مندرجات کا رخ کریں

"افعال کا حسن اور قبح" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Mabbassi
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{شیعہ عقائد}}
{{شیعہ عقائد}}
'''افعال کا حسن اور قبح''' [[علم کلام]] کی نہایت اہم ابحاث میں سے  سے ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ کچھ افعال ذاتی طور پر حسن رکھتے ہیں اور کچھ افعال ذاتی طور پر قبح رکھتے ہیں ۔ [[علم کلام]] کے ماہرین اس مقام پر دو طائفوں میں تقسیم ہوئے ہیں ۔[[معتزلہ]] اور [[امامیہ]] اس موضوع کو تسلیم کرتے ہیں جبکہ [[اشاعرہ]] اس کی نفی کرتے ہیں ۔[[علم کلام]] میں اس بحث کو نہایت اہمیت حاصل ہے کیونکہ [[علم کلام]] کے بہت سے دوسرے مسائل اس بحث پر متفرع ہیں مثلا انسان کا اپنے اعمال میں خود مختار ہونا،....، توحید کے باب میں سے اللہ کی بعض صفات کمالیہ کا ثبوت اس پر موقوف ہے جیسے خدا کا عادل ہونا،... ،اسی طرح بعض صفات سلبیہ کی خدا سے نفی کرنا اسی بحث پر موقوف ہے جیسے خدا سے قبیح کا سرزد ہونا،خدا سے ظلم کی نفی وغیرہ اس میں شامل ہیں ۔اسی طرح خیر اور شر کی ابحاث بھی اسی سے تعلق رکھتی ہیں۔جو گروہ اس بحث افعال کے حسن اور قبح کے قائل ہیں وہ انسانی افعال میں انسان کو مختار،خدا کو عادل مانتے ہیں جبکہ اس کے منکرین  انسان کو مجبور اور خدا کے عادل ہونے میں ایک طرح سے اس کی عدالت کے منکر مانے جاتے ہیں ۔انکار قبح اور حسن کی وجہ سے اشاعرہ کو بہت سے اعتراضات کا سامنا پڑتا ہے اور انہیں مجبرہ کہا جاتا ہے ۔
'''افعال کا حسن اور قبح''' [[علم کلام]] کی نہایت اہم ابحاث میں سے ہے ۔اس سے مراد یہ ہے کہ کچھ افعال ذاتی طور پر حسن رکھتے ہیں اور کچھ افعال ذاتی طور پر قبح رکھتے ہیں ۔ [[علم کلام]] کے ماہرین اس مقام پر دو طائفوں میں تقسیم ہوئے ہیں ۔[[معتزلہ]] اور [[امامیہ]] اس موضوع کو تسلیم کرتے ہیں جبکہ [[اشاعرہ]] اس کی نفی کرتے ہیں ۔[[علم کلام]] میں اس بحث کو نہایت اہمیت حاصل ہے کیونکہ [[علم کلام]] کے بہت سے دوسرے مسائل اس بحث پر متفرع ہیں مثلا انسان کا اپنے اعمال میں خود مختار ہونا،....، توحید کے باب میں سے اللہ کی بعض صفات کمالیہ کا ثبوت اس پر موقوف ہے جیسے خدا کا عادل ہونا،... ،اسی طرح بعض صفات سلبیہ کی خدا سے نفی کرنا اسی بحث پر موقوف ہے جیسے خدا سے قبیح کا سرزد ہونا،خدا سے ظلم کی نفی وغیرہ اس میں شامل ہیں ۔اسی طرح خیر اور شر کی ابحاث بھی اسی سے تعلق رکھتی ہیں۔جو گروہ اس بحث افعال کے حسن اور قبح کے قائل ہیں وہ انسانی افعال میں انسان کو مختار،خدا کو عادل مانتے ہیں جبکہ اس کے منکرین  انسان کو مجبور اور خدا کے عادل ہونے میں ایک طرح سے اس کی عدالت کے منکر مانے جاتے ہیں ۔انکار قبح اور حسن کی وجہ سے اشاعرہ کو بہت سے اعتراضات کا سامنا پڑتا ہے اور انہیں مجبرہ کہا جاتا ہے ۔
==تاریخچہ ==
==تاریخچہ ==
اس مسئلے کی قدمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حسن و قبح کا مسئلہ یونانی فلسفۂ اخلاق  میں موجود تھا کیونکہ وہ اخلاقی اقداروں کی بنیاد  حسن و قبح کو قرار دیتے تھے ۔<ref>محمد کاظم عماد زادہ،مقالہ بررسی تطبیقی حسن و قبح وثمرات آن در اندیشہ شیعہ ،معتزلہ ، اشاعرہ و ماتریدیہ۔</ref>۔اسی طرح اسلام سے بہت پہلے  ثنویہ، تناسخیہ و براہمہ حسن و قبح ذاتی کے  معتقد تھے<ref>شہرستانی، محمد، نہایہ الاقدام، ص۳۷۱</ref>۔ یہودی و زرتشتی شرعی  حسن و قبح کے قائل تھے<ref>ابن ندیم، الفہرست، ص۲۰۷</ref>۔
اس مسئلے کی قدمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حسن و قبح کا مسئلہ یونانی فلسفۂ اخلاق  میں موجود تھا کیونکہ وہ اخلاقی اقداروں کی بنیاد  حسن و قبح کو قرار دیتے تھے ۔<ref>محمد کاظم عماد زادہ،مقالہ بررسی تطبیقی حسن و قبح وثمرات آن در اندیشہ شیعہ ،معتزلہ ، اشاعرہ و ماتریدیہ۔</ref>۔اسی طرح اسلام سے بہت پہلے  ثنویہ، تناسخیہ و براہمہ حسن و قبح ذاتی کے  معتقد تھے<ref>شہرستانی، محمد، نہایہ الاقدام، ص۳۷۱</ref>۔ یہودی و زرتشتی شرعی  حسن و قبح کے قائل تھے<ref>ابن ندیم، الفہرست، ص۲۰۷</ref>۔
گمنام صارف