۲۹۰؛ شہیدثانی، ج ۳، ص۹؛ نجفی، ج ۲۱، ص۱۱</ref> اور انکی نظر میں نائب یعنی خاص نائب اور امام زمان(ع) کے غیبت کے زمانے میں عام نائب اس میں شامل نہیں ہیں.<ref>شہیدثانی ؛ نجفی، </ref> لیکن بعض مجتہدین کی نظر میں جہاد کی اجازت صرف امام معصوم یا آپ کے خاص نائب کے اختیار میں نہیں بلکہ عام نائب بھی توحید اور عدل کی حفاظت اور ظلم کو روکنے اور مظلوموں کی حمایت کی خاطر ابتدائی جہاد کی اجازت دے سکتا ہے. <ref>خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۴؛ منتظری، ج ۱، ص۱۱۵؛ خامنہ‌ای، ج ۱، ص۳۳۱؛ ر.ک: میرزابزرگ قائم مقام، ص۶۶</ref> ان مجتہدین کی نظر میں اجماع کی رائے مورد قبول ہے اورجہاد کی حدیث میں عادل امام سے مراد امام معصوم نہیں ہے. <ref> منتظری، ج ۱، ص۱۱۸</ref>  


===ابتدائی جہاد تین گروہ کے مقابلے میں ===
===ابتدائی جہاد تین گروہ کے مقابلے میں ===
سطر 50: سطر 50:
١.غیر ذمی کافر چاہے اہل کتاب ہو یا غیر اہل کتاب.
١.غیر ذمی کافر چاہے اہل کتاب ہو یا غیر اہل کتاب.
٢.ذمی کفار جنہوں نے ذمہ کے شرائط کی رعایت نہ کی ہو.
٢.ذمی کفار جنہوں نے ذمہ کے شرائط کی رعایت نہ کی ہو.
۳.باغیان. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۴۶</ref>
۳.باغیان. <ref>جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۴۶</ref>
غیر کتابی کے ساتھ جہاد اس کو [[اسلام]] کی دعوت کی خاطر ہے. وہ دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں: آئین اسلام کو قبول کرنا یا جنگ کے لئے تیار ہونا.
غیر کتابی کے ساتھ جہاد اس کو [[اسلام]] کی دعوت کی خاطر ہے. وہ دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کر سکتے ہیں: آئین اسلام کو قبول کرنا یا جنگ کے لئے تیار ہونا.
کفار کتابی غیر ذمی یا ذمی جس نے ذمہ کے پیمان کو توڑا ہو اس کے ساتھ جہاد،  اسلام کو قبول کرنا یا پیمان ذمہ کو قبول کرنا اور جزیہ دینا ہے. جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان تین راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں: اسلام کو قبول کر لیں، اپنے دین پر قائم رئیں اور جزیہ دیں یا جنگ کے لئے حاضر ہوں.  
کفار کتابی غیر ذمی یا ذمی جس نے ذمہ کے پیمان کو توڑا ہو اس کے ساتھ جہاد،  اسلام کو قبول کرنا یا پیمان ذمہ کو قبول کرنا اور جزیہ دینا ہے. جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان تین راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں: اسلام کو قبول کر لیں، اپنے دین پر قائم رئیں اور جزیہ دیں یا جنگ کے لئے حاضر ہوں.  
باغیان کے ساتھ جہاد انکے پیمان میں نقض یا امام علیہ السلام سے بیعت توڑنے اور انکو دوبارہ بیعت کی لئے دعوت دینا ہے. <ref>کشف الرموز، ج۱، ص۴۱۸ ـ ۴۲۲؛ المهذّب البارع، ج ۲، ص۳۰۰ ـ ۳۱۰</ref>  
باغیان کے ساتھ جہاد انکے پیمان میں نقض یا امام علیہ السلام سے بیعت توڑنے اور انکو دوبارہ بیعت کی لئے دعوت دینا ہے. <ref>کشف الرموز، ج۱، ص۴۱۸ ـ ۴۲۲؛ المہذّب البارع، ج ۲، ص۳۰۰ ـ ۳۱۰</ref>  


===جہاد، آخری راہ حل===
===جہاد، آخری راہ حل===
بعض مسلمان مولفین کی نگاہ میں، ہمیشہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا راہ حل جہاد نہیں، بلکہ جہاد اسلام اور مسلمانوں کی مصالح کی خاطر آخری راہ حل ہے. <ref>زحیلی، ص۹۰، ۹۷</ref> جہاد شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ مد مقابل کو اسلام کی دعوت، کفر و عصیان چھوڑنے اور اور انسانی حقوق کو پایمال نہ کرنے کی دعوت دی جائے اور اس کی ابتداء ایسے علاقہ جات سے کی جائے جو اسلامی سرزمین کے نزدیک ہیں. <ref>شافعی، ج ۴، ص۱۷۷؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۸۵ـ ۲۸۷؛ فخرالمحققین، ج ۱، ص۳۵۴؛ نجفی، ج ۲۱، ص۵۱؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۹</ref>  
بعض مسلمان مولفین کی نگاہ میں، ہمیشہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا راہ حل جہاد نہیں، بلکہ جہاد اسلام اور مسلمانوں کی مصالح کی خاطر آخری راہ حل ہے. <ref>زحیلی، ص۹۰، ۹۷</ref> جہاد شروع کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ مد مقابل کو اسلام کی دعوت، کفر و عصیان چھوڑنے اور اور انسانی حقوق کو پایمال نہ کرنے کی دعوت دی جائے اور اس کی ابتداء ایسے علاقہ جات سے کی جائے جو اسلامی سرزمین کے نزدیک ہیں. <ref>شافعی، ج ۴، ص۱۷۷؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۸۵ـ ۲۸۷؛ فخرالمحققین، ج ۱، ص۳۵۴؛ نجفی، ج ۲۱، ص۵۱؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۹</ref>  
بعض مجتہدین کی نظر میں [[پیغمبر اکرم(ص)]] کی سیرت کے مطابق، اگر شرائط مناسب ہوں اور سپاہ اسلام بھی جہاد کے لئے  تیار ہوں، تو کم از کم سال میں ایک بار واجب ہے. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۱۰؛ ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۶۷ـ۳۶۸؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۶؛ علامه حلّی، ۱۴۱۳ـ۱۴۱۹، ج ۱، ص۴۷۷؛ نجفی، ج ۲۱، ص۴۹</ref> جنگ کے میدان سے فرار جائز نہیں ہے مگر مجبوری کی حالت میں. <ref>نجفی، ج ۲۱، ص۷۳؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۷۱</ref>
بعض مجتہدین کی نظر میں [[پیغمبر اکرم(ص)]] کی سیرت کے مطابق، اگر شرائط مناسب ہوں اور سپاہ اسلام بھی جہاد کے لئے  تیار ہوں، تو کم از کم سال میں ایک بار واجب ہے. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۱۰؛ ابن قدامہ، ج ۱۰، ص۳۶۷ـ۳۶۸؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۶؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۳ـ۱۴۱۹، ج ۱، ص۴۷۷؛ نجفی، ج ۲۱، ص۴۹</ref> جنگ کے میدان سے فرار جائز نہیں ہے مگر مجبوری کی حالت میں. <ref>نجفی، ج ۲۱، ص۷۳؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۷۱</ref>


===جہاد واجب کفائی===
===جہاد واجب کفائی===
فقہ اسلامی میں مشہور قول کے مطابق، ابتدائی جہاد واجب کفائی ہے. یعنی اگر مجاہدین کی کچھ تعداد جو جہاد کے لئے تیار ہو، کافی ہو، تو جہاد دوسرے افراد سے ساقط ہے، لیکن اگر خاص دلائل کی وجہ سے بعض افراد کا جنگ شرکت کرنا ضروری سمجھا جائے تو ان کے لئے جہاد واجب عینی ہو گا. اور جنگ میں حاضر ہونا اور دشمن کے ساتھ مقابلہ کرتے وقت جہاد واجب عینی ہے اور اس وقت منصرف ہونا [[حرام]] ہے. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۷، ۲۷۷؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۸؛ قس ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۶۴</ref>  
فقہ اسلامی میں مشہور قول کے مطابق، ابتدائی جہاد واجب کفائی ہے. یعنی اگر مجاہدین کی کچھ تعداد جو جہاد کے لئے تیار ہو، کافی ہو، تو جہاد دوسرے افراد سے ساقط ہے، لیکن اگر خاص دلائل کی وجہ سے بعض افراد کا جنگ شرکت کرنا ضروری سمجھا جائے تو ان کے لئے جہاد واجب عینی ہو گا. اور جنگ میں حاضر ہونا اور دشمن کے ساتھ مقابلہ کرتے وقت جہاد واجب عینی ہے اور اس وقت منصرف ہونا [[حرام]] ہے. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۷، ۲۷۷؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۸؛ قس ابن قدامہ، ج ۱۰، ص۳۶۴</ref>  


===مجاہدین کے شرائط===
===مجاہدین کے شرائط===
سطر 68: سطر 68:
٣.آزاد ہو (غلام نہ ہو)
٣.آزاد ہو (غلام نہ ہو)
٤. جہاد کے لئے مالی اور جسمی توانائی رکھتا ہو.
٤. جہاد کے لئے مالی اور جسمی توانائی رکھتا ہو.
٥.جہاد کو ترک کرنے کے لئے کوئی شرعی عذر نہ رکھتا ہو. اس لئے جہاد غلاموں، عورتوں، بچوں، دیوانوں، بوڑھوں، نابینا یا شدید بیماری کی حالت، یا جسم کے کسی عضو میں نقص ہو، واجب نہیں ہے. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲، ۴ـ۵؛ ابن قدامه، ج ۱۰، ص۳۶۶ـ۳۶۷؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۷۰ـ۲۷۲؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۲ـ ۳۶۳</ref>
٥.جہاد کو ترک کرنے کے لئے کوئی شرعی عذر نہ رکھتا ہو. اس لئے جہاد غلاموں، عورتوں، بچوں، دیوانوں، بوڑھوں، نابینا یا شدید بیماری کی حالت، یا جسم کے کسی عضو میں نقص ہو، واجب نہیں ہے. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۲، ۴ـ۵؛ ابن قدامہ، ج ۱۰، ص۳۶۶ـ۳۶۷؛ مطیعی، ج ۱۹، ص۲۷۰ـ۲۷۲؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۲ـ ۳۶۳</ref>
٦.اسی طرح اگر والدین اپنے فرزند کو جہاد کی اجازت نہ دین تو بھی جہاد ساقط ہے مگر یہ کہ  جہاد اس کے لئے واجب عینی ہو.
٦.اسی طرح اگر والدین اپنے فرزند کو جہاد کی اجازت نہ دین تو بھی جہاد ساقط ہے مگر یہ کہ  جہاد اس کے لئے واجب عینی ہو.
اور اس صورت میں اگر والدین مشرک ہوں، اور اپنے دادا سے اور اگر کسی کا مقروض ہو تو اس سے اجازت ان تمام موارد میں مجتہدین کی نظرات مختلف ہیں.<ref>مطیعی، ج ۱۹، ص۲۷۴ـ۲۷۶؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۲۷ـ ۳۳؛ نجفی، ج ۲۱، ص۲۱ـ۲۶؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۶ـ ۳۶۷</ref> اسی طرح کسی کو جہاد کے لئے اجیر کرنا یا جہاد کے لئے جعالہ قرار دینے کے بارے میں بھی مجتہدین کے فتوے میں اختلاف پایا جاتا ہے. <ref>مطیعی،ج ۱۹، ص۲۸۰؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۵۴ـ۵۷</ref>  
اور اس صورت میں اگر والدین مشرک ہوں، اور اپنے دادا سے اور اگر کسی کا مقروض ہو تو اس سے اجازت ان تمام موارد میں مجتہدین کی نظرات مختلف ہیں.<ref>مطیعی، ج ۱۹، ص۲۷۴ـ۲۷۶؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۲۷ـ ۳۳؛ نجفی، ج ۲۱، ص۲۱ـ۲۶؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۶ـ ۳۶۷</ref> اسی طرح کسی کو جہاد کے لئے اجیر کرنا یا جہاد کے لئے جعالہ قرار دینے کے بارے میں بھی مجتہدین کے فتوے میں اختلاف پایا جاتا ہے. <ref>مطیعی،ج ۱۹، ص۲۸۰؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۵۴ـ۵۷</ref>  
دفاعی جہاد کے لئے بہت سے مذکورہ شرائط ضروری نہیں جیسے امام کی اجازت، کیونکہ مسلمانوں کی جان اور مال کی حفاظت ہر مسلمان جو کہ اس کا توان رکھتا ہو، ہر شرائط میں واجب ہے. <ref> مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۹؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۳۷؛ نجفی، ج ۲۱، ص۱۵ـ۱۶، ج ۴۱، ص۶۵۰ـ۶۵۱؛ برای دیگر تفاوتهای جهاد ابتدایی با جهاد دفاعی ر.ک: نجفی، ج ۲۱، ص۱۵ـ ۱۶</ref>  
دفاعی جہاد کے لئے بہت سے مذکورہ شرائط ضروری نہیں جیسے امام کی اجازت، کیونکہ مسلمانوں کی جان اور مال کی حفاظت ہر مسلمان جو کہ اس کا توان رکھتا ہو، ہر شرائط میں واجب ہے. <ref> مطیعی، ج ۱۹، ص۲۶۹؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۳۷؛ نجفی، ج ۲۱، ص۱۵ـ۱۶، ج ۴۱، ص۶۵۰ـ۶۵۱؛ برای دیگر تفاوتہای جہاد ابتدایی با جہاد دفاعی ر.ک: نجفی، ج ۲۱، ص۱۵ـ ۱۶</ref>  


===احکام اور آداب===
===احکام اور آداب===
حرام مہینوں (رجب، ذیقعد، ذوالحجہ، محرم) میں اسلام سے پہلے عرب قبائل میں جنگ حرام تھی اسلام نے بھی اس کی تصدیق  کی ہے اور مجتہدین نے آیات قرآن  کو مستند قرار دیا ہےجیسے [[سورہ بقرہ]] کی آیت ٢١٧ اور [[سورہ توبہ|توبہ]] کی آیت ٥، جو کہ ان مہینوں میں جنگ کی حرمت کو بیان کرتی ہیں. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۳؛ قرطبی، ذیل بقره : ۹۰؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۸ـ ۳۶۹</ref> مگر یہ کہ دشمن ماہ حرام کی حرمت کا خیال نہ رکھے اور جنگ کا آغاز کرے اس صورت میں دفاع ضروری ہے.<ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۳۲ ـ ۳۴</ref> البتہ اہل سنت کے بعض علماء کی نظر میں جنگ کی حرمت حرام مہینوں میں نسخ کی گئی ہے اور جہاد ہر جگہ اور ہر وقت جائز ہے.<ref>جصاص، ج ۱، ص۳۹۰؛ قرطبی</ref>
حرام مہینوں (رجب، ذیقعد، ذوالحجہ، محرم) میں اسلام سے پہلے عرب قبائل میں جنگ حرام تھی اسلام نے بھی اس کی تصدیق  کی ہے اور مجتہدین نے آیات قرآن  کو مستند قرار دیا ہےجیسے [[سورہ بقرہ]] کی آیت ٢١٧ اور [[سورہ توبہ|توبہ]] کی آیت ٥، جو کہ ان مہینوں میں جنگ کی حرمت کو بیان کرتی ہیں. <ref>طوسی، ۱۳۸۷، ج ۲، ص۳؛ قرطبی، ذیل بقرہ : ۹۰؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۸ـ ۳۶۹</ref> مگر یہ کہ دشمن ماہ حرام کی حرمت کا خیال نہ رکھے اور جنگ کا آغاز کرے اس صورت میں دفاع ضروری ہے.<ref>جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۳۲ ـ ۳۴</ref> البتہ اہل سنت کے بعض علماء کی نظر میں جنگ کی حرمت حرام مہینوں میں نسخ کی گئی ہے اور جہاد ہر جگہ اور ہر وقت جائز ہے.<ref>جصاص، ج ۱، ص۳۹۰؛ قرطبی</ref>
جنگ سے فرار کرنا حرام، بلکہ [[گناہ کبیرہ]] سے ہے، <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۵۶</ref>مگر یہ کہ مسلمانوں کی تعداد دشمن کی نصف تعداد سے بھی کم ہوں، اس صورت میں ان سے مقابلہ واجب نہیں ہے. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۶۱</ref>
جنگ سے فرار کرنا حرام، بلکہ [[گناہ کبیرہ]] سے ہے، <ref>جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۵۶</ref>مگر یہ کہ مسلمانوں کی تعداد دشمن کی نصف تعداد سے بھی کم ہوں، اس صورت میں ان سے مقابلہ واجب نہیں ہے. <ref>جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۶۱</ref>
امام علیہ السلام یا آپ(ع) کے نائب پر واجب ہے کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے کفار کو اسلام (توحید، پیغمبر(ص) اور دوسرے لوازم جیسے [[اصول دین]] و [[فروع دین]]) کی دعوت دی جائے اگرچہ اس سے پہلے انکو دعوت دی جا چکی ہو لیکن پھر بھی اس دعوت کو دہرانا مستحب ہے.<ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۵۴ ـ ۵۱</ref>
امام علیہ السلام یا آپ(ع) کے نائب پر واجب ہے کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے کفار کو اسلام (توحید، پیغمبر(ص) اور دوسرے لوازم جیسے [[اصول دین]] و [[فروع دین]]) کی دعوت دی جائے اگرچہ اس سے پہلے انکو دعوت دی جا چکی ہو لیکن پھر بھی اس دعوت کو دہرانا مستحب ہے.<ref>جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۵۴ ـ ۵۱</ref>
[[مستحب]] ہے کہ جنگ کا آغاز ظہر اور عصر کی [[نماز]] ادا کرنے کے بعد کیا جائے اور زوال سے پہلے جنگ کا آغاز مکروہ ہے مگر ضرورت کی حالت میں. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۸۲ ـ ۸۱</ref>
[[مستحب]] ہے کہ جنگ کا آغاز ظہر اور عصر کی [[نماز]] ادا کرنے کے بعد کیا جائے اور زوال سے پہلے جنگ کا آغاز مکروہ ہے مگر ضرورت کی حالت میں. <ref>جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۸۲ ـ ۸۱</ref>
جنگ کی ابتداء امام(ع) کی اجازت کے بغیر بعض قول کے مطابق مکروہ اور بعض نے حرام کہا ہے، لیکن امام(ع) کے منع کرنے پر اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے. اگر امام(ع) جنگ کی دعوت دیں تو شرکت کرنا مستحب ہے لیکن اگر لازمی قرار دیں تو شرکت واجب ہے. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۸۸ ـ ۸۵</ref>
جنگ کی ابتداء امام(ع) کی اجازت کے بغیر بعض قول کے مطابق مکروہ اور بعض نے حرام کہا ہے، لیکن امام(ع) کے منع کرنے پر اس کے حرام ہونے میں کوئی شک نہیں ہے. اگر امام(ع) جنگ کی دعوت دیں تو شرکت کرنا مستحب ہے لیکن اگر لازمی قرار دیں تو شرکت واجب ہے. <ref>جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۸۸ ـ ۸۵</ref>
دشمن پر سبقت حاصل کرنے کے لئے جس وسیلے کو استعمال کرنے کی ضرورت پڑھے جائز ہے، لیکن درختوں کو کاٹنا، آگ پھینکنا یا دشمن کی جانب پانی گرانا ضرورت کے علاوہ مکروہ ہے. اور اسی طرح ضرورت کے علاوہ  دشمن پر زہر پھینکنا یا اس سے کراہت کرنے میں بھی نظرات مختلف ہیں.<ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۶۶ ـ ۶۸؛اشارة السبق، ص۱۴۳؛ إصباح الشیعة، ص۱۸۹</ref> بعض درختوں کے کاٹ کر گلیل بنانا اگر ضرورت کے تحت ہو تو جائز کہتے ہیں. <ref>الروضة البهیة، ج۲، ص۳۹۲</ref>
دشمن پر سبقت حاصل کرنے کے لئے جس وسیلے کو استعمال کرنے کی ضرورت پڑھے جائز ہے، لیکن درختوں کو کاٹنا، آگ پھینکنا یا دشمن کی جانب پانی گرانا ضرورت کے علاوہ مکروہ ہے. اور اسی طرح ضرورت کے علاوہ  دشمن پر زہر پھینکنا یا اس سے کراہت کرنے میں بھی نظرات مختلف ہیں.<ref>جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۶۶ ـ ۶۸؛اشارة السبق، ص۱۴۳؛ إصباح الشیعة، ص۱۸۹</ref> بعض درختوں کے کاٹ کر گلیل بنانا اگر ضرورت کے تحت ہو تو جائز کہتے ہیں. <ref>الروضة البہیة، ج۲، ص۳۹۲</ref>
عورتوں، بچوں، دیوانوں اور جنگ سے ناتوان لوگوں، جیسے بوڑھے، نابینا اور محتاج اگر جنگ میں مشورہ یا کسی طرح کی دخالت نہ رکھتے ہوں تو انکو قتل کرنا حرام ہے مگر مجبوری کی حالت میں جیسے کہ اگر کافر خود کو نجات دینے کے لئے انکو اپنے آگے کھڑا کر لیں یا یہ کہ انکو قتل کر کے دشمن تک پہنچنے کا امکان ہو.<ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۶۸ و ۷۳ ـ ۷۷</ref>
عورتوں، بچوں، دیوانوں اور جنگ سے ناتوان لوگوں، جیسے بوڑھے، نابینا اور محتاج اگر جنگ میں مشورہ یا کسی طرح کی دخالت نہ رکھتے ہوں تو انکو قتل کرنا حرام ہے مگر مجبوری کی حالت میں جیسے کہ اگر کافر خود کو نجات دینے کے لئے انکو اپنے آگے کھڑا کر لیں یا یہ کہ انکو قتل کر کے دشمن تک پہنچنے کا امکان ہو.<ref>جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۶۸ و ۷۳ ـ ۷۷</ref>
دشمنوں کی کاں، ناک یا دوسرے اعضاء کاٹنا حرام ہے. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۷۸ ـ ۷۷</ref>
دشمنوں کی کاں، ناک یا دوسرے اعضاء کاٹنا حرام ہے. <ref>جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۷۸ ـ ۷۷</ref>
جنگ میں چال، بجز یہ کہ دشمن محفوظ ہو کسی دوسری صورت میں، جائز ہے. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۷۹ ـ ۷۸</ref>
جنگ میں چال، بجز یہ کہ دشمن محفوظ ہو کسی دوسری صورت میں، جائز ہے. <ref>جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۷۹ ـ ۷۸</ref>
مسلمان کی سواری کا پیچھا کرنا مکروہ ہے، لیکن کافر کی سواری کا پیچھا کرنا بعض قول کے مطابق کراہت نہیں رکھتا. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۸۵ ـ ۸۲</ref>
مسلمان کی سواری کا پیچھا کرنا مکروہ ہے، لیکن کافر کی سواری کا پیچھا کرنا بعض قول کے مطابق کراہت نہیں رکھتا. <ref>جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۸۵ ـ ۸۲</ref>
کسی مصلحت کی بناء پر اگر کفار سے مدد مانگنی پڑھے جب کہ اطمینان ہو کہ خیانت نہیں کرے گا اس صورت میں مدد طلب کرنا جائز ہے. <ref>جواهر الکلام، ج ۲۱، ص۱۹۴ ـ ۱۹۳</ref>
کسی مصلحت کی بناء پر اگر کفار سے مدد مانگنی پڑھے جب کہ اطمینان ہو کہ خیانت نہیں کرے گا اس صورت میں مدد طلب کرنا جائز ہے. <ref>جواہر الکلام، ج ۲۱، ص۱۹۴ ـ ۱۹۳</ref>
حرم کی حدود میں جیسے ایک خاص جگہ جہاں مکہ واقع ہے وہاں جنگ کرنا حرام ہے مگر ایسی صورت میں کہ جب دشمن ایسی جگہ پر جنگ میں پہل کر دے. <ref>ابن جوزی، ص۷۲ـ۷۴؛ علامه حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۹؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۹</ref>
حرم کی حدود میں جیسے ایک خاص جگہ جہاں مکہ واقع ہے وہاں جنگ کرنا حرام ہے مگر ایسی صورت میں کہ جب دشمن ایسی جگہ پر جنگ میں پہل کر دے. <ref>ابن جوزی، ص۷۲ـ۷۴؛ علامہ حلّی، ۱۴۱۴، ج ۹، ص۹؛ خوئی، ۱۴۱۰، ج ۱، ص۳۶۹</ref>
فقہ کی کتب میں، معتبر احادیث سے، جہاد میں بعض کاموں کو [[مستحب]] کہا گیا ہے جیسے: فوجی مجاہدوں کے حوصلے بلند کرنا اور انکے درمیان نظم برقرار کرنا ہر گروہ کے لئے ایک خاص پرچم یا نشانی رکھنا اور تکبیر پڑھنا یا کوئی خاص دعا وغیرہ پڑھنا. <ref>معزی ملایری، ج ۱۶، ص۱۹۰ـ ۱۹۹</ref>
فقہ کی کتب میں، معتبر احادیث سے، جہاد میں بعض کاموں کو [[مستحب]] کہا گیا ہے جیسے: فوجی مجاہدوں کے حوصلے بلند کرنا اور انکے درمیان نظم برقرار کرنا ہر گروہ کے لئے ایک خاص پرچم یا نشانی رکھنا اور تکبیر پڑھنا یا کوئی خاص دعا وغیرہ پڑھنا. <ref>معزی ملایری، ج ۱۶، ص۱۹۰ـ ۱۹۹</ref>


سطر 97: سطر 97:
{{حوالہ جات|3}}
{{حوالہ جات|3}}


[[fa:جهاد]]
[[fa:جہاد]]
[[tr:Cihad]]
[[tr:Cihad]]
[[id:Jihad]]
[[id:Jihad]]
گمنام صارف