مندرجات کا رخ کریں

"جہاد" کے نسخوں کے درمیان فرق

42 بائٹ کا اضافہ ،  3 ستمبر 2016ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Jaravi
imported>Jaravi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 25: سطر 25:
امام علی(ع): کہ جہاد بہشت کا ایک دروازہ ہے کہ جس کو خداوند نے اپنے خاص اولیاء کے لئے کھول رکھا ہے. جہاد تقوا کا لباس اور خداوند کی محکم زرہ ہے. [٢٣]  
امام علی(ع): کہ جہاد بہشت کا ایک دروازہ ہے کہ جس کو خداوند نے اپنے خاص اولیاء کے لئے کھول رکھا ہے. جہاد تقوا کا لباس اور خداوند کی محکم زرہ ہے. [٢٣]  
پیغمبر اکرم(ص): خداوند کی راہ میں ایک رات چوکیداری کرنا ان ہزار راتوں سے بہتر ہے جو کہ پوری رات عبادت اور پورا دن روزے میں گزرا ہو. [٢٤]  
پیغمبر اکرم(ص): خداوند کی راہ میں ایک رات چوکیداری کرنا ان ہزار راتوں سے بہتر ہے جو کہ پوری رات عبادت اور پورا دن روزے میں گزرا ہو. [٢٤]  
جہاد کے تالیف اور آثار
==جہاد کے بارے تالیفات اور آثار==
جہاد کی اہمیت اور منزلت کے سبب، اسلام میں اس کے بہت سے آثار بیان ہوئے ہیں. [٢٥] اسی طرح جامع حدیثی منابعوں میں جہاد یا سییر کے بارے میں جہاد کا خاص ذکر ہوا ہے. اس بحث کی اہم ترین موضوعات درج ذیل ہیں.  
جہاد کی اہمیت اور منزلت کے سبب، اسلام میں اس کے بہت سے آثار بیان ہوئے ہیں. [٢٥] اسی طرح جامع حدیثی منابعوں میں جہاد یا سییر کے بارے میں جہاد کا خاص ذکر ہوا ہے. اس بحث کی اہم ترین موضوعات درج ذیل ہیں.  
١.مجاہدین کی رزمی آمادگی کا مقام
*١.مجاہدین کی رزمی آمادگی کا مقام
٢.مومنین پر وجوب جہاد کے شرائط
*٢.مومنین پر وجوب جہاد کے شرائط
٣.جہاد کی اقسام
*٣.جہاد کی اقسام
٤.میدان جنگ کے متعلق احکام جیسے:
*٤.میدان جنگ کے متعلق احکام جیسے:
١.جنگ کرنے کا طریقہ اور فوج کے ساتھ اور قتل ہونے والوں اور باقی رہ جانے والوں کے ساتھ رویہ،  مال غنیمت کی تقسیم،
::الف) جنگ کرنے کا طریقہ اور فوج کے ساتھ اور قتل ہونے والوں اور باقی رہ جانے والوں کے ساتھ رویہ،  مال غنیمت کی تقسیم،
٢.جہاد کا اختتام. [٢٦]  
::ب) جہاد کا اختتام. [٢٦]  
جہاد کا فتوا
جہاد کا فتوا
سنہ تیرہ ہجری کو جب ایران اور روس کی جنگ ہوئی تھی تو اسلامی سرزمین کے دفاع کی خاطر شیعہ علماء نے جہاد کا حکم دیا تھا.[٣١] تاریخی کتابوں میں اہل سنت کے علماء کا بھی ذکر آیا ہے جنہوں نے جہاد کا حکم دیا جیسے ابن عساکر(م٥٧١) کو صلیبی جنگوں میں تشویق کرنا، اور اس بارے میں چالیس حدیث کی جمع آوری کرنا. [٣٢]  
سنہ تیرہ ہجری کو جب ایران اور روس کی جنگ ہوئی تھی تو اسلامی سرزمین کے دفاع کی خاطر شیعہ علماء نے جہاد کا حکم دیا تھا.[٣١] تاریخی کتابوں میں اہل سنت کے علماء کا بھی ذکر آیا ہے جنہوں نے جہاد کا حکم دیا جیسے ابن عساکر(م٥٧١) کو صلیبی جنگوں میں تشویق کرنا، اور اس بارے میں چالیس حدیث کی جمع آوری کرنا. [٣٢]  
سطر 41: سطر 41:




 
<!--
«رباط» یا «مرابطه» (مرزبانی) نیز موضوعی مرتبط با جهاد و در برخی موارد ـ بر پایه احادیث ـ از مصادیق آن است.[۲۷]  
«رباط» یا «مرابطه» (مرزبانی) نیز موضوعی مرتبط با جهاد و در برخی موارد ـ بر پایه احادیث ـ از مصادیق آن است.[۲۷]  
نگارش کتابهایی با عنوان «السِّیر» مانند السِیر اوزاعی (متوفی ۱۵۷) و السیر الصغیر و السیر الکبیر محمد بن حسن شیبانی (متوفی ۱۸۹) نیز، که بیانگر روش برخورد مسلمانان با غیرمسلمانان در زمان جنگ و صلح است، در میان فقهای متقدم، به ویژه اهل سنت، متداول بود. السیرالکبیر شیبانی به دلیل قدمت و جامعیت مباحث، اهمیت بسیاری دارد و شروح متعددی بر آن نوشته شده است. حکومت عثمانی این کتاب را به مثابه قانون روابط بین الملل می‌دانست.[۲۸] کتب فقه سیاسی، مانند الاحکام السلطانیه ماوردی و کتاب الخراج قاضی ابو یوسف (متوفی ۱۸۳)، نیز بخشی را به احکام جهاد اختصاص داده‌اند.[۲۹] در منابع جامع فقه شیعه، گاه مباحث مربوط به جهاد در ضمن مباحث دیگر، مانند حدود و امر به معروف و نهی از منکر، مطرح شده است.[۳۰]
نگارش کتابهایی با عنوان «السِّیر» مانند السِیر اوزاعی (متوفی ۱۵۷) و السیر الصغیر و السیر الکبیر محمد بن حسن شیبانی (متوفی ۱۸۹) نیز، که بیانگر روش برخورد مسلمانان با غیرمسلمانان در زمان جنگ و صلح است، در میان فقهای متقدم، به ویژه اهل سنت، متداول بود. السیرالکبیر شیبانی به دلیل قدمت و جامعیت مباحث، اهمیت بسیاری دارد و شروح متعددی بر آن نوشته شده است. حکومت عثمانی این کتاب را به مثابه قانون روابط بین الملل می‌دانست.[۲۸] کتب فقه سیاسی، مانند الاحکام السلطانیه ماوردی و کتاب الخراج قاضی ابو یوسف (متوفی ۱۸۳)، نیز بخشی را به احکام جهاد اختصاص داده‌اند.[۲۹] در منابع جامع فقه شیعه، گاه مباحث مربوط به جهاد در ضمن مباحث دیگر، مانند حدود و امر به معروف و نهی از منکر، مطرح شده است.[۳۰]
--!>
• ابتدائی جہاد کے واجب ہونے کے شرائط
• ابتدائی جہاد کے واجب ہونے کے شرائط
• اہل سنت کے علماء کے مطابق ابتدائی جہاد یعنی اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر، اگرچہ اس کی تشخیص دینے والا رہبرعادل ہو یا فاسق، واجب ہے.[٣٧] ان کی نظر میں جہاد کے بارے میں رہبر کا حکم اس طرح واجب ہے جیسے کہ پانچ نمازین واجب ہیں. [٣٨]
• اہل سنت کے علماء کے مطابق ابتدائی جہاد یعنی اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کی خاطر، اگرچہ اس کی تشخیص دینے والا رہبرعادل ہو یا فاسق، واجب ہے.[٣٧] ان کی نظر میں جہاد کے بارے میں رہبر کا حکم اس طرح واجب ہے جیسے کہ پانچ نمازین واجب ہیں. [٣٨]
گمنام صارف