مندرجات کا رخ کریں

"من لایحضرہ الفقیہ (کتاب)" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 13: سطر 13:
اس کتاب میں [[شیخ صدوق]] نے  فقہی اور شرعی احکام سے متعلق [[آئمہ طاہرین]] کی [[روایت|روایات]]  اپنے اعتقاد کے مطابق [[صحیح]] اور [[معتبر]] کی  صورت میں جمع کیں ہیں ۔  
اس کتاب میں [[شیخ صدوق]] نے  فقہی اور شرعی احکام سے متعلق [[آئمہ طاہرین]] کی [[روایت|روایات]]  اپنے اعتقاد کے مطابق [[صحیح]] اور [[معتبر]] کی  صورت میں جمع کیں ہیں ۔  
==اہمیت==
==اہمیت==
شیخ صدوق کے اہم ترین آثار میں من لا یحضر الفقیہ کو گنا جاتا ہے اور علمائے تشیع کے نزدیک چار حدیثی مجموعوں میں سے ایک ہے نیز ہر عام و خاص کے نزدیک اس  کتاب کو ایک مرجع اور ماخذ کی حیثیت حاصل  رہی ہے۔ بہت سے علما نے اس کتاب کی شرحیں اور حاشیے لکھیں۔ اس کتاب کا فارسی زبان میں ترجمہ موجود ہے ۔شیخ صدوق کے موجود آثار میں سے من لا یحضر الفقیہ  شیعہ مذہب  کے فقہی اور احکام کی ایک جامع کتاب ہے ۔ شیخ صدوق کے دیگر آثار  عام طور پر موضوعی اعتبار سے مرتب ہیں  جن میں اس موضوع سے متعلق روایات کی جمع آوری کی گئی ہے ۔
[[شیخ صدوق]] کے اہم ترین آثار میں [[من لا یحضر الفقیہ]] کو گنا جاتا ہے اور علمائے [[تشیع]] کے نزدیک چار حدیثی مجموعوں میں سے ایک ہے نیز ہر عام و خاص کے نزدیک اس  کتاب کو ایک مرجع اور ماخذ کی حیثیت حاصل  رہی ہے۔ بہت سے علما نے اس کتاب کی شرحیں اور حاشیے لکھیں۔ اس کتاب کا فارسی زبان میں ترجمہ موجود ہے ۔[[شیخ صدوق]] کے موجود آثار میں سے من لا یحضر الفقیہ  [[شیعہ]] مذہب  کے فقہی اور [[احکام]] کی ایک جامع کتاب ہے ۔ [[شیخ صدوق]] کے دیگر آثار  عام طور پر موضوعی اعتبار سے مرتب ہیں  جن میں اس موضوع سے متعلق [[روایت|روایات]] کی جمع آوری کی گئی ہے ۔


اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ شیخ صدوق کی دیگر تالیفات کی نسبت اس کتاب میں مذکور مطالب کے متعلق زیادہ اعتماد اور اطمینان پایا جاتا ہے ۔
اس کتاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ [[شیخ صدوق]] کی دیگر تالیفات کی نسبت اس کتاب میں مذکور مطالب کے متعلق زیادہ اعتماد اور اطمینان پایا جاتا ہے ۔


شیخ صدوق نے اس کتاب کے مقدمے میں یوں تحریر کیا ہے :
[[شیخ صدوق]] نے اس کتاب کے مقدمے میں یوں تحریر کیا ہے :
:یہ بات میرے پش نظر تھی کہ جن روایات کی بنا پر میں فتوا دیتا ہوں اور حکم شرعی بیان کرتا ہوں انہیں اکٹھا کروں   
:یہ بات میرے پیش نظر تھی کہ جن [[روایت|روایات]] کی بنا پر میں [[فتوا]] دیتا ہوں اور [[حکم]] شرعی بیان کرتا ہوں انہیں اکٹھا کروں   
اور ان روایات کے بارے میں میرا یہ اعتقاد ہے کہ یہ میرے اور خدا کے درمیان حجت ہیں نیز میں نے ان روایات کو  مشہور اور مورد اعتماد کتابوں سے نقل کیا ہے ۔<ref>شیخ صدوق، کتاب من لا یحضره الفقیہ، ج۱، ص۳</ref>
اور ان روایات کے بارے میں میرا یہ اعتقاد ہے کہ یہ میرے اور [[خدا]] کے درمیان حجت ہیں نیز میں نے ان روایات کو  مشہور اور مورد اعتماد کتابوں سے نقل کیا ہے ۔<ref>شیخ صدوق، کتاب من لا یحضره الفقیہ، ج۱، ص۳</ref>
 
اس لحاظ سے یہ کتاب اگرچہ روائی سمجھی جاتی ہے لیکن [[شیخ صدوق]] نے اسے ایک فقہی کتاب کہا ہے تا کہ مسائل شرعی میں انکی [[روایت|روایات]] پر عمل کر سکیں۔ [[شیخ صدوق]] کے دیگر آثار میں ایسی کوئی ضمانت  نہیں دی گئی ہے کہ جسکی تمام روایات کی صحت کو [[شیخ صدوق]] نے اپنے ذمہ لیا ہو۔البتہ [[مقنعہ]] نامی کتاب میں موجود مطالب صحت اور اعتبار کے لحاظ سے کسی حد تک  من لا یحضر الفقیہ کی مانند ہے جیسا کہ اسکے متعلق شیخ صدوق نے کہا :
:اس کتاب میں میں نے [[موثق]] اور مورد اعتماد مشائخ علما اور [[فقہا]] کی بنیادی کتابوں سے [[حدیث|احادیث]] نقل کیں ہیں۔<ref>شیخ صدوق،المقنع ص5</ref>


اس لحاظ سے یہ کتاب اگرچہ روائی سمجھی جاتی ہے لیکن شیخ صدوق نے اسے ایک فقہی کتاب کہا ہے تا کہ مسائل شرعی میں انکی روایات پر عمل کر سکیں۔ شیخ صدوق کے دیگر آثار میں ایسی کوئی ضمانت  نہیں دی گئی ہے کہ جسکی تمام روایات کی صحت کو شیخ صدوق نے اپنے ذمہ لیا ہو۔البتہ مقنع نامی کتاب میں موجود مطالب صحت اور اعتبار کے لحاظ سے کسی حد تک  من لا یحضر الفقیہ کی مانند ہے جیسا کہ اسکے متعلق شیخ صدوق نے کہا ہے :
:اس کتاب میں میں نے موثق اور مورد اعتماد مشائخ علما اور فقہا کی بنیادی کتابوں سے احادیث نقل کیں ہیں۔<ref>شیخ صدوق،المقنع ص5</ref>
==روش ==  
==روش ==  
شیخ صدوق نے اسے فقہی کتاب کے عنوان سے تحریر کیا تا کہ مسائل شرعیہ میں ان پر عمل کیا جا سکے لیکن اس کی روش ابتدائی صدیوں کے شیعہ  علما کی روش کے مطابق ہے کہ جس میں علما صرف آئمہ طاہرین سے حدیث کے نقل کرنے پر اکتفا کرتے تھے اور حدیث کے ہمراہ کسی قسم کوئی بات اپنی جانب سے تحریر نہیں کرتے تھے چونکہ وہ کلام آئمہ کو مرکز وحی سے متصل اور معدن حکمت سمجھتے تھے ۔
شیخ صدوق نے اسے فقہی کتاب کے عنوان سے تحریر کیا تا کہ مسائل شرعیہ میں ان پر عمل کیا جا سکے لیکن اس کی روش ابتدائی صدیوں کے شیعہ  علما کی روش کے مطابق ہے کہ جس میں علما صرف آئمہ طاہرین سے حدیث کے نقل کرنے پر اکتفا کرتے تھے اور حدیث کے ہمراہ کسی قسم کوئی بات اپنی جانب سے تحریر نہیں کرتے تھے چونکہ وہ کلام آئمہ کو مرکز وحی سے متصل اور معدن حکمت سمجھتے تھے ۔
گمنام صارف