مندرجات کا رخ کریں

"عبد اللہ بن حسن" کے نسخوں کے درمیان فرق

م
imported>Mabbassi
imported>Mabbassi
سطر 1: سطر 1:
عبد اللہ بن حسن حضرت امام حسن ؑ کے ان فرزندوں میں سے ہیں جو کربلا میں اپنے چچا کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوئے ۔نقل کے مطابق جب ابحر بن کعب نے حضرت امام حسین ؑ پر تلوار سے وار کیا تو آپ نے حضرت امام حسین کو بچانے کیلئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو تلوار کے وار سے ہاتھ کٹ کر لٹکنے لگا۔
عبد اللہ بن حسن حضرت امام حسن ؑ کے ان فرزندوں میں سے ہیں جو کربلا میں اپنے چچا کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوئے ۔نقل کے مطابق جب ابحر بن کعب نے حضرت امام حسین ؑ پر تلوار سے وار کیا تو آپ نے حضرت امام حسین کو بچانے کیلئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو تلوار کے وار سے ہاتھ کٹ کر لٹکنے لگا۔
==تعارف==
==تعارف==
تاریخ ولادت کے متعلق کوئی معلومات مذکور نہیں البتہ لکھا گیا کہ شہادت کے وقت آپ حد بلوغ کو نہں پہنچے تھے ۔بعض نے انکی والدہ سلیل بن عبد اللہ کی بیٹی اور بعض نے نام کے بغیر ایک کنیز ذکر کیا ہے ۔اپنے چچا حضرت امام حسین کا دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔عبد اللہ بن حسن کو طبری نے نوجوان کہا اور اس کا نام ذکر نہیں کیا ۔ابن طاؤس اور شیخ مفید نے اسکا نام عبد اللہ بن حسن ذکر کیا ہے ۔<ref>الارشاد  ج2 ص110۔لہوف ص 173 </ref>
تاریخ ولادت کے متعلق کوئی معلومات مذکور نہیں البتہ لکھا گیا کہ شہادت کے وقت آپ حد بلوغ کو نہں پہنچے تھے ۔بعض نے انکی والدہ سلیل بن عبد اللہ کی بیٹی ذکر کی ہے جو جریر بن عبد اللہ کے بھائی ہیں اور بعض نے نام کے بغیر ایک کنیز ذکر کیا ہے <ref>اصفہانی، ص۹۳</ref>۔اپنے چچا حضرت امام حسین کا دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔عبد اللہ بن حسن کو طبری نے نوجوان کہا اور اس کا نام ذکر نہیں کیا ۔ابن طاؤس اور شیخ مفید نے اسکا نام عبد اللہ بن حسن ذکر کیا ہے ۔<ref>الارشاد  ج2 ص110۔لہوف ص 173 </ref>


==شہادت==
==شہادت==
اسی دوران عبد اللہ بن حسن ایک نابالغ  بچہ چاند کی مانند دمکتے چہرے کے ساتھ خیام سے برآمد ہوا <ref>ابن کثیر ،البدایۃ و النہایۃ ج 8 ص 203</ref>اور امام حسین ؑ کے ساتھ آ کر کھڑا ہو گیا ۔ حضرت زینب اس بچے کے پیچھے خیام سے باہر آئیں تو امام نے آپ سے خطاب کیا:بہن اسے سنبھالو لیکن بچے نے جانے سے انکار کیا اور وہاں مقاومت اختیار کی اور کہا : خدا کی قسم اپنے چچا سے ہر گز جدا نہ ہوں گا۔ابجر بن کعب نے امام پر تلوار سے حملہ کیا تو بچے نے کہا : {{حدیث|'''یا بن الخبیثہ!تقتل عمی؟ '''}}اے اولاد خبیث! کیا تو میرے چچا کو قتل کرے گا ؟اس نے تلوار سے امام پر وار کیا تو عبد اللہ امام کو بچانے کیلئے اپنا ہاتھ سامنے کیا ہاتھ جدا ہو گیا اور گوشت کے سہارے لٹکنے لگا۔عبد اللہ نے آواز دی : اے اماں جان!۔ امام نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا نیز کہا اے برادر عمو ! جو کچھ تم سے ہوا اس پر صبر کرو خدا تمہیں تمہارے بہترین باپ رسول خدا ، علی بن ابی طالب چچا حمزہ کے ساتھ ملحق کرے ۔امام نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے اور یوں بد دعا کی : خدایا ! انہیں  باران رحمت سے دور رکھ اور زمین کی محروم رکھ ۔اگر ایک مدت تک نعمتوں سے استفادہ کیا ہے تو ان کے درمیان تفرقہ ڈال اور انہیں مختلف گروہوں میں تقسیم کر دے ۔ ان کے حاکموں کے ان سے نا خوش رکھ  کیونکہ انہوں نے ہمیں بلایا تا کہ ہماری مدد کریں لیکن انہوں نے ہم پہ ظلم کیا اور ہمارے قتل کے در پے ہو گئے ہیں۔<ref>شیخ مفید ، الارشاد ج 2 ص 110 و111۔ تاریخ طبری طبری ج 5 ص 451</ref>
اسی دوران عبد اللہ بن حسن ایک نابالغ  بچہ چاند کی مانند دمکتے چہرے کے ساتھ خیام سے برآمد ہوا <ref>ابن کثیر ،البدایۃ و النہایۃ ج 8 ص 203</ref>اور امام حسین ؑ کے ساتھ آ کر کھڑا ہو گیا ۔ حضرت زینب اس بچے کے پیچھے خیام سے باہر آئیں تو امام نے آپ سے خطاب کیا:بہن اسے سنبھالو لیکن بچے نے جانے سے انکار کیا اور وہاں مقاومت اختیار کی اور کہا : خدا کی قسم اپنے چچا سے ہر گز جدا نہ ہوں گا۔ابجر بن کعب نے امام پر تلوار سے حملہ کیا تو بچے نے کہا : {{حدیث|'''یا بن الخبیثہ!تقتل عمی؟ '''}}اے اولاد خبیث! کیا تو میرے چچا کو قتل کرے گا ؟اس نے تلوار سے امام پر وار کیا تو عبد اللہ امام کو بچانے کیلئے اپنا ہاتھ سامنے کیا ہاتھ جدا ہو گیا اور گوشت کے سہارے لٹکنے لگا۔عبد اللہ نے آواز دی : اے اماں جان!۔ امام نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا نیز کہا اے برادر عمو ! جو کچھ تم سے ہوا اس پر صبر کرو خدا تمہیں تمہارے بہترین باپ رسول خدا ، علی بن ابی طالب چچا حمزہ کے ساتھ ملحق کرے ۔امام نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے اور یوں بد دعا کی : خدایا ! انہیں  باران رحمت سے دور رکھ اور زمین کی محروم رکھ ۔اگر ایک مدت تک نعمتوں سے استفادہ کیا ہے تو ان کے درمیان تفرقہ ڈال اور انہیں مختلف گروہوں میں تقسیم کر دے ۔ ان کے حاکموں کے ان سے نا خوش رکھ  کیونکہ انہوں نے ہمیں بلایا تا کہ ہماری مدد کریں لیکن انہوں نے ہم پہ ظلم کیا اور ہمارے قتل کے در پے ہو گئے ہیں۔<ref>شیخ مفید ، الارشاد ج 2 ص 110 و111۔ تاریخ طبری طبری ج 5 ص 451</ref>
گمنام صارف