|
|
سطر 139: |
سطر 139: |
|
| |
|
| یقینا [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسن مجتبیؑ]] کے حضور حضرت عباسؑ کے فعال کردار کا بہترین گواہ [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادقؑ]] کا قول ہے؛ امام نے حضرت عباسؑ کے زيارتنامے میں فرمایا: [سلام ہو آپ پر اے اللہ کے صالح بندے اور اس کے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]، [[امام علی علیہ السلام|امیر المؤمنین]]، [[امام حسن علیہ السلام|حسن]] اور [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] ـ صلی اللہ علیہم _ کے مطیع و فرمانبردار۔<ref> کامل الزیارات، ص786 </ref> | | یقینا [[امام حسن مجتبی علیہ السلام|امام حسن مجتبیؑ]] کے حضور حضرت عباسؑ کے فعال کردار کا بہترین گواہ [[امام جعفر صادق علیہ السلام|امام صادقؑ]] کا قول ہے؛ امام نے حضرت عباسؑ کے زيارتنامے میں فرمایا: [سلام ہو آپ پر اے اللہ کے صالح بندے اور اس کے [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول]]، [[امام علی علیہ السلام|امیر المؤمنین]]، [[امام حسن علیہ السلام|حسن]] اور [[امام حسین علیہ السلام|حسین]] ـ صلی اللہ علیہم _ کے مطیع و فرمانبردار۔<ref> کامل الزیارات، ص786 </ref> |
|
| |
| == حضرت عباس اور عاشورا ==
| |
| === پیغام رسانی ===
| |
| [[تاسوعا|نویں محرم]] کے دن یا اسی دن رات کے وقت جب [[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] لشکر اشقیاء کے سامنے کھڑے ہوکر آواز دی: اے خدا کے فوجیو!! اپنی سواریوں پر بیٹھ جاؤ اور جنت کی بشارت وصول کرو! ۔<ref>[[عمر بن سعد بن ابی وقاص|عمر بن سعد]] کی دنیا پرستی کا قصہ متواتر ہے چنانچہ وہ رے اور ہمدان کی حکومت پانے کے لئے کربلا آیا تھا اور اس کے اس اقدام کے کوئی دینی اور مذہبی محرکات نہ تھے۔ چنانچہ وہ نہ اپنے آپ کو اور نہ ہی اپنے لشکر کو اللہ کا لشکر نہیں سمجھتا تھا لیکن اموی روایت کی پیروی کرتے ہوئے اس نے اپنی سپاہ کو جنت کی بشارت دی جبکہ اس کو اپنے اور اپنی سپاہ کے انجام بخیر نہ ہونے کا یقین تھا۔ روایت ہے کہ جب ابن زياد نے اس کو امام حسینؑ کے قتل کا حکم دیا تو اس نے ابتداء میں انکار کیا لیکن جب ابن زياد نے دھمکی دی کہ اسے رے اور ہمدان کی حکومت نہ ملے گی [یا بروایتے اگر اطاعت کرے تو اسے رے و ہمدان کی حکومت ملے گی] تو اس نے سرتسلیم خم کیا کاتب رجوع کریں: واقدی، محمد بن سعد بن منیع، الطبقات الکبری، ج 5، ص 128، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، چاپ دوم، 1418ہجری۔</ref> تو [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے حضرت عباسؑ کو ہدایت کی کہ جاکر دشمن کے حملے کو کل ([[روز عاشورا|عاشورا]]) تک مؤخر کروائیں چنانچہ آپ دشمن کی لشکرگاہ میں جاکر ایک رات مہلت لینے میں کامیاب ہوئے اور جنگ مؤخر ہوئی؛<ref> الإرشاد، ص335/ مناقب آل ابی طالب، ج4، ص98/ بحارالأنوار، ج44، ص391/طبرسی، اعلام الوری، ج1ص454و455/ تاریخ الطبری، ج5، ص416/ اعیان الشیعۃ، ج7، ص430/ سید عبدالرزاق مقرم لکھتے ہیں: [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] نے حضرت ابوالفضلؑ سے کہا: اس قوم سے کہہ دو کہ [[شب عاشورا]] مجھے مہلت دے کیونکہ خدا جانتا ہے کہ '''"إني أُحِبُّ الصلوۃ لہ"''' یعنی میں اس کی بارگاہ میں نماز کو دوست رکھتا ہوں؛ اور [[امام حسین علیہ السلام|امام حسینؑ]] اور اصحاب و انصار نیز حرم کی خواتین نے وہ رات اللہ کی عبادت میں گذاری۔ رجوع کریں: سید عبدالرزاق مقرم موسوی، مقتل الحسينؑ، ص256۔</ref>
| |
|
| |
| === خیام کی حفاظت ===
| |
| [[شب عاشورا]] حضرت عباسؑ نے خیام کی پہرہ داری کی ذمہ داری سنبھال لی اور طلوع فجر تک حرم رسول اللہ(ص) کی حفاطت کی۔ درست ہے کہ آپ نے اس رات کو دشمن سے مہلت لی تھی لیکن دشمن کچھ زیادہ قابل اعتماد نہ تھا چنانچہ احتیاط کرتے ہوئے خیام کے اطراف میں نگہبانی میں مصروف تھے۔ اس وقت [[زہیر بن قین|زہیر]] آپ کے پاس چلے آئے<ref> بحرالعلوم، مقتل الحسینؑ، ص314/ معالی السبطین، ج1، ص443۔ </ref> اور کہا: کیا آپ کو ایک ایسا قصہ نہ سناؤں جو میں نے خود سنا ہے؟ عباسؑ نے کہا: کیوں نہيں! اور پھر [[زہیر بن قین|زہیر]] نے [[ام البنین]] سے [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] کی شادی کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا: [[امام علی علیہ السلام|امیرالمؤمنینؑ]] نے آپ کو اسی دن کے لئے مانگا تھا لہذا اپنے بھائی کی نصرت میں کوتاہی نہ کرنا۔ حضرت عباسؑ غضبناک ہوئے اور فرمایا: اے زہیر! کیا تم ان باتوں کے ذریعے مجھے ترغیب دلا رہے ہو اور میرا حوصلہ بڑھانا چاہتے ہو؟ خدا کی قسم! موت کے لمحے تک [[امام حسین علیہ السلام|بھائی]] کی نصرت و حمایت سے دستبردار نہيں ہونگا اور آپؑ کی امداد و حمایت میں کوئی کوتاہی نہیں کرونگا۔ کل ([[روز عاشورا]]) میں اس مدعا کو اس طرح سے ثابت کرکے دکھاؤں گا کہ اس سے قبل تم نے اس کی مثال نہ دیکھی ہوگی۔ <ref> مقتل الحسینؑ بحرالعلوم، ص314/ کبریت الأحمر، ص386/ بطل العلقمی، ج1، ص97 </ref>
| |
|
| |
| === فوج کی سپہ سالاری ===
| |
| صبح [[یوم عاشورا|عاشورا]] جب [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نماز فجر ادا کرچکے تو دشمن کے لشکر نے جنگی صورت اختیار کرتے ہوئے اعلان جنگ کیا تو [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے بھی اپنے افراد کو دفاع کے لئے تیار کیا۔ [تاریخ کا] یہ [بےمثل] لشکر 32 سواروں اور چالیس پیادوں پر مشتمل تھا۔
| |
|
| |
| [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے اپنے لشکر اسلام کا میمنہ (دایاں بازو) [[زہیر بن قین]] کے سپرد کیا اور میسرہ کی قیادت [[حبیب بن مظاہر]] کو سونپ دی اور حضرت عباسؑ کو قلب لشکر میں علم دے کر فوج کا سپہ سالار قرار دیا۔<ref> شیخ مفید، الارشاد، ص338/بحارالأنوار، ج 45، ص4/ تذکرۃالخواص، ج2ص161 / طبرسی، اعلام الوری، ج1، ص457/الأخبارالطوّال، ص25 </ref>
| |
|
| |
| === دشمن کا گھیرا توڑ ڈالنا ===
| |
| جنگ کی ابتداء میں ہی سپاہ حسینی کے چار افراد "[[عمرو بن خالد صیداوی]]"، "[[جابر بن حارث سلمانی]]"، "[[مجمع بن عبداللہ عائذی]]" اور"[[عمر بن خالد کے غلام "سعد"]]" نے مل کر لشکر [[یزید]] کے قلب پر حملہ کیا۔ دشمن نے انہیں گھیرے میں لینے کا منصوبہ بنایا اور [[امام حسین علیہ السلام|حسینؑ]] کے یہ چاروں اصحاب دشمن کے محاصرے میں آگئے چنانچہ عباسؑ نے انہیں خطرے میں پاکر تنہا، دشمن کی صفوں پر حملہ کیا اور محاصرہ توڑ کر ان افراد کو دشمن کے نرغے سے باہر نکالا۔<ref> تاریخ الطبری، ج5، ص446/ الکامل فی التاریخ، ج3، ص293/ اعیان الشیعۃ، ج7، ص430/ معالی السبطین، ج1، ص443 </ref>
| |
|
| |
| === پانی کے حصول کے لئے کنواں کھودنا ===
| |
| دن کے وسط میں جب بچوں، خواتین اور حتی کہ سپاہیوں پر پیاس کا دباؤ شدت اختیار کرگیا، [[امام حسین علیہ السلام|امامؑ]] نے بھائی عباسؑ کو کنواں کھودنے کی ہدایت کی؛ کیونکہ سرزمین [[کربلا]] پانی سے بھرے ہوئے دریا کے کنارے واقع تھی اور کنوا کھود کر پانی تک پہنچنے کا امکان پایا جاتا تھا۔ حضرت عباسؑ کنواں کھودنے میں مصروف ہوئے لیکن کچھ دیر بعد پانی تک پہنچنے سے مایوس ہوکر باہر آئے اور دوسرا کنواں کھودنا شروع کیا مگر نئے کنویں سے بھی پانی نہ مل سکا۔<ref> ینابیع المودۃ، ج2، ص340/ مقتل ابی مخنف، ص57/ بطل العلقمی، ج2، ص357۔</ref>
| |
|
| |
|
| |
|
| |
|
| |
|
| |
| === بھائیوں کو جنگ کے لئے روانہ کرنا ===
| |
| ابوالفضل عباسؑ نے ہاشمی اور غیر ہاشمی شہیدوں کے بےجان جسموں کو دیکھا تو اپنے بھائیوں ('''"[[عثمان بن علی بن ابی طالب|عثمان]]، [[جعفر بن علی بن ابی طالب|جعفر]] اور [[عبد اللہ بن علی بن ابی طالب|عبداللہ]]"''') کو بلایا اور فرمایا: "اے بھائیو! قدم بڑھاؤ تا کہ خدا اور [[حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ|رسول خدا]](ص) کی راہ میں تمہاری جانفشانی کا مشاہدہ کروں چنانچہ انھوں نے میدان میں جاکر دلیری کے ساتھ لڑ کر جام شہادت نوش کیا۔<ref> بحارالأنوار، ج45، ص38/ مقاتل الطالبیین، ص54/ اعلام الوری، ج1، ص466/ الإرشاد، ص 348۔ نیز رجوع کریں: [[http://www۔abna۔co/data۔asp?lang=6&Id=480537|حضرت ابوالفضل العباس کا مقتل امام خامنہ ای کے زبانی]]۔</ref>
| |
|
| |
| === شجاعت اور جوانمردی کا مظاہرہ ===
| |
| میدان جنگ میں آپ کو تین افراد کا سامنا کرنا پڑا؛ پہلے شخص کا نام "مارد بن صُدَیف" تھا جس نے نیزے سے آپ پر حملہ کیا۔ عباسؑ نے اس کے نیزہ کی انّی پکڑ لی اور نیزہ اس کے ہاتھ میں گھما کر اس سے چھین لیا اور اسی نیزے سے اس کو ہلاک کر ڈالا۔ <ref> کبریت الأحمر، ص387۔ </ref>
| |
|
| |
| دوسرا شخص "صَفوان بن ابطح" تھا جو پتھر اور نیزہ پھینکنے کا ماہر تھا۔ وہ چند لمحے لڑنے کے بعد زخمی ہوا تاہم حضرت عباسؑ نے اس کو اپنے حال پر چھوڑ کر اس کو نئی زندگی دی۔
| |
|
| |
| تیسرا شخص "عبد اللہ بن عقبہ غنوی" تھا۔ آپ اس کے باپ کو جانتے تھے اور اس کو نہیں مارنا چاہتے تھے چنانچہ فرمایا: لگتا ہے کہ تمہیں معلوم نہ تھا کہ جنگ میں تیرا مجھ سے واسطہ پڑ سکتا ہے؛ میرے [[امام علی علیہ السلام|والد]] کے تمہارے باپ پر احسانات ہیں، ان ہی احسانات کے واسطے مجھ سے لڑنے سے پرہیز کرو مگر وہ نہ مانا اور جب جنگ شروع ہوئی تو اس کو اپنی موت نظر آنے لگی چنانچہ اس نے میدان چھوڑ کر بھاگ نکلنے میں عافیت سمجھی اور شکست کھا کر رسوا کن انداز سے فرار ہوگیا۔ <ref>کبریت الأحمر، ص387۔</ref> بھاگتے ہوئے دشمن کا تعاقب ویسے بھی مکتب [[امام علی علیہ السلام|علیؑ]] میں عار سمجھا جاتا تھا۔
| |
|
| |
|
| === زیارت نامے=== | | === زیارت نامے=== |