مندرجات کا رخ کریں

"حضرت عباس علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Abbasi
imported>Abbasi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 23: سطر 23:
آپ کربلا میں [[امام حسین]] کی فوج کے سپہ سالار تھے اور امام حسین کے ساتھیوں کے لئے [[فرات]] سے پانی لائے۔ آپ اور آپ کے بھائیوں نے [[عبیداللہ بن زیاد]] کا امان نامہ کو ٹھکرایا اور امام حسینؑ کی فوج میں رہ کر جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ بعض مقاتل کی کتابوں نے لکھا ہے کہ آپ کے دونوں بازو جدا ہوئے تھے اور سر پر گرز لگا تھا اور ایسی حالت میں شہید ہوئے۔ بعض نے آپ کی لاش پر امام حسینؑ کا گریہ کرنا بھی نقل کیا ہے۔
آپ کربلا میں [[امام حسین]] کی فوج کے سپہ سالار تھے اور امام حسین کے ساتھیوں کے لئے [[فرات]] سے پانی لائے۔ آپ اور آپ کے بھائیوں نے [[عبیداللہ بن زیاد]] کا امان نامہ کو ٹھکرایا اور امام حسینؑ کی فوج میں رہ کر جنگ کرتے ہوئے شہید ہوئے۔ بعض مقاتل کی کتابوں نے لکھا ہے کہ آپ کے دونوں بازو جدا ہوئے تھے اور سر پر گرز لگا تھا اور ایسی حالت میں شہید ہوئے۔ بعض نے آپ کی لاش پر امام حسینؑ کا گریہ کرنا بھی نقل کیا ہے۔
بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ آپ کا قد لمبا اور صورت کے اعتبار سے حسین تھے [[شیعہ ائمہ]] نے بہشت میں آپ کا عظیم مقام بیان کیا ہے اور بہت ساری کرامات بھی بیان کی ہیں جن میں سے ایک حاجت پوری کرنا ہے۔ یہاں تک کہ غیر شیعہ اور غیر مسلمان کی بھی جاجت روائی کرتے ہیں۔
بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ آپ کا قد لمبا اور صورت کے اعتبار سے حسین تھے [[شیعہ ائمہ]] نے بہشت میں آپ کا عظیم مقام بیان کیا ہے اور بہت ساری کرامات بھی بیان کی ہیں جن میں سے ایک حاجت پوری کرنا ہے۔ یہاں تک کہ غیر شیعہ اور غیر مسلمان کی بھی جاجت روائی کرتے ہیں۔
[[شیعہ|شیعوں]] کے نزدیک [[ائمہ علیہم السلام|ائمہؑ]] کی اولاد میں سے حضرت عباس بن علی کا مقام و مرتبت بہت بلند ہے اور انہیں باب الحوائج سے جانتے ہیں اور ان سے متوسل ہوتے ہیں۔ امام حسینؑ کے حرم کے قریب حضرت عباس کا حرم [[شیعہ]] زیارتگاہوں میں سے ایک اہم زیارت ہے۔ شیعہ آپ کو سقائے [[کربلا]] کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ ان کی عظمت کو کی بنا پر شیعہ حضرات  بعض جگہوں پر [[روز تاسوعا|نو (9) محرم]]  اور بعض جگہوں پر آٹھ (8) [[محرم]]  کو حضرت عباس کی یاد میں [[عزاداری]] کرتے ہیں جبکہ ایران میں  [[محرم الحرام|محرم]] کا نواں دن ([[تاسوعا]]) آپ سے مخصوص قرار دیا گیا ہے اور اس روز حضرت عباسؑ کی [[عزاداری]] کی جاتی ہے۔
[[شیعہ|شیعوں]] کے نزدیک [[ائمہ علیہم السلام|ائمہؑ]] کی اولاد میں سے حضرت عباس بن علی کا مقام و مرتبت بہت بلند ہے اور انھیں باب الحوائج سے جانتے ہیں اور ان سے متوسل ہوتے ہیں۔ امام حسینؑ کے حرم کے قریب حضرت عباس کا حرم [[شیعہ]] زیارتگاہوں میں سے ایک اہم زیارت ہے۔ شیعہ آپ کو سقائے [[کربلا]] کے نام سے بھی یاد کرتے ہیں۔ ان کی عظمت کو کی بنا پر شیعہ حضرات  بعض جگہوں پر [[روز تاسوعا|نو (9) محرم]]  اور بعض جگہوں پر آٹھ (8) [[محرم]]  کو حضرت عباس کی یاد میں [[عزاداری]] کرتے ہیں جبکہ ایران میں  [[محرم الحرام|محرم]] کا نواں دن ([[تاسوعا]]) آپ سے مخصوص قرار دیا گیا ہے اور اس روز حضرت عباسؑ کی [[عزاداری]] کی جاتی ہے۔


==  تحقیقی مآخذ کا فقدان ==
==  تحقیقی مآخذ کا فقدان ==
سطر 32: سطر 32:
===والدہ===
===والدہ===
[[فائل:نیاکان مادری حضرت عباس(ع).jpeg|left|تصغیر|350px|حضرت عباس کے ننھیال کا شجرہ نسب<ref> خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۲۵.</ref>.]]
[[فائل:نیاکان مادری حضرت عباس(ع).jpeg|left|تصغیر|350px|حضرت عباس کے ننھیال کا شجرہ نسب<ref> خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۲۵.</ref>.]]
امام علیؑ نے اپنے بھائی [[عقیل بن ابی طالب|عقیل]] سے درخواست کی تھی کہ انہیں ایسی ہمسر کی تلاش کریں جس سے بہادر اور دلیر بیٹے پیدا ہوجائیں تو عقیل جو کہ نسب شناس تھے، نے عباس کی ماں [[فاطمہ بنت حزام]] کو آپ کے لئے معرفی کیا تھا<ref>ابن عنبہ، عمدۃ الطالب، ۱۳۸۱ق، ص۳۵۷؛ المظفر، موسوعۃ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱، ص۱۰۵.</ref>منقول ہے کہ شب [[عاشورا]] جب [[زہیر بن قین]] کو پتہ چلا کہ [[شمر]] نے عباسؑ کو امان نامہ بھیجا ہے تو کہا: اے فرزند [[امام علی علیہ السلام|امیرالمومنین]]، جب تمہارے والد نے شادی کرنا چاہا تو تمہارے چچا عقیل سے کہا کہ ان کے لئے ایسی خاتون تلاش کریں جس کے حسب و نسب میں شجاعت و بہادری ہو تاکہ ان سے دلیر اور بہادر پیدا ہوں، ایسا بیٹا جو [[کربلا]] میں [[امام حسین علیہ السلام|حسینؑ]] کا مددگار بنے۔<ref> الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۷۷؛الاوردبادی، موسوعۃ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ص۵۲-۵۳؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۶.</ref> اردوبادی کہتا ہے کہ زہیر اور عباس کی گفتگو کو [[اسرار الشہادۃ (کتاب)|اسرار الشہادۃ]] نامی کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں پایا۔<ref> الاوردبادی، موسوعۃ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ص۵۲-۵۳.</ref>
امام علیؑ نے اپنے بھائی [[عقیل بن ابی طالب|عقیل]] سے درخواست کی تھی کہ انھیں ایسی ہمسر کی تلاش کریں جس سے بہادر اور دلیر بیٹے پیدا ہوجائیں تو عقیل جو کہ نسب شناس تھے، نے عباس کی ماں [[فاطمہ بنت حزام]] کو آپ کے لئے معرفی کیا تھا<ref>ابن عنبہ، عمدۃ الطالب، ۱۳۸۱ق، ص۳۵۷؛ المظفر، موسوعۃ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱، ص۱۰۵.</ref>منقول ہے کہ شب [[عاشورا]] جب [[زہیر بن قین]] کو پتہ چلا کہ [[شمر]] نے عباسؑ کو امان نامہ بھیجا ہے تو کہا: اے فرزند [[امام علی علیہ السلام|امیرالمومنین]]، جب تمہارے والد نے شادی کرنا چاہا تو تمہارے چچا عقیل سے کہا کہ ان کے لئے ایسی خاتون تلاش کریں جس کے حسب و نسب میں شجاعت و بہادری ہو تاکہ ان سے دلیر اور بہادر پیدا ہوں، ایسا بیٹا جو [[کربلا]] میں [[امام حسین علیہ السلام|حسینؑ]] کا مددگار بنے۔<ref> الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق، ص۱۷۷؛الاوردبادی، موسوعۃ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ص۵۲-۵۳؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق، ص۳۸۶.</ref> اردوبادی کہتا ہے کہ زہیر اور عباس کی گفتگو کو [[اسرار الشہادۃ (کتاب)|اسرار الشہادۃ]] نامی کتاب کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں پایا۔<ref> الاوردبادی، موسوعۃ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق، ص۵۲-۵۳.</ref>


=== کنیت===
=== کنیت===


*«ابوالفضل» حضرت عباسؑ کی مشہور ترین کنیت ہے۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲؛ ابو الفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبین، ۱۴۰۸ق، ص۸۹.</ref>بعض نے کہا ہے کہ [[بنی‌ہاشم|بنی ہاشم]] کی خاندان میں جس کا بھی نام عباس ہوتا تھا اسے ابو الفضل کہا جاتا تھا اسی لیے عباسؑ کو بچپن میں بھی ابو الفضل کہا جاتا تھا۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲. </ref>  کہا جاتا ہے کہ حضرت عباسؑ کے فضائل کی کثرت کی وجہ سے انہیں اس کنیت سے جانا جاتا تھا۔<ref> عمدۃ الطالب، ص‏280 </ref> اسی کنیت ہی کے ناطے آپ کو '''ابو فاضل''' اور '''ابو فضائل''' بھی کہا جاتا ہے۔
*«ابوالفضل» حضرت عباسؑ کی مشہور ترین کنیت ہے۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲؛ ابو الفرج الاصفہانی، مقاتل الطالبین، ۱۴۰۸ق، ص۸۹.</ref>بعض نے کہا ہے کہ [[بنی‌ہاشم|بنی ہاشم]] کی خاندان میں جس کا بھی نام عباس ہوتا تھا اسے ابو الفضل کہا جاتا تھا اسی لیے عباسؑ کو بچپن میں بھی ابو الفضل کہا جاتا تھا۔<ref>المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲. </ref>  کہا جاتا ہے کہ حضرت عباسؑ کے فضائل کی کثرت کی وجہ سے انھیں اس کنیت سے جانا جاتا تھا۔<ref> عمدۃ الطالب، ص‏280 </ref> اسی کنیت ہی کے ناطے آپ کو '''ابو فاضل''' اور '''ابو فضائل''' بھی کہا جاتا ہے۔
*«ابوالقاسم»: آپ کے ایک بیٹے کا نام قاسم تھا اور اسی وجہ سے آپ کو ابو القاسم کہا گیا آپ کی یہ کنیت [[زیارت اربعین]] میں بھی ذکر ہوئی ہے۔<ref>بہشتی، قہرمان علقمہ، ۱۳۷۴ش، ص۴۳؛ المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲.</ref> جہاں [[جابر بن عبداللہ انصاری|جابر انصاری]] آپ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:
*«ابوالقاسم»: آپ کے ایک بیٹے کا نام قاسم تھا اور اسی وجہ سے آپ کو ابو القاسم کہا گیا آپ کی یہ کنیت [[زیارت اربعین]] میں بھی ذکر ہوئی ہے۔<ref>بہشتی، قہرمان علقمہ، ۱۳۷۴ش، ص۴۳؛ المظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۲، ص۱۲.</ref> جہاں [[جابر بن عبداللہ انصاری|جابر انصاری]] آپ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:
: <font color = blue>{{حدیث|اَلسَّلامُ عَلَيْكَ  يا أبَا الْقاسِمِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ  يا عَبّاس بنَ عَلِيٍ}}</font color = green> (ترجمہ: سلام ہو آپ پر اے قاسم کے باپ سلام ہو آپ پر اے عباس فرزند [[امام علی علیہ السلام|علیؑ]]۔<ref> مجلسی، بحارالانوار، ج 101، ص 330 </ref>
: <font color = blue>{{حدیث|اَلسَّلامُ عَلَيْكَ  يا أبَا الْقاسِمِ، اَلسَّلامُ عَلَيْكَ  يا عَبّاس بنَ عَلِيٍ}}</font color = green> (ترجمہ: سلام ہو آپ پر اے قاسم کے باپ سلام ہو آپ پر اے عباس فرزند [[امام علی علیہ السلام|علیؑ]]۔<ref> مجلسی، بحارالانوار، ج 101، ص 330 </ref>
سطر 77: سطر 77:
کربلا کے واقعے میں شرکت حضرت عباس کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہے اور اسی وجہ سے شیعوں کے ہاں آپ بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ عباس کو [[قیام امام حسینؑ]] کی اہم شخصیات میں سے شمار کیا ہے۔<ref>شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۴.</ref>اس کے باوجود بہت ساری کتابوں میں حضرت عباس کے بارے میں الگ سے لکھا گیا ہے۔ امام حسینؑ کی [[مدینہ]] سے [[مکہ]] اور مکہ سے [[کوفہ]] تک کے سفر اور محرم 61ھ سے پہلے تک حضرت عباس کے بارے میں کوئی تاریخی رپورٹ یا روایت میں کچھ نہیں ملتا ہے۔<ref>بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ دیکھیں: مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابن‌جوزی‌، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ اخطب خوارزم، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴ و ۵</ref>  
کربلا کے واقعے میں شرکت حضرت عباس کی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہے اور اسی وجہ سے شیعوں کے ہاں آپ بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ عباس کو [[قیام امام حسینؑ]] کی اہم شخصیات میں سے شمار کیا ہے۔<ref>شریف قرشی، زندگانی حضرت عباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۴.</ref>اس کے باوجود بہت ساری کتابوں میں حضرت عباس کے بارے میں الگ سے لکھا گیا ہے۔ امام حسینؑ کی [[مدینہ]] سے [[مکہ]] اور مکہ سے [[کوفہ]] تک کے سفر اور محرم 61ھ سے پہلے تک حضرت عباس کے بارے میں کوئی تاریخی رپورٹ یا روایت میں کچھ نہیں ملتا ہے۔<ref>بغدادی،‌ العباس، ۱۴۳۳ق، ۷۳-۷۵؛ دیکھیں: مظفر، موسوعہ بطل العلقمی، ۱۴۲۹ق، ج۱و۲ و۳؛ الموسوي المُقرّم، العبّاس (عليہ السلام)، ۱۴۲۷ق؛ حائری مازندرانی، معالی السبطین، ۱۴۱۲ق؛ خراسانی قاینی بیرجندی، کبریت الاحمر، ۱۳۸۶ق؛ طعمہ، تاريخ مرقد الحسين و العباس، ١۴١۶ق؛ ابن‌جوزی‌، تذكرۃ الخواص، ۱۴۱۸ق؛ الاوردبادی، موسوعہ العلامہ الاوردبادی، ۱۴۳۶ق؛ شریف قرشی، زندگانی حضرت ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش؛ اخطب خوارزم، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۴ و ۵</ref>  
===مکہ میں خطبہ دینا===
===مکہ میں خطبہ دینا===
چند سال پہلے چھپنے والی کتاب '''خطیب کعبہ'''  کے مصنف نے حضرت عباس سے ایک خطبے کی نسبت دی ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>وہ اس خطبے کو '''مناقب سادۃ ‎الکرام''' نامی کتاب کی ایک یادداشت کی طرف استناد دیتا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>اس گزارش کے مطابق حضرت عباس نے آٹھویں (8ویں)ذی الحجہ کو [[کعبہ]] کی چھت پر ایک خطبہ دیا جس میں [[امام حسینؑ]] کے مقام و عظمت بیان کرتے ہوئے [[یزید]] کو ایک شرابخوار شخص بیان کیا اور  اس کی [[بیعت]] کرنے پر لوگوں کی مذمت کی۔ آپ نے اس خطبے میں تاکید کی کہ جبتک وہ زندہ ہیں کسی کو امام حسینؑ شہید کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور امام حسینؑ کو شہید کرنے کا تنہا راستہ پہلے انہیں قتل کرنا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶-۴۸.</ref> یہ خطبہ تاریخ و حدیث کے مصادر اولیہ میں نہیں پایا گیا۔ نیز جویا جہان‌ بخش نے اس خطبے کا ادبی اعتبار سے نقد کیا اور اس کتاب (مناقب سادۃ الکرام) کے مصنف اور اصل کتاب کو مجہول الحال قرار دبتے ہوئے تصریح کی ہے کہ یہ ماجرا دوسری کتابوں میں نہیں ملتا ہے۔<ref>جہان‌بخش، «گنجى نويافتہ يا وہمى بربافتہ؟»، ص۲۸-۵۶.</ref>
چند سال پہلے چھپنے والی کتاب '''خطیب کعبہ'''  کے مصنف نے حضرت عباس سے ایک خطبے کی نسبت دی ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>وہ اس خطبے کو '''مناقب سادۃ ‎الکرام''' نامی کتاب کی ایک یادداشت کی طرف استناد دیتا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶.</ref>اس گزارش کے مطابق حضرت عباس نے آٹھویں (8ویں)ذی الحجہ کو [[کعبہ]] کی چھت پر ایک خطبہ دیا جس میں [[امام حسینؑ]] کے مقام و عظمت بیان کرتے ہوئے [[یزید]] کو ایک شرابخوار شخص بیان کیا اور  اس کی [[بیعت]] کرنے پر لوگوں کی مذمت کی۔ آپ نے اس خطبے میں تاکید کی کہ جبتک وہ زندہ ہیں کسی کو امام حسینؑ شہید کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور امام حسینؑ کو شہید کرنے کا تنہا راستہ پہلے انھیں قتل کرنا ہے۔<ref>یونسیان، خطیب کعبہ، ۱۳۸۶ش، ص۴۶-۴۸.</ref> یہ خطبہ تاریخ و حدیث کے مصادر اولیہ میں نہیں پایا گیا۔ نیز جویا جہان‌ بخش نے اس خطبے کا ادبی اعتبار سے نقد کیا اور اس کتاب (مناقب سادۃ الکرام) کے مصنف اور اصل کتاب کو مجہول الحال قرار دبتے ہوئے تصریح کی ہے کہ یہ ماجرا دوسری کتابوں میں نہیں ملتا ہے۔<ref>جہان‌بخش، «گنجى نويافتہ يا وہمى بربافتہ؟»، ص۲۸-۵۶.</ref>


=== سقائے دشت کربلا ===
=== سقائے دشت کربلا ===
سطر 83: سطر 83:


===امان نامے کو ٹھکرانا===
===امان نامے کو ٹھکرانا===
تاریخی گزارشات کے مطابق [[کربلا]] میں حضرت عباسؑ اور ان کے بھائیوں کے لیے دو آدمیوں نے امان نامہ بھیجا لیکن جناب عباس اور ان کے بھائیوں نے انہیں ٹھکرادیا:
تاریخی گزارشات کے مطابق [[کربلا]] میں حضرت عباسؑ اور ان کے بھائیوں کے لیے دو آدمیوں نے امان نامہ بھیجا لیکن جناب عباس اور ان کے بھائیوں نے انھیں ٹھکرادیا:
:پہلا امان نامہ عبداللہ بن ابی المحل بن حزام عامری لے آیا۔ وہ حضرت عباسؑ کی والدہ [[ام البنین]] کا بھتیجا تھا۔ وہ عبیداللہ بن زیاد سے اپنی پھوپھی زاد بھائیوں کے لیے امان نامہ لینے میں کامیاب ہوا اور اسے اپنے غلام کے ہاتھوں ان کے پاس  بھیجا۔ جب عباس اور ان کے بھائیوں نے اس امان نامے کو پڑھا تو کہا کہ ہم [[اللہ]] کی امان میں ہیں اور ایسے کسی ذلت آمیز امان نامے کے محتاج نہیں۔<ref>الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۸-۳۴۹؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۹۳.  </ref>
:پہلا امان نامہ عبداللہ بن ابی المحل بن حزام عامری لے آیا۔ وہ حضرت عباسؑ کی والدہ [[ام البنین]] کا بھتیجا تھا۔ وہ عبیداللہ بن زیاد سے اپنی پھوپھی زاد بھائیوں کے لیے امان نامہ لینے میں کامیاب ہوا اور اسے اپنے غلام کے ہاتھوں ان کے پاس  بھیجا۔ جب عباس اور ان کے بھائیوں نے اس امان نامے کو پڑھا تو کہا کہ ہم [[اللہ]] کی امان میں ہیں اور ایسے کسی ذلت آمیز امان نامے کے محتاج نہیں۔<ref>الخوارزمی، مقتل الحسین، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۳۴۸-۳۴۹؛ ابن اعثم الکوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۵، ص۹۳.  </ref>


سطر 123: سطر 123:
بہشت میں حضرت عباس کے مقام کے بارے میں احادیث میں تاکید ہوئی ہے اور [[امام سجاد علیہ السلام|امام سجادؑ]] نے جب حضرت عباس کے بیٹے [[عبیداللہ بن عباس بن علی|عبیداللہ]] کو دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسوں جارے ہوئے اور فرمایا"بےشک خدا کی بارگاہ میں عباسؑ کو وہ مرتبت و منزلت ملی ہے کہ تمام شہداء روز قیامت آپ کا مقام دیکھ کر رشک و غبطہ کرتے ہیں [اور اس مقام کے حصول کی آرزو کرتے ہیں]۔<ref>شیخ صدوق، خصال، ۱۴۱۰ق، ص۶۸</ref>بعض نے نقل کیا ہے کہ واقعہ عاشورا کے بعد [[بنی اسد]] نے [[امام سجاد علیہ السلام|امام سجادؑ]] کے ساتھ [[شہدائے کربلا]] کی تمام لاشوں کو دفنایا لیکن صرف امام حسینؑ اور حضرت عباسؑ کی لاشوں کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ ان دو شہیدوں کو دفن کرنے کے لیے میری کچھ اور لوگ مدد کرینگے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہے۔<ref> بہشتی، قہرمان علقمہ، ۱۳۷۴ش، ص۶۵.</ref>
بہشت میں حضرت عباس کے مقام کے بارے میں احادیث میں تاکید ہوئی ہے اور [[امام سجاد علیہ السلام|امام سجادؑ]] نے جب حضرت عباس کے بیٹے [[عبیداللہ بن عباس بن علی|عبیداللہ]] کو دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسوں جارے ہوئے اور فرمایا"بےشک خدا کی بارگاہ میں عباسؑ کو وہ مرتبت و منزلت ملی ہے کہ تمام شہداء روز قیامت آپ کا مقام دیکھ کر رشک و غبطہ کرتے ہیں [اور اس مقام کے حصول کی آرزو کرتے ہیں]۔<ref>شیخ صدوق، خصال، ۱۴۱۰ق، ص۶۸</ref>بعض نے نقل کیا ہے کہ واقعہ عاشورا کے بعد [[بنی اسد]] نے [[امام سجاد علیہ السلام|امام سجادؑ]] کے ساتھ [[شہدائے کربلا]] کی تمام لاشوں کو دفنایا لیکن صرف امام حسینؑ اور حضرت عباسؑ کی لاشوں کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ ان دو شہیدوں کو دفن کرنے کے لیے میری کچھ اور لوگ مدد کرینگے تمہاری مدد کی ضرورت نہیں ہے۔<ref> بہشتی، قہرمان علقمہ، ۱۳۷۴ش، ص۶۵.</ref>


[[امام صادق علیہ السلام|امام صادقؑ]] سے منقول ہے کہ ہمارے چچا عباس بصیرت شعار، دوراندیش، مضبوط ایمان کا حامل، جانباز اور ایثار کی حد تک امام حسینؑ کی رکاب میں [[جہاد]] کرنے والا۔ اور یہ بھی نقل ہوا ہے کہ ہمارے چچا عباس، دور اندیش، مضبوط ایمان کے حامل تھے اور امام حسینؑ کی رکاب میں جہاد کیا اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔<ref>کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۹. ابن عنبہ، عمدہ الطالب ۱۳۸۱ق، ص ۳۵۶.</ref>آپ سے ایک اور روایت میں یوں نقل ہوا ہے کہ اللہ رحمت کرے میرے چچا عباس بن علیؑ پر، جنہوں نے ایثار اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا اور اپنی جان اپنے بھائی (امام حسینؑ) پر قربان کردی حتی کہ دشمنوں نے ان کے دونوں ہاتھ قلم کردیئے چناچہ خداوند متعال نے ہاتھوں کے بدلے انہیں دو شہ پر عطا کئے جن کے ذریعے وہ [[جنت]] میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں۔<ref>شیخ صدوق، خصال، ۱۴۱۰ق، ص۶۸. کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۹. </ref>
[[امام صادق علیہ السلام|امام صادقؑ]] سے منقول ہے کہ ہمارے چچا عباس بصیرت شعار، دوراندیش، مضبوط ایمان کا حامل، جانباز اور ایثار کی حد تک امام حسینؑ کی رکاب میں [[جہاد]] کرنے والا۔ اور یہ بھی نقل ہوا ہے کہ ہمارے چچا عباس، دور اندیش، مضبوط ایمان کے حامل تھے اور امام حسینؑ کی رکاب میں جہاد کیا اور شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔<ref>کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۹. ابن عنبہ، عمدہ الطالب ۱۳۸۱ق، ص ۳۵۶.</ref>آپ سے ایک اور روایت میں یوں نقل ہوا ہے کہ اللہ رحمت کرے میرے چچا عباس بن علیؑ پر، جنہوں نے ایثار اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا اور اپنی جان اپنے بھائی (امام حسینؑ) پر قربان کردی حتی کہ دشمنوں نے ان کے دونوں ہاتھ قلم کردیئے چناچہ خداوند متعال نے ہاتھوں کے بدلے انھیں دو شہ پر عطا کئے جن کے ذریعے وہ [[جنت]] میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کرتے ہیں۔<ref>شیخ صدوق، خصال، ۱۴۱۰ق، ص۶۸. کلباسی، خصائص العباسیہ، ۱۳۸۷ش، ص۱۰۹. </ref>


بعض کا کہنا ہے کہ [[زیارت ناحیہ مقدسہ]] میں آپ کے بارے میں جو کلمات موجود ہیں وہ [[امام زمانہ]] کی نظر میں آپ کی عظمت کو بیان کرتی ہیں۔<ref>دیکھیں: خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۳- ۱۲۶.</ref>
بعض کا کہنا ہے کہ [[زیارت ناحیہ مقدسہ]] میں آپ کے بارے میں جو کلمات موجود ہیں وہ [[امام زمانہ]] کی نظر میں آپ کی عظمت کو بیان کرتی ہیں۔<ref>دیکھیں: خرمیان، ابوالفضل العباس، ۱۳۸۶ش، ص۱۲۳- ۱۲۶.</ref>
سطر 133: سطر 133:


=== کرامات===
=== کرامات===
حضرت عباسؑ کی بہت ساری کرامات [[شیعوں]] کے ہاں مشہور ہیں اور آپ سے متوسل ہوکر بیماروں کی شفایابی اور  دیگر مشکلات حل ہونے کے بارے میں متعدد واقعات لوگوں کے درمیان مشہور ہیں۔ "در کنار علقمہ کرامات العباسیہ" نامی کتاب میں آپ کی کرامات کے بارے میں 72 قصے جمع کیا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: محمودی، در کنار علقمہ، ۱۳۷۹ش</ref> ربانی خلخالی نے بھی کتاب «چہرہ درخشان قمر بنی‌ہاشم» میں حضرت عباسؑ کی تقریبا 800 [[کرامت]] جمع کیا ہے۔ انہوں نے کتاب کی ہر جلد میں 250 واقعات نقل کی ہے۔ (البتہ ان میں سے بعض واقعات مکرر نقل ہوئی ہیں۔) ان واقعات کے درمیان بعض واقعات شیعوں کے علاوہ دیگر ادیان اور مذاہب کے لوگوں جیسے [[اہل سنت]]، مسیحی، کلیمی اور زرتشتیوں کے بارے میں بھی نقل ہوئی ہیں<ref>مراجعہ کریں: ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی‌ہاشم، ۱۳۸۰ش.</ref>ان کرامات میں سے بعض کرامات مختلف لوگوں کا آپ سے متوسل ہونے اور برجستہ علماء کرام کا متوسل ہونے کے بارے میں ذکر ہوئی ہیں۔<ref>مراجعہ کریں: ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی‌ہاشم، ۱۳۸۰ش.</ref>
حضرت عباسؑ کی بہت ساری کرامات [[شیعوں]] کے ہاں مشہور ہیں اور آپ سے متوسل ہوکر بیماروں کی شفایابی اور  دیگر مشکلات حل ہونے کے بارے میں متعدد واقعات لوگوں کے درمیان مشہور ہیں۔ "در کنار علقمہ کرامات العباسیہ" نامی کتاب میں آپ کی کرامات کے بارے میں 72 قصے جمع کیا ہے۔<ref>مراجعہ کریں: محمودی، در کنار علقمہ، ۱۳۷۹ش</ref> ربانی خلخالی نے بھی کتاب «چہرہ درخشان قمر بنی‌ہاشم» میں حضرت عباسؑ کی تقریبا 800 [[کرامات]] جمع کیا ہے۔ انھوں نے کتاب کی ہر جلد میں 250 واقعات نقل کی ہے۔ (البتہ ان میں سے بعض واقعات مکرر نقل ہوئی ہیں۔) ان واقعات کے درمیان بعض واقعات شیعوں کے علاوہ دیگر ادیان اور مذاہب کے لوگوں جیسے [[اہل سنت]]، مسیحی، کلیمی اور زرتشتیوں کے بارے میں بھی نقل ہوئی ہیں<ref>مراجعہ کریں: ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی‌ہاشم، ۱۳۸۰ش.</ref>ان کرامات میں سے بعض کرامات مختلف لوگوں کا آپ سے متوسل ہونے اور برجستہ علماء کرام کا متوسل ہونے کے بارے میں ذکر ہوئی ہیں۔<ref>مراجعہ کریں: ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی‌ہاشم، ۱۳۸۰ش.</ref>


==شیعہ ثقافت اور عباسؑ==
==شیعہ ثقافت اور عباسؑ==
سطر 175: سطر 175:
*[[سقاخانہ]]: بعض علاقوں میں شیعوں کی مخصوص نشانیوں میں سے ایک ہے جو شارع عام پر لوگوں کو پانی پلانے اور ثواب کے حصول کے لیے بناتے ہیں۔ شیعہ ثقافت میں سقاخانہ حضرت عباسؑ کا واقعہ کربلا میں پانی پلانے کی یاد میں بنایا جاتا ہے اور [[امام حسین(ع)]] و حضرت عباس کے نام سے مزین ہوتا ہے۔ بعض لوگ حاجات پوری ہونے کے لیے وہاں پر شمع بھی جلاتے ہیں یا دھاگہ باندھتے ہیں۔ <ref>اطیابی، «سقاخانہ‌ہای اصفہان»، ص۵۵-۵۹.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ دنیا کی مختلف جگہوں پر سقاخانے بنے ہیں جو حضرت عباس کی یادگار ہیں۔ <ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۴۰-۲۴۱‍.</ref>
*[[سقاخانہ]]: بعض علاقوں میں شیعوں کی مخصوص نشانیوں میں سے ایک ہے جو شارع عام پر لوگوں کو پانی پلانے اور ثواب کے حصول کے لیے بناتے ہیں۔ شیعہ ثقافت میں سقاخانہ حضرت عباسؑ کا واقعہ کربلا میں پانی پلانے کی یاد میں بنایا جاتا ہے اور [[امام حسین(ع)]] و حضرت عباس کے نام سے مزین ہوتا ہے۔ بعض لوگ حاجات پوری ہونے کے لیے وہاں پر شمع بھی جلاتے ہیں یا دھاگہ باندھتے ہیں۔ <ref>اطیابی، «سقاخانہ‌ہای اصفہان»، ص۵۵-۵۹.</ref> بعض کا کہنا ہے کہ دنیا کی مختلف جگہوں پر سقاخانے بنے ہیں جو حضرت عباس کی یادگار ہیں۔ <ref>ربانی خلخالی، چہرہ درخشان قمر بنی ہاشم، ۱۳۸۶ش، ج۲، ص۲۴۰-۲۴۱‍.</ref>


*[[سقانفار|سَقَّانِفار]]: یا ساقی‌نِفار یا سقّاتالار اس مکان کا نام ہے جو ایران کا صوبہ [[مازندران]] میں مذہبی عزاداری منعقد کرنے اور نذر ادا کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور عام طور پر یہ مکان کسی مذہبی مکان جیسے [[مسجد]]، [[امام بارگاہ]] اور [[حسینیہ]] کے ساتھ میں بنایا جاتا ہے۔سقانفار‌ حضرت عباسؑ  سے منسوب ہیں اور بعض لوگ انہیں «ابوالفضلی» بھی کہتے ہیں۔<ref>حسام مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۲۸۰.</ref>
*[[سقانفار|سَقَّانِفار]]: یا ساقی‌نِفار یا سقّاتالار اس مکان کا نام ہے جو ایران کا صوبہ [[مازندران]] میں مذہبی عزاداری منعقد کرنے اور نذر ادا کرنے کے لیے بنائے جاتے ہیں اور عام طور پر یہ مکان کسی مذہبی مکان جیسے [[مسجد]]، [[امام بارگاہ]] اور [[حسینیہ]] کے ساتھ میں بنایا جاتا ہے۔سقانفار‌ حضرت عباسؑ  سے منسوب ہیں اور بعض لوگ انھیں «ابوالفضلی» بھی کہتے ہیں۔<ref>حسام مظاہری، فرہنگ سوگ شیعی، ۱۳۹۵ش، ص۲۸۰.</ref>


==آپ سے منسوب تصویر==
==آپ سے منسوب تصویر==
گمنام صارف