گمنام صارف
"عصمت" کے نسخوں کے درمیان فرق
←انبیاء کی عصمت پر دلیل
imported>Noorkhan (←مآخذ) |
imported>Jaravi |
||
سطر 61: | سطر 61: | ||
* '''وحی کی دریافت اور ابلاغ میں عصمت''': اس مرتبے پر عقلی دلیل قائم کی جا سکتی ہے کیونکہ اگر اس حوالے سے کسی غلطی یا خطا اور اشتباہ کا احتمال موجود ہو تو انبیاء کے بھیجنے کا ہدف اور مقصد ختم ہو جاتا ہے جو کہ ایک محال چیز ہے۔<ref>مصباح یزدی، راه و راهنما شناسی، ص۱۵۳و۱۵۴</ref> اس حوالے سے قرآن کریم میں یوں ارشاد ہے: | * '''وحی کی دریافت اور ابلاغ میں عصمت''': اس مرتبے پر عقلی دلیل قائم کی جا سکتی ہے کیونکہ اگر اس حوالے سے کسی غلطی یا خطا اور اشتباہ کا احتمال موجود ہو تو انبیاء کے بھیجنے کا ہدف اور مقصد ختم ہو جاتا ہے جو کہ ایک محال چیز ہے۔<ref>مصباح یزدی، راه و راهنما شناسی، ص۱۵۳و۱۵۴</ref> اس حوالے سے قرآن کریم میں یوں ارشاد ہے: | ||
<font color=green>{{حدیث|وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَینَا بَعْضَ الْأَقَاوِیلِ* لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیمِینِ* ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِینَ}}</font> ترجمہ | <font color=green>{{حدیث|وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَینَا بَعْضَ الْأَقَاوِیلِ* لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْیمِینِ* ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِینَ}}</font> | ||
(ترجمہ :اور اگر یہ ہماری طرف کسی بات کی نسبت دیتا تو ہم اسکے سیدے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامتے پھر اسکے شہ رگ کو کاٹ دیتے)۔<ref>سوره=[[سورہ حاقہ|سوره حاقه]]|آیه=۴۴-۴۷</ref> | |||
* '''احکام شرعی پر عمل کرنے میں عصمت''': انبیاء کے اقوال اور گفتار پر اطمینان حاصل ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ خود یہ حضرات ان فرامین پر جنہیں وہ خدا کی طرف نسبت دیتے ہیں کس حد تک عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اگر اس حوالے سے انبیاء عصمت کا حامل نہ ہو تو حتی غلطی اور بھول چوک میں بھی کسی حکم پر عمل پیرا نہ ہو تو لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے جس سے ہدف حاصل نیہں ہوگا۔<ref>حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص۳۹۴</ref> | * '''احکام شرعی پر عمل کرنے میں عصمت''': انبیاء کے اقوال اور گفتار پر اطمینان حاصل ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ خود یہ حضرات ان فرامین پر جنہیں وہ خدا کی طرف نسبت دیتے ہیں کس حد تک عمل پیرا ہوتے ہیں۔ اگر اس حوالے سے انبیاء عصمت کا حامل نہ ہو تو حتی غلطی اور بھول چوک میں بھی کسی حکم پر عمل پیرا نہ ہو تو لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے جس سے ہدف حاصل نیہں ہوگا۔<ref>حلی، کشف المراد فی شرح تجرید الاعتقاد، ص۳۹۴</ref> |