مندرجات کا رخ کریں

"افعال کا حسن اور قبح" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 4: سطر 4:
==محل بحث==
==محل بحث==
حسن اور قبح چند تین معانی  کیلئے استعمال ہوتا ہے ان میں سے ایک محل اختلاف ہے جبکہ دوسرے دو محل نزاع نہیں ہیں۔جن کی تفصیل درج ذیل ہے :
حسن اور قبح چند تین معانی  کیلئے استعمال ہوتا ہے ان میں سے ایک محل اختلاف ہے جبکہ دوسرے دو محل نزاع نہیں ہیں۔جن کی تفصیل درج ذیل ہے :
:'''پہلا معنی''' :حسن اور قبح سے کمال اور نقص مراد لئے جاتے ہیں اور حسن اور قبح افعال اختیاری کیلئے صفت بنتے ہیں ۔ جیسے کہا جاتا ہے العلم حسن و الجہل قبیح۔ یعنی علم حاصل کرنا نفس کیلئے کمال ہے اور جہل نفس کی نسبت نقص ہے ۔اس معنی کے لحاظ سے اکثر اخلاقی صفات حسن اور قبح رکھتی ہیں یعنی ان کا ہونا نفس کیلئے کمال اور نہ ہونا نقص ہوتا ہے ۔اس لحاظ سے ان صفات کا حسن یا نہ ہونا قبیح ہونا ایسامعنی ہے جس سے اشاعرہ بھی اختلاف نہیں رکھتے ہیں جیسا کہ ایجی نے مواقف میں کہا ہے ۔
:'''پہلا معنی''' :
:'''دوسرا معنی''':  
:حسن اور قبح سے کمال اور نقص مراد لئے جاتے ہیں اور حسن اور قبح افعال اختیاری کیلئے صفت بنتے ہیں ۔ جیسے کہا جاتا ہے العلم حسن و الجہل قبیح۔ یعنی علم حاصل کرنا نفس کیلئے کمال ہے اور جہل نفس کی نسبت نقص ہے ۔اس معنی کے لحاظ سے اکثر اخلاقی صفات حسن اور قبح رکھتی ہیں یعنی ان کا ہونا نفس کیلئے کمال اور نہ ہونا نقص ہوتا ہے ۔اس لحاظ سے ان صفات کا حسن یا نہ ہونا قبیح ہونا ایسامعنی ہے جس سے اشاعرہ بھی اختلاف نہیں رکھتے ہیں جیسا کہ ایجی نے مواقف میں کہا ہے ۔
:'''دوسرا معنی''':
:ملائمت نفس یا  منافرت نفس مراد لیتے ہیں جیسے کہا جاتا ہے ھذ المنظر حسن (یہ منظر خوبصورت ہے)ھذا المنظر قبیح یا افعال اختیاریہ میں کہتے ہیں: نوم القیلولۃ حسن (قیلولہ کی نیند کرنا اچھا ہے)الاکل عند الجوع حسن(بھوک کے وقت کھانا کھانا حسن یعنی اچھا ہے )۔ ان افعال میں حسن اور قبح کی بازگشت حقیقت میں مفس کی طرف لوٹتی ہے یعنی انسانی نفس کو اس سے لذت محسوس ہونے کی وجہ سے انسانی نفس اس کی طرف میلان رکھتا ہے یا انسانی نفس اس سے قبح کا احساس کرتا ہے اور اس سے دوری اختیاری کرتا ہے ۔یہ قسم پہلی قسم سے زیادہ وسیع تر ہے ۔ یہ قسم اشاعرہ اور عدلیہ کے درمیان محل نزاع نہیں ہے ۔
: '''تیسرا معنی''':
:حسن اور قبح سے مدح اور ذم مراد لیا جاتا ہے یعنی عقلا کے نزدیک اس فعل کو انجام دینے والا قابل مدح اور ستائش ہے لہذا وہ فعل حسن ہے یا اس فعل کو انجام دینے والا قال مذمت ہے لہذا وہ فعل قبیح ہے ۔دوسرے الفاظ میں یوں کہنا چاہئے کہ حسن وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک کرنا چاہئے اور قبح وہ چیز ہے جسے عقلا کے نزدیک نہیں کرنا چاہئے ۔ 
عدلیہ میں سے امامیہ اور معتزلہ افعال کے حسن اور قبح کے قائل ہیں جبکہ اشاعرہ  انکار کرتے ہیں ۔ افعال کے حسن اور قبح کے مانے والوں کے درمیان درج ذیل تفصیل پائی جاتی ہے :
عدلیہ میں سے امامیہ اور معتزلہ افعال کے حسن اور قبح کے قائل ہیں جبکہ اشاعرہ  انکار کرتے ہیں ۔ افعال کے حسن اور قبح کے مانے والوں کے درمیان درج ذیل تفصیل پائی جاتی ہے :


سطر 12: سطر 16:
فعل کی ایسی صفت سے متصف ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ قبح کا باعث بنتا ہے ۔
فعل کی ایسی صفت سے متصف ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ قبح کا باعث بنتا ہے ۔
حسن میں صرف قباحت کے موجب نہ پایا جانا ہی کافی ہے ۔
حسن میں صرف قباحت کے موجب نہ پایا جانا ہی کافی ہے ۔
 




گمنام صارف