مندرجات کا رخ کریں

"تقیہ" کے نسخوں کے درمیان فرق

68 بائٹ کا اضافہ ،  17 جون 2016ء
م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 46: سطر 46:
===تقیہ احادیث کی روشنی میں===
===تقیہ احادیث کی روشنی میں===
بہت ساری احادیث تقیہ کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔<ref>موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۵۳؛ ان احادیث سے زیادہ سے زیادہ آگاہی کیلئے کتاب وسایل الشیعہ، ج۱، باب ۲۵ و ج۱۶، باب۲۹</ref> احادیث کے مطابق تقیہ مومن کے افضل ترین کاموں میں سے ہے اور امت کی اصلاح کا موجب ہے اور دین اس کے بغیر کامل نہیں ہے۔<ref> کلینی، الکافی، ج۲، ص۲۱۷ـ ۲۲۱؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۷۲، ص۳۹۴، ۳۹۷ـ ۳۹۸، ۴۲۳</ref> اضطراری اور خاص حالات میں تقیہ کے جواز یا وجوب پر موجود احادیث <ref> ابن حنبل، مسندالامام احمدبن حنبل، ج۵، ص۱۶۸؛ کلینی، الکافی، ج۲، ص۲۱۸، حدیث ۷؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۷۲، ص۴۲۱، ۴۲۸</ref> کے علاوہ بعض احادیث عام حالات میں بھی اس کے جواز پر موجود ہیں۔<ref> حرّ عاملی، وسایل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۱۴ـ ۲۱۸</ref> اسی طرح وہ احادیث جو دلالت کرتی ہیں کہ احکام شرعی اولیہ، اضطرار اور احتاج کی صورت میں اٹھا لئے جاتے ہیں جیسے [[حدیث رفع]] اور [[حدیث لاضرر]] <ref> ابن حنبل، مسندالامام احمدبن حنبل، ج۱، ص۳۱۳، ج۵، ص۳۲۷؛ کلینی، الکافی، ج۵، ص۲۸۰، ۲۹۲ـ۲۹۴؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۵، ص۳۰۳</ref> وغیرہ تقیہ کے جواز پر اہم ترین دلائل میں شمار ہوتی ہیں۔<ref>قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ذیل نحل: ۱۰۶؛ انصاری، التقیہ، ص۴۰؛ امین، نقض الوشیعہ، ص۱۸۹؛ موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۵۴ ـ ۵۵</ref> اسی طرح وہ احادیث جو جھوٹ اور [[توریہ]] کو خاص موارد میں تجویز کرتے ہیں، جیسے "کتمان" سے مربوط احادیث وغیرہ بھی تقیہ کی مشروعیت پر بہترین دلیل ہے۔<ref> کلینی، الکافی، ج۲، ص۲۲۱ـ۲۲۶؛ غزالی، احیاء علوم الدین، ج۳، ص۱۳۷؛ امین، نقض الوشیعہ، ص۱۸۸ـ ۱۸۹</ref> اسی طرح اکراہ سے متعلق احادیث بھی تقیہ پر دلیل بنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔<ref> خمینی، المکاسب المحرمہ، ج۲، ص۲۲۶ـ۲۲۷</ref>
بہت ساری احادیث تقیہ کے جواز پر دلالت کرتی ہیں۔<ref>موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۵۳؛ ان احادیث سے زیادہ سے زیادہ آگاہی کیلئے کتاب وسایل الشیعہ، ج۱، باب ۲۵ و ج۱۶، باب۲۹</ref> احادیث کے مطابق تقیہ مومن کے افضل ترین کاموں میں سے ہے اور امت کی اصلاح کا موجب ہے اور دین اس کے بغیر کامل نہیں ہے۔<ref> کلینی، الکافی، ج۲، ص۲۱۷ـ ۲۲۱؛ مجلسی، بحار الانوار، ج۷۲، ص۳۹۴، ۳۹۷ـ ۳۹۸، ۴۲۳</ref> اضطراری اور خاص حالات میں تقیہ کے جواز یا وجوب پر موجود احادیث <ref> ابن حنبل، مسندالامام احمدبن حنبل، ج۵، ص۱۶۸؛ کلینی، الکافی، ج۲، ص۲۱۸، حدیث ۷؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۷۲، ص۴۲۱، ۴۲۸</ref> کے علاوہ بعض احادیث عام حالات میں بھی اس کے جواز پر موجود ہیں۔<ref> حرّ عاملی، وسایل الشیعہ، ج۱۶، ص۲۱۴ـ ۲۱۸</ref> اسی طرح وہ احادیث جو دلالت کرتی ہیں کہ احکام شرعی اولیہ، اضطرار اور احتاج کی صورت میں اٹھا لئے جاتے ہیں جیسے [[حدیث رفع]] اور [[حدیث لاضرر]] <ref> ابن حنبل، مسندالامام احمدبن حنبل، ج۱، ص۳۱۳، ج۵، ص۳۲۷؛ کلینی، الکافی، ج۵، ص۲۸۰، ۲۹۲ـ۲۹۴؛ مجلسی، بحارالانوار، ج۵، ص۳۰۳</ref> وغیرہ تقیہ کے جواز پر اہم ترین دلائل میں شمار ہوتی ہیں۔<ref>قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ذیل نحل: ۱۰۶؛ انصاری، التقیہ، ص۴۰؛ امین، نقض الوشیعہ، ص۱۸۹؛ موسوی بجنوردی، القواعد الفقہیہ، ج۵، ص۵۴ ـ ۵۵</ref> اسی طرح وہ احادیث جو جھوٹ اور [[توریہ]] کو خاص موارد میں تجویز کرتے ہیں، جیسے "کتمان" سے مربوط احادیث وغیرہ بھی تقیہ کی مشروعیت پر بہترین دلیل ہے۔<ref> کلینی، الکافی، ج۲، ص۲۲۱ـ۲۲۶؛ غزالی، احیاء علوم الدین، ج۳، ص۱۳۷؛ امین، نقض الوشیعہ، ص۱۸۸ـ ۱۸۹</ref> اسی طرح اکراہ سے متعلق احادیث بھی تقیہ پر دلیل بنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔<ref> خمینی، المکاسب المحرمہ، ج۲، ص۲۲۶ـ۲۲۷</ref>
====تقیہ اور سیرت نبوی(ص)====
نقل ہوئی ہے کہ حضرت [[محمد(ص)]] کی [[مدینہ]] کی طرف ہجرت کے بعد [[مہاجرین]] میں سے بعض افراد مکہ مکرمہ سے اپنا مال و اموال لانے کیلئے آنحضرت سے مکہ جانے کی رخصت لیتے ہوئے مشرکین کو خوش کرنے کیلئے اپنی قلبنی اعتقاد کے برخلاف بعض کلمات ادا کرنے کی اجازت دریافت کی تو آنحضرت نے انہیں ایسے کلمات کے ادا کرنے کی اجازت دے دی۔<ref>  السیرہ الحلبیہ، ج۳، ص۵۱ ـ۵۲</ref> آپ(ص) کے [[اصحاب]] اور [[تابعین]] سے بھی مختلف موارد میں ایسے رفتار یا گفتار صادر ہوئے ہیں جو تقیہ پر دلالت کرتی ہے جیسے [[ابن عباس]]، <ref>ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ج۱۲، ص۲۷۹</ref> [[ابن مسعود]]، <ref>ابن حزم، المحلّی، ج۸، ص۳۳۶</ref> [[جابر بن عبداللہ انصاری]]، <ref>شمس الائمہ سرخسی، کتاب المبسوط، ج۲۴، ص۴۷</ref> [[حذیفہ بن یمان]]، <ref>صنعانی، ج 6، ص 474، ح 33050</ref> [[ابوالدَرداء]]<ref>بخاری جُعْفی، صحیح البخاری، ج۷، ص۱۰۲</ref> اور [[سعید بن مُسَیب]] وغیرہ <ref> امینی، الغدیر فی الکتاب والسنہ والادب، ج۱، ص۳۸۰</ref>
<!--
<!--
====سیره پیامبر(ص) ====
نقل شده که پس از مهاجرت [[محمد(ص) |آن حضرت]] به [[مدینه]]، برخی [[مهاجران]] ضمن اجازه گرفتن از ایشان برای رفتن به [[مکه]] و آوردن اموال خود، برای ابراز کلماتی بر خلاف میل قلبی به منظور جلب رضایت مشرکان رخصت خواستند و حضرت با آن موافقت کردند.<ref>رجوع کنید به حلبی، السیره الحلبیه، ج۳، ص۵۱ ـ۵۲</ref> از [[صحابه|صحابیان]] آن حضرت و [[تابعین]] نیز موارد متعددی دالّ بر پذیرفتن تقیه در رفتار یا گفتار گزارش شده است؛ از جمله [[ابن عباس]]، <ref>ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، ج۱۲، ص۲۷۹</ref> [[ابن مسعود]]، <ref>ابن حزم، المحلّی، ج۸، ص۳۳۶</ref> [[جابر بن عبدالله انصاری|جابر بن عبداللّه انصاری]]، <ref>شمس الائمه سرخسی، کتاب المبسوط، ج۲۴، ص۴۷</ref> [[حذیفه بن یمان]]، <ref>صنعانی، ج 6، ص 474، ح 33050</ref> [[ابوالدَرداء]]<ref>بخاری جُعْفی، صحیح البخاری، ج۷، ص۱۰۲</ref> و [[سعید بن مُسَیب]].<ref>رجوع کنید به امینی، الغدیرفی الکتاب والسنه والادب، ج۱، ص۳۸۰</ref>
====نمونه‌ای از تقیه صحابه====
====نمونه‌ای از تقیه صحابه====
[[ابن مسعود]] و حذیفه بن یمان بر [[عثمان بن عفان|عثمان]] وارد می‌شوند: عثمان خطاب به حذیفه می‎گوید: اين چه خبر‌هایی است که در مورد تو به من می‌رسد؟ پاسخ داد؟ من آن را نگفته‌ام
[[ابن مسعود]] و حذیفه بن یمان بر [[عثمان بن عفان|عثمان]] وارد می‌شوند: عثمان خطاب به حذیفه می‎گوید: اين چه خبر‌هایی است که در مورد تو به من می‌رسد؟ پاسخ داد؟ من آن را نگفته‌ام
confirmed، templateeditor
8,847

ترامیم