مندرجات کا رخ کریں

"غزوہ احد" کے نسخوں کے درمیان فرق

12,066 بائٹ کا اضافہ ،  26 مئی 2015ء
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 60: سطر 60:


[[شیخ مفید]] نے [[ابن مسعود]] سے روایت کی ہے کہ مسلمانوں کی پریشانی اور افراتفری اس قدر بڑھ گئی کہ پورا لشکر بھاگ گیا اور [[امیرالمؤمنین|علی (ع)]] کے سوا [[رسول اللہ]](ص) کے قریب نہ رہا۔ جملہ لشکر بھاگ کیا اور بعد ازاں معدودے چند افراد آپ(ص) سے آملے جن میں سب سے پہلے [[عاصم بن ثابت]]، [[ابو دجانہ]] اور [[سہل بن حنیف]] آپ(ص) کی طرف آگئے۔<ref>آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص256.۔</ref>
[[شیخ مفید]] نے [[ابن مسعود]] سے روایت کی ہے کہ مسلمانوں کی پریشانی اور افراتفری اس قدر بڑھ گئی کہ پورا لشکر بھاگ گیا اور [[امیرالمؤمنین|علی (ع)]] کے سوا [[رسول اللہ]](ص) کے قریب نہ رہا۔ جملہ لشکر بھاگ کیا اور بعد ازاں معدودے چند افراد آپ(ص) سے آملے جن میں سب سے پہلے [[عاصم بن ثابت]]، [[ابو دجانہ]] اور [[سہل بن حنیف]] آپ(ص) کی طرف آگئے۔<ref>آیتی، تاریخ پیامبر اسلام، ص256.۔</ref>
===حمزہ سید الشہداء کی شہادت===
مشرکین نے اپنے ہتھیاروں سے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے اور ان کی بڑی تعداد کو شہید کیا؛ سب سے زیادہ اہم [[رسول خدا(ص)]] کے چچا، [[حمزہ بن عبد المطلب]] تھے جس پر [[جبیر بن مطعم]] کے غلام وحشی نے نیزے کا وار کیا اور پھر ان کا سینہ چاک کیا اور ان کا کلیجہ نکال کر [[ابو سفیان]] کی بیوی ہند کے سپرد کیا جس کا باپ [[جنگ بدر]] میں حمزہ کے ہاتھوں ہلاک ہوچکا تھا۔ ہند بنت عتبہ نے حمزہ کا کلیجہ چپایا۔ [[رسول اللہ|پیغمبر اکرم(ص)]] حمزہ کی شہادت اور ان کے بدن کا مثلہ ہونے پر بہت زیادہ مغموم اور غضبناک ہوئے۔<ref>ابن اسحاق، السیر والمغازی، ص333ـ329۔</ref>۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص286ـ285، 290۔</ref>
===شہداء کی تعداد===
مسلمانوں نے اپنے شہداء کی تدفین کا اہتمام کیا اور [[رسول اللہ|پیغمبر(ص)]] نے ایک ایک کرکے شہداء کی میتوں پر ـ جن کی تعداد  70 یا اس سے کچھ زیادہ تھی ـ<ref>ر.ک: واقدی، المغازی، ج1، ص328۔</ref> اور ہر بار یہی فرمایا کہ [[حمزہ بن عبد المطلب|حمزہ سید الشہداء]] کا جسم مطہر بھی ہر شہادت کے ساتھ رکھا جائے۔ اور یوں حمزہ کی میت پر 70 یا کچھ زیادہ، مرتبہ نماز پڑھی۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج2، ص97۔</ref>۔<ref>واقدی المغازی، ج1 ص310۔</ref>۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص44۔</ref>۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ص336۔</ref> شہدائے احد ـ جنہیں کوہ احد کے دامن میں سپرد خاک کیا گیا ہے ـ کے اسماء قدیم کتب میں بیان ہوئے ہیں۔ مشرکین میں سے بھی 20 سے کچھ زائد افراد مارے گئے۔
[[ملف:Ohadold.jpg|thumbnail|<center>[[حمزہ بن عبد المطلب|حضرت حمزہ]] اور شہدائے احد کا مزار وہابیوں کے ہاتھوں انہدام سے قبل]]۔</ref>
[[ملف:Hamzeh.jpg|thumbnail|<center>>[[حمزہ بن عبد المطلب|حضرت حمزہ]] اور شہدائے احد کا موجودہ مزار]]</ref>
===ابو سفیان کا موقف===
بالآخر دو لشکر ایک دوسرے سے جدا ہوئے، [[ابو سفیان]] دامن کوہ کے قریب آیا ـ جہاں مسلمان موجود تھے ـ اور بتوں کی ثناگوئی کرتے ہوئے یوم احد کو [[غزوہ بدر|یوم بدر]] کے برابر قرار دیا۔<ref>زهری، المغازی النبویة، ص78۔</ref>۔<ref>ابن اسحاق، السیر والمغازی، ص333ـ329۔</ref>۔<ref>واقدی، المغازی، ج1 ص297ـ296۔</ref>۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص327۔</ref>
==جنگ کی تاریخ==
غزوہ احد بروز شنبہ، 7 [[شوال المکرم|شوال]] سنہ 3 ہجری ـ بمطابق 23 مارچ سنہ 625 عیسوی، انجام پایا۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص199۔</ref>۔<ref>ابن سعد، الطبقات الکبری، ج2، ص36۔</ref>۔<ref>بلاذری، انساب الاشراف، ج1، ص312ـ311۔</ref> تاہم بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ جنگ 15 شوال کے دن ہوئی ہے۔<ref>ابن اسحاق، السیر والمغازی، ص324۔</ref>۔<ref>ابن حبیب، المحبر، ص113ـ112۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ، ج2، ص534۔</ref>
==آیات کریمہ کا نزول==
منابع و مآخذ جنگ احد کی شان میں نازل ہونے والی کئی آیات کریمہ ـ منجملہ: [[سورہ آل عمران]] کی آیات 121 سے 129 تک، ـ کی طرف اشارہ ہوا ہے۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص319 اور بعد کے صفحات۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویة، ج2، ص106 اور بعد کے صفحات۔</ref>۔<ref>طبری، تفسیر، ج4، ص45 به بعد۔</ref> نیز اس جنگ کے بارے میں متعدد [[احادیث]] [رسول اللہ]](ص) سے نقل ہوئی ہیں۔<ref>بخاری، صحیح البخاری، ج5، ص40ـ39۔</ref>۔<ref>البکری، معجم ما استعجم، ج1، ص117۔</ref> [[رسول اللہ]](ص) غزوہ احد کے بعد کبھی کبھی شہدائے احد کے مزار پر حاضری دیتے تھے۔<ref>بخاری، صحیح البخاری، ج5، ص29۔</ref> اور اس کے بعد بھی جو لوگ [[مدینہ]] کے سفر پر جاتے تھے، شہدائے احد کی زیارت کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔
==غزوہ احد میں [[امیرالمؤمنین]](ع) کا کردار==
تمام مؤرخین و محدثین کا اتفاق ہے کہ [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] کا کردار دوسری جنگوں کی مانند، بے مثل و بےنظیر تھا۔ اس سلسلے میں منقولہ روایات میں سے چند روایات درج ذیل ہیں:
# آپ(ع) [[رسول خدا(ص)]] کے علمبردار تھے۔<ref>ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج42 ص72۔</ref>۔<ref>طبرسی، إعلام الوری، ج1 ص374۔</ref>
عمادالدین طبری، بشارة المصطفی، ص186۔</ref> اور بقولے [[مہاجرین]] کا پرچم سنبھالئے ہوئے تھے۔ <ref>مفید، الإرشاد، ج1 ص80۔</ref>۔<ref>واقدی، المغازی، ج1 ص215۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج2 ص516۔</ref>
# مشرکین کا پرچمدار طلحہ بن طلحہ آپ(ع) کے ہاتھوں ہلاک ہوا۔ <ref>واقدی، المغازی، ج1، ص226۔
طبری، تاریخ الطبری، ج2، ص509۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویّة،  ج3، ص158۔</ref> افراد نے یکے بعد دیگرے مشرکین کا پرچم اٹھایا جو آپ(ع) کے ہاتھوں مارے گئے؛ جس کے بعد مشرکین کا پرچم لہراتا نظر نہيں آیا۔<ref>مفید، الإرشاد: 88/1۔</ref>۔<ref>طبری، عمادالدین، بشارة المصطفی، ص186۔</ref>۔<ref>طبری، تاریخ الطبری: 514/2۔</ref>
# خالد بن ولید کے حملے کے بعد سپاہ اسلام کی اکثریت نے فرار کی راہ اپنائی تو آپ(ع) نے [[رسول اللہ]](ص) کی جان کا تحفظ کیا۔<ref> تاریخ الطبری: 518/2۔</ref>۔<ref>واقدی، المغازی، ج1، ص240۔</ref>۔<ref>مفید، الإرشاد، ج1، ص82۔</ref>
# [[ابن اسحق]] کی روایت کے مطابق اس جنگ میں 22 مشرکین ہلاک ہوئے <ref>ابن هشام، السیرة النبویّة،  ج3، ص135۔</ref> جن میں سے 12 افراد کو آپ(ع) نے ہلاک کیا۔<ref>مفید، الإرشاد، ج1، ص91۔</ref>
# [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] کی جانفشانی دیکھ کر [[جبرائیل]] نے آپ(ع) کی تعریف و تمجید کی اور ان کی مشہور ملکوتی ندا "'''لا سیفَ إلّا ذوالفقارِ ولا فتی إلّا علیٌّ'''" کی صدائے بازگشت میدان احد میں ہی سنائی دی۔<ref>طبری، تاریخ الطبری، ج2، ص514۔</ref>۔<ref>ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، ج1، ص552۔</ref>۔<ref>کلینی، الکافی، ج8 ص90-110۔</ref>
# اس جنگ میں آپ(ع) کے جسم پر لگے زخموں کی تعداد 90 تک پہنچی۔<ref>قمی، تفسیر القمّی، ج1، ص116۔</ref>۔<ref>طبرسی، مجمع البیان، ج2، ص826۔</ref>۔<ref>الخرائج والجرائح، ج1، صص235-148۔</ref>
# آپ(ع) ہی کی استقامت کی وجہ سے ہزیمت زدہ مسلمانوں کی ایک جماعت ایک بار پھر [[رسول خدا(ص) کے گرد مجتمع ہوئی۔ <ref>مفید، الإرشاد، ج1 ص91۔</ref>۔<ref>اربلی، کشف الغمّة، ج1، ص196۔</ref>۔<ref>ابن هشام، السیرة النبویّة، 159/3۔</ref>
# جب آپ(ع) کا ہاتھ ٹوٹ گیا اور پرچم گر گیا تو [[رسول خدا]](ص) نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ پرچم آپ(ع) کے بائیں ہاتھ میں دیں کیونکہ وہ دنیا اور [[آخرت]] میں میرے علمدار ہیں۔ <ref>ابن شهر آشوب، مناقب آل أبی طالب: 299/3۔</ref>
# [[جبرائیل]] نے [[امیرالمؤمنین|علی(ع)]] کے جہاد کی طرف اشارہ کرکے [[رسول اللہ]](ص) کی خدمت میں عرض کیا کہ "یہ جانفشانی ہے"، تو آپ(ص) نے فرمایا: "''وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں"، [[جبرائیل]] نے عرض کیا "میں بھی آپ سے ہوں اے [[رسول خدا(ص)|رسول خدا]]۔ <ref>طبرانی، المعجم الکبیر، ج1، ص318، ح941۔</ref>۔<ref>ابن حنبل، فضائل الصحابة، ج2، ص657، ح1119۔</ref>۔<ref>الطبرسي، احمد بن علی، الاحتجاج، الاحتجاج، ج2 ص165۔</ref>
==متعلقہ مآخذ==
*[[رسول اللہ|پیغمبر اسلام]]
*[[مدینہ]]
* [[غزوہ بدر]]


==پاورقی حاشیے==
==پاورقی حاشیے==
سطر 75: سطر 111:
{{ستون آ|2}}
{{ستون آ|2}}
* آیتی، محمدابراهیم، تاریخ پیامبر اسلام، تجدید نظر و اضافات از: ابوالقاسم گرجی، تهران: انتشارات دانشگاه تهران، 1378هجری شمسی۔
* آیتی، محمدابراهیم، تاریخ پیامبر اسلام، تجدید نظر و اضافات از: ابوالقاسم گرجی، تهران: انتشارات دانشگاه تهران، 1378هجری شمسی۔
* ابن اسحاق، محمد، السیر و المغازی، به کوشش سهیل زکار، دمشق، 1398هجری قمری/1978 عیسوی۔
* ابن اثیر، الکامل فی التاریخ، تحقیق:ابی الفداء عبدالله القاضی، بیروت، دارالکتب العلمیة، 1407هجری قمری۔
* ابن اسحاق، محمد، السیر والمغازی، به کوشش سهیل زکار، دمشق، 1398هجری قمری/1978 عیسوی۔
* ابن حنبل، احمد بن محمد، فضائل الصحابة، وصي الله بن محمد عباس، جامعة ام القری، مکة المکرمة، 1402 هجری قمری / 1983 عیسوی.
* ابن حبیب، محمد، المحبر، به کوشش ایلزه لیشتن اشنتر، حیدرآباد دکن، 1361هجری قمری/1942 عیسوی۔
* ابن حبیب، محمد، المحبر، به کوشش ایلزه لیشتن اشنتر، حیدرآباد دکن، 1361هجری قمری/1942 عیسوی۔
* ابن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر، 1968 عیسوی۔
* ابن سعد، الطبقات الکبری، بیروت، دار صادر، 1968 عیسوی۔
* * ابن شهر اشوب، مشير الدين أبى عبد الله محمد بن على، مناقب آل أبى طالب، تصحيح وشرح: لجنة من أساتذة النجف الاشرف، المكتبة الحيدرية 1376 هجری قمری / 1956 عیسوی۔
* ابن هشام، عبدالملک، السیرة النبویة، به کوشش مصطفی سقا و دیگران، قاهره، 1357هجری قمری/1955 عیسوی۔
* ابن هشام، عبدالملک، السیرة النبویة، به کوشش مصطفی سقا و دیگران، قاهره، 1357هجری قمری/1955 عیسوی۔
* ابوعبید بکری، عبدالله، معجم ما استعجم، به کوشش مصطفی سقا، بیروت، 1403هجری قمری/1983 عیسوی۔
* ابوعبید بکری، عبدالله، معجم ما استعجم، به کوشش مصطفی سقا، بیروت، 1403هجری قمری/1983 عیسوی۔
* اربلی، علی بن عیسی بن ابی الفتح، ''کشف الغمه''، بیروت: دار الاضواء.
* اصطخری، ابراهیم، مسالک الممالک، به کوشش ذخوبه، لیدن، 1927عیسوی۔
* اصطخری، ابراهیم، مسالک الممالک، به کوشش ذخوبه، لیدن، 1927عیسوی۔
* بخاری، صحیح البخاری، قاهره، 1315هجری شمسی۔
* بخاری، صحیح البخاری، قاهره، 1315هجری شمسی۔
* بلاذری، احمد، انساب الاشراف، به کوشش محمد حمیدالله، قاهره، 1959 عیسوی۔
* بلاذری، احمد، انساب الاشراف، به کوشش محمد حمیدالله، قاهره، 1959 عیسوی۔
* قطب الدين الراوندي، أبو الحسين سعيد بن هبة الله، الخرائج والجرائح، مؤسسة الامام المهدي(ع)، قم، الطبعة: الاولى، 1409هجری قمری۔
* زهری، محمد، المغازی النبویة، به کوشش سهیل زکار، دمشق، 1401هجری قمری / 1981هجری شمسی۔.
* زهری، محمد، المغازی النبویة، به کوشش سهیل زکار، دمشق، 1401هجری قمری / 1981هجری شمسی۔.
* طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری۔
* الطبراني، سليمان بن أحمد، المعجم الكبير، تحقيق حمدي عبد المجيد السلفي، مطبعة الزهراء الحديثة، الموصل، العراق، الطبعة الثانية، 1984عیسوی۔
* طبری، محمد بن جریر، تفسیر طبری۔
* الطبرسي، احمد بن علي، الاحتجاج، تعليقات: السيد محمد باقر الخرسان، دار النعمان للطباعة، النجف الاشرف، 1386 هجری قمری / 1966عیسوی۔
* عروة بن زبیر، مغازی رسول الله، به کوشش محمد مصطفی اعظمی، ریاض، 1404هجری قمری/1981هجری شمسی۔.
* طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تهران، ناصرخسرو، 1383 هجری شمسی۔
* طبری، عمادالدین، بشارة المصطفی لشیعة المرتضی، (ترجمه فارسی: محمد فربودی)، انتشارات نهاوندی، چاپ اول۔ 1387 هجری شمسی۔
* طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری۔  
* طبری، محمد بن جریر، تفسیر طبری۔  
* قمی، علی بن ابراهیم، تفسیر قمی، قم، دارالکتاب، 1363 هجری شمسی۔
* کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی اکبر غفاری، تهران، دار الکتب السلامیه، چاپ سوم. 1367 هجری شمسی۔
* عروة بن زبیر، مغازی رسول الله، به کوشش محمد مصطفی اعظمی، ریاض، 1404هجری قمری/1981هجری شمسی۔
* المفيد، الشيخ محمد بن محمد بن النعمان العكبري البغدادي، الارشاد في معرفة حجج الله علي العباد، مؤسسة ال البيت (ع) لتحقيق التراث، قم سنة 1413هجری قمری۔
* واقدی، محمدبن عمر، کتاب المغازی، چاپ مارسدن جونز، لندن 1966 عیسوی، چاپ افست قاهره، بی‌تا۔
* واقدی، محمدبن عمر، کتاب المغازی، چاپ مارسدن جونز، لندن 1966 عیسوی، چاپ افست قاهره، بی‌تا۔
* حموی، یاقوت، معجم البلدان.
* حموی، یاقوت، معجم البلدان.
{{ستون خ}}
{{ستون خ}}
</div>
</div>


==بیرونی روابط==
==بیرونی روابط==
گمنام صارف