گمنام صارف
"امام جعفر صادق علیہ السلام" کے نسخوں کے درمیان فرق
←امامت
imported>E.musavi |
imported>E.musavi (←امامت) |
||
سطر 50: | سطر 50: | ||
==امامت== | ==امامت== | ||
{{امام صادق کے معاصر خلفا}} | {{امام صادق کے معاصر خلفا}} | ||
امام صادقؑ کی زندگی [[بنی امیہ]] کے آخری دس خلفا من جملہ [[عمر بن | امام صادقؑ کی زندگی [[بنی امیہ]] کے آخری دس خلفا من جملہ [[عمر بن عبد العزیز]]، ہشام بن عبدالملک نیز [[بنی عباسی]] کے پہلے دو خلفا، [[سفاح|سَفّاح]] اور منصور دوانیقی کے دور خلافت میں گزری ہے۔<ref>شہیدی، زندگانی امام صادق، ۱۳۷۸ش، ص۴.</ref> [[امام باقرؑ]] کو جس وقت ہشام بن عبد الملک نے [[شام]] لے گیا تو اس سفر میں امام صادقؑ بھی اپنے والد ماجد کے ہمراہ تھے۔<ref>شہیدی، زندگانی امام صادق، ۱۳۷۸ش، ص۶.</ref> آپ کے دور امامت میں بنیامیہ کی حکومت زوال کا شکار ہوئی اور آخر کا اپنی منطقی انجام تک جا پہنچی جس کے بعد بنی عباس نے اسلامی دنیا پر اپنی خلافت قائم کی۔ بنی امیہ اپنی اقتدار کے آخری ادوار میں اپنی بقا کی فکر میں تھی جبکہ بنی عباس اپنی استحکام کی فکر میں، جس کی وجہ سے امام کو علمی اور ثقافتی امور کی انجام دہی کا موقع ملا جس سے آپ نے بھر پور استفادہ کرتے ہوئے مختلف عملی میدانوں میں شاگردوں کی تربیت فرمائی۔<ref>شہیدی، زندگانی امام صادق، ۱۳۷۸ش، ص۴۷.</ref> البتہ یہ آزادی صرف [[دوسری صدی ہجری]] کے تیسرے عشرے میں نصیب ہوئی جبکہ اس سے پہلے بنی امیہ کی [[بنی ہاشم]] سے دیرینہ دشمنی نیز [[نفس زکیہ]] اور ان کے بھائی ابراہیم کی تحریک کی وجہ سے آپ بھی سیاسی دباؤ کا شکار رہا۔<ref>جعفریان، حیات فکریسیاسی امامان شیعہ، ۱۳۹۳ش، ص۴۳۵.</ref> | ||
===دلائل امامت=== | ===دلائل امامت=== | ||
شیعہ نقطہ نگاہ سے [[امام]]، خدا کی طرف سے معین ہوتا ہے جسے [[نص|نَصّ]] ([[پیغمبر اکرمؐ]] یا پہلے والے امام نے صراحت کے ساتھ مورد نظر شخص کی امامت کو بیان کیا ہو) کے ذریعے پہچانی جاتی ہے۔<ref>فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، ۱۴۰۵ق، ص۳۳۷.</ref> [[کلینی]] نے اپنی کتاب [[کافی]] میں امام صادقؑ کی امامت کو ثابت کرنے کی غرض سے مختلف احادیث نقل کی ہیں۔<ref>کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۰۶، ۳۰۷.</ref> | شیعہ نقطہ نگاہ سے [[امام]]، خدا کی طرف سے معین ہوتا ہے جسے [[نص|نَصّ]] ([[پیغمبر اکرمؐ]] یا پہلے والے امام نے صراحت کے ساتھ مورد نظر شخص کی امامت کو بیان کیا ہو) کے ذریعے پہچانی جاتی ہے۔<ref>فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، ۱۴۰۵ق، ص۳۳۷.</ref> [[کلینی]] نے اپنی کتاب [[کافی]] میں امام صادقؑ کی امامت کو ثابت کرنے کی غرض سے مختلف احادیث نقل کی ہیں۔<ref>کلینی، کافی، ۱۴۰۷ق، ج۱، ص۳۰۶، ۳۰۷.</ref> | ||
[[امام باقرؑ]] سے منقول احادیث کے مطابق آپ نے اپنے بیٹے جعفر صادقؑ کی امامت پر تصریح فرمائی ہے ان روایات کو [[ہشام بن سالم]]، [[ابو صباح کنانی]]، [[جابر بن یزید جعفی]]، اور [[عبد الاعلی]] مولیٰ آل سام نے روایت کی ہیں۔<ref>ر.ک: المفید، الارشاد | [[امام باقرؑ]] سے منقول احادیث کے مطابق آپ نے اپنے بیٹے جعفر صادقؑ کی امامت پر تصریح فرمائی ہے ان روایات کو [[ہشام بن سالم]]، [[ابو صباح کنانی]]، [[جابر بن یزید جعفی]]، اور [[عبد الاعلی]] مولیٰ آل سام نے روایت کی ہیں۔<ref>ر.ک: المفید، الارشاد ص526-527. </ref> | ||
[[شیخ مفید]] لکھتے ہیں: امام جعفر صادق ؑ کی جانشینی اور امامت کے سلسلے میں [[امام باقر]]ؑ کی وصیت کے علاوہ آپ [امام صادقؑ] علم و عمل اور زہد و تقوی میں بھی اپنے بھائیوں، خاندان | [[شیخ مفید]] لکھتے ہیں: امام جعفر صادق ؑ کی جانشینی اور امامت کے سلسلے میں [[امام باقر]]ؑ کی وصیت کے علاوہ آپ [امام صادقؑ] علم و عمل اور زہد و تقوی میں بھی اپنے بھائیوں، خاندان کے دیگر افراد نیز اپنے زمانے کے تمام لوگوں پر برتری رکھتے تھے جو خود آپ کی امامت کی دلیل ہے<ref>مفید، الارشاد ص528-527. </ref> جبکہ [[رسول اللہ]]ؐ کی احادیث میں بھی [[ائمہ اثنی عشر]] کے اسمائے گرامی کے ضمن میں آپ کا نام مذکور ہے۔ | ||
علاوہ ازیں [[رسول اللہ]]ؐ سے متعدد [[احادیث]] منقول ہیں جن میں [[امامیہ|شیعوں]] کے 12 اماموں کے اسمائے گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام جعفر صادقؑ سمیت تمام ائمہؑ کی امامت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔<ref>مفید، الاختصاص، ص211؛ منتخب الاثر باب ہشتم ص97؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص182-181؛ عاملی، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص 285۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی 59ویں آیت ِ{{حدیث|اطیعوا اااللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم}} نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے 12 ائمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں؛ بحار الأنوار ج 23 ص290؛ اثبات الہداة ج 3، ص 123؛ المناقب ابن شہر آشوب، ج1، ص 283۔ سورہ علیؑ سے روایت ہے کہ [[ام سلمہ]] کے گھر میں [[سورہ احزاب]] کی 33ویں [[آیت]] {{حدیث|انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت و یطہرکم تطہیرا}} نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں؛ بحار الأنوار ج36 ص337، | علاوہ ازیں [[رسول اللہ]]ؐ سے متعدد [[احادیث]] منقول ہیں جن میں [[امامیہ|شیعوں]] کے 12 اماموں کے اسمائے گرامی ذکر ہوئے ہیں اور یہ احادیث امام جعفر صادقؑ سمیت تمام ائمہؑ کی امامت و ولایت کی تائید کرتی ہیں۔<ref>مفید، الاختصاص، ص211؛ منتخب الاثر باب ہشتم ص97؛ طبرسی، اعلام الوری باعلام الہدی، ج2، ص182-181؛ عاملی، اثبات الہداة بالنصوص و المعجزات، ج2، ص 285۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ سورہ نساء کی 59ویں آیت ِ{{حدیث|اطیعوا اااللہ واطیعوا الرسول و اولی الامر منکم}} نازل ہوئی تو رسول اللہؐ نے 12 ائمہ کے نام تفصیل سے بتائے جو اس آیت کے مطابق واجب الاطاعہ اور اولو الامر ہیں؛ بحار الأنوار ج 23 ص290؛ اثبات الہداة ج 3، ص 123؛ المناقب ابن شہر آشوب، ج1، ص 283۔ سورہ علیؑ سے روایت ہے کہ [[ام سلمہ]] کے گھر میں [[سورہ احزاب]] کی 33ویں [[آیت]] {{حدیث|انما یرید اللہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت و یطہرکم تطہیرا}} نازل ہوئی تو پیغمبر نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں؛ بحار الأنوار ج36 ص337، کفایة الأثر ص 157۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ [[نعثل]] نامی [[یہودی]] نے [[رسول اللہؐ]] کے جانشینوں کے نام پوچھے تو آپؐ نے بارہ اماموں کے نام تفصیل سے بتائے۔ سلیمان قندوزی حنفی، مترجم سید مرتضی توسلیان، ینابیع المودة، ج 2، ص 387 – 392، باب 76۔</ref> | ||
===وکالتی نظام=== | ===وکالتی نظام=== | ||
سطر 68: | سطر 68: | ||
{{اصلی|غلو}} | {{اصلی|غلو}} | ||
[[امام باقرؑ]] اور امام جعفر صادقؑ کے زمانے میں غالیوں کی سرگرمیوں میں بھی شدت آگئی۔<ref> جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۹۳ش، ص۴۰۷.</ref> غالی [[ائمہ]] کو خدا کا درجہ دیتے تھے یا انہیں [[پیغمبر]] مانتے تھے۔ امام صادقؑ نے اس سوچ کی بھر پور مخالفت فرمائی اور لوگوں کو ان کے ساتھ نشست و برخاست سے بھی منع فرماتے <ref> جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۹۳ش، ص۴۰۷، ۴۰۸.</ref> اور انہیں [[فاسق]]، [[کافر]] اور [[مشرک]] جانتے تھے۔<ref>کشی، رجال کشی، ۱۴۰۹ق، ص۳۰۰.</ref><br /> | [[امام باقرؑ]] اور امام جعفر صادقؑ کے زمانے میں غالیوں کی سرگرمیوں میں بھی شدت آگئی۔<ref> جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۹۳ش، ص۴۰۷.</ref> غالی [[ائمہ]] کو خدا کا درجہ دیتے تھے یا انہیں [[پیغمبر]] مانتے تھے۔ امام صادقؑ نے اس سوچ کی بھر پور مخالفت فرمائی اور لوگوں کو ان کے ساتھ نشست و برخاست سے بھی منع فرماتے <ref> جعفریان، حیات فکری-سیاسی امامان شیعہ، ۱۳۹۳ش، ص۴۰۷، ۴۰۸.</ref> اور انہیں [[فاسق]]، [[کافر]] اور [[مشرک]] جانتے تھے۔<ref>کشی، رجال کشی، ۱۴۰۹ق، ص۳۰۰.</ref><br /> | ||
ایک [[حدیث]] میں آیا ہے کہ آپ نے غالیوں کے حوالے سے اپنے پیروکاروں سے ارشاد فرمایا: | ایک [[حدیث]] میں آیا ہے کہ آپ نے غالیوں کے حوالے سے اپنے پیروکاروں سے ارشاد فرمایا: ان کے ساتھ نشست و برخاست مت رکھیں، ان کے ساتھ کھانے پینے میں شامل نہ ہوجائیں اور ان سے مصافحہ نہ کریں۔<ref>کشی، رجال کشی، ۱۴۰۹ق، ص۲۹۷.</ref> اسی طرح آپ جوانوں کے بارے میں فرماتے تھے: دہیان رکھے کہ غالی تمہارے جوانوں کو گمراہ نہ کریں۔ یہ لوگ خدا کے بدترین دشمن ہیں؛ خدا کو پست اور خدا کے بندوں کو ربوبیت کا مقام دیتے ہیں۔<ref>شیخ طوسی، امالی، ۱۴۱۴، ص۶۵۰.</ref> | ||
== علمی تحریک == | == علمی تحریک == |