"عمار بن یاسر" کے نسخوں کے درمیان فرق
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م (←بیرونی لینکس) |
Waziri (تبادلۂ خیال | شراکتیں) مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
||
سطر 48: | سطر 48: | ||
|belowstyle = background:#ddf; | |belowstyle = background:#ddf; | ||
|below =}} | |below =}} | ||
'''عمار بن یاسر''' [[پیغمبر اسلام(ص)]] کے عظیم المرتبت [[صحابہ|صحابی]] پہلے مسلمانوں اور [[امام علی(ع)]] کے [[شیعہ|شیعیان]] میں سے تھے۔ [[پیغمبر اکرم(ص)]] کی رحلت کے بعد '''عمار یاسر''' نے [[حضرت علی(ع)]] کی بھر پور حمایت کی اور [[ابوبکر]] کی [[ | '''عمار بن یاسر''' [[پیغمبر اسلام(ص)]] کے عظیم المرتبت [[صحابہ|صحابی]] پہلے مسلمانوں اور [[امام علی(ع)]] کے [[شیعہ|شیعیان]] میں سے تھے۔ [[پیغمبر اکرم(ص)]] کی رحلت کے بعد '''عمار یاسر''' نے [[حضرت علی(ع)]] کی بھر پور حمایت کی اور [[ابوبکر]] کی [[بیعت]] سے انکار کیا۔ [[عثمان]] کے دور خلافت میں آپ انکے مخالقین میں سے تھے اور کئی بار ان پر اعتراض کیا۔ [[حضرت علی(ع)]] کی خلافت کے دوران آپ [[امام علی(ع)]] کے نزدیک ترین افراد میں سے تھے اور [[جنگ صفین]] میں [[امام علی(ع)]] کی رکاب میں لڑتے ہوئے [[شہید]] ہو گئے۔ [[پیغمبر اکرم(ص)]] نے ایک [[حدیث]] میں انکی شہادت کے بارے میں فرمایا تھا: '''عمار''' کو ایک باغی گروہ [[شہید]] کریگا۔ | ||
==حسب و نسب == | ==حسب و نسب == | ||
'''عمار بن یاسر بن عامر''' جنکا [[کنیہ]] ابویقظان اور قبیلہ [[بنی مخزوم]] کا ہم پیمان تھا۔<ref>ابن اثیر، أسد الغابۃ، ۲۰۰۱، ج۴، ص۴۳.</ref> '''عمار یاسر''' کا حسب و نسب [[عنس بن مالک]] سے ملتا ہے جن کا تعلق قبیلہ قحطانی سے تھا اور [[یمن]] میں مقیم تھے۔ [[یاسر بن عامر]]، '''عمار''' کا والد جوانی میں [[مکہ مکرمہ]] آیا اور وہیں پر مقیم ہو گئے اور قبیلہ [[بنی مخزوم]] کے [[ابو حذیفہ]] سے ہم پیمان ہو گئے۔<ref>ابن اثیر، اسد الغابہ، ۲۰۰۱، ج۳، ص۳۰۸</ref> | '''عمار بن یاسر بن عامر''' جنکا [[کنیہ]] ابویقظان اور قبیلہ [[بنی مخزوم]] کا ہم پیمان تھا۔<ref>ابن اثیر، أسد الغابۃ، ۲۰۰۱، ج۴، ص۴۳.</ref> '''عمار یاسر''' کا حسب و نسب [[عنس بن مالک]] سے ملتا ہے جن کا تعلق قبیلہ قحطانی سے تھا اور [[یمن]] میں مقیم تھے۔ [[یاسر بن عامر]]، '''عمار''' کا والد جوانی میں [[مکہ مکرمہ]] آیا اور وہیں پر مقیم ہو گئے اور قبیلہ [[بنی مخزوم]] کے [[ابو حذیفہ]] سے ہم پیمان ہو گئے۔<ref>ابن اثیر، اسد الغابہ، ۲۰۰۱، ج۳، ص۳۰۸</ref> |