مندرجات کا رخ کریں

"نبوت" کے نسخوں کے درمیان فرق

13 بائٹ کا ازالہ ،  22 نومبر 2019ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>E.musavi
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{اسلام-عمودی}}
{{اسلام-عمودی}}
[[نبوت]] تمام ادیان الہی کے بنیادی تعلیمات میں سے ہے ۔اسلامی تعلیمات میں نبوت کو اصول دین میں سے شمار کیا جاتا ہے اور اس پر اعتقاد رکھنا مسلمان ہونے کیلئے شرط ہے۔ قرآن یا سنت نبوی میں [[رسول اللہ|حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم]] اور دوسرے پیغمبروں کو "پیامبران الہی" کہا جاتا ہے۔ [[حضرت آدم]] ؑ سے نبوت کا آغاز ہوا اور قران کی تصریح کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ختم ہوئی ہے نیز اس عقیدے میں اہل سنت اور [[شیعہ]] ایک جیسا اعتقاد رکھتے ہیں۔
[[نبوت]] تمام ادیان الہی کے بنیادی تعلیمات میں سے ہے۔ اسلامی تعلیمات میں نبوت کو اصول دین میں سے شمار کیا جاتا ہے اور اس پر اعتقاد رکھنا مسلمان ہونے کیلئے شرط ہے۔ قرآن یا سنت نبوی میں [[رسول اللہ|حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم]] اور دوسرے پیغمبروں کو پیامبران الہی کہا جاتا ہے۔ [[حضرت آدم]] ؑ سے نبوت کا آغاز ہوا اور قران کی تصریح کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ختم ہوئی ہے نیز اس عقیدے میں اہل سنت اور [[شیعہ]] ایک جیسا اعتقاد رکھتے ہیں۔
==نبوت کا معنی ==
==نبوت کا معنی ==
===لغوی معنی ===
===لغوی معنی ===
"نبا" یا "نبو" لفظ "[[نبوت]]" کی اصل ہے ۔عربی زبان میں "نبا" یا "نبو" درج ذیل  معانی کیلئے استعمال ہوتے ہیں:۔
"نبا" یا "نبو" لفظ "[[نبوت]]" کی اصل ہے ۔عربی زبان میں "نبا" یا "نبو" درج ذیل  معانی کیلئے استعمال ہوتے ہیں:۔
خبر دینے والا<ref>ابن منظور ،لسان العرب ج1 ص 162۔</ref> ، بلند مقام<ref>طریحی،مجمع البحرین ج1 ص405۔</ref> ، کسی جگہ سے نکلنا<ref>فیومی،مصباح المنیر، ج2 ص591۔</ref> ، واضح راستہ<ref>خلیل بن احمد ، العین،ج8 ص382۔</ref>،مخفی آواز<ref>جوہری،قاموس ج1ص74۔</ref>
خبر دینے والا<ref>ابن منظور ،لسان العرب ج1 ص 162۔</ref> ، بلند مقام<ref>طریحی، مجمع البحرین ج1 ص405۔</ref> ، کسی جگہ سے نکلنا<ref>فیومی، مصباح المنیر، ج2 ص591۔</ref> ، واضح راستہ<ref>خلیل بن احمد، العین،ج8 ص382۔</ref>،مخفی آواز<ref>جوہری،قاموس ج1ص74۔</ref>


'''رسالت'''"ر س ل" کے مادے سے اسم مصدر<ref>ابن منظور، لسان العربج11 ص283</ref> ہے اور پیام ، کتاب، پیغمبری،وہ جسے ذمہ داری سونپی گئی ہو اور بھیجنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے<ref>دہخدا،لغتنامہ دہخداج7 ص10584۔</ref>۔اس کی جمع رسائل<ref>خلیل بن احمد ۔ العین،ج7 ص341۔</ref> اور رسالات<ref>خاتمی،فرہنگ علم کلام ج1 ص121</ref> آتی ہے ۔
'''رسالت'''"ر س ل" کے مادے سے اسم مصدر<ref>ابن منظور، لسان العربج11 ص283</ref> ہے اور پیام ، کتاب، پیغمبری، وہ جسے ذمہ داری سونپی گئی ہو اور بھیجنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے<ref>دہخدا،لغتنامہ دہخداج7 ص10584۔</ref>۔اس کی جمع رسائل<ref>خلیل بن احمد۔ العین، ج7 ص341۔</ref> اور رسالات<ref>خاتمی،فرہنگ علم کلام ج1 ص121</ref> آتی ہے۔


'''رسول'''بھی "ر س ل" کے مادے سے مصدر ہے کہ جس کا معنی "آرام کے ساتھ اٹھنا" ہے۔دینی اصطلاح میں احکام کی تبلیغ کیلئے پیام لانے والے اور بھیجے ہوئے کو کہا جاتا ہے<ref>جرجانی، تعریفات،49۔</ref> اور اسکی جانب مطالب [[وحی]] کئے گئے ہوتے ہیں<ref>مؤلفین کا گروہ،159۔</ref>۔
'''رسول'''بھی "ر س ل" کے مادے سے مصدر ہے کہ جس کا معنی آرام کے ساتھ اٹھنا ہے۔ دینی اصطلاح میں احکام کی تبلیغ کیلئے پیام لانے والے اور بھیجے ہوئے کو کہا جاتا ہے<ref>جرجانی، تعریفات،49۔</ref> اور اسکی جانب مطالب [[وحی]] کئے گئے ہوتے ہیں<ref>مؤلفین کا گروہ،159۔</ref>۔
===نبی کا تلفظ ===
===نبی کا تلفظ ===
لغویوں کی نگاہ میں لفظ "نبی" کا تلفظ اس صورت میں ہے کہ اگر اس لفظ کو "نبا"یعنی ہمزہ کے ساتھ بنایا گیاہو تو اسے ہمزے کے ساتھ اور ہمزے کے بغیر پڑھا جا سکتا ہے اگرچہ ہمزے کے بغیر اس کا تلفظ فصیح تر ہے ۔لیکن نباوۃ اور نبوۃ مرتبے کی بلندی اور علو کے معنی سے لیا گیا ہو تو اسے بغیر ہمزے کے تلفظ کرنا چاہئے ۔<ref>طوسی۔ الاقتصادفیما یتعلق بالاعتقاد245۔</ref>
لغویوں کی نگاہ میں لفظ "نبی" کا تلفظ اس صورت میں ہے کہ اگر اس لفظ کو "نبا" یعنی ہمزہ کے ساتھ بنایا گیاہو تو اسے ہمزے کے ساتھ اور ہمزے کے بغیر پڑھا جا سکتا ہے اگرچہ ہمزے کے بغیر اس کا تلفظ فصیح تر ہے ۔لیکن نباوۃ اور نبوۃ مرتبے کی بلندی اور علو کے معنی سے لیا گیا ہو تو اسے بغیر ہمزے کے تلفظ کرنا چاہئے ۔<ref>طوسی۔ الاقتصادفیما یتعلق بالاعتقاد245۔</ref>
===اصطلاحی معنی ===
===اصطلاحی معنی ===
ہر مسلک اور اعتقاد کے اسلامی مفکروں نے نبوت کی مختلف تعریفیں پیش کی ہیں ۔ ان میں سے بعض نے نبوت کے لوازمات اور اس کی خصوصیات بیان کی ہیں اور بعض نے اس کی دقیق ،مانع اور جامع تعریف  پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ نبوت کی  تمام تعریفوں کے مشترک نکات درج ذیل ہیں:-
ہر مسلک اور اعتقاد کے اسلامی مفکروں نے نبوت کی مختلف تعریفیں پیش کی ہیں۔ ان میں سے بعض نے نبوت کے لوازمات اور اس کی خصوصیات بیان کی ہیں اور بعض نے اس کی دقیق، مانع اور جامع تعریف  پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ نبوت کی  تمام تعریفوں کے مشترک نکات درج ذیل ہیں:-


*نبی کا انسان ہونا یقینی ہے۔<ref>سورہ ابراہیم 11۔</ref>
*نبی کا انسان ہونا یقینی ہے۔<ref>سورہ ابراہیم 11۔</ref>
*تمام انسانوں کی ہدایت ان کی تبلیغ کا ہدف ہے ۔<ref>میثم بحرانی ،قواعد المرام فی علم الکلام122۔</ref>
*تمام انسانوں کی ہدایت ان کی تبلیغ کا ہدف ہے۔<ref>میثم بحرانی ،قواعد المرام فی علم الکلام122۔</ref>
*ان کی دعوت اور تبلیغ مجموعی طور پر ان  اسلامی اور الہی معارف پر مشتمل ہے کہ جو عملی اور نظری لحاظ سے لوگوں کی زندگی اور انہیں دنیاوی اور اخروی سعادت تک پہنچانے میں مؤثر ہیں۔<ref>سورۂ بقرہ129۔</ref>
*ان کی دعوت اور تبلیغ مجموعی طور پر ان  اسلامی اور الہی معارف پر مشتمل ہے کہ جو عملی اور نظری لحاظ سے لوگوں کی زندگی اور انہیں دنیاوی اور اخروی سعادت تک پہنچانے میں مؤثر ہیں۔<ref>سورۂ بقرہ129۔</ref>
*ان کے اقوال کا ماخذ اور منبع خدا ہے۔<ref>فاضل مقداد، النافع یوم الحشر24۔</ref>
*ان کے اقوال کا ماخذ اور منبع خدا ہے۔<ref>فاضل مقداد، النافع یوم الحشر24۔</ref>
*کسی دوسرے انسان کے واسطے کے بغیر [[وحی]] کو حاصل کرنا۔<ref>حلی ، منایج الیقین فی اصول الدین 403۔</ref>
*کسی دوسرے انسان کے واسطے کے بغیر [[وحی]] کو حاصل کرنا۔<ref>حلی، منایج الیقین فی اصول الدین 403۔</ref>
٭خدا کے پیام کو انسانوں تک پہنچاتے ہیں۔<ref>حلی ، الباب الحادی عشر34۔</ref>
٭خدا کے پیام کو انسانوں تک پہنچاتے ہیں۔<ref>حلی ، الباب الحادی عشر34۔</ref>


پس اس بنا پر پیغمبر ایسے انسان کو کہا جا سکتا ہے کہ جسے انسانوں کی ہدایت کے مقصد کیلئے مقرر کیا گیا ہو تا کہ وہ معارف کو کسی انسانی واسطے کے بغیر خدا سے لے اور لوگوں کو پہنچائے۔<ref>صادقی،درآمدی بر کلام جدید184۔</ref>
پس اس بنا پر پیغمبر ایسے انسان کو کہا جا سکتا ہے کہ جسے انسانوں کی ہدایت کے مقصد کیلئے مقرر کیا گیا ہو تا کہ وہ معارف کو کسی انسانی واسطے کے بغیر خدا سے لے اور لوگوں کو پہنچائے۔<ref>صادقی، درآمدی بر کلام جدید 184۔</ref>
===نبی اور رسول ===
===نبی اور رسول ===
علم کلام کی ابحاث میں سے ایک بحث نبی اور رسول کے درمیان فرق کی بحث ہے۔[[قرآن]] پاک میں بعض آیات جیسے سورہ احزاب کی 40 ویں آیت  میں نبی اور [[نبوت|رسول]] کا لفظ اکٹھا استعمال ہوا ہے ،اس مقام پر مفسروں اور متکلمین کے درمیان تفصیلی بحث شروع ہو گئی ہے ۔
علم کلام کی ابحاث میں سے ایک بحث نبی اور رسول کے درمیان فرق کی بحث ہے۔ [[قرآن]] پاک میں بعض آیات جیسے سورہ احزاب کی 40 ویں آیت  میں نبی اور [[نبوت|رسول]] کا لفظ اکٹھا استعمال ہوا ہے، اس مقام پر مفسروں اور متکلمین کے درمیان تفصیلی بحث شروع ہو گئی ہے۔


ایک گروہ اس بات کا معتقد ہے کہ مفہوم کے لحاظ سے نبی اور رسول باہم مترادف ہیں اور مصداق کے لحاظ سے بھی ان کا مصداق ایک ہے ۔لیکن مشہور قول کی بنا پر مصداق کے لحاظ سے  نبی اور رسول کے درمیان اعم و اخص مطلق کی نسبت پائی جاتی ہے۔یعنی ہر رسول نبی لے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے ۔ پس اس بنا پر نبوت لوگوں کی دسترس سے بالا تر ایک بلند مرتبہ ہے اور یہی مقام بعض انبیاء کو رسالت کے منصب عطا کرنے کا مقدمہ بنتا ہے ۔<ref>مصطفوی،التحقیق فی کلمات القرآن ج2 ص116۔</ref>
ایک گروہ اس بات کا معتقد ہے کہ مفہوم کے لحاظ سے نبی اور رسول باہم مترادف ہیں اور مصداق کے لحاظ سے بھی ان کا مصداق ایک ہے۔ لیکن مشہور قول کی بنا پر مصداق کے لحاظ سے  نبی اور رسول کے درمیان اعم و اخص مطلق کی نسبت پائی جاتی ہے۔ یعنی ہر رسول نبی لے لیکن ہر نبی رسول نہیں ہے۔ پس اس بنا پر نبوت لوگوں کی دسترس سے بالا تر ایک بلند مرتبہ ہے اور یہی مقام بعض انبیاء کو رسالت کے منصب عطا کرنے کا مقدمہ بنتا ہے۔<ref>مصطفوی،التحقیق فی کلمات القرآن ج2 ص116۔</ref>
===مشابہت ===
===مشابہت ===
رسالت بھی نبوت کی طرح خدا کی طرف سے لوگوں پر مقام خلافت اور خدا اور بندوں کے درمیان واسطہ ہے ۔رسول خدا کے خواست اور چاہت کے بغیر کچھ نہیں کہتا ہے۔ رسول کا انجام رسالت اور خدا کا پیغام لوگوں تک پہچانے کے علاوہ کوئی اور ہدف اور مقصد نہیں ہوتا ہے ۔<ref>مصطفوی،التحقیق فی کلمات القرآن،ج3 ص118۔</ref>
رسالت بھی نبوت کی طرح خدا کی طرف سے لوگوں پر مقام خلافت اور خدا اور بندوں کے درمیان واسطہ ہے۔ رسول خدا کے خواست اور چاہت کے بغیر کچھ نہیں کہتا ہے۔ رسول کا انجام رسالت اور خدا کا پیغام لوگوں تک پہچانے کے علاوہ کوئی اور ہدف اور مقصد نہیں ہوتا ہے ۔<ref>مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن، ج3 ص118۔</ref>
===فرق===
===فرق===
[[نبوت|رسول]] اور [[نبوت|نبی]] کے درمیان اختلاف کے قائلین کے درمیان رسول اور نبی کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔<ref>ماوردی ص51۔</ref> ان میں سے اہم تریں درج ذیل ہیں:-
[[نبوت|رسول]] اور [[نبوت|نبی]] کے درمیان اختلاف کے قائلین کے درمیان رسول اور نبی کے بارے میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔<ref>ماوردی ص51۔</ref> ان میں سے اہم تریں درج ذیل ہیں:-
*[[نبوت|رسول]] نئی شریعت کا صاحب ہوتا ہے یا پہلی شریعت کے بعض احکام کو مسنوخ کرنے کیلئے مبعوث ہوتا ہے<ref>بعدادی، اصول دین ص154۔<ref/> جبکہ نبی پہلی شریعت کے معارف،احکام کی وضاحت اور تبلیغ کیلئے مبعوث ہوتا ہے۔<ref>عسکری، معجم الفروق اللغویہ 531۔</ref>
*[[نبوت|رسول]] نئی شریعت کا صاحب ہوتا ہے یا پہلی شریعت کے بعض احکام کو مسنوخ کرنے کیلئے مبعوث ہوتا ہے<ref>بعدادی، اصول دین ص154۔<ref/> جبکہ نبی پہلی شریعت کے معارف،احکام کی وضاحت اور تبلیغ کیلئے مبعوث ہوتا ہے۔<ref>عسکری، معجم الفروق اللغویہ 531۔</ref>
*رسول وہ ہوتا ہے جس کی طرف بیداری اور نیند کی حالت میں [[وحی]] کی جاتی ہےاور وہ دونوں حالتوں میں فرشتے کو دیکھتا ہے جبکہ نبی کی طرف صرف نیند کی حالت میں وحی ہوتی ہے اور وہ نیند کے عالم میں فرشتے کو دیکھتا ہے۔<ref>عسکری، معجم الفروق اللغویہ362۔کلینی ، اصول کافی ج1 ص176</ref>
*رسول وہ ہوتا ہے جس کی طرف بیداری اور نیند کی حالت میں [[وحی]] کی جاتی ہےاور وہ دونوں حالتوں میں فرشتے کو دیکھتا ہے جبکہ نبی کی طرف صرف نیند کی حالت میں وحی ہوتی ہے اور وہ نیند کے عالم میں فرشتے کو دیکھتا ہے۔<ref>عسکری، معجم الفروق اللغویہ362۔ کلینی، اصول کافی ج1 ص176</ref>
*مرتبے کے لحاظ سے نبی پر وحی کی نسبت رسول پر وحی کا مرتبہ بلند ہے ،رسول پر وحی جبرائیل کے ذریعے ہوتی ہے جبکہ نبی پر وحی الہام قلبی یا سچے خواب کے ذریعے ہوتی ہے۔<ref> جرجانی ،تعریفات105۔</ref> البتہ نبی یا رسول دونوں لفظ رسول اکرمؐ یا حضرت مسیحؑ  کیلئے استعمال ہوئے ہیں۔<ref>{{حدیث|'''إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا''' (مريم51)}}</ref>
*مرتبے کے لحاظ سے نبی پر وحی کی نسبت رسول پر وحی کا مرتبہ بلند ہے، رسول پر وحی جبرائیل کے ذریعے ہوتی ہے جبکہ نبی پر وحی الہام قلبی یا سچے خواب کے ذریعے ہوتی ہے۔<ref> جرجانی، تعریفات 105۔</ref> البتہ نبی یا رسول دونوں لفظ رسول اکرمؐ یا حضرت مسیحؑ  کیلئے استعمال ہوئے ہیں۔<ref>{{حدیث|'''إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا''' (مريم51)}}</ref>


البتہ بعض روایات میں اس اعتراض کا جواب یوں مذکور ہوا ہے : ایسے مقامات پر پیغمبر کے شخصی معاملات کے بارے میں گفتگو ہے اسلئے نبی کہہ کر خطاب ہوا ہے جیسے [[رسول اللہ|رسول اکرمؐ]] کیلئے "نبی"  کہا گیا <ref>{{حدیث|''' يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ '''(الأحزاب: 8) }}</ref> نیزانکے بار ِرسالت اٹھانے اور رسالتِ عمومی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے انہیں رسول کہا گیا ہے جیسے سورۂ مائدہ کی 61ویں آیت میں <font color=green>{{حدیث|''' يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ '''}}</font>کہا گیا ۔<ref>مصطفوی،التحقیق فی کلمات القرآن ج3 ص116</ref>
البتہ بعض روایات میں اس اعتراض کا جواب یوں مذکور ہوا ہے: ایسے مقامات پر پیغمبر کے شخصی معاملات کے بارے میں گفتگو ہے اسلئے نبی کہہ کر خطاب ہوا ہے جیسے [[رسول اللہ|رسول اکرمؐ]] کیلئے "نبی"  کہا گیا <ref>{{حدیث|''' يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ '''(الأحزاب: 8)}}</ref> نیزانکے بار ِرسالت اٹھانے اور رسالتِ عمومی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے انہیں رسول کہا گیا ہے جیسے سورۂ مائدہ کی 61ویں آیت میں <font color=green>{{حدیث|''' يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ '''}}</font>کہا گیا۔<ref>مصطفوی،التحقیق فی کلمات القرآن ج3 ص116</ref>


==انبیاءبھیجنے کی ضرورت==
==انبیاء بھیجنے کی ضرورت==
انسان کی نسبت ضرورت دین اور ضرورت انبیاء علم کلام  کی اہم ترین بحثوں میں سے جو شروع سے ہی متکلمین اور فلاسفہ کی نگاہ اس پر مرکوز رہی ہے۔زمانۂ قدیم سے علماء کے درمیان اس بحث یں اختلاف رہا ہے ہندو مذاہب میں سے صرف "براہمہ" کے پیروکار پیغمبران الہی کی بعثت اور آسمانی شریعت کے نازل ہونے کو لغو سمجھتے تھے دیگر تمام متفکر بعثت انبیاء کو حکمت پر مشتمل اور ایک پسندیدہ عمل قبول کرتے ہوئے خدا کی جانب سے بعثت انبیاء کی ضرورت یا عدم ضرورت کے بارے میں بحث کرتے رہے ہیں۔آخریوں صدیوں میں بعض یورپین فلسفیوں نے ادیان کو افیون کہا اور صرف ادیان اور پیغمبروں کے وجود کو ضروری ہی نہیں کہا بلکہ انہیں نقصان دہ،ترقی اور انسان کی آزادی میں رکاوٹ اور ملتوں کیلئے افیون کہا ہے۔<ref>ربانی گلپائیگانی، کلام تطبیقی ،ص19 و20۔</ref>۔ اس مسئلے کے بارے میں مختلف اتدلال پیش کئے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض استدلال دینی نظریات اور بعض غیر دینی نظریات پر مشتمل ہیں۔
انسان کی نسبت ضرورت دین اور ضرورت انبیاء علم کلام  کی اہم ترین بحثوں میں سے جو شروع سے ہی متکلمین اور فلاسفہ کی نگاہ اس پر مرکوز رہی ہے۔ زمانۂ قدیم سے علماء کے درمیان اس بحث یں اختلاف رہا ہے ہندو مذاہب میں سے صرف براہمہ کے پیروکار پیغمبران الہی کی بعثت اور آسمانی شریعت کے نازل ہونے کو لغو سمجھتے تھے دیگر تمام متفکر بعثت انبیاء کو حکمت پر مشتمل اور ایک پسندیدہ عمل قبول کرتے ہوئے خدا کی جانب سے بعثت انبیاء کی ضرورت یا عدم ضرورت کے بارے میں بحث کرتے رہے ہیں۔ گذشتہ صدیوں میں بعض یورپین فلسفیوں نے ادیان کو افیون کہا اور صرف ادیان اور پیغمبروں کے وجود کو ضروری ہی نہیں کہا بلکہ انہیں نقصان دہ، ترقی اور انسان کی آزادی میں رکاوٹ اور ملتوں کیلئے افیون کہا ہے۔<ref>ربانی گلپائیگانی، کلام تطبیقی ،ص19 و20۔</ref>۔ اس مسئلے کے بارے میں مختلف اتدلال پیش کئے گئے ہیں۔ ان میں سے بعض استدلال دینی نظریات اور بعض غیر دینی نظریات پر مشتمل ہیں۔
=== غیر دینی نگاہ سے استدلال ===
=== غیر دینی نگاہ سے استدلال ===
اس طرز تفکر میں بعثت انبیاء کی ضرورت کو نظری علوم کی ابحاث کی  بنیاد پر بیان کیا جاتا ہے اور یہ استدلال درج ذیل چند مقدمات پر مشتمل ہے:-
اس طرز تفکر میں بعثت انبیاء کی ضرورت کو نظری علوم کی ابحاث کی  بنیاد پر بیان کیا جاتا ہے اور یہ استدلال درج ذیل چند مقدمات پر مشتمل ہے:-
#خدا انسان کو پیدا کرنے والا ہے ۔
#خدا انسان کو پیدا کرنے والا ہے۔
#خدا حکیم ہے اور وہ کسی ہدف کے تحت خلق کرتا ہے۔
#خدا حکیم ہے اور وہ کسی ہدف کے تحت خلق کرتا ہے۔
#انسان کی خلقت سے اس کا مقصد کمال تک پہنچنا ہے ۔
#انسان کی خلقت سے اس کا مقصد کمال تک پہنچنا ہے ۔
گمنام صارف